اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی ، مرکزی کابینہ میں میری ساتھے اور لکھنؤ کے ہی رکن پارلیمنٹ ، ہمارے سینئر ساتھی، جناب راج ناتھ سنگھ جی ، جناب ہردیپ سنگھ پوری جی ، مہندر ناتھ پانڈے جی ، یہاں کے مقبول وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیراعلی جناب کیشو پرساد موریہ جی ، جناب دنیش شرما جی ، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ، جناب کوشل کشور جی ، ریاستی حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی، ملک کے مختلف حصوں کے تمام معزز وزراء، دیگر تمام معززین اور اترپردیش کے میرے پیارے بہنوں اور بھائیو!
لکھنؤ آتا ہوں تو اودھ کے اس خطے کی تاریخ ، ملیح آبادی دسہری جیسی میٹھی بولی، کھان پان، ہنر مند کاریگری ، آرٹ۔ آرکیٹیکچر سب کچھ سامنے نظر آنے لگتا ہے۔ مجھے اچھا لگا کہ تین روز تک لکھنٔو میں،نیو اربن انڈیا یعنی بھارت کے شہروں کی نئی شکل پر ملک بھر کے ماہرین یکجا ہوکر غورو خوض کرنے والے ہیں۔ یہاں جو نمائش لگی ہے وہ آزادی کے اس امرت مہوتسو میں 75 سال کی خصولیابیوں اور ملک کے نئے عزائم کو خوش اسلوبی سے دکھاتی ہیں ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ گزشتہ دنوں جب ڈیفنس کا پروگرام کیا گیا تھا اور اس وقت جو نمائش لگی تھی ، صرف لکھنٔو میں ہی نہیں، پورا اتر پردیش اسے دیکھنے کے لیے پہنچا تھا۔ میں اس بار بھی اپیل کروں گا کہ یہ جونمائش لگی ہے ، یہاں کے شہریوں سے میری اپیل ہے کہ آپ ضرور دیکھیں۔ ہم سب مل کرکے ملک کو کہاں سے کہاں لے جا سکتے ہیں ، ہمارے اعتماد کو بیدار کرنے والی یہ اچھی نمائش ہے ، آپ کو ضرور دیکھنی چاہیے۔
آج اترپردیش کے شہروں کی ترقی سے متعلق 75 پروجیکٹس ترقی ، ان کا سنگ بنیاد اور ان کو عوام کے نام وقف کیا گیا۔ آج ہی یوپی کے 75 اضلاع میں 75 ہزار استفادہ کنندگان کو ان کے اپنے پکے گھروں کی چابیاں ملی ہیں۔ یہ سبھی ساتھی اس سال دسہرہ ، دیوالی ، چھٹ ، گرو پورب ، عید میلاد، آنے والے بہت سے تہوار اپنے نئے گھر میں ہی منائیں گے۔ابھی کچھ لوگوں سے بات کر کے مجھے بہت سکون ملا ہے اور کھانے کے لئے مدعو بھی کیا گیا ہے۔ میں اس بات کی بھی خوش ہوتی ہے کہ اس ملک میں پی ایم آواس یوجنا کے تحت جو گھر دیے جارہے ہیں ان میں 80 فیصد سے زیادہ گھروں پر مالکانہ حق خواتین کاہے یا پھر وہ مشترکہ مالک ہیں۔
اور مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یوپی حکومت نے بھی خواتین کے گھروں سے متعلق ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ 10 لاکھ روپے تک کی رقم کی گھروں کی رجسٹری کرانے پر اسٹامپ ڈیوٹی میں خواتین کو 2 فیصد کی چھوٹ بھی دی جا رہی ہے۔ یہ بہت قابل تعریف فیصلہ ہے۔ لیکن ساتھ میں ہم جب یہ بات کرتے ہیں خواتین کی، یہ ان کے نام ملکیت ہوگی تو اتنا ہمارے ذہن میں رجسٹرڈ نہیں ہوتاہے۔ لیکن میں بس تھوڑا آپ کو اس دنیا میں لے جاتا ہوں ، آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ فیصلہ کتنا اہم ہے۔
آپ دیکھئے، کسی بھی خاندان میں جایئے ، اچھا، غلط ہے ، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، میں صرف صورتحال بیان کر رہا ہوں۔ اگر مکان ہے تو شوہر کے نام پر ، کھیت ہے تو شوہر کے نام پر ، گاڑی ہے تو شوہر کے نام پر ، اسکوٹر ہے تو شوہر کے نام پر، دکان ہے تو شوہر کے نام پر اور اگر شوہر نہیں رہا تو بیٹے کے نام پر، لیکن ماں کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، اس خاتون کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، اس عورت کے نام پر کچھ نہیں ہوتا۔ ایک صحت مند معاشرے کےواسطے توازن بنانے کے لیےکچھ اقدام کرنے پڑتے ہیں اور اس لئے ہم نے طے کیا ہے کہ حکومت جو مکان دے گی اس کا مالکانہ حق خاتون کو دیا جائے گا۔
ساتھیو ،
آج لکھنؤ کے لیے ایک اور مبارکباد کا موقع ہے۔ لکھنؤ نے اٹل جی کی شکل میں ایک وژنری ماں بھارتی کے لیے وقف قومی ہیرو ملک کو دیا ہے۔ آج ان کی یاد میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی میں اٹل بہاری واجپئی چیئر قائم کی جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ چیئر اٹل جی کے وژن ، ان کے ایکشن، قوم کی تعمیر میں ان کی خدمت کو عالمی سطح پر لائے گی۔ جیسے بھارت کی 75 سال کی خارجہ پالیسی میں کئی موڑ آئے ، لیکن اٹل جی نے اسے نئی سمت دی۔ ملک کی کنکٹی وٹی ، لوگوں کی کنکٹی وٹی کے لئے ان کی کوششیں ، آج کے بھارت کی مضبوط بنیاد ہیں۔ آپ سوچئے ، ایک طرف پردھان منتری گرام سڑک یوجنا اور دوسری جانب سورنم چتشکر شمال مشرق ، مشرق مغربی اور شمال۔ جنوب، مشرق، مغرب کوریڈور یعنی دونوں طرف ایک ستھ نظراور دونوں طرف ترقی کی کوششیں۔
ساتھیو،
برسوں پہلے ، جب اٹل جی نے قومی شاہراہ کے ذریعے ملک کے بڑے شہروں کو جوڑنے کا خیال رکھا تھا ، تو کچھ لوگوں کو یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ 6-7 سال پہلے ، جب میں نے غریبوں کے لیے کروڑوں پکے گھر، کروڑوں ٹوائلیٹ، تیزی سے چلنے والی ریل ، شہروں میں پائپ سے گیس، آپٹیکل فائبر جیسے بڑے انفرا اسٹرکچر پروجیکٹوں کی بات کی، تب بھی عادتاً کچھ لوگ یہی سوچتے تھے کہ یہ اتنا سب کچھ کیسے ہو پائے گا لیکن آج ان مہمات میں بھارت کی کامیابی دنیا دیکھ رہی ہے۔ بھارت آج پی ایم آواس یوجنا کے تحت جنتے پکے گھر بنا رہا ہے وہ دنیا کے کئی ممالک کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
ایک وقت تھا جب گھر کی منظوری سے لے کر اس کو زمین پر اترنے میں ہی بررسوں لگ جاتے تھے۔ جو گھر بنتے بھی تھے ۔ وہ شاید رہنے لائق تھے کہ نہیں، یہ سوالیہ نشان ضرور پوچھے گئے تھے۔ گھروں کا سائز چھوٹا، کنسٹرکشن میٹیریل خراب ، الاٹمنٹ میں ہیرا پھیری ، یہ سب میرے غریب بھائیوں اور بہنوں کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔ 2014 میں ملک نے ہمیں خدمت کرنے کا موقع دیا اور میں اتر پردیش کا خاص طور پر احسان مند ہوں کہ آپ نے مجھے ملک کی پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ میں پنچایا ہے اور جب آپ نے ہمیں ذمہ داری دی تو ہم نے اپنی ذمہ داری نبھانے ایماندارہ کوشش کی ہے۔
ساتھیو،
سال 2014 سے پہلے جو حکومت تھی اس نے ملک میں شہری رہائشی اسکیموں کے تحت صرف 13 لاکھ مکانات کی منظوری دی تھی۔یہ تعداد یاد رہ گی؟ پرانی حکومت نے 13 لاکھ مکان، اس میں بھی صرف 8 لاکھ مکان ہی بنائے گئے تھے۔ 2014 کے بعد سے ہماری حکومت نے پی ایم آواس یوجنا کے تحت شہروں میں ایک کروڑ 13 لاکھ سے زائد گھروں کی تعمیر کو منظوری دی ہے۔ کہاں 13 لاکھ اور کہاں ایک کروڑ 13 لاکھ؟ اس میں سے 50 لاکھ سے زائد گھر بناکر انہیں غریبوں کو سونپا بھیجاچکے ہے۔
ساتھیو،
اینٹ۔ پتھر جوڑ کر عمارت تو بن سکتی ہے لیکن اسے گھر نہیں کہہ سکتے۔ وہ گھر اس وقت بنتا ہے جب اس میں خاندان کے ہر فرد کا خواب جڑا ہو ، اپنانیت ہو، خاندان کے ارکان جی جان سے ایک مقصد کے لیے لگے ہوئے ہوں ، تب عمارت گھر بن جاتی ہے۔
ساتھیو،
ہم نے گھروں کے ڈیزائن سے لیکر گھروں کی تعمیر تک کی پوری آزادی استفادہ کنندگان کو دی ہے۔ جیسی ان کی مرضی ہو ویسا مکان بنائیں۔ دہلی میں ایئر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر کوئی یہ طے نہیں کر سکتا کہ کھڑکی ادھر ہوگی یا ادھر ہوگی۔ 2014 سے پہلے سرکاری اسکیموں کے گھرکس سائز کے بنیں گے اس کی کوئی واضح پالیسی ہی نہیں تھی۔ کہیں 15 مربع میٹر کے گھر بنتے تھے تو کہیں 17 مربع میٹر کے۔اتنی چھوٹی زمین پر جو تعمیر ہوتی تھی ، اس میں رہنا بھی مشکل تھا۔
سال 2014 کے بعد ہماری حکومت نے گھروں کے سائز کے حوالے سے بھی واضح پالیسی بنائی۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 22 مربع میٹر سے چھوٹا کوئی گھر نہیں بنایا جائے گا۔ گھر کا سائز بڑھانے کے ساتھ ہی پیسہ سیدھا استفادہ کنندگان کے بینک کھاتے میں بھیجنا شروع کیا۔ گھروں کے بینک کھاتوں میں بھیجی گئی یہ رقم کتنی ہے اس کا تذکرہ بہت کم ہوا ہے۔ آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ پی ایم آواس یوجنا- شہری کے تحت مرکزی حکومت نے تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے غریبوں کے بینک کھاتوں میں منتقل کیے ہیں۔
ساتھیو،
ہمارے یہاں کچھ معززین کہتے رہتے ہیں کہ مودی کو ہم نے وزیر اعظم تو بنادیا ، مودی نے کیا کیا ہے؟ آج پہلی بار ، میں ایسی بات بتانا چاہتا ہوں ، جس کے بعد بڑے بڑے مخالفین، جو دن رات ہماری مخالفت کرنے میں ہی اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں ، وہ میری یہ تقریر سننے کے بعد ٹوٹ پڑنے والے ہیں ، مجھے پتہ ہے۔ پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ مجھے بتانا چاہیے۔
میرے جوساتھی ، جو میرے خاندان کے افراد ہیں ، جو جھگی جھونپڑی میں زندگی جیتے تھے ، جن کے پاس پکی چھت نہیں تھی، ایسے تین کروڑ خاندانوں کو اس مدت کار میں ایک ہی اسکیم سے لکھ پتی بننے کا موقع مل گیا ہے۔ اس ملک میں موٹا موٹا اندازہ کریں تو 25-30 کروڑ خاندان ،اس میں سے اتنی چھوٹی سی مدت کار مین 3 کروڑ غریب خاندان کا لکھ پتی بننا ، یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مودی اتنا بڑا کلیم کر رہے ہیں ، کیسے کریں گے؟ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ملک میں جو تقریبا ً 3 کروڑ ،مکان بنے ہیں ، آپ ان کی قیمت کا اندازہ لگا لیجئے۔ یہ لوگ اب لکھ پتی ہیں۔ 3 کروڑ پکے گھر تعمیر کر کے ہم نے غریب خاندانوں کا سب سے بڑا خواب پورا کیا ہے۔
ساتھیو،
مجھے وہ دن بھی یاد آتےہیں جب تمام کوششوں کے باوجود اترپردیش گھروں کی تعمیر میں آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ آج میں لکھنؤ میں ہوں ، تو مجھے لگتا ہے ذرا تفصیل سے یہ بات بتانی چاہیے! بتانی چاہیے نہ ، آپ تیار ہیں؟ ہماری اربن پلانگ کیسے سیاست کا شکار ہو جاتی ہے، یہ سمجھنےکے لئے بھی یو پی کے لوگوں کو یہ جاننا ضروری ہے۔
ساتھیو،
غریبوں کے لیے گھر بنانے کے لیے پیسے مرکزی حکومت دے رہی تھی ، باوجود اس کے 2017 سے پہلے ، یوگی جی کے آنے سے پہلے کی بات کر رہا ہوں ، 2017 سے پہلے یوپی میں جو حکومت تھی وہ غریبوں کے لیے گھر بنوانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ غریبوں کے لیے گھر تعمیر کراؤ ، اس کے لیے ہمیں پہلے جو یہاں حکومت میں تھے، ان سے منتیں کرنی پڑتی تھیں۔ 2017 سے پہلے ، پی ایم آواس یوجنا کے تحت یوپی کے لیے 18000 مکانات کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن جو حکومت یہاں تھی اس نے غریبوں کو پی ایم آواس یوجنا کے تحت 18 گھر بھی بناکر نہیں دیے۔
آپ تصور کر سکتے ہیں۔ 18 ہزار گھروں کی منظوری اور 18 گھر بھی تیار نہ ہوں میرے ملک کے بھائیوں بہنوں، یہ چیزیں آپ کو سوچنی چاہئیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 18 ہزار گھروں کی منظوری تھی لیکن انہوں نے غریبوں کے لئے 18 گھر بھی نہیں بنائے۔ پیسہ تھا ، گھروں کی منظوری تھی، لیکن اس وقت جو یوپی کو چلا رہے تھے وہ اس میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے۔ ان کا یہ کام یوپی کے لوگ ، یوپی کے غریب کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔
ساتھیو ،
مجھے اطمینان ہے کہ یوگی جی کی حکومت آنے کے بعد یوپی میں شہری غریبوں کو 9 لاکھ گھر بناکر دیے گئے ہیں۔ شہر میں رہنے والے ہمارے غریب بھائی اور بہنوں کے لیے اب یوپی میں 14 لاکھ گھر تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اب گھر میں بجلی ، پانی ، گیس ،ٹوائلیٹ جیسی سہولیات بھی دستیاب ہورہی ہیں ، تو گریہہ پرویش بھی پوری خوشی کے ساتھ ؤن بان کے ساتھ ہورہا ہے۔
لیکن جب میں اتر پردیش آیا ہوں تو مجھے کچھ ہوم ورک دینےکا کا من کرتاہے۔ دے دوں؟ لیکن آپ کو کرنا پڑے گا ، کریں گے؟ پکا؟ دیکھئے میں نے اخبار میں پڑھا ہے اور ساتھ ہی یوگی جی سے بھی شاید میں پوچھ رہا تھا۔ اس بار دیپاولی میں ایودھیا میں کہتے ہیں کہ ساڑھے سات لاکھ دئے کا پروگرام ہوگا۔ میں اتر پردیش کو کہتا ہوں کہ روشنی کے لئے مسابقت میں میدان میں آئیں۔ دیکھیں ایودھیا زیادہ دئے جلاتا ہے یا یہ جو 9 لاکھ گھر دیے گئے ہیں، وہ 9 لاکھ گھر 18 لاکھ دئےجلاکر دکھائیں۔ ہو سکتا ہے کیا؟ جن خاندانوں کو یہ 9 لاکھ خاندان جن کو گھر ملے ہیں، گزشتہ سات سال میں وہ دو دو دئے اپنے گھر کے باہر جلائیں۔ ایودھیا میں ساڑھے سات لاکھ دئے جلے گے، میرے غریب خاندانوں کے گھر میں 18 لاکھ دئے جلیں گے۔ بھگوان رام جی کو خوشی ہوگی۔
بھائیو اور بہنو ،
گزشتہ دہائیوں میں ہمارے شہروں میں بڑی بڑی عمارتیں ضرور بنیں ، لیکن جو لوگ اپنی محنت سے ان عمارتوں کی تعمیر کرتے ہیں، ان کا حصہ میں جھگیوں کی ہی زندگی آتی رہی ہے۔جھگیوں کی حالت ایسی جہاں پانی اور ٹوائلیٹ جیسی بنیادی سہولیات تک نہیں ملتیں۔ جھگی میں رہنے والے ہمارے بھائی بہنوں کو اب پکے گھر بنانے سے بہت مدد مل رہی ہے۔ گاؤں سے شہر کام کے لئے آنے والے مزدوروں کو مناسب کرائے بہتر رہائش ملے اس کے لئے حکومت نے اسکیم شروع کی ہے۔
ساتھیو،
شہری متوسطبقے کے مسائل اور چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے ہماری حکومت نے بہت سنجیدہ کوشش کی ہے۔ رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی یعنی ریرا قانون ایک ایسا ہی ایک بڑا قدم رہا ہے۔ اس قانون نے پورے ہاؤسنگ سیکٹر کو بے یقینی اور دھوکہ دہی سے باہر نکالنے میں بہت بڑی مدد کی ہے۔ اس قانون کے بننے سے گھر خریداروں کو وقت پر انصاف بھی مل رہا ہے۔ ہم نے شہروں میں ادھورا پڑے گھروں کو پورا کرنے کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کا خصوصی فنڈ بھی بنایا ہے۔
متوسط طبقہ اپنے گھر کا خواب پورا کر سکے اس کے لئے پہلی بار گھر خریدنے والوں کو لاکھوں روپے کی مدد بھی دی جارہی ہے۔ انہیں کم شرح سود سے بھی مدد مل رہی ہے۔ حال ہی میں ماڈل ٹیننسی ایکٹ بھی ریاستوں کو بھیجا گیا ہے ، اور مجھے خوشی ہے کہ یوپی حکومت نے فوراً ہی اسے نافذ بھی کردیا ہے۔ اس قانون سے مکان مالک اور کرایہ دار دونوں کی برسوں پرانی دقتیں دور ہو رہی ہیں۔ اس سے کرائے کا مکان ملنے میں آسانی بھی ہوگی اور رینٹل پراپرٹی مارکیٹ کو تقویت ملی گی، زیادہ سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
بھائیو اور بہنو ،
کورونا کےدور میں ورک فرام ہوم کو لیکر جو قوانین بنائے گئے، ان سے شہری ڈل کلاس کی زندگی اور آسان ہوئی ہے۔ ریموٹ ورکنگ کے آسان ہونے سے کورونا کے دور میں مڈل کلاس کے ساتھیوں کو بہت راحت ملی ہے۔
بھائیو اور بہنو ،
اگر آپ کو یاد ہے ، 2014 سے پہلے ، ہمارے شہروں کی صفائی ستھرائی کو لیکر اکثر ہم منفی باتیں پہ سنتے تھے۔ گندگی کو شہری زندگی کی فطرت مان لیا گیا تھا۔ صفائی ستھرائی کے تیں بے رخی سے شہروں کی خوبصورتی ، شہروں میں آنے والے سیاحوں پر تو اثر پڑتا ہی ہے، شہروں میں رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنےکے لیے ملک سووچھ بھارت مشن اور امرت مشن کے تحت بہت بڑی مہم چلا جارہا ہے۔
گزشتہ برسوں میں شہروں میں 60 لاکھ سے زائد نجی ٹوائلیٹ اور 6 لاکھ سے زیادہ کمیونٹی ٹوائلٹ بنے ہیں۔ 7 سال پہلے تک جہاں محض 18 فیصد کچرے کا ہی نپٹارہ ہو پاتا تھا، وہ آج بڑھ کر 70 فیصد ہو چکا ہے۔ یہاں یوپی میں بھی ویسٹ پروسیسنگ کی بڑی صلاحیت گزشتہ برسوں میں پیدا کی گئی ہے اور آج میں نے نمائش میں دیکھا ، ایسی متعدد چیزوں کووہاں رکھا گیا ہےاور دل کو بڑا سکون دینے والا منظر تھا۔ اب سووچھ بھارت ابھیان 2.0 کے تحت شہروں میں کھڑےکوڑے کے پہاڑوں کو ہٹانے کی مہم بھی شروع کی گئی ہے۔
ساتھیو،
شہروں کی شان بڑھانے میں ایک اور اہم کردار ادا کیا ہے ایل ای ڈی لائٹوں نے۔ حکومت نے مہم چلاکر ملک میں 90 لاکھ سے زیادہ پرانی اسٹریٹ لائٹس کو ایل ای ڈی سے بدلا ہے۔ ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹس لگنے سے شہری ادارے کے بھی ہر سال تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے کی بچت ہورہی ہے ۔ اب یہ رقم شہری ادارے ترقی دوسرے کاموں میں لگا سکتے ہیں اور لگا رہے ہیں۔ ایل ای ڈی نے شہر میں رہنے والے لوگوں کا بجلی بل بھی بہت کم کیا ہے۔ جوایل ای ڈی بلب پہلے 300 روپے سے بھی مہنگا آتا تھا ، وہ حکومت نے اجالا اسکیم کے تحت 50-60 روپے میں دیا ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے تقریباً 37 کروڑ ایل ای ڈی بلب تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کی قریب 24 ہزار کروڑ روپے کی بجلی بل میں بچت ہوئی ہے۔
ساتھیو،
اکسویں صدی کے بھارت میں، شہروں کی کایا پلٹ کا سب سے اہم طریقہ ہے ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ شہروں کی ترقی سے متعلق جو ادارے ہیں، جو سٹی پلانرز ہیں ، انہیں اپنی اپروچ میں اولین ترجیح ٹکنالوجی کو دینی ہوگی۔
ساتھیو،
جب ہم گجرات کے چھوٹے سے علاقے میں رہتے تھے اور جب بھی لکھنؤ کی بات آتی تھی تو لوگوں کے منہ سے نکلتا تھا کہ بھئی ، لکھنؤ میں تو کہیں پر جایئےسننے کو ملتا ہے - پہلے آپ ، پہلے آپ ، یہی بات ہوتی ہے۔ آج مذاق میں ہی سہی ، ہمیں ٹیکنالوجی کو بھی کہنا پڑے گا - آپ پہلے! بھارت میں گزشتہ 6-7 برسوں میں شہری علاقے میں بہت بڑی تبدیلی ٹیکنالوجی سے آئی ہے۔ ملک کے 70 سے زائد شہروں میں آج جو انٹیگریٹڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز چل رہے ہیں، اس کی بنیاد ٹیکنالوجی ہی ہے۔ آج ملک کے شہروں میں سی سی ٹی وی کیمروں کا جو نیٹ ورک بچھ رہا ہے، ٹیکنالوجی ہی اسے مضبوط کر رہی ہے۔ ملک کے 75 شہروں میں جو 30 ہزار سے زیادہ جدید سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں ،ان کی وجہ سے گناہگاروں کو سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ یہ سی سی ٹی وی مجرموں کو سزا دلانے میں بھی کافی مدد کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
آج بھارت کے شہروں میں ہر روز جو ہزاروں ٹن کوڑےٹھکانے لگایا رہا ہے ، پروسیس کیا جارہا ہے ، سڑکوں کی تعمیر پر لگایا جا رہا ہے ، وہ بھی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔ ویسٹ میں سے ویلتھ سے متعلق متعدد پروجیکٹ میں نے آج نمائش میں دیکھے ہیں۔ ہر کسی کو تحریک دینے والے ایسے تجربات ہیں بڑی باریکی سے دیکھنے جیسا ہے۔
ساتھیو ،
آج ملک بھر میں جو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنائے جارہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی ان کی صلاحیت میں اور اضافہ کر رہی ہے۔ یہ نیشنل کامن موبلٹی کارڈ ٹیکنالوجی ہی کی تو دین ہے۔ آج یہاں اس پروگرام میں 75 الیکٹرک بسوں کو ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ یہ بھی جدید ٹیکنالوجی کا ہی عکس ہے۔
ساتھیو،
میں نے ابھی لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے تحت لکھنؤ میں تیار کئے جانے والے گھر کو دیکھا۔ ان گھروں میں جو ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے اس میں پلاسٹر اور پینٹ کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ اس میں پہلے سے تیار پوری پوری دیواروں کو استعمال کیا جائے گا۔ اس سے گھر تیز سے بنیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں لکھنؤ میں ملک بھر سے جو ساتھی یہاں آئے ہیں وہ اس پروجیکٹ سے بہت کچھ سیکھ کر جائیں گے اور اپنے شہروں میں ان امپلی منٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔
ساتھیو،
ٹیکنالوجی کیسے غریب کی زندگی بدلتی ہے، اس کی ایک مثال پی ایم سوانیدھی یوجنا بھی ہے۔لکھنؤ جیسے کئی شہروں میں تو کئی طرح کے بازاروں کی روایت رہی ہے۔ کہیں بدھ بازار لگتا ہے ، کہیں گرو بازار لگتا ہے ، کہیں شنی بازار لگتا ہے ، اور ان بازاروں کی رونق ہمارے ریہڑی پٹری والے بھائی بہن ہی بڑھاتے ہیں ۔ ہمارے ان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی اب ٹیکنالوجی ایک ساتھی بن کر آئی ہے۔ پی ایم سوانیدھی یوجنا کے تحت ریہڑی پٹری والوں کو ، اسٹریٹ وینڈرز کو بینکوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس یوجنا کے ذریعے 25 لاکھ سے زیادہ ساتھیوں کو 2500 کروڑ روپے سے زیادہ کی مدد دی گئی ہے۔ اس میں بھی یوپی کے 7 لاکھ سے زیادہ ساتھیوں نے سوانیدھی یوجنا کا فائدہ حاصل کیا ہے۔ اب ان کی بینکنگ ہسٹری بن گئی ہے اورر وہ زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین بھی کر رہا ہے۔
مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ سوانیدھی یوجنا کا سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے پورے ملک کے ٹاپ تین شہروں میں 2 ہمارے اتر پردیش کے ہی ہیں۔ پورے ملک میں نمبر ون پر ہے لکھنؤ اور نمبردو پر ہے کانپور ۔ کورونا کے اس وقت میں یہ بڑی مدد ہے۔ میں یوگی جی کی حکومت کی اس کے لیے تعریف کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آج ، جب میں ریہڑی پٹری والے ساتھیوں کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کی بات کر رہا ہوں ،تو مجھے یہ بھی یاد آرہا ہے کہ پہلے کیسے اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ کم پڑھے لکھے لوگ کیسے ڈیجیٹل لین دین کر پائیں گے۔ لیکن سوانیدھی یوجنا سے جڑے ریہڑی پٹری والے اب تک 7 کروڑ سے زیادہ بار ڈیجیٹل لین دین کرچکے ہیں۔ اب یہ تھوک تاجروں سے بھی کچھ خریدنے جاتے ہیں تو ڈیجیٹل ادائیگی ہی کرتے ہیں۔ آج ایسے ساتھیوں کی وجہ سے بھارت ڈیجیٹل پیمنٹ میں نئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ جولائی ، اگست ، ستمبر یعنی پچھلے تین مہینوں میں ہر ماہ 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین ہواہے یعنی بینکوں میں لوگوں کا آنا جانا جانا اتنا ہی کم ہو ا ہے۔ یہ بدلتے ہوئے بھارت اور ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے بھارت کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
ساتھیو،
گزشتہ برسوں میں بھارت میں ٹریفک کا مسئلہ اور آلودگی کے چیلنج دونوں پر ہولسٹک اپروچ کے ساتھ کام ہوا ہے۔ میٹرو بھی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ آج ، بھارت میٹرو سروس کی ملک کے بڑے شہروں میں تیزی سے توسیع کررہا ہے۔ 2014 میں جہاں 250 کلومیٹر سے کم روٹ پر میٹرو چلتی تھی وہیں آج تقریباًساڑھے سات و کلومیٹر میں میٹرو دوڑ رہی ہےاور مجھے آج افسر بتا رہے تھے کہ ایک ہزار پچاس کلومیٹر پر کام چل رہا ہے۔ یوپی کے بھی 6 شہروں میں آج میٹرو نیٹ ورک کی توسیع ہورہی ہے۔ 100 سے زیادہ شہروں میں الیکٹرک بسیں چلانے کا نشانہ ہو یا پھر اڑان یوجنا ، یہ بھی شہری ترقی کو بھی رفتار دے رہی ہیں۔ اکیسویں صدی کا بھارت ، اب ملٹی موڈل کنیکٹوٹی کی طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا اور اس کی بھی تیاری بہت تیزی سے چل رہی ہے۔
اور ساتھیو،
شہری انفرا اسٹرکچر کے ان سارے پروجیکٹون کا سب سے بڑا مثبت اثر ہے- روزگار پیدا کرنا ، شہروں میں چاہے میٹرو کا کام ہو ، گھروں کی تعمیر ہو ، بجلی اور پانی کا کام ہو، یہ بہت بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین انہیں فورس ملٹی پلائر مانتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ان پروجیکٹوں کی رفتار کو برقرار رکھنا ہے۔
بھائیو اور بہنو ،
اتر پردیش میں تو، پورے بھارت کی، بھارتی ثقافت کی روح سمائی ہے۔ یہ پربھو شری رام کی سرزمین ہے ، شری کرشنا کی سر زمین ، بھگوان بدھ کی سر زمین ہے۔ یوپی کی مالا مال وراثت کو سجانا سنوارنا ، شہروں کو جدید بنانا، ہماری ذمہ داری ہے۔ 2017 سے پہلے یوپی اور اس کے بعد کے یوپی کا فرق اتر پردیش کے لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ پہلے بجلی یوپی میں کم آتی تھی ،جاتی زیادہ تھی اور آتی بھی تھی تو وہاں آتی تھی جہاں لیڈر چاہتے تھے۔ بجلی سہولت نہیں، سیاست کا ٹول تھی ، سڑک صرف اس وقت بنتی تھی جب سفارش ہو ، پانی کی صورتحال تو آپ سبھی کو معلوم ہے۔
اب بجلی سب کو سب جگہ یکساں مل رہی ہے۔ اب غریب کے گھر میں بھی بجلی آتی ہے۔ گاؤں کی سڑک کسی سفارش کی محتاج نہیں ہے۔ یعنی شہری ترقی کے لیے جس قوت ارادی کی ضرورت ہے وہ بھی آج یوپی میں موجود ہے۔
مجھے یقین ہے، آج یو پی کے جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے وہ یوگی جی کی قیادت میں تیزی سے پورے کئے جائیں گے۔
ایک بار پھر آپ سبھی کو ترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے بہت بہت مبارکباد۔
بہت بہت شکریہ !