’’متعدد پیڑھیوں کو محبت و جذبات کا تحفہ دینے والی لتا دیدی سے ایک بہن کی محبت حاصل کرنے سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے ‘‘
’’میں اس ایوارڈ کو تمام اہل وطن کو وقف کرتا ہوں۔ جس طرح لتا دیدی کا تعلق عوام سے تھا، اسی طرح مجھے دیا گیا یہ ایوارڈ بھی عوام کے لیے ہے‘‘
’’انہوں نے آزادی سے قبل بھارت کو اپنی آواز دی، اور اِن 75 برسوں کا بھارت کا سفر بھی ان کی آواز سے مربوط رہا ہے‘‘
’’لتا جی نے موسیقی کی عبادت کی ،تاہم حب الوطنی اور قوم کی خدمت کے جذبے کو بھی ان کے نغموں سے ترغیب حاصل ہوئی‘‘
’’لتا جی ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘کا ایک پرترنم اظہار تھیں‘‘
’’لتاجی کے سُروں نے پورے ملک کو متحد کیا۔ عالمی سطح پر بھی، وہ بھارتی ثقافت کی سفیر تھیں‘‘

سری سرسوتے نمہ!

وانی پرمپرا کے مقدس اجلاس میں ہمارے ساتھ موجود مہاراشٹر کے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی، مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر جناب دیویندر فڈنوس جی، مہاراشٹر حکومت میں وزیر جناب سبھاش دیسائی جی، محترم اوشا جی، آشا جی، ادی ناتھ منگیشکر جی، ماسٹر دیناناتھ میموریل فاؤنڈیشن کے سبھی اراکین، موسیقی اور آرٹ کے سبھی معزز ساتھیوں، دیگر معززین، خواتین و حضرات!

اس اہم تقریب میں محترم ہردئے ناتھ منگیشکر جی کو بھی آنا تھا لیکن جیسا کہ ابھی آدی ناتھ جی نے بتایا طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہاں نہیں آپائے۔ میں ان کی جلد صحتیابی کی دعا کرتا ہوں۔

ساتھیو،

میں اپنے آپ کو بہت مناسب یہاں نہیں  سمجھ رہا ہوں، کیونکہ مجھے موسیقی جیسے گہرے موضوع کا جانکار تو میں بالکل نہیں ہوں، لیکن ثقافتی سمجھ بوجھ سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ موسیقی ایک سادھنا بھی ہے، اور احساس بھی ہے۔ جو ظاہر نہیں ہے اسے ظاہر کر دے – وہ لفظ ہے۔ جو اظہار میں توانائی، شعور کو منتقل کرتا  ہے – وہ آواز ہے۔ اور جو شعور کو جذبات اور احساس سے بھر دیتا ہے، اسے تخلیق اور احساس کی انتہا تک پہنچاتا ہے – وہ موسیقی ہے۔ آپ بے حرکت بیٹھے ہوں، لیکن موسیقی کی ایک آواز آ پ کی آنکھوں سے آنسو بہا سکتی ہے، یہی طاقت ہے۔ لیکن موسیقی کی آواز آپ کو لاتعلقی کا احساس دلا سکتی ہے۔ موسیقی  آپ میں بہادری کا رس بھر دیتی ہے۔ موسیقی آپ کو ماں اور محبت کا احساس دلا سکتی ہے۔ موسیقی آپ کو حب الوطنی اور فرض شناسی کے عروج پر لے جاسکتی ہے۔ ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہم نے موسیقی کی یہ قوت،  اس طاقت کو لتا دیدی کی شکل میں دیکھا۔ ہمیں اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور منگیشکر خاندان ، نسل در نسل اس یگیہ میں اپنی قربانیاں دیتا رہا ہے اور میرے لیے یہ تجربہ اور بھی کہیں بڑھ کر رہا ہے۔ ابھی کچھ سرخیاں ہریش جے نے بتا ئیں ، لیکن میں سوچ رہا تھا کہ دیدی سے میرا ناطہ کب سے کتنا پرانا ہے۔ دور جاتے – جاتے یاد آ رہا تھا کہ شاید چار ساڑھے چار دہائیاں ہوئی ہوں گی، سدھیرفڑکے جی نے مجھ سے تعارف کروایا تھا۔ اور تب سے لے کر  آج تک اس خاندان کے ساتھ بے پناہ محبت، ان گنت واقعات میری زندگی کا حصہ بن گئے۔ میرے لیے لتا دیدی  سُر سامراگی کے ساتھ ساتھ اور جس کو کہتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہوتا ہے، وہ میری بڑی بہن تھیں۔ نسلوں کو محبت اور جذبات کا تحفہ  دینے والی لتا دیدی انہوں نے تو مجھے ہمیشہ ان کی طرف سے ایک بڑی بہن جیسا بے پناہ پیار ملا ہے، میں سمجھتا ہوں اس سے بہتر زندگی کیا ہوسکتی ہے۔ شاید بہت دہائیوں کے بعد یہ پہلا راکھی کا تہوار جب آئے گا، دیدی نہیں ہوں گی۔ عام طور پر ، کسی  تہنیتی تقریب میں جانے کا، اور جب ابھی ہریش جی بھی بتا رہے تھے، کوئی  اعزاز حاصل کرنا، اب میں تھوڑا ان موضوعات میں دور ہی رہا ہوں ، میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتا ہوں۔ لیکن ، ایوارڈ جب لتا دیدی جیسی بڑی بہن کے نام سے ہو، تو یہ میرے لیے ان کے اپنے پن اور منگیشکر خاندان کا مجھ پر جو حق ہے، اس کی وجہ میرا یہاں آنا ایک طرح سے میری ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اور یہ اس محبت  کی علامت ہے اور جب دیناناتھ جی کا پیغام آیا، میں نے میرے کیا پروگرام ہیں،میں کتنا مصروف ہوں، کچھ پوچھا نہیں، میں نے کہا بھیاپہلے ہاں کر دو۔منع کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے جی! میں اس ایوارڈ کو سبھی ہم وطنوں کے لیے وقف کرتا ہوں۔ جس طرح لتا دیدی  کا تعلق لوگوں سے تھا، اسی طرح ان کے نام سے مجھے دیا  گیا یہ ایوارڈ بھی لوگوں کا ہے۔ لتا دیدی سے اکثر میری بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ وہ خود سے بھی اپنے پیغام اور آشرواد بھیجتی رہتی تھیں۔ ان کی ایک بات شاید ہم سب کو کام آسکتی ہے جسے میں بھول نہیں سکتا، میں ان کی بہت عزت کرتا تھا، لیکن وہ کیا کہتی تھیں، وہ ہمیشہ کہتی تھیں –’’انسان اپنی عمر سے نہیں، اپنے کام سے بڑا ہوتا ہے۔ جو ملک کے لیے  جتنا کرے، وہ اتنا ہی بڑا ہے۔‘‘ کامیابی کی چوٹی پر اس طرح کی سوچ سے ہمیں انسان کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ لتا دیدی عمر سے بھی بڑی تھیں، اور کرم سے بھی بڑی تھیں۔

ہم سبھی نے جتنا وقت لتا دیدی کے ساتھ گزارا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ وہ سادگی کی مظہر تھیں۔ لتا دیدی نے موسیقی میں وہ مقام حاصل کیا کہ لوگ نہیں ماں سرسوتی کا  مظہر مانتے تھے۔ ان کی آواز نے قریباً 80 سالوں تک موسیقی کی دنیا پر اپنی چھاپ چھوڑی تھی۔  گراموفون سے شروع کریں ، تو گراموفون سے کیسیٹ، پھر سی ڈی، پھر ڈی وی ڈی، اور پھر پین ڈرائیو، آن لائن میوزک اور ایپس تک، موسیقی  اور دنیا کتنا عظیم سفر لتا جی کے ساتھ مل کر طے کیا ہے۔ سنیما کی 5-4 نسلوں کو انہوں نے اپنی آواز دی۔ملک نے انہیں بھارت رتن جیسا اعلیٰ ترین اعزاز دیا اور ملک کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ پوری دنیا انہیں آواز کی ملکہ مانتا تھا۔ لیکن وہ خود کو آواز کی ملکہ نہیں، بلکہ متلاشی سمجھتی تھیں۔  اور یہ ہم نے کتنے ہی لوگوں سے سنا ہے کہ وہ جب بھی کسی گانے کی ریکارڈنگ کے لیے جاتی تھیں ، تو چپل باہر اتار دیتی تھیں۔ موسیقی کی سادھنا اور اشور کی سادھان ان کے لیے ایک ہی تھا۔

ساتھیو،

آدی شنکر کے ادویت کے نظریہ کو ہم لوگ سننے سمجھنے کی کوشش کریں تو کبھی – کبھی الجھن میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ لیکن میں جب آدی شنکر کے ادویت کے پرنسپل کی طرف سوچنے کی کوشش کرتا ہوں تو اگر اس کو عام لفظوں میں مجھے کہنا ہے اس ادویت کے پرنسپل کو ایشور کا تلفظ بھی لفظ کے بغیر ادھوری ہے۔ ایشور میں آواز موجود ہے۔ جہاں آواز ہے، وہیں مکملیت ہے۔ موسیقی ہمارے دل پر ، ہمارے  ضمیر کو متاثر کرتا ہے۔ اگر اس کی اصلیت لتا جی کی طرح پاک ہے، تو وہ پاکیزگی اور جذبات بھی اس موسیقی میں گھل جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ حصہ ہم سب کے لیے اور خصوصاً نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے ۔

ساتھیو،

لتا جی کی جسمانی سفر ایک ایسے وقت میں مکمل ہوا جب ہمارا ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہاہے۔ انہوں نے آزادی کے پہلے سے ہندوستان کو آواز دی، اور ان 75 سالوں کی ملک کے سفر ان کے آواز سے جڑی رہی۔ اس اعزاز سے لتا جی کے والد دیناناتھ منگیشکر  جی کا نام بھی جڑا ہے۔ منگیشکر خاندان کا ملک کے لیے جو  شراکتداری رہی ہے، اس کے لیے ہم سبھی ہم وطن ان کے قرض دار ہیں۔ موسیقی کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کی جو  شعور لتا دیدی کے اندر تھا، اس کا ذریعہ ان کے والد ہی تھے۔  آزادی کی لڑائی کے دوران شملہ میں بریٹش وائسرائے کے پروگرم میں دیناناتھ جی نے ویر ساورکر کا لکھا گیت گایا تھا۔ بریٹش وائسرائے کے سامنے، یہ دیناناتھ جی ہی کر سکتے ہیں اور موسیقی میں ہی کر سکتے ہیں۔ اور اس کی تھیم پر مظاہرہ بھی کیا تھا اور ویر ساورکر جی نے یہ موسیقی انگریزی حکومت کو چیلنج دیتے ہوئے لکھا تھا۔ یہ احساس، یہ حب الوطنی ، دیناناتھ جی نے اپنے خاندان کو وراثت میں دی تھی۔ لتا جی نےشاید ایک بار بتایا تھا کہ پہلے وہ سماجی خدمات کے میدان میں جانا چاہتی تھیں۔ لتا جی نے موسیقی کو اپنی عبادت بنایا لیکن حب الوطنی اور قومی خدمت کی تحریک بھی ان کے گیتوں سے ملی۔ چھترپتی شیواجی مہاراج پر ویر ساورکر جی کا لکھا گیت – ’ہندو نرسنہا‘ ہو  ، یا سمرتھ گرو رام داس جی کے پد ہوں۔ لتا جی نے شیو کلیان راجا کی ریکارڈنگ کے ذریعے انہیں امر کر دیا۔  ’اے میرے وطن کے لوگوں‘ اور ’جے ہند کی سینا‘ یہ  بھاؤ سطریں ہیں، جو ملک کے لوگوں کی زباں پر امر کر گئیہیں۔ ان کی زندگی سے جڑی ایسے کتنے ہی پہلوئیں ہیں! لتا دیدی اور ان کے خاندان کے تعاون کو بھی امرت مہوتسو میں ہم لوگوں تک لے کر جائیں، یہ ہمارا فرض ہے۔

ساتھیو،

آج ملک ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت، کے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ لتا جی ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کی  میٹھی پیشکش کی طرح تھیں۔ آپ دیکھیے، انہوں نے ملک کی 30 سے زیادہ زبانوں میں ہزاروں گیت گائے۔ ہندی ہو مراٹھی ، سنسکرت ہو یا دوسری ہندوستانی  زبانیں، لتا جی کی آواز  ہر زبان میں ایک جیسی ہی ہیں۔ وہ ہر ریاست، ہر شعبے میں لوگوں کے من میں بسی ہوئی ہیں۔ ہندوستانیت کے ساتھ موسیقی کیسے لافانی ہوسکتی ہے، یہ انہوں نے کر کے دکھایا ہے۔ انہوں نے بھگود گیتا کی تلاوت بھی کی، اور تلسی ، میرا، سنت گیانیشور اور نرسی مہتا کے گیتوں کو بھی سماج کے دل و دماغ میں گھولا۔ رام چرت مانس کی چوپائیوں سے لے کر باپو کے سب سے پسندیدہ بھجن ’ویشنو جن تو تیرے کہیے‘ ، تک سب کچھ لتا جی کی آواز سے پھر سے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے تیروپتی دیو استھانم کے لیے گیتوں اور منتروں کا ایک سیٹ ریکارڈ کیا تھا، جو آج بھی ہر صبح وہاں بجتا ہے۔ یعنی، ثقافت سے لے کر عقیدے تک، مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، لتا جی کی دھنوں نے پورے ملک کو متحد کرنے کا کام کیا ہے۔  دنیا میں بھی، وہ ہمارے ہندوستان کی ثقافتی سفیر تھیں۔ ویسے ہی ان کی ذاتی زندگی بھی تھی۔ پنے میں انہوں نے اپنی کمائی اور دوستوں کی مدد سے ماسٹر دیناناتھ منگیشکر اسپتال بنوایا جو آج بھی غریبوں کی خدمت کر رہا ہے  اور ملک میں شاید بہت کم ہی لوگوں تک یہ بات پہنچی ہوگی، کورونا کے وقت ملک کی جو انہیں منتخب اسپتالیں، جنہوں نے سب سے زیادہ غریبوں کے لیے کام کیا، اس میں پنے کی منگیشکر اسپتال کا نام ہے۔

ساتھیو،

آج آزادی کا امرت مہوتسو میں ملک اپنے ماضی کو یاد کر رہا ہے، اور ملک مستقبل کے لیے نئے عہد کر رہا ہے۔ ہم دنیا کے سب سے بڑے اسٹارٹ اپس ایکو سسٹم میں سے ایک ہیں۔ آج بھارت ہر شعبے میں بااختیار بنے کی طرف گامزن ہے ، ترقی کا یہ سفر ہمارے عزائم کا حصہ ہے۔ لیکن، ترقی کا ہندوستان کا بنیادی نظریہ ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔ ہمارے لیے ترقی کا معنی ہے – ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس۔‘ سب  کے ساتھ اور سب کے لیے ترقی کے اس  جذبے میں ’واسودھیو کٹمبکم‘ کی روح بھی شامل ہے۔ پوری دنیا کی ترقی، پوری انسانیت کی فلاح وہ بہبود محض مادی طاقت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے – انسانی اقدار! اس کے لیے ضروری ہے۔ روحانی شعور! یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان یوگا اور آیوروید سے لے کر ماحولیاتی تحفظ تک کے موضوعات پر دنیا کو سمت دے رہا ہے۔  میں مانتا ہوں، ہندوستان کے اس تعاون کا ایک اہم حصہ ہمارا ہندوستانی موسیقی بھی ہے۔ یہ ذمہ داری آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اپنی اس وراثت کو انہیں اقدار کے ساتھ زندہ رکھیں، اور آگے بڑھائیں، اور عالمی امن کا ذریعہ بنائیں، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔  مجھے پورا یقین ہے، موسیقی کی دنیا سے جڑے آپ سبھی لوگ اس ذہ داری کو نبھائیں گے اور ایک نئے ہندوستان کو سمت دیں گے۔  اسی یقین کے ساتھ، میں آپ سبھی کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، منگیشکر خاندان کا بھی میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے دیدی کے نام سے اس پہلے ایوارڈ کے لیے مجھے منتخب کیا۔  لیکن ہریش جی جب اعزاز نامہ پڑھ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کئی بار پڑھنا پڑے گا اور پڑھ کر کے مجھے نوٹ بنانے پڑیں گے کہ ابھی مجھے اس میں سے کتنا کتنا پانا باقی ہے،  ابھی ابھی میرے میں کتنی کتنی کمیاں ہیں، اس کو پورا میں کیسے کروں! دیدی کے آشرواد سے اور منگیشکر خاندان کی محبت سے مجھ میں جو کمیاں ہیں، ان کمیوں کو آج مجھے اعزاز نامہ کے ذریعے پیش کیا ہے۔ میں ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔

بہت بہت شکریہ!

نمسکار!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...

Prime Minister Shri Narendra Modi paid homage today to Mahatma Gandhi at his statue in the historic Promenade Gardens in Georgetown, Guyana. He recalled Bapu’s eternal values of peace and non-violence which continue to guide humanity. The statue was installed in commemoration of Gandhiji’s 100th birth anniversary in 1969.

Prime Minister also paid floral tribute at the Arya Samaj monument located close by. This monument was unveiled in 2011 in commemoration of 100 years of the Arya Samaj movement in Guyana.