مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ، جناب امت شاہ، انٹرپول کے صدر جناب احمد ناصر الرئیسی، انٹرپول کے سکریٹری جنرل جناب یورگن استوک، سی بی آئی کے ڈائرکٹر جناب ایس کے جیسوال، دیگر معززین اور شرکاء حضرات۔
میں 90ویں انٹرپول جنرل اسمبلی کے لیے سبھی کا گرمجوشانہ استقبال کرتا ہوں۔ ایک ایسا وقت جو بھارت اور انٹرپول دونوں کے لیے غیرمعمولی ہے، ایسے وقت میں یہاں آپ لوگوں کی موجودگی باعث مسرت ہے۔ بھارت 2022 میں آزادی کے 75 برسوں کی تکمیل کا جشن منا رہا ہے۔ یہ ہمارے عوام، ثقافت اور حصولیابیوں کا جشن ہے۔ یہ وقت پیچھے مڑکر وہ مقام دیکھنے کا ہے جہاں سے ہم چل کر آئے ہیں، اور وہ مقام دیکھنے کا بھی ہے جہاں ہم جانا چاہتے ہیں۔ انٹرپول بھی ایک جامع سنگ میل کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔ 2023 میں، انٹرپول اپنے قیام کے 100 برس مکمل کر لے گا۔ یہ خوشی منانے اور غور کرنے کا وقت ہے۔ ناکامیوں سے سیکھنے، کامیابیوں کا جشن منانے ، اورامید کے ساتھ مستقبل کی جانب دیکھنے کا وقت ہے۔
دوستو،
انٹرپول کا تصور بھارتی فلسفے کے مختلف پہلوؤں سے مربوط ہے۔ انٹرپول کا نعرہ ہے: محفوظ دنیا کے لیے پولیس کی رابطہ کاری۔ آپ میں سے بیشتر افراد نے دنیا کے قدیم ترین صحائف میں سے ایک وید کے بارے میں سنا ہوگا۔ وید میں ایک اشلوک ہے: آ نو بھدرا: کرت وو ینتو وِشوَت: یعنی، ہر سمت سے پاکیزہ خیالات آنے دیجئے۔ یہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے آفاقی اشتراک کی ایک اپیل ہے۔ بھارت کی روح میں ایک منفرد عالمی منظرنامہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام امن کے آپریشنوں میں بہادر مرد و خواتین کو بھیجنے کے معاملے میں بھارت تعاون فراہم کرنے والے سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ ہماری آزادی سے قبل بھی، ہم نے دنیا کو ایک بہتر مقام بنانے کے لیے قربانیاں دیں۔ ہزاروں بھارتی مختلف جنگوں میں لڑے اور انہوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ موسمیاتی اہداف سے لے کر کووِڈ ٹیکوں تک، بھارت نے کسی بھی قسم کے بحران میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں دلچسپی دکھائی۔ اور اب، جبکہ ممالک اور برادریاں خود پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، ایسے میں بھارت بین الاقوامی تعاون میں اضافہ کی اپیل کرتا ہے۔ مقامی فلاح و بہبود کے لیے عالمی اشتراک – یہی ہمارا نعرہ ہے۔
دوستو،
قانون کے نفاذ کے فلسفہ کی وضاحت قدیم بھارتی فلسفی چانکیہ کے ذریعہ بخوبی کی گئی ہے:
आन्वीक्षकी त्रयी वार्तानां योग-क्षेम साधनो दण्डः। तस्य नीतिः दण्डनीतिः; अलब्धलाभार्था, लब्धपरिरक्षणी, रक्षितविवर्धनी, वृद्धस्य तीर्थेषु प्रतिपादनी च ।
یعنی، سماج کی مادی اور روحانی فلاح و بہبود قانون کے نفاذ کے ذریعہ ممکن ہے۔ چانکیہ کے مطابق قانون کا نفاذ ہمیں وہ حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اس چیز کی حفاظت کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جو ہمارے پاس موجود ہے، اس چیز میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جس کی ہم نے حفاظت کی ہے، اور اس طرح ہمیں اس چیز کو مستحقین کے درمیان تقسیم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ قانون کے نفاذ کا مبنی برشمولیت نظریہ ہے۔ دنیا بھر کی پولیس محض عوام کی حفاظت ہی نہیں کر رہی ہے، بلکہ سماجی فلاح و بہبود میں بھی اضافہ کررہی ہے۔ یہ کسی بھی بحران سے نمٹنے کے معاملے میں صف اول کے سپاہی ہیں۔ یہ چیز ہمیں کووِڈ۔19 وبائی مرض کے دوران واضح طور پر نظر آئی۔ دنیا بھر میں، پولیس اہلکاران عوام کی مدد کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر عوام کی خدمت میں خود کو قربان کردیتےہیں۔ میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اگر دنیا تھم بھی جاتی ہے، تو بھی اس کے تحفظ کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔ وبائی مرض کے دوران بھی انٹرپول چوبیسوں گھنٹے ساتوں دن مصروف عمل رہا۔
دوستو،
بھارت کی گوناگونیت اور پیمانے کا تصور کر پانا ان لوگوں کے لیے مشکل ہے جنہوں نے اس کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ یہاں بلندترین پہاڑی سلسلے ہیں، سب سے خشک ریگستانی علاقے ہیں، گھنے جنگلات ہیں، اور دنیا کی ازحد گھنی آبادی والے شہر ہیں۔ براعظموں کی خصوصیات محض ایک ملک یعنی بھارت میں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر، بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست، اترپردیش، کی آبادی تقریباً برازیل کی آبادی کے برابر ہے۔ ہماری دارالحکومت، دہلی، کی آبادی پورے سویڈن سے زیادہ ہے۔
دوستو،
بھارتی پولیس وفاقی اور ریاستی سطحوں پر 900 سے زائد قومی اور تقریباً دس ہزار ریاستی قوانین کے نفاذ کے لیے باہمی طور پر تعاون کرتی ہے۔ اس میں بھارتی سماج کی گوناگونیت بھی شامل ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے ماننے والے لوگ یہاں بستے ہیں۔یہاں سینکڑوں زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ بڑے بڑے میلے لاکھوں عقیدت مندوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کمبھ میلا، جو دنیا کا سب سے بڑا اور طویل ترین روحانی اجتماع ہے، اس میں 240 ملین زائرین نے شرکت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہماری پولیس ملک کے تنوع اور آئین کے ذریعہ تفویض کردہ عوامی حقوق کا احترام کرتی ہے۔ یہ نہ صرف لوگوں کی حفاظت کرتی ہے بلکہ ہماری جمہوریت کی بھی خدمت کرتی ہے۔ بھارت کے آزاد، غیرجانبدارانہ اور بڑے انتخابات پر نظر ڈالیے۔ ان انتخابات میں تقریباً 900 ملین ووٹ دہندگان کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ یہ آبادی شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں کی مجموعی آبادی کے برابر ہے۔ انتخابات میں تعاون کے لیے تقریباً 2.3 ملین پولیس اہلکاران کو تعینات کیا جاتا ہے۔ بھارت گوناگونیت اور جمہوریت کو اوپر اٹھانے کے معاملے میں دنیا کے لیے ایک کیس اسٹڈی ہے۔
دوستو،
لیگل ڈھانچوں، نظام اور زبانوں میں فرق کے باوجود، گذشتہ 99برسوں میں، انٹرپول نے عالمی سطح پر 195 ممالک کی پولیس تنظیموں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ اس حصولیابی کو تسلیم کرتے ہوئے، آج ایک یادگاری ٹکٹ اور سکہ جاری کیاگیا ہے۔
دوستو،
ماضی کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود، آج میں دنیا کو کچھ چیزوں کے بارے میں یاد دلانا چاہتا ہوں۔ دنیا کو متعدد ضرر رساں اور عالمی سطح کے خطرات درپیش ہیں۔ ان میں دہشت، گردی، بدعنوانی، منشیات کی غیر قانونی تجارت، غیرقانونی شکار اور منظم جرائم شامل ہیں۔ ان خطرات کے شکل بدلنے کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ جب خطرہ عالمی نوعیت کا ہو، تو جوابی کاروائی مقامی سطح پر نہیں کی جا سکتی! اب وقت آگیا ہے کہ دنیا ان خطرات کو شکست دینے کے لیے متحد ہو۔
دوستو،
