میں یہاں وزیر اعظم کی حیثیت سے نہیں بلکہ خاندان کے ایک فرد کے طور پر ہوں جس کا اس خاندان سے چار نسلوں سے وابستگی ہے’’
‘‘داؤدی بوہرہ برادری بدلتے وقت اور ترقی کے مطابق ڈھلنے کے پیمانے پر کھری اتری ہے الجامعۃ السیفیہ جیسا ادارہ اس کی زندہ مثال ہے’’
‘‘ملک امرت کال کی قراردادوں کو نئی قومی تعلیمی پالیسی جیسی اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے’’
‘‘ہندوستانی اخلاقیات کے ساتھ جدید تعلیمی نظام ملک کی ترجیح ہے’’
‘‘تعلیم کی بنیادی ساختیات کا پیمانہ اور اس کی رفتار اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ہندوستان دنیا کو تشکیل دینے والے نوجوان ذہانت کی آماجگاہ بننے جا رہا ہے’’
‘‘ہمارے نوجوان حقیقی دنیا کے مسائل سے نمٹنے کو تیار ہیں اور سر گرم طور پر حل تلاش کر رہے ہیں’’
‘‘آج ملک روزگار فراہم کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہے اور اعتماد کا نظام قائم کیا جا رہا ہے’’
‘‘ہندوستان جیسے ملک کے لئے ترقی اور ورثہ یکساں طور پر اہم ہیں’’

عزت  مآب سیدنا مفضل جی، مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے جی، نائب وزیر اعلی دیویندر جی، اس پروگرام میں موجود دیگر تمام معززین!

آپ سب کے درمیان آنا میرے لیے اپنےخاندان میں آنے کے مترادف ہے۔ اور یہ کہ میں نے آج آپ کی ویڈیو دیکھی ہے،اسے دیکھنے کے بعد مجھے ایک شکایت ہے اور میں چاہوں گا کہ آپ اس میں اصلاح کریں، آپ نے باربار اس میں عزت مآب وزیر اعلیٰ اور عزت مآب وزیر اعظم کہا ہے، میں آپ کے خاندان کا فرد ہوں، نہ میں یہاں کا وزیر اعظم ہوں  نہ میں وزیر اعلیٰ ہوں اور شاید جو مجھے  خوش قسمتی ملی  ہے وہ بہت کم لوگوں کو  نصیب ہوا ہے ۔ میں اس خاندان سے 4 نسلوں سے وابستہ ہوں، 4 نسلیں اور چاروں نسلیں میرے گھر آئی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو ایسا نصیب ہوتا ہے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ فلم میں جو بار بار وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم ہے۔ میں  تو آپ کے خاندان کا فرد ہوں اور جب بھی مجھے خاندان کے فرد کے طور پر آنے کا موقع ملا ہے میری خوشی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کوئی بھی برادری، کوئی بھی معاشرہ یا تنظیم، اس کی پہچان اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ وقت کے مطابق اپنی موزونیت کو کتنا برقرار رکھتی ہے۔ وقت کے ساتھ تبدیلی اور ترقی کے اس امتحان میں داؤدی بوہرہ برادری نے ہمیشہ خود کو سچا ثابت کیا ہے۔ آج الجامعۃ السیفیہ جیسے اہم تعلیمی مرکز کی توسیع اس کی زندہ مثال ہے۔ میں تنظیم سے وابستہ ہر فرد کو ممبئی برانچ شروع کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں اور 150 سال پرانا خواب پورا ہواہے، آپ نے اسے پورا کیا ہے، میں آپ کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

