‘‘جب ہندوستان کا شعور کم ہوا تو پورے ملک کے سنتوں اور سادھووں نے ملک کی روح کو زندہ کیا’’
‘‘مندروں اور مٹھوں نے مشکل دور میں ثقافت اور علم کو زندہ رکھا’’
‘‘بھگوان بسویشور کی طرف سے ہمارے معاشرے کو دی گئی توانائی، جمہوریت، تعلیم اور مساوات کے نظریات، آج بھی ہندوستان کی بنیاد میں موجود ہیں’’

ایلریگو نمسکارم!

ستورو سنستھانوو  شکشن، ساماجک سیوے،  انادا-سوہکّے، پرکھیاتی  پڈیدیرو، وشو پرسدھ  سنتھیا-گِدے، ای کشیترکے، آگمی-سرو-ودکّے، نن گے اتیو سنتوش-واگدے۔

قابل  صداحترام جناب شیو راتری دیشی کیندر مہاسوامی جی، جناب سدھیشور مہاسوامی جی، جناب سدالنگا مہاسوامی جی، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسواراج جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، پرہلاد جوشی جی، حکومت کرناٹک کے وزیر، ارکان پارلیمنٹ، ارکان   اسمبلی اور ستور مٹھ سے  تعلق رکھنے والے تمام  عقیدت مندو! اور  بہت بڑی تعداد میں یہاں آشیرواد دینے آئےقابل  صد احترام  سنت گن!

میں میسور کی ادھیشٹھاتری دیوی ماتا چامنڈیشوری کوپرنام کرتا ہوں،  یہ ماں کی کرپا ہی ہے کہ آج مجھے  میسور آنے کا موقع ملا۔  میسور کی ترقی کے لیے کئی بڑے کاموں کو قوم کے نام وقف کرنے کا موقع بھی ملا۔ اور اب، میں یہاں آپ  سب سنتوں کے درمیان اس  پنیہ  پروگرام میں آکر  کے  اپنے آپ کو بہت ہی  خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔ اور یہاں سے میں ماں چامنڈیشوری کے چرنوں میں جاؤں گا، ان کے بھی آشیرواد  لوں گا۔ اس روحانی موقع پر، میں  شری سترو مٹھ کے سنتوں، آچاریوں اور منیشیوں کو اس مٹھ کی عظیم روایت،  اس کی کوششوں  کو نمن کرتا ہوں۔ خصوصی طور پر  میں آدی جگد گرو شیو راتری شیو یوگی مہاسوامی جی کو پرنام کرتا ہوں، جنہوں نے اس روحانی  شجر برگد کا  بیج بویا تھا۔ علم اور روحانیت کی یہ عظیم روایت  آج ستورو  مٹھ  کے  موجودہ مٹھ  آدھیش پرم پوجیہ جناب شیو راتری دیشی کیندر مہاسوامی جی کے  آگے بہت تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ شری منت مہرشی جی کے ذریعہ شروع کی گئی درس گاہ نے جناب راجندر مہاسوامی جی کی رہنمائی میں اتنا بڑا پروجیکٹ شروع کیا۔ بھارتی ثقافت اور سنسکرت کی تعلیم کے لیے اس  درس گاہ  کی نئی عمارت کا بھی آج افتتاح کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ  اپنی اس جدید اور عظیم الشان شکل میں یہ ادارہ مستقبل کی تعمیر کے اپنے عزائم کو مزید وسعت دے گا۔ میں اس اختراعی کوشش کے لئے آپ سبھی کو  سر جھکاکر ابھی نندن بھی کرتا ہوں ۔ بہت بہت نیک خواہشات بھی پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج مجھے جناب سدھیشور سوامی جی کے ذریعے  نارد بھکتی سوتر، شیو سوتر اور پتنجلی یوگ سوتر پر ان کی تشریحات کو قوم کے نام  وقف کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ قابل صد احترام  جناب سدھیشور سوامی جی بھارت کی اس قدیم رشی روایت کی نمائندگی کر رہے ہیں، جسےشاسترون میں شروت پرمپرا کہا گیا ہے۔ شروت پرمپرا  یعنی جو سن لیا اسے دل  و دماغ پر  نقش کر لیا۔ یوگ کے عالمی دن  کے موقع پر، پتنجلی یوگ سوترا کی تشریح، نارد بھکتی سوتر اور شیو سوتر کے ذریعہ  بھکتی یوگا اور  گیان یوگا کو آسانی سے  حاصل ہونے والا  بنانے کی کوشش ، اس کا فائدہ نہ صرف بھارت کو بلکہ پوری دنیا کو  ملے گا۔ اور  میں آج جب  آپ سب کے درمیان ہوں تو کرناٹک کے جو   اہل علم ہیں ، ان سے درخواست کروں گا کہ دنیا میں سماجی علوم پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے،  گزشتہ چار پانچ صدیوں میں، اگر  اس کا مطالعہ کریں تو اس موضوع کا علم رکھنے والے  لوگ اس بات تک پہنچیں گے کہ نارد سوستر اس سے  بھی پرانا ہے اور  سماجی علوم کا  ایک بہت بڑا  شاندار ذخیرہ ہمارے پاس ہے۔ دنیا کے لیے  ضروری ہے ایک بار مطالعہ  کرے۔ جو لوگ مغرب کے نظریات کو جانتے ہیں،  وہ  کبھی نارد سوتر کے ذریعے سے  دنیا کو دیکھنے، سماجی نظام کو دیکھنے، انسانی اقدار کو دیکھنے،  حیرت انگیز  گرنتھ  یہ نارد سوتر اور اس کو  آج جدید تعریف میں بیان کیا گیا ہے۔  سماج کی بہت بڑی خدمت کی ہے آپ نے ۔

ساتھیو،

ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے کہ علم جیسی مقدس کوئی چیز نہیں اور علم کا کوئی نعم البدل  بھی نہیں ہے۔ اور اس لئے ہمارے رشیوں نے، منیشیوں نے،   بھارت کو اس شعور کے ساتھ  تراشہ جو علم اور سائنس سے تحریک پاتا ہے، جو فہم سے  بڑھتا ہے، اور تحقیق سے مضبوط ہوتا ہے۔ زمانہ بدلا، وقت  بدلا، بھارت نے وقت کے متعدد طوفانوں کا سامنا  بھی کیا ۔ لیکن، جب بھارت کا شعور کمزور ہوا، تو ملک کے کونے کونے میں سنتوں، رشیوں، منیوں، آچاریوں نے بھگونتوں نے پورے بھارت کو متھ کر ملک کی روح کو زندہ کیا ہے۔ شمال میں میری کاشی سے لے کر یہیں پاس میں   ننجن گڈ  جنوبی کاشی تک مندروں اور مٹھوں کے مضبوط اداروں نے غلامی کے طویل دور میں بھی بھارت کے علم کو روشن رکھا۔ میسور میں سری ستورو مٹھ، تمکورو میں سری سدھ گنگا مٹھ، چتردرگ میں سری سری گیرے مٹھ، سری مروگو-راجیندر مٹھ۔ چکمگلور میں سری رمبھاپوری مٹھ، ہبلی میں سری مروساویرا مٹھ، بیدر میں بسواکلیان مٹھ! اکیلے جنوبی بھارت  میں ہی ایسے کتنے ہی مٹھوں کا  مرکز ہے، جو لاتعداد  علوم ، لامحدود مضامین کو صدیوں سے سیراب کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

سچائی کا وجود وسائل پر نہیں بلکہ خدمت اور قربانی پر  قائم ہوتاہے۔ سری ستورو مٹھ اور جے ایس ایس مہاودیا پیٹھ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جناب شیو راتری راجندر مہاسوامی جی نے جب  سماجی خدمت کا عزم لے کر  مفت ہاسٹل کھولا تو ، اس وقت ان کے پاس کیا وسائل تھے؟ کرائے کی عمارت تھی، راشن وغیرہ کا بندوبست کرنے کے بھی  ضروری پیسے نہیں تھے۔ اور میں نے سنا تھا کہ ایک بار  پیسے کی کمی میں  ہاسٹل کے سامان کی سپلائی بند ہو گئی،  تو سوامی جی کو ’’لنگم کرڈیگے‘‘ بھی بیچنا پڑا تھا۔ یعنی انہوں نے  خدمت کے عزم کو عقیدت سے بالا تر سمجھا۔ دہائیوں پہلے کی وہ قربانی آج سدھی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج جے ایس ایس مہاودیا پیٹھ ملک میں 300 سے زیادہ ادارے اور ملک اور بیرون ملک  میں دو یونیورسٹیاں چلا رہا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف بھارت کے روحانی اور ثقافتی برانڈ ایمبیسیڈرز ہیں بلکہ سائنس، آرٹس اور  کامرکس  میں بھی   اتنا ہی تعاون کررہے ہیں۔ ستورو مٹھ غریب بچوں کی ، قبائلی معاشرے کی اور ہمارے گاؤں کی  جو خدمت کر رہا ہے وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔

ساتھیو،

کرناٹک، جنوبی بھارت اور بھارت کی بات ہو، علیم، مساوات اور خدمت جیسے موضوعات ہوں تو یہ معاملات  بھگوان بسویشور کے آشیرواد  سے  مزید توسیع پاتے ہیں۔ بھگوان بسویشور جی نے ہمارے سماج کو جو توانائی دی تھی، انہوں نے  جمہوریت، تعلیم اور مساوات کے جو آدرش  قائم  کیے تھے، وہ آج بھی بھارت کی بنیاد میں  ہیں۔ مجھے ایک بار لندن میں بھگوان بسویشور جی کے مجسمے کو وقف کرنے کا موقع ملا تھااور اس وقت میں نے کہا تھا کہ ایک طرف میگنا کارٹا رکھئے اور دوسری جانب بھگوان وشویشور کے وچن رکھئے، آپ کو  پتہ چلے گا کہ  میگنا  کارٹا کے پہلے کتنی صدیوں پہلے  میرے ملک میں  سماج کے تئیں دیکھنے کا  رویہ کیا تھا، اس سے  نظر آئے گا۔

ساتھیو،

انہی آدرشوں  پر عمل کرتے ہوئے شری  سدھ گنگا مٹھ آج  سوا سو  سے زیادہ ادارے چلا رہا ہے، معاشرے میں تعلیم اور روحانیت پھیلا رہا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ  سدھ گنگا مٹھ کے اسکولوں میں اس وقت تقریباً دس ہزار طلباء علم حاصل کر رہے ہیں۔ بھگوان بسویشور کی یہ تحریک، یہ بے لوث خدمت کی یہ لگن، یہی ہمارے بھارت کی بنیاد ہے۔ یہ بنیاد جتنی مضبوط ہوگی  ہمارا ملک اتنا ہی مضبوط ہوگا۔

ساتھیو،

آج جب ہم ملک کی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو  آزادی کے امرت کا ل کی یہ  مدت ’سب کے  پریاس‘ کا ایک  بہترین موقع ہے۔ ہمارے  رشیوں  نے سہکار، تعاون اور سب کی کوششوں سے اس  عزم  کو ’سہناؤوتو سہنوبھونکتو۔ سہ ویریم کرواو ہے‘جیسے ۔ یہ وید رچاؤں  کی شکل میں ہمیں  دیا ہے ۔ آج  وقت  ہے، ہم  ہزاروں سال کے اس روحانی تجربے کوعملی شکل دیں۔ آج وقت ہے  کہ ہم غلامی کے سینکڑوں برسوں میں دیکھے گئے خوابوں  شرمندہ تعبیر کریں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی کوششوں کو قوم کے عزائم سے جوڑنا ہوگا۔

ساتھیو،

آج تعلیم کے میدان میں ’قومی تعلیمی پالیسی‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تعلیم ہمارے بھارت کے لئے  فطری خصوصیت رہی ہے۔ اسی فطرت کے ساتھ  ہماری نئی نسل کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کے لیے مقامی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متبادل دیئے جارہے ہیں۔ کنڑ، تمل، تیلگو کے ساتھ ساتھ سنسکرت جیسی زبانوں کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے تمام مٹھ  اور مذہبی ادارے صدیوں سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ میسور ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے آج بھی ملک کا واحد سنسکرت روزنامہ سدھرما شائع ہوتا ہے۔ اب ملک بھی  آپ کی ان کوششوں میں اپنا تعاون دے رہا ہے، اس کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح صحت اور تندرستی کے لیے بھارت کی کوششوں کی وجہ سے آج آیوروید اور یوگا کو پوری دنیا میں ایک نئی شناخت ملی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک کا کوئی بھی شہری اس ورثے سے لاعلم اور محروم نہ رہے۔ اس مہم  کی تکمیل کے لیے ہمارے روحانی اداروں کا تعاون بہت اہم  ہے۔ ایسے ہی  بیٹیوں کی  پڑھائی لکھائی کے لئے ،  پانی کے تحفظ کے لئے، ماحولیات  کے لئے اور صاف ستھرے بھارت کے لیے بھی ہم سب کو مل کر آگے آنا ہوگا۔ ایک اور اہم  عزم  قدرتی کاشتکاری کا بھی ہے۔ ہمارا  انّ جتنا شدھ ہوگا ،  ہماری زندگی  بھی اور انّ شدھ تو من شدھ اتنا ہی صحت اور  پاکیزہ ہوگا۔ میں چاہوں گا کہ اس سمت میں ہمارے  تمام مذہبی مٹھ  اور ادارے  آگے آکر  لوگوں کو بیدار کریں۔ ہماری  اس  بھارت ماتا، ہماری اس دھرتی ماتا، اس کو ہم  کیمیکلز سے  پاک کریں۔ اس کے لیے جتنا کریں گے ، یہ ماں کے آشیرواد  صدیوں تک ہمارے کام آنے والے ہیں۔

ساتھیو،

جس کام سے سنتوں کی کوشش منسلک ہوجاتی ہیں اس  کو روحانی شعور اور  ایشور کا آشیرواد  بھی مل جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ تمام  سنتوں کا آشیرواد مسلسل ملک کو  ملتا رہے گا۔ ہم  ساتھ مل کر نئے بھارت کے  خواب پورا کریں گے۔ اور آج  میرے لئے  بڑی خوش قسمتی کا لمحہ ہے۔ لائق صد احترام سنتوں نے  جس طرح سے میرے لیے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، میں جانتا ہوں،  جو کچھ بھی میرے لیے  کہا گیا ہے، ابھی مجھے وہاں تک پہنچنے کے لیے  بہت کچھ کرنا باقی  ہے۔ لیکن مجھے  اس بات کا بھروسہ  ہے کہ  سنتوں کے آشیرواد ، ہماری عظیم تہذیبی وراثت اور آپ  سب سنتوں کی مجھ سے جو توقعات وابستہ ہیں، آپ بھی مجھے  تراشتے رہیں گے، آپ  ہی مجھے سمت دیتے رہیں گے اور میں آپ کی رہنمائی سے، سنتوں کی رہنمائی سے ،  عظیم وراثت کی تحریک سے ان کاموں کو پورا کرپاؤں یہ ایسے آشیرواد آپ مجھے دیجئےتا کہ میرے کام میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور آپ کی توقعات  ادھوری نہ  رہ جائیں۔ اسی ایک جذبے کا اظہار کرتے ہوئے مجھے آپ سب کے درمیان میں  آنے کا موقع ملا، میری زندگی دھنیتا محسوس کر رہی ہے۔ میں  پھر ایک بار  آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

یلّاریگو نمسکار!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s organic food products export reaches $448 Mn, set to surpass last year’s figures

Media Coverage

India’s organic food products export reaches $448 Mn, set to surpass last year’s figures
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister lauds the passing of amendments proposed to Oilfields (Regulation and Development) Act 1948
December 03, 2024

The Prime Minister Shri Narendra Modi lauded the passing of amendments proposed to Oilfields (Regulation and Development) Act 1948 in Rajya Sabha today. He remarked that it was an important legislation which will boost energy security and also contribute to a prosperous India.

Responding to a post on X by Union Minister Shri Hardeep Singh Puri, Shri Modi wrote:

“This is an important legislation which will boost energy security and also contribute to a prosperous India.”