نئی دہلی، 5جون2021/ مرکزی کاینہ میں میرے ساتھی، جنا ب نتن گڈکری جی، نریندر سنگھ تومر جی، پرکاش جاؤڈیکر جی، پیوش گوئل جی، دھرمیندر پردھان جی، گجرات کے کھیڑا کے رکن پارلیمان دیوسنگھ جےسنگھ چوہان جی، یوپی کے ہردوئی کے رکن پارلیمان بھائی جے پرکاش راوت جی، پنے کے میئر مرلی دھر جی، پمپری چنڈوڈ کارپوریشن کی میئر بہن اوشا جی ، اس پروگرام میں موجود دیگر معززین اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔
ہمارے کسان ساتھی، جب میں ان سے بات کررہا تھا تو کیسے بائیو-فیول سے جڑے نظاموں کو آسانی سے اپنا رہے ہیں، اور کتنی بڑھیا طریقے سے اپنی بات بتا رہے تھے۔ اس میں اعتماد بھی نظر آرہا تھا۔ صاف ستھری توانائی- کلین انرجی کا ملک میں جو اتنی بڑی مہم جاری ہے اس کا بہت فائدہ ملک کے زراعتی شعبے کو بھی ملنا فطری ہے۔ آج عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ہندستان میں ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے۔ ایتھونول شعبے کی ترقی کے لئے ایک تفصیلی روڈمیپ آج مجھے ابھی جاری کرنے کا بہترین موقع ملا ہے۔ ملک بھر میں ایتھنول کے پیداوار اور تفصیل سے وابستہ حوصلہ افزا ای-100 پائلٹ پروجیکٹ بھی پنے میں لانچ کیا گیا ہے۔ میں پنے کے لوگوں کو مبارک باد دیتا ہوں، پنے کے میئر کو مبارک باد دیتا ہوں۔ ہم اپنے طے شدہ ہدف کو وقت پر حاصل کرپائیں، اس کے لئے میں بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
اگر آپ غور کریں تو آج سے 7-8 برس قبل ، ملک میں ایتھنول کی باتیں بہت کم شاذو نادر ہوتی تھیں۔ کوئی اس کا ذکر نہیں کرتا تھا۔ اور اگر ذکر کربھی دیا تو جیسے روزمرہ کی بات ہوتی ہے ایسی ہی ہوجاتا تھا۔ لیکن اب ایتھنول، 21 ویں صدی کے ہندستان کی بڑی ترجیحات سے وابستہ ہے۔ ایتھنول پر ماحولیات کے فوکس کے ساتھ ہی ایک بہتر کسانوں کی زندگی پر بھی پڑ رہا ہے۔ آج ہم نے پیٹرول میں 20 فی صد ایتھنول کے بلینڈنگ کے 2025 تک پورا کرنے کا عہدہ کیا ہے۔ پہلے جب ہدف سوچا تھا، تو یہ سوچا تھا کہ یہ 2030 تک یہ ہم کریں گے۔ لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں جس طرح سے کامیابیاں ملی ہیں، عوام الناس کا تعاون ملا ہے ، لوگوں میں بیداری آئی ہے ، اور ہر کوئی اس کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہے۔ اور اس کے سبب اب ہم نے 2030 میں جو کرنا چاہتے تھے، اسے 5 سال کم کرکے 2025 تک کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ پانچ سال ایڈوانس۔
ساتھیو،
اتنے بڑے فیصلے کا حوصلہ، گزشتہ سات برسوں میں ملک نے جو ہدف حاصل کئے ہیں، ملک نے جو کوششیں کی ہیں، اور اس میں سے جو کامیابی ملی ہے، اسی کی وجہ سے آج فیصلہ کرنے کی ہمت آئی ہے۔ 2014 تک ہندستان میں اوسطاً صرف ایک -ڈیڑھ فی صد ایتھنول کی ہی بلینڈنگ ہوپاتی تھی، آج یہ قریب قریب ساڑھے 8 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ سال 14-2013 میں جہاں ملک میں 38 کروڑ لیٹر ایتھنول خریدا جاتا تھا، وہی اب اس کا تخمینہ 320 کروڑ لیٹرسے زیادہ کا ہے۔ یعنی تقریباً 8 گنا زیادہ ایتھنول خریدار گیا ہے۔اس کا ایک بڑا حصہ جو 21 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے تھے، اب بڑا حصہ ہمارے ملک کے کسانوں کی جیب میں گیا ہے۔ خصوصی طور سے ہمارے گنا کسانوں کو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ سال 2025 تک جب پیٹرول میں بیس فی صد ایتھنول بلینڈنگ ہونے لگی گی، تو آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ کسانوں کو کتنی بڑی مقدار میں آئل کمپنیوں سے سیدھے پیسے ملیں گے۔ اس سے ، چینی سے زیادہ پیداوار سے وابستہ جو بھی چیلنج ہیں، کیونکہ کبھی کبھی زیادہ پیداوار ہوجاتی ہے۔ تو دنیا میں بھی کوئی خریدار نہیں ہوتا ہے۔ ملک میں بھی دام گر جاتے ہیں، اور بہت بڑا چیلنج پیدا ہوتا ہے، رکھنا کہاں ہے، وہ بھی ایک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے ساے چیلنجوں میں کم کرنےمیں اور اس کا سیدھا فائدہ کسانوں کے تحفظ سے جڑ جاتا ہے ۔ بہت فائدے ہونے والے ہیں۔
ساتھیو،
اکیسویں صدی کے ہندستان کو اکیسویں صدی کی جدید سوچ جدید پالیسیوں سے ہی توانائی ملے گی۔ اسی سوچ کے ساتھ ہماری سرکار ہر علاقے میں لگاتار پالیسی ساز لے رہی ہے۔ملک میں آج ایتھنول کی پیداوار اور خریداری کے لئے ضروری ڈھانچہ پر بہت زور دیا جارہا ہے۔ ابھی تک ایتھنول بنانے والی زیادہ تر اکائیاں اور زیادہ تر چار سے پانچ اکائیاں ان ریاستوں میں تھیں جہاں چینی کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی توسیع پورے ملک میں کرنے کے لئے جو سڑا ہوا اناج ہے، نکلا ہوا اناج ہوتا ہے، اس کا استعمال کرتے ہوئے فوڈ گرین بیسڈ ڈیسٹلیرز کا قیام کیا جارہا ہے۔ ایگریکلچر ویسٹ (زراعتی فضلے) سے ایتھنول بنانے کے لئے بھی ملک میں جدید ٹکنالوجی پر مبنی پلانٹ بھی لگائے جارہے ہیں۔
سا
ساتھیو،
آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے جو عالمی کوششیں چل رہی ہیں، ان میں ہندستان ایک امید کی کرن بن کر ابھرا ہے۔ ایک اعتماد انسانیت کے بہبود کے لئے ایک پراعتماد ساتھی کے طور پر آج ہندستان نے اپنی پہنچان بنائی ہے جودنیا کبھی ہندستان کو ایک چیلنج کی شکل میں دیکھتی تھی، تبدیلی آب و ہوا ہندستان کی اتنی بڑی آبادی لوگوں کو لگتا ہے بحران یہی سے آئے گا۔ آج صورتحال بدل گئی ہے ، ہمارے ملک کلائمٹ جسٹس کا رہنما بن کر ابھر رہا ہے، ایک بہت بڑے مشکل اور بحران کے خلاف بڑی طاقت بن رہا ہے۔ ون سن، ون ورلڈ، ون گرڈ ، (ایک سورج، ایک دنیا اور ایک گرڈ) کی کے میزان کے ویژن کو حقیقت میں بدلنے والا انٹرنیشنل سولر الائنس ، اس کی تعمیر ہو، یا پھر کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلنٹ انفراسٹرکچر کی پہل ہو، ہندستان ایک بڑے عالمی ویژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ کلائمٹ چینج پرفارمینس انڈیس میں ہندستان کے ٹاپ 10 اہم ممالک میں آج اس نے اپنی جگہ بنالی ہے۔
ساتھیو،
کلائمٹ چینج کی وجہ سے جو چیلنج سامنے آرہے ہیں، ہندستان ان کے تئیں باشعور بھی ہے اور سرگرمی سے کام بھی کررہا ہے۔ ہم ایک طرف گلوبل ساؤتھ میں انرجی جسٹس کے تئیں حساس اور گلوبل نارتھ کے ذمہ داروں کے حمایتی ہیں، تو دوسری طرف اپنے رول کو بھی پوری سنجیدگی سے نبھا رہے ہیں۔ ہندستان نے انرجی ٹرانزیشن کا ایک ایسا راستہ چنا ہے جس میں ہماری پالیسیوں اور فیصلوں میں ہارڈ اور سوفٹ کمپوننٹس (سخت اور نرم عوامل) دونوں کی برابر اہمیت ہے۔ اگر میں سخت عوامل کی بات کروں تو ہندستان کے ذریعہ طے کئے گئے بڑے بڑے ہدف ، انہیں نافذکرنے کی ، اسپیڈ ہو، یہ دنیا بہت باریکی سے دیکھ رہی ہے۔ 6-7 سال میں قابل تجدید توانائی کی ہماری صلاحیت میں 250 فی صد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ انسٹالڈ رینوایبل انرجی کیپسٹی (تنصیبی قابل تجدید صلاحیت) کے معاملے آج دنیا کے ٹاپ پانچ ملکوں میں ہے۔ اس میں بھی شمسی توانائی کی صلاحیت کو گزشتہ چھ سال میں تقریباً پندرہ گنا بڑھایا گیا ہے۔ آج ہندستان کچھ مین گجرات کے کچھ کے ریگستان میں دنیا کے سب سے بڑا سولر اور ون کا ہائبرڈ انرجی پارک بنا رہا ہے تو ہندستان میں 14 گیگاواٹ کے پرانے کوئلہ پلانٹس کو بھی بند کردیا گیا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے سنگل یوز پلاسٹ کے سلسلہ میں بیداری ہوئی ہے، لوگ اپنے طریقے سے تھوڑی تھوڑی کوشش بھی کررہے ہیں۔ ابھی اور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بات پہنچی ہے ۔ کوششیں شروع ہوئی ہیں ہمارے سمندری ساحلوں کی صفائی دیکھئے نوجوان انیشیٹیو لےکر کررہے ہیں۔ یا پھر سووچھ بھارت جیسی مہم ہو انہیں ملک کے عام شہریوں نے انہیں اپنے ذمہ لیا اور میرے اہل وطن نے آج اس کو آگے بڑھایا ہے۔ ملک میں 37 کروڑ سے زیادہ ایل ای ڈی بلب اور 23 لاکھ سے زیادہ انرجی ایفشینٹ پنکھے دینے کی وجہ سے ماحول کے تحفظ کا جو کام ہوا ہے۔ اکثر اس کا ذکر لوگوں کو کرنے کی شاید عادت ہی چھوٹ گئی ہے۔ لیکن یہ بہت بڑا بحث کا موضوع ہونا چاہئے ۔ اسی طرح اوجولا یوجنا کے تحت کروڑوں خاندانوں کو مفت گیس کنکشن ملنے سے سوبھاگیہ اسکیمی کے تحت بجلی کنکشن ملنے سے جو پہلے چولہے میں لکڑی جلاکر کے دھوئیں میں زندگی گذارنی پڑتی تھی، آج ان کی اس لکڑی کو جلانے پر انحصار کافی کم ہوا ہے۔ اس سے آلودگی کم ہونے کے ساتھ ساتھ صحت اور اس میں بھی ہماری ماؤں کا بچوں کی صحت اور ماحولیاتی تحفظ کی سمت میں بھی مدد ملی ہے۔ ہندستان ننے اپنی ان کروڑوں ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو روکا ہے اور کلائمٹ چینج میٹیگیشن کی سمت میں ہندستان کو آج اولین صف میں کھڑا کردیا ہے۔ اسی طرح تین لاکھ سے زیادہ انرجی سفیشنٹ پمپ اس کے ذریعہ بھی ملک آج لاکھوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں گھلنے سے روک رہا ہے۔
ساتھیو،
آج ہندستان دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کررہا ہے جب آب و ہوا کے تحفظ کی بات ہو تو ضروری نہیں کہ ترقی کے کاموں کو روک دیا جائے۔ اکونومی اور ایکولوجی دونوں ایک ساتھ چل سکتی ہیں، آگے بڑھ سکتی ہیں، اور ہندستان نے یہ راستہ چنا ہے۔ اکانومی کو مضبوط بنانے کی ساتھ گزشتہ کچھ سالوں میں ہمارے جنگل بھی ہمارے فوریسٹ کور 15 ہزار اسکائر کلو میٹر بڑھے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ہمارےملک میں شیروں کی تعداد دوگنا ہوئی ہے۔ تیندوں کی تعداد میں بھی تقریباً 60 فی صد ی کا اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کے درمیان پینچ نیشنل پارک میں وائلڈ لائف فرینڈلی کوریڈور میں حساسیت کی مثال آج گفتگو کا موضوع ہے۔
ساتھیو،
کلین اور ایفیشنٹ انرجی سسٹم، ریزلینٹ انفراسٹرکچر اور پلانڈ ایکو ریسٹوریشن ، آتم نربھر بھارت کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔ چاہے وہ گرین کور والے ہائی وے ایکسپریس وے ہو، سولر پاور سے چلنے والی میٹرو ہو، یا پھر ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں سے جڑی ریسرچ کی حوصلہ افزائی ہو، ان تمام پر تفصیلی حکمت عملی کے ساتھ کام ہورہا ہے۔ وہاں سے جڑے ان تمام کوششوں کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کے نئے مواقوع تو بن ہی رہےہیں ، لاکھوں نوجوانوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔
ساتھیو،
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایئرپالیوشن صرف انڈسٹری سے ہی پھیلتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ایئر پولیوشن (فضائی آلودگی) ٹرانسپورٹیشن ان کلین فیول ، میں تعاون دے رہے ہیں۔ ہندستان اپنے نیشنل کلین ایئر پلان کے ذریعہ ان تمام سمتوں میں ہولسٹک اپروچ کے ساتھ کام کررہاہے ۔ آج ملک میں میٹرو ریل 5 شہروں سے بڑھ کر 18 شہروں تک پہنچ چکی ہے ۔ سبربن ریلوے کی سمت میں بھی جو کام ہوا ہے، اسے پرسنل وہیکل کا استعمال کم ہوا ہے۔
ساتھیو
آج ملک کے ریلوے نیٹ ورک سے ایک بڑے حصے کی برق کاری کی جاچکی ہے۔ ملک کے ایئر پورٹس کو بھی تیزی سے شمسی توانائی پر منحصر بنایا جارہا ہے۔ 2014 سے پہلے تک صرف 7 ایئر پورٹس میں سولر پاور کی سہولت تھی، جبکہ آج یہ تعداد 50 سے زیادہ ہوچکی ہے۔
اسٹیچوآف یونیٹی گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا دنیا کا سب سے بڑا اور بلند یادگار بنا ہے۔ اسٹیچو آف یونیٹی جس مقام پر اس خوبصورت کیوڑیا شہر کو الیکٹرک وہیکل سٹی کے طور پر فروغ دینے پر بھی کام چل رہا ہے۔ مستقبل میں کیوڑیا میں بیٹری پر مبنی بسیں ، 2 وہیلر اور 4 وہیلر ہی چلیں گے۔ اس کے لئے وہاں ضروری انفراسٹکچر بھی دسیتاب کرایاجائے گا۔
ساتھیو
کلائمٹ چینج سے بھی واٹر سائیکل کا سیدھا تعلق ہوتا جارہا ہے۔ واٹر سائیکل میں توازن بگڑتا ہے تو اس کا سیدھا اثر واٹر سیکورٹی پر پڑتا ہے۔ آج ملک میں واٹر سیکورٹی کو لے کر جتنا کام ہورہا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ ملک میں آبی ذرائع کی تعمیر اور تحفظ سے لے کر استعمال تک ایل ہولسٹک اپروچ کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔ جل جیون مشن بھی اس کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ اور میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا جل جیون مشن میں اس بار ایک پروگرام چل رہا ہے، جس میں ملک کے شہریوں کی مدد چاہئے مجھے۔ وہ ہے بارش کے پانی کو بچاؤ ، کیچ دی رین واٹر ، ہم بارش کے پانی کو روکیں، بچائیں۔
بھائیو اور بہنو،
تقریباً 7 دہائیوں میں ملک کے تقریباً 3 کروڑ دیہی کنبوں تک پائپ سے پانی پہنچا، تو دو سال سے بھی کم وقت میں 4 کروڑ سے بھی زیادہ کنبوں تک نل سے پانی پہنچاایا جاچکا ہے۔ ایک طرف پائپ سے ہر گھر کو جوڑا جارہا ہے ، وہیں دوسری طرف اٹل یوجنا اور کیچ دی رین جیسی اسکیموں کے توسط سے زمینی پانی کی سطح بڑھانے پر فوکس کیا جارہا ہے۔
ساتھیو،
ترقی اور ماحولیات میں توازن ، یہ ہماری قدیم روایتوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ جس کو ہم آتم نربھر بھارت کی بھی طاقت بنا رہے ہیں۔ جاندار اور قدرت کے رشتے کا توازن ہمشہ سے ہمارے شاستروں نے ہمیں سکھایا ہے ۔ ہمارے یہاں کہا گیاہےکہ یت پنڈے تٹ براہمانڈے۔ یعنی جو پنڈ یعنی جاندار میں ہے، وہی کائنات میں ہے۔ ہم جو بھی اپنے لئے کرتے ہیں، اس کا سیدھا اثر ہمارے ماحول پر بھی پڑتا ہے۔ آج جو سرکلر اکنومی کی بات ہورہی ہیےاس میں ایسے پروڈکٹ اور ایسے پروسیز پر فوکس کیا جارہا ہے جن میں وسائل پر کم سے کم دباؤ پڑے۔ ویسٹ ٹو ویلتھ، یعنی کچرے سے کنچن مہم پر گزشتہ کچھ برسوں میں کافی کام ہوا ہے اور اب اس کو مشن موڈ میں بہت تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ ڈیولپمنٹ سے جڑے تمام پہلو ہوں گے ، اس کو آنےوالے مہینوں میں عمل میں لایا جائے گا۔
ساتھیو
آب ہو ا کی حفاظت کے لئے ، ماحولیات کی حفاظت کے لئے ہماری کوششوں کو منظم ہونا بہت ضروری ہے۔ ملک کا ہر شہری جب پانی ، ہوا اور زمین کے توازن کو درست کرنے کے لئے متحد ہوکر کوشش کرے گا، تبھی ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ ماحول دے پائیں گے۔ ہمارے بزرگوں کی تمنا تھی، اور بہت اچھی بات ہمارے بزرگوں ہمارے لئے کہہ کر گئے ہیں، ہمارے بزرگوں کو کی امید تھی۔ بہت بڑھیا بات کہی انہوں نے کہا ’...’زمین:پو: چا: اوری بھو، اتھارت، پورا ماحول ہم سبھی کے لئے بہترین ہو، ہمارے خوابوں کو اچھے موقع دے، اسی نیک خواہش کے ساتھ آج عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ا س سے وابستہ تمام معزز اشخاص و عظیم تجربہ رکھنے والے بہت بہت ساری نیک خواہشات دیتا ہوں۔ آ پ اپنا خیال رکھیں ، اپنے آپ کو صحت مند رکھیں۔ اپنے اہل خانہ کو صحت مند رکھیں، اور کووڈ پروٹوکول میں کوئی ڈھلائی نہ برتیں، اسی امید کے ساتھ بہت بہت شکریہ۔