بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
ای سبھ کو، وِچّے-سِنا رئیتولو،
سودرا، سودری-منولکو، نمسکار-مولو۔
تلنگانہ کی گورنر ڈاکٹر تمیلی سائی سوندر راجن جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاون جناب کشن ریڈی جی، بھگونت کھوبا جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی بندی سنجے کمار جی، جناب وینکٹیشور نیتھا جی، دیگر معززین، بھائیو اور بہنو۔
راماگنڈم کی سرزمین سے پورے تلنگانہ کو احترام کے ساتھ میرا نمسکار! اور ابھی مجھے بتایا گیا اور میں ابھی ٹی وی اسکرین پر بھی دیکھ رہا تھا کہ اس وقت تلنگانہ کے 70 اسمبلی حلقوں میں،70 اسمبلی سیگمنٹ میں، ہزاروں کاشتکار بھائی بہن ، وہ بھی اس پروگرام میں ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ میں ان سبھی کسان بھائیوں اور بہنوں کا بھی خیرمقدم کرتا ہوں، ان کا استقبال کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آج 10 ہزار کروڑ روپئے سے زائد کے ترقیاتی پروجیکٹوں کا آغاز اور سنگ بنیاد تلنگانہ کے لیے ہوا ہے۔ یہ پروجیکٹس یہاں کھیتی اور صنعت، دونوں کو تقویت بہم پہچانے والے ہیں۔ فرٹیلائزر پلانٹ ہو، نئی ریل لائن ہو، شاہراہ ہو، ان سے صنعتوں کی بھی توسیع ہوتی ہے۔ ان پروجیکٹوں سے تلنگانہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، عوام الناس کی ایز آف لیونگ میں اضافہ ہوگا۔ ان تمام پروجیکٹوں کے لیے اہل وطن کو، تلنگانہ کے باشندگان کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
گذشتہ دو ڈھائی برسوں سے پوری دنیا کورونا وبائی مرض سے نبرد آزما ہے، دوسری جانب جو کشمکش جاری ہیں ، تناؤ چل رہے ہیں، عسکری کاروائیاں ہو رہی ہیں، اس کے نتائج بھی، اس کے اثرات بھی ملک اور دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن ان برعکس حالات کے درمیان آج ہم سبھی پوری دنیا میں ایک اور بات خاص طور پر سن رہے ہیں۔ دنیا کے تمام ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بھارت بہت جلد دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن کر، اس ملک میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تمام ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جتنی ترقی 90 کے بعد 30 میں ہوئی ہے، اتنی اب صرف کچھ ہی برسوں میں ہونے والی ہے۔ آخر اتنا غیر معمولی اعتماد آج دنیا کو، اقتصادی دنیا کے ماہرین کو اتنا یقین آج بھارت پر کیوں ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے بھارت میں گذشتہ 8 برسوں میں رونما ہوئی تبدیلی۔ گذشتہ8 برسوں میں ملک نے کام کرنے کے پرانے طور طریقے بدل ڈالے ہیں۔ ان 8 برسوں میں حکمرانی کو لے کر سوچ میں تبدیلی آئی ہے، نقطہ نظر تبدیل ہوا ہے۔ خواہ بنیادی ڈھانچہ ہو، خواہ سرکاری کام کاج ہوں، خواہ ایز آف ڈوئنگ بزنس ہو، ان تبدیلیوں کو ترغیب فراہم کر رہی ہیں بھارت کا اُمنگوں والا سماج، آج ترقی یافتہ بننے کی آرزو کے لیے، خوداعتمادی سے لبریز نیا بھارت دنیا کے سامنے ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ترقی ہمارے لیے 24 گھنٹے، ساتوں دن، 12 مہینے اور پورے ملک میں چلنے والا مشن ہے۔ ہم ایک پروجیکٹ کا آغاز کرتے ہیں، تو متعدد پروجیکٹوں پر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہم آج یہاں بھی دیکھ رہے ہیں۔ اور ہماری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ جس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد ہو، اس پر تیزی سے کام ہو، اور وہ تیزی سے مکمل ہو۔ راماگنڈم کا یہ فرٹیلائیزر کارخانہ اس کی ایک مثال ہے۔ سال 2016 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور آج اسے قوم کے نام وقف کر دیا گیا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
21ویں صدی کا بھارت، بڑے اہداف طے کرکے ، انہیں تیزی سے حاصل کرکے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اور آج جب اہداف بڑے ہوتے ہیں، تو نیا طریقہ کار اپنانا ہوتا ہے، نئے نظام وضع کرنے ہوتے ہیں۔ آج مرکزی حکومت پوری ایمانداری سے اسی کوشش میں مصروف عمل ہے۔ ملک کا فرٹیلائزر شعبہ بھی اس کا گواہ بن رہا ہے۔ گذشتہ دہائی میں ہم نے دیکھا ہے کہ ملک فرٹیلائزر کے لیے زیادہ تر غیر ممالک سے درآمد کرکے اسی پر منحصر رہتا تھا۔ یوریا کے مطالبات پورے کرنے کے لیے جو کارخانے لگے بھی تھے ، وہ بھی تکنالوجی پرانی ہونے کی وجہ سے بند ہو چکے تھے۔ جس میں راماگنڈم کا کھادکارخانہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی دقت تھی۔ اتنا مہنگا یوریا غیر ممالک سے آتا تھا، لیکن وہ کسان تک پہنچنے کے بجائے غیرقانونی کارخانوں میں چوری کرکے پہنچایا جاتا تھا۔ اس سے کاشتکاروں کو یوریا حاصل کرنے کے لیے ہی رات رات بھر قطاروں میں کھڑا رہنا پرٹا تھا اور کئی مرتبہ لاٹھیاں بھی جھیلنی پڑتی تھیں۔ 2014 سے پہلے ہر سال، ہر سیزن میں کسانوں کو یہی مسئلہ درپیش رہتا تھا۔
ساتھیو،
2014 کے بعد مرکزی حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ یوریا کی صد فیصد نیم کوٹنگ کر دی۔ اس سے یوریا کی کالابازاری رُک گئی۔ کیمیکل فیکٹری میں جو یوریا پہنچ جاتا تھا وہ بند ہو گیا۔ کھیت میں کتنا یوریا ڈالنا ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے بھی کسان کے پاس زیادہ وسائل دستیاب نہیں تھے، راستے نہیں تھے۔ اس لیے ہم نے کاشتکاروں کو سائل ہیلتھ کارڈ دینے کی پور ملک میں مہم چلائی۔ سائل ہیلتھ کارڈ ملنے سے کاشتکار کو یہ جانکاری حاصل ہوئی کہ اگر ہمیں پیداوار میں اضافہ کرنا ہے تو بلاوجہ یوریا کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے، اس کو مٹی کی فطرت کا پتہ چلنے لگا۔
ساتھیو،
ایک بہت بڑا کام ہم نے یوریا میں آتم نربھرتا کو لے کر شروع کیا۔ اس کے لیے ملک کے جو 5 بڑے کھاد کارخانے برسوں سے بند پڑے تھے، ان کو پھر سے شروع کرنا ضروری تھا۔ اب آج دیکھئے یوپی کے گورکھپور میں کھاد پیداوار شروع ہو چکی ہے۔ راماگنڈم کھاد کارخانے کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ جب یہ پانچوں کارخانیں شروع ہو جائیں گے تو ملک کو 60 لاکھ ٹن یوریا ملنے لگے گا۔ یعنی ہزاروں کروڑ روپئے غیر ممالک جانے سے بچیں گے اور کسانوں کو یوریا حاصل کرنے میں مزید آسانی ہوگی۔ راماگنڈم کھاد کارخانے سے تلنگانہ کے ساتھ ہی آندھرا پردیش، کرناٹک، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر کے کاشتکاروں کو بھی مدد ملے گی۔ اس پلانٹ کی وجہ سے اس کے آس پاس دوسرے کاروباری مواقع بھی پیدا ہوں گے، لاجسٹکس اور نقل و حمل سے وابستہ کام کھلیں گے۔ یعنی 6 ہزار کروڑ روپئے کے بقدر جو سرمایہ کاری مرکزی حکومت نے یہاں کی ہے ، اس سے کئی ہزار کروڑ کا فائدہ تلنگانہ کے نوجوانوں کو حاصل ہونے والا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ملک کے فرٹیلائزر شعبہ کو جدیدیت سے ہمکنار کرنے کے لیے ہم نئی تکنالوجی پر بھی اتنا ہی زور دے رہے ہیں۔ بھارت نے یوریا کی نینو تکنالوجی تیار کی ہے۔ ایک بوری یوریا سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے، وہ نینو یوریا کی ایک بوتل سے ہی ملنے والا ہے۔
ساتھیو،
کھاد میں آتم نربھرتا کتنی ضروری ہے، یہ ہم آج کی عالمی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور زیادہ بہتر طریقہ سے سمجھ رہے ہیں۔ کورونا آیا، لڑائی شروع ہوئی تو، دنیا میں فرٹیلائزر کی قیمت میں اضافہ رونما ہوا۔ لیکن ہم نے ان بڑھی ہوئی قیمتوں کا بوجھ اپنے کاشتکار بھائی بہنوں پر نہیں پڑنے دیا۔ یوریا کا ہر بیگ جو مرکزی حکومت غیر ممالک سے لاتی ہے وہ تقریباً ایک بوری، ایک بوری فرٹیلائزر باہر سے لاتے ہیں تو 2 ہزار روپئے میں خریدتے ہیں، بھارتی حکومت 2 ہزار روپئے دے کر لاتی ہے۔ لیکن کسانوں سے 2 ہزار روپئے نہیں لیتے ہیں۔ سارا خرچ بھارتی حکومت برداشت کرتی ہے، صرف 270 روپئے میں یہ فرٹیلائزر کی تھیلی کسان کو ملتی ہے۔ اسی طرح ڈی اے پی کا ایک بیگ بھی حکومت کو تقریباً 4 ہزار روپئے میں ملتا ہے۔ لیکن کسانوں سے 4 ہزار روپئے نہیں لیتے ہیں۔ اس ایک بیگ پر بھی حکومت، ایک ایک بیگ پر ڈھائی ہزار روپئے سے بھی زیادہ سبسڈی حکومت دیتی ہے۔
ساتھیو،
گذشتہ آٹھ برسوں میں کاشتکاروں کو سستی کھاد فراہم کرانے کے لیے ہی مرکزی حکومت کے یہ اعداد و شمار یاد رکھنا بھائیوں، اور لوگوں کو بتانا کہ آٹھ برسوں میں کسان پر کھاد کا بوجھ نہ بڑھے، اس کو سستی کھاد ملے، اس لیے ساڑھے نو لاکھ کروڑ روپئے یعنی تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپئے بھارتی حکومت خرچ کر چکی ہے۔ اس برس ہی مرکزی حکومت ڈھائی لاکھ کروڑ روپئے سے زائد کاشتکاروں کو سستی کھاد دینے کے لیے خرچ کرے گی۔ ڈھائی لاکھ کروڑ روپیہ۔ اس کے علاوہ ہماری حکومت پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت بھی تقریباً سوا 2 لاکھ کروڑ روپئے راست طور پر کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں منتقل کر چکی ہے۔ کاشتکاروں کے مفاد کو ترجیح دینے والی حکومت جب دہلی میں ہے تو کاشتکاروں کے لیے متعدد ایسے منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں، کام کرتے ہیں۔
ساتھیو،
دہائیوں سے ہمارے ملک کے کاشتکار کھاد سے جڑے ایک اور مسئلے سے پریشان تھے۔ دہائیوں سے کھاد کا ایسا بازار بن گیا تھا، جس میں طرح طرح کی کھادیں، طرح طرح کی کھاد کی برانڈ بازار میں فروخت ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے کسان کے ساتھ دھوکہ دہی بھی بہت ہوتی تھی۔ اب مرکزی حکومت نے اس سے بھی کاشتکاروں کو راحت دینے کی شروعات کی ہے۔ اب ملک میں یوریا کا صرف، صرف اور صرف ایک ہی برانڈ ہوگا، بھارت یوریا- بھارت برانڈ۔ اس کی قیمت بھی طے ہے اور کوالٹی بھی۔ یہ تمام تر کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کے کاشتکاروں، خصوصاً چھوٹے کاشتکاروں کے لیے کیسے ہم نظام میں اصلاح متعارف کرا رہے ہیں۔
ساتھیو،
ہمارے ملک میں ایک اور چنوتی کنکٹیویٹی کے بنیادی ڈھانچہ کی رہی ہے۔ آج ملک اس کمی کو بھی دور کر رہا ہے۔ ملک میں تمام ریاستوں میں ہائی وے، جدید ریلوے، ایئرپورٹ، آبی گزرگاہیں، اور انٹرنیٹ ہائی وے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اب اسے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان سے نئی توانائی حاصل ہو رہی ہے۔ آپ یاد کیجئے پہلے کیا ہوتا تھا؟ صنعتوں کے لیے خصوصی زون قرار دیے جاتے تھے۔ لیکن وہاں تک سڑک، بجلی، پانی جو بنیادی سہولتیں چاہئیں، وہ بھی پہنچنے میں کئی برس لگ جاتے تھے۔ اب اس طریقہ کار کو ہم تبدیل کر رہے ہیں۔ اب بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں پر تمام حصہ دار اور پروجیکٹ سے جڑی تمام تر ایجنسیاں ایک ساتھ مل کر، ایک طے شدہ حکمت عملی پر کام کرتے ہیں۔ اس سے پروجیکٹوں کے لٹکنے-بھٹکنے کے امکانات ختم ہو رہے ہیں۔
ساتھیو،
بھدرادری کوتّاگوڈیم یہ ضلع اور کھمم ضلع کو جوڑنے والی نئی ریل لائن آج آپ کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ اس ریل لائن سے یہاں کے مقامی لوگوں کو تو فائدہ ہوگا ہی، پورے تلنگانہ کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔اس سے تلنگانہ کے بجلی کے شعبہ کو فائدہ ہوگا، صنعتوں کو فائدہ ہوگا اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ مسلسل کوششوں کی وجہ سے 4 برسوں میں یہ ریل لائن بن کر بھی تیار ہے اور برق کاری بھی ہوچکی ہے۔ اس سے کوئلہ کم خرچ میں بجلی کارخانے تک پہنچ سکے گا اور آلودگی بھی کم ہوگی۔
ساتھیو،
آج جن 3 شاہراہوں کو چوڑا کرنے کا کام شروع ہوا ہے، اس سے کوئلہ بیلٹ، صنعتی بیلٹ اور گنا کاشتکاروں کو راست طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔ یہاں تو ہلدی کی پیداوار بڑھانے میں بھی ہمارے کاشتکار بھائی بہن مصروف ہیں۔ گنا کاشتکار ہوں، ہلدی پیدا کرنے والے کاشتکار ہوں، یہاں سہولتیں بڑھیں گی تو ان کے لیے اپنی پیداوار کا نقل و حمل آسان ہوگا۔ اسی طرح کوئلے کی کانوں اور بجلی کارخانوں کے درمیان بھی سڑک چوڑی ہونے سے سہولت ہوگی، وقت کم لگے گا۔ حیدرآباد – وارنگل صنعتی گلیارہ، ککاٹیا میگا ٹیکسٹائل پارک کی چوڑی سڑکوں سے کنکٹیویٹی، ان کی قوت میں بھی اضافہ ہوگا۔
ساتھیو،
جب ملک ترقی کرتا ہے، ترقیاتی کاموں میں تیزی آتی ہے، تو کئی مرتبہ سیاسی فائدے کے لیے، کچھ بددماغ لوگ، کچھ طاقتیں افواہیں پھیلانا شروع کر دیتی ہیں، لوگوں کو بھڑکانے لگتی ہیں۔ تلنگانہ میں ایسی ہی افواہیں آج کل ’سنگارینی کوئلریز کمپنی لمیٹڈ- ایس سی سی ایل‘ اور مختلف کوئلہ کانوں کو لے کر اڑائی جا رہی ہیں۔ اور میں نے سنا ہے، حیدرآباد سے اس کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اس میں نئے نئے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔ میں آج جب آپ کے درمیان آیا ہوں، تو میں کچھ جانکاری آپ کو دینا چاہتا ہوں، کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ افواہ پھیلانے والے کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کا یہ جھوٹ پکڑا جائے گا۔ سب سے بڑا جھوٹ سمجھئے اور یہاں صحافی حضرات بیٹھے ہیں، ذرا باریکی سے دیکھ لیں اس کو۔ ایس سی سی ایل میں 51 فیصد حصہ داری ، یہ تلنگانہ کی ریاستی حکومت کی ہے، جبکہ بھارتی حکومت کی حصہ داری محض 49 فیصد ہے۔ ایس سی سی ایل کی نجکاری سے متعلق کوئی بھی فیصلہ مرکزی حکومت اپنی سطح پر کر ہی نہیں سکتی ہے، 51 فیصد ان کے پاس ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر دوہراؤں گا ایس سی سی ایل کی نجکاری کی کوئی تجویز مرکزی حکومت کے پاس زیر غور نہیں ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کا کوئی ارادہ ہے۔ اور اس کے لیے، میں اپنے بھائی بہنوں سے گذارش کرتا ہوں کہ کسی افواہ پر ذرا بھی توجہ نہ دیں۔ یہ جھوٹ کے کاروبار کو حیدرآباد میں ہی رہنے دیں۔
ساتھیو،
ہم سبھی نے، ملک میں کوئلہ کانوں کو لے کر ہزاروں کروڑ روپئے کے گھوٹالے ہوتے دیکھے ہیں۔ ان گھوٹالوں میں ملک کے ساتھ ہی مزدوروں، غریبوں اور ان علاقوں کا نقصان ہوا، جہاں یہ کانیں تھیں۔ آج ملک میں کوئلے کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے کوئلہ کانوں کی مکمل شفافیت کے ساتھ نیلامی کی جا رہی ہے۔ جس علاقہ سے معدنیات نکل رہی ہیں، اس کا فائدہ وہاں رہنے والے لوگوں کو دینے کے لیے ہماری حکومت نے ڈی ایم ایف یعنی ڈسٹرکٹ منرل فنڈ بھی بنایا ہے۔ اس فنڈ کے تحت بھی ہزاروں کروڑ روپئے ریاستوں کو جاری کیے گئے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
ہم ’سب کا ساتھ، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے اصول پر چلتے ہوئے تلنگانہ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ کی تیز ترقی کے لیے آپ سبھی کا آشیرواد ہمیں ملتا رہے گا، اسی یقین کے ساتھ پھر ایک مرتبہ آپ کو ان متعدد ترقیاتی کاموں کی بہت بہت مبارکباد۔ میرے کسان بھائیوں کو خصوصی مبارکباد اور اتنی بڑی تعداد میں آپ لوگ آئے، حیدرآباد میں کچھ لوگوں کو آج نیند نہیں آئے گی۔ اتنی بڑی تعداد میں آنے کے لیے میں آپ کا بہت بہت شکرگزار ہوں۔ شکریہ۔
میرے ساتھ بولئے۔ بھارت ماتا کی جے۔ دونوں مٹھی بند کرکے پوری طاقت سے بولئے۔
بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
شکریہ جی!