انہوں نے 860 کروڑ روپے سے زیادہ کی مالیت کے متعدد ترقیاتی پروجیکٹوں کا افتتاح کیا
‘‘راجکوٹ کو سوراشٹرا کی ترقی کے انجن کے طور پر جانا جاتا ہے’’
‘‘میں ہمیشہ راجکوٹ کا قرض چکانے کی کوشش کرتا ہوں’’
‘‘ہم ‘سوشاسن’ کی گارنٹی لے کر آئے تھے اور ہم اسے پورا کر رہے ہیں’’
‘‘نئے مڈل کلاس اور مڈل کلاس دونوں ہی حکومت کی ترجیح ہیں’’
‘‘فضائی خدمات کی توسیع نے ہندوستان کے ہوابازی کے شعبے کو نئی بلندیاں دی ہیں’’
‘‘زندگی میں آسانی اور معیار زندگی کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے’’
‘‘آج آر ای آر اے قانون لاکھوں لوگوں کو ان کے پیسے لوٹنے سے روک رہا ہے’’
‘‘آج ہمارے پڑوسی ممالک میں مہنگائی 25-30 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہے’’

آپ سب کیسے ہیں؟ آرام سے ہیں؟

گجرات کے وزیراعلیٰ جناب  بھوپیندر بھائی پٹیل، کابینہ میں میرے ساتھی جناب جیوترآدتیہ سندھیا جی، سابق وزیراعلیٰ بھائی  وجے روپانی جی، سی آر پاٹل جی۔

ساتھیو،

ابھی وجے بھی میرے کان میں کہہ رہے تھے اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ راجکوٹ میں کوئی پروگرام ہونا چاہئے، تو چھٹی کا دن نہیں ہوناچاہئے، اور دوپہر کا وقت  نہیں ہوناچاہئے، راجکوٹ میں کوئی اس وقت میں جلسہ کرنے کا کبھی نہ سوچے، ایسے میں اتنا  بڑا جلسہ!اتنی بڑی تعداد میں، آج راجکوٹ نے راجکوٹ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ورنہ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ شام 8 بجے کے بعد  ہی یہاں کوئی جلسہ ٹھیک رہتا ہے اور راجکوٹ میں تو  ویسے بھی دوپہر کو سونے کے لئے وقت چاہیے۔

آج راجکوٹ کے ساتھ ساتھ پورے سوراشٹرا اور گجرات کے لیے بڑا دن ہے۔ لیکن شروع میں میں ان خاندانوں سے اظہار تعزیت کرنا چاہوں گا جنہیں قدرتی آفات کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ چند دن پہلے ہی  طوفان آیا تھا اور پھر سیلاب نے بھی بہت تباہی مچائی تھی۔ بحران کی اس گھڑی میں ایک بار پھر عوام اور حکومت نے مل کر اس کا مقابلہ کیا ہے۔ بھوپیندر بھائی کی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ تمام متاثرہ خاندانوں کی زندگی جلد از جلد معمول پر آجائے۔ مرکزی حکومت بھی ریاستی حکومت کو جو بھی تعاون درکار ہے وہ فراہم کر رہی ہے۔

 

بھائیو اور بہنو،

گزرے ہوئے برسوں میں  ہم نے راجکوٹ کو ہر طرح سے ترقی کرتے دیکھا ہے۔ اب راجکوٹ کو سوراشٹر کے گروتھ انجن کے طور پر بھی پہچانا جا رہا ہے۔ یہاں بہت کچھ ہے۔ صنعت ہے، کاروبار ہے، ثقافت ہے، کھانے پینے کی چیزیں ہیں،  لیکن کچھ کمی  محسوس ہوتی تھی اور آپ لوگ  بھی مجھے بار بار بتاتے رہتے تھے  اور وہ کمی بھی آج پوری ہو گئی ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے جب میں نو تعمیر شدہ  ہوائی اڈے پر تھا تو مجھے بھی آپ کا خواب پورا ہونے کی خوشی محسوس ہوئی ۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں، راجکوٹ وہ ہے جس نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ مجھے پہلی بار ایم ایل اے بنایا۔ میرے سیاسی سفر کو ہری جھنڈی دکھانے کا کام راجکوٹ نے کیا اور اس طرح راجکوٹ کا قرض مجھ پر ہمیشہ باقی ہے۔ میں اس قرض کو کم کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہوں۔

آج راجکوٹ کو ایک نیا اور بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ملا ہے۔ اب راجکوٹ سے ملک کے کئی شہروں کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے بھی براہ راست پروازیں ممکن ہوں گی۔ اس ایئرپورٹ سے نہ صرف سفر کرنا آسان ہوگا بلکہ اس پورے خطے کی صنعتوں کو بھی کافی فائدہ ہوگا۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا ، ابتدائی دن تھے، مجھے زیادہ تجربہ نہیں تھا اور ایک بار میں نے کہا تھا کہ یہ تو  میرا منی جاپان بن رہا ہے تو بہت سے لوگوں نے میرا مذاق اڑایا تھا،  لیکن آج آپ نے ان باتوں کو سچ ثابت کر دیاہے۔

 

ساتھیو،

اب یہاں کے کسانوں کے لیے ملک اور بیرون ملک کی منڈیوں میں پھل اور سبزیاں بھیجنا آسان ہو جائے گا۔ یعنی راجکوٹ کو صرف ایک ہوائی اڈہ نہیں بلکہ ایک پاور ہاؤس ملا ہے جو اس پورے خطے کی ترقی کو نئی توانائی دینے والا، نئی پرواز دینے والا ہے۔

آج یہاں سونی یوجنا کے تحت کئی پروجیکٹوں کا افتتاح بھی کیا گیا ہے۔ ان پروجیکٹوں کی تکمیل سے سوراشٹرا کے درجنوں دیہاتوں کے کسانوں کو آبپاشی اور پینے کا پانی دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں آج یہاں راجکوٹ کی ترقی سے متعلق کئی پروجیکٹوں کووقف  کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں ان تمام منصوبوں کے لیے آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

گزشتہ 9 سالوں میں مرکزی حکومت نے سماج کے ہر طبقے اور ہر علاقے کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم گڈ گورننس کی ضمانت لے کر آئے ہیں۔ آج ہم اس ضمانت کو پورا کر رہے ہیں۔ غریب ہو، دلت ہو، پسماندہ ہو، قبائلی ہو، ہم نے ہر ایک کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مسلسل کام کیا ہے۔

ہماری حکومت کی کوششوں سے آج ملک میں غربت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ حال ہی میں جو رپورٹ آئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ہماری حکومت کے پانچ سالوں میں ساڑھے تیرہ کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ یعنی آج ہندوستان میں غریبی سے نکل کر ایک نو متوسط ​​ ​​طبقہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسی لیے ہماری حکومت کی ترجیحات میں متوسط ​​طبقہ، نو متوسط ​​طبقہ، ایک طرح سے پورا متوسط ​​طبقہ شامل ہے۔

 

ساتھیو،

آپ کو یاد ہے، 2014 سے پہلے متوسط ​​طبقے کی ایک عام شکایت کیا تھی؟ لوگ کہتے تھے، کنکٹی ویٹی کتنا خراب ہے، سفر میں ہمارا کتنا وقت ضائع ہوتا ہے۔ لوگ ملک کے باہر کہیں سے آتے تھے، باہر سے فلمیں دیکھتے تھے، جب ٹی وی پر دنیا دیکھتے تھے تو ذہن میں سوال اٹھتے تھے، وہ سوچتے تھے کہ ہمارے ملک میں ایسا کب ہوگا، کب ایسا ہوگا؟ کب ایسی سڑکیں بنیں گی، کب  ایسے ہوائی اڈے بنیں گے؟ اسکول آفس آنے جانے میں دشواری، کاروبار کرنے میں دشواری۔ یہ ملک میں رابطے کی حالت تھی۔ ہم نے گزشتہ 9 سالوں میں اس مسئلے کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ 2014 میں صرف 4 شہروں میں میٹرو نیٹ ورک تھا۔ آج میٹرو نیٹ ورک ملک کے 20 سے زائد شہروں تک پہنچ چکا ہے۔ آج وندے بھارت جیسی جدید ٹرینیں ملک میں 25 مختلف روٹس پر چل رہی ہیں۔ 2014 میں ملک میں تقریباً 70 ہوائی اڈے تھے۔ اب ان کی تعداد بھی بڑھ کر دوگنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔

فضائی سروس کی توسیع نے ہندوستان کے ایئر لائن سیکٹر کو دنیا میں ایک نئی بلندی دی ہے۔ آج ہندوستانی کمپنیاں لاکھوں کروڑوں کے نئے طیارے خرید رہی ہیں۔ کہیں نئی ​​سائیکل، نئی گاڑی یا نئے اسکوٹر کا چرچا ہے۔ آج ہندوستان کے پاس ایک ہزار نئے طیاروں کی آرڈر بک ہیں اور آنے والے دنوں میں دو ہزار طیاروں کا آرڈر دینے کا امکان ہے اور کیا آپ کو یاد ہے، مجھے یاد ہے، میں نے آپ کو گجرات کے انتخابات کے وقت کہا تھا – وہ دن دور نہیں جب گجرات بھی ہوائی جہاز بنائے گا۔ آج گجرات اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

زندگی میں آسانی، معیار زندگی ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ ہم ان مشکلات کو نہیں بھول سکتے جن سے پہلے ملک کے عوام کو گزرنا پڑا۔ اگر آپ بجلی اور پانی کا بل ادا کرنا چاہتے ہیں تو لائن لگائیں۔ اسپتال میں علاج کروانا ہو تو لمبی لائن لگ جاتی ہے۔ اگر آپ انشورنس اور پنشن حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بھی بہت سارے مسائل ہیں،  یہاں تک کہ اگر آپ کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنا پڑے تو پریشانیوں سے گزریں۔ ہم نے ان تمام مسائل کا حل ڈیجیٹل انڈیا سے دیا۔ پہلے بینک جا کر کام کروانے میں اتنا وقت اور توانائی لگتی تھی۔ آج آپ کا بینک آپ کے موبائل فون پر ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ آخری بار کب بینک گئے تھے۔ اب جانے کی ضرورت  ہی نہیں ہے۔

ساتھیو،

آپ کو وہ دن بھی یاد ہیں جب ٹیکس ریٹرن فائل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا۔ اس کے لیے کسی کو ڈھونڈو، یہاں جاؤ، وہاں بھاگو۔ بس اتنا ہی ہوا کرتا تھا۔ آج آپ آسانی سے آن لائن ریٹرن فائل کر سکتے ہیں۔ اگر رقم کی واپسی ہوتی ہے تو اس کی رقم بھی چند دنوں میں آپ کے اکاؤنٹ میں آجاتی ہے، ورنہ پہلے کئی کئی  مہینے لگ جاتے تھے۔

ساتھیو،

پہلی حکومتوں کو متوسط ​​طبقے کے لوگوں کے گھر کی فکر نہیں تھی۔ ہم نے غریبوں کے گھروں کی بھی دیکھ بھال کی اور متوسط ​​طبقے کے گھروں کا خواب پورا کرنے کا انتظام بھی کیا۔ پی ایم آواس یوجنا کے تحت ہم نے متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو گھر بنانے کے لیے خصوصی سبسڈی دی۔ اس کے تحت 18 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی والے خاندانوں کو امداد دی گئی۔ اب تک ملک کے 6 لاکھ سے زیادہ متوسط ​​طبقے کے خاندان اس کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ یہاں، گجرات کے 60 ہزار سے زیادہ خاندانوں نے مرکزی حکومت کی اس اسکیم کا فائدہ اٹھایا ہے۔

 

ساتھیو،

جب مرکز میں پرانی حکومت تھی تو اکثر سننے میں آتا تھا کہ گھر کے نام پر یہ فراڈ ہوا۔ کئی سالوں سے مکان کا قبضہ نہیں دیا گیا۔ امن و امان نہیں تھا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ یہ ہماری حکومت ہے جس نے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے آر ای آر اے (ریرا) قانون نافذ کیا۔ ریرا قانون کی وجہ سے آج لاکھوں لوگوں کو ان کے پیسے کی لوٹ مار سے بچایا جا رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

آج جب ملک میں اتنا کام ہو رہا ہے، ملک آگے بڑھ رہا ہے، تو کچھ لوگوں کی پریشانی میں اضافہ  ہونا بہت فطری بات ہے۔ وہ لوگ جو ہمیشہ ملک کے عوام کے لئے تڑپنے کادکھاوا کرتے تھے، وہ لوگ جن کو ملک کے عوام کی ضرورتوں اور امنگوں سے کوئی سروکار نہیں تھا، آج وہ لوگ ملک کے عوام کے خوابوں کی تعبیر دیکھ کر کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں۔

 اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں، آج کل ان بدعنوانوں اور کنبہ پرستوں نے اپنی جماعت کا نام بھی بدل رکھا ہے۔ چہرے وہی ہیں، گناہ وہی ہیں، طریقے وہی ہیں، لیکن جماعت کا نام بدل گیا ہے۔ ان کے طریقے بھی وہی  پرانے  والےہیں۔ ان کے ارادے بھی وہی ہیں۔ جب متوسط ​​طبقے کو کوئی چیز سستی ملتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ کسان کو صحیح قیمت نہیں مل رہی ہے۔ جب کسان کو زیادہ قیمت ملتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ یہ دوغلا پن ان کی سیاست ہے۔

 آپ دیکھیں کہ مہنگائی کے معاملے میں ان کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ جب وہ مرکز میں اقتدار میں تھے تو انہوں نے مہنگائی کی شرح کو 10 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ اگر ہماری حکومت نے مہنگائی پر قابو نہ پایا ہوتا تو آج ہندوستان میں قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہوتیں۔ اگر ملک میں پہلے  والی حکومت ہوتی تو آج دودھ 300 روپے فی لیٹر، دال 500 روپے  فی کلو فروخت ہوتی۔ بچوں کی  اسکول کی فیس سے لے کر آنے جانے کے کرایہ تک سب کچھ کئی گنا بڑھ چکا ہوتا۔

دوستو یہ ہماری حکومت ہے جس نے کورونا وبا اور روس -یوکرین جنگ کے باوجود مہنگائی کو قابو میں رکھا ہے۔ آج ہمارے پڑوسی ممالک میں مہنگائی 25 سے 30 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے، لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہم پوری حساسیت کے ساتھ مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

بھائیو اور بہنو،

غریب اور متوسط ​​طبقے کے اخراجات بچانے کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت نے یہ بھی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ متوسط ​​طبقے کی جیبوں میں زیادہ سے زیادہ بچت ہو۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 9 سال پہلے تک 2 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ اگر آپ آج 7 لاکھ روپے تک کماتے ہیں تو بھی ٹیکس کتنا ہے؟ صفر، صفر۔ سات لاکھ کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ اس سے شہروں میں رہنے والے متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو ہر سال ہزاروں روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ ہم نے چھوٹی بچتوں پر زیادہ سود دینے کا بھی قدم اٹھایا ہے۔ اس سال ای پی ایف او پر 8.25 فیصد سود طے کیا گیا ہے۔

ساتھیو،

آپ کا موبائل فون بھی اس بات کی ایک مثال ہے کہ ہماری حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں سے آپ کے پیسے کیسے بچائے جا رہے ہیں۔ شاید آپ کی توجہ وہاں نہ جاتی۔ آج، چاہے امیر ہو یا غریب، زیادہ تر لوگوں کے پاس فون ضرور ہے۔ آج، ہر ہندوستانی، اوسطاً، ہر ماہ تقریباً 20 جی بی ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں، 2014 میں 1 جی بی ڈیٹا کی قیمت کتنی تھی؟ 2014 میں، آپ کو 1 جی بی ڈیٹا کے لیے 300 روپے ادا کرنے پڑتے تھے۔ اگر آج وہی پرانی حکومت ہوتی تو آپ کو موبائل بل کے لیے ہر ماہ کم از کم 6 ہزار روپے خود ادا کرنے پڑتے۔ جبکہ آج 20 جی بی ڈیٹا پر صرف تین سے چار سو روپے کا بل آتا ہے۔ یعنی آج لوگ اپنے موبائل بل میں ہر ماہ تقریباً 5 ہزار روپے بچا رہے ہیں۔

ساتھیو،

جن خاندانوں میں بزرگ شہری، بوڑھے والدین، دادا دادی ہیں اور اگر انہیں کوئی بیماری ہے تو انہیں باقاعدگی سے دوائیں لینی پڑتی ہیں، ہماری حکومت انہیں اسکیموں کے ذریعے بہت سی بچتیں بھی فراہم کر رہی ہے۔ پہلے ان لوگوں کو بازار سے مہنگے داموں  پر ادویات خریدنی پڑتی تھیں۔ انہیں اس پریشانی سے نکالنے کے لیے ہم نے جن اوشدھی کیندر میں سستی دوائیں دینا شروع کر دیں۔ ان دکانوں کی وجہ سے غریب اور متوسط ​​طبقے کے تقریباً 20,000 کروڑ روپے کی بچت ہوئی ہے۔ غریبوں کے لیے حساس حکومت، متوسط ​​طبقے کے لیے حساس حکومت ایک کے بعد ایک اقدامات کرتی ہے تاکہ عام شہری کی جیب پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔

بھائیو اور بہنو،

یہاں ہماری حکومت گجرات کی ترقی اور سوراشٹرا کی ترقی کے لیے پوری حساسیت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ گجرات سے بہتر، سوراشٹر سے بہتر کون جانتا ہے کہ پانی کی کمی کا مطلب کیا ہے؟ ہم سوراشٹر میں دیکھتے ہیں کہ سونی یوجنا سے پہلے کیا صورتحال تھی اور سونی یوجنا کے بعد کیا تبدیلی آئی ہے۔ سوراشٹرا میں آج درجنوں ڈیم، ہزاروں چیک ڈیم پانی کے ذرائع بن چکے ہیں۔ ہر گھر جل یوجنا کے تحت گجرات میں کروڑوں خاندانوں کو اب نل کا پانی مل رہا ہے۔

ساتھیو،

یہ گڈ گورننس کا وہ ماڈل ہے جسے ہم نے گزشتہ 9 سالوں میں ملک میں ایک کے بعد ایک قدم اٹھا کر، عام آدمی کی خدمت اور اس کی ضروریات پوری کر کے ثابت کیا ہے۔ ایسی گڈ گورننس جس میں معاشرے کے ہر طبقے، ہر خاندان کی ضروریات اور خواہشات کو مدنظر رکھا جائے۔ یہ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کا ہمارا طریقہ ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے ہمیں امرت کال  کے عزائم کو تعبیر آشنا  کرنا ہے۔

میرے سوراشٹر کے لوگوں کو، میرے گجرات کے راجکوٹ کے لوگوں کو راجکوٹ سے اتنی بڑی تعداد میں آپ کی آمد کی ایک جھلک ملی، آپ سب کو ایک نیا ہوائی اڈہ مل رہا ہے، وہ بھی ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ اور بہت سے دوسرے منصوبے،  میں ان سب کے لیے آپ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آپ کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔  بھوپیندر بھائی کی حکومت آپ کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے  گی، مجھے پورا یقین  ہے۔

میں ایک بار پھر اس خیر مقدم کے لیے، اس محبت کے لیے آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ !

وضاحت: وزیر اعظم کی تقریر کا کچھ حصہ گجراتی زبان میں ہے، جس کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet

Media Coverage

Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 23, 2024
It is a moment of pride that His Holiness Pope Francis has made His Eminence George Koovakad a Cardinal of the Holy Roman Catholic Church: PM
No matter where they are or what crisis they face, today's India sees it as its duty to bring its citizens to safety: PM
India prioritizes both national interest and human interest in its foreign policy: PM
Our youth have given us the confidence that the dream of a Viksit Bharat will surely be fulfilled: PM
Each one of us has an important role to play in the nation's future: PM

Respected Dignitaries…!

आप सभी को, सभी देशवासियों को और विशेषकर दुनिया भर में उपस्थित ईसाई समुदाय को क्रिसमस की बहुत-बहुत शुभकामनाएं, ‘Merry Christmas’ !!!

अभी तीन-चार दिन पहले मैं अपने साथी भारत सरकार में मंत्री जॉर्ज कुरियन जी के यहां क्रिसमस सेलीब्रेशन में गया था। अब आज आपके बीच उपस्थित होने का आनंद मिल रहा है। Catholic Bishops Conference of India- CBCI का ये आयोजन क्रिसमस की खुशियों में आप सबके साथ जुड़ने का ये अवसर, ये दिन हम सबके लिए यादगार रहने वाला है। ये अवसर इसलिए भी खास है, क्योंकि इसी वर्ष CBCI की स्थापना के 80 वर्ष पूरे हो रहे हैं। मैं इस अवसर पर CBCI और उससे जुड़े सभी लोगों को बहुत-बहुत बधाई देता हूँ।

साथियों,

पिछली बार आप सभी के साथ मुझे प्रधानमंत्री निवास पर क्रिसमस मनाने का अवसर मिला था। अब आज हम सभी CBCI के परिसर में इकट्ठा हुए हैं। मैं पहले भी ईस्टर के दौरान यहाँ Sacred Heart Cathedral Church आ चुका हूं। ये मेरा सौभाग्य है कि मुझे आप सबसे इतना अपनापन मिला है। इतना ही स्नेह मुझे His Holiness Pope Francis से भी मिलता है। इसी साल इटली में G7 समिट के दौरान मुझे His Holiness Pope Francis से मिलने का अवसर मिला था। पिछले 3 वर्षों में ये हमारी दूसरी मुलाकात थी। मैंने उन्हें भारत आने का निमंत्रण भी दिया है। इसी तरह, सितंबर में न्यूयॉर्क दौरे पर कार्डिनल पीट्रो पैरोलिन से भी मेरी मुलाकात हुई थी। ये आध्यात्मिक मुलाक़ात, ये spiritual talks, इनसे जो ऊर्जा मिलती है, वो सेवा के हमारे संकल्प को और मजबूत बनाती है।

साथियों,

अभी मुझे His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड से मिलने का और उन्हें सम्मानित करने का अवसर मिला है। कुछ ही हफ्ते पहले, His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को His Holiness Pope Francis ने कार्डिनल की उपाधि से सम्मानित किया है। इस आयोजन में भारत सरकार ने केंद्रीय मंत्री जॉर्ज कुरियन के नेतृत्व में आधिकारिक रूप से एक हाई लेवल डेलिगेशन भी वहां भेजा था। जब भारत का कोई बेटा सफलता की इस ऊंचाई पर पहुंचता है, तो पूरे देश को गर्व होना स्वभाविक है। मैं Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को फिर एक बार बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

साथियों,

आज आपके बीच आया हूं तो कितना कुछ याद आ रहा है। मेरे लिए वो बहुत संतोष के क्षण थे, जब हम एक दशक पहले फादर एलेक्सिस प्रेम कुमार को युद्ध-ग्रस्त अफगानिस्तान से सुरक्षित बचाकर वापस लाए थे। वो 8 महीने तक वहां बड़ी विपत्ति में फंसे हुए थे, बंधक बने हुए थे। हमारी सरकार ने उन्हें वहां से निकालने के लिए हर संभव प्रयास किया। अफ़ग़ानिस्तान के उन हालातों में ये कितना मुश्किल रहा होगा, आप अंदाजा लगा सकते हैं। लेकिन, हमें इसमें सफलता मिली। उस समय मैंने उनसे और उनके परिवार के सदस्यों से बात भी की थी। उनकी बातचीत को, उनकी उस खुशी को मैं कभी भूल नहीं सकता। इसी तरह, हमारे फादर टॉम यमन में बंधक बना दिए गए थे। हमारी सरकार ने वहाँ भी पूरी ताकत लगाई, और हम उन्हें वापस घर लेकर आए। मैंने उन्हें भी अपने घर पर आमंत्रित किया था। जब गल्फ देशों में हमारी नर्स बहनें संकट से घिर गई थीं, तो भी पूरा देश उनकी चिंता कर रहा था। उन्हें भी घर वापस लाने का हमारा अथक प्रयास रंग लाया। हमारे लिए ये प्रयास केवल diplomatic missions नहीं थे। ये हमारे लिए एक इमोशनल कमिटमेंट था, ये अपने परिवार के किसी सदस्य को बचाकर लाने का मिशन था। भारत की संतान, दुनिया में कहीं भी हो, किसी भी विपत्ति में हो, आज का भारत, उन्हें हर संकट से बचाकर लाता है, इसे अपना कर्तव्य समझता है।

साथियों,

भारत अपनी विदेश नीति में भी National-interest के साथ-साथ Human-interest को प्राथमिकता देता है। कोरोना के समय पूरी दुनिया ने इसे देखा भी, और महसूस भी किया। कोरोना जैसी इतनी बड़ी pandemic आई, दुनिया के कई देश, जो human rights और मानवता की बड़ी-बड़ी बातें करते हैं, जो इन बातों को diplomatic weapon के रूप में इस्तेमाल करते हैं, जरूरत पड़ने पर वो गरीब और छोटे देशों की मदद से पीछे हट गए। उस समय उन्होंने केवल अपने हितों की चिंता की। लेकिन, भारत ने परमार्थ भाव से अपने सामर्थ्य से भी आगे जाकर कितने ही देशों की मदद की। हमने दुनिया के 150 से ज्यादा देशों में दवाइयाँ पहुंचाईं, कई देशों को वैक्सीन भेजी। इसका पूरी दुनिया पर एक बहुत सकारात्मक असर भी पड़ा। अभी हाल ही में, मैं गयाना दौरे पर गया था, कल मैं कुवैत में था। वहां ज्यादातर लोग भारत की बहुत प्रशंसा कर रहे थे। भारत ने वैक्सीन देकर उनकी मदद की थी, और वो इसका बहुत आभार जता रहे थे। भारत के लिए ऐसी भावना रखने वाला गयाना अकेला देश नहीं है। कई island nations, Pacific nations, Caribbean nations भारत की प्रशंसा करते हैं। भारत की ये भावना, मानवता के लिए हमारा ये समर्पण, ये ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच ही 21वीं सदी की दुनिया को नई ऊंचाई पर ले जाएगी।

Friends,

The teachings of Lord Christ celebrate love, harmony and brotherhood. It is important that we all work to make this spirit stronger. But, it pains my heart when there are attempts to spread violence and cause disruption in society. Just a few days ago, we saw what happened at a Christmas Market in Germany. During Easter in 2019, Churches in Sri Lanka were attacked. I went to Colombo to pay homage to those we lost in the Bombings. It is important to come together and fight such challenges.

Friends,

This Christmas is even more special as you begin the Jubilee Year, which you all know holds special significance. I wish all of you the very best for the various initiatives for the Jubilee Year. This time, for the Jubilee Year, you have picked a theme which revolves around hope. The Holy Bible sees hope as a source of strength and peace. It says: "There is surely a future hope for you, and your hope will not be cut off." We are also guided by hope and positivity. Hope for humanity, Hope for a better world and Hope for peace, progress and prosperity.

साथियों,

बीते 10 साल में हमारे देश में 25 करोड़ लोगों ने गरीबी को परास्त किया है। ये इसलिए हुआ क्योंकि गरीबों में एक उम्मीद जगी, की हां, गरीबी से जंग जीती जा सकती है। बीते 10 साल में भारत 10वें नंबर की इकोनॉमी से 5वें नंबर की इकोनॉमी बन गया। ये इसलिए हुआ क्योंकि हमने खुद पर भरोसा किया, हमने उम्मीद नहीं हारी और इस लक्ष्य को प्राप्त करके दिखाया। भारत की 10 साल की विकास यात्रा ने हमें आने वाले साल और हमारे भविष्य के लिए नई Hope दी है, ढेर सारी नई उम्मीदें दी हैं। 10 साल में हमारे यूथ को वो opportunities मिली हैं, जिनके कारण उनके लिए सफलता का नया रास्ता खुला है। Start-ups से लेकर science तक, sports से entrepreneurship तक आत्मविश्वास से भरे हमारे नौजवान देश को प्रगति के नए रास्ते पर ले जा रहे हैं। हमारे नौजवानों ने हमें ये Confidence दिया है, य़े Hope दी है कि विकसित भारत का सपना पूरा होकर रहेगा। बीते दस सालों में, देश की महिलाओं ने Empowerment की नई गाथाएं लिखी हैं। Entrepreneurship से drones तक, एरो-प्लेन उड़ाने से लेकर Armed Forces की जिम्मेदारियों तक, ऐसा कोई क्षेत्र नहीं, जहां महिलाओं ने अपना परचम ना लहराया हो। दुनिया का कोई भी देश, महिलाओं की तरक्की के बिना आगे नहीं बढ़ सकता। और इसलिए, आज जब हमारी श्रमशक्ति में, Labour Force में, वर्किंग प्रोफेशनल्स में Women Participation बढ़ रहा है, तो इससे भी हमें हमारे भविष्य को लेकर बहुत उम्मीदें मिलती हैं, नई Hope जगती है।

बीते 10 सालों में देश बहुत सारे unexplored या under-explored sectors में आगे बढ़ा है। Mobile Manufacturing हो या semiconductor manufacturing हो, भारत तेजी से पूरे Manufacturing Landscape में अपनी जगह बना रहा है। चाहे टेक्लोलॉजी हो, या फिनटेक हो भारत ना सिर्फ इनसे गरीब को नई शक्ति दे रहा है, बल्कि खुद को दुनिया के Tech Hub के रूप में स्थापित भी कर रहा है। हमारा Infrastructure Building Pace भी अभूतपूर्व है। हम ना सिर्फ हजारों किलोमीटर एक्सप्रेसवे बना रहे हैं, बल्कि अपने गांवों को भी ग्रामीण सड़कों से जोड़ रहे हैं। अच्छे ट्रांसपोर्टेशन के लिए सैकड़ों किलोमीटर के मेट्रो रूट्स बन रहे हैं। भारत की ये सारी उपलब्धियां हमें ये Hope और Optimism देती हैं कि भारत अपने लक्ष्यों को बहुत तेजी से पूरा कर सकता है। और सिर्फ हम ही अपनी उपलब्धियों में इस आशा और विश्वास को नहीं देख रहे हैं, पूरा विश्व भी भारत को इसी Hope और Optimism के साथ देख रहा है।

साथियों,

बाइबल कहती है- Carry each other’s burdens. यानी, हम एक दूसरे की चिंता करें, एक दूसरे के कल्याण की भावना रखें। इसी सोच के साथ हमारे संस्थान और संगठन, समाज सेवा में एक बहुत बड़ी भूमिका निभाते हैं। शिक्षा के क्षेत्र में नए स्कूलों की स्थापना हो, हर वर्ग, हर समाज को शिक्षा के जरिए आगे बढ़ाने के प्रयास हों, स्वास्थ्य के क्षेत्र में सामान्य मानवी की सेवा के संकल्प हों, हम सब इन्हें अपनी ज़िम्मेदारी मानते हैं।

साथियों,

Jesus Christ ने दुनिया को करुणा और निस्वार्थ सेवा का रास्ता दिखाया है। हम क्रिसमस को सेलिब्रेट करते हैं और जीसस को याद करते हैं, ताकि हम इन मूल्यों को अपने जीवन में उतार सकें, अपने कर्तव्यों को हमेशा प्राथमिकता दें। मैं मानता हूँ, ये हमारी व्यक्तिगत ज़िम्मेदारी भी है, सामाजिक दायित्व भी है, और as a nation भी हमारी duty है। आज देश इसी भावना को, ‘सबका साथ, सबका विकास और सबका प्रयास’ के संकल्प के रूप में आगे बढ़ा रहा है। ऐसे कितने ही विषय थे, जिनके बारे में पहले कभी नहीं सोचा गया, लेकिन वो मानवीय दृष्टिकोण से सबसे ज्यादा जरूरी थे। हमने उन्हें हमारी प्राथमिकता बनाया। हमने सरकार को नियमों और औपचारिकताओं से बाहर निकाला। हमने संवेदनशीलता को एक पैरामीटर के रूप में सेट किया। हर गरीब को पक्का घर मिले, हर गाँव में बिजली पहुंचे, लोगों के जीवन से अंधेरा दूर हो, लोगों को पीने के लिए साफ पानी मिले, पैसे के अभाव में कोई इलाज से वंचित न रहे, हमने एक ऐसी संवेदनशील व्यवस्था बनाई जो इस तरह की सर्विस की, इस तरह की गवर्नेंस की गारंटी दे सके।

आप कल्पना कर सकते हैं, जब एक गरीब परिवार को ये गारंटी मिलती हैं तो उसके ऊपर से कितनी बड़ी चिंता का बोझ उतरता है। पीएम आवास योजना का घर जब परिवार की महिला के नाम पर बनाया जाता है, तो उससे महिलाओं को कितनी ताकत मिलती है। हमने तो महिलाओं के सशक्तिकरण के लिए नारीशक्ति वंदन अधिनियम लाकर संसद में भी उनकी ज्यादा भागीदारी सुनिश्चित की है। इसी तरह, आपने देखा होगा, पहले हमारे यहाँ दिव्यांग समाज को कैसी कठिनाइयों का सामना करना पड़ता था। उन्हें ऐसे नाम से बुलाया जाता था, जो हर तरह से मानवीय गरिमा के खिलाफ था। ये एक समाज के रूप में हमारे लिए अफसोस की बात थी। हमारी सरकार ने उस गलती को सुधारा। हमने उन्हें दिव्यांग, ये पहचान देकर के सम्मान का भाव प्रकट किया। आज देश पब्लिक इंफ्रास्ट्रक्चर से लेकर रोजगार तक हर क्षेत्र में दिव्यांगों को प्राथमिकता दे रहा है।

साथियों,

सरकार में संवेदनशीलता देश के आर्थिक विकास के लिए भी उतनी ही जरूरी होती है। जैसे कि, हमारे देश में करीब 3 करोड़ fishermen हैं और fish farmers हैं। लेकिन, इन करोड़ों लोगों के बारे में पहले कभी उस तरह से नहीं सोचा गया। हमने fisheries के लिए अलग से ministry बनाई। मछलीपालकों को किसान क्रेडिट कार्ड जैसी सुविधाएं देना शुरू किया। हमने मत्स्य सम्पदा योजना शुरू की। समंदर में मछलीपालकों की सुरक्षा के लिए कई आधुनिक प्रयास किए गए। इन प्रयासों से करोड़ों लोगों का जीवन भी बदला, और देश की अर्थव्यवस्था को भी बल मिला।

Friends,

From the ramparts of the Red Fort, I had spoken of Sabka Prayas. It means collective effort. Each one of us has an important role to play in the nation’s future. When people come together, we can do wonders. Today, socially conscious Indians are powering many mass movements. Swachh Bharat helped build a cleaner India. It also impacted health outcomes of women and children. Millets or Shree Anna grown by our farmers are being welcomed across our country and the world. People are becoming Vocal for Local, encouraging artisans and industries. एक पेड़ माँ के नाम, meaning ‘A Tree for Mother’ has also become popular among the people. This celebrates Mother Nature as well as our Mother. Many people from the Christian community are also active in these initiatives. I congratulate our youth, including those from the Christian community, for taking the lead in such initiatives. Such collective efforts are important to fulfil the goal of building a Developed India.

साथियों,

मुझे विश्वास है, हम सबके सामूहिक प्रयास हमारे देश को आगे बढ़ाएँगे। विकसित भारत, हम सभी का लक्ष्य है और हमें इसे मिलकर पाना है। ये आने वाली पीढ़ियों के प्रति हमारा दायित्व है कि हम उन्हें एक उज्ज्वल भारत देकर जाएं। मैं एक बार फिर आप सभी को क्रिसमस और जुबली ईयर की बहुत-बहुत बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

बहुत-बहुत धन्यवाद।