اس تاریخی تقریب میں موجود کیرالہ کے گورنر جناب عارف محمد خان، کیرالہ کے وزیر اعلیٰ جناب پنارائی وجین، ملک کے وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ، مرکزی کابینہ کے میرے دیگر رفقاء، بحریائی عملے کے سربراہ ایڈمرل آر ہری کمار، ایم ڈی کوچین شپ یارڈ، تمام معزز مہمانوں، اور اس پروگرام میں شامل میرے پیارے ہم وطنو!
آج، یہاں کیرالہ کے سمندری ساحل پر، ہر ہندوستانی ایک نئے مستقبل کے طلوع آفتاب کا گواہ بن رہا ہے۔ آئی این ایس وکرانت پر منعقد ہونے والی یہ تقریب عالمی افق پر ہندوستان کے بلند حوصلے کی ایک للکار ہے۔ آزادی کی تحریک میں ہمارے مجاہدین آزادی نے جس قابل ،اہل اور طاقتور ہندوستان کا خواب دیکھا تھا ، اس کی ایک مضبوط تصویر آج یہاں ہم دیکھ رہے ہیں ۔
وکرانت - بہت بڑا ہے، وسیع ہے، عظیم ہے۔ وکرانت خاص ہے، وکرانت مخصوص بھی ہے۔ وکرانت صرف ایک جنگی جہاز نہیں ہے۔ یہ 21ویں صدی کے ہندوستان کی محنت، ہنر، اثر و رسوخ اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر اہداف طویل ہیں، سفر طویل ہیں، سمندر اور چیلنجز لامتناہی ہیں - تو ہندوستان کا جواب ہے وکرانت۔ آزادی کے امرت مہوتسو کا بے مثال امرت وکرانت ہے۔ وکرانت ہندوستان کے خود انحصار ہونے کا ایک انوکھا عکس ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے لیے فخر کا ایک قیمتی موقع ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کی عزت نفس کو بڑھانے کا موقع ہے۔ میں اس کے لیے ملک کے ہرباشندوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
اہداف کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، چیلنجز کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، جب ہندوستان پرعزم ہو تو کوئی بھی ہدف ناممکن نہیں ہے۔ آج ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو دیسی ٹیکنالوجی سے اتنا بڑا طیارہ بردار بحری جہاز تیار کرتے ہیں۔ آج آئی این ایس وکرانت نے ملک کو ایک نئے اعتماد سے بھر دیا ہے، ملک میں ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے۔ آج وکرانت کو دیکھ کر سمندر کی یہ لہریں پکار رہی ہیں
امرتھ ویر پتر ہو، درڑ پرتگیہ سوچ لو
پرشست پنیہ پنتھ ہے، بڑھے چلو،بڑھے چلو
ساتھیوں،
اس تاریخی موقع پر، میں ہندوستانی بحریہ، کوچین شپ یارڈ کے تمام انجینئروں، سائنسدانوں اور اپنے مزدور بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ ملک کو یہ کامیابی کیرالہ کی مقدس سرزمین پر ایک ایسے وقت میں ملی ہے جب اونم کا مقدس تہوار بھی چل رہا ہے۔ میں اس موقع پر تمام ہم وطنوں کو اونم کی مبارکباد بھی دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
آئی این ایس وکرانت کے ہر حصے کی اپنی ایک خوبی ہے، ایک طاقت ہے، اس کا اپنا ایک ترقی کا سفربھی ہے۔ یہ مقامی صلاحیت، مقامی وسائل اور مقامی مہارتوں کی علامت ہے۔ اس کے ایئربیس میں نصب اسٹیل بھی دیسی ہے۔ یہ اسٹیل ڈی آر ڈی او کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے، جسے ہندوستانی کمپنیوں نے پروڈیوس کیا۔
یہ ایک جنگی جہاز سے زیادہ ایک تیرتا ہوا ایئرفیلڈ اور ایک تیرتا ہوا شہر ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی بجلی 5000 گھروں کو روشن کر سکتی ہے۔ اس کا فلائٹ ڈیک بھی دو فٹ بال گراؤنڈز کے برابر ہے۔ وکرانت میں جتنے بلبس اور تاریں استعمال ہوئے ہیں وہ کوچی سے شروع ہو کر کاشی تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس مشکل کام کی انجام دہی ہمارے انجینئروں کی کامیابی کی شاندار مثال ہے۔ میگا انجینئرنگ سے لے کر نینو سرکٹس تک، جو پہلے ہندوستان کے لیے ناقابل تصور تھا وہ حقیقت میں بدل رہا ہے۔
ساتھیوں،
اس بار یوم آزادی پر میں نے لال قلعہ سے ‘پنچ پرن’ کی اپیل کی ہے اور ہمارے ہری جی نے بھی اب اس کا ذکر کیا ہے۔ ان پانچ پرنوں میں سے پہلا ایک ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم ہے! دوسرا غلامانہ ذہنیت سے مکمل دستبرداری ہے۔ تیسرا اپنے ورثے پر فخر کرنا ہے۔ چوتھا اور پانچواں عہد ہے - اتحاد، یکجہتی، اور ملک کے شہری کے فرائض! آئی این ایس وکرانت کی تعمیر اور اس کے سفر میں ہم ان تمام پنچ پرانوں کی توانائی دیکھ سکتے ہیں۔ آئی این ایس وکرانت اس توانائی کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ اب تک ایسے طیارہ بردار جہاز صرف ترقی یافتہ ممالک ہی بنتے تھے۔ آج ہندوستان نے اس لیگ میں شامل ہوکر ایک ترقی یافتہ ملک کی طرف ایک اور قدم بڑھایا ہے۔
ساتھیوں،
آبی نقل و حمل کے شعبے میں ہندوستان کی ایک بہت ہی قابل فخر تاریخ رہی ہے، ہماری خوشحال وراثت رہی ہے۔ ہمارے یہاں کشتیوں اور جہازوں سے متعلق معلومات کا تذکرہ شلوکوں میں آیا ہے۔
دیرگھیکا ترنی: لولا، گتورا گامنی تارہ
جنگلھالا پلاوینی چیو، دھارینی ویگنی اور
یہ ہمارے صحیفوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ دیرگھیکا ترنی: لولا، گتورا گامنی ،جنگلھالا پلاوینی ، دھارینی ویگنی... ہمارے پاس مختلف سائز اور اقسام کے بحری جہاز اور کشتیاں تھیں۔ ہمارے ویدوں میں بھی کشتیوں، جہازوں اور سمندر سے متعلق بہت سے منتر موجود ہیں۔ ویدک دور سے لے کر گپتا دور اور موریہ دور تک ہندوستان کی سمندری طاقت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا۔ چھترپتی ویر شیواجی مہاراج نے اسی سمندری طاقت کے بل بوتے ایسی بحریہ بنائی جس نے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں۔
جب انگریز ہندوستان آئے تو وہ ہندوستانی جہازوں اور ان کے ذریعے ہونے والی تجارت کی طاقت سے خوفزدہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کی سمندری طاقت کی کمر توڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں ایک قانون بنا کر ہندوستانی جہازوں اور تاجروں پر کس طرح سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔
ہندوستان کے پاس ہنر، تجربہ تھا۔ لیکن ہمارے لوگ اس خمیدگی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ ہم کمزور ہوتے گئے اور پھر غلامی کے دور میں رفتہ رفتہ اپنی طاقت کو بھول گئے۔ اب آزادی کے امرت کال میں، ہندوستان اس کھوئی ہوئی طاقت کو واپس لا رہا ہے، اس توانائی کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔
ساتھیوں،
آج 2 ستمبر 2022 کی تاریخی تاریخ کو تاریخ بدلنے والا ایک اور کام ہوا ہے۔ آج ہندوستان نے غلامی کا نشان، غلامی کا بوجھ اتار دیا ہے۔ ہندوستانی بحریہ کو آج سے نیا پرچم مل گیا ہے۔ اب تک غلامی کی پہچان ہندوستانی بحریہ کے جھنڈے پر تھی۔ لیکن آج سے چھترپتی شیواجی مہاراج سے متاثر ہو کر بحریہ کا نیا پرچم سمندر اور آسمان میں لہرائے گا۔
ایک بار رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی نظم میں لکھا تھا-
نوین سوریہ کی نئی پربھا نمو، نمو، نمو!
