محترم اسپیکر صاحب ،
صدر جمہوریہ ہندکے خطاب پر یہاں تفصیل سے بات ہوئی ہے۔ عزت مآب صدر جمہوریہ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس بحث میں حصہ لینے کے لئے آپ نے وقت دیا ہے، میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں۔ محترم صدر جمہوریہ نے گزشتہ دنوں کورونا کے اس مشکل دور میں بھی ملک میں ہرسمت میں کس طرح سے انیشیٹیو کےلئے، ملک کے دلت، مظلوموں ،غریبوں، حاشیہ پر پڑے لوگوں ، خواتین اور نوجوانوں سمیت معاشر ے کے دیگر کمزور طبقات کی زندگی کو بااختیار بنانے کے لئے ، ان کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے ملک میں جو کچھ بھی سرگرمیاں ہوئی ہیں، اس کا ایک مختصر خاکہ ملک کے سامنے پیش کیا۔ اور اس میں امیدیں بھی ہیں، اعتماد بھی ہے، عزم بھی ہے، وقف بھی ہے۔ بہت سے معزز ارکان نے تفصیل سے بات کی ہے۔عزت مآب کھڑگے جی نے کچھ ملک کے لئے ، کچھ پارٹی کے لئے، کچھ خود کے لئے کافی کچھ باتیں بتائی تھیں۔ آنند شرما جی نے بھی ان کو ذرا وقت کی تکلیف رہی، لیکن پھر بھی انہوں نے کوشش کی۔ اور انہوں نے یہ کہا کہ ملک کی کامیابیوں کو تسلیم کیا جائے۔ جناب منوج جھا نے سیاست سے پرے صدر جمہوریہ کے خطاب پر بحث کو ترجیح دینے کی بات کی۔ اس کی اچھی صلاح بھی دی۔ پرسنا آچاریہ جی نے بیر بال دیوس اور نیتاجی سے جڑے قانون کے سلسلے میں بھی تفصیل سے ستائش کی۔ ڈاکٹر فوزیہ خان جی نے آئین کے وقار کے سلسلے میں تفصیل سے بات چیت کی۔ ہر ایک رکن نے اپنے تجربے کی بنیاد پر، اپنی سیاسی سوچ کی بنیاد پر اور سیاسی صورتحال کی بنیاد پر اپنی باتیں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ میں سبھی معزز ارکان کا اس کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
معززچیئرمین صاحب،
آج ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ 75 سال کی آزادی کے اس دور میں ملک کو سمت دینے کا ، ملک کو رفتار دینے کی بہت سی سطح پر کوشش ہوئی ہیں۔ اور ان سب کاحساب کتاب لے کر کے جو اچھا ہے ،اسے آگے بڑھانا، جو خامیاں ہیں اس کو درست کرنا ہے۔ اور جہاں نئے انشیٹیو لینے کی ضرورت ہے وہ نئے انشیٹیو لینا اور ملک جب آزادی کے 100 سال منائے گا، تب ہمیں ملک کو کہاں لے جانا ہے، کیسے لے جانا ہے، کن کن منصوبوں کی مدد سے ہم اسے آگے لے جاسکتے ہیں، اس کے لئے یہ بہت ہی اہم وقت ہے۔ اور ہم سبھی سیاسی رہنماوں نے سیاسی شعبے کے کارکنوں نے اپنی اور ملک کی توجہ بھی آنے والے 25 سال کے لئے ملک کو کیسے آگے لے جانا، اس کے لئے مرکوز کرنا چاہئے اور مجھے یقین ہے کہ اس سے جو عزم ابھریں گے، اس عزم میں سب کی اجتماعی شراکت داری ہوگی۔ اس کا اونرشپ ہوگا اور اس کی وجہ سے جو 75 سال کی رفتار تھی، اس سے کئی گُنا رفتار کے ساتھ ہم ملک کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔
عزت مآب چیئرمین،
کورونا ایک عالمی وبا ہے اور گزشتہ 100 سال میں بنی نوع انسان نے اتنی بڑی مصیبت نہیں دیکھی ہے۔ اور بحران کی شدت دیکھئے، ماں بیمار ہے کمرے میں لیکن بیٹا اس کمرے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پوری انسانیت کے لئے یہ کتنابڑا بحران تھا۔ اور ابھی بھی اس بحران کی کئی شکلیں ہیں، نئے نئے رنگ روپ لے کر کے کبھی نہ کبھی ،کچھ نہ کچھ آفات لے کر آتا ہے۔ اور پورے ملک ، پوری دنیا، پورے بنی نوع انسان اس کا سامنا کررہے ہیں۔ ہر کوئی اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے ۔ آج 130 کروڑ کے بھارت کے لئے دنیا میں جب ابتدائی کورونا کی شروعات ہوئی۔ موضوع بحث یہ رہا کہ بھارت کا کیا ہوگا؟ اور بھارت کی وجہ سے دنیا کی کتنی بربادی ہوگی، اس سمت میں بحث ہورہی تھی۔ لیکن یہ 130 کروڑ اہل وطن کے عزم مصمم اور ان کی ذاتی لیاقتوں جو بھی انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات سے حاصل کیے تھے، ان کے درمیان ڈسیپلین (نظم و ضبط) قائم کرنے کی کوشش کی کہ آج دنیا بھر میں بھارت کی کوششوں کی ستائش ہورہی ہے اور یہ اس کے لئے قابل فخرلمحہ ہے۔ یہ کسی سیاسی پارٹی کی تاریخ نہیں تھی۔ یہ مکمل کامیابی ملک کی ہے ۔ 130 کروڑ باشندگان ملک کی ہے ، اچھا ہوتا اس کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کرتے آپ لوگ، کہ آپ کے کھاتے میں بھی کچھ جمع ہوجاتا ۔ لیکن اب یہ بھی سیکھانا پڑے گا۔ خیر ٹیکہ کاری کے تعلق سے ابھی وقفہ سوال میں ہمارے معزز وزیر نے تفصیل سے اپنی باتیں رکھیں ہیں کہ جس طرح سے بھارت ویکسین بنانے میں، جدت طرازی میں، تحقیق میں، اس کے نفاذ میں آج بھی دنیا میں ویکسین کے خلاف بہت بڑی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لیکن ویکسین سے مجھے فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن کم از کم ویکسین لگواؤں گا تو میری وجہ سے کسی اور کا نقصان نہیں ہوگا۔ اسی ایک جذبہ کے تحت 130 کروڑ باشندگان ملک کو ویکسین لینے کے لئے بیدار کیا ہے۔ اور اس تعلق سے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ بھارت کا اہم ترین فکر کا نظریہ ہے ، جو اس بات کی عکاس ہے کہ ہم عالمی وبا کے تئیں کس قدر حساس ہیں اوراسے دنیا کے سامنے لانا ہر ہندوستانی کا فرض ہے۔ محض اپنی ذات کی حفاظت کرنے کا موضوع ہوتا تو ویکسین لگواؤں یا نہ لگواؤں ، اس سے کسی طرح کا تنازعہ پیدا نہ ہوتا ۔ لیکن جب کسی کو یہ خیال آیا کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ،اگر اس کے لئے مجھے بھی ڈوز لینا ہے ، تو میں اسے ضرورت لے لوں اور اس نے ڈوز لے لیا ۔ یہ پورے ملک کی، بھارت کے ہر شہری کی ، بھارت کے انسانیت کی منشا ہے اور اس کے لئے ہم فخر سے یہ دنیا کے سامنے کہہ سکتے ہیں۔ آج صد فیصد ڈوز کے ہدف کی طرف ہم بڑی روانی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں معزز اراکین سے اور تمام ہی حضرات سے ، ان کے سامنے ہمارے صف اول کے کارکنان، صحت کے شعبے سے جڑے کارکنان،ہمارے سائنس داں ، انہوں نے جو کام کیا ہے ، ان کی ستائش کرنے سے ہندوستان کی لیاقت کا مظاہرہ تو ہوگا ہی ، اس کا پرچم بھی پوری دنیا میں بلند ہوگا۔ لیکن اس طرح سے اپنی زندگیوں کو کھپانے والے لوگوں کا بھی حوصلہ بلند ہوگا اور اس لئے یہ پارلیمنٹ بڑے فخر کے ساتھ ان کی ستائش کرتا ہے ، ان کے کاموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ان کے تئیں اظہار تشکر پیش کرتا ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
کورونا کے اس دور میں 80 کروڑ سے بھی زیادہ اہل وطن کو اس طویل مدت کے دوران مفت راشن کا انتظام ، ان کے گھر کے چولہے جلتے رہیں ایسے حالات پیدا ہوں۔یہ کام بھارت نے کرکے دنیا کے سامنے مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسی کورونا کے دور میں جب کہ کئی طرح کی پریشانیاں تھیں، رکاوٹیں تھیں، اس کے باوجود بھی ترقی میں رکاوٹوں کو دور کیا گیا اور انہی تمام رکاوٹوں کے درمیان بھی لاکھوں خاندانوں کو ، غریبوں کو، پختہ مکان دینے کے اپنے وعدے کے سمت میں ہم مسلسل کام کرتے رہے اور آج غریب کے بھی گھر کے اخراجات لاکھوں میں ہوتے ہیں۔ جتنے کروڑوں خاندانوں کو یہ گھر ملا ہے نہ ، آج ہر غریب خاندان خود کو لکھ پتی کہہ سکتا ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
اسی کورونا کے دور میں پانچ کروڑ دیہی خاندانوں تک نل سے جل پہنچانے کا کام کرکے ایک نیا ریکارڈ بنایا گیا ہے۔ اسی کورونا کے دور میں جب پہلا لاک ڈاون آیا تب بھی بہت دانشمندی کے ساتھ ، کئی لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد ، اس وقت تھوڑے حوصلہ کی بھی ضرورت تھی کہ گاوں میں کسانوں کو لاک ڈاون سے کیسے آزاد رکھا جائے ، فیصلہ بہت اہم تھا لیکن ہم نے اسے کیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ہمارے کسانوں نے کورونا کے اس منفی دور میں بھی زبردست پیداوار کی اور ایم ایس پی میں بھی ریکارڈ خریداری کرکے نئے خریداری مراکز قائم کئے گئے۔ کورونا کے اسی دور میں انفراسٹرکچر سے جڑے ہوئے کئی پروجیکٹوں کو پورا کیا گیا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی مصیبت کے دور میں انفرااسٹرکچر پر جو اخراجات آتے ہیں وہ روزگار کے مواقع کو یقینی بناتے ہیں۔ اور اسی لئے ہمنے اس پر بھی زور دیا تاکہ روزگار بھی ملتا رہے اور سارے پروجیکٹ بھی ہم وقت پر پورے کرپائے۔ مشکلات تھیں لیکن ہم اس سے نکل پائے۔ اسی کورونا کے دور میں خواہ جموں کشمیر ہوں، خواہ شمال مشرقی ریاستیں ہوں، ہر دور میں پوری تفصیل سے ترقی کا سفر جاری رہا۔ اور اسے آگے بڑھایا جاتا رہا۔ اور ہم نے اسے متواتر جاری رکھا۔ اسی کورونا کے دور میں ہمارے ملک میں نوجوانوں نے کھیل کی دنیا کے ہر شعبے میں ہندوستان کا ترنگا ، ہمارا پرچم لہرانے میں بہت بڑا کام کیا۔ دیش کو فخر سے لبریز کردیا، آج پورا ملک ہمارے نوجوانوں نے کھیل کی دنیا میں جس طرح کی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، کورونا کے اس ساری رکاوٹوں کے درمیان انہوں نے اپنی کوششوں کو کم نہیں ہونے دیا۔ اپنی ذاتی لیاقت و صلاحیت کو گھٹنے نہیں دیا اور دیش کو فخر کا موقع دیا۔
محترم اسپیکر صاحب،
اسی کورونا کے دور میں آج جب ہمارے ملک کا نوجوان طبقہ اسٹارٹ اپ یعنی بھارت کا نوجوان ایک شناخت کے طور پر ابھررہا ہے، وہ لوگوں کے ایک مثال بن گیا ہے، آج ہمارے ملک کا نوجوان اسٹارٹ اپ کی وجہ سے ، اسٹارٹ اپ کی دنیا میں سرفہرست تیسرے مقام پر ہندوستان کو جگہ دلائی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
اسی کورونا کے دور میں خواہ سی او پی 26 کا معاملہ ہو، خواہ جی 20 گروپ کا شعبہ ہو یا معاشرے اور اس کے اندرون مختلف طرح کے موضوعات اور امور پر کام کرنا ہو، خواہ دنیا کے 150 ملکوں کو ادویات پہنچانے کی بات ہو ، بھارت نے ایک قائدانہ کردار ادا کیا ہے ۔ آج بھارت کی اس قیادت کی دنیا بھر میں شہرت ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
جب مصیبتوں کی گھڑی ہوتی ہے، چیلنجز بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ دنیا کی ہر طاقت اپنے ہی تحفظ میں لگی ہوتی ہے۔ کوئی کسی کی مدد نہیں کرپاتا ہے۔ ایسے پرآشوب دور میں اس مشکلات سے باہر نکالنا اس موقع پر مجھے آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی نظم کے وہ مصرعے ہم سب کے لئے حوصلہ کا باعث بن سکتے ہیں ۔ اٹل جی نے لکھا تھا – ویاپت ہوا بربر اندھیارا، کنتو چیر کرتم کی چھاتی، چمکا ہندوستان ہمارا۔ شت-شت آگھاتوں کو سہہ کر ،جیوت ہندوستان ہمارا ۔ جگ کے مستک پر رولی سا، شوبھت ہندوستان ہمارا ۔اٹل جی کے یہ الفاظ آج کے اس دور میں ہندوستان کی استعداد کا بین ثبوت ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
کورونا کے اس دور میں تمام شعبوں کو رکاوٹوں کے درمیان بھی آگے بڑھانے کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں لیکن اس میں کچھ شعبے ایسے تھے جس پر خاص طور پر زور دیا گیا کیونکہ وہ وسیع پیمانے پر عوام کے درمیان ضروری تھا ، نوجوان نسلوں کے لئے اہم تھا۔ کورونا کے اس دور میں جن خصوصی شعبوں پر فوکس کیا ، اس میں سے دوشعبوں پر میں ضرور بات کرنا چاہوں گا۔ ایک ایم ایس ایم ای سیکٹر، سب سے زیادہ روزگار دینے والا شعبہ ہے۔ ہم نے یقینی بنایا کہ اسی طرح سے کھیتی اور کاشت کاری کا شعبہ بھی ہے ۔ اس میں بھی کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے ، اس کو یقینی بنایا گیا اور اس کی وجہ کی بھی میں نے وضاحت کی ہے۔ بہت جم کر کاشت کاری ہوئی ، حکومت نے ریکارڈ سطح پر خریداری بھی کی ، عالمی وبا کے باوجود گیہوں ، دھان کی خریداری کے نئے ریکارڈ بنے، کسانوں کو زیادہ ایم ایس پی ملا اور وہ بھی ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کی اسکیم کے تحت ملا۔ رقم سیدھے ان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوگئی۔ اور میں نے تو پنجاب کے کئی لوگوں کے ویڈیو دیکھے کیونکہ پنجاب میں پہلی بار ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر سے پیسہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ صاحب میرے کھیت کی تو اتنی ہی حجم ہے، ہماری محنت اتنی ہی ہے لیکن یہ کھاتے میں اتنی رقم ایک ساتھ آتی ہے ، ایسا پہلی بار زندگی میں دیکھا ہے۔ اسکی وجہ سے مصیبت کے وقت کسانوں کے پاس کیش کی سہولت رہی، ایسے قدموں سے ہی اتنے بڑے سیکٹر کو دھچکہ اوررکاوٹ سے ہم بچا پائے۔اسی طرح سے ایم ایس ایم ای سیکٹر یہ ان سیکٹروں میں تھا ، جس کا آپ آتم نربھر بھارت پیکج کا سب سے زیادہ فائدہ ملا۔ الگ الگ وزارتوں نے پی ایل آئی اسکیم لانچ کی اس سے مینوفیکچرنگ کوتقویت ملی۔ بھارت اب لیڈنگ موبائل مینوفیکچرر بن گیا ہے۔ اور ایکسپورٹ میں بھی اس کا تعاون بڑھ رہا ہے ، آٹوموبائل اور بیٹری ، اس شعبے میں بھی پی ایل آئی اسکیم حوصلہ افزا نتائج دے رہی ہے۔ جب اتنی بڑی سطح پر مینوفیکچرنگ اور وہ بھی زیادہ تر ایم ایس ایم ای سیکٹر کے ذریعہ ہوتا ہے تو فطری ہے کہ دنیا کے دیشوں سے آرڈر بھی ملتے ہیں، زیادہ مواقع بھی ملتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ انجینئرنگ گڈس جو بڑی مقدار میں ایم ایس ایم ای کا سیکٹر بناتا ہے، اس وقت جو ایکسپورٹ کا آنکڑا بڑا بنا ہے اس نے یہ انجینئرنگ گڈ کا بہت بڑا رول رہا ہے ۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کی صلاحیت اور مہارت کا اور بھارت کے ایم ایس ایم ای کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر ہم دفاعی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو دیکھیں۔ اترپردیش اور تمل ناڈو میں ڈیفنس کوریڈور بنارہے ہیں ، مفاہمت ناموں پر دستخط ہورہے ہیں، جس طرح سے لوگ اس شعبے میں آرہے ہیں ،ایم ایس ایم ای کے شعبے کے لوگ بھی اس میں آرہے ہیں ، دفاعی شعبے کے لوگ بھی اس میں شرکت کررہے ہیں ، یہ خود میں بہت ہی حوصلہ افزا ہے کہ ملک کے لوگوں میں یہ صلاحیت ہے اور دیش کو دفاع کے شعبے میں خودکفیل بنانے کے لئے ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کے لوگ بہت ہمت جمع کررہے ہیں۔ آگے آرہے ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب،
ایم ایس ایم ای ، کچھ جی ای ایم، اس کے ذریعہ سے حکومت میں جو سازوسامان کی خریداری ہوتی ہے ، اس کا ایک بہت بڑا وسیلہ بنایا ہے۔ اور اس پلیٹ فارم کی وجہ سے آج بہت زیادہ سہولت ہوگئی ہے۔ اسی طرح سے ہم نے ایک بہت بڑا اور اہم فیصلہ کیا ہے اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ حکومت میں 200 کروڑ سے ،200 کروڑ روپئے تک جو ٹینڈر ہوں گے وہ ٹینڈر گلوبل نہیں ہوں گے۔ اس میں ہندوستان کے لوگوں کو ہی موقع دیا جائے گا اور جس کی وجہ سے ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو اور اسی کے ذریعہ روزگار کی فراہمی بھی کرائی جائے گی۔
محترم اسپیکر صاحب،
پارلیمنٹ میں معزز ارکین نے روزگار کے تعلق سے بھی کچھ اہم ترین ایشوز اٹھائے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیں ۔ کتنے جاب کریئٹ ہوئے ہیں۔ یہ جاننے کے لئے ای پی ایف او پے رول ، یہ ای پی ایف او پے رول سب سے باوثوق وسیلہ ماناجاتا ہے۔ سال 2021 میں تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ نئے ای پی ایف او پے رول سے جڑے اور یہ ہم نہ بھولیں ، یہ سارے فارم جابس ہیں۔ میں ان فارمل کی بات نہیں کررہا ہے، یہ سب کے سب فارمل جابس ہیں۔ اور ان میں بھی 65-60 لاکھ 25-18 سال کی عمر کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ یہ ان کی پہلی جاب ہے۔ یعنی پہلی بار جاب مارکٹ میں ان کی انٹری ہوئی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
رپورٹ بتاتی ہے کہ کورونا کے پہلے کے مقابلے میں کووڈ رجسٹریشن کھلنے کے بعد ہائرنگ دو گنی بڑھ گئی ہے۔ نیس کام کی رپورٹ میں بھی یہ ٹرینڈ کی چرچہ ہے ۔ اس کے مطابق 2017 کے بعد، ڈائرکٹ ان ڈائرکٹ قریب نیس کام کا کہنا ہے، 27 لاکھ جابس آئی ٹی سیکٹر میں اور یہ صرف اسکل کے نقطہ نظر سے نہیں ، اس سے اوپر کے لیول کے لوگ ہوتے ہیں جن کو روزگار موصول ہوئے ہیں ۔ مینوفیکچرنگ بڑھنے کی وجہ سے بھارت کے گلوبل ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا فائدہ روزگار کے شعبے میں سیدھا سیدھا ہوتا ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
سال 2021 میں یعنی صرف ایک سال میں بھارت میں جتنے یونیکارنس بنے ہیں، وہ پہلےکے برسوں میں بنے کل یونیکارنس سے بھی زیادہ ہیں۔ اور یہ سب روزگار کی گنتی میں اگر نہیں آتا ہے تو پھر تو روزگار سے زیادہ سیاست کی چرچہ ہی مانی جاتی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
کئی معزز ارکان نے مہنگائی کے سلسلے میں بات کی ہے۔ 100 سال میں آئی اس بھیانک عالمی کورونا وبا نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ اگر مہنگائی کی بات کریں تو امریکہ 40 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی کا سامنا کررہا ہے۔ برطانیہ، 30 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی کی مار سے آج پریشان ہے۔ دنیا کے 19 ممالک میں جہاں یورو کرنسی ہیں، وہاں مہنگائی کی شرح ہسٹوریکل ہائسٹ ہے، اعلی ترین ہے۔ ایسے ماحول میں بھی وبا کےد باؤ کے باوجود ہم نے مہنگائی کو ایک لیول پر روکنے کی بہت کوشش کی ہے، ایمانداری سے کوشش کی ہے۔ 2014 سے لے کر 2020 تک ، یہ شرح چار سے پانچ فیصد کے آس پاس تھی۔ اس کا مقابلہ ذرا یو پی اے کے دور سےکریں تو پتہ چلے گا کہ مہنگائی ہوتی کیا ہے؟ یو پی اے کے وقت مہنگائی ڈبل ڈجٹ چھو رہی تھی۔ آج ہم ایک واحد بڑی اکانومی ہیں، جو ہائی گروتھ اور میڈیم انفلیشن تجربہ کررہے ہیں۔ باقی دنیا کی اکانومی کو دیکھیں ، تو وہاں کی معیشت میں یا تو گروتھ کم ہوئی ہے یا پھر مہنگائی دہائیوں کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
اس پارلیمنٹ میں کچھ ساتھیوں نے بھارت کی مایوس کن تصویر پیش کی اور پیش کرنے میں جو آنند آرہا تھا ، ایسا بھی لگ رہا تھا۔ میں جب اس طرح کی پریشانیاں دیکھتا ہوں تو پھر مجھے لگتا ہے کہ عوامی زندگی میں ، اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، ہار –جیت ہوتی رہتی ہے، اس سے آنے والی عوامی زندگی کی مایوسی کم از کم ملک پر نہیں تھوپنی چاہئے۔ میں جانتا نہیں لیکن ہمارے یہاں گجرات میں ایک بات ہے ، شرد راؤ جانتے ہوں گے کہ ان کے یہاں مہاراشٹر میں بھی ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جب ہریالی ہوتی ہے، کھیت جب ہرے بھرے ہوتے ہیں، اور کسی نے وہ سرسبز وشاداب ہریالی دیکھی ہو اور اسی وقت رونما ہونےو الے اچانک حادثے میں اس کی آنکھ چلی جائے ، تو زندگی بھی اس کو وہ ہریالی والی آخری تصویر اس کے ذہن میں بسی ہوتی ہے وہیں تادیر رہ جاتی ہے۔ ویسا دکھ درد 2013 تک کے دور میں جو گزرا ہے اور 2014 میں اچانک دیش کے عوام نے جو روشنی کی، اس درمیان جس کی بینائی چلی گئی ہے ان کو پرانے نظارے ہی نظرآتے ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب،
ہمارے یہاں شاستروں میں کہا گیا ہے کہ-مہاجنوں یین گتہ: س پنتھا:مطلب یہ کہ مہاجن لوگ ، بڑے لوگ، جس راستے پر جاتے ہیں وہی راستہ قابل تقلید ہوتا ہے۔
میں محترم اسپیکر صاحب،
اس پارلیمنٹ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں ، یہاں کوئی بھی ہو ، کسی سمت میں بیٹھا ہو، ادھر ہو ، یہاں ہو، کہیں بھی ہو، لیکن عوامی نمائدہ خود میں چھوٹا ہو، بڑا ہو، اپنے علاقہ کا رہنما ہوتا ہے۔ وہ قیادت کرتا ہے۔ جو بھی اس کا کمانڈ ایریا ہوگا۔ وہاں کے لوگ اسے دیکھتے ہیں، اسکی باتوں کو فالو کرتے ہیں۔ اور ایسا سوچنا ٹھیک نہیں ہے کہ ہم اقتدار میں ہیں تو لیڈر ہیں۔ وہاں بیٹھ گئے تو ارے ! کیا ہوگیا۔ایسا نہیں ہے ۔ کہیں پر بھی آپ ہیں ، اگر آپ عوامی نمائندہ ہیں ، تو آپ صحیح معنوں میں رہنما ہیں اور لیڈر اگر اس طرح سے سوچے گا ، ایسے ناامیدوں سے بھرا ہوگا تو وہ کیسالیڈر ہوگا بھائی۔ کیا یہاں بیٹھے ہیں، تبھی ملک کی فکر کرنی ہے۔ اور وہاں بیٹھے تو ملک کی .... تو اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت نہیں کرنی ہے ... ایسا ہوتا ہے کیا؟
کسی سے نہیں سیکھتے تو شرد راؤ سے سیکھو، میں نے دیکھا ہے ، شرد راؤ جی عمر میں بھی ، کئی طرح کی بیماریوں سے جوجھتے ہوئے بھی علاقے کے لوگوں کو حوصلہ دیتے رہتے ہیں۔ ہمیں ناامید ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے بھائی ، کیونکہ اگر آپ مایوس ہوتے ہیں تو آپ کا جو علاقہ .... بھلے اب کم ہوگیا ہوگا لیکن جو بھی ہوگا، ہم سب کی ذمہ داری ہے ... کھڑگے جی ، آپ بھی ادھیرنجن جی جیسی غلطی کرتے رہتے ہیں۔ آپ تھوڑا پیچھے دیکھئے، جے رام جی نے پیچھے جاکر دو تین لوگوں کو تیار کیا ہوا ہے، اسی کام کے لئے۔ آپ پورے وقار سے رہئے، پیچھے کے انتظامات کو درست رکھئے، جے رام جی باہر جاکر اطلاعات لے کر آئے ، سمجھا رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر میں شروع ہونے والا ہے۔ آپ معزز رہنما ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب،
اقتدار کسی کا بھی ہو ، اقتدار میں کوئی بھی ہو لیکن ملک کی لیاقت و صلاحیت کو کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہمیں دیش کی استعداد کو پوری دنیا کے سامنے کھلے دل سے منوانا چاہئے ، اس کا گُن گان کرنا چاہئے ، یہ ملک کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
پارلیمنٹ میں ہمارے ایک ساتھی نے کہا ’’ ٹیکہ کاری کوئی بہت بڑا معاملہ نہیں ہے ‘‘ میں یہ دیکھ کر حیران ہوں، کچھ لوگوں کو بھارت کی اتنی بڑی کامیابی و حصولیابی نظرنہیں آرہی ہے۔ ایک ساتھی نے یہ بھی کہا کہ ٹیکہ کاری پرخواہ مخواہ ہی خرچہ ہورہا ہے۔ ملک ایسی باتیں سنے گا تو لوگوں کو کیسا لگے گا۔
محترم اسپیکر صاحب،
کورونا جب سے انسانیت پر مصیبتیں ڈھا رہاہے، حکومت نے ملک اور دنیا میں موجود ہر وسائل کو استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہمارے ملک کے شہریوں کی حفاظت کرنے کے لئے جتنی بھی ہمارے اندر استعداد تھی ، مہارت تھی ، سمجھ تھی ، طاقت تھی، اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی جو ہم نے کوشش کی ہے وہ بھی رنگ لائی ہے اور جب تک وبائی مرض کا دور دورہ ہوگا تب تک حکومت غریب سے غریب خاندان کی زندگی بچانے کے لئے جتنے اخراجات کرنے ہوں گے ، ان اخراجات کو کرنے کے لئے ہم پابند عہد ہیں۔ لیکن کچھ سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر گزشتہ دو برسوں میں، انہوں نے جو غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے ، اس سے ملک کو بہت زیادہ مایوسی ہوئی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے سیاسی مفاد کے حصول کے لئے کھیل کھیلےگئے ہیں۔ بھارتی ویکسین کے خلاف مہم چلائی گئی ۔ تھوڑا سوچئے، جو پہلے آپ نے کہا تھا، آج جو ہورہا ہے ، اس کو تھوڑا ساتھ ملا کر دیکھئے، ہوسکتا ہے ، اصلاح کی گنجائش ہو، تو یہ آپ کے کچھ کام آسکے۔
محترم اسپیکر صاحب،
ملک کے عوام بیدار ہیں اور میں دیش کے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کے ہر چھوٹے موٹے رہنماؤ ں نے ایسی غلطیاں کیں تو بھی اسے نے اس مشکل کے وقت ایسے باتوں پر توجہ نہیں دی ا ور ویکسین کے لئے قطار میں کھڑے رہے ، اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو بہت بڑا خطرہ ہوجاتا لیکن اچھا ہوا ملک کی عوام کچھ رہنماؤں سے بھی آگے نکل گئی، یہ دیش کے لئے اچھا ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
یہ پورا کورونا کا دور ایک طرح سے وفاقی ڈھانچہ کا عمدہ ترین مثال ہے۔ میں ایسا کہہ سکتا ہوں ۔23 بار شاید کسی ایک وزیراعظم کو ایک میعاد میں وزرااعلیٰ کے ساتھ اتنی میٹنگیں کرنے کا موقع نہیں آیا ہوگا۔ وزرائے اعلیٰ کے ساتھ 23 میٹنگیں کی گئیں اور ان سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزرائے اعلیٰ کی سفارشات اور تجاویز اور حکومت ہند کے پاس جو جانکاریاں تھیں ، اس میں مل جل کر .... کیونکہ اس پارلیمنٹ میں ریاستوں سے جڑے ہوئے سینئر رہنما یہاں بیٹھے ہیں اور اس لئے میں یہ کہنا چاہوں گا ، یہ اپنے آپ میں بہت بڑا واقعہ ہے۔ 23 میٹنگیں کرنا اس دور میں اور تفصیل سے تبادلہ خیال کرکے پالیسی وضع کرنا اور سب کو آن بورڈ لے کر چلنا اور خواہ مرکزی حکومت ہو ، ریاستی حکومتیں ہوں یا مقامی بلدیاتی ادارے ہوں یا دیگر اکائیاں ہوں، سب نے مل کر کوششیں کی ہیں، ہم کسی کے تعاون کو کم نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم تو اسے ملک کی طاقت مانتے ہیں۔
لیکن محترم اسپیکر صاحب،
کچھ لوگوں کو خود پر غور کرنے کی اب بھی ضرورت ہے۔جب کورونا سے متعلق آل پارٹی میٹنگ بلائی گئی، حکومت کی طرف سے ایک تفصیلی پرزنٹیشن پیش کیا جانا تھا اور ایک جانب سے کوشش کی گئی کہ کچھ سیاسی پارٹیاں اس میں حصہ نہ لینے پائیں تب انہیں سمجھانے کی کوششیں کی گئیں اور وہ خود بھی نہیں آئے۔ آل پارٹی میٹنگ کی مخالفت کی اور شرد راؤ جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ شرد راؤ جی نے کہا کہ دیکھو بھائی یہ کوئی یو پی اے کا فیصلہ نہیں ہے، میں جس جس کو کہہ سکتا ہوں ، میں کہوں گا۔ اور شرد راؤ جی آئے، باقی ٹی ایم سی سمیت سبھی سیاسی پارٹی کے لوگ آئے اور انہوں نے اپنی بیش قیمتی تجاویز بھی پیش کیں ۔ دراصل یہ مصیبت پورے ملک کے لئے تھی ۔ انسانیت کے لئے تھی، اس کی بھی آپ نے مخالفت کی۔ یہ پتہ نہیں ہے کہ آپ ایسی کون ، کہاں سے صلاح لیتے ہیں، یہ آپ کا بھی نقصان کررہے ہیں۔ ملک رکا نہیں ، ملک چل پڑا ہے ۔ آپ یہاں اٹک گئے اور یہ ہر کسی کو حیران کرنے والا ہے۔ سب لوگ ... آپ دوسرے دن کا اخبار دیکھ لیجئے، کیا آپ کی نکتہ چینی کی گئی ہے۔ کیوں ایسا کیا ؟اتنا بڑا کام ، لیکن ۔
محترم اسپیکر صاحب،
ہم نے ہالسٹک ہیلتھ کیئر پر فوکس کیا ۔ جدید طبی نظام ، بھارتی طبی نظام ، دونوں پر وزارت آیوش نے بھی اس وقت بہت کام کیا۔ پارلیمنٹ میں کبھی کبھی ایسی وزارتوں کی کارکردگیوں پر بات نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن یہ دیکھنا ہوگا ، آج دنیا میں ہماری ریاست جن میں خاص طور پر آندھراپردیش ، تلنگانہ کے لوگ بتائیں گے ، ہماری ہلدی کا ایکسپورٹ جو بڑھ رہا ہے وہ اس کورونا نے لوگوں کو بھارت کی طبی نظام کی طرف راغب کیا ہے، اس کا نتیجہ ہے۔ دنیا کے لوگوں ، آج کورونا کے دور میں بھارت نے اپنے فارمہ انڈسٹری کو بھی تقویت فراہم کی ہے ، انہیں مضبوط کیا ہے ۔پچھلے سات سال میں ہمارے جو آیوش کی مینوفیکچرنگ ہے ، اس کا ایکسپورٹ بہت بڑھا ہے اور نئے نئے منازل تک پہنچ رہا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ بھارت کی جو روایتی ادویات ہیں ، اس نے دنیا بھر میں اپنی الگ شناخت بنانی شروع کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم سب لوگ جہاں جہاں ہمارا تعارف کرایا جائے ، اس بات پر زور دیں ، کیونکہ یہ شعبہ ہمارا پچھڑا ہوا ہے۔ اگر ہم اس کو ... اور ایسا وقت ہے کہ اس کے تعلق سے لوگوں کا ایک نظریہ بن جائے گا... تو ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کو جو روایتی ادویات کی جو ثقافت ہے، طاقت ہے ، وہ پوری دنیا میں پہنچے گی اور اثرانداز ہوگی۔
محترم اسپیکر صاحب،
آیوش مان بھارت کے تحت 80 ہزار سے زیادہ ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر کام کررہے ہیں اور ہر طرح کی جدیدترین سہولیات سے آراستہ ہیں اور انہیں ہر طرح سے مزین کیا جارہا ہے ۔ یہ سنٹر گاؤں اور گھر کے پاس ہی مفت ٹیسٹ سمیت بہتر پرائمری ہیلتھ کیئر سہولت فراہم کرارہے ہیں۔ یہ سنٹر کینسر ، ڈائبٹایز اور دوسری سنگین بیماریوں کی شروعات میں ہی پتہ کرنے میں مدد کررہے ہیں۔ 80 ہزار سنٹر بنے ہیں اور اس کو ہم مزید بڑھانے کی سمت میں تیز رفتاری کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ یعنی بہت سنگین بیماریوں میں بھی ،لاعلاج بیماریوں میں بھی ان کو مقامی سطح پر ہی مدد ملنے کا امکان ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
ویسے پرانی روایت یہ تھی کہ بجٹ کے پہلے کچھ ٹیکس لگا دو ، تاکہ بجٹ میں اس پربات نہ ہو۔ بجٹ میں نظرہی نہیں آئے اور اس دن شیئر مارکٹ گرنے نے پائے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا ہے۔ ہم نے اس کے برعکس کیا ہے۔ ہم نے بجٹ کے پہلے 64 ہزار کروڑ روپئے پی ایم آتم نربھر سوستھ بھارت اسکیم کے تحت کریٹیکل ہیلتھ انفرااسٹرکچر کی تشکیل کے لئے ریاستوں کے اندر تقسیم کئے۔ اگر یہ چیز ہم بجٹ میں رکھتے تو یہ بجٹ اور بھی بہت بڑا اور شاندار بجٹ نظرآتا۔ یہ شاندار تو ہے ہی ، مزید شاندار نظرآتا ۔ لیکن ہم اس لالچ میں پڑنے کے بجائے کورونا کے وقت اس کا فوری انتظام کرنے کے لئے ہم نے پہلے ہی اس کو کیا ہے اور 64 ہزار کروڑ روپئے ہم نے اس کام کے لئے مختص کئے ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب،
اس بار کھڑگے جی خاص طور سے بول رہے تھے اور کہہ رہے تھے، مجھے تو کہہ رہے تھے کہ میں اس پر بولوں ، ادھر ادھر نہ بولوں ، لیکن وہ کیا بولے – اس کو بھی ایک بار چیک کرلیا جائے۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ کانگریس نے بھارت کی بنیاد ڈالی اور بی جے پی والوں نے صرف جھنڈا گاڑ دیا۔
محترم اسپیکر صاحب،
یہ پارلیمنٹ میں ایسے ہی ہنسی مذاق میں کہی گئی بات نہیں تھی، یہ اس منفی سوچ کا نتیجہ ہے اور وہی دیش کے لئے خطرناک ہے۔ اور وہ ہے ، کچھ لوگ یہی مانتے ہیں کہ ہندوستان 1947 میں پیدا ہوا ، اب اسی کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں پچھلے 75 سال میں جس کو کام کرنے کا پچاس سال موقع ملاتھا ، انکی پالیسیوں پر بھی اس منفی خیال کا اثر رہا ہے اور اسی وجہ سے کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔
یہ جمہوریت آپ کی مہربانی سے نہیں ہے اور آپ کو ، 1975 میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے والوں کو ڈیموکریسی کے فخریہ تاریخ پر نہیں بولنا چاہئے۔
محترم اسپیکر صاحب،
یہ چھوٹی سی عمر میں پیدا ہوئے ہیں ، ایسی جو سوچ والے لوگ ہیں ۔ انہیں ایک بار دنیا کے سامنے گاجے باجے کے ساتھ کہنی چاہی تھی، وہ کہنے سے چوک گئے۔ ہمیں فخر کے ساتھ کہنا چاہئے تھا کہ بھارت، مدر انڈیا یہ جمہوریت کی ماں ہے۔ جمہوریت میں بحث ومباحثہ اور آپسی تبادلہ خیال بھارت میں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اور کانگریس کی مشکل یہ ہے کہ اس چکر میں انہوں نے کچھ سوچا ہی نہیں ۔ یہ ان کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔ اور پارٹی میں، جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں، نہ وہ ذرا سمجھیں، بھارت کی جمہوررت کو سب سے بڑا خطرہ کنبہ پرور پارٹیوں کا ہے۔ یہ ماننا پڑے گا۔ اور پارٹی میں بھی جب کوئی ایک خاندان سب سے بلند ہوجاتا ہے تب سب سےپہلے جو چوٹ پہنچتی ہے ، وہ اہل لوگوں کو پہنچتی ہے۔ دیش نے عرصہ تک اس سوچ کا بہت نقصان اٹھایا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ سبھی سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے اصولوں اور اقدار کو اپنی اپنی پارٹیوں میں بھی رائج کریں۔ اسکے تئیں پوری وفاداری نبھائیں۔ اور ہندوستان کی سب سے پرانی پارٹی کے طور پر کانگریس اس کی ذمہ داری زیادہ اٹھائے۔
محترم اسپیکر صاحب،
یہاں پر کہا گیا ہے کہ کانگریس نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ انڈیا از اندرا ، اندرا از انڈیا ، یہی اس منفی سوچ کا غلط نتیجہ ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
میں ذرا بتانا چاہتا ہوں یہ کہا گیا ہے ، میں سوچ رہا ہوں کہ کانگریس نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ کیونکہ مہاتما گاندھی کی خواہش تھی۔ کیونکہ مہاتما گاندھی کو معلوم تھا کہ ان کے رہنے سے کیا کیا ہونے والا ہے اور انہیں نے کہا تھا ، پہلے سے اس کو ختم کرو، اس کو منتشر کردو۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا ۔ لیکن اگر نہ ہوتی، مہاتما گاندھی کی خواہش اگر ایسی ہوتی ، اگر مہاتما گاندھی کی خواہش کے مطابق کانگریس نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ جمہوریت کنبہ پروری سے آزاد ہوتا ، بھارت غیرملکی چشمے کے بجائے ملک کے کئے ہوئےعہد کے راستے پر گامزن ہوتا۔ اگر کانگریس نہ ہوتی تو ایمرجنسی کا کلنک نہ ہوتا۔ اگر کانگریس نہ ہوتی تو دہائیوں تک بدعنوانی کو انتظامی ڈھانچے میں سرایت کرکے نہیں رکھا جاتا۔ اگر کانگریس نہ ہوتی تو ذات پات ، علاقائیت کی کھائی اتنی گہری نہ ہوتی۔ اگر کانگریس نہ ہوتی تو سکھوں کا قتل عام نہ ہوتا ، برسوں برسوں پنجاب شدت پسندی کی آگ میں نہ جلا ہوتا۔ اگر کانگریس نہ ہوتی تو کشمیر کے پنڈتوں کو وادی کشمیر چھوڑنے کی نوبت نہ آتی۔ اگر کانگریس نہ ہوتی تو بیٹیوں کو تندور میں جلانے کے واقعات نہ ہوتے ، اگر کانگریس نہ ہوتی تو ملک کے عام شہر ی کو گھر ،سڑک ، بجلی ، پانی، بیت الخلا ، بنیادی سہولیات کے لئے اتنے سالوں تک انتظار نہ کرنا پڑتا۔
محترم اسپیکر صاحب،
میں شمار کرتا رہوں گا، متاوتر شمار کراتا رہوں گا
محترم اسپیکر صاحب،
کانگریس جب تک اقتدار میں رہی ، دیش کو ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہونے دیا ، اب حزب اختلاف ہے تو ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے ۔ اب کانگریس کو ’ نیشن‘ پر بھی اعتراض ہے۔ اگر’ نیشن ‘ اس کا تصور غیرآئینی ہے تو آپ کی پارٹی کا نام انڈین نیشنل کانگریس کیوں رکھا گیا؟ اب آپ کی نئی سوچ آئی ہے تو انڈین نیشنل کانگریس کا نام بدل دیجئے اور آپ فیڈریشن آف کانگریس کردیجئے۔ اپنے اسلاف کی غلطی کی تصحیح کردیجئے ۔
محترم اسپیکر صاحب،
یہاں پر فیڈرلزم کو لے کر کانگریس، ڈی ایم سی اور بائیں بازو کی جماعتوں سے منسلک کئی ساتھیوں نے یہاں پر بڑی بڑی باتیں کیں ۔ ضروری بھی ہے کیونکہ یہ ریاستوں کے سینئر رہنماوں کا پارلیمنٹ ہے لیکن سبھی ساتھیوں کو ....
محترم اسپیکر صاحب،
بہت شکریہ، محترم اسپیکر صاحب، جمہوریت میں صرف سنانا ہی نہیں ہوتا ہے سننا بھی جمہوریت کا حصہ ہے۔ لیکن برسوں تک اپنی ہی بات پیش کرنے کی عادت پڑگئی ہے ، اسلئے ذرا باتیں سننے میں مشکل آرہی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب،
کانگریس، ٹی ایم سی اور بائیں بازو کے کئی ساتھیوں نے یہاں وفاقیت کے حوالے سے بہت سے خیالات پیش کیے ہیں اور یہ بہت فطری ہے اور اس ایوان میں بحث ہونا زیادہ فطری ہے کیونکہ یہاں ریاست کے سینئر لیڈران اس ایوان میں موجوود ہیں۔ ہمیں ان کی رہنمائی ملتی رہتی ہے لیکن جب ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں تو میں آج سب سے گزارش کروں گا کہ ہم وفاقیت کے بارے میں، آپ کے خیالات کچھ بھی ہوں، کبھی بابا صاحب امبیڈکر کو ضرور پڑھیں، بابا صاحب امبیڈکر کے الفاظ یاد رکھیں۔ جس آئین ساز اسمبلی میں بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا، میں اس کا حوالہ دے رہا ہوں، اور بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا،
‘‘یہ فیڈریشن ایک یونین ہے کیونکہ یہ اٹوٹ ہے۔ انتظامی سہولت کے لیے ملک اور عوام کو مختلف ریاستوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انتظامیہ کے لیے اسے مختلف ریاستوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، لیکن ملک غیرمنقسم طور پر ایک ہی ہے’’۔
انہوں نے انتظامی نظام اور 'قوم' کے تصور کو واضح کیا ہے اور یہی بات بابا صاحب امبیڈکر نے دستور ساز اسمبلی میں کہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وفاقیت کو سمجھنے کے لیے بابا صاحب امبیڈکر کے گہرے افکار سے زیادہ میرے خیال میں رہنمائی کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کیا ہوا ہے۔ وفاقیت پر اتنی بڑی تقریریں کی جاتی ہیں، اتنی نصیحتیں دی جاتی ہیں۔ کیا ہم وہ دن بھول گئے ہیں جب ائیرپورٹ پر معمولی باتوں پر وزرائے اعلیٰ کو ہٹایا جاتا تھا؟ آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر ٹی انجیا کے ساتھ کیا ہوا، اس ایوان میں بہت سے لیڈر جانتے ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادے کو ایئرپورٹ پر ان کا انتظام پسند نہ آیا تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس سے آندھرا پردیش کے کروڑوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اسی طرح کرناٹک کے مقبول وزیر اعلی وریندر پاٹل جی کو بھی اس وقت ذلیل کر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب وہ بیمار تھے۔ ہماری سوچ کانگریس کی طرح تنگ نہیں ہے۔ ہم تنگ نظر لوگ نہیں ہیں۔ ہماری سوچ میں ہمیں قومی مقاصد، قومی مقاصد اور علاقائی امنگوں کے درمیان کوئی تصادم نظر نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علاقائی امنگوں کو مساوی احترام کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے، مسائل کو حل کیا جانا چاہیے اور ہندوستان کی ترقی بھی اس وقت ہوگی جب ملک ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے علاقائی امنگوں پر توجہ دے ۔ یہ فرض بنتا ہے، جب ہم کہتے ہیں کہ ملک کو آگے بڑھنا ہے، لیکن اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جب ریاستیں ترقی کرتی ہیں، تب ملک ترقی کرتا ہے۔ ریاست ترقی نہ کرے اور ملک کی ترقی کے لیے سوچیں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور اس لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ریاست ترقی کرے، تب ملک ترقی کرتاہے۔ اور جب ملک ترقی کرتا ہے، ملک کے اندر خوشحالی آتی ہے، تب خوشحالی ریاستوں میں چھلکتی ہے اور اس کی وجہ سے ملک خوشحال ہوتا ہے، اسی سوچ کے ساتھ ہم چلتے ہیں اور میں جانتا ہوں، میں گجرات میں تھا، دہلی حکومت نے مجھ پر کیا کیا ظلم ڈھائے، تاریخ گواہ ہے۔ میرے ساتھ کیا ہوا؟ گجرات کے ساتھ تو کیا نہیں ہوا، لیکن اس دور میں بھی آپ ہر روز میرے ریکارڈ دیکھتے ہیں، بطور وزیر اعلیٰ میں ہمیشہ ایک ہی بات کہتا تھا کہ گجرات کا منتر کیا ہے، ملک کی ترقی کے لیے گجرات کی ترقی۔ . دہلی میں ہمیشہ کس کی حکومت رہی، ہم سوچ کر نہیں چلے، ملک کی ترقی کے لیے گجرات کی ترقی کی اور وفاقیت میں یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کی ترقی کے لیے اپنی ریاستوں کو ترقی دیں تاکہ دونوں مل کر ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائیں ہم اسے لے کر جائیں گے اور یہی راستہ صحیح ہے، اس راستے پر چلنا ہمارے لیے ضروری ہے اور یہ بہت افسوسناک ہےکہ جن کو دہائیوں تک حکومت چلانے کا موقع ملا، اور انہوں نے ریاستوں پر کیسے ظلم کیا۔ یہاں سب بیٹھے ہیں، مظلوم بیٹھے ہیں۔ کیسے کیسے ظلم کئے گئے ؟ تقریباً سو مرتبہ صدر راج لا کر منتخب ریاستی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا۔ کس منہ سے بات کر رہے ہو؟ اور اسی لیے آپ نے جمہوریت کا احترام نہیں کیا اور وہ وزیر اعظم کون ہے جس نے اپنے دور میں 50 حکومتوں کا تختہ الٹ دیا، ریاست کی 50 حکومتیں؟
محترم اسپیکر صاحب!
ان تمام موضوعات کے جوابات ہر ہندوستانی جانتا ہے اور آج اسے اس کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب!
کانگریس کی اعلیٰ کمان، ان کی پالیسی تین طرح کے کام لے کر چلتی ہے۔ ایک- پہلے بدنام کرو، پھر تقسیم کرو اور پھر برخاست کرو۔ اس طرح عدم اعتماد پیدا کرو ، انہی چیزوں کو لے کر چلے ہیں۔
براہ کرم مجھے بتائیں، محترم اسپیکر صاحب!
میں آج کہنا چاہتا ہوں۔ جنہوں نے فاروق عبداللہ جی کی حکومت کو غیر مستحکم کیا تھا۔ چودھری دیوی لال جی کی حکومت کو کس نے غیر مستحکم کیا؟ چودھری چرن سنگھ جی کی حکومت کو کس نے غیر مستحکم کیا؟ پنجاب میں سردار بادل سنگھ کی حکومت کو کس نے برطرف کیا؟ مہاراشٹر میں بالاصاحب ٹھاکرے کو بدنام کرنے کے لیے کس نے گھناؤنے حربے استعمال کیے؟ رام کرشن ہیگڑے اور ایس۔ آر بومائی کی حکومت کس نے گرائی؟ جس نے 50 کی دہائی میں کیرالہ کی منتخب کمیونسٹ حکومت کو 50 سال پہلے اس دور میں گرایا تھا۔ تمل ناڈو میں ایمرجنسی کے دوران کرونا ندھی جی کی حکومت کو کس نے گرایا؟ 1980 میں ایم جی آر کی حکومت کو کس نے برطرف کیا؟ آندھرا پردیش میں این ٹی آر کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کس نے کی؟ اور وہ بھی اس وقت جب وہ بیمار تھے۔ وہ کون سی پارٹی ہے جس نے ملائم سنگھ جی، یادو جی کو صرف اس لیے پریشان کیا تھا کہ ملائم سنگھ جی مرکز کی باتوں سے متفق نہیں تھے۔ کانگریس نے اپنے لیڈروں کو بھی نہیں بخشا۔ آندھرا پردیش میں کانگریس حکومت نے اہم کردار ادا کیا، اس کے ساتھ کیا کیا؟ کانگریس نے جنہیں یہاں اقتدار پر بیٹھنے کا موقع دیا۔ ان کے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے انتہائی شرمناک طریقے سے آندھرا پردیش کو تقسیم کیا۔ مائکس بند کر دیے گئے۔ مرچ پاؤڈر سپرے ہوا، کوئی بحث نہیں ہوئی۔ کیا یہ صحیح طریقہ تھا؟ کیا یہ جمہوریت تھی؟ اٹل جی کی حکومت نے تین ریاستیں بھی بنائی تھیں۔ ہم نے ریاست کے قیام کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن طریقہ کیا تھا؟ اٹل جی نے تین ریاستیں بنائی تھیں۔ چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اتراکھنڈ لیکن کوئی طوفان نہیں آیا۔ سب کچھ پرامن طریقے سے طے پایا۔ سب نے بیٹھ کر فیصلہ کیا۔ آندھرا، تلنگانہ کا بھی ہوسکتا تھا ۔ ہم تلنگانہ مخالف نہیں ہیں۔ ایک ساتھ مل کر سب کیا جا سکتا ہے. لیکن آپ کے تکبر، اقتدار کے نشے نے ملک کے اندر یہ عداوت پیدا کر دی۔ اور آج بھی تلنگانہ اور آندھرا کے درمیان تلخی کے وہ بیج تلنگانہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، آندھرا کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور آپ کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو رہا اور ہمیں سمجھاتے ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب!
ہم تعاون پر مبنی وفاقیت کے ساتھ ایک نئی تبدیلی کی طرف بڑھے ہیں۔ اور ہم نے تعاون پر مبنی مسابقتی وفاقیت کی بات کی ہے۔ ہماری ریاستوں کے درمیان ترقی کے لیے مقابلہ ہونا چاہیے، صحت مند مقابلہ ہونا چاہیے، ہمیں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت کیوں نہ ہو ؟ اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارا کام ہے، اور ہم کر رہے ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب!، میں آج ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ جی ایس ٹی کونسل کی تشکیل خود ہندوستان کی مضبوط وفاقیت کے لیے ایک اچھے ڈھانچے کی ایک مثال ہے۔ محصولات کے اہم فیصلے جی ایس ٹی کونسل میں لیے جاتے ہیں۔ اور ریاستوں کے وزرائے خزانہ اور ہندوستان کے وزیر خزانہ سب ایک ہی میز پر بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں، کوئی بڑا، کوئی چھوٹا نہیں۔ نہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے۔ سب مل کر دیکھتے ہیں۔ اور ملک کو فخر ہونا چاہیے، اس ایوان کو مزید فخر ہونا چاہیے کہ جی ایس ٹی کے تمام فیصلے، سینکڑوں فیصلے ہو چکے ہیں۔ سب کچھ اتفاق رائے سے ہوا۔ تمام ریاستوں کے وزرائے خزانہ اور ہندوستان کے وزیر خزانہ نے مل کر یہ کام کیا ہے۔ اس سے بہتر وفاقیت کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ کون اس پر فخر نہیں کرے گا؟ لیکن ہم اس پر بھی فخر نہیں کرتے۔
محترم اسپیکر صاحب!
میں ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں وفاقیت کی۔ ہم نے اسے سماجی انصاف کی طرح دیکھا۔ یہ ملک میں بہت ضروری ہے۔ ورنہ ملک ترقی نہیں کرے گا۔ اسی طرح علاقائی انصاف بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اگر کوئی علاقہ ترقی میں پیچھے رہ جائے گا تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اور اس لیے ہم نے خواہش مند ضلع کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے۔ ملک میں ایسے 100 اضلاع کا انتخاب کیا گیا، جن کا انتخاب مختلف پیرامیٹرز کی بنیاد پر کیا گیا۔ ریاستوں کے مشورے سے منتخب کیا گیا اور وہ ایک سو سے زیادہ جو اضلاع ہیں۔ کم از کم انہیں ان ریاستوں کے اوسط ضلع کے برابر ہونا چاہیے۔ تو بوجھ کم ہوگا۔ اور ہم نے وہ کام کیا اور آج میں بڑے اطمینان سے کہوں گا۔ میں بڑے فخر سے کہوں گا۔ حالانکہ اس اسکیم کا خیال حکومت ہند کو آیا تھا۔ لیکن ایک ریاست کو چھوڑ کر تمام ریاستیں اس کی ملکیت تھیں۔ مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اور ضلعی اکائیاں آج ایک سو سے زیادہ اضلاع کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں اور ایسی ریاستیں ہیں جن میں تمام جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی حکومتیں ہیں۔ اور ان سب نے مل کر اتنے شاندار نتائج دیے ہیں کہ بہت ہی کم وقت میں خواہش مند ضلع نے اپنی ریاست کی اوسط کو بھی کئی پیمانوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہترین سے بہترین کام ہے اور میں آپ کو کچھ خواہش مند اضلاع بتاتا ہوں ۔ ان کے جن دھن اکاؤنٹ میں پہلے سے چار گنا زیادہ جن دھن اکاؤنٹ کھولنے کا کام کیا ہے۔ تمام ریاستوں نے اس خواہش مند ضلع میں ہر خاندان میں بیت الخلا اور بجلی فراہم کرنے کے لیے بہترین کام کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ وفاقی ڈھانچے کی بہترین مثال ہے اور ملک کی ترقی کے لیے وفاقی ڈھانچے کے استعمال کی بھی ایک مثال ہے۔
محترم اسپیکر صاحب!
آج میں ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں کہ ریاستوں کو کس طرح مالی مدد دی جاتی ہے، کس طرح پالیسیوں میں تبدیلی لا کر تبدیلی آتی ہے۔ وہ بھی وقت تھا جب ہمارے قدرتی وسائل صرف چند لوگوں کی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ہم نے یہ حالت دیکھی ہے، اس کے چرچے بہت ہوئے ہیں۔ اس وقت دولت قوم کے خزانے کو بھر رہی ہے۔ ہم نے کوئلے اور کان کنی کے شعبوں میں اصلاحات کیں۔ 2000 میں ہم نے ایک شفاف عمل کے ساتھ معدنی وسائل کی نیلامی کی۔ ہم نے اصلاحات کا عمل جاری رکھا۔ جیسے کھلے بازار میں درست لائسنس کی خود فروخت بغیر کسی معاوضے کے، 50 فیصد پروبیشن منتقل کرنا۔ ابتدائی آپریشنلائزیشن پر 50فیصد چھوٹ۔ پچھلے ایک سال میں کان کنی کی آمدنی تقریباً 14 ہزار کروڑ روپے سے بڑھ کر تقریباً 35 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ نیلامی سے جو بھی ریونیو آیا، وہ ریاستی حکومتوں کو ملا ہے۔ یہ فیصلہ لیا گیا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہےکہ جو اصلاحات نافذ کی گئی ہیں ان کا فائدہ ریاست کو ہی ہوا ہے۔ اور ریاست کی بھلائی میں ملک کا بھلا ہوتا ہے۔ کوآپریٹو فیڈرلزم کا اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ان اصلاحات کو نافذ کرنے میں اڑیسہ اولین ریاست رہا ہے۔ میں اوڈیشہ کے وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ کہ ان کی حکومت نے کندھے سے کندھا ملا کر تمام اصلاحات کی ہیں۔
محترم اسپیکر صاحب!
یہاں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ہم تاریخ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی بار کہاجاتا ہے۔باہر بھی کہا جاتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کانگریس ایک طرح سے اربن نکسلیوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان کی سوچ کا پورا طریقہ اربن نکسلیوں نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اسی بنا پر یہ لوگ بات بار بار کہتے ہیں کہ تاریخ بدلی جارہی ہے۔
محترم اسپیکر صاحب!
ہم صرف کچھ لوگوں کی یادداشت ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی یادداشت کی طاقت کو تھوڑا بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم کوئی تاریخ نہیں بدل رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تاریخ چند سالوں سے شروع ہوتی ہے۔ ہم اسے پہلے لے جا رہے ہیں اور کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اگر وہ 50 سال کی تاریخ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تو انہیں 100 سال تک لے جانا۔ اگر کوئی 100 سال تک مزے کرتا ہے تو ہم اسے 200 سال کی تاریخ میں لے جا رہے ہیں۔ کوئی 200 سال کا مزہ لیتا ہے تو 300 تک لے جاتے ہیں۔ اب جو 350-300 لیں گے تو چھترپتی شیواجی کا نام ضرور آئے گا۔ ہم ان کی یادداشت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم تاریخ نہیں بدل رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تاریخ صرف ایک خاندان تک محدود ہے، اس کا کیا کیا جائے؟ اور تاریخ بہت بڑی ہے۔ بڑے پہلو۔ اگرچہ اتار چڑھاؤ موجود ہیں اور ہم تاریخ کے ایک طویل دور کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ شاندار تاریخ کو بھلا دینا اس ملک کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ہم اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اس تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ہمیں آنے والے 25 سالوں میں ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا یقین پیدا کرنا ہوگا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ امرت کا دور اب اسی سے بڑھنے والا ہے۔ اس امرت کے دور میں ہماری بیٹیاں، ہمارے نوجوان، ہمارے کسان، ہمارے گاؤں، ہمارے دلت، ہمارے آدیواسی، ہمارے متاثرین، سماج کے ہر طبقے کو اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ ان کی شرکت ہو. آئیے اس کے ساتھ آگے بڑھیں۔ کبھی ہم 1857 کی جدوجہد آزادی کو دیکھیں گے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں 1857 کی جدوجہد آزادی میں جو تعاون دیا گیا۔ ہمیں کبھی پڑھنے کو نہیں ملتا۔ اتنے عظیم سنہری صفحات کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ اور ہم ان چیزوں کو یاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک اعتماد سے بھرپور ہو، ملک آگے بڑھے۔
محترم اسپیکر صاحب!
خواتین کو بااختیار بنانا بھی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہندوستان جیسے ملک کی 50 فیصد آبادی ہماری ترقی کے سفر میں سب کی کوششوں کا موضوع ہے۔ اس تمام کوشش میں سب سے بڑی شریک ہماری مائیں بہنیں ہیں۔ جو ملک کی 50 فیصد آبادی ہے اور اس لیے ہندوستان کے معاشرے کی خصوصیت روایات کو بہتر بنانا ہے۔ تبدیلیاں بھی کرنا ہے۔ یہ ایک متحرک معاشرہ ہے۔ ہر دور میں ایسے عظیم انسان سامنے آتے ہیں جو معاشرے کو برائیوں سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور آج ہم جانتے ہیں کہ خواتین کے تعلق سے بھی آج ہندوستان میں کوئی سوچ نہیں ہے، ہم یہاں پہلے ہی غور کر رہے ہیں۔ ہم ان کو بااختیار بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اگر ہم زچگی کی چھٹیوں میں اضافہ کرتے ہیں تو ایک طرح سے یہ ہماری کوشش ہے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے اور خاندان کو بااختیار بنایا جائے۔ اور ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ بیٹی بچاؤ - بیٹی پڑھاؤ، کاآج نتیجہ یہ ہے کہ ہم صنفی تناسب میں جو عدم توازن تھا اس میں ہم بہت اچھی پوزیشن پر پہنچ گئے ہیں اور جو رپورٹس آرہی ہیں ان میں آج ہمارے بعض مقامات پر ماؤں بہنوں کی تعداد مردوں سے بڑھ رہی ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے، بڑے فخر کی بات ہے۔ ہم نے جو برے دن دیکھے تھے ان سے نکل آئے ہیں۔ اور اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ آج این سی سی میں ہماری بیٹیاں ہیں۔ ہماری بیٹیاں فوج میں ہیں، ہماری بیٹیاں فضائیہ میں ہیں۔ بحریہ میں ہماری بیٹیاں ہیں۔ ہم نے تین طلاق کے ظالمانہ رواج کو ختم کیا۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں اپنی ماؤں بہنوں کا آشیرواد حاصل کرتا ہوں۔ کیونکہ جب تین طلاق کا رواج ختم ہوتا ہے تو صرف بیٹیوں کو انصاف ملتا ہے، ایسا نہیں ہے۔ اس باپ کو بھی انصاف ملتا ہے، اس بھائی کو بھی انصاف ملتا ہے، جس کی بیٹی تین طلاق کی وجہ سے گھر لوٹتی ہے۔ جس کی بہن تین طلاق کی وجہ سے گھر لوٹتی ہے۔ تو یہ پورے معاشرے کی بھلائی کے لیے ہے۔ یہ صرف عورتوں کے لیے اور مردوں کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ایک مسلمان آدمی کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہے۔ کیونکہ وہ ایک بیٹی کا باپ بھی ہے، بیٹی کا بھائی بھی ہے اور اس طرح یہ اس کے لئے بھی اچھا کرتا ہے، اسے تحفظ بھی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے لوگ بول نہیں پاتے، لیکن اس کی وجہ سے ہر کوئی ایک فخر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہم نے کشمیر میں آرٹیکل 370 کو جو ہٹایا، وہاں کی ماؤں اور بہنوں کو بااختیار بنایا۔ ہم نے ان کو وہ حقوق دیے ہیں جو ان کے پاس نہیں تھے اور ان حقوق کی وجہ سے آج ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی شادی کی عمر کے معاملے میں کیا وجہ ہے، آج کے دور میں مرد اور عورت میں فرق ہونا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر بیٹا اور بیٹی ایک جیسے ہیں تو ہر جگہ ہونا چاہیے اور اسی لیے ہم بیٹے اور بیٹی کی شادی کی عمر کی برابری کی سمت میں آگے بڑھے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج یہ ایوان کسی بھی وقت اپنے بارے میں صحیح فیصلہ لے کر ہماری ماؤں بہنوں کی بھلائی کے لیے کام کرے گا۔
محترم اسپیکر صاحب!
اس سال گوا کے 60 سال کا ایک اہم دور ہے۔ گوا کی آزادی کو 60 سال ہو چکے ہیں۔ میں آج وہ تصویر بتانا چاہتا ہوں۔ ہمارے کانگریسی دوست جہاں بھی ہیں، وہ ضرور سن رہے ہوں گے۔ گوا کے لوگوں نے میری بات سنی ہوگی۔ جس طرح سردار پٹیل نے حیدرآباد کے لیے حکمت عملی بنائی۔ سردار پٹیل نے جس طرح جوناگڑھ کے لیے حکمت عملی بنائی۔ قدم اٹھائے. سردار صاحب سے تحریک لے کر گوا کے لیے بھی یہی حکمت عملی تیار کی جاتی تو گوا کو ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد 15 سال تک غلامی کی زندگی نہیں گزارنی پڑتی۔ گوا ہندوستان کی آزادی کے 15 سال بعد آزاد ہوا اور اس وقت سے 60 سال پہلے کے اخبارات اس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتے ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم کے بین الاقوامی امیج کا کیا بنے گا؟ یہ پنڈت نہرو کی تشویش کا سب سے بڑا موضوع تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا میں میری امیج خراب ہو جائے گی اور اسی لیے انہیں لگا کہ گوا کی نوآبادیاتی حکومت پر حملہ کرنے سے ایک امن پسند رہنما کے طور پر عالمی رہنما کی اس کی شبیہ کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔ گوا کو کچھ بھی ہونے دو۔ گوا کو جو بھی نقصان اٹھانا پڑے۔ میری شبیہ کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائےاور اسی طرح جب ستیہ گرہیوں پر گولی چل رہی تھی، غیر ملکی سلطنت گولیاں برسا رہی تھی۔ ہندوستان کا حصہ، ہندوستان کے میرے بھائی بہن ان پر گولیاں برسا رہے تھے اور تب ہمارے ملک کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ میں فوج نہیں دوں گا۔ میں فوج نہیں بھیجوں گا۔ اس نے ستیہ گرہیوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ گوا کے ساتھ کانگریس کی طرف سے کیا گیا ظلم ہے اور گوا کو 15 سال سے زیادہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا۔ اور گوا کے کئی بہادر بیٹوں کو قربان ہونا پڑا۔ لاٹھیوں اور گولیوں میں زندگی بسر کرنی پڑی ۔ یہ حالات پید کئے تھے نہرو جی نے۔ 15 اگست 1955 کو لال قلعہ پر پنڈت نہرو نے کہا تھا۔ میں صرف نقل کرنا چاہتا ہوں۔ اچھا ہوتا اگر کانگریسی دوست یہاں ہوتے، نہرو جی کا نام سنتے تو کم از کم ان کے دن تو بہت اچھے ہوتے۔ اور اسی لیے ان کی پیاس بجھانے کے لیے میں بار بار نہرو جی کو آج کل یاد کرتا ہوں۔ نہرو جی نے کہا تھا، لال قلعہ سے کہا تھا، میں ان کا حوالہ دیتا ہوں، کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے، زبان دیکھو۔ کوئی اس وہم میں نہ رہے کہ ہم وہاں فوجی کارروائی کریں گے۔ گوا کے آس پاس کوئی فوج نہیں ہے۔ اندر کے لوگ چاہتے ہیں کہ کوئی شور مچا کر ایسی صورتحال پیدا کرے کہ ہم فوج بھیجنے پر مجبور ہو جائیں۔ ہم فوج نہیں بھیجیں گے، پرامن طریقے سے فیصلہ کریں گے، یہ بات سب کو سمجھنی چاہیے۔ یہ کانگریس لیڈر کے 15 اگست کو گوا کے باشندوں کی امنگوں کے خلاف بیانات ہیں۔ پنڈت نہرو نے مزید کہا تھا۔ لوگ جو وہاں جا رہے ہیں. لوہیا جی سمیت سبھی وہاں ستیہ گرہ کر رہے تھے، احتجاج کر رہے تھے۔ ملک کے ستیہ گر ہی جا رہے تھے۔ ہمارے جگناتھ راج جوشی کرناٹک کی قیادت میں ستیہ گرہ ہو رہا تھا۔ پنڈت نہرو نے کیا کہا؟ وہاں جانے والوں کو مبارک ہو، دیکھو، لطیفہ دیکھو۔ اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑنے والے میرے اپنے ہم وطنوں کے لیے کون سی زبان ، کتنا زیادہ تکبر ہے۔ جو لوگ وہاں جا رہے ہیں ان کو وہاں جانا مبارک ہوں ۔لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ اپنے آپ کو ستیہ گرہی کہتے ہیں تو پھر ستیہ گرہ کے اصول، اصول اور راستے بھی یاد رکھیں۔ فوج ستیہ گرہیوں کی پیروی نہیں کرتی ہے اور نہ ہی فوجوں کی پکار ہوتی ہے۔ میرے ہی ملک کے شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ یہ گوا کے ساتھ کیا۔ گوا کے لوگ کانگریس کے اس رویے کو نہیں بھول سکتے۔
محترم اسپیکر صاحب!
ہمارے یہاں آزادی اظہار پر بڑی بڑی تقریریں بھی کی گئیں۔ اور ہر روز ہمیں تھوڑا بہت سمجھایا جاتا ہے۔ میں آج ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں اور یہ واقعہ بھی گوا کے ایک بیٹے کا واقعہ ہے۔ گوا کے ایک معزز بیٹے کی کہانی ہے، گوا کی مٹی کے بیٹے۔ میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا کرتا تھا، اظہار کے سلسلے میں کیسے ہوتا تھا۔ آج میں ان لوگوں کی تاریخ کھول رہا ہوں جو فرد کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ آپ نے کیا کیا، لتا منگیشکر جی کی موت سے پورا ملک غمزدہ ہے۔ ملک سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ لیکن لتا منگیشکر جی کا خاندان گوا سے ہے۔ لیکن ان کے اپنے خاندان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ یہ ملک کو بھی معلوم ہونا چاہیے۔ لتا منگیشکر کے چھوٹے بھائی پنڈت ہردے ناتھ منگیشکر۔ گوا کا قابل فخر فرزند ، گوا کی سرزمین کا بیٹا۔ انہیں آل انڈیا ریڈیو سے نکال دیا گیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو میں کام کرتے تھے اور ان کا جرم کیا تھا؟ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو پر ویر ساورکر کی حب الوطنی پر مبنی نظم پیش کی تھی۔ اب دیکھیں ہردیناتھ جی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ان کا انٹرویو دستیاب ہے۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ جب وہ ساورکر جی سے ملے کہ میں آپ کا گانا کرنا چاہتا ہوں تو ساورکر جی نے ان سے کہا کہ کیا آپ جیل جانا چاہتے ہیں؟ کیا تم میری نظم گا کر جیل جانا چاہتے ہو؟ چنانچہ ان کی حب الوطنی پر مبنی نظم، ہردیناتھ جی نے اسے سنگیت سے سجایا۔ آٹھ دنوں کے اندر انہیں آل انڈیا ریڈیو سے نکال دیا گیا۔ یہ آپ کی آزادی اظہار ہے۔ آزادی کے متعلق آپ کی یہ جھوٹی باتیں ملک کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ یہ صرف گوا کے بیٹے ہردیہ ناتھ منگیشکر جی کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ کانگریس حکومتوں کے دوران مظالم کیسے ہوئے تھے اس کی فہرست کافی لمبی ہے۔ مجرو سلطان پوری کو پنڈت نہرو پر تنقید کرنے پر ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ پروفیسر دھرم پال جی کو نہرو جی کے رویے پر تنقید کرنے پر قید کر دیا گیا۔ مشہور موسیقار کشور کمار جی پرایمرجنسی میں اندرا جی کے سامنے نہ جھکنے کی وجہ سے ایمرجنسی کے حق میں نہ بولنے کی بنا پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی ایک مخصوص خاندان کے خلاف ذرا سی بھی آواز اٹھاتا ہے، ذرا بھی آنکھ اونچی کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔سیتا رام کیسری کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوا یہ ہمیں پتہ ہے۔
محترم اسپیکر صاحب!
میں ایوان کے تمام ارکان سے اپیل کرتا ہوں کہ ہندوستان کے روشن مستقبل پر بھروسہ رکھیں۔ آئیے 130 کروڑ ہم وطنوں کی طاقت پر بھروسہ کریں۔ آئیے بڑے اہداف لے کر اس صلاحیت کے بل بوتے پر ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا عزم کریں۔
محترم اسپیکر صاحب!
ہمیں میرے تیرے اپنے پرائے کی اس روایت کو ختم کرنا ہوگا اور یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کو ایک ہی مقصد کی طرف ایک ووٹ کے ساتھ ایک جذبے کی طرف گامزن کیا جائے۔ یہ سنہری دور ہے، پوری دنیا ہندوستان کی طرف بڑی امید اور فخر سے دیکھتی ہے۔ اس طرح کا موقع ضائع نہ کریں۔ اہل وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اس سے بڑا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، جہاں 25 سال کا سفر ہمیں کہیں سے کہیں لے جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے لیے اور اپنی روایات پر فخر ہونا چاہیے، ہم بڑے اعتماد کے ساتھ ساتھ چلیں گے اور ہمارے یہاں تو صحیفوں میں کہا گیا ہے۔ سیم گچھدھوام سما ودھوم سم کہ منانسی جانتام۔ یعنی ہم اکٹھے چلیں، مل کر بحث کریں، سب کچھ مل کر کریں، اس اپیل کے ساتھ میں صدر کے خطاب کی مکمل تائید کرتا ہوں۔ میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور میں تمام معزز ممبران نے جو تعاون دیا اور خیالات پیش کئے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