نمسکار!
آپ سب کو میرا جے سوامی نارائن۔ میرے کچھی بھائی بہنوں کیسے ہو؟ مزے میں؟ ااج کے کے پٹیل سپراسپیشلٹی اسپتال ہماری خدمت میں وقف ہو رہا ہے۔
آپ سب کو میری بہت بہت نیک خواہشات۔
گجرات کے مقبول نرم خو و مکم ہمارے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیند ربھائی پٹیل ، مہنت سوامی پوجیہ دھرم نندن داس جی، مرکزی وزیر صحت منسکھ مانڈیا جی،گجرات ودھان سبھا اسپیکر نیما بین اچاریہ، گجرات سرکار کے دیگر وزراء، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی ونود چھابرا، دیگر عوامی نمائندگان، یہاں موجود قابل احترام سنت صاحبان، کچھیہ لیوا پٹیل ایجوکیشن اور میڈیکل ٹرسٹ کے چیئرمین گوپال بھائی گورچھیا جی، دیگر تمام ٹرسٹی ، سماج کے اہم ساتھی، ملک اور دنیا کے تمام عطیہ کنندگان صاحبان، ڈاکٹر صاحبان اور تمام مصروف کار ملازم اور کچھ کے میرے پیارے بھائیو اور بہنوں۔
آروگیہ سے جڑے اتنے بڑے پروگرام کے لئے کچھ واسیوں کو بہت بہت مبارکباد۔ گجرات کو بھی مبارکباد۔ زلزلے سے مچے تباہی کو پیچھے چھوڑ کر بھج اور کچھ کے لوگ اب اپنی محنت سے اس علاقے کی نئی تقدیر لکھ رہے ہیں۔آج اس علاقے میں متعدد جدید میڈیکل خدمات موجود ہے۔اسی کڑی میں بھج کو آج ایک جدید سپر اسپیشلٹی اسپتال مل رہا ہے۔ یہ کچھ کا پہلا چیریٹبل سپر اسپیشلٹی اسپتال ہے۔اس جدید صحت سہولت کے لئے کچھ کو بہت بہت مبارکباد ۔200بستروں والا یہ سپر اسپیشلٹی اسپتال کچھ کے لاکھوں لوگوں کو سستے اور بہترین علاج کی سہولت دینے والا ہے۔یہ ہمارے فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کے اہل خانہ اور کاروباری دنیا کے متعدد لوگو ں کے لئے بھی بہترین علاج کی گارنٹی بن کر سامنے آنے والا ہے۔
ساتھیوں۔،
بہتر صحت سہولتیں صرف بیماری کے علاج تک ہی محدود نہیں ہوتی۔یہ سماجی انصاف کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔اس باوقار بناتی ہے۔ جب کسی غریب کو سستا اور بہترین علاج بہم ہوتا ہے، تو اس کا نظام پر بھروسہ مضبوط ہوتا ہے۔علاج کے خرچ کی فکر سے غریب کو آزادی ملتی ہےتو وہ مطمئن ہو کر غربت سے باہر نکلنے کے لئے محنت کرتا ہے۔ گزرے سالوں میں صحت شعبہ کی جتنی بھی اسکیمیں لاگو کی گئیں، اس کی تحریک یہی سوچ ہے۔آیوشمان بھارت یوجنا اور جن اوشدھی یوجنا سے ہر سال غریب اور میڈیکل کلاس خاندانوں کے لاکھوں کروڑ روپے علاج میں خرچ ہونےسے بچ رہے ہیں۔ ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹرز ، آیوشمان بھارت ہیلتھ انفراسٹرکچریوجنا جیسی مہمیں علاج کو سب کے لئے آسان بنانے میں مدد کررہی ہے۔
آیوشمان بھارت ڈیجیٹل ہیلتھ مشن سے مریضوں کی سہولتیں مزید بڑھیں گی۔ آیوشمان ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے توسط سے جدید اور کریٹیکل ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر کو ضلع اور بلاک سطح پر پہنچایا جارہا ہے۔ملک میں آج درجنوں ایمس کے ساتھ ساتھ متعدد سپر اسپیشلٹی اسپتالوں کی تعمیر بھی کی جارہی ہے۔ملک کے ہر ضلع میں میڈیل کالج کی تعمیر کا ہدف ہو یا میڈیکل ایجوکیشن کو سب کی پہنچ میں رکھنے کی کوشش، اس سے آنے والے دس سالوں میں ملک کو ریکارڈ تعداد میں نئے ڈاکٹر ملنے والے ہیں۔