نمو، سوتنتر بھارت کی دھوجا، نمو، نمو، نمو!
آج، اس پرچم کی تعظیم کے ساتھ، میں یہ نیا پرچم بحریہ سے متعلق خدمات کی شروعات کرنے والے، چھترپتی ویر شیواجی مہاراج کو وقف کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستانیت کے جذبے سے لبریز یہ نیا پرچم ہندوستانی بحریہ کے خود اعتمادی اور عزت نفس کو نئی توانائی دے گا۔
ساتھیوں،
تمام اہل وطن کے سامنے میں ایک اور اہم پہلو رکھنا چاہتا ہوں کہ ہماری افواج میں کس طرح کی تبدیلی آرہی ہے۔ جب وکرانت ہمارے میری ٹائم زون کی حفاظت کے لیے اترے گا تو بحریہ کی کئی خواتین سپاہی بھی وہاں تعینات ہوں گی۔ سمندر کی بے پناہ طاقت، بے پناہ خواتین کی طاقت کے ساتھ، یہ نئے ہندوستان کی بلند شناخت بن رہی ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ اس وقت بحریہ میں تقریباً 600 خواتین افسران ہیں۔ لیکن، اب ہندوستانی بحریہ نے خواتین کے لیے اپنی تمام شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو پابندیاں تھیں وہ اب ہٹائی جا رہی ہیں۔ جس طرح قابل موجوں کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں اسی طرح ہندوستان کی بیٹیوں کے لیے بھی کوئی سرحدیں یا پابندیاں نہیں ہیں۔
صرف ایک یا دو سال قبل خواتین اہلکاروں نے تارینی کشتی کے ذریعے پوری زمین کا دورہ کیا تھا۔ آنے والے وقت میں کتنی بیٹیاں ایسے کارنامے کے لیے آگے آئیں گی، دنیا کو ان کی طاقت سے روشناس کرائیں گی۔ بحریہ کی طرح، تینوں مسلح افواج میں خواتین کو جنگی کرداروں میں شامل کیا جا رہا ہے، ان کے لیے نئی ذمہ داریوں کے راستے کھولے جارہے ہیں۔
ساتھیوں،
کہا جاتا ہے کہ خود انحصاری اور آزادی ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک ملک جتنا زیادہ دوسرے ملک پر منحصر ہوتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔ کوئی ملک جتنا زیادہ خود انحصار ہوتا ہے، اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ کورونا کے بحران میں ہم سب نے خود انحصاری کی اس طاقت کو دیکھا، سمجھا، تجربہ کیا ہے۔ اس لیے آج ہندوستان خود انحصار بننے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
آج اگر آئی این ایس وکرانت ناقابل تسخیر سمندر میں ہندوستان کی طاقت کا اعلان کرنے کے لیے تیار ہے تو ہمارا تیجس لامحدود آسمان میں گرج رہا ہے۔ اس بار 15 اگست کو پورے ملک نے لال قلعہ سے دیسی توپوں کی گرج بھی سنی ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد فوجوں میں اصلاحات کرکے، ہندوستان اپنی افواج کو مسلسل جدید بنا رہا ہے، اسے خود انحصار بنا رہا ہے۔
ہماری افواج نے ایسے آلات کی ایک لمبی فہرست بھی بنالی ہے، جو اب صرف دیسی کمپنیوں سے ہی خریدی جائیں گی۔ دفاعی شعبے میں تحقیق اور ترقی کے لیے بجٹ کا 25 فیصد صرف ملک کی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تمل ناڈو اور اتر پردیش میں دو بڑے دفاعی کوریڈور بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ دفاعی شعبے میں خود انحصاری کے لیے کیے جانے والے ان اقدامات سے ملک میں روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ساتھیوں،
ایک بار لال قلعہ سے، میں نے شہری فرض کے بارے میں بھی بات کی تھی۔ اس بار بھی میں نے اسے دہرایا ہے۔ قطرہ قطرہ پانی ایک وسیع سمندر کی طرح بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہندوستان کا ہر شہری ‘ووکل فار لوکل’ کے منتر کو جینا شروع کردے تو ملک کو خود انحصار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ جب تمام اہل وطن لوکل کیلئے ووکل ہوں ں گے تو اس کی بازگشت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں سنائی دے گی اور دنیا کے صنعت کار یہ دیکھ کر وہ بھی ہندوستان آکر مینوفیکچرنگ کی راہ پر چلنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ طاقت ہر شہری کے تجربے میں ہے۔
ساتھیوں،
آج تیزی سے عالمی ماحول بدل رہا ہے، عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے، اس نے دنیا کو کثیر قطبی بنا دیا ہے۔ اس لیے اس بات کا وژن ہونا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ آنے والے وقت میں مستقبل کی سرگرمیوں اور فعالیت کا مرکز کہاں ہو گا۔ مثال کے طور پر، ماضی میں، ہند-بحرالکاہل کے علاقے اور بحر ہند میں سلامتی کے خدشات کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن، آج یہ علاقے ہمارے لیے ملک کی اہم دفاعی ترجیح ہیں۔ اسی لیے ہم بحریہ کے لیے بجٹ بڑھانے سے لے کر اس کی صلاحیت بڑھانے تک ہر سمت میں کام کر رہے ہیں۔
آج چاہیں ساحل پر گشتی جہاز ہوں، آبدوزیں ہوں یا طیارہ بردار جہازہچ۔ آج ہندوستانی بحریہ کی طاقت بے مثال رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے آنے والے وقت میں ہماری بحریہ مزید مضبوط ہوگی۔ زیادہ محفوظ ‘سی لینس’، بہتر نگرانی اور بہتر تحفظ سے ہماری برآمدات، بحری تجارت اور بحری پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک اور خاص طور پر ہمارے پڑوسی اتحادی ممالک کے لیے تجارت اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
ساتھیوں،
ہمارے یہاں صحیفوں میں کہا جاتا ہے، اور بہت اہم باتیں کہی گئی ہیں اور جو کچھ ہمارے لوگوں نے سنسکار کی شکل میں گزارا ہے۔ یہاں ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے-
ودیا ویوادیا دھانم مدائے، شکتی: پرشن پریپیڈنائے
خلسیہ سادھو: ویپریتما ایتد، گانیہ دانائے چارخشنائے
یعنی بدکرار کاعلم جھگڑا کرنا، دولت اور طاقت کا گھمنڈ کرنا دوسروں پر ظلم کرنا ہے۔ لیکن شریف آدمی کے لیے یہ علم، عطیہ اور کمزوروں کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ یہ ہندوستان کی ثقافت ہے، اسی لیے دنیا کو ایک مضبوط ہندوستان کی زیادہ ضرورت ہے۔
میں نے ایک بار پڑھا تھا کہ ایک بار جب ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے کسی نے پوچھا کہ آپ بہت پرامن شخصیت ہیں، آپ بہت پرسکون انسان لگتے ہیں، تو آپ کو ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے؟ کلام صاحب نے کہا تھا کہ طاقت اور امن ایک دوسرے کے لیے ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان طاقت اور تبدیلی دونوں کو ایک ساتھ لے کر چل رہا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ایک مضبوط ہندوستان ایک پرامن اور محفوظ دنیا کی راہ ہموار کرے گا۔ اسی جذبے کے ساتھ، اپنے بہادر سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، بہادر جنگجوؤں کی عزت کرتے ہوئے اور اس اہم موقع کو ان کی بہادری کے لیے وقف کرتے ہوئے، میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جئے ہند!