داؤدی بوہرہ برادری سے میرا رشتہ کتنا پرانا ہے، شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جسے یہ معلوم نہ ہو۔ میں دنیا میں کہیں بھی  گیا  ، وہ پیار یعنی ایک طرح سے برستا رہتا ہے۔ اور  میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں۔ میں سیدنا صاحب  غالباً  ان کی عمر 99 سال تھی، میں ایسے ہی  عقیدت کے ساتھ  چلا گیا ، 99 سال کی عمر میں وہ بچوں کو پڑھا رہے تھے، وہ واقعہ آج بھی مجھے بہت ترغیب دیتا ہے، نئی نسل کی تربیت کا سیدنا صاحب کاکیا عزم تھا؟ 99 سال کی عمر میں بھی وہ  بچوں کو بیٹھ کر پڑھانا  اور میں سمجھتا ہوں کہ 800-1000 بچے ایک ساتھ پڑھ  رہے تھے۔ وہ منظر ہمیشہ میرے دل کو متاثر کرتا ہے۔ گجرات میں رہتے ہوئے، ہم نے ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بہت سی تخلیقی کوششوں کو ایک ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ ہم سیدنا صاحب کا صد سالہ جشن منا رہے تھے۔ اور سورت میں ہمارا ایک بہت  بڑا جلسہ تھا، میں بھی وہاں تھا۔ اس میں سیدنا صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم بتاؤ میں کیا کام کروں، میں نے کہا میں کون ہوتا ہوں  آپ کو کام بتانے والا، لیکن ان کا بڑا اصرار تھا، تو میں نے کہا کہ دیکھئے، گجرات میں ہمیشہ پانی کا بحران رہتا ہے، آپ کو اس میں کچھ کرنا چاہیے۔، اور آج بھی میں ایک بات کہتا ہوں کہ اتنے سالوں کے بعد بھی بوہرہ برادری کے لوگ پانی کی بچت کے کام میں دل و جان سے لگے ہوئے ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ غذائی قلت کے خلاف لڑائی سے لے کر پانی کے تحفظ کی مہم تک، سماج اور حکومت کیسے ایک دوسرے کی طاقت بن سکتے ہیں، ہم نے مل کر یہ کیا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اور خاص طور پر حضرت سیدنا محمد برہان الدین صاحب سے جب بھی مجھے گفتگو کا موقع ملا ہے، ان کی سرگرمی، ان کا تعاون ایک طرح سے میرے لیے رہنمائی کا باعث رہا ہے۔ مجھے بہت توانائی ملتی تھی۔ اور جب میں گجرات سے دہلی گیا توآپ نے تخت سنبھالا، وہ محبت اب بھی برقرار ہے، وہ سلسلہ جاری ہے۔ عزت مآب ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین صاحب اور آپ سب نے مجھے اندور کے پروگرام میں جو پیار دیا وہ میرے لیے بہت انمول ہے۔

ساتھیوں،

ملک میں ہی نہیں، جیسا کہ میں نے کہا، میں بیرون ملک بھی جاتا ہوں، تو میرے بوہرہ بھائی اور بہنیں، اگر صبح 2 بجے  لینڈ کریں تو 2-5 فیملی تو آئے ہی  ایئرپورٹ پر ، میں ان سے کہتا   کہ آپ اتنی سردی  میں کیوں پریشان ہوتے ہیں ، تو بولے نہیں ، آپ آئے ہیں تو ہم آگئے ۔  وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں، کسی بھی ملک میں کیوں نہ ہوں، ہندوستان کے لیے ان کی فکر اور ہندوستان کے لیے محبت ان کے دل میں ہمیشہ نظر آتی تھی۔ آپ سب کے یہ جذبات، آپ کی یہ محبت مجھے بار بار آپ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔

ساتھیوں،

کچھ کوششیں اور کچھ کامیابیاں ایسی ہیں کہ ان کے پیچھے کئی دہائیوں کے خواب ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ممبئی برانچ کی شکل میں الجامعۃ السیفیہ کی توسیع عشروں پہلے حضرت سیدنا عبدالقادر نعیم الدین صاحب کا خواب تھا۔ اس وقت ملک غلامی کے دور میں تھا۔ تعلیمی میدان میں اتنا بڑا خواب اپنے آپ میں بڑی بات تھی۔ لیکن جو خواب صحیح سوچ سے دیکھے جاتے ہیں وہ پورے  ہوکر رہتے ہیں۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے امرت کال کی طرف سفر شروع کر رہا ہے،  تو تعلیمی میدان میں بوہرہ برادری کے اس تعاون کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور جب آزادی کے 75 سال  کو یاد  کرتا ہوں تو میں ایک بات کا ذکر ضرور کروں گا اور میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ سورت یا ممبئی  آئیں، ایک بار ڈانڈی ضرور آئیں، ڈانڈی یاتر مہاتما گاندھی کے ذریعہ آزادی کا ایک نقطہ عروج تھا۔ لیکن میرے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈانڈی یاترا  میں نمک ستیہ گرہ سے پہلے گاندھی جی آپ کے گھر ڈانڈی میں ٹھہرے تھے، اور جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو میں نے آپ  سے پرارتھنا کی ، میں نے سیدنا صاحب سے کہا سیدنا صاحب  میرے دل ایک بڑی خواہش ہے۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر، وہ بڑا بنگلہ سمندر کے سامنے ہے، وہ پورا بنگلہ مجھے  دے دیا اور آج ڈانڈی یاترا کی یاد میں وہاں ایک خوبصورت یادگار بنائی گئی ہے، سیدنا صاحب کی وہ یادیں ڈانڈی کے ساتھ امر ہو چکی ہیں۔ آج ملک میں نئی ​​قومی تعلیمی پالیسی جیسی اصلاحات کے ساتھ یہاں بہت سے پرانے اور موجودہ وائس چانسلر بیٹھے ہیں، وہ سب میرے  ساتھی رہے ہیں۔ امرت  کال میں جس عہد کو لے کر ہم آگے بڑھ رہے ۔ خواتین اور بیٹیوں کو جدید تعلیم کے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ الجامعۃ السیفیہ بھی اسی مشن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ آپ کا نصاب بھی جدید تعلیم کے مطابق اپ گریڈ رہتا ہے اور آپ کی سوچ بھی پوری طرح اپ ڈیٹ رہتی ہے۔ خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اس ادارے کا تعاون سماجی تبدیلی کو ایک نئی توانائی دے رہا ہے۔

ساتھیوں،

تعلیم کے میدان میں ہندوستان کبھی نالندہ اور تکشیلا جیسی یونیورسٹیوں کا مرکز تھا۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اگر ہمیں ہندوستان کی شان کو واپس لانا ہے تو ہمیں تعلیم کی وہ شان بھی واپس لانی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستانی طرز پر ڈھالا گیا جدید تعلیمی نظام ملک کی ترجیح ہے۔ اس کے لیے ہم ہر سطح پر کام کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، پچھلے 8 سالوں میں ریکارڈ تعداد میں یونیورسٹیاں بھی کھلی ہیں۔ میڈیکل ایجوکیشن جیسے شعبے میں جہاں نوجوانوں کا رجحان  بھی ہے اور ملک کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ہر ضلع میں میڈیکل کالج کھول رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ 2004 سے 2014 کے درمیان ملک میں 145 میڈیکل کالج کھولے گئے۔ جبکہ 2014 سے 2022 کے درمیان 260 سے زائد میڈیکل کالج کھولے جا چکے ہیں۔ پچھلے 8 سالوں میں ملک میں ہر ہفتے ایک یونیورسٹی اور دو کالج کھلے ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے۔ یہ رفتار اور پیمانہ اس بات کا گواہ ہے کہ ہندوستان اس نوجوان نسل کا پول بننے جا رہا ہے، جو دنیا کے مستقبل کو سمت دے گا۔

