بھارت ماتا کی- جئے
بھارت ماتا کی- جئے
اتراکھنڈ کے مقبول، نوجوان وزیر اعلیٰ بھائی پشکر سنگھ دھامی جی، مرکزی وزیر جناب اجے بھٹ جی، سابق وزیر اعلیٰ رمیش پوکھریال نشنک جی، ریاستی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر مہندر بھٹ جی، اتراکھنڈ حکومت کے وزراء، تمام ممبران پارلیمنٹ، ایم ایل اے، دیگر معززین۔ اور دیو بھومی کے میرے پیارے پریوار جنوں،آپ سب کو سلام۔ آج اتراکھنڈ نے کمال کر دیا ہے۔ ایسا منظر شاید پہلے کسی کو دیکھنے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ہو۔ آج صبح کے بعد سے میں اتراکھنڈ میں جہاں بھی گیا، حیرت انگیز محبت، بے پناہ آشیرواد؛ یوں لگتا تھا جیسے محبت کی گنگا بہہ رہی ہو۔
میں اس روحانیت اور بے مثال بہادری کی سرزمین کو سلام کرتا ہوں۔ میں خاص طور پر بہادر ماؤں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جب بدری ناتھ دھام میں ’’جئے بدری-وشال‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو گڑھوال رائفلز کے ویروں کا جوش و خروش بڑھ جاتا ہے۔ جب گنگولیہاٹ کے کالیکا مندر کی گھنٹیاں "جئے مہاکالی" کے نعروں سے گونجتی ہیں، تو کماؤن رجمنٹ کے ویروں میں بے مثال ہمت بہنے لگتی ہے۔ یہاں کے مناسکھنڈ میں، باگیشور، بیجناتھ، نندا دیوی، گولو دیوتا، پورنگیری، کسار دیوی، کینچی دھام، کٹارمل، نانک متہ، ریٹھا صاحب، ان گنت، ان گنت دیوتا مقامات کے سلسلے کی شان، ہمارے پاس بہت بڑی وراثت ہے۔ میں جب بھی قومی دفاع اور عقیدہ کی اس مقدس مقام پر آیا ہوں، جب بھی میں نے آپ کو یاد کیا ہے، میں خوش کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنوں،
یہاں آنے سے پہلے مجھے پاروتی کنڈ اور جوگیشوردھام میں پوجا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے ملک کے ہر باشندے کی اچھی صحت اور ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کو مضبوط کرنے اور اپنے اتراکھنڈ کے تمام خوابوں اور قراردادوں کو پورا کرنے کے لیے آشیرواد مانگا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے سرحدی محافظوں اور اپنے فوجیوں سے بھی ملاقات کی تھی۔ مجھے مقامی آرٹ اور سیلف ہیلپ گروپس سے وابستہ اپنی تمام بہنوں اور بھائیوں سے ملنے کا موقع بھی ملا۔ یعنی میرے اس نئے سفر میں ہندوستان کی ثقافت، ہندوستان کی سلامتی اور ہندوستان کی خوشحالی سے جڑے ان تین شکلوں میں اس طرح سے میرے نئے طرح کا سفر بھی جڑ گیا۔ سبھی کے درشن ایک ساتھ ہوگئے۔ اتراکھنڈ کی یہ صلاحیت حیرت انگیز اور بے مثال ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے اور میں نے بابا کیدار کے قدموں میں بیٹھ کر اس یقین کا اظہار کیا۔ میرا ماننا ہے کہ یہ دہائی اتراکھنڈ کی دہائی بننے والی ہے۔ اور آج میں آدی کیلاش کے قدموں میں بیٹھ کر کے آیا ہوں۔میں اپنے اس یقین کو ایک بار پھر دہراتا ہوں۔
اتراکھنڈ ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچے اور آپ لوگوں کی زندگی آسان ہو ، ہماری حکومت آج پوری ایمانداری، پوری لگن کے ساتھ اور صرف ایک ہی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کر رہی ہے۔ ابھی یہاں 4 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح کیا جا چکا ہے۔ ایک ہی پروگرام میں 4 ہزار کروڑ روپے، اتراکھنڈ کے میرے بھائیو اور بہنو، کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟ میں آپ سب کو ان منصوبوں کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پریوار جنوں،
