ہر ہر مہادیو!
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، اسٹیج پر بیٹھے ہوئے یوپی حکومت کے دیگر وزراء، عوامی نمائندے، اس پروگرام میں موجود ملک کی کھیلوں کی دنیا سے وابستہ تمام سینئر معززین اور میرے پیارے کاشی کے اہل خانہ۔
آج پھر سے بنارس آوے کا موقع ملل ہو ۔ جون آنند بنارس میں مللا اُوکر ویا کھیا اسمبھو ہو۔ ایک بار پھر بولئے... اوم نمہ پاروتی پتیے، ہر ہر مہادیو! آج میں ایک ایسے دن کاشی آیا ہوں جب چندرما کے شیو شکتی پوائنٹ تک پہنچنے کا بھارت کا ایک مہینہ پورا ہورہا ہے۔ شیو شکتی یعنی وہ جگہ جہاں ہمارا چندریان پچھلے مہینے کی 23 تاریخ کو لینڈ ہوا تھا۔ ایک شیو شکتی کا مقام چاند پر ہے۔ دوسرا شیو شکتی کا مقام یہ میری کاشی میں ہے۔ آج شیو شکتی کے اس مقام سے، شیوشکتی کے اس مقام پر ہندوستان کی جیت کی میں پھر سے مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے خاندان کے افراد،
وہ جگہ جہاں ہم سب اکٹھے ہوئے ہیں وہ مقدس جگہ جیسی ہے۔ یہ جگہ ماتا وندھیاو اسینی کے دھام اور کاشی نگری کو جوڑنے والے راستے پر ایک پڑاؤ ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر ہندوستانی جمہوریت کے عظیم انسان اور سابق مرکزی وزیر راج نارائن جی کا گاؤں موتی کوٹ ہے۔ اس دھرتی سے میں محترم راج نارائن جی اور ان کی جائے پیدائش کو سر جھکاکر پرنام کرتا ہوں۔
میرے عزیز احباب،
کاشی میں آج ایک بین الاقوامی کرکٹ اسٹیڈیم کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ یہ اسٹیڈیم وارانسی کے نوجوانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوروانچل کے لیے بھی ایک نعمت ثابت ہوگا۔ جب یہا سٹیڈیم تیار ہو جائے گا تو 30 ہزار سے زائد افراد بیک وقت بیٹھ کر میچ دیکھ سکیں گے۔ اور میں جانتا ہوں کہ جب سے اس اسٹیڈیم کی تصویریں سامنے آئی ہیں، کاشی کا ہر باشندہ پھولے نہیں سما رہا ہے۔ مہادیو کے شہر کا یہ اسٹیڈیم، اس کا ڈیزائن خود مہادیو کے لیے وقف ہے۔ اس میں کرکٹ کے ایک سے بڑھ کر ایک میچ ہوں گے جس میں قریبی علاقوں کے نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح کے اسٹیڈیم میں تربیت کا موقع ملے گا۔ اور اس سے میری کاشی کو بہت فائدہ ہوگا۔
میرے خاندان کے افراد،
آج کرکٹ کے ذریعے دنیا ہندوستان سے جڑ رہی ہے۔ دنیا کے نئے ممالک کرکٹ کھیلنے کے لیے آگے آرہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں کرکٹ میچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے والا ہے۔ اور جب کرکٹ میچ بڑھیں گے تو نئے اسٹیڈیم کی ضرورت ہوگی۔ بنارس کا یہ بین الاقوامی کرکٹ اسٹیڈیم اس مطالبہ کو پورا کرے گا، یہ پورے پوروانچل کا چمکتا ہوا ستارہ بننے جا رہا ہے۔ یہ اتر پردیش کا پہلا اسٹیڈیم ہوگا اور اس کی تعمیر میں بی سی سی آئی کا بھی کافی تعاون ہوگا۔ میں بی سی سی آئی کے عہدیداروں کا کاشی کا رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے خاندان کے افراد،
جب کھیلوں کا انفرااسٹرکچر بنایا جاتا ہے، اتنا بڑا اسٹیڈیم بنایا جاتا ہے تو اس کے نہ صرف کھیلوں پر بلکہ مقامی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب اس طرح کے بڑے کھیلوں کے مراکز بنیں گے تو ان میں کھیلوں کے بڑے ایونٹ منعقد ہوں گے۔ جب بڑے ایونٹ ہوں گے تو تماشائی اور کھلاڑی بڑی تعداد میں آئیں گے۔ اس سے ہوٹل والوں کو فائدہ ہوتا ہے، کھانے پینے کی چھوٹی بڑی دکانوں کو فائدہ ہوتا ہے، رکشہ، آٹو ٹیکسی والوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور ہمارے کشتی ڈرائیوروں کے تو دونوں ہاتھ میں لڈو ہوتا ہے ۔ اتنے بڑے اسٹیڈیم کی وجہ سے کھیلوں کی کوچنگ کے نئے مراکز کھلتے ہیں اور کھیلوں کی مینجمنٹ سکھانے کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے بنارس کے نوجوان نئے کھیلوں کے آغاز کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ کھیلوں سے متعلق بہت سے مطالعہ اور فزیوتھراپی سمیت کورسز شروع ہوں گے اور وارانسی میں کھیلوں کی ایک بہت بڑی صنعت بھی سامنے آئے گی۔
میرے عزیز احباب،
ایک وقت تھا جب والدین اپنے بچوں کو ڈانٹتے تھے کہ کیا وہ ہر وقت کھیلتے ہی رہوگے ، پڑھائی وڑھائی کروگے کہ نہیں ، یہی ہڑدنگ کرتے رہوگے ، یہی سننا پڑتا تھا ۔ اب معاشرے کی سوچ بدل چکی ہے۔ بچے تو پہلے سے ہی سنجیدہ تھے، اب والدین بھی کھیلوں کے حوالے سے سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ اب ملک کا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ جو کھیلے گا وہی کھلے گا ۔
ساتھیو
گزشتہ 1-2 ماہ قبل میں مدھیہ پردیش کے قبائلی علاقے شہڈول کے ایک قبائلی گاؤں میں گیا، وہاں مجھے کچھ نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا اور میں وہاں کا منظر دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوا۔ ان نوجوانوں نے کہا کہ یہ تو ہمارا منی برازیل ہے، میں نے کہا بھائی آپ منی برازیل کیسے بن گئے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ہر گھر میں فٹ بال کا کھلاڑی ہے اور کچھ لوگوں نے بتایا کہ میرے خاندان میں قومی فٹ بال کھلاڑیوں کی تین نسلیں رہی ہیں۔ بطور کھلاڑی ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے اپنی زندگی وہیں وقف کر دی۔ اور آج آپ وہاں ہر نسل کے لوگوں کو فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھیں گے۔ اور انہوں نے بتایا کہ جب ہمارا سالانہ فنکشن ہوتا ہے تو آپ کو گھر میں کوئی نہیں ملے گا، اس علاقے میں سینکڑوں گاؤں ہیں اور لاکھوں لوگ 2-2، 4-4 دن میدان میں رہتے ہیں۔ اس کلچر کو سن کر اور دیکھ کر ملک کے روشن مستقبل پر میرا یقین بڑھجاتاہےاور کاشی کا ایم پی ہونے کے ناطے یہاں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس کا بھی میں گواہ رہا ہوں۔ میں ایم پی اسپورٹس مقابلے کے دوران یہاں جو جوش و خروش پایا جاتا ہے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ کاشی کے نوجوان کھیل کی دنیا میں اپنا نام کمائیں۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ وارانسی کے نوجوانوں کو کھیلوں کی اعلیٰ سہولیات فراہم کی جائیں۔ اسی سوچ کے ساتھ اس نئے اسٹیڈیم کے ساتھ ساتھ سگرا اسٹیڈیم پر بھی تقریباً 400 کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ سگرا اسٹیڈیم میں 50 سے زائد کھیلوں کے لیے ضروری سہولیات تیار کی جارہی ہیں اور اس میں ایک اور خاص بات ہے۔ یہ ملک کا پہلا ملٹی لیول اسپورٹس کمپلیکس ہوگا جو معذور افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی بہت جلد کاشی کے لوگوں کو وقف کیا جائے گا۔ بڑالالپور میں سنتھیٹک ٹریک، مصنوعی باسکٹ بال کورٹ، مختلف اکھاڑہ کی تشہیر، ہم نہ صرف نئے تعمیر کر رہے ہیں بلکہ شہر کے پرانے نظام کو بھی بہتر کر رہے ہیں۔
میرے خاندان کے افراد،
آج ہندوستان کو کھیلوں میں جو کامیابی مل رہی ہے وہ ملک کی سوچ میں تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے کھیلوں کو نوجوانوں کی فٹنس اور نوجوانوں کے روزگار اور کیریئر سے جوڑا ہے۔ 9 سال پہلے کے مقابلے اس سال مرکزی کھیلوں کے بجٹ میں 3 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ کھیلو انڈیا پروگرام کے بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے تقریباً 70 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ آج، حکومت ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ بطور ٹیم ممبر اسکول سے اولمپک پوڈیم تک چلتی ہے۔ کھیلو انڈیا کے تحت ملک بھر میں اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔ ان میں ہماری بیٹیوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی حصہ لیا ہے۔ حکومت ہر قدم پر کھلاڑیوں کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ اولمپک پوڈیم اسکیم بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ اس کے تحت حکومت سال بھر ملک کے سرکردہ کھلاڑیوں کو خوراک، فٹنس سے لے کر تربیت تک لاکھوں روپے کی امداد فراہم کرتی ہے۔ اس کے نتائج آج ہم ہر بین الاقوامی مقابلے میں دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں، ہندوستان نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں تاریخ رقم کی ہے۔ صرف اس بار، اس سال، ہمارے بچوں نے پچھلی کئی دہائیوں میں ان کھیلوں کی تاریخ میں ہندوستان کے جیتنے والے کل تمغوں سے زیادہ تمغے جیتے ہیں۔ ویسے ایشین گیمز بھی آج سے شروع ہو رہے ہیں، میں ایشین گیمز میں شرکت کرنے والے تمام ہندوستانی کھلاڑیوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو
ہندوستان کے ہر کونے اور ہر گاؤں میں کھیل کا ٹیلنٹ ، کھیلوں کے ماہر موجود ہیں۔ ان کو تلاش کرنا اور ان کو تراشنا ضروری ہے۔ آج چھوٹے سے چھوٹے دیہات سے آنے والے نوجوان پورے ملک کا فخر بن چکے ہیں۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ ہمارے چھوٹے شہروں کے کھلاڑیوں میں کتنا ٹیلنٹ ہے۔ ہمیں اس ٹیلنٹ کو زیادہ سے زیادہ مواقع دینا ہوں گے۔ اس لیے، کھیلو انڈیا مہم کی وجہ سے، آج ملک کے کونے کونے میں بہت کم عمر میں ٹیلنٹ کی شناخت ہو رہی ہے۔ حکومت کھلاڑیوں کی شناخت اور انہیں بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی بنانے کے لیے ہر قدم اٹھا رہی ہے۔ آج اس پروگرام میں بہت سے عظیم کھلاڑی خصوصی طور پر ہمارے درمیان آئے ہیں، انہوں نے کھیل کی دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ کاشی کے لیے اس محبت کا اظہار کرنے کے لیے میں ان سب کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے خاندان کے افراد،
آج کھلاڑیوں کو آگے لے جانے کے لیے اچھے کوچ اور اچھی کوچنگ کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ یہاں موجود لیجنڈ کھلاڑی اس کی اہمیت کا اظہار کرتے ہیں اوراسے جانتے ہیں۔ اس لیے آج حکومت کھلاڑیوں کی اچھی کوچنگ کے انتظامات بھی کر رہی ہے۔ ایسے کھلاڑی جو بڑے مقابلوں میں کھیل چکے ہیں اور قومی اور بین الاقوامی تجربہ رکھتے ہیں انہیں بطور کوچ کام کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں نوجوان مختلف کھیلوں سے منسلک ہو رہے ہیں۔
ساتھیو
حکومت ہر گاؤں میں کھیلوں کا جو جدید انفرااسٹرکچر بنا رہی ہے اس سے گاؤں اور چھوٹے شہروں کے کھلاڑیوں کو بھی نئے مواقع ملیں گے۔ اس سے پہلے دہلی-ممبئی-کولکتہ-چنئی جیسے بڑے شہروں میں ہی بہتر اسٹیڈیم دستیاب تھے۔ اب ملک کے کونے کونے حتیٰ کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی کھلاڑیوں کو یہ سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری بیٹیاں کھیلو انڈیا پروگرام کے تحت بنائے گئے کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے سے بہت فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اب بیٹیوں کو کھیلنے اور تربیت کے لیے گھر سے دور جانے کی مجبوری کم ہوتی جا رہی ہے۔
ساتھیو
نئی قومی تعلیمی پالیسی میں کھیلوں کو سائنس، کامرس یا دیگر علوم کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ پہلے کھیلوں کو صرف ایک اضافی سرگرمی سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہا سکولوں میں کھیل کو بطور مضمون پڑھایا جائے۔ یہ ہماری حکومت ہے جس نے منی پور میں ملک کی پہلی نیشنل اسپورٹس یونیورسٹی قائم کی ہے۔ یوپی میں کھیلوں کی سہولیات پر بھی ہزاروں کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ گورکھپور میں اسپورٹس کالج کی توسیع سے لے کر میرٹھ میں میجر دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی کی تعمیر تک ہمارے کھلاڑیوں کے لیے نئے اسپورٹس سینٹر بنائے جارہے ہیں۔
ساتھیو
ملکی ترقی کے لیے کھیلوں کی سہولیات میں توسیع بہت ضروری ہے۔ یہ نہ صرف کھیلوں کے لیے بلکہ ملک کی ساکھ کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ دنیا کے بہت سے شہروں کو صرف اس وجہ سے جانتے ہیں کہ وہاں بڑے بین الاقوامی کھیل منعقد ہوتے تھے۔ ہمیں ہندوستان میں بھی ایسے مراکز بنانے ہوں گے، جہاں اس طرح کے بین الاقوامی کھیلوں کا انعقاد کیا جا سکے۔ یہ اسٹیڈیم، جس کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، کھیلوں کے تئیں ہمارے اس عزم کی گواہی دے گا۔ یہ اسٹیڈیم صرف اینٹوں اور کنکریٹ سے بنا گراؤنڈ نہیں ہوگا بلکہ یہ مستقبل کے ہندوستان کی عظیم علامت بن جائے گا۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میرا کاشی ہر ترقیاتی کام کے لیے میرے ساتھ کھڑا ہے۔ آپ لوگوں کے بغیر کاشی میں کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ آپ کے آشیرواد سے ہم کاشی کی از سر نو تعمیر کے لیے ترقی کے نئے باب رقم کرتے رہیں گے۔ ایک بار پھر، میں کرکٹ اسٹیڈیم کا سنگ بنیاد رکھے جانے پر کاشی اور پورے پوروانچل کے لوگوں کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہر - ہر مہادیو! شکریہ