نمسکار!
کوننی چیوا۔
کیم چھو
زین گارڈن اور کائزین اکادمی کے افتتاح کا یہ موقع بھارت ۔ جاپان تعلقات کی سادگی اور جدیدیت کی علامت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جاپانی زین گارڈن اور کائزین اکادمی کا یہ قیام، بھارت اور جاپان کے درمیان تعلقات کو اور مضبوطی فراہم کرے گا، ہمارے شہریوں کو اور زیادہ قریب لائے گا۔ خاص طور سے، میں ہیوگو پری۔فیکچر کے قائدین کا، میرے قریبی دوست گورنر محترم ایدو توشیجو کو خصوصی طور پر اس وقت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ گورنر ایدو 2017 میں بذاتِ خود احمد آباد آئے تھے۔ احمد آباد میں زین گارڈن اور کائزین اکادمی کے قیام میں ان کا اور ہیوگو انٹرنیشنل ایسو سی ایشن کا بیش قیمتی تعاون رہا ہے۔ میں انڈو ۔ جاپان فرینڈشپ ایسو سی ایشن آف گجرات کے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے بھارت۔جاپان تعلقات کو توانائی فراہم کرنے کے لئے مسلسل غیر معمولی کام انجام دیے ہیں۔ جاپان انفارمیشن اینڈ اسٹڈی سینٹر بھی اس کی ایک مثال ہے۔
ساتھیو،
بھارت اور جاپان جتنا خارجی ترقی و نمو کے لئے وقف رہے ہیں، اتنا ہی داخلی امن اور ترقی کو بھی ہم نے اہمیت دی ہے۔ جاپانی زین گارڈن، امن کی اسی کھوج کا ، اسی سادگی کا ایک خوبصورت سا اظہار ہے۔ بھارت کے لوگوں نے صدیوں سے جس امن، سادگی اور آسانی کو یوگ اور روحانیت کے ذریعہ سیکھا اور سمجھا ہے، اسی کی ایک جھلک انہیں یہاں دکھائی دے گی۔ اور ویسے بھی، جاپان میں جو ’زین‘ ہے، وہی تو بھارت میں ’دھیان‘ ہے۔ بدھ نے یہی دھیان، یہی بدھتو دنیا کو دیا تھا۔ اور جہاں تک ’کائزین‘ کا تصور ہے، یہ موجودہ وقت میں ہمارے ارادوں کی مضبوطی کا ، مسلسل آگے بڑھنے کا ، ہماری قوت ارادی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ کائزین کا لفظی معنی ہے ’بہتری‘، لیکن گہرائی میں جانے پر اس کے کئی معنی سامنے آتے ہیں۔ یہ صرف بہتری نہیں، بلکہ مسلسل بہتری پر زور دیتا ہے۔
ساتھیو،
جب میں وزیر اعلیٰ بنا، تو اس کے کچھ عرصے بعد کائزین کے تعلق سے پہلی مرتبہ سنجیدہ کوششیں شروع کی گئ تھیں۔ ہم نے کائزین کا باقاعدہ مطالعہ کروایا تھا، اسے نافذ کروایا تھا اور 2004 کا وقت تھا جب پہلی مرتبہ انتظامی تربیت کے دوران کائزین پر اتنا زور دیا گیا تھا۔ پھر اگلے برس 2005 میں گجرات کے ٹاپ سول سروینٹس کے ساتھ غوروخوض کیا گیا، تو سبھی کو ہم نے کائزین کی تربیت فراہم کی۔ پھر ہم اسے گجرات کے تعلیمی نظام تک لے گئے، متعدد سرکاری دفاتر تک لے گئے۔ جس مسلسل بہتری کی بات میں یہاں کر رہا تھا، وہ بھی مسلسل جاری رہی۔ ہم نے سرکاری دفاتر سے ٹرک بھر بھر کر بےکار سامان باہر کیا، طریقہ کار کی اصلاح کی، انہیں آسان بنایا۔
اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی کائزین کی ترغیب سے بہت بڑے بڑے سدھار کیے۔ ہزاروں ڈاکٹروں، نرسوں، ہسپتالوں کے اسٹاف کو اس کائزین کے ماڈل کی تربیت دی گئی۔ ہم نے الگ۔ الگ شعبے میں فزیکل ورکشاپ پر کام کیا، طریقہ کار پر کام کیا، لوگوں کو کام میں لگایا، انہیں اس سے جوڑا۔ حکمرانی پر ان سب کے زبردست مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
ساتھیو،
ہم سب جانتے ہیں کہ ترقی میں حکمرانی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ خواہ انسان کی ترقی کی بات ہو، ادارے کی ترقی ہو، سماج یا ملک کی ترقی ہو، حکمرانی بہت اہم عنصر ہے۔ اور اس لیے، میں جب گجرات سے یہاں دہلی آیا، تو کائزین سے حاصل ہوئے تجربات کو بھی اپنے ساتھ لایا۔ ہم نے پی ایم او اور مرکزی حکومت کے دیگر محکموں میں اس کی شروعات بھی کی۔ اس وجہ سے کتنے ہی طریقہ کار سہل بنے، دفتر میں بہت ساری جگہوں کو ہم نے بہتر بنایا۔ آج بھی مرکزی حکومت کے کئی نئے محکموں میں، اسکیموں میں کائزین کو اپنایا جا رہا ہے۔
ساتھیو،
اس پروگرام سے جڑے جاپان کے ہمارے مہمان جانتے ہیں کہ میرا ذاتی طور پر جاپان کے ساتھ کتنا لگاؤ رہا ہے۔ جاپان کے لوگوں کا پیار، جاپان کے لوگوں کا طریقہ کار، ان کی مہارت، ان کا نظم و ضبط، ہمیشہ متاثر کرنے والا رہا ہے۔ اور اس لیے میں نے جب بھی کہا ہے – میں گجرات میں ایک چھوٹا جاپان بنانا چاہتا تھا– تو اس کے پیچھے احساس یہ رہا ہے کہ جب بھی جاپان کے لوگ گجرات آئیں، تو انہیں ویسی ہی گرمجوشی نظرآئے، ویسا ہی اپناپن دیکھنے کو ملے۔ مجھے یاد ہے وائبرینٹ گجرات سربراہ ملاقات کے آغاز سے ہی جاپان ایک شریک ملک کے طور پر اس سے جڑ گیا تھا۔ آج بھی وائبرینٹ گجرات سربراہ ملاقات میں سب سے بڑے جو وفد آتے ہیں، اس میں ایک جاپان کا ہی ہوتا ہے۔ اور جاپان نے گجرات کی سرزمین پر، یہاں کے لوگوں کی اہلیت پر جو یقین جتایا ہے، یہ دیکھ کر ہم سب کو اطمینان ہوتا ہے۔
جاپان کی ایک سے بڑھ کر ایک کمپنیاں آج گجرات میں کام کر رہی ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی تعداد تقریباً 135 سے بھی زیادہ ہے۔ موٹرگاڑیوں سے لے کر بینکنگ تک، تعمیرات سے لے کر دواسازی تک، ہر شعبے کی جاپانی کمپنی نے گجرات میں اپنے دفاتر بنائے ہوئے ہیں۔ سزوکی موٹرس ہو، ہونڈا موٹرسائیکل ہو، متشوبشی ہو، ٹویوٹا ہو، ہٹاچی ہو، ایسی متعدد کمپنیاں گجرات میں مینوفیکچرنگ کر رہی ہیں۔
ساتھیو،
جاپان اور گجرات کے تعلقات کو لے کر کہنے کے لئے اتنا کچھ ہے کہ وقت کم پڑ جائے گا۔ یہ تعلق قربت، محبت اور ایک دوسرے کے احساسات کو، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھنے میں اور مضبوط ہوا ہے۔ گجرات نے ہمیشہ جاپان کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ اب جیسے جیٹرو نے یہ جو احمدآباد بزنس سپورٹ سینٹر کھولا ہے، اس میں ایک ساتھ پانچ کمپنیوں کو پلگ اینڈ پلے ورک ۔ اسپیس فیسلٹی دینے کی سہولت ہے۔ جاپان کی بہت ساری کمپنیوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ میں کئی مرتبہ جب پرانے دنوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ گجرات کے لوگوں نے بھی کتنی چھوٹی چھوٹی باریکیوں پر توجہ دی ہے۔
مجھے یاد ہے، بطور وزیر اعلیٰ ایک مرتبہ میں جاپان کے وفد کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا تو غیر رسمی طور پرایک موضوع پر بات ہونے لگی۔ یہ موضوع بڑا ہی دلچسپ تھا۔ جاپان کے لوگوں کو گولف کھیلنا بہت پسند ہے لیکن گجرات میں گولف کورس کا اتنا رواج ہی نہیں تھا۔ اس میٹنگ کے بعد خصوصی طور پر کوشش کی گئی کہ گجرات میں گولف کورسز کو بھی بڑھایا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج گجرات میں کئی گولف کورسز ہیں۔ کئی ریستراں بھی ایسے ہیں جن کی خصوصیت جاپانی کھانے ہیں۔ یعنی ایک کوشش رہی ہے کہ جاپان کے لوگوں کو گجرات میں، گھر جیسا احساس کرایا جا سکے۔
ہم لوگوں نے اس بات پر بھی بہت کام کیا کہ گجرات میں جاپانی زبان بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ آج گجرات کی پیشہ وارانہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو بآسانی جاپانی زبان بولتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ریاست کی ایک یونیورسٹی، جاپانی زبان سکھانے کے لئے ایک کورس بھی شروع کرنے جا رہی ہے۔ یہ ایک اچھی شروعات ہوگی۔
میں تو چاہوں گا کہ گجرات میں، جاپان کے اسکولی نظام کا بھی ایک ماڈل تیار ہو۔
جاپان کے اسکولی نظام کا، وہاں جس طرح جدیدیت اور اخلاقی قدروں پر ساتھ ساتھ زور دیا جاتا ہے، اس کا میں بہت بڑا مداح ہوں۔ مجھے جاپان کے تائی میئی اسکول میں جانے کا موقع ملا تھا اور وہاں گزارے گئے چند لمحات میرے لیے ایک طرح سے یادگار ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس اسکول کے بچوں سے بات کرنا، میرے لیے ایک انمول موقع تھا۔
ساتھیو،
ہمارے پاس صدیوں پرانے ثقافتی تعلقات کا پختہ یقین بھی ہے، اور مستقبل کے لئے ایک مشترکہ خواب بھی! اسی بنیاد پر، گذشتہ کئی برسوں سے ہم اپنی خصوصی کلیدی اور عالمی شراکت داری کو مسلسل مضبوط کر رہے ہیں۔ اس کے لئے پی ایم او میں ہم نے جاپان ۔ پلس کا ایک خصوصی انتظام بھی کیا ہے۔ جاپان کے سابق وزیر اعظم اور میرے دوست جناب شنزو ابے جب گجرات آئے تھے، تو بھارت ۔ جاپان تعلقات کو نئی رفتار حاصل ہوئی تھی۔ بلیٹ ٹرین پروجیکٹ کا کام شروع ہونے پر وہ بہت پرجوش تھے۔ آج بھی ان سے بات ہوتی ہے، تو وہ اپنے گجرات دورے کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم محترم یوشی ہیدے سوگا بھی بہت سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ وزیر اعظم سوگا اور میرا یہ یقین ہے کہ کووِڈ وبائی مرض کے اس دور میں، بھارت اور جاپان کی دوستی، ہماری شراکت داری، عالمی پائیداری اور خوشحالی کے لئے اور زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔ آج جب کئی عالمی چنوتیاں ہمارے سامنے کھڑی ہیں، تو ہماری یہ دوستی، ہمارے یہ رشتے، روز بہ روز اور مضبوط ہوں، یہ وقت کا مطالبہ ہے۔ اور یقینی طور پر کائزین اکادمی جیسی کوشش، اس کی بہت خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔
میں چاہوں گا کہ کائزین اکادمی جاپان کے کام کاج کے طریقوں کی بھارت میں تشہیر کرے، جاپان اور بھارت کے درمیان کاروباری میل جول بڑھائے۔ اس سمت میں پہلے سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ہمیں انہیں بھی نئی توانائی فراہم کرنی ہے۔ جیسے گجرات یونیورسٹی اور اوساکا کی اوتے مون گاکوین یونیورسٹی کے درمیان انڈو۔ جاپان اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام ہے۔ یہ پروگرام پانچ برسوں سے ہمارے تعلقات کو مضبوطی دے رہا ہے۔ اس کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔ دونوں ممالک اور اداروں کے مابین بھی اس طرح کی شراکت داری قائم کی جا سکتی ہے۔
مجھے یقین ہے، ہماری یہ کوششیں اسی طرح مسلسل آگے بڑھیں گی، اور بھارت ۔ جاپان مل کر ترقی کی نئی بلندیاں سر کریں گے۔ میں آج اس پروگرام کے توسط سے، جاپان کو، جاپان کے لوگوں کو، ٹوکیو اولمپک کے انعقاد کے لئے بھی بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