نہ یہ راستے میرے لیے نئے ہیں نہ تم سب دوست نئے۔ اتراکھنڈ میں اپنے پن کا احساس ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بھی اپنے پن کے اسی حق کے ساتھ، اسی قربت کے ساتھ مجھ سے جڑے رہتے ہیں۔ اتراکھنڈ کے بہت سے دوست ، دور دراز کے گاؤں سے بھی مجھے خط لکھتے ہیں۔ ہر اچھے برے وقت میں ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ گھر میں کوئی نیا مہمان بھی پیدا ہو تو وہ مجھے خبر بھیجتے ہیں۔ بیٹی پڑھائی میں کہیں آگے بڑھی ہو تو بھی خط لکھتے ہیں۔ یعنی جیسےپورے اتراکھنڈ خاندان کا میں ایک فرد ہوں ویسے اتراکھنڈ مجھ سے جڑ گیا ہے۔
جب ملک کچھ بڑا حاصل کرتا ہے تب بھی آپ خوشی کا اشتراک کرتے ہیں۔ اگر آپ کو بہتری کی کوئی گنجائش نظر آتی ہے تو آپ مجھے وہ بھی بتانے سے گریز نہیں کرتے۔ حال ہی میں ملک نے لوک سبھا اور اسمبلی میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں ریزرو کرنے کا ایک بہت بڑا تاریخی فیصلہ لیا ہے۔ وہ کام جو 30-30، 40-40 سال سے التوا میں تھا، آپ کی متاؤں- بہنوں، آپ کے آشیرواد سے یہ آپ کا بھائی، آپ کا بیٹا کرپایا ہے۔ اور مزہ تو دیکھو اس دوران بھی یہاں کی بہنوں نے مجھے بہت سے خط بھیجے ہیں۔
میرے پریوار جنوں،
آپ سب کے آشیرواد سے آج ہندوستان ترقی کی نئی بلندیوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پوری دنیا میں ہندوستان اور ہندوستانیوں کی تعریف کی جارہی ہے۔ یہ ہو رہا ہے، ہے نا؟پوری دنیا میں بھارت کا ڈنکا بج رہا ہے، ہے نا؟ ایک وقت تھا جب چاروں طرف مایوسی کا ماحول تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورا ملک مایوسی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس وقت ہم ہر مندر میں جاتے تھے اور خواہش کرتے تھے کہ ہندوستان جلد از جلد مشکلات سے نکل آئے۔ ہر ہندوستانی ملک کو ہزاروں کروڑ کے گھوٹالوں سے آزاد کرنا چاہتا تھا۔ سب کی خواہش تھی کہ ہندوستان کی شان بڑھے۔
آج دیکھو، چیلنجوں سے گھری اس دنیا میں، آپ دنیا کی حالت دیکھ رہے ہیں، چیلنجوں سے گھری دنیا میں ہندوستان کی آواز کتنی بلند ہوتی جارہی ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل G-20 کی ایسی شاندار تقریب ہوئی۔ اس میں بھی آپ نے دیکھا کہ دنیا نے ہم ہندوستانیوں کا کیسے لوہا مانا ہے۔۔ تم ہی بتاؤ، جب دنیا ہندوستان کی تعریفیں کرتی ہے ، جب دنیا میں ہندستان کا ڈنکا بجتا ہے، آپ بتائیں گے، جواب دیں گے؟ کیا میں پوچھوں؟کیا آپ جواب دیں گے؟ کیا آپ کو اچھا لگتا ہے جب ہندوستان کا نام دنیا میں اونچا ہوتا ہے، آپ کو اچھا لگتا ہے؟ پوری طاقت سے بتاؤ، آپ کو اچھا لگتا ہے؟ جب بھارت دنیا کو سمت دکھاتا ہے توآپ کو اچھا لگتا ہے؟
یہ سب کس نے کیا ہے؟ یہ سب کس نے کیا ہے؟ یہ مودی نے نہیں کیاہے، یہ سب کچھ آپ میرے پریوار جنوں نے کیا ہے۔ اس کا سہرا آپ سب عوام کو جاتا ہے۔ کیوں؟ یاد رکھئے کیوں؟ کیونکہ آپ نے دہلی میں 30 سال بعد ایک مستحکم اور مضبوط حکومت بناکر مجھے آپ کی خدمت کرنے کا موقع دیا ہے۔آپ کے ووٹ کی طاقت ہے، جب میں دنیا کے بڑ ے بڑے لوگوں سے ہاتھ ملاتا ہوں نا، آپ نے دیکھا ہوگا اچھے اچھوں سے ہورہا ہے معاملہ۔لیکن جب میں ہاتھ ملاتا ہوں نہ تو برابر آنکھ بھی ملاتاہوں۔ اور جب وہ میری طرف دیکھتے ہیں نا تو نا مجھے نہیں دیکھتے ہیں ، 140 کروڑ ہندستانیوں کو دیکھتے ہیں۔