ساتھیوں،

مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے کہ تعلیم ہمارے اردگرد کے حالات کے مطابق ہونی چاہیے، تب ہی اس کی اہمیت باقی رہ سکتی ہے۔ اسی لیے ملک نے تعلیمی نظام میں ایک اور اہم تبدیلی کی ہے۔ یہ تبدیلی تعلیمی نظام میں مقامی زبان کو اہمیت دے رہی ہے۔ اب ہم دیکھ رہے تھے کہ ہمارے دوستوں نے گجراتی میں شاعری کے ذریعہ زندگی کی اقدار پر جس طرح گفتگو کی، ایک گجراتی بولنے والا ہونے کے ناطے میں اس جذبے کو کئی الفاظ سے اوپر اٹھانے میں کامیاب رہا، میں مادری زبان کی طاقت کو محسوس کر رہا تھا۔

ساتھیوں،

غلامی کے زمانے میں انگریزوں نے انگریزی کو تعلیم کا معیار بنایا تھا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی ہم نے اس احساس کمتری کو برقرار رکھا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے غریبوں، دلتوں، پسماندہ اور کمزور طبقات کے بچوں کا ہوا۔ صلاحیت ہونے کے باوجود صرف زبان کی بنیاد پر اسے مقابلے سے باہر کر دیا گیا۔ لیکن اب میڈیکل اور انجینئرنگ جیسی تعلیم بھی مقامی زبان میں کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ہندوستانی ضروریات کے مطابق ملک نے اور بھی بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ کئی سالوں میں، ہم نے پیٹنٹ ایکو سسٹم پر کام کیا ہے اور پیٹنٹ فائل کرنا آسان بنا دیا ہے۔ آج آئی آئی ٹی، آئی آئی ایس سی جیسے اداروں میں پہلے سے کہیں زیادہ پیٹنٹ فائل کیے جا رہے ہیں۔ آج تعلیم کے میدان میں ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس لیے اسکولوں میں سیکھنے کے آلات استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اب نوجوانوں کو کتابی علم کے ساتھ ساتھ ہنر، ٹیکنالوجی اور اختراع کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان حقیقی دنیا کے مسائل کے لیے تیار ہو رہے ہیں، ان کا حل تلاش کر رہے ہیں۔

ساتھیوں،

کسی بھی ملک میں، اس کا تعلیمی نظام اور اس کا صنعتی ماحولیاتی نظام دونوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ انسٹی ٹیوٹ اور انڈسٹری دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہ دونوں نوجوانوں کے مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں۔ داؤدی بوہرہ برادری کے لوگ خاص طور پر کاروبار میں بہت فعال اور کامیاب ہیں۔ پچھلے 8-9 سالوں میں، آپ نے 'کاروبار کرنے میں آسانی'  کی سمت میں تاریخی اصلاحات دیکھی ہیں، اس کے اثرات کو محسوس کیا ہے۔ اس دوران ملک نے 40 ہزار تعمیلات کو ختم کر دیا، سیکڑوں دفعات کو غیر مجرمانہ قرار دیا۔ اس سے قبل تاجروں کو ان قوانین کا خوف دکھا کر ہراساں کیا جاتا تھا۔ اس سے ان کا کاروبار متاثر ہوتا تھا۔ لیکن آج حکومت روزگار پیدا کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اعتماد کا ایک بے مثال ماحول پیدا ہوا ہے۔ ہم 42 مرکزی ایکٹ میں اصلاحات کے لیے جن وشواس بل لے کر آئے ہیں۔ تاجروں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے، ہم ویواد سے وشواس اسکیم لے کر آئے ہیں۔ اس بجٹ میں ٹیکس کی شرح میں اصلاحات جیسے کئی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ اس سے ملازمین اور کاروباری افراد کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ آئے گا۔ یہ تبدیلیاں ان نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع پیدا کریں گی جو روزگار کے تخلیق کار بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

ساتھیوں،

ترقی ایک ملک کے طور پر ہندوستان کے لیے بھی اہم ہے، اور ساتھ ہی ساتھ وراثت بھی اہم ہے۔ ہندوستان کے ہر فرقے، برادری اور نظریے کا بھی یہی خاصہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک روایت اور جدیدیت کے سنگم کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایک طرف ملک میں جدید فزیکل انفراسٹرکچر بنایا جا رہا ہے تو وہیں ملک سوشل انفراسٹرکچر میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ آج ہم تہواروں کی قدیم مشترکہ روایت کو بھی جی رہے ہیں اور تہواروں کی خریداری کے دوران جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ ادائیگیاں بھی کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس بجٹ میں قدیم ریکارڈ کو نئی تکنیک کی مدد سے ڈیجیٹائز کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اور میں ابھی ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن دیکھ رہا تھا جو صدیوں پرانا ہے۔ اس لیے میں نے زور دیا کہ حکومت ہند کے پاس ایک بڑا منصوبہ ہے، ہماری تمام چیزوں کو ڈیجیٹل کیا جانا چاہیے۔ آنے والی نسلوں کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ میں چاہوں گا کہ تمام معاشرے، تمام فرقے ایسی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے آگے آئیں۔ کسی بھی طریقہ سے متعلق، اگر کوئی قدیم تحریریں ہیں، تو انہیں ڈیجیٹائز کیا جانا چاہیے۔ درمیان میں میں منگولیا گیا، تو وہاں منگولیا میں بھگوان بدھ کے زمانے کی ہاتھ سے بنی ہوئی چیزیں تھیں۔ اب یہ وہیں پڑی ہوئی تھی تو میں نے کہا کہ آپ مجھے دے دیں میں اسے ڈیجیٹل کر دوں گا اور ہم نے وہ کام کر دیا ہے۔ ہر روایت، ہر عقیدہ ایک طاقت ہے۔ نوجوانوں کو بھی اس مہم سے جوڑنا چاہیے۔ داؤدی بوہرہ برادری اس میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی تحفظ ہو، باجرے کا پھیلاؤ، آج ہندوستان پوری دنیا میں ان موضوعات پر ایک بڑی مہم کی قیادت کر رہا ہے۔ ان مہمات میں عوام کی شرکت بڑھانے کے لیے آپ انہیں لوگوں کے درمیان لے جانے کا عہد بھی لے سکتے ہیں۔ اس سال ہندوستان جی 20جیسے اہم عالمی فورم کی صدارت بھی کر رہا ہے۔ بیرون ملک پھیلے ہوئے بوہرہ برادری کے لوگ اس موقع پر دنیا کے سامنے طاقتور بن کر ہندوستان کے برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو اسی جوش و خروش سے نبھائیں گے جیسا کہ آپ ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔ داؤدی بوہرہ کمیونٹی ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے، یہ ادا کرتی رہے گی، مجھے پورا یقین ہے اور اس خواہش اور اس یقین کے ساتھ، میں ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس مقدس موقع پر آپ نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا۔ سیدنا صاحب کی خاص محبت رہی ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ چل رہی تھی، میرے لیے یہاں آنا اتنا ہی ضروری تھا اور اسی لیے مجھے آج آپ کا آشیرواد لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
5 Days, 31 World Leaders & 31 Bilaterals: Decoding PM Modi's Diplomatic Blitzkrieg

Media Coverage

5 Days, 31 World Leaders & 31 Bilaterals: Decoding PM Modi's Diplomatic Blitzkrieg
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister urges the Indian Diaspora to participate in Bharat Ko Janiye Quiz
November 23, 2024

The Prime Minister Shri Narendra Modi today urged the Indian Diaspora and friends from other countries to participate in Bharat Ko Janiye (Know India) Quiz. He remarked that the quiz deepens the connect between India and its diaspora worldwide and was also a wonderful way to rediscover our rich heritage and vibrant culture.

He posted a message on X:

“Strengthening the bond with our diaspora!

Urge Indian community abroad and friends from other countries  to take part in the #BharatKoJaniye Quiz!

bkjquiz.com

This quiz deepens the connect between India and its diaspora worldwide. It’s also a wonderful way to rediscover our rich heritage and vibrant culture.

The winners will get an opportunity to experience the wonders of #IncredibleIndia.”