اس کا فائدہ اپنے کچھ کو ہی ملنے والا ہے، یہاں گوپال بھائی مجھ سے کہہ رہے تھے، میں نے لال قلعہ سے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو میں ہر ایک کو کچھ نہ کچھ تعاو ن دینا چاہئے اور آج وہ عہد پورا ہورہا ہے۔ اس کے لئے سچ میں یہ فرض کا جذبہ ، سماج کے تعلق سے محبت کا جذبہ، سماج کے تعلق سے خیر سگالی –احساس، وہ اپنی سب سے بڑی پونجی ہوتی ہے اور کچھ کی ایک خصوصیت ہے۔ آپ کہیں پر بھی جاؤ، کہیں بھی ملو، کچھی کہو اس کے بعد کوئی نہیں پوچھے گا کہ آپ کون سے گاؤں کے ہیں، کون سی ذات کے ہیں۔ آپ فوراً اس کے ہوجاتے ہیں۔ یہی کچھ کی خصوصیت ہے اور کچھ کے فرض کی شکل میں پہچان بنے، اس طرح آپ قدم رکھ رہے ہو۔اس لئے آپ سب اور یہاں اتنے ہی نہیں ،اور جیسے بھوپیندر بھائی نے کہا وزیر اعظم کا سب سے محبوب ضلع ۔ درحقیقت کسی کو بھی جب ہم مصیبت کے وقت پسند آئے ہوں، تو وہ رشتہ اٹوٹ بن جاتا ہے۔ کچھ میں زلزلے سے جو دردناک صورتحال تھی، ایسی صورتحال میں میرا آپ سے جو گہرا تعلق جڑ گیا ، اس کا نتیجہ ہے۔نہ تو میں کچھ کو چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ہی کچھ مجھے چھوڑ سکتا ہے۔ایسی خوش نصیبی عوامی زندگی میں بہت کم لوگوں کو ملتی ہے اور میرے لئے یہ فخر کی بات ہے۔ گجرات آج چاروں سمت میں ترقی کررہا ہے۔
گجرات کی ترقی کی بات محض گجرات میں نہیں، بلکہ ملک میں بھی اس کا نوٹس لیا جاتا ہے۔آپ سوچو دو دہائی پہلے گجرات میں محض 9میڈیکل کالج تھے، دو دہائی محض 9میڈیکل کالج اور گجرات کے نوجوانوں کو ڈاکٹر بننا ہو تو 1100سیٹ تھی اور آج ایمس ہے اور تین درجن سے زیادہ میڈیکل کالج ہے اور دو دہائی پہلے ایک ہزار طلباء کو جگہ ملتی تھی ، آج چھ ہزار بچوں کو ڈاکٹر بنانے کا انتظام ہے۔2021 میں 50 سیٹ کے ساتھ راجکوٹ میں ایمس کی شروعات ہوچکی ہے۔ احمدآباد، راجکوٹ میں میڈیکل کالج کے اپگریڈیشن کا کام چل رہا ہے۔ بھاؤنگر کے میڈیکل کالج کے اپگریڈیشن کا کام تقریباً پورا ہو چکا ہے۔ سول اسپتال احمد آباد 1500بیڈ والا اور میری نظر میں یہ ایک بڑا کام ہے۔ ماں اور بچہ ، ماتا اور بچوں کے لئے صحیح معنی میں ایک عمدہ انتظام والا مکمل بنیادی ڈھانچہ اپنے یہاں بنا ہے۔ کارڈیالوجی ہو، ریسرچ ہو،اس کے لئے بھی 800 بیڈ کا الگ اسپتال ہے، جہاں ریسرچ کا بھی کام ہوتا ہے۔ گجرات میں کینسر تحقیق کا بھی کام بڑے پیمانے پر چل رہا ہے۔ پورے ملک میں کڈنی کے مریضوں اور ڈائیلیسس کی ضرورت کا بڑ ا بحران تھا۔ جہاں ڈائیلیسس ہفتے میں دو بار کروانی ہوتی ، مہینے میں دو بار بھی موقع نہ ملتا ہو، اس کے جسم کا حال کیا ہوگا؟ آج ضلع –ضلع میں مفت میں ڈائیلیسس کی سروس ہم نے شروع کی ہے تو ایک طرح سے بڑےپیمانے پر کام چل رہا ہے۔
تاہم مجھے آپ سب بھائیوں-بہوں سے ایک بات کرنی ہے۔ یہ آزادی کا امرت مہوتسو ہے۔ ہم کتنے بھی اسپتال بنائیں ، لاکھوں نئے بیڈ بنادیں، مگر اس سے کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا، لیکن ہم سماج کے اندر ایسی بیداری لائیں ، ہم سب اپنا فرض ادا کریں اورایسا ماحول اور ایسی صورتحال پیدا کریں کہ اسپتال جانا ہی نہ پڑے۔ آج بہت خوبصورت اسپتال کا افتتاح ہو رہا ہے اور مجھے نیک خواہشات کا اظہار کرنا ہو تو میں کیا کروں؟ میں نیک خواہشات دوں کہ اپنے کے کے پٹیل چیریٹیبل ٹرسٹ نے اتنے سارے کروڑ روپے لگائے، مگر بھگوان کرے کسی کو بھی اسپتال آنا ہی نہ پڑے اور اسپتال خال ہی رہے۔ ہمیں تو ایسے ہی دن دیکھنے ہیں۔ اسپتال خالی کب رہ سکتا ہے، جب ہم صاف صفائی پر توجہ دیں۔ گندگی کا گھر میں یا باہر کہیں بھی نام و نشان نہ ہو، تو اس طرح کا ماحول پیدا ہو تو کیا بیماری گھسنے کا راستہ مل سکتا ہے، نہیں مل سکتا۔ اسی طرح پانی ، صاف پینے کا پانی ، اپنے ملک میں صاف صفائی کی مہم چلائی ، بیت الخلاء بنانے کی مہم چلائی، کھلے میں بیت الخلاء سے آزادی کے لئے مہم چلائی اور سماج نے بھی پورے ملک میں تعاون دیا اور سب کو پتا ہے یہ کورونا کی لڑائی میں ہم جیتنے لگے ۔کیونکہ بنیادی طورپر جسم مضبوط ہو تو لڑائی جیتی جاسکتی ہے۔ اتنا بڑا طوفان آیا پھر بھی ہم لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ ابھی کورونا گیا نہیں۔ہمیں بھول نہیں کرنی ہے، البتہ دیگر دیکھ بھال اور جل جیون مشن کے ذریعے نل سے پانی پہنچانے کا کام پورے ملک میں چل رہا ہے۔صاف پینے کا پانی ملے، اسی طرح تغذیہ ، اس میں بھی جنک فوڈ کھاتے رہے۔ پوسٹ آف میں جیسے سب ڈالتے ہیں، ویسے سب ڈالا کریں، نہ تو جسم کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی صحت کو اور یہ جو ڈاکٹر بیٹھے ہیں وہ میری بات سن کر مسکرا رہے ہیں۔ اپنے یہاں شاستروں میں بھی کہا گیا ہے۔ غذا میں جتنی معقولیت ہو ، جتنا توازن ہو ، وہ بڑی اہمیت کا ہوتا ہے۔آچاریہ ونوبا جی نے کہا ہے کہ ورت کرنا آسان ہے، آپ آسانی سے ورت کرسکتے ہو، لیکن متوازن غذا کھانا مشکل کام ہے۔ میز پر بیٹھے ہو اور چار طرح کی چیزیں سامنے آئے تو کھانے کا من تو ہوتا ہی ہے۔
آج بڑی تشویش یہ ہے کہ وزن بڑھ رہا ہے ۔ وہاں بیٹھے زیادہ وزن والے لوگ شرمانا مت ۔ وزن بڑھ رہا ہے،ذیابیطس کی بیماری گھر گھر پہنچ رہی ہے۔ذیابیطس یہ ایسی بیماری ہے ، جو دنیا جہان کی بیماری کو دعوت دیتی ہے۔ اب ہمیں اپنا وزن گھٹانے کے لئے کسی کے کے اسپتال کی راہ دیکھنی ہوتی ہے۔ ہمیں ذیابیطس سے بچنا ہے، تو صبح میں ہمیں تھوڑی بہت چہل قدمی تو کرنی ہوگی ۔ ہم یہ سب کرتے ہیں جو صحت کے لئے بنیادی چیزیں ہیں، تو ہمیں اسپتال نہیں جاناپڑے گا۔اسی طرح یوگا کا عالمی دن کے ذریعے ہم پوری دنیا میں یوگا کے لئے مہم چلا رہے ہیں۔ ساری دنیا نے یوگا کو تسلیم کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کورونا میں ہمارے یوگا اور آیوروید پر پوری دنیا کی نظریں گئی ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں کوئی نہ کوئی چیز آپ دیکھئے اپنی ہلدی سب سے زیادہ ایکسپورٹ ہوئی ہے۔ کورونا میں کیوں لوگوں کا پتا چلا کہ ہندوستان کی جو جڑی بوٹیا ں ہوتی ہیں، وہ صحت کے لئے فائدہ مند ہیں۔لیکن اپنے ہی اسے چھوڑ دیں تو اس کے لئے ہم کیا کریں۔ میں، میرے کچھ کے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ جون ماہ میں یوگا کا عالمی دن آئے تو کیا کچھ ورلڈ ریکارڈ کرسکتا ہے؟ اتنے عظیم کچھ کے اندر یوگا کے پروگرام ہو سکتے ہیں؟ کچھ کا کوئی ایسا گاؤں نہ ہو ، ابھی بھی دو ڈیڑھ مہینے باقی ہیں۔ اتنی محنت کیجئے کہ اچھے سے اچھا یوگ کا پروگرام ہم کریں۔ آپ دیکھئے گا کبھی اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور میری جو خواہش ہے کہ کسی کو کے کے اسپتال آنا ہی نہ پڑے، تو صحت مند رہ کے آپ میری یہ خواہش پوری کیجئے۔ہاں حادثے کی صورت میں جانا پڑے ، وہ اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا ، لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ تمام چیزیں ہم ضرور کریں۔
اب جبکہ کچھ کے بھائیوں سے مل رہا ہوں تو میرا حق بنتا ہے کہ آپ کے پاس سے کچھ نہ کچھ مانگنے کا اور آپ کو دینا ہی پڑے گا۔ حق سے کہتا ہوں آپ دیکھئے دنیا کے اتنے سارے ملک میں اپنے کچھی بھائی رہتے ہیں۔ ہمارا کچھ کا رن اُتسو دیکھنے پورے ملک سے لوگ از خود آنے لگے ہیں۔ کچھ کا جاہ وجلال بڑھ رہا ہے، کچھ کی اقتصادی نظام بڑھ رہا ہے۔ اس سے بڑی بات یہ کہ کچھ کی مہمان نوازی کی پورے ہندوستان میں ستائش ہورہی ہے۔بھائی کچھ یعنی کہ کچھ یہ لوگ کہنے لگے ہیں۔ اب مجھے بتایئے کہ کچھ رن اُتسو میں اتنی ساری محنت سرکار کرے، کچھ کے لوگ مہمان نوازی کرے، اس کا اتنا جے جے کار ہوتا ہے، لیکن غیر ملکی مہمان کچھ کے رن میں نہ دکھائی دے، یہ کیسے چلے گا۔ ہیلتھ ٹورزم میں لوگ آئیں، ہم اس کے لئے اسپتال بناتے ہیں، لیکن ٹورزم کے لئے آئیں، اس کی بھی شروعات کیجئے۔ میری یہ کچھ کے بھائیوں سے گزارش ہے کہ اور خاص کرکے ہمارے لیوا پٹیل سماج کے بھائی یہاں بیٹھے ہیں، وہ ہندوستان میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور میں چاہتا ہوں آپ حساب رکھئے گا اور اپنے گوپال بھائی تو حساب کتاب والے انسان ہیں۔ وہ تو یقیناًکریں گے۔میری آپ سب سے گزارش ہے کہ ہر سال غیر ممالک میں آباد ہر کچھی خاندان کم از کم پانچ غیر ملکی شہریوں کو کچھ کا رن دیکھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ آپ مجھے بتایئے کہ ہمارا کچھ کا رن کیسے بھرا ہوا لگے گا اور دنیا بھر میں صحیح معنوں میں کچھ کی پہچان بنے گی۔ یہ کوئی بہت بڑا کام نہیں ہے آپ کے لئے، آپ کو وہاں چھینک آئے گی تو بھی آپ بھج آجائیں گے ایسے لوگ ہیں۔ غیر ممالک میں بیمار پڑیں، تو کہتے ہیں کچھ میں بھج جاکر ایک ہفتہ ہوا پانی بدل کر کے آجاؤ تو صحت مند ہو جاؤگے۔ یہ ہماری کچھ کے لئے محبت ہے۔جب یہ محبت ہوتو ہم کم سے کم پانچ غیر ملکی، ہندوستانی نہیں کچھ کے رن میں لائیں اور اس سال ماہ دسمبر میں انہیں بھیجنا ہے۔ دوسرے سردار پیٹل صاحب کو آزادی کے اتنے سال بعد اتنی بڑی خراج عقیدت دی گئی ۔ سردار صاحب کی اتنی بڑی یادگار بنی، آپ کو اس پر فخر ہے کہ نہیں۔ آپ تو میری ستائش کرتے ہو، ساباشی دیتے ہو کہ مودی صاحب آپ نے تو بہت اچھا کام کیا، گجرات سرکار کو بھی مبارکباد دیتے ہو کہ بہت اچھا کام کیا ، اتنے بھر سے بات ختم نہیں ہوتی۔
بھائیوں میری خواہش ہے کہ دنیا بھر میں سے جیسے کچھ کے رن میں 5لوگ آئیں ، ویسے ہی پانچ لوگ اسٹیچو آف یونٹی بھی دیکھنے جائیں۔ آپ دیکھئے گا گجرات کی سیاحت کو بہت فروغ حاصل ہوگا اور سیاحت ایک ایسا کاروبار ہے، جو غریبوں کو روزگار دیتا ہے۔ کم سے کم پونجی لاگت سے زیادہ سے زیادہ منافع ملتا ہے۔ کچھ کے رن میں آپ نے دیکھ لیا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بناکر بیچنے سے بارہ ماہ کا کام دو مہینے میں ہو جاتا ہے۔ سیاح آتا ہے تو رکشے والا کماتا ہے، ٹیکسی والا کماتا ہے اور چائے والا بھی کماتا ہے۔ اس لئے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ ہم کو کچھ کو سیاحت کا بڑا مرکز بنا نا ہے۔اس کے لئے میں توقع کرتا ہوں کہ غیر ممالک میں رہنے والے میرے کچھی بھائی بہن اس بار طے کریں کہ ہر خاندان ہر بار 5لوگوں کو سمجھائیں اور انہیں ہندوستان بھیجے۔ ان کو یہ بھی سمجھائیں کہ کہاں جانا ہے، کیسے جانا ہے اور وہاں کیسی مہمان نوازی ہوتی ہے۔ میں صد فیصد کہتا ہوں کہ اب ہندوستان میں سیاحت کے لئے لوگوں میں کشش پیدا ہوئی ہے۔ کورونا سے پہلے یہاں بڑی تعداد میں سیاح یہاں آنے لگے تھے، لیکن کورونا کے سبب یہ سلسلہ رک گیا، اب پھر سے شروع ہوگیا ہے۔ آپ میری مدد کریں ، تو چاروں سمتوں میں اپنے نام کا ڈنکا بجنے لگے گا۔ ایک کام اور کچھ کے بھائیوں کے تعلق سے میری یہ توقع ہے ۔ اب دیکھئے ہمارے مال دھاری بھائی کچھ میں دو چار ماہ رکتے ہیں، پھر چھ آٹھ مہینے اپنے جانوروں کو لے کر سڑک پر جاتے ہیں، میلوں تک چلتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے کچھ کو زیب دیتا ہے؟جس زمانے میں آپ کو کچھ چھوڑنا پڑا ، پانی کی کمی کی وجہ سے کچھ میں رہنا مشکل ہوگیا، بچے پریشان ہوں ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس لئے دنیا میں جاکے محنت سے روزی روٹی کماکر گزارا کیا۔ اس نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اپنے پیروں پر کھڑابھی ہوا اور جہاں بھی گئے اپنے سماج کا بھلا بھی کیا۔ کوئی اسکول چلا رہا ہے، تو کوئی گؤ شالا چلا رہا ہے۔ جب ہم اتنا سارا کام کرتے ہیں، تو میری آپ سے گزارش ہے ۔ خاص طور سے مال دھاریوں سے کہ پہلے وقتوں میں تو ٹھیک ہے کہ آپ اپنے جانوروں کو لے کر نکل پڑتے تھے، لیکن اب کچھ میں پانی آگیا ہے۔
اب کچھ میں ہریالی بھی آگئی ہے۔ اب کچھ میں زیرہ کی فصل ہوتی ہے، سن کر لطف آتا ہے کہ کچھ میں زیرہ کی فصل ہوتی ہے۔ کچھ کے آم غیر ممالک میں جاتا ہے، کتنا لطف ہوتا ہے۔ ہمارے کچھ نے تو کملم کی پہچان بنائی ہے۔ کیا کچھ نہیں ہے اپنے کچھ میں۔ پھر بھی میرے مال دھاری بھائیوں کو ہجرت کرنی پڑے، یہ نہیں چلے گا۔ اب گھاس چارا بھی ہے، ہم کو وہاں پر مستقل ہونا پڑے گا۔ اب تو وہاں پر ڈیری بھی ہوگئی ہے اور آپ کے لئے تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں، ایسی دن آرہے ہیں۔ اس لئے اپنے مال دھاری بھائیوں کو ملے اور سمجھائیں کہ اب جانوروں کو لے کر ہجرت کرنا بند کریں اور یہیں پر رہیں۔ آپ کو یہاں پر کوئی تکلیف نہیں ہے۔یہاں رہیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں، کیونکہ ہجرت کرنے والوں کے بچے پڑھتے نہیں ہیں اور اس بات کا مجھے دکھ رہتا ہے۔ اس میں مجھے آپ کی مدد چاہیئے اور ایک اہمیت کا کام آپ کریں ، میں یہ توقع کرتا ہوں۔ ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو میں 75 تالاب ہر ایک ضلع میں بنانے کو کہا ہے۔ ہمارے کچھ میں دو تین سال میں تالاب بھرے ، ایسا پانی آتا ہے۔ کئی بار تو پانچ سالوں میں بھی نہیں آتا۔ کئی بارتو میں نے دیکھا ہے کہ بچہ پیدا ہوا اور چار سال کا ہوگیا ، لیکن اس نے بارش ہی نہیں دیکھی، ایسے دن ہمارے کچھ کے لوگوں نے دیکھے ہیں۔ایسے میں میری آپ سب سے گزارش ہے کہ 75 وسیع تاریخی تالاب کچھ کے اندر ہم بناسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہندوستان میں جو کچھی پھیلے ہوئے ہیں، ممبئی میں آپ بڑی تعداد میں رہتے ہیں، کیرل میں رہتے ہیں، آسام میں بڑی تعداد میں رہتے ہیں، کہیں بھی آپ کم نہیں ہیں۔ ہندوستان کے آدھے سے زیادہ اضلاع میں کچھی بھائی پہنچ چکے ہیں۔ 75 تالاب آپ مانیئے کہ چھتیس گڑھ میں جو کچھی سماجی ہے، ایک تالاب وہ سنبھالیں، ممبئی کچھی سماج ہیں تو 5تالاب وہ سنبھالیں اور تالاب چھوٹا نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے نیما بین کے 50 ٹرک اندر ہوں تو دکھائی نہ دیں، اتنے گہرے ہونے چاہئے۔ آپ دیکھئے گا کہ پانی کا ذخیرہ ہوگا، بھلے دو یا تین سال کے بعد پانی آئے۔ دو انچ پانی آئے، پھر بھی جب تالاب بھر جائے گا، کچھ کی بڑی طاقت بن جائے گا۔ کچھ کے لئے میں نے جو کیا اس سے کہیں زیادہ کچھ نے میری بات کو مان کر کیا ہے۔ جب آپ زیادہ کام کرتے ہو، تو آپ کو زیادہ کام کرنے کا من ہوتا ہے۔ آپ کچھ نہ کرتے تو میں نمستے کہہ کے نکل جاتا، لیکن آپ کرتے ہو تو کہنے کا من ہوتا ہے۔ اس لئے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ ہمارے کچھ کو فرض کی ادائیگی والا کچھ بنایئے اور سیاحت ہو یا پانی کا ذخیرہ ، دونوں میں دنیا موجود رہتی ہے۔ کچھی ہو یا ہندوستان کے کونے کونے میں رہنے والا کچھی ہو، آیئے ہم سب مل کر بھوپیندر بھائی کی قیادت میں گجرات کو جس تیز رفتاری سے آگے بڑھا یا ہے، اس میں ہم بھی اپنا فرض ادا کریں۔ آپ سے میں یہی توقع کرتاہوں۔
سب کو جے سوامی نارائن، میری بہت بہت نیک خواہشات۔
شکریہ۔