میرے پریوار جنوں،
جو دور دراز پہاڑوں اور ملک کے کونے کونے میں رہتے ہیں، ہمیں ان لوگوں کی بھی فکر ہے ۔ اس لیے صرف 5 سالوں میں ملک کے 13.5 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے۔ 13.5 کروڑ لوگ، کیا آپ کو یہ اعداد و شمار یاد ہوں گے؟ کیا آپ اعدادوشمار یا رکھو گے۔؟ پانچ سالوں میں 13.5 کروڑ لوگوں کا غربت سے باہر آنا دنیا کے لیے حیران کن ہے۔ یہ 13.5 کروڑ لوگ کون ہیں؟ ان میں سے بہت سے لوگ، آپ کی طرح، پہاڑوں میں رہنے والے ہیں، دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ 13.5 کروڑ لوگ اس حقیقت کی مثال ہیں کہ ہندوستان اپنی غربت کو ختم کرسکتا ہے۔
ساتھیو،
پہلے نعرہ دیا جاتا تھا، غریبی ہٹاؤ ۔ مطلب آپ ہٹاؤ، انہوں نے کہہ دیا غریبی ہٹاؤ۔ مودی کہہ رہا ہے ہم مل کر غریبی ہٹاتے رہیں گے۔ ہم (35.54) عہد اور ذمہ داری لیتے ہیں اور پورے جی جان جٹ جاتے ہیں۔ آج ہمارا ترنگا ہر علاقے اور ہر میدان میں اونچا لہراہا رہا ہے۔ ہمارا چندریان، جہاں دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں پہنچ سکا ہے۔ اور بھارت نے اس جگہ کا نام شیو شکتی رکھا ہے جہاں اس کا چندریان گیا تھا ۔ میرے اتراکھنڈ کے لوگو، کیا آپ شیو شکتی کے خیال سے خوش ہیں یا نہیں؟ آپ کا دل خوش ہوا یا نہیں؟ یعنی میری اتراکھنڈ کی پہچان وہاں بھی پہنچ گئی۔ اتراکھنڈ میں ہمیں یہ سکھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ شیو اور شکتی کے اس امتزاج کا کیا مطلب ہے، یہ یہاں ہر قدم پر صاف نظر آتا ہے۔
ساتھیو،
آج دنیا نہ صرف خلا میں بلکہ کھیلوں میں بھی ہندوستان کی طاقت دیکھ رہی ہے۔ حال ہی میں ایشیائی کھیلوں کا اختتام ہوا ہے۔ اس میں ہندوستان نے تاریخ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پہلی بار ہندوستانی کھلاڑیوں نے سنچری بنائی اور 100 سے زائد تمغے جیتنے کا ریکارڈ بنایا ہے اور آپ ذرا زور سے تالیاں بجانا، ایشین گیمز میں اتراکھنڈ کے بھی 8 بیٹے اور بیٹیاں بھی اپنا دم خم دکھانے گئے تھے۔اور اس میں ہماری لکشیا سین کی ٹیم نے بھی تمغہ جیتا اور وندنا کٹاریا کی ہاکی ٹیم نے بھی ملک کو شاندار تمغہ دیا ہے۔ کیا ہم ایک کام کریں گے، اتراکھنڈ کے ان بچوں نے کمال کر دیا ہے، کیا ہم ایک کام کریں گے، کیا ہم؟ اپنا موبائل فون نکالیں، اس کا فلیش آن کریں۔ اور اپنی ٹارچ کا استعمال کرکے ان تمام کھلاڑیوں کو مبارکباد دیں۔ سب، اپنا موبائل فون نکالو اور اسے فلیش کرو، شاباش۔ یہ ہمارے اتراکھنڈ کے بچوں کو سلام ہے، ہمارے کھلاڑیوں کو سلام ہے۔ میں ایک بار پھر دیو بھومی کے اپنے جوان بیٹوں اور بیٹیوں اور ان کھلاڑیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور آپ نے بھی آج ایک نیا رنگ ڈال دیا۔/
ساتھیوں،
بیٹھو، میں آپ کا بہت مشکور ہوں۔ حکومت بھارت کے کھلاڑیوں کو ملک اور دنیا میں اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے بھرپور مدد کر رہی ہے۔ کھانے سے لے کر کھلاڑیوں کی جدید تربیت تک حکومت کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ یہ سچ ہے لیکن اس کے برعکس بھی ہو رہا ہے۔ حکومت یہ کر رہی ہے لیکن لکش کا جو خاندان ہے نا اور لکش جو ہے جب بھی جیتتا ہے میرے لیے بال مٹھائی لاتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کھلاڑیوں کو زیادہ سفر نہ کرنا پڑے، حکومت مختلف جگہوں پر کھیل کے میدان بھی بنا رہی ہے۔ آج ہی ہلدوانی میں ہاکی گراؤنڈ اور رودر پور میں ویلڈروم اسٹیڈیم کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ تالیاں بجاؤ میرے جوان، تمہارا کام ہو رہا ہے۔ میرے اتراکھنڈ کے نوجوانوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔ میں دھامی جی اور ان کی پوری ٹیم کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات بھی پیش کروں گا، جو قومی کھیلوں کی تیار میں پورے جوش و خروش سے لگی ہوئی ہے۔ آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارک باد۔
میرے پریوار جنوں،
اتراکھنڈ کے ہر گاؤں میں ملک کے محافظ ہیں۔ یہاں کی بہادر ماؤں نے بہادر بیٹوں کو جنم دیا ہے جو میرے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ون رینک ون پنشن کا ان کا دہائیوں پرانا مطالبہ ہماری اپنی حکومت نے پورا کر دیا ہے۔ اب تک ہماری حکومت نے ون رینک ون پنشن کے تحت سابق فوجیوں کو 70 ہزار کروڑ روپے اور اس سے بھی زیادہ رقم دی ہے۔ اتراکھنڈ کے 75 ہزار سے زیادہ سابق فوجیوں کے خاندان بھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ سرحدی علاقوں کی ترقی بھی ہماری حکومت کی بڑی ترجیح ہے۔ آج سرحدی علاقوں میں سہولیات کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آپ کی غلطی کیا تھی...پہلی حکومتوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ یہ آپ کا قصور نہیں تھا۔ پہلے کی حکومتوں نے سرحدی علاقوں کی ترقی اس خوف سے نہیں کی تھی کہ دشمن اس سے فائدہ اٹھا کر اندر نہ آجائے، بتاؤ کیا دلیل دیتے تھے؟ آج کا نیا ہندوستان پچھلی حکومتوں کی اس خوفناک سوچ کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ نہ ہم ڈرتے ہیں نہ ہم ڈراتے ہیں۔
ہندوستان کی پوری سرحد جس پر ہم جدید سڑکیں، سرنگیں، پل بنا رہے ہیں۔ گزشتہ 9 سالوں میں ہی صرف سرحدی علاقوں میں 4200 کلومیٹر سے زائد طویل سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ ہم نے سرحد کے کنارے 250 بڑے پل اور 22 سرنگیں بھی بنائی ہیں۔ آج بھی اس پروگرام میں کئی نئے پلوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اب تو ہم بارڈر پر ٹرینیں لانے کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔ اس بدلی ہوئی سوچ کا فائدہ اتراکھنڈ کو بھی ملنے والا ہے۔
میرے پریوار جنوں،
پہلے سرحدی علاقے، سرحدی دیہات کو ملک کا آخری گاؤں سمجھا جاتا تھا، ترقی کے معاملے میں بھی اس کا نمبر بھی سب سے آخر میں ہی آتا تھا۔ یہ بھی ایک پرانی سوچ تھی۔ ہم نے سرحدی گاؤں کو آخری نہیں بلکہ ملک کے پہلے گاؤں کے طور پر ترقی دینا شروع کر دی ہے۔ وائبرنٹ ولیج پروگرام کے تحت اسی طرح کے سرحدی گاؤں کی ترقی کی جارہی ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ جو لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے ہیں وہ دوبارہ واپس آئیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان دیہاتوں میں سیاحت بڑھے اور تیرتھ یاترا کو وسعت ملے۔
میرے پریوار جنوں،
ایک پرانی کہاوت ہے کہ پہاڑ کا پانی اور پہاڑکی جوانی پہاڑ کے کسی کام نہیں آتی۔ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ میں اس تصور کو بھی بدل دوں گا۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اتراکھنڈ کے کئی گاؤں ویران ہو گئے۔ سڑکیں، بجلی، پانی، تعلیم، دوائی، کمائی، ہر چیز کی کمی تھی اور اسی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ جیسے جیسے اتراکھنڈ میں نئے مواقع اور نئی سہولیات پیدا ہو رہی ہیں، ویسے ویسے بہت سے ساتھی اپنے گاؤں واپس لوٹنے لگے ہیں۔
ڈبل انجن سرکار کی کوشش ہے کہ گاؤں واپسی کا یہ کام تیزی سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان سڑکوں، بجلی کے منصوبوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں اور موبائل فون ٹاورز پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ آج بھی یہاں ان سے جڑے کئی منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔
یہاں سیب کے باغات اور پھلوں اور سبزیوں کے لئے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ اب جب یہاں سڑکیں بن رہی ہیں اور پانی پہنچ رہا ہے تو میرے کسان بھائیوں اور بہنوں کا حوصلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ آج جو پولی ہاؤس بنانے اور سیب کا باغ بنانے کا منصوبہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ان اسکیموں پر 1100 کروڑ روپے خرچ ہونے والے ہیں۔ اتراکھنڈ کے ہمارے چھوٹے کسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اتنا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت، اتراکھنڈ کے کسانوں کو اب تک 2200 کروڑ روپے زیادہ مل چکے ہیں۔
ساتھیوں،
یہاں توموٹا اناج-شری انّ بھی یہاں کئی نسلوں سے اگایا جا تا ہے۔ جب میں تمہارے درمیان رہتا تھا تو میں نے بہت وقت تمہارے درمیان گزارا ہے۔ اس وقت ہر گھر میں موٹے اناج بھی وافر مقدار میں کھائے جاتے تھے۔ اب مرکزی حکومت اس موٹے اناج شری انّ کو دنیا کے کونے کونے میں لے جانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں مہم شروع کر دی گئی ہے۔ ہمارے اتراکھنڈ کے چھوٹے کسانوں کو بھی ان سے بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔
میرے پریوار جنوں،
ہماری حکومت ماؤں بہنوں کی ہر مشکل اور ہر تکلیف کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اسی لیے ہماری حکومت نے غریب بہنوں کو پکا گھر دیا۔ ہم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے لیے بیت الخلا بنائے، انہیں گیس کنکشن دیے، بینک اکاؤنٹ کھولے، مفت علاج کیا، مفت راشن آج بھی چل رہا ہےتا کہ غریب کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔
ہر گھر جل یوجنا کے تحت، اتراکھنڈ میں 11 لاکھ خاندانوں کی بہنوں کو پائپ سے پانی کی سہولت مل رہی ہے۔ اب بہنوں کے لیے ایک اور کام کیا جا رہا ہے۔ اس سال لال قلعہ سے میں نے خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کو ڈرون دینے کا اعلان کیا ہے۔ ادویات، کھاد، بیج، ایسے بہت سے کام کھیتوں میں ڈرون کے ذریعے کیے جا سکیں گے۔ اب تو ایسے ڈرون بھی بنائے جا رہے ہیں جو پھل اور سبزیوں کو قریبی سبزی منڈی تک پہنچا سکیں۔ پہاڑوں میں ڈرون کے ذریعے ادویات جلدی پہنچائی جا سکتی ہیں، یعنی خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کو فراہم کیے جانے والے یہ ڈرون اتراکھنڈ کو جدیدیت کی نئی بلندیوں پر لے جانے والے ہیں۔
میرے پریوار جنوں،
اتراکھنڈ میں ہر گاؤں میں گنگا اور گنگوتری ہے۔ بھگوان شیوجی اور نندا یہاں برف کی چوٹیوں پر رہتے ہیں۔ اتراکھنڈ کے میلے، کوتھیگ، تھول، گانے، موسیقی اور کھانے کی اپنی الگ پہچان ہے۔ یہ سرزمین پانڈو رقص، چھولیا رقص، مانگل گیت، پھولدی، ہریلا، بگوال اور رمانڑ جیسے ثقافتی پروگراموں سے مالا مال ہے۔ لوک جیون کے ذائقے: روٹ، آرسے، جھنگورے کی کھیر، کفلی، پکوڑا، رائتہ، الموڑہ کی بال مٹھائی، سنگوری... ان کا ذائقہ کون بھول سکتا ہے۔ اور یہ جو کالی گنگا کی سرزمین ہے ، اس سرزمین سے تو میرا ناطہ بھی بہت رہا ہے۔ میرا یہاں چمپاوت میں واقع ادویت آشرم سے بھی گہرا تعلق ہے۔ وہ میری زندگی کا ایک عہد تھا۔
میری بہت سی یادیں یہاں کی زمین کے ایک ایک انچ سے وابستہ ہیں۔ اس بار میری بری خواہش تھی کہ اس الہیاتی احاطہ میں زیادہ وقت گزاروں۔ لیکن کل دہلی میں G-20 سے متعلق ایک اور بڑی کانفرنس ہونے والی ہے۔ G-20 جو کہ ساری دنیا کی پارلیمنٹ کے جو اسپیکر ہیں،ان کا بہت بڑا سربراہی اجلاس ہےاور اس کی وجہ سے میں ادویت آشرم چمپاوت جا نہیں پارہا ہوں۔میری ایشور سے دعا ہے کہ مجھے جلد ہی دوبارہ اس آشرم میں آنے کا موقع ملے۔
میرے پریوار جنوں،
اتراکھنڈ میں سیاحت اور تیرتھ یاترا کی ترقی سے متعلق ڈبل انجن والی حکومت کی کوششیں اب رنگ لا رہی ہیں۔ اس سال اتراکھنڈ میں چاردھام یاترا کے لیے آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد 50 لاکھ کے قریب پہنچ رہی ہے، تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ بابا کیدار کے آشیرواد سے کیدارناتھ دھام کی تعمیر نو سے متعلق پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ شری بدری ناتھ دھام میں بھی سینکڑوں کروڑ روپے کی لاگت سے کئی کام ہو رہے ہیں۔ کیدارناتھ دھام اور شری ہیم کنڈ صاحب میں روپ وے کا کام مکمل ہوتے ہی معذور اور بزرگ یاتریوں کو کافی سہولت ملنے والی ہے۔ ہماری حکومت کیدارکھنڈ کے ساتھ ساتھ اور اسی لیے میں آج یہاں آیا ہوں، مجھے مناسکھنڈ کو بھی اس بلندی پر لے جانا ہے۔ جو لوگ کیدارکھنڈ اور مناسکھنڈ کے رابطے پر بھی بہت زور دے رہے ہیں۔جو لوگ کیدارناتھ اور بدری ناتھ دھام جاتے ہیں وہ جاگیشور دھام، آدی کیلاش اور اوم پروت بھی آسانی سے آ سکیں، یہ کوشش کی جارہی ہے۔ مناسکھنڈ مندر مالا مشن جو آج شروع ہوا ہے اس سے کماؤن کے کئی مندروں تک آمدروفت بھی آسان ہو جائے گی۔
میرا تجربہ کہتا ہے کہ بدری ناتھ اور کیدارناتھ آنے والے لوگ مستقبل میں یہاں ضرور آئیں گے۔ وہ اس علاقے کو نہیں جانتے۔ اور آج جب عوام ٹی وی پر یہ ویڈیو دیکھیں گے کہ مودی ایک چکر کاٹ کر آیا ہے، تو آپ سب دیکھیں گے اور کہیں گے یارکچھ تو ہوگا، اور آپ تیاری کرو، عازمین کی تعداد بڑھنے والی ہے، میرے مانس کھنڈ میں آمدروفت تیز ہونے والی ہے۔
ساتھیوں،
اتراکھنڈ کا بڑھتا رابطہ یہاں کی ترقی کو نئی بلندیوں تک لے جانے والا ہے۔ آپ کو چاردھام عظیم منصوبے سے آ ل ویدر روڈ سے آپ کو کافی سہولت ملی ہے۔ رشی کیش-کرن پریاگ ریل پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد، پورے علاقے میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔UDAN اسکیم کے تحت اس پورے خطے میں سستی ہوائی خدمات کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ آج ہی یہاں باگیشور سے کنالیچناتک، گنگولی ہاٹ سے الموڑہ تک اور تانک پور گھاٹ سے پتھورا گڑھ تک سڑکوں پر کام شروع ہو ا ہے۔ اس سے نہ صرف عام لوگوں کو سہولت ملے گی بلکہ ساتھ ساتھ سیاحت سے کمائی کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں کی حکومت ہوم اسٹے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں زیادہ سے زیادہ روزگار اور کم سے کم سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آنے والے وقتوں میں سیاحت کا شعبہ بہت زیادہ پھیلنے والا ہے۔ کیونکہ آج پوری دنیا ہندوستان آنا چاہتی ہے۔ بھارت کو دیکھنا چاہتی ہے۔ بھارت کو جاننا چاہتی ہے۔ اور جو ہندوستان دیکھنا چاہتا ہے،تو اس کا ہندوستان کو دیکھنا اتراکھنڈ آئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
میرے پریوار جنوں،
ماضی میں جس طرح سے اتراکھنڈ قدرتی آفات کی زد میں رہا ہے اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ ہم نے اپنے بہت سے رشتہ داروں کو کھویا ہے۔ ہمیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریوں کو بہتر کرتے رہنا ہے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ اس کے لیے آنے والے 4-5 سالوں میں اتراکھنڈ میں 4 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اس طرح کی سہولیات اتراکھنڈ میں تعمیر کی جائیں گی، جس سے آفات کی صورت میں راحت اور بچاؤ کا کام تیزی سے کیا جاسکے۔
یہ ہندوستان کا امرت کال ہے۔ یہ امرت کال ،ملک کے ہر علاقے اور ہر طبقے کو سہولیات، عزت اور خوشحالی سے جوڑنے کا عہد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بابا کیدار اور بدری وشال کے آشیرواد سے، آدی کیلاش کے آشیرواد سے، ہم اپنے عزائم کو جلد پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک بار پھر اتنا پیار دینے کے لیے… 7 کلومیٹر، واقعی، میرے پاس بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ میں ہیلی کاپٹر سے نکلا، یہاں 7 کلو میٹر آیا۔ اور آنے میں تاخیر اس لئے ہوئی کیونکہ 7 کلومیٹر کے دونوں طرف انسانی زنجیر نہیں تھی، انسانی دیوار تھی۔ ایسا ہجوم تھا اور جیسے گھر والوں میں کوئی موقع ہو، ویسے تہوار کے لباس میں ملبوس، مبارک موقع کے کپڑے، پرمسرت ماحول میں، آرتی کے ساتھ، ماؤں کے ہاتھوں میں آرتی، پھولوں کے گلدستے، آشیرواد دینے سے نہیں رکتے تھے۔ یہ میرے لیے بہت جذباتی لمحات تھے۔ آج، میرے مناسکھنڈ نے پتھورا گڑھ کو اور ضلع پتھورا گڑھ کے تمام لوگوں، اس پورے کھنڈ کو میر امانس کھنڈ ، اس نے آج جو پیار برسایا، جو خوش و جذبہ دکھایا میں شت شت نمن کرتا ہوں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ میرے ساتھ بولیئے، دونوں ہاتھ اوپر کرکے پوری طاقت سے بولئے۔
بھارت ماتا کی جئے!
بھارت ماتا کی جئے!
بھارت ماتا کی جئے!
بہت بہت شکریہ !