معزز چیئرمین،
میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوں۔ جب معزز صدرجمہوریہ پارلیمنٹ کی اس نئی عمارت میں ہم سب سے خطاب کرنے آئیں اور جس فخر اور احترام کے ساتھ سینگول پورے جلوس کی قیادت کر رہاتھا، اور ہم سب ان کے پیچھے چل رہے تھے،شاندار تھا۔ نئے ایوان میں یہ نئی روایت ہندوستان کی آزادی کے اس مقدس لمحے کی عکاسی کرتی ہے اور اس سے جمہوریت کا وقار کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ 75 واں یوم جمہوریہ، اس کے بعد پارلیمنٹ کی نئی عمارت، سینگول کی قیادت، یہ سارا منظر اپنے آپ میں بہت متاثر کن تھا۔ یہاں سے ہم اتنی عظمت نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن وہاں سے جب میں نے دیکھا کہ صدر اور نائب صدر نئے ایوان میں موجود ہیں تو اس منظر نے ہم سب کو متاثر کیا، جسے ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ صدر کے شکریہ کی تحریک پر 60 سے زائد معزز اراکین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں عاجزی کے ساتھ اپنے تمام معزز ممبران پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں خاص طور پراپوزیشن کے عزم کو سراہتا ہوں ۔ ان کی تقریر کے ہر لفظ نے میرے اور ملک کے اس اعتماد کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک وہاں رہنے کا عزم کیا ہے۔ جس طرح آپ یہاں کئی دہائیوں سے بیٹھے تھے، آپ کا کئی دہائیوں تک وہاں بیٹھنے کا عزم اور عوامی حمایت خدا کا روپ ہے۔ اور جس طرح سے آپ لوگ ان دنوں محنت کر رہے ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ خدا اورعوام آپ کو ضرور نوازے گی اور آپ یقینی طور پر اس سے کہیں زیادہ بلندی پر پہنچ جائیں گے جس پر آپ ہیں اور عوام اگلے الیکشن میں آپ کی سمت طے کریں گے۔ ادھیر رنجن جی، کیا آپ نے اس بار انہیں اپنا ٹھیکہ دیا ہے؟ آپ نے یہ چیزیں پہنچا دی ہیں۔
محترم چیئرمین صاحب!
میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ الیکشن لڑنے کی ہمت ہار چکے ہیں۔ اور میں نے سنا ہے کہ پچھلی بار بھی بہت سے لوگوں نے اپنی سیٹیں بدلی تھیں اور اس بار بھی اپنی سیٹیں بدلنے کا سوچ رہے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ اب بہت سے لوگ لوک سبھا کے بجائے راجیہ سبھا جانا چاہتے ہیں، اس لیے حالات کا اندازہ لگانے کے بعد وہ اپنا راستہ خود تلاش کر رہے ہیں۔
محترم چیئرمین،
ایک طرح سے صدر کی تقریر حقائق پر مبنی دیرینہ دستاویز ہے، جسے صدر جمہوریہ نے ملک کے سامنے پیش کیا ہے اور اگر آپ اس پوری دستاویز کو دیکھیں تو ان حقائق کا خلاصہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ملک جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے اور جس پیمانے پر سرگرمیوں کی توسیع ہو رہی ہے اس کا حساب کتاب صدرجمہوریہ نے پیش کیا ہے۔ ہندوستان کے روشن مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، محترمہ صدر جمہوریہ نے ہماری تمام تر توجہ چار مضبوط ستونوں پر مرکوز کی ہے، اور انہوں نے صحیح اندازہ لگایا ہے کہ ملک کے چار ستون جتنے مضبوط ہوں گے، وہ اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا، اتنا ہی خوشحال ہوگا۔ ہمارا ملک جتنا خوشحال ہوگا، اتنی ہی تیزی سے ترقی کرے گا۔ اور ان 4 ستونوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ملک کی ناری شکتی، ملک کی یووا شکتی، ملک کے ہمارے غریب بھائی بہنوں اور ہمارے کسانوں، ہمارے ماہی گیروں، ملک کے ہمارے مویشی پالنے والوں پر بات کی ہے۔ عزت مآب صدر جمہوریہ نے بااختیار بنانے کے ذریعے ترقی یافتہ ہندوستان کے مقصد کو حاصل کرنے کے راستے پر ایک واضح رہنما خطوط دیا ہے۔محترم صدر نے کہا کہ شاید آپ کے پاس اقلیت کے ماہی گیر نہ ہوں، ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس اقلیت کے مویشی چرانے والے نہ ہوں۔ شاید آپ کے یہاں کسان اقلیت کے نہیں نہ ہوں ، شاید اس شعبے میں اقلیتی خواتین نہ ہوں، شایدآپ کے یہاں نوجوان اقلیت میں نہ ہوں آپ کی جگہ اقلیت ہیں۔ کیا ہوگیا ہے دادا؟ یہ کیا اس ملک کے نوجوان کی بات ہوتی ہے۔ کب تک ٹکڑوں میں سوچتے رہو گے، کب تک سماج کو تقسیم کرتے رہو گے۔ اپنی باتوں کو محدود کرو، اپنی باتوں کو محدود کرو، آپ نے ملک کو بہت توڑا ہے۔
محترم چیئرمین،
اچھا ہوتا اگر جاتے جاتے اس بحث کے دوران کم از کم کچھ مثبت باتیں ضرور ہوتیں۔ کچھ مثبت تجاویز آتیں ،لیکن ہر بار کی طرح آپ سب دوستوں نے ملک کو مایوس کیا۔ کیونکہ ملک آپ کی سوچ کے وقار کو سمجھتا رہا ہے۔ اسے بار بار درد محسوس ہوتا ہے کہ ان کا یہ حال ہے۔ یہ ان کی سوچ کی حد ہے۔
محترم چیئرمین،
لیڈر بدل گئے ہیں لیکن ٹیپ ریکارڈر وہی چل رہا ہے۔ وہی چیزیں، کوئی نئی بات نہیں آتی۔ اورآپ کا پرانا ڈھول اور پرانا راگ چلتا رہتا ہے۔ الیکشن کا سال تھا، آپ تھوڑی محنت کر سکتے تھے، کچھ نیا لے کرآتے اور عوام کو پیغام دیتے، آپ اس میں بھی ناکام ہو گئے۔ چلئے یہ بھی میں سکھاتا ہوں۔
محترم چیئرمین،
آج اپوزیشن کی حالت کے لیے سب سے زیادہ قصوروار کانگریس پارٹی ہے۔ کانگریس کو اچھی اپوزیشن بننے کا بڑا موقع ملا اور 10 سال بھی کم نہیں ہیں۔ لیکن وہ 10 سال میں بھی اس ذمہ داری کو نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اور جب وہ خود ناکام ہوئے تو اپوزیشن میں اور بھی ہونہار لوگ ہیں، انہیں بھی ابھرنے نہیں دیا گیا، کیونکہ پھر معاملہ مزید بگڑ جائے گا، اس لیے وہ ہر بار اپوزیشن میں موجود دیگر روشن خیالوں کو دبانے کے لیے یہی کرتے رہے۔ ہمارے ایوان میں بہت سے نوجوان معزز ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ جوش بھی اور امنگ بھی ہے۔ لیکن اگر وہ بولے توشاید کسی دوسرے کی شبیہہ دب جائے گی۔ اس تشویش کے پیش نظر کہ اس نوجوان نسل کو موقع نہ ملے، ایوان کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یعنی ایک طرح سے اتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔ خود کا، اپوزیشن کا، پارلیمنٹ کا اور ملک کا بھی۔ اور اسی طرح میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ ملک کو ایک صحت مند اچھی اپوزیشن کی بہت ضرورت ہے۔ ملک اقرباء پروری کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اور کانگریس خود اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اب ادھیر بابو نے بھی اسے اٹھایا ہے۔ اب ہم ادھیر بابو کی حالت دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ یہ پارلیمنٹ میں رہنے کا وقت تھا۔ لیکن خاندان پرستی کی خدمت کرنی ہے۔
محترم چیئرمین،
اب صورت حال دیکھیں، اس ایوا ن سے دوسرے ایوان میں پہنچ گئے ہیں اور غلام نبی نے پارٹی ہی چھوڑدی ہے۔ یہ سب اقربا پروری کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک ہی پراڈکٹ کو بار بار لانچ کرنے کی وجہ سے کانگریس کی دکان پر تالے لگنے کا خدشہ ہے۔ اور یہ دکان ہم نہیں کہہ رہے، آپ لوگ کہہ رہے ہیں۔ آپ لوگ کہتے ہو کہ آپ نے دکان کھولی ہے، ہر جگہ یہی کہتے ہو۔ دکان کو تالے لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں ہمارے دادا اپنی عادت ترک نہیں کر پا رہے، وہ وہاں بیٹھے خاندان پرستی پر تبصرہ کر رہے ہیں، آج میں تھوڑی وضاحت کرتا ہوں۔ چیئرمین صاحب، میں آج کچھ وقت نکال رہا ہوں۔ ہم کن خاندانی مسائل پر بات کر رہے ہیں؟ اگر ایک خاندان کے ایک سے زیادہ افراد اپنی طاقت اور عوامی حمایت سے سیاسی میدان میں بھی ترقی کرتے ہیں۔ ہم نے اسے کبھی اقربا پروری نہیں کہا۔ ہم خاندانی نظام کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ایک پارٹی خاندان چلاتا ہے، جو پارٹی خاندان کے لوگوں کو ترجیح دیتا ہے۔ پارٹی کے تمام فیصلے خاندان کے افراد ہی لیتے ہیں۔ وہ اقربا پروری ہے۔ نہ راج ناتھ جی کی کوئی سیاسی پارٹی ہے اور نہ ہی امت شاہ کی کوئی سیاسی پارٹی ہے۔ اور اس لیے جہاں ایک خاندان کی دو پارٹیاں لکھی جاتی ہیں۔وہ جمہوریت میں مناسب نہیں ہے۔ جمہوریت میں ایک خاندان کے دس افراد کا پارٹی کے عہدے پر آنا یا سیاست میں آنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان آئیں۔ ہم اس پر بھی بات کرنا چاہتے ہیں، یہ آپ کے ساتھ میرا موضوع نہیں ہے۔ ملک کی جمہوریت، خاندانی سیاست، خاندانی پارٹیوں کی سیاست، یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اور اسی لیے اگر ایک خاندان کے 2 لوگ ترقی کریں تو میں اس کا خیر مقدم کروں گا، اگر 10 لوگ ترقی کریں گے تو میں اس کابھی خیر مقدم کروں گا۔ ملک میں آنے والی نئی نسل اور اچھے لوگوں کا خیرمقدم ۔ سوال یہ ہے کہ خاندان پارٹیاں چلاتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ اگر وہ صدر نہیں ہیں تو اس عہدے پر ان کا بیٹا ہوگا ۔ یہ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے اور اسی لیے اچھا ہے دادا آپ کا شکریہ، میں اس موضوع پر کبھی بات نہیں کرتا تھا، آج میں نے کہہ دیا۔
محترم چیئرمین،
ایک ہی پروڈکٹ کو بار بار لانچ کرنے کی بہت کوششیں کی جا رہی ہیں۔
محترم چیئرمین،
کانگریس ایک خاندان میں الجھی ہوئی ہے، وہ ملک کے کروڑوں خاندانوں کی امنگوں اور کامیابیوں کو نہیں دیکھ پا رہی ہے، وہ نہیں دیکھ سکتے ، وہ اپنے ہی خاندان سے باہر دیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور کانگریس میں کینسل کا کلچر تیار ہوا ہے، کچھ بھی ہے کینسل ۔کچھ بھی ہے-کینسل۔ کانگریس ایسے کینسل کلچر میں پھنسی ہوئی ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں میک ان انڈیا، کانگریس کہتی ہے کینسل، ہم کہتے ہیں - خود انحصار ہندوستان، کانگریس کہتی ہے کینسل، ہم کہتے ہیں ووکل فارلوکل، کانگریس کہتی ہے کینسل، ہم کہتے ہیں - وندے بھارت ٹرین، کانگریس کہتی ہے کینسل ، ہم کہتے ہیں پارلیمنٹ کی نئی عمارت ، کانگریس کہتی ہے کینسل ۔ یعنی میں حیران ہوں، یہ مودی کے کارنامے نہیں ہیں، یہ ملک کی کامیابیاں ہیں۔ اتنی نفرت کب تک برقرار رکھو گے اور اسی کی وجہ سے آپ ملک کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو کینسل کر کے واپس یہاں بیٹھ گئے ہیں۔
محترم چیئرمین۔
وکست بھارت کے روڈ میپ پر بات کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے اقتصادی پہلوؤں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ معیشت کے بنیادی اصولوں پر تفصیل سے بات کی۔ اور آج پوری دنیا ہندوستان کی مضبوط معیشت کی تعریف کر رہی ہے،ایسے حالات میں جب دنیا ایک بحران سے گزر رہی ہےاور پوری دنیا اس سے متاثر ہے، ، تو انہیں اور زیادہ اچھا لگتا ہے۔ جی 20سمٹ کے اندر، پورے ملک نے دیکھا کہ پوری دنیا ہندوستان کے لیے کیا سوچتی، کہتی اور کرتی ہے۔ اور ان تمام 10 سالہ دور اقتدار کے تجربے کی بنیاد پر، ہندوستان جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے، اس کی پیچیدگیوں کو جانتے ہوئے، آج کی مضبوط معیشت کو دیکھتے ہوئے، میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں، اور اسی لیے میں نے کہا ہے کہ ہماری تیسری مدت میں ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گی اور یہی مودی کی ضمانت ہے۔
معزز چیئرمین،
کیا انہیں پہلے موقع نہیں دیا گیا؟ سب کو موقع دیا۔
محترم چیئرمین،
جب ہم دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت بن کر ابھریں گے، تو اپوزیشن میں بیٹھے ہمارے کچھ دوست کیسی غلط فہمی پیدا کرتے ہیں، کس قسم کی غلط فہمی پھیلاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس میں کیا ہے؟ یہ خود بخود ہو جائے گا. آپ لوگوں کا کیا کمال ہے، مودی کا کیا، خود بخود ہو جائے گا۔ اس ایوان کے ذریعے میں ملک اور خاص طور پر ملک کے نوجوان افراد کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے اور حکومت کا کردار کیا ہے۔
محترم چیئرمین،
10 سال پہلے 2014 میں فروری کے مہینے میں عبوری بجٹ میں کون کون موجود تھے، یہ ملک بھی جانتا ہے۔ میں اس وقت کے وزیر خزانہ نے 10 سال قبل آنے والے عبوری بجٹ کو پیش کرتے ہوئے جو کہا تھا اس کا حوالہ دے رہا ہوں اور ہر لفظ بہت قیمتی ہے۔ جب آپ لوگ کہتے ہیں کہ خود بخود تیسرے نمبر پر آجائے گا ، انہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ وہی ہے جنہو ں نے کہا تھا – میں اب آگے دیکھنا چاہتا ہوں اور مستقبل کے لیے ایک وژن، مستقبل کے لیے وژن کا خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پوری کائنات کے سب سے بڑےماہر معاشیات بول رہے تھے - میں اب آگے دیکھنا چاہتا ہوں اور مستقبل کے لئے ایک وژن کا خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مزید کہتے ہیں - مجھے حیرت ہے کہ کتنے لوگوں نے اس حقیقت کو نوٹ کیا ہے کہ ہندوستان کی معیشت اس کے جی ڈی پی کے سائز کے لحاظ سے دنیا میں 11 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی 2014 میں 11 ویں نمبر پر پہنچنے پر کتنا فخر کا احساس تھا۔ آج 5 تک پہنچ گیا اور آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
محترم چیئرمین،
میں آگے پڑھ رہا ہوں، گوگوئی جی، شکریہ، آپ نے اچھا کہا۔ آگے پڑھ رہا ہوں، غور سے سنئے ساتھیو ۔ انہوں نے کہا تھا - یہ دنیا کی11 ویں سب سے بڑی معیشت ہے، یہ بڑے فخر کی بات ہے۔ اس وقت کائنات کے یہ بڑے ماہر معاشیات کہہ رہے تھے کہ ہم 30 سال میں تیسرے نمبر پر پہنچ جائیں گے، انہوں نے کہا کہ یہ میرا ویژن ہے۔ اس سوچ میں رہنے والے بہت سے لوگ ہیں، وہ کائنات کے سب سے بڑے ماہر معاشیات ہیں۔ یہ لوگ 2014 میں 2044 تک تیسری معیشت کی بات کررہے تھے، یہ ان کی سوچ ہے، یہ ان کا وقار ہے۔ یہ لوگ خواب دیکھنے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں، کسی بھی عہدکی دور کی بات، انہوں نے میرے ملک کی نوجوان نسل سے کہا کہ تیس سال انتظار کرو۔ لیکن ہم آج آپ کے سامنے بھروسے کے ساتھ اس ایوان میں کھڑے ہیں۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم 30 سال نہیں لگنے دیں گے - یہ مودی کی گارنٹی ہے، میری تیسری مدت میں ملک دنیا کی تیسری معاشی طاقت بن جائے گا۔ انہوں نے اہداف کیسے طے کیے، ان کی سوچ کہاں تک گئی، مجھے ترس آتا ہے۔ اور آپ لوگوں کو 11 نمبر پر بہت فخر تھا، ہم نمبر 5 پر پہنچ گئے۔ لیکن اگر آپ 11 نمبر پر آنے پر خوش تھے تو آپ کو 5 نمبر پر آنے پر بھی خوش ہونا چاہیے، ملک 5 نمبر پر پہنچ گیا ہے، آپ کو خوش ہونا چاہیے، آپ کس بیماری میں پھنسے ہوئے ہیں۔
محترم چیئرمین،
بی جے پی حکومت کے کام کی رفتار، ہمارے مقاصد کتنے بڑے ہیں، ہمارا حوصلہ کتنا بڑا ہے، آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
اور محترم چیئرمین صاحب
ایک کہاوت ہے، یہ کہاوت خاص طور پر ہمارے اتر پردیش میں کہی جاتی ہے - نو دن چلے ڈھائی کوس، اور میرے خیال میں یہ کہاوت کانگریس پر فٹ آتی ہے۔ یہ کانگریس کی سست رفتار کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آج ملک میں جس رفتار سے کام ہو رہا ہے، کانگریس حکومت اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
محترم چیئرمین،
ہم نے شہری غریبوں کے لیے 4 کروڑ گھر بنائے۔ اور شہری غریبوں کے لیے 80 لاکھ پکے گھر بنائے گئے۔ میں حساب لگاتا ہوں کہ اگر یہ گھر کانگریس کی رفتار سے بنتے تو کیا ہوتا، اگر یہ کانگریس کی رفتار سے بنتے تو اتنا کام پورا کرنے میں سو سال لگتے ۔ پانچ نسلیں گزر جاتیں۔
محترم چیئرمین،
10 سالوں میں 40 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریکس کی برقی کاری ہوئی۔ اگر ملک کانگریس کی رفتار سے چلتا تو اس کام کو مکمل کرنے میں 80 سال لگ جاتے، ایک طرح سے 4 نسلیں گزر جاتیں۔
محترم چیئرمین،
ہم نے 17 کروڑ مزید گیس کنکشن دیے، میں یہ 10 سال کا حساب دے رہا ہوں۔ اگر ہم کانگریس کے راستے پر چلتے تو یہ کنکشن فراہم کرنے میں مزید 60 سال لگ جاتے اور 3 نسلیں دھوئیں میں کھانا پکانے میں وقت گزارتی۔
محترم چیئرمین،
ہماری حکومت کے تحت صفائی کی کوریج 40 فیصد سے 100 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اگر کانگریس کی رفتار ہوتی تو اس کام کو مکمل ہونے میں مزید 60-70 سال لگ جاتے اور کم از کم تین نسلیں گزر جاتیں، لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ایسا نہ ہوتا۔
محترم چیئرمین،
کانگریس کی ذہنیت نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کانگریس نے کبھی بھی ملک کی طاقت پر یقین نہیں کیا، وہ خود کو حکمران سمجھتے تھے اور ہمیشہ لوگوں کو کم اور حقیر سمجھتے تھے۔
محترم چیئرمین،
میں جانتا ہوں کہ وہ ملک کے شہریوں کے بارے میں کیسا سوچتے ہیں، اگر میں اس کا نام بولوں تو وہ تھوڑا سا چبھ جائے گا۔ لیکن مجھے پڑھنے دیں کہ سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 15 اگست کو لال قلعہ سے کیا کہا تھا - میں وہ پڑھ رہا ہوں جو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت میں بہت محنت کرنے کی عام طور پر عادت میں نہیں ہے۔ ہم نے اتنا کام نہیں کیا جتنا یورپ یا جاپان، یا چین، یا روس، یا امریکہ کے لوگ کرتے ہیں۔نہرو جی لال قلعہ سے بول رہے ہیں۔ یہ مت سمجھئے کہ وہ قومیں جادو سے خوشحال ہوئیں۔ وہ محنت اور ذہانت سے خوشحال ہوئیں۔‘‘ وہ انہیں سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں ۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کی تذلیل ہے۔ یعنی ہندوستانیوں کے تئیں نہرو جی کی سوچ یہ تھی کہ ہندوستانی سست ہیں۔ ہندوستانیوں کے بارے میں نہرو جی کی سوچ یہ تھی کہ ہندوستانی کم ذہانت کے لوگ ہیں۔
محترم چیئرمین،
اندرا جی کی سوچ بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ اندرا جی نے 15 اگست کو لال قلعہ سے کیا کہا تھا - اندرا جی نے 15 اگست کو لال قلعہ سے کہا تھا – ‘‘بدقسمتی سے، ہماری عادت ہے کہ جب کوئی نیک کام مکمل ہونے والا ہوتا ہے، تو ہم خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ہم نا امید ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے پوری قوم نے شکست کا احساس اختیار کر لیا ہے۔’’ آج کانگریس والوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اندرا جی ملک کے لوگوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائیں ہوں گی، لیکن کانگریس کا اندازہ بالکل درست تھا۔ کانگریس کے شاہی خاندان کے لوگ میرے ملک کے لوگوں کو ایسا سمجھتے تھے، کیونکہ وہ سب ایسے ہی تھے۔ اور آج بھی یہی سوچ نظر آتی ہے۔
معزز چیئرمین،
کانگریس ہمیشہ صرف ایک خاندان پر یقین رکھتی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے نہ کچھ سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ دن پہلے، بھانومتی کا خاندان شامل ہوا، لیکن پھر انہوں نے ‘ایکلا چلو رے’ کرنا شروع کر دیا۔ کانگریس کے لوگوں نے موٹر میکینک کا نیا کام سیکھا ہے اور اس لیے الائنمینٹ کیا ہوتا ہے،اس پر توجہ دی ہوگی۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اتحاد کی صف بندی خود بگڑ گئی ہے۔ اپنے قبیلے میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تو ملک پر کیسے اعتبار کریں گے۔
محترم چیئرمین،
ہمیں ملک کی طاقت پر بھروسہ ہے، ہمیں عوام کی طاقت پر بھروسہ ہے۔
محترم چیئرمین،
جب ملک کے عوام نے ہمیں پہلی بار خدمت کا موقع دیا تو ہم نے پہلی مدت میں یو پی اے کے دور میں رہ جانے والے گڈھوں کو بھرنے میں بہت وقت اور توانائی صرف کی۔ ہم پہلی مدت میں ان گڈھوں کو بھرتے رہے۔ ہم نے دوسری میعاد میں ایک نئے ہندوستان کی بنیاد رکھی اور تیسری مدت میں ہم ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کو ایک نئی تحریک دیں گے۔
محترم چیئرمین،
پہلی میعاد میں، ہم نے ایسے بہت سے عوامی فلاحی کاموں کو آگے بڑھایا جیسے سوچھ بھارت، اجولا، آیوشمان بھارت، بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ… اسی طرح سوگمیا بھارت، ڈیجیٹل انڈیا ۔ ٹیکس نظام کو آسان بنانے کے لیے جی ایس ٹی جیسے فیصلے لیے گئے۔ اور ہمارا کام دیکھ کر عوام نے بھرپور ساتھ دیا۔ عوام نے بہت نوازا۔ پہلے سے زیادہ آشیرواددیا۔ اور ہمارا دوسرا دور شروع ہوا۔ دوسری مدت قراردادوں اور وعدوں کی تکمیل کی مدت تھی۔ ہم نے وہ تمام کامیابیاں دیکھی ہیں جن کے لیے ملک طویل عرصے سے انتظار کر رہا تھا ۔ ہم سب نے 370 کو ختم ہوتے دیکھا ہے، 370 کو ان معزز اراکین اسمبلی کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے ووٹوں کی طاقت سے ختم کیا گیا۔ ناری شکتی وندن ایکٹ دوسری مدت میں قانون بن گیا۔
محترم چیئرمین،
خلا سے لے کر اولمپکس تک، مقتدر قوتوں سے لے کر پارلیمنٹ تک ناری شکتی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ آج ملک نے خواتین کی طاقت کی اس بااختیاریت کو دیکھا ہے۔
محترم چیئرمین،
شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک، لوگوں نے کئی دہائیوں سے پھنسے ہوئے منصوبوں کو بروقت مکمل ہوتے دیکھا ہے۔
محترم چیئرمین،
ہم برطانوی راج کے پرانے قوانین سے ہٹ گئے ہیں جو تعزیرات پر مبنی تھے اور جوڈیشل کوڈ کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ ہماری حکومت نے سینکڑوں ایسے قوانین کو ختم کر دیا جو غیر متعلقہ ہو چکے تھے۔ حکومت نے 40 ہزار سے زائد تعمیلی قوانین کو ختم کردیا۔
محترم چیئرمین،
ہندوستان نے امرت بھارت اور نمو بھارت ٹرینوں کے ساتھ مستقبل کی ترقی کا خواب دیکھا ہے۔
محترم چیئرمین،
ملک کے ہر گاؤں، ملک کے کروڑوں لوگوں نے وکست بھارت کے عزم سفر کو دیکھا ہے اور اس مکمل کامیابی کے پیچھے کتنی محنت ہوتی ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ملک پہلی بار عوام کے دروازے پر دستک دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہیں وہی ملتا ہے جس کا وہ حقدار ہیں۔
محترم چیئرمین،
بھگوان رام نہ صرف اپنے گھر واپس آئے بلکہ ایک ایسا مندر تعمیر کیا گیا جو ہندوستان کی عظیم ثقافتی روایت کو نئی توانائی دیتا رہے گا۔
اور محترم چیئرمین صاحب
اب ہماری حکومت کی تیسری مدت بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ 100-125 دن باقی ہیں۔ اور اس بار مودی سرکار، پورا ملک کہہ رہا ہے اس بار مودی سرکار، کھڑگے جی بھی کہہ رہے ہیں اس بار مودی سرکار ۔ لیکن جناب سپیکر، میں عام طور پر ان اعدادوشمار کی باتوں میں نہیں پڑتا۔ لیکن جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں، کہ ملک کا مزاج ہے کہ این ڈی اے کو 400 سے سے زیادہ سیٹیں ملیں۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کو 370 سیٹیں ضرور دیں گے۔ بی جے پی 370 اور این ڈی اے 400 سیٹیں حاصل کریں گے۔
محترم چیئرمین،
ہماری تیسری مدت بڑے فیصلوں کے لئے ہوگی۔ میں نے یہ بات لال قلعہ سے کہی تھی اور رام مندر پرتشٹھان کے وقت بھی میں نے اسے دہرایا تھا۔ میں نے کہا تھا – میں اگلے ہزار سالوں تک ملک کو خوشحال اور کامیابی کی چوٹی پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ تیسری مدت اگلے ایک ہزار سال کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھنے کی اصطلاح ہوگی۔
محترم چیئرمین،
میں ہندوستان کے لوگوں اور ان کے مستقبل کے لیے پر اعتماد ہوں۔ مجھے ملک کے 140 کروڑ شہریوں کی صلاحیتوں پر بے پناہ بھروسہ ہے ۔ 10 سالوں میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں، یہ صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔
محترم چیئرمین،
میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر غریب کو وسائل ملیں، غریب کو عزت نفس ملے تو ہمارے غریبوں میں غربت کو شکست دینے کی صلاحیت ہے۔ اور ہم نے وہ راستہ چنا اور میرے غریب بھائیوں نے غربت کو شکست دی۔ اور اسی سوچ کو ذہن میں رکھ کر ہم نے غریبوں کو وسائل دیے، عزت دی۔ آج 50 کروڑ غریبوں کے بینک کھاتے ہیں۔ کبھی ایسا وقت تھا جب وہ بینک سے بھی نہیں گزر سکتے تھے۔ 4 کروڑ غریبوں کے پاس پکا مکان ہے اور وہ گھر ان کی عزت نفس کو ایک نئی طاقت دیتا ہے۔ 11 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو نل کے پانی سے پینے کا صاف پانی مل رہا ہے۔ 55 کروڑ سے زیادہ غریبوں کو آیوشمان بھارت کارڈ ملا ہے۔ ان کے گھر کوئی بیماری آئے گی تو وہ اس بیماری کی وجہ سے دوبارہ غربت میں نہیں آئیں گے، انہیں یقین ہے کہ کتنی ہی بیماریاں آئیں، مودی بیٹھے ہیں۔ 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج کی سہولت دی گئی ہے۔
محترم چیئرمین،
مودی نے ان سے پوچھا جن سے پہلے کسی نے پوچھا تک نہیں تھا۔ ملک میں پہلی بار سڑکوں پر دکانداروں کے بارے میں سوچا گیا۔ آج وہ پی ایم سواندھی یوجنا کے ذریعے سود کے جال سے باہر آئے ہیں اور بینک سے پیسے لے کر اپنے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں۔ ملک میں پہلی بار میں نے اپنے وشوکرما دوستوں کے بارے میں سوچا جن کے پاس ہاتھ کی مہارت ہے اور جو ملک کی تعمیر بھی کرتے ہیں۔ ہم نے یہ کام اپنے وشوکرما بھائیوں کے لیے جدید آلات، جدید تربیت، مالی مدد فراہم کرکے، ان کے لیے عالمی منڈی کھول کر کیا ہے۔ ملک میں پہلی بار ہمارے وہ بھائی بہن جو پی وی ٹی جیز یعنی قبائل میں انتہائی پسماندہ ہیں، تعداد میں بہت کم ہیں، ووٹ کے حساب سے کسی کو نظر نہیں آتا، ہم ووٹوں سے آگے کی سوچ رکھتے ہیں، ہم دلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس لیے پی وی ٹی جی ذاتوں کے لیے پی ایم جن من یوجنا بنا کر ان کی فلاح و بہبود کے کام کو مشن موڈ میں لیا گیا ہے۔ یہی نہیں ہم نے سرحد کے ان دیہاتوں کو جو آخری گاؤںمیں بستے ہیں، پہلا گاؤں بنا کر ترقی کی پوری سمت بدل دی۔
محترم چیئرمین،
جب بھی میں بار بار باجرے کی وکالت کرتا ہوں، میں باجرے کی دنیا میں جا کر ان پر بحث کرتا ہوں۔ میں جی 20 ممالک کے لوگوں کو فخر کے ساتھ باجرا پیش کرتا ہوں، اس کے پیچھے میرے دل میں 3 کروڑ سے زیادہ چھوٹے کسان ہیں جو باجرے کی کاشت کرتے ہیں، ان کی فلاح و بہبود ہماری فکر ہے۔
محترم چیئرمین،
جب میں ووکل فار لوکل کی بات کرتا ہوں، جب میں میک ان انڈیا کے بارے میں بات کرتا ہوں، تو میں کروڑوں گھریلو صنعتوں، چھوٹے پیمانے کی صنعتوں، کاٹیج صنعتوں کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتا ہوں۔
محترم چیئرمین،
کھادی، جسے کانگریس پارٹی بھول چکی تھی، حکومتیں اسے بھول چکی تھیں۔ آج میں کھادی کو تقویت دینے میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا ہوں کیونکہ کروڑوں بنکروں کی زندگی کھادی اور ہینڈلوم سے جڑی ہوئی ہے، میں ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتا ہوں۔
محترم چیئرمین،
ہماری حکومت ہر کونے سے غربت کے خاتمے اور غریبوں کو خوشحال بنانے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کر رہی ہے۔ جن کے لیے صرف ووٹ بینک تھا، ان کی فلاح ممکن نہیں تھی۔ ہمارے لیے ان کی فلاح و بہبود ہی قوم کی فلاح ہے اس لیے ہم بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔
محترم چیئرمین،
کانگریس پارٹی اور یو پی اے حکومت نے او بی سی کمیونٹی کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا، ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ان لوگوں نے او بی سی لیڈروں کی توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کچھ دن پہلے کرپوری ٹھاکر جی کو بھارت رتن دیا گیا۔ لیکن یاد رکھیں، او بی سی کمیونٹی کے اس عظیم آدمی، کرپوری ٹھاکر کے ساتھ جوانتہائی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،کیا سلوک کیا گیا۔ ان پر کیسے تشدد کیا گیا۔ 1970 میں جب وہ بہار کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے طرح طرح کے کھیل کھیلے گئے۔ ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
محترم چیئرمین،
کانگریس انتہائی پسماندہ طبقے کے فرد کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ 1987 میں جب پورے ملک میں کانگریس کا پرچم لہرا رہا تھا، اقتدار ہی اقتدار تھا۔ پھر انہوں نے کرپوری ٹھاکر کو اپوزیشن لیڈر ماننے سے انکار کر دیا اور یہ وجہ بتائی کہ وہ آئین کا احترام نہیں کر سکتے۔ کرپوری ٹھاکر، جنہوں نے جمہوریت کے اصولوں اور آئین کے وقار کے لیے اپنی پوری زندگی گزار دی، کانگریس پارٹی نے ان کی توہین کی۔
محترم چیئرمین،
آج کل کانگریس سے تعلق رکھنے والے ہمارے ساتھی اس بات کو لے کر بہت پریشان ہیں کہ حکومت میں او بی سی کے کتنے لوگ ہیں، کتنے عہدوں پر فائز ہیں اس کا حساب کتاب کرتے رہتے ہیں۔ لیکن میں حیران ہوں، وہ اسے سب سے بڑے او بی سی کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے کہاں بیٹھ جاتے ہیں؟
محترم چیئرمین،
وہ دنیا بھر کی چیزیں کرتے ہیں، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں۔ یو پی اے کے دور میں ایک ماورائے آئین ادارہ بنایا گیا تھا، جس کے سامنے حکومت کی کچھ نہیں چلتی تھی۔ نیشنل ایڈوائزری کونسل، میں کیا کوئی او بی سی تھا؟ ذرا وقت نکال کر دیکھیں۔ اتنی بڑی طاقتور باڈی بنائی تھی ۔
محترم چیئرمین،
گزشتہ 10 سالوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ خواتین کی قیادت میں معاشرے کو بااختیار بنانے پر کام کیا گیا ہے۔
محترم چیئرمین،
اب ملک کی بیٹی، ہندوستان میں ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جہاں ملک کی بیٹیوں کے لیے دروازے بند ہوں۔ آج ہمارے ملک کی بیٹیاں بھی لڑاکا طیارے اڑا رہی ہیں اور ہمارے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔
محترم چیئرمین صاحب
دیہی نظام، معیشت، 10 کروڑ بہنیں ہمارے وومن سیلف ہیلپ گروپ سے وابستہ ہیں اور معاشی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ اور وہ دیہی معیشت کو نئی طاقت دے رہی ہیں اور آج مجھے خوشی ہے کہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں تقریباً 1 کروڑ لکھ پتی دیدی بن چکی ہیں۔ اور جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو مجھے ان کا اعتماد نظر آتا ہے، مجھے پختہ یقین ہے کہ جس طرح سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، آنے والے دور میں ہم اپنے ملک میں 3 کروڑ لکھ پتی دیدی دیکھیں گے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گاؤں کی معیشت میں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔
محترم چیئرمین،
ہمارے ملک میں بیٹیوں کے حوالے سے پہلے کی جو سوچ تھی وہ تبدیل ہوچکی ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کتنی بڑی خوشگوار تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ پہلے بیٹی کی پیدائش ہوتی تھی تو اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ خرچہ کیسے اٹھائیں گے۔ اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ ہم اسے کیسے تعلیم دیں گے، اس کی آگے کی زندگی ایک طرح سے بوجھ ہے؟ آج جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ سکنیا سمردھی کا اکاؤنٹ کھلا ہے یا نہیں؟ تبدیلی آئی ہے۔
محترم چیئرمین،
پہلے سوال ہوتا تھا کہ اگر خاتون حاملہ ہیں تو نوکری کیسے کرپائے گی؟ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ اگر آپ حاملہ ہیں تو آپ نوکری نہیں کر پائیں گی۔ آج کہا جاتا ہے کہ 26 ہفتے کی تنخواہ کی چھٹی ہے اور اگر آپ بعد میں بھی چھٹی چاہتے ہیں تو آپ کو مل جائے گی، یہ تبدیلی ہے۔ پہلے معاشرے میں یہ سوالات ہوتے تھے کہ عورت نوکری کیوں کرنا چاہے گی۔ ایسے سوالات تھے کہ کیا شوہر کی تنخواہ کم ہو رہی ہے۔ آج لوگ پوچھ رہے ہیں کہ میڈم آپ کا سٹارٹ اپ بہت ترقی کر رہا ہے، کیا مجھے نوکری ملے گی؟ یہ تبدیلی آئی ہے۔
محترم چیئرمین،
ایک وقت تھا جب سوال پوچھا جاتا تھا کہ آپ کی بیٹی کی عمر بڑھ رہی ہے ، شادی کب ہوگی؟ آج پوچھا جاتا ہے کہ بیٹی تم ذاتی اور پیشہ ورانہ دونوں کاموں میں کتنااچھا توازن رکھتی ہو، کیسے کرتی ہو؟
محترم چیئرمین،
گھر میں ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ گھر کا مالک گھر پر ہے یا نہیں۔ وہ کہتے تھے کہ گھر کے سربراہ کو بلاؤ ۔ آج جب ہم کسی کے گھر جاتے ہیں تو گھر عورت کے نام ہوتا ہے اور بجلی کا بل اس کے نام آتا ہے۔ پانی گیس سب اس کے نام ہے، آج اس خاندان کے سربراہ کی جگہ میری ماؤں بہنوں نے لے لی ہے۔ یہ تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی امرت کال میں ایک وکست بھارت کے لیے ہمارا عزم ہےاور میں اس طاقت کو دیکھنے کے قابل ہوں۔
محترم چیئرمین صاحب
میں نے کسانوں کے لئےآنسو بہانے کی عادت بہت دیکھی ہے۔ ملک نے دیکھا کہ کسانوں کے ساتھ کیسا دھوکہ ہوا ہے۔ کانگریس کے دور میں زراعت کا کل سالانہ بجٹ 25 ہزار کروڑ روپے تھا۔ معزز اسپیکر، ہماری حکومت کا بجٹ 1.25 لاکھ کروڑ روپے ہے۔
محترم چیئرمین،
اپنے 10 سالہ دور اقتدار میں کانگریس نے کسانوں سے 7 لاکھ کروڑ روپے کا دھان اور گیہوں خریدا تھا۔ ہم نے 10 سال میں تقریباً 18 لاکھ کروڑ روپے کا دھان اور گیہوں خریدا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کانگریس حکومت نے دالیں اور تیل کے بیج صرف برائے نام ہی خریدے ہوں۔ ہم نے 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی دالیں اور تیل کے بیج خریدے ہیں۔ ہمارے کانگریسی ساتھیوں نے پی ایم کسان سمان ندھی کا مذاق اڑایا اور جب میں نے اپنے پہلے دور حکومت میں یہ اسکیم شروع کی تو مجھے یاد ہے کہ جھوٹے بیانیے کا فیشن شروع ہو گیا ہے، گاؤں جا کر کہا گیا کہ دیکھیں یہ مودی کی اسکیم ہے، مت لو۔ یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ آپ سے ساری رقم سود سمیت واپس مانگے گا۔ کسانوں کو اتنا بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی۔
محترم چیئرمین،
ہم نے پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت2 لاکھ 80 ہزار کروڑ روپے بھیجے ہیں۔ پی ایم فصل بیمہ یوجنا 30 ہزار روپے کا پریمیم اور اس کے سامنے 1.5 لاکھ کروڑ روپے میرے کسان بھائیوں اور بہنوں کو دیئے ہیں۔ کانگریس کے دور حکومت میں ان کے کام میں کبھی بھی ماہی گیروں یا مویشی پروروں کا ذکر نہیں تھا۔ اس ملک میں پہلی بار ماہی گیروں کے لیے الگ وزارت بنائی گئی اور مویشیوں کے لیے الگ وزارت بنائی گئی۔ پہلی بار مویشی پالنے والوں اور ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ دیے گئے، تاکہ وہ بینکوں سے کم سود پر رقم حاصل کر سکیں اور اپنے کاروبار کو بڑھا سکیں۔ کسانوں اور ماہی گیروں، یہ فکر صرف جانوروں کی نہیں ہے، یہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ جانور معاشی گردش میں بھی بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے جانوروں کو پاؤں اور منہ کی بیماری سے بچانے کے لیے 50 کروڑ سے زیادہ ویکسین لگائی ہیں، جس کے بارے میں پہلے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
محترم چیئرمین،
آج ہندوستان میں نوجوانوں کے لیے جتنے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں وہ پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ آج کل ذخیرہ الفاظ ہی بدل چکے ہیں، ایسے الفاظ جو پہلے کبھی نہیں سنے گئے تھے بول چال کے ساتھ دنیا میں آئے ہیں۔ آج ہر طرف اسٹارٹ اپس کا شور ہے، یونیکارنس خبروں میں ہیں۔ آج ڈیجیٹل تخلیق کاروں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہمارے سامنے ہے۔ آج سبز معیشت پر بات ہو رہی ہے۔ یہ نوجوانوں کی زبانوں پر نئے ہندوستان کا نیا لفظ ہے۔ یہ نئی معاشی سلطنت کا نیا ماحول ہے، ایک نئی شناخت ہے۔ یہ شعبے نوجوانوں کے لیے روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ 2014 سے پہلے ڈیجیٹل اکانومی کا حجم نہ کے برابر تھا، اس پر زیادہ بحث بھی نہیں ہوئی۔ آج ہندوستان دنیا کی ڈیجیٹل معیشت میں آگے ہے۔ اس سے لاکھوں نوجوان جڑے ہوئے ہیں اور آنے والے وقت میں یہ ڈیجیٹل انڈیا موومنٹ ملک کے نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع ، بہت سے روزگار اور بہت سے پیشہ ور افراد کے لیے مواقع لے کر آنے والی ہے۔
محترم چیئرمین،
آج دنیا بھر میں میڈ ان انڈیا فون پہنچ رہے ہیں۔ ہم دنیا میں نمبر 2 بن گئے ہیں۔ اور ایک طرف سستے موبائل فون دستیاب ہوئے ہیں اور دوسری طرف سستا ڈیٹا، ان دونوں کی وجہ سے ملک اور دنیا میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہو گیا ہے، جو ہم سب سے کم قیمت پر فراہم کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک وجہ بن گیا ہے۔ آج یہ ملک میڈ ان انڈیا مہم، ریکارڈ مینوفیکچرنگ، ریکارڈ برآمدات دیکھ رہا ہے۔
محترم چیئرمین،
یہ تمام کام وہ ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتے ہیں اور سب سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔
محترم چیئرمین،
گزشتہ 10 سالوں میں سیاحت کے شعبے میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ ترقی اور سیاحت کا شعبہ ایسا ہے کہ اس میں کم سے کم سرمایہ کاری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اور یہ عام آدمی کو بھی روزگار فراہم کرنے کا موقع ہے۔ سیاحت وہ شعبہ ہے جس میں خود روزگار کی سب سے زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ 10 سالوں میں ہوائی اڈوں کو دگنا کیا گیا۔ یہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہندوستان میں ہوائی اڈہ بن گیا ہےبلکہ ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا گھریلو ہوا بازی کا شعبہ بن گیا ہے۔ ہم سب کو خوش ہونا چاہیے کہ ہندوستان کی فضائی کمپنیوں نے ملک میں 1 ہزار نئے طیاروں کا آرڈر دیا ہے اور جب اتنے ہوائی جہاز چلیں گے تو تمام ہوائی اڈے کتنے چمکدار ہوں گے۔ کتنے پائلٹس کی ضرورت ہوگی، عملے کے کتنے ارکان کی ضرورت ہوگی، کتنے انجینئرز کی ضرورت ہوگی، کتنے گراؤنڈ سروس والے لوگوں کی ضرورت ہوگی، یعنی روزگار کے نئے شعبے کھل رہے ہیں۔ ہوا بازی کا شعبہ ہندوستان کے لیے ایک بہت بڑا نیا موقع بن کر آیا ہے۔
محترم چیئرمین،
ہماری کوشش رہی ہے کہ معیشت کو تھرمولائز کرنے کی طرف مضبوط قدم اٹھایا جائے۔ نوجوانوں کو نوکریاں ملنی چاہئیں اور سماجی تحفظ بھی۔ ان دونوں باتوں کی بنیاد پر ہم فیصلے لیتے ہیں اور اسے ملک میں قبول بھی کیا جاتا ہے، ایک چیز ای پی ایف او کا ڈیٹا بھی ہے۔ ای پی ایف او میں رجسٹریشن سے 10 سالوں میں تقریباً 18 کروڑ نئے سبسکرائبرز آئے ہیں اور یہ پیسے سے جڑی سیدھی گیم ہے، اس میں کوئی فرضی نام نہیں ہوتے ہیں۔ مدرا لون حاصل کرنے والوں میں 8 کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔ اور جب کوئی مدرا قرض لیتا ہے تو اسے نہ صرف روزگار ملتا ہے بلکہ ایک یا دو اور لوگوں کو بھی روزگار ملتا ہے، کیونکہ یہی اس کا کام ہے۔ ہم نے لاکھوں خوانچہ فروشوں کی مدد کی ہے۔ 10 کروڑ خواتین ایسی چیزوں سے وابستہ ہیں، جیسا کہ میں نے کہا ہے، ایک لاکھ لکھ پتی دیدی، ایک کروڑ اپنے آپ میں بہت کچھ ہےاور جیسا کہ میں نے کہا، ہم اپنے ملک کے اندر 3 کروڑ لکھ پتی دیدی دیکھیں گے۔
محترم چیئرمین،
کچھ اعداد و شمار ایسے ہیں جو معاشی ماہرین سمجھتے ہیں، ایسا نہیں ہے ، عام آدمی بھی سمجھتا ہے۔ 2014 سے پہلے کے 10 سالوں میں، انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے تقریباً 12 لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ تھا۔ پچھلے 10 سالوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے 44 لاکھ کروڑ روپے کے بجٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔
محترم چیئرمین،
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس رقم سے کتنا کام ہوا ہے اور کتنے لوگوں کو اس کی وجہ سے روزی روٹی ملی ہے۔ ہم اس سمت میں ملک کی نوجوان طاقت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تاکہ ہندوستان کو مینوفیکچرنگ، تحقیق اور اختراع کا مرکز بنایا جا سکے۔ سسٹمز تیار کیے جا رہے ہیں۔ مالی مدد کے منصوبےبنائے جارہے ہیں۔
محترم چیئرمین،
ہم ہمیشہ توانائی کے شعبے میں دوسرے پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں خود انحصاری کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہماری کوشش سبز توانائی کی طرف ہے، ہم ہائیڈروجن کے ساتھ بڑے پیمانے پر آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں بے مثال سرمایہ کاری ہے۔ اسی طرح ایک اور شعبہ جس میں بھارت کو برتری حاصل کرنی ہوگی وہ ہے سیمی کنڈکٹر، پچھلی حکومت نے کوششیں کیں لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اب ہم جس حال میں پہنچے ہیں، میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری 3 دہائیاں بھلے ہی خراب ہو چکی ہیں لیکن آنے والا وقت ہمارا ہے، ہم سیمی کنڈکٹر کے میدان میں بے مثال سرمایہ کاری دیکھ رہے ہیں اور ہندوستان کادنیا میں بہت بڑا تعاون ہوگا۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے محترم اسپیکر، معیاری ملازمتوں کے مواقع بہت بڑھنے والے ہیں اور جس کی وجہ سے ہم نے معاشرے میں ایک الگ ہنرمندی کی وزارت بنائی ہے، اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو ہنر ملے اور مواقع حاصل ہوں اور ہم صنعت O.4 کے لیے انسانی طاقت کو تیار کرکے آگے بڑھنے کی طرف کام کر رہے ہیں۔
محترم چیئرمین،
مہنگائی کے حوالے سے یہاں بہت بات ہوئی ہے۔ میں ضرور چاہوں گا کہ سچائی ملک کے سامنے آئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کانگریس آتی ہے مہنگائی لاتی ہے۔ میں آج اس ایوان میں کچھ بیانات دینا چاہتا ہوں اور میں یہ کسی پر تنقید کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں لیکن جو لوگ ہماری بات نہیں سمجھتے وہ اپنے لوگوں کی بات سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ کہا گیا تھا، یہ کب کہا اور کس نے کہا، بعد میں بتاؤں گا، ہر چیز کی قیمتوں میں اضافے سے پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہےاور عام لوگ ان میں پھنس گئے ہیں۔ یہ کس کا بیان ہے؟ہمارے پنڈت نہرو جی نے اس وقت لال قلعہ سے کہا تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ہر جگہ مہنگائی بڑھی ہے۔ آپ کے سامنے نہرو جی کے ایک اور بیان کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آج کل آپ لوگ کسی نہ کسی پریشانی میں ہیں، مہنگائی کی وجہ سے کچھ بے بسی ہے، اس پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں، حالانکہ ہمارے دور میں یہ قابو میں آ جائے گا۔ 10 سال بعد بھی مہنگائی کے وہی گیت کہے گئے اور یہ کس نے کہا؟۔ اس وقت جب وہ ملک کے وزیر اعظم تھے تو 12 سال ہوچکے تھے لیکن ہر بار مہنگائی قابو میں نہیں آرہی ہے، مہنگائی کی وجہ سے آپ کو مشکلات کا سامنا ہے، وہ اس حوالے سے گیت گاتے رہے۔
محترم چیئرمین،
اب میں ایک اور تقریر کا حصہ پڑھ رہا ہوں۔ جب ملک ترقی کرتا ہے تو قیمتیں بھی کسی حد تک بڑھ جاتی ہیں، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ یہ کس نے کہا؟اندرا گاندھی جی نے یہ کہا۔ 1974 میں جب انہوں نے ملک بھر کے تمام دروازے بند کر دیے اور لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ 30فیصد مہنگائی تھی۔
محترم چیئرمین،
ان کی تقریر میں یہاں تک کہا گیا کہ اگر زمین نہ ہو یعنی کچھ پیداوار کے لیے زمین نہ ہو تو اپنے گملوں اور کنستروں میں سبزیاں اگائیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ ایسے مشورے دیتے تھے۔ جب ہمارے ملک میں مہنگائی سے متعلق دو گانے سپرہٹ ہوئے۔ ہر گھر میں گایا جاتا تھا۔ ایک مہنگائی مار گئی اور دوسرا مہنگائی ڈائن کھائے جات ہےاور یہ دونوں گانے کانگریس کے دور میں آئے۔
محترم چیئرمین،
یو پی اے کے دور میں مہنگائی دوہرے ہندسے میں تھی، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور یو پی اے حکومت کی کیا منطق تھی - بے حسی؟ کہا گیا کہ مہنگی آئس کریم کھا سکتے ہو تو مہنگائی کا رونا کیوں روتے ہو؟ کانگریس جب بھی آئی ہے اس نے مہنگائی کو ہی مضبوط کیا ہے۔
محترم چیئرمین،
ہماری حکومت نے مہنگائی کو مسلسل کنٹرول میں رکھا ہے۔ دو جنگوں اور 100 سال کے سب سے بڑے بحران کے باوجود مہنگائی قابو میں ہے اور ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
محترم چیئرمین،
یہاں بہت غصے کا اظہار کیا گیا، غصے کا اظہار حتی الامکان سخت الفاظ میں کیا گیا۔ میں ان کا درد سمجھتا ہوں۔ میں ان کی پریشانی اور ان کے غصے کو سمجھتا ہوں کیونکہ تیر نشانے پر لگا ہے۔ ایجنسیاں کرپشن پر ایکشن لے رہی ہیں۔ اس پر بہت غصہ ہے ۔
محترم چیئرمین،
10 سال پہلے ہمارے ایوان اور پارلیمنٹ میں کیا بات ہوتی تھی؟ ایوان کا پورا وقت گھوٹالوں پر بحث کرنے میں گزر جاتا تھا۔ مسلسل کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ایوان مطالبہ کرتا رہا، کارروائی کرو، کارروائی کرو، کارروائی کرو۔ ملک نے وہ دور دیکھا ہے۔ ہر روز کرپشن کی خبریں آتی تھیں۔ اور آج جب بدعنوانوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو لوگ ان کی حمایت میں ہنگامہ برپا کر تے ہیں۔
محترم چیئرمین،
ان کے دور میں ایجنسیوں کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ انہیں کوئی اور کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب آپ دیکھئے کہ ان کے دور میں کیا ہوا – پی ایم ایل اے ایکٹ کے تحت، ہم نے پہلے کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ مقدمات درج کرائے ہیں۔ کانگریس کے دور میں ای ڈی نے 5 ہزار کروڑ روپے کی جائیداد ضبط کی تھی۔ ہمارے دور میں ای ڈی نے ایک لاکھ کروڑ روپے کے اثاثے ضبط کیے، ملک کی یہ لوٹی ہوئی جائیداد واپس کرنی ہوگی۔ اور جن کا مال بھاری مقدار میں پکڑا جاتا ہے، کرنسی نوٹوں کے ڈھیر پکڑے جاتے ہیں۔ اور ادھیر بابو بنگال سے آئے ہیں، انہوں نے نوٹوں کے ڈھیر دیکھے ہیں۔ جن کے گھروں سے پکڑے گئے۔ نوٹوں کے ان ڈھیروں کو دیکھ کر ملک حیران ہے۔ لیکن اب آپ عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے، عوام دیکھ رہی ہے کہ کس طرح یو پی اے حکومت میں بدعنوانی کی بات ہوتی تھی، اس کی کل رقم 10سے15 لاکھ کروڑ روپے تھی، اس پر بحث ہوتی تھی۔
ہم نے لاکھوں کروڑوں کے گھوٹالے بند کیے، لیکن وہ ساری رقم غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی۔ اب بچولیوں کے لیے غریبوں کو لوٹنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ہم نے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر، جن دھن اکاؤنٹ، آدھار، موبائل کی طاقت کو پہچان لیا ہے۔ ہم نے 30 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ رقم براہ راست لوگوں کے کھاتوں میں منتقل کیے ہیں۔ کانگریسی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ایک روپیہ بھیجیں تو 15 پیسے پہنچتے ہیں، اگر میں اس کے حساب سے دیکھتا ہوں تو ہم نے 30 لاکھ روپے بھیجے اگران کا دور ہوتا تو حساب لگائیں کہ کتنے پیسے کہاں چلے جاتے ۔ 15فیصد مشکل سے عوام تک پہنچتا باقی سب کہا ں چلا جاتا ، پتہ نہیں۔
محترم چیئرمین،
ہم نے 10 کروڑ فرضی نام ہٹا دیے، اب لوگ پوچھتے ہیں کہ پہلے یہ تعداد اتنی تھی، کم کیوں ہوئی، آپ نے ایسا نظام بنایا تھا کہ جو بیٹی پیدا نہیں ہوئی، اسے آپ کی جگہ سے بیوہ پنشن دی گئی۔ اور اس طرح کی سرکاری اسکیموں کو مارنے کے جو راستے تھے ، 10 کروڑ فرضی ناموں کو بند کئے ، یہی مسئلہ ہے، ہے نا، ان چیزوں کا۔ کیونکہ ان کی روز مرہ کی آمدنی بند ہو گئی ہے۔
محترم چیئرمین،
ان فرضی ناموں کو ہٹا کر ہم نے تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے فرضی ہاتھوں میں جانے سے بچائے ہیں۔ ہم نے ملک کے ٹیکس دہندگان کی ایک ایک پائی کو بچانے اور اسے اچھے استعمال میں ڈالنے میں اپنی زندگیاں صرف کر دی ہیں۔
محترم چیئرمین،
تمام سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے اور معاشرے میں بیٹھے لوگوں کو بھی ان کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج ملک کی بدقسمتی ہے کہ پہلے بھی کلاس روم میں کوئی چوری کرتا تھا یا نقل کرتا تھا تو وہ بھی 10 دن تک کسی کو منہ نہیں دکھاتا تھا۔ آج جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، جن پر ثابت ہو چکے ہیں، جو جیلوں میں وقت گزار کر پیرول پر آئے ہیں، وہ آج عوامی زندگی میں ایسے چوروں کو اپنے کاندھوں پر بٹھاکر واہ واہی کررہے ہیں۔ آپ ملک کی آنے والی نسل کو کون سا کلچر اور کیا انسپائریشن دینا چاہتے ہیں، کون سے راستے اور کون سی مجبوریاں ہیں؟ اور ایسے لوگوں کی تعریف کیوں کی جا رہی ہے، انہیں عظیم کہا جا رہا ہے۔ عزت مآب اسپیکر جہاں آئین کی حکمرانی ہو، جہاں جمہوریت ہو،، ایسی باتیں زیادہ دیر نہیں چل سکتیں۔ یہ لوگ اپنی تباہی کے خط پر دستخط کر رہے ہیں۔
محترم چیئرمین،
تحقیقات کرنا ان ایجنسیوں کا کام ہے۔ ایجنسیاں خود مختار ہیں اور آئین نے انہیں خود مختار رکھا ہے۔ اور فیصلہ کرنا جج کا کام ہے اور وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور جناب اسپیکر، میں اس مقدس ایوان میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ میرے ساتھ کتنی ہی ناانصافی کیوں نہ ہو، کرپشن کے خلاف میری جنگ جاری رہے گی۔ ملک کو لوٹنے والوں کو پیسہ واپس کرنا ہو گا۔ میں اس ایوان کے مقدس مقام سے ملک سے یہ وعدہ کرتا ہوں۔ جو الزام لگانا چاہے لگا لیں لیکن ملک کو لوٹنے نہیں دیں گے اور جو لوٹا ہے اسے واپس کرنا ہو گا۔
محترم چیئرمین،
ملک میں امن و امان کا احساس ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں یقیناً ملک سکیورٹی کے میدان میں مضبوط ہوا ہے۔ دہشت گردی اور نکسل ازم اب ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف بھارت کی زیرو ٹالرنس پالیسی کی وجہ سے آج پوری دنیا بھارت کی اس پالیسی پر عمل کرنے پر مجبور ہے۔ آج، ہندوستان کی فوجیں سرحدوں سے لے کر سمندر تک اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی فوج کی بہادری پر فخر ہونا چاہیے۔ ہم ان کے حوصلے توڑنے کی کتنی ہی کوشش کریں، مجھے اپنی فوج پر بھروسہ ہے، میں نے ان کی طاقت دیکھی ہے۔ کچھ سیاستدان فوج کے لیے ہلکے پھلکے الفاظ بول دیتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس سے میرے ملک کی فوج کے حوصلے پست ہوں گےتو ان کی یہ خام خیالی ہے ۔ وہ ملک کا مزاج خراب نہیں کر سکتے اور اگر اس قسم کی زبان کسی کا ایجنٹ بن کر کہیں سے اٹھتی ہے تو ملک اسے کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ اور جو کھلے عام ملک میں الگ ملک بنانے کی وکالت کرتے ہیں، اتحاد کی بات تو چھوڑیں، اسے توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں،آپ نے ملک کے اتنے ٹکڑے کر دیے ہیں، اور مزید ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، کب تک ایسا کرتے رہیں گے؟
محترم چیئرمین،
اگر اس ایوان میں کشمیر پر بات ہوتی تھی تو ہر وقت تشویش کی آواز آتی تھی، ہلچل ہوتی تھی، الزامات اور جوابی الزامات ہوتے تھے۔ آج جموں و کشمیر میں بے مثال ترقی کی بات کی جا رہی ہے اور فخر کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ سیاحت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جی 20 سربراہی اجلاس وہاں ہوتا ہے، آج پوری دنیا اس کی تعریف کرتی ہے۔ انہوں نے آرٹیکل 370 کو لے کر کیسا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ جس طرح کشمیری عوام نے اسے قبول کیا ہےقابل تعریف ہے، اور آخر یہ مسئلہ کس کی وجے سے پیدا ہوا، کس نے ملک پر تھوپا ہے ،کس نے ہندوستان کے آئین میں ایسی دراڑ پیدا کی تھی؟
محترم چیئرمین،
نہرو جی کا نام لیا جائے تو برا لگتا ہے، لیکن ان کی سوچ ہی ان مسائل کی جڑ تھی جن کا سامنا کشمیر کو کرنا پڑا اور اس ملک کو اسی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نہرو جی کی غلطیوں کی بھاری قیمت جموں و کشمیر اور ملک کے لوگوں کو چکانی پڑی ہے۔
محترم چیئرمین،
بھلے ہی ان کی غلطی ہو لیکن ہم مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد بھی اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے، ہم رکنے والے نہیں ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ملک کے لیے کام کرنے نکلے ہیں۔ ہمارے لیے ملک سب سے پہلے ہے۔
محترم چیئرمین،
میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے گزارش کروں گا، میں تمام معزز اراکین سے گزارش کروں گاکہ ہندوستان میں ایک بہت بڑا موقع آیا ہے۔ عالمی ماحول میں ہندوستان کے لیے ایک بڑا موقع آیا ہے، ایک نئے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع آیا ہے۔ سیاست اپنی جگہ، الزامات اور جوابی الزامات اپنی جگہ، لیکن ملک سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ اور اس لیے آئیں، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں، آئیے ملک کی تعمیر کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھیں۔ سیاست میں آپ چاہے کہیں بھی ہوں، قوم کی تعمیر میں آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ آپ اس راستے کو مت چھوڑئے۔ میں آپ کا تعاون مانگ رہا ہوں، میں بھارت ماتا کی فلاح و بہبود کے لیے آپ کا تعاون مانگ رہا ہوں۔ دنیا میں جو موقع آیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے میں، میں آپ سے تعاون مانگ رہا ہوں۔ میں آپ کا تعاون چاہتا ہوں کہ 140 کروڑ ہم وطنوں کی زندگیوں کو مزید خوشحال اور خوشگوار بنایا جائے۔ لیکن اگر آپ تعاون نہیں کر سکتے اور آپ کا ہاتھ اینٹ پھینکنے پر ہے تو لکھ کر رکھئے، میں ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے آپ کی ہر اینٹ اٹھاؤں گا۔ میں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لئے آپ کا ہر پتھر رکھوں گا اور ہم ملک کو اس خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔ جتنے چاہیں پتھر پھینکو، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کا ہر پتھر ہندوستان، خوشحال ہندوستان، ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
محترم چیئرمین،
میں جانتا ہوں، میں اپنے دوستوں کے مسائل جانتا ہوں۔ لیکن وہ جو کچھ بھی کہے، میں اداس نہیں ہوں اور مجھے اداس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ نام دار ہیں اور ہم کام دار ۔ اور ہم کام داروں کو یہ بات نام داروں سے سننی پڑتی ہے۔ اس لیے نامدار کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، انہیں کچھ بھی کہنے کا فطری حق ہے اور ہم کام داروں کو سننا ہے، ہم سنتے رہیں گے اور ملک کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔
محترم چیئرمین،
آپ نے مجھے اس مقدس ایوان میں محترمہ صدر جمہوریہ کے خطاب کا موقع دیا۔ میں محترمہ صدر کے اس خطاب کی تائید کرتے ہوئے اور شکریہ کی تحریک پر اظہار تشکر کرتے ہوئے میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