بھارت دہائیوں سے سرحد پار کی دہشت سے نبردآزما ہے۔ دنیا کے اس خطرے سے واقف ہونے سے بھی پہلے ، ہم تحفظ و سلامتی کی قیمت جانتے تھے۔ ہزاروں افراد نے اس لڑائی میں اپنی قربانیاں دیں۔ لیکن دہشت گردی سے جنگ اب محض مادی میدانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ آن لائن بنیاد پرستی اور سائبر خطرات کے ذریعہ اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ایک بٹن کے کلک کر دینے سے ہی، ایک حملہ کیا جا سکتا ہے یا ایک مکمل سسٹم گھٹنوں کے بل گر سکتا ہے۔ ہر ملک ان کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔ لیکن آج ہم اپنی سرحدوں کے اندر جو کچھ کر رہے ہیں، وہ کافی نہیں ہے۔ بین الاقوامی حکمت عملیوں کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ پیشگی طور پر خطرات کا پتہ لگانے کا انتباہی نظام، نقل و حمل خدمات کا تحفظ، مواصلاتی بنیادی ڈھانچہ کی سلامتی، اہم بنیادی ڈھانچہ کی سلامتی ، تکنیکی اور تکنالوجی سے متعلق تعاون، انٹیلی جینس کا باہم تبادلہ، اور اسی طرح کے امور کو نئی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے۔
دوستو،
آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے بدعنوانی کو خطرہ کیوں بتایا۔ بدعنوانی اور مالی جرائم نے متعدد ممالک کے شہریوں کی فلاح و بہبود کو نقصان پہنچایا ہے۔ بدعنوان عناصر دنیا کے مختلف حصوں میں جرائم سے حاصل ہونے والی آمدنی کو جمع کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ یہ پیسہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جن سے یہ چھینا گیا ہے۔ اکثر یہ پیسہ دنیا کے غریب ترین افراد سے چھینا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہی پیسہ برے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی پیسہ دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے اہم وسائل میں سے ایک ہے۔ نوجوان زندگیاں برباد کرنے والی غیر قانونی منشیات سے لے کر انسانی اسمگلنگ تک، جمہوریت کو کمزور بنانے سے لے کر غیرقانونی ہتھیاروں کی فروخت تک، یہ پیسہ متعدد تباہ کن تنظیموں کو فراہم کرایا جاتا ہے۔ ہاں، ان سے نمٹنے کے لیے مختلف قانونی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ حالانکہ، یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری ان تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے تیز رفتاری سے کام کرے۔ بدعنوان عناصر، دہشت گردوں ، منشیات کی جرائم پیشہ تنظیموں، غیر قانونی شکار کرنے والے گینگ اور منظم جرائم کے لیے محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ایک علاقہ کے لوگوں کے خلاف اس طرح کے جرائم ، سب کے خلاف اور تمام انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نہ صرف ہماری موجودہ بلکہ مستقبل کی پیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو باہمی تعاون میں اضافہ کے لیے طریقہ کار اور پروٹوکول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں انٹرپول مفرور مجرمین کے لیے ریڈ کارنر نوٹس جاری کرنے کے عمل میں تیزی لاکر مدد کر سکتا ہے۔
دوستو،
ایک محفوظ و سلامت دنیا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب اچھی طاقتیں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں، تو مجرمانہ طاقتیں اپنا کام نہیں کر پاتیں۔
دوستو،
اس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں، میں آپ تمام مہمانوں سے ایک اپیل کرتا ہوں۔ نئی دہلی میں واقع نیشنل پولیس میمورئیل اور نیشنل وار میمورئیل کا دورہ کریں۔ آپ ان سورماؤں کو خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے بھارت کی سلامتی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ وہ مردو خواتین ہماری ہی طرح ، اپنے ملک کے لیے کچھ بھی کرگزرنے کے لیے تیار تھے۔
دوستو،
آیئے مواصلات، اشتراک اور باہمی تعاون کے ذریعہ جرائم، بدعنوانی اور دہشت گردی کو شکست دیں۔ مجھے امید ہے کہ 90ویں انٹرپول جنرل اسمبلی اس کے لیے ایک مؤثر اور کامیاب پلیٹ فارم ثابت ہوگی۔ ایک مرتبہ پھر، میں اس اہم پروگرام میں آپ سب کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
شکریہ۔