نمسکار!
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آتیہ ناتھ جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی ہمارے نوجوان دوست اور بھائی ہریش دویدی جی، مختلف کھیلوں کے کھلاڑی، ریاستی حکومت کے وزراء حضرات، اراکین اسمبلی، دیگر تمام عوامی نمائندگان، تمام معززین اور میں دیکھ رہا ہوں چاروں طرف نوجوان ہی نوجوان ہیں۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔
یہ ہماری بستی، مہارشی وششٹھ کی پاک سرزمین ہے، محنت اور عبات، تپ اور تیاگ کی سرزمین ہے۔ اور، ایک کھلاڑی کے لیے اس کا کھیل بھی ایک عبادت ہی ہے، ایک تپسیا ہے اور جس میں وہ اپنے آپ کو تپاتا رہتا ہے۔ اور کامیاب کھلاڑی کی توجہ بھی بہت سٹیک اور درست ہوتی ہے اور تب جاکر یکے بعد دیگرے نئے نئے پڑاؤ پر کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے وہ آگے بڑھتا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ بستی میں ہمارے پارلیمنٹ کے ساتھی بھائی ہریش دویدی جی کی محنت سے اتنے بڑے کھیل مہاکمبھ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں کھیلوں میں روایتی طور پر مہارت رکھنے والے مقامی کھلاڑیوں کو یہ کھیل مہاکمبھ نئی پرواز کے مواقع فراہم کریں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ بھارت کے تقریباً 200 اراکین پارلیمنٹ نے اپنے یہاں اسی طرح ایم پی کھیل مقابلوں کا اہتمام کیا ہے جس میں ہزاروں نوجوانوں نے حصہ لیا ہے۔ میں بھی ایک رکن پارلیمنٹ ہوں، کاشی کا رکن پارلیمنٹ ہوں۔ تو میرے کاشی کے پارلیمانی حلقہ میں بھی ایسے کھیل مقابلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس طرح کے کھیل مہا کمبھ متعدد مقامات پر منعقد کرا کے، ایم پی کھیل مقابلہ منعقد کراکے، سبھی اراکین پارلیمنٹ نئی پیڑھی کا مستقبل روشن کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ سانسد کھیل مہاکمبھ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نوجوان کھلاڑیوں کو اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کے تربیتی مراکز میں آگے کی تربیت کے لیے بھی منتخب کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک کی نوجوان قوت کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔ اس مہاکمبھ میں ہی 40 ہزار سے زائد نوجوان حصہ لے رہے ہیں۔ اور مجھے بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں یہ تعداد تین گنا زائد ہے۔ میں آپ سبھی کو، میرے سبھی نوجوان دوستوں کو ان کھیلوں کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ابھی مجھے کھو کھو دیکھنے کا موقع حاصل ہوا۔ ہماری بیٹیاں جس ذہانت کے ساتھ اور ٹیم کے ساتھ پوری ٹیم اسپرٹ سے کھیل رہی تھیں ، ان کے کھیل کو دیکھ کر واقعی بڑا مزہ آرہا تھا ۔ میں نہیں جانتا ہوں کہ میری تالی کی آواز آپ کو سنائی دے رہی تھی کہ نہیں ۔ لیکن ایک بہتر کھیل کھیلنے کے لیے اور مجھے کھو کھو کے کھیل سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرنے کے لیے میں ان سبھی بیٹیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، خیرمقدم کرتاہوں۔
ساتھیو
سانسد کھیل مہاکمبھ کی ایک اور خصوصیت ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں ہماری بیٹیاں حصہ لے رہی ہیں۔ اور مجھے یقین ہے بستی، پوروانچل، اترپردیش اور ملک کی بیٹیاں، ایسے ہی قومی-بین الاقوامی مقابلوں میں اپنا دم خم دکھاتی رہیں گی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم نے دیکھا ہے کہ خواتین کے انڈر-19 ٹی-20 عالمی کپ میں ہمارے ملک کی کپتان شیفالی ورما نے کتنی شاندار کارکردگی پیش کی۔ بیٹی شیفالی نے مسلسل پانچ گیندوں میں پانچ چوکے مارے اور پھر اووَر کی آخری گیند پر چھکا مارکر، ایک ہی اووَر میں 26 رن بنا دیے۔ ایسے ہی کتنی ساری صلاحیت بھارت کے کونے کونے میں ہے۔ کھیل کود کی اس صلاحیت کو تلاشنے میں، تراشنے میں اس طرح کے سانسد کھیل مہاکمبھ کا بہت بڑا کردار ہے۔
ساتھیو،
ایک وقت تھا جب کھیل کود ’غیر نصابی سرگرمی‘ کے زمرے میں آتے تھے۔ یعنی اسے تعلیم سے الگ محض ٹائم پاس کا ذریعہ خیال کیا جاتا تھا۔ بچوں کو بھی یہی بتایا گیا۔ اس سے نسل در نسل ایک ذہنیت سماج میں گھر کر گئی کہ کھیل کود اتنا ضروری نہیں ہے، وہ زندگی اور مستقبل کا حصہ نہیں ہے۔ اس ذہنیت سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہوا۔
کتنے ہی باصلاحیت نوجوان، کتنی ہی صلاحیتیں میدان سے دور رہ گئیں۔ گذشتہ 8-9 برسوں میں ملک نے اس پرانی سوچ کو پیچھے چھوڑکر، کھیل کود کے لیے ایک بہتر ماحول بنانے کا کام کیا ہے۔ اس لیے اب زیادہ بچے اور ہمارے نوجوان اسپورٹس کو کرئیر کے متبادل کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ فٹنس سے لے کر صحت تک، ٹیم بانڈنگ سے لے کر تناؤ سے نجات کے وسیلے تک، پیشہ وارانہ کامیابی سے لے کر نجی بہتری تک، اسپورٹس کے الگ الگ فائدے لوگوں کو نظر آنے لگے ہیں۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ والدین بھی اب کھیل کود کو سنجیدگی سے لے ر ہے ہیں۔ یہ تبدیلی ہمارے معاشرے کے لیے بھی اچھی ہے، کھیل کود کے لیے بھی اچھی ہے۔ اسپورٹس کو اب ایک سماجی حیثیت حاصل ہو رہی ہے۔
اور ساتھیو،
لوگوں کی سوچ میں رونما ہوئی تبدیلی کا راست طور پر فائدہ کھیل کے میدان میں ملک کی حصولیابیوں میں نظر آرہا ہے ۔ آج بھارت مسلسل نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ ہم نے اولمپک میں اب تک کی بہترین کارکردگی پیش کی۔ پیرالمپک میں بھی اب تک کا بہترین مظاہرہ کیا۔ الگ الگ کھیلوں کے ٹورنامنٹس میں بھارت کی کارکردگی اب موضوع بحث بن رہی ہے۔ اور ساتھیو، میرے نوجوان ساتھیو، یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ابھی ہمیں اور طویل سفر طے کرنا ہے، ہمیں نئے اہداف کو حاصل کرنا ہے، ہمیں کئی نئے ریکارڈ بنانے ہیں۔
ساتھیو،
کھیل کود ایک ہنر ہے اور یہ ایک فطرت بھی ہے۔ کھیل کود ایک صلاحیت ہے، اور یہ ایک عزم بھی ہے۔ کھیل کی ترقی میں تربیت کی اپنی اہمیت ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ کھیل کے مقابلے، اسپورٹس ٹورنامنٹس مسلسل چلتے رہنے چاہئیں۔ اس سے کھلاڑیوں کو اپنی تربیت کو مسلسل جانچنے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ الگ الگ شعبوں میں، الگ الگ سطح پر ہونے والے کھیل مقابلے کھلاڑیوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔ اس سے کھلاڑیوں کو اپنی طاقت کے بارے میں تو پتہ چلتا ہی ہے، وہ اپنی خود کی تکنیک بھی بہتر کرپاتا ہے۔ کھلاڑیوں کے کوچ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے شاگر د میں جس کو اس نے سکھایا ہے ابھی کون سی کمیاں رہ گئی ہیں، کہاں اصلاح کی ضرورت ہے، کہاں سامنے والا کھلاڑی اس پر بھاری پڑ رہا ہے۔ اس لیے ہی سانسد مہاکمبھ سے لےکر قومی کھیلوں تک کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہی آج ملک میں زیادہ سے زیادہ یوتھ گیمز ہو رہے ہیں، یونیورسٹی گیمز ہو رہے ہیں، ونٹر گیمز ہو رہے ہیں۔ ان کھیلوں میں ہر سال ہزاروں کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ کھیلو انڈیا مہم کے تحت ہماری حکومت کھلاڑیوں کو مالی تعاون بھی فراہم کر رہی ہے۔ اس وقت ملک میں 2500 سے زائد ایتھلیٹس ایسے ہیں جنہیں کھیلو انڈیا مہم کے تحت ہر مہینے 50 ہزار روپئے سے زائد دیے جا رہے ہیں۔ اولمپک میں جانے والے کھلاڑیوں کو ہماری حکومت کی ٹارگیٹ اولمپک پوڈیم اسکیم- ٹاپس سے بہت مدد حاصل ہو رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت بھی ہر مہینے تقریباً 500 کھلاڑیوں کو مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح کے کچھ کھلاڑیوں کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انہیں ڈھائی کروڑ روپئے سے لے کر 7 کروڑ روپئے تک کی مدد فراہم کی ہے۔
ساتھیو،
آج کا نیا بھارت، کھیل کود کے شعبے کو درپیش ہر چنوتی کو حل کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں کے پاس وافر وسائل ہوں، ٹریننگ ہو، تکنیکی معلومات ہو، بین الاقوامی تجربہ ہو، ان کے انتخاب میں شفافیت ہو، ان تمام باتوں پر زور دیا جا رہا ہے۔ آج بستی اور ایسے ہی دوسرے اضلاع میں کھیلوں سے جڑے بنیادی ڈھانچے تیار کیے جا رہے ہیں، اسٹیڈیم بنائے جا رہے ہیں، کوچز کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد کھیلو انڈیا ضلعی مراکز بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان میں سے 750 سے زائد مراکز بن کر تیار بھی ہو چکے ہیں۔ ملک بھر کی تمام پلے فیلڈس کی جیو ٹیگنگ بھی کی جا رہی ہے تاکہ کھلاڑیوں کو تربیت حاصل کرنے میں پریشانی نہ ہو۔
حکومت نے شمال مشرق کے نوجوانوں کے لیے منی پور میں اسپورٹس یونیورسٹی تعمیر کی ہے اور یوپی کے میرٹھ میں بھی اسپورٹس یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے۔ اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اترپردیش میں متعدد نئے اسٹیڈیم تیار ہو چکے ہیں۔ کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے اترپردیش کے متعدد اضلاع میں اسپورٹس ہاسٹل بھی چلائے جا رہے ہیں۔ قومی سطح کی سہولتیں اب مقامی سطح پر پہنچانے کی بھی کوشش ہے۔ یعنی، آپ کے پاس میرے نوجوان ساتھیو، آپ کے پاس زبردست مواقع ہیں۔ اب آپ کو فتح کا پرچم لہرانا ہے۔ ملک کا نام روشن کرنا ہے۔
ساتھیو،
ہر کھلاڑی جانتا ہے کہ اس کے لیے چاق و چوبند رہنا کتنا ضروری ہے اور اس میں فٹ انڈیا تحریک کا اپنا اہم کردار رہا ہے۔ فٹنس پر توجہ دینے کے لیے آپ سبھی ایک اور کام ضرور کریں۔ اپنی زندگی میں یوگ کو شامل کریں۔ یوگ سے آپ کا جسم بھی صحت مند رہے گا اور آپ کا ذہن بھی بیدار رہے گا۔ اس کا فائدہ آپ کو، آپ کے کھیل میں بھی حاصل ہوگا۔ اسی طرح ہر کھلاڑی کے لیے غذائیت سے بھر پور کھانہ بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ اس میں ہمارے جو ملیٹس ہیں، جسے موٹا اناج کہتے ہیں، موٹے اناج کی بات جو کرتے ہیں عام طور پر ہمارے یہاں گاؤں میں ہر گھر میں کھایا جاتا ہے۔ کھانوں میں اس موٹے اناج کا بہت بڑا کردار ہو سکتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ بھارت کے کہنے پر سال 2023 کو موٹے اناج کا بین الاقوامی سال قرار دیا گیا ہے۔ اپنی خوراک میں آپ موٹے اناج کو شامل کریں گے تو یہ بھی آپ کو بہتر صحت میں مدد فراہم کرے گا۔
ساتھیو،
مجھے پورا اعتماد ہے، ہمارے نوجوان ساتھی کھیلوں سے بہت کچھ میدان میں بھی سیکھیں گے، زندگی میں بھی سیکھیں گے اور آپ کی یہ توانائی کھیل کے میدان سے آگے جاکر ملک کی توانائی بن جائے گی۔ میں ہریش جی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وہ بڑی لگن سے اس کام کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ اس پروگرام کے لیے گذشتہ پارلیمنٹ میں آکر مجھے دعوت دے گئے تھے۔ بستی کے نوجوانوں کے لیے شب و روز کام کرنے کی ان کی جو عادت ہے وہ کھیل کے میدان میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔
میں آپ سب کو بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