مرکزی کابینہ میں میرے تمام ساتھی، بائیوٹیک سیکٹر سے وابستہ تمام معززین، بھارت اور بیرون ملک کے مہمانان، ماہرین، سرمایہ کار، ایس ایم ایز اور اسٹارٹ اپ سمیت صنعت کے تمام ساتھی ، خواتین و حضرات!
میں آپ سب کو ملک کے پہلے بائیوٹیک اسٹارٹ اپ ایکسپو میں شرکت کرنے اور بھارت کی اس طاقت کا دنیا کو تعارف کرانے کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ ایکسپو بھارت کے بائیوٹیک سیکٹر کی تیزی سے ترقی کی عکاس ہے۔ بھارت کی بائیو اکانومی گزشتہ 8 سالوں میں 8 گنا بڑھی ہے۔ 10 ارب ڈالر سے 80 ارب ڈالر تک، ہم پہنچ چکے ہیں۔ بھارت بائیوٹیک کے عالمی ماحولیاتی نظام میں ٹاپ 10 ممالک کی لیگ تک پہنچنے سے بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی انڈسٹری ریسرچ اسسٹنس کونسل یعنی 'بی آئی آر اے سی' نے نئے بھارت کی اس نئی چھلانگ میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ 'بی آئی آر اے سی' نے پچھلے سالوں میں بھارت میں بائیو اکانومی کی تحقیق اور اختراع کی بے مثال توسیع میں ایک اہم حصہ ڈالا ہے۔ میں 'بی آئی آر اے سی' کے 10 سال کے کامیاب سفر میں اس اہم سنگ میل پر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہاں منعقدہ نمائش میں بھارت کے نوجوان ٹیلنٹ، بھارت کے بائیوٹیک اسٹارٹ اپس، ان کی صلاحیت اور بائیوٹیک سیکٹر کے مستقبل کے روڈ میپ کو بہت اچھے اور خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جب بھارت ، اپنی آزادی کا امرت اتسومنا رہا ہے، اگلے 25 سالوں کے لیے نئے اہداف طے کر رہا ہے، ملک کی ترقی کو ایک نئی تحریک دینے کے لیے بائیوٹیک سیکٹر بہت اہم ہے۔ نمائش میں دکھائے گئے بائیوٹیک اسٹارٹ اپس اور بائیوٹیک انویسٹرس اور انکیوبیشن سینٹر نئے بھارت کی امنگوں کے ساتھ چل رہے ہیں۔ آج، ای پورٹل میں جو کچھ دیر پہلے یہاں شروع کیا گیا ہے، ہمارے پاس ساڑھے سات سو بائیوٹیک مصنوعات درج ہیں۔ یہ بھارت کی حیاتیاتی معیشت اور اس کے تنوع کی صلاحیت اور وسعت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
ساتھیو،
بائیوٹیک سیکٹر سے متعلق تقریباً ہر شعبہ اس ہال میں موجود ہے۔ ہمارے ساتھ آن لائن بائیوٹیک پروفیشنلز کی ایک بڑی تعداد بھی وابستہ ہے۔ آنے والے 2 دنوں میں، آپ اس ایکسپو میں بائیوٹیک سیکٹر کے سامنے موجود مواقع اور چیلنجز پر بات کرنے جا رہے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں، ہم نے دنیا میں اپنے ڈاکٹروں، صحت پیشہ ور افراد کی ساکھ میں اضافہ دیکھا ہے۔ ہمارے آئی ٹی پروفیشنلز کی مہارت اور اختراع کے حوالے سے دنیا میں اعتماد کا ماحول ایک نئی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔ یہی اعتماد ، یہی ساکھ، اس دہائی میں بھارت کے بائیوٹیک سیکٹر، بھارت کے بایو پروفیشنلز کے لیے ہوتے ہوئے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ یہ میرا آپ پر یقین ہے، مجھے بھارت کے بائیوٹیک سیکٹر پر بھروسہ ہے۔ میں اس بھروسے کی وجہ بھی بیان کرنا چاہوں گا۔
ساتھیو،
آج، اگر بھارت کو بائیوٹیک کے میدان میں مواقع کی سرزمین کے طور پر مانا جا رہا ہے، تو مجھے اس کی کئی وجوہات میں سے پانچ بڑی وجوہات نظر آتی ہیں۔ پہلی- متنوع آبادی، متنوع موسمی زون، دوسری- بھارت کا صلاحیت مند انسانی سرمایہ پول، تیسری- بھارت میں کاروبار کرنے میں آسانی کے لئے بڑھ رہی کوشش، چوتھی- بھارت میں لگاتار بڑھ رہی بائیو پروڈکٹس کی مانگ اور پانچویں- بھارت کے بایوٹیک سیکٹر یعنی آپ کی کامیابیوں کا ٹریک ریکارڈ۔ یہ پانچوں عوامل مل کر بھارت کی طاقت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
ساتھیو،
گزشتہ 8 سالوں میں حکومت نے ملک کی اس طاقت کو بڑھانے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ ہم نے ہولیسٹک اور ہول آف گورنمنٹ اپروچ پر زور دیا ہے۔ جب میں کہتا ہوں، سب کا ساتھ- سب کا وکاس، تو اس کا اطلاق بھارت کے مختلف شعبوں پر بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک میں یہ سوچ رائج تھی کہ صرف چند شعبوں کو مضبوط کیا گیا، باقی اپنے حال پر چھوڑ دیے گئے۔ ہم نے اس سوچ کو بدلا ہے، ہم نے اس انداز کو بدلا ہے۔ آج کے نئے بھارت میں ہر شعبے میں اس کی ترقی سے ملک کی ترقی کو تقویت ملے گی۔ اس لیے ہر شعبے کا تعاون، ہر شعبے کی ترقی آج ملک کی ضرورت ہے۔ لہذا، ہم ہر اس راستے کی تلاش کر رہے ہیں جو ہماری ترقی کو تیز کر سکے۔ سوچ اور نقطہ نظر میں یہ نمایاں تبدیلی بھی ملک کو بہتر نتائج دے رہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اپنے مضبوط سروس سیکٹر پر توجہ مرکوز کی، ہم نے سروس ایکسپورٹ میں 250 بلین ڈالر کا ریکارڈ بنایا۔ جب ہم نے سامان کی برآمدات پر توجہ مرکوز کی تو ہم نے 420 بلین ڈالر کی مصنوعات کی برآمد کا ریکارڈ بھی بنایا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کے لیے بھی ہماری کوششیں اتنی ہی سنجیدگی سے جاری ہیں۔ اسی لیے اگر ہم ٹیکسٹائل کے شعبے میں پی ایل آئی اسکیم کو نافذ کرتے ہیں، تو ڈرونز، سیمی کنڈکٹرز اور اعلیٰ کارکردگی والے سولر پی وی ماڈیول اس کے لئے بھی اس اسکیم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بائیوٹیک سیکٹر کی ترقی کے لیے بھارت آج جتنے اقدامات کر رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
ساتھیو،
ہمارے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں حکومت کی کوششوں کو آپ بہت تفصیل سے دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلے 8 سالوں میں ہمارے ملک میں اسٹارٹ اپس کی تعداد چند سو سے بڑھ کر 70 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہ 70 ہزار اسٹارٹ اپ تقریباً 60 مختلف صنعتوں میں بنائے گئے ہیں۔ اس میں بھی 5 ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپس بائیوٹیک سے وابستہ ہیں۔ یعنی بھارت میں ہر 14 واں اسٹارٹ اپ بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بنایا جا رہا ہے۔ ان میں سے گیارہ سو سے زائد صرف پچھلے سال ہی منسلک ہوئے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کا کتنا بڑا ٹیلنٹ تیزی سے بائیوٹیک سیکٹر کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو،
گزشتہ سالوں میں ہم نے بائیوٹیک سیکٹر کو بھی اٹل انوویشن مشن، میک ان انڈیا اور خود کفیل بھارت مہم کے تحت جو بھی اقدامات کئے ہیں ، ان کا بھی فائدہ بائیو ٹیک سیکٹر کو ملا ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا کے آغاز کے بعد سے ہمارے بائیوٹیک اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 9 گنا اضافہ ہوا ہے۔ بائیوٹیک انکیوبیٹرز کی تعداد اور کل فنڈنگ میں بھی تقریباً 7 گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں جہاں ہمارے ملک میں صرف 6 بائیو انکیوبیٹرز تھے، آج ان کی تعداد بڑھ کر 75 ہو گئی ہے۔ 8 سال پہلے ہمارے ملک میں 10 بائیوٹیک مصنوعات تھیں۔ آج ان کی تعداد 700 سےزیادہ ہوگئی ہے ۔ بائیوٹیکنالوجی کا شعبہ بھی اس بے مثال سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا رہا ہے جو بھارت اپنے فزیکل انفراسٹرکچر اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں کر رہا ہے۔
ساتھیو،
ہمارے نوجوانوں میں یہ نیا جوش، یہ نیا حوصلہ آنے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ یہ مثبتیت اس لیے ہے کہ اب ملک میں ان کے لیے آر اینڈ ڈی کا جدید سپورٹ سسٹم دستیاب ہے۔ اس کے لیے ملک میں پالیسی سے لے کر انفراسٹرکچر تک تمام ضروری اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ حکومت ہی سب کچھ جانتی ہے، حکومت ہی اکیلے سب کچھ کرے گی، اس ورک کلچر کو چھوڑ کر، اب ملک 'سب کی کوشش' کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آج بھارت میں بہت سے نئے انٹرفیس تیار کیے جا رہے ہیں، بی آئی آر اے سی جیسے پلیٹ فارم کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اسٹارٹ اپس کے لیے اسٹارٹ اپ انڈیا مہم ہو، خلائی شعبے کے لیے ان -اسپیس ہو، دفاعی اسٹارٹ اپس کے لیے آئی ڈی ای ایکس ہو، سیمی کنڈکٹرز کے لیے انڈین سیمی کنڈکٹر مشن ہو، نوجوانوں میں اختراع کی حوصلہ افزائی کے لیے اسمارٹ انڈیا ہیکاتھون ہو یا بائیوٹیک اسٹارٹ اپ ایکسپو ہو، سب سے کوشش کی جذبے کو بڑھاتے ہوئے نئے اداروں کے توسط سے حکومت صنعت کے بہترین ذہنوں کو ایک ساتھ، ایک پلیٹ فارم پر لارہی ہے۔ اس سے ملک کو ایک اور بڑا فائدہ ہو رہا ہے۔ ملک کو تحقیق اور اکیڈمیا سے نئی کامیابیاں-بریک تھرو ملتی ہیں، جو ریئل ورلڈ ویو ہوتا ہے اس میں صنعت مدد کرتی ہےاور حکومت ضروری پالیسی ماحول اور ضروری انفراسٹرکچر فراہم کرتی ہے۔
ساتھیو،
ہم نے کووڈ کے پورے عرصے میں دیکھا ہے کہ جب یہ تینوں مل کر کام کرتے ہیں تو مختصر وقت میں غیر متوقع نتائج سامنے آتے ہیں۔ ضروری طبی آلات، طبی انفراسٹرکچر سے لے کر ویکسین کی تحقیق، مینوفیکچرنگ اور ویکسینیشن تک، بھارت نے وہ کر دکھایا ہے جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر ملک میں طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے تھے۔ ٹیسٹنگ لیبز نہیں ہیں تو جانچ کیسے ہوگی؟ مختلف محکموں اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان تال میل کیسے ہوگا ؟ بھارت کو کب ویکسین ملے گی؟ اگر ویکسین مل بھی جائے تو اتنے بڑے ملک میں سب کو ویکسین لگوانے میں کتنے سال لگیں گے؟ ایسے بہت سے سوالات بار بار ہمارے سامنے آئے ۔ لیکن آج سب کو کوشش کی طاقت سے بھارت نے تمام شکوک و شبہات کا جواب دے دیا ہے۔ ہم تقریباً 200 کروڑ ویکسین ڈوز اہل وطن کو لگا چکے ہیں۔ بائیوٹیک سے لے کر دیگر تمام دوسرے سیکٹرس کا تال میل، سرکار، صنعت اور اکیڈمیا کا تال میل ، بھارت کو بڑے بحران سے نکال لایا ہے۔
ساتھیو،
بائیوٹیک سیکٹر سب سے زیادہ ڈیمانڈ پر مبنی شعبوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ برسوں میں بھارت میں از آف لیونگ کے لئے جو مہم چلی ہیں، انہوں نے بائیوٹیک سیکٹر کے لیے نئے امکانات پیدا کئے ہیں۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت گاؤں اور غریبوں کے لیے جس طرح علاج کو سستا اور قابل رسائی بنایا گیا ہے، اس سے ہیلتھ کیئر کے شعبے کی مانگ بہت بڑھ رہی ہے۔ بائیو فارما کے لیے بھی نئے مواقع سامنے آئے ہیں۔ ان مواقع کو ہم ٹیلی میڈیسن، ڈیجیٹل ہیلتھ آئی ڈی اور ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے سے اور وسیع بنا رہے رہے ہیں۔ آنے والے برسوں میں بائیوٹیک کے لیے ملک میں ایک بہت بڑا کنزیومر بیس تیار ہونے والا ہے۔
ساتھیو،
فارما کے ساتھ ہی زراعت اور توانائی کے شعبے میں بھارت جو بڑی تبدیلیاں لا رہا ہے، وہ بھی بائیوٹیک سیکٹر کے لیے بھی نئی امید پیدا کر رہا ہے۔ حیاتیاتی کھادوں اور نامیاتی کھادوں کو آج بھارت میں کیمیکل سے پاک کھیتی کو فروغ دینے کے لیے بے مثال حوصلہ افزائی مل رہی ہے۔ زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے بائیو فورٹیفائیڈ بیجوں کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ بائیو ایندھن کے میدان میں جو مانگ بڑھ رہی ہے جو آر اینڈ ڈی انفراسٹرکچر کی توسیع ہو رہی ہے، وہ بائیوٹیک سے وابستہ ایس ایم ایز کے لیے، اسٹارٹ اپس کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ حال ہی میں، ہم نے پٹرول میں ایتھنول کی 10 فیصد ملاوٹ کا ہدف حاصل کیا ہے۔ بھارت نے پٹرول میں 20 فیصد ایتھنول ملانے کا ہدف بھی 2030 سے پانچ سال کم کرکے 2025 کرلیا ہے۔ ان تمام کوششوں سے بائیوٹیک کے شعبے میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے، بائیوٹیک پیشہ ور افراد کے لیے نئے مواقع بنیں گے۔ حکومت نے حال ہی میں استفادہ کنندگان کے سیچوریشن ، غریبوں کو صد فیصد بااختیار بنانے کی مہم شروع کی ہے، جس سے بائیوٹیک سیکٹر کو بھی نئی طاقت مل سکتی ہے۔
یعنی بائیوٹیک سیکٹر کی ترقی کے لیے مواقع ہی مواقع ہیں۔ بھارت کی جینرک دواوں ، بھارت کی ویکسین نے دنیا میں جو بھروسہ پیدا کیا ہے، جتنی بڑی سطح پر ہم کام کرسکتے ہیں، وہ بائیوٹیک سیکٹر کے لیے ایک اور بڑا ایڈوانٹیج ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے 2 دنوں میں، آپ بائیوٹیک سیکٹر سے متعلق ہر امکان پر تفصیل سے بات کریں گے۔ ابھی 'بی آئی آر اے سی ' نے اپنے 10 سال مکمل کر لیے ہیں۔ میری یہ بھی گزارش ہےکہ جب 'بی آئی آر اے سی اپنے 25 سال مکمل کرے گا تو بائیوٹیک سیکٹر کس بلندی پر ہوگا، اس کے لیے اپنے اہداف اور قابل عمل نکات پر ابھی سے کام کرنا چاہیے۔ اس شاندار تقریب کے لئے ملک کی نوجوان نسلوں کو اس شعبے کی جانب راغب کرنے کے لئے اور ملک کی ہنرمندی کو دنیا کے سامنے پوری طاقت کے ساتھ پیش کرنے کے لئے میں آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں !