ونکم سوراشٹر ! ونکم تمل ناڈو!
گجرات کے وزیراعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل، ناگالینڈ کے گورنر جناب ایل گنیشن جی ، جھار کھنڈ کے گورنر جناب سی پی رادھا کرشنن جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی بھائی پرشوتم روپالا جی، ایل مروگن جی ، میناکشی لیکھی جی، اس پروگرام سے جڑے دیگر حضرات، خواتین و حضرات سوراشٹر تمل سنگمم، نگل – چی ایل، پنگیر – کویند رکم، تمیلد سوندنکل، انیوریوم، ورگ این ورویرکرین، انگل، انیوریوم، گجرات منل، انڈو، سندت دل پیرو ماگلچی!
ساتھیو!
یہ بات درست ہے کہ مہمان نوازی کا سکھ بہت انوکھا ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی اپنا ہی برسوں بعد لوٹ کر گھر آتا ہے تو اس سکھ کی ، اس جوش اور جذبے کی بات ہی کچھ الگ ہوتی ہے۔ آج اسی جوش سے بھرے دل سے سوراشٹر کا ایک ایک فرد تمل ناڈو سے آئے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے استقبال کے لئے آنکھیں بچھائے ہیں۔ آج اسی خوش دلی سے میں بھی تمل ناڈو سے آئے میرے اپنوں کے درمیان ورچوئلی طور پر موجود ہوں ۔
مجھے یاد ہے جب میں وزیراعلیٰ تھا، تب 2010 میں ، میں نے مدورئی میں ایسے ہی عظیم الشان سوراشٹر سنگم کا انعقاد کیا تھا۔ اس انعقاد میں ہمارے 50 ہزار سے زیادہ سوراشٹر کے بھائی بہن شامل ہوئے تھے۔ اور سوراشٹر کی اس سر زمین پر محبت اور اپنائیت کی ویسی ہی لہریں دکھائی دے رہی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں آپ سب تمل ناڈو سے اپنے آبا واجداد کی سرزمین پر آئے ہیں، اپنے گھر آئے ہیں۔ آپ کے چہروں کی خوشی دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ یہاں سے ڈھیروں یاد یں اور جذباتی تجربہ اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔
آپ نے سوراشٹر کی سیاحت کا بھی بھر پور لطف لیا ہے۔ سوراشٹر سے تمل ناڈو تک ملک کو جوڑنے والے سردار پٹیل کی اسٹیچو آف یونیٹی کا بھی دیدار کیا ہے۔ یعنی ماضی کی انمول یادیں ، موجودہ وقت کی اپنائیت اور تجربہ اور مستقبل کے لئے عہد اور تحریکات ، ‘سوراشٹر – تمل سنگمم’ اس میں ہم ان تمام چیزوں کا ایک ساتھ دیدار کر رہے ہیں۔ میں اس حیرت انگیز انعقاد کے لئے سوراشٹر اور تمل ناڈو کے تمام لوگوں کو مبارک باد دیتا ہوں ، آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔
ساتھیو!
آج آزادی کے امرت کال میں ہم سوراشٹر – تمل سنگمم جیسے ثقافتی انعقادات کی ایک نئی روایت کے شاہد بن رہے ہیں۔ آج سے چند ماہ پہلے ہی بنارس میں کاشی - تمل سنگمم کا انعقاد ہوا تھا، جس کا پورے ملک میں خوب چرچا ہوا تھا۔ اس کے بعد ملک کے الگ الگ حصوں میں اس طرح کے پروگراموں کے لئے از خود کوششیں شروع ہوئی ہیں اور آج سوراشٹر کی دھرتی پر ایک بار پھر ہم ہندوستان کی دو قدیم نہروں کا سنگم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
‘سوراشٹر تمل سنگمم’ کا یہ انعقاد تنہا گجرات اور تمل ناڈو کا سنگم نہیں ہے، دیوی میناکشی اور دیوی پاروتی کی شکل میں ‘ایک شکتی’ کی عبادت کا جشن بھی ہے۔ یہ بھگوان سومناتھ اور بھگوان رام ناتھ کی شکل میں ‘ایک شیو’ کے جذبے کا بھی جشن ہے۔ یہ سنگمم ناگیشور اور سندریشور کی دھرتی کا سنگم ہے۔ یہ شری کرشن اور شری رنگناتھ کی دھرتی کا سنگم ہے۔ یہ سنگم ہے نرمدا اور ویگئی کا ، یہ سنگم ہے ڈانڈیا اور کولاٹم کا، یہ سنگم ہے دواریکا اور سنگم جیسی مقدس پوریوں کی روایتوں کا، اور یہ سوراشٹر – تمل سنگمم سنگم ہے، سردار پٹیل اور سبرامنیم بھارتی کے ملک پہلے سے لبریز عہد کا، ہمیں ان عہدوں کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اس ثقافتی ورثے کو لے کر قومی تعمیر کے لئے آگے بڑھنا ہے۔
ساتھیو!
ہندوستان تنوع کی خصوصیت کی شکل میں جینے والا ملک ہے۔ ہم تکثیریت کا جشن منانے والے لوگ ہیں۔ ہم ال الگ زبانوں اور بولیوں کو ، الگ الگ فن اور آرٹ کو سلیبریٹ کرتے ہیں۔ ہمارا اعتقاد سے لے کر ہماری روحانیت تک، ہر جگہ تنوع ہے۔ ہم شیو کی پوجا کرتے ہیں، لیکن دادش جیوتر لنگو میں پوجا کے طریقے کی اپنی تکثیریت ، ہم برہما کا بھی ‘ایکو اہم بہو سیام’ کے طور پر الگ الگ شکلوں میں تحقیق کرتے ہیں، اس کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم ‘گنگے چا یمنے چیو، گوداوری سروستی’ جیسے منتروں میں ملک کی الگ الگ ندیوں کو نمن کرتے ہیں۔
یہ تکثیریت ہمیں تقسیم نہیں بلکہ ہمارے ربط کو ، ہمارے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں، الگ الگ لہریں جب ایک ساتھ آتی ہیں تو سنگم کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس لئے ہم ندیوں کے سنگم سے لے کر کنبھ جیسے انعقادوں میں خیالات کے سنگم تک ان روایتوں کو صدیوں سے پالتے آئے ہیں۔
یہی سنگم کی طاقت ہے، جسے سوراشٹر تمل سنگمم آج ایک نئی شکل میں آگے بڑھا رہا ہے۔ آج جب ملک کا اتحاد ایسے تہواروں کی شکل میں شکل لے رہا ہے، تو سردار صاحب ہمیں ضرورت آشیرواد دے رہے ہوں گے۔ یہ ملک کے ان ہزاروں لاکھوں مجاہدین آزادی کے خوابوں کی تکمیل بھی ہے، جنہوں نے اپنی قربانی دے کر ‘ایک بھارت سریشٹھ بھارت’ کا خواب دیکھا تھا۔
ساتھیو!
آج جب ہم نے آزادی کے 75 سال پورے کئے ہیں، تو ملک میں اپنے ‘ورثے پر فخر’ کے پنچ پران کا اعلان کیا ہے۔ اپنے ورثے پر تب فخر میں اور اضافہ ہوگا جب ہم اسے جانیں گے ، غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہوکر اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ کاش ، کاشی تمل سنگمم کو یا سوراشٹر تمل سنگمم یہ انعقادات اس کے لئے ایک مؤثر مہم بن رہے ہیں۔
آپ دیکھئے گجرات اور تمل ناڈو کے درمیان ایسا کتنا کچھ ہے، جسے دانستہ ہماری معلومات سے باہر رکھا گیا ہے۔ غیