“Dedicating this project on Ekta Diwas makes it more special”
“Due to double-engine government ‘Gati’ as well as ‘Shakti’ of development is increasing”
“Improvement in the condition of railway stations across the country is clearly visible today”
“Poor and middle class are getting the ambience that was once accessible only to the well-to-do”
​​​​​​​“Unbalanced development has been a big challenge in our country. Our government is working to solve this”

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی  جناب اشونی ویشنو جی، درشنا بین  جاردوش، گجرات کے وزراء،  معزز اراکین پارلیمان وا سمبلی، اور بڑی تعداد میں  یہاں موجود  میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

گجرات کی ترقی کے لیے، گجرات کی کنکٹویٹی کے لیے آج  بہت بڑا دن ہے۔ گجرات کے لاکھوں لوگ جو ایک بڑے علاقے میں براڈ گیج لائن کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان  رہتےتھے، انہیں آج سے کافی راحت ملنے والی ہے۔ اب سے کچھ دیر پہلے مجھے اساروا ریلوے اسٹیشن پر ،اسارواسے اودے پور ٹرین کو ہری جھنڈی دکھانے کا موقع ملا۔ لونی دھر سے جیتلسر کے درمیان بڑی لائن پر چلنے والی ٹرینوں کو بھی آج جھنڈی دکھائی گئی ہے۔

ساتھیو،

آج کی یہ تقریب صرف دو ریل روٹس پر چلنے والی دو ٹرینوں کے لئے ہی نہیں ہے۔ یہ کتنا بڑا کام ہوا ہے،اس کا اندازہ باہر کے لوگ آسانی سے نہیں لگا سکتے ۔ اس کام کی تکمیل کے انتظار میں دہائیاں بیت گئیں، لیکن اس کام کی تکمیل کی خوش قسمتی بھی میرے کھاتے میں لکھی گئی تھی۔

ساتھیو،

براڈ گیج کے بغیر ریلوے لائن ایک تنہا جزیرے کی طرح ہے۔ یعنی کسی سے  رابطہ کے بغیر۔ یہ ایسا ہے جیسے انٹرنیٹ کے بغیر کمپیوٹر، بغیر کنکشن کے ٹی وی، بغیر نیٹ ورک کے موبائل۔ اس روٹ پر چلنے والی ٹرینیں ملک کی دوسری ریاستوں میں نہیں جا سکتی تھیں اور نہ ہی دوسری ریاستوں کی ٹرینیں یہاں آ سکتی تھیں۔ اب آج سے اس پورے راستے کو از سر نو بنایا گیا ہے۔ اب اساروا سے ادے پور براستہ ہمت نگر میٹر گیج لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور آج ہمارے اس پروگرام میں گجرات کے ساتھ ساتھ راجستھان کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ لونی دھر-جیتلسر کے درمیان گیج کی تبدیلی کا کام بھی اس علاقے میں ریلوے کے رابطے میں سہولت فراہم کرے گا۔ یہاں سے چلنے والی ٹرینیں ملک کے کسی بھی حصے میں جا سکیں گی۔

ساتھیو،

جب کسی روٹ پر میٹر گیج لائن، براڈ گیج میں تبدیل ہوتی ہے تو  وہ اپنے ساتھ بہت سے نئے امکانات لے کر آتی ہے۔ اساروا سے اودے پور تک تقریباً 300 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن، اس کو براڈ گیج میں تبدیل کرنا، اس لیے بھی بہت اہم ہے۔ اس ریل سیکشن کے براڈ گیج بننے سے گجرات اور راجستھان کے قبائلی علاقے دہلی سے منسلک ہو جائیں گے، شمالی ہندوستان سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس ریلوے لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کرنے کی وجہ سے احمد آباد اور دہلی کے لیے ایک متبادل راستہ بھی دستیاب ہو گیا ہے۔ یہی نہیں، اب کچھ کے سیاحتی مقامات اور اودے پور کے سیاحتی مقامات کے درمیان براہ راست ریل رابطہ بھی قائم ہو گیا ہے۔ اس سے کچھ، اودے پور، چتوڑ گڑھ اور ناتھ دوارہ کے سیاحتی مقامات کوکافی فروغ ملے گا۔ یہاں کے تاجروں کو دہلی، ممبئی اور احمد آباد جیسے بڑے صنعتی مراکز سے براہ راست جڑنے کا فائدہ بھی ملے گا۔ خاص طور پر ہمت نگر کی ٹائل انڈسٹری کو کافی مدد ملنے والی ہے۔ اسی طرح لونی دھر-جیتلسر ریل لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کرنے  سے ڈھسا-جیتلسر سیکشن اب مکمل طور پر براڈ گیج میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ ریل لائن بوٹاد، امریلی اور راجکوٹ اضلاع سے ہوکر گزرتی ہے، جن میں اب تک محدود ریل رابطہ تھا۔ اس لائن کا کام مکمل ہونے سے بھاو نگر اور امریلی کے لوگوں کو سومناتھ اور پوربندر سے براہ راست رابطہ کا فائدہ ملے گا۔

اور ساتھیو، اس کا ایک اور فائدہ ہوگا۔اس روٹ سے بھاونگر اور سوراشٹر علاقے  کے ہمارے راجکوٹ، پوربندر اور ویراول  جیسے شہروں کے درمیان  کافاصلہ بھی کم ہوا ہے۔ فی الحال بھاو نگر-ویراول کا فاصلہ تقریباً 470 کلومیٹر ہے، جس میں 12 گھنٹے لگتے ہیں۔ براڈ گیج کے اس کام کی تکمیل کے بعد نئے روٹ کے کھلنے کے بعد اب یہ 290 کلومیٹر سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے سفر کا وقت بھی 12 گھنٹے سے کم ہو کر ساڑھے چھ گھنٹے رہ جائے گا۔

ساتھیو،

نئے راستے کے کھلنے کے بعد بھاونگر-پوربندر کے درمیان فاصلہ تقریباً 200 کلومیٹر اور بھاو نگر-راجکوٹ کے درمیان تقریباً 30 کلومیٹر کم ہو گیا ہے۔ یہ ریل روٹ مصروف سریندر نگر- راجکوٹ- سومناتھ- پوربندر روٹ کے درمیان متبادل راستے کے طور پر دستیاب ہو گیا ہے۔ براڈ گیج روٹ پر چلنے والی ٹرینیں گجرات کی صنعتی ترقی کو بھی فائدہ پہنچائیں گی ، گجرات میں سیاحت کو بھی آسان بنائیں گی اور ملک سے کٹے ہوئے علاقوں کو پورے ملک سے جوڑیں گی۔ آج قومی یکجہتی کے دن کے موقع پر اس پروجیکٹ کو وقف کرنا اسے مزیداہمیت کاحامل بناتا ہے۔

ساتھیو،

جب ڈبل انجن کی حکومت کام کرتی ہے تو اس کا اثر نہ صرف دوگنا ہوتا ہے بلکہ کئی گنا ہوتا ہے۔ یہاں ایک اور ایک مل کر 2 نہیں بلکہ 1 کے برابر میں 1، 11 کی طاقت بن جاتے ہیں ۔ گجرات میں ریل بنیادی ڈھانچہ کی ترقی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا جب 2014 سے پہلے مجھے گجرات میں نئے ریل روٹس کے لیے بار بار مرکزی حکومت سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ لیکن پھر گجرات کے ساتھ ریلوے کے سلسلے میں ناانصافی کی گئی جیسا کہ باقی خطے میں کیا جاتا ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت کے جاری رہنے سے گجرات میں کام کی رفتار تو بڑھی ہے لیکن اسے وسعت دینے کی طاقت بھی بڑھ گئی ہے۔ 2009 اور 2014 کے درمیان 125 کلومیٹر سے بھی کم ریلوے لائن کو ڈبل کیا گیا، 2009-2014 کے درمیان 125 کلومیٹر سے بھی کم۔ جب کہ 2014 سے 2022 کے درمیان ساڑھے پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ ریلوے لائن کو ڈبل لائن کرنا گجرات میں ہوا ہے۔ اسی طرح گجرات میں 2009 اور 2014 کے درمیان صرف 60 کلومیٹر کے ٹریک پر بجلی  لائن لگائی گئی تھی۔ جبکہ 2014 سے 2022 کے درمیان 1700 کلومیٹر سے زیادہ ٹریک کو برقی بنایا گیا ہے۔ یعنی ڈبل انجن والی حکومت نے پہلے سے کئی گنا زیادہ کام  کرکےدکھایا ہے۔

اور ساتھیو، ہم نے صرف پیمانے اور رفتار کو بہتر نہیں کیا ہے، بلکہ ہم نے کئی سطحوں پر بہتری کی ہے۔ یہ بہتری معیار میں، سہولت میں، حفاظت میں، صفائی میں ہوئی ہے۔ ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں کی حالت میں بہتری آج واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ غریب اور متوسط ​​طبقے کو بھی وہی ماحول دیا جا رہا ہے، جو کسی زمانے میں صرف دولت مندوں کو ہی حاصل تھا۔ یہاں گاندھی نگراسٹیشن کتنا جدید اور عظیم الشان ہے، یہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں ۔ اب احمد آباد اسٹیشن کو بھی اس طرح تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں سورت، ادھنا، سابرمتی، سومناتھ اور نیو بھج جیسے اسٹیشن بھی جدید شکل میں سامنے آنے لگے ہیں۔ اب توگاندھی نگر سے ممبئی کے درمیان وندے بھارت ایکسپریس سروس بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس روٹ پر تیز ترین ٹرین سروس کے متعارف ہونے سے یہ ملک کا سب سے اہم کاروباری گزرگاہ بن گیا ہے۔ یہ کامیابی ڈبل انجن والی حکومت کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔

ساتھیو،

مغربی ریلوے کی ترقی کو ایک نئی جہت دینے کے لیے 12 گتی شکتی کارگو ٹرمینل کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ پہلا گتی شکتی ملٹی موڈل کارگو ٹرمینل وڈودرا سرکل میں شروع کیا گیا ہے۔ جلد ہی باقی ٹرمینلز بھی اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ ڈبل انجن والی حکومت کی وجہ سے ہر شعبے میں ترقی کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے اور اس کی طاقت بھی بڑھ رہی ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک ہمارے ملک میں امیر غریب کا فرق، گاؤں شہر کا فرق، غیر متوازن ترقی ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ ہماری حکومت بھی ملک کے اس چیلنج کو حل کرنے میں مصروف ہے۔ سب  کی ترقی کے لئے ہماری پالیسی بالکل صاف ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر زور دیں، متوسط ​​طبقے کو سہولیات فراہم کریں اور غریبوں کو غربت سے نجات کے ذرائع فراہم کریں۔ ترقی کی یہ روایت آج پورے ملک میں قائم ہو چکی ہے۔ غریبوں کے لیے پکے گھر، بیت الخلا، بجلی، پانی، گیس، مفت علاج اور انشورنس کی سہولیات، یہ آج کی گڈ گورننس کی پہچان ہیں۔ آج میٹرو کنیکٹیویٹی، الیکٹرک گاڑیاں، شمسی توانائی، سستا انٹرنیٹ، بہتر سڑکیں، ایمس، میڈیکل کالج، آئی آئی ٹی، اس طرح کا بنیادی ڈھانچہ آج ہم وطنوں کو نئے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ عام کنبوں کی زندگی کو کس طرح آسان بنایا جائے۔ آمد ورفت، تجارت اور کاروبار کو آسان کیسے بنایا جائے۔

بھائیو اور بہنو،

اب ملک میں رابطے کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے نقطہ نظر میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ اب بات صرف یہ نہیں کہ کہیں سڑک بنی، کہیں ریل کی پٹڑی بچھائی گئی، کہیں تیسرے مقام پر ہوائی اڈہ بنا۔ اب رابطے کا مکمل نظام تیار کیا جا رہا ہے۔ یعنی اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوں۔ یہاں احمد آباد میں ہی ریل، میٹرو اور بسوں کی سہولتیں ایک دوسرے سے جوڑ ی جارہی ہیں ۔ اسی طرح دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کا کام ہو رہا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ چاہے سفر ہو یا مال برداری، ہر طرح سے ایک  تسلسل  برقرار رہے۔ ایک موڑ سے باہر نکلیں اور سیدھے دوسرے موڑ پر جائیں۔ اس سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ پیسے کی بھی بچت ہوگی۔

ساتھیو،

گجرات ایک بہت بڑا صنعتی مرکز ہے۔ لاجسٹک لاگت یہاں ایک بہت بڑا موضوع تھا۔  اس سے کاروبار۔تجارت کو، صنعتی شعبے کوتو پریشانی ہوتی ہوی ہی ہے، اس سے اشیا کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے آج ریلوے ہو، ہائی ویز ہوں، ہوائی اڈے ہوں، بندرگاہیں ہوں، ان کے رابطے پر زور دیا جا رہا ہے۔ جب گجرات کی بندرگاہوں کو بااختیار بنایا جاتا ہے تو اس کا براہ راست اثر پورے ملک کی معیشت پر پڑتا ہے۔ ہم نے بھی پچھلے 8 برسوں میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ اس عرصے کے دوران گجرات کی بندرگاہوں کی گنجائش تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ اب گجرات کی بندرگاہوں کو ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔ مال گاڑیوں  کے لیے بچھائے جانے والے خصوصی ٹریک سے گجرات میں صنعتوں کو بھی وسعت ملے گی۔ نئے شعبوں کے لیے مواقع پیدا ہوں گے۔ اسی طرح ساگرمالا اسکیم کے تحت پوری ساحلی پٹی میں اچھی سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔

ساتھیو،

ترقی ایک مسلسل عمل ہے۔ ترقیاتی اہداف پہاڑ کی چوٹی کی طرح  ہوتے ہیں۔ ایک چوٹی پر پہنچتے ہی دوسری چوٹی اس سے اونچی دکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر اس تک پہنچنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ ترقی ایک ایسا ہی عمل ہے۔ گجرات نے گزشتہ 20 برسوں میں ترقی کی کئی بلندیوں کو عبور کیا ہے۔ لیکن آنے والے 25 برسوں میں ہمارے سامنے گجرات کا ترقی یافتہ ہو ایک بہت بڑا ہدف ہے۔ جس طرح ہم نے پچھلی دو دہائیوں میں مل کر کامیابیاں حاصل کی ہیں، اسی طرح ہر گجراتی کو متحرک ہونا ہے، ہر گجراتی کو متحرک ہونا ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ترقی یافتہ گجرات کی تعمیر ہمارا نصب العین ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں، ایک بار گجراتی کچھ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ اسے مکمل کرنے کے بعد ہی رکتا ہے۔ اس عزم کے ساتھ اور میں حیران ہوں کہ آج سردار پٹیل کا یوم پیدائش ہے۔ یہ ملک کے لیے قابل فخر لمحہ ہے۔ جس  آدمی نے، جس عظیم شخصیت نے ہندوستان کو متحد کیا،آج ہم اسی اتحاد کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل ملک کے پہلے وزیر داخلہ تھے۔ ملک کو متحد کرنے کا کام کیا۔ ہر ہندوستانی کو سردار پٹیل پر فخر ہے، ایسا ہوتا ہے یا نہیں بھائی؟ آپ کو فخر ہے یا نہیں؟ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ کیا سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تعلق بی جے پی سے تھا؟ وہ بی جے پی کے نہیں تھے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کانگریس کے عظیم رہنما تھے۔ آج ان کی سالگرہ پر میری نظر  دو اخباروںپر پڑی، دواخباروں پر۔ کانگریس پارٹی راجستھان کی کانگریس حکومت نے گجراتی اخبارات میں پورے صفحے کا اشتہار شائع کیا ہے۔ کانگریس حکومت کا اشتہار، لیکن اس اشتہار میں آج سردار ولبھ بھائی پٹیل کے یوم پیدائش پر نہ تو سردار پٹیل کا نام ہے، نہ سردار پٹیل کی تصویر ہے اور نہ ہی سردار پٹیل کو خراج عقیدت ہے۔ یہ تذلیل، وہ بھی گجرات کی سرزمین پر، جو کانگریس سردار پٹیل کو جوڑنے میں ناکام ہے، اس میں کیا اضافہ ہو سکتا ہے؟ یہ سردار صاحب کی توہین ہے، یہ ملک کی توہین ہے۔ وہ بی جے پی سے نہیں تھے، ان کا تعلق کانگریس سے تھا۔ لیکن ملک کے لیے جیا، ملک کو کچھ دیا۔ آج ہمیں فخر ہے، دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ بنا کر ہم مطمئن ہیں،یہ لوگ نام لینے کو بھی تیار نہیں۔

بھائیو، بہنو،

گجرات ان چیزوں کو کبھی معاف نہیں کرتا اور ملک بھی کبھی معاف نہیں کرتا ہے۔

ساتھیو،

یہ ریلوے  بھی جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب تک جوڑنے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے یہ مسلسل کام جاری ہے، تیز رفتاری سے جاری ہے اور آج آپ کو اس کا ایک فائدہ بھی مل رہا ہے۔ آپ کے لیے میری نیک خواہشات!

بہت بہت  شکریہ!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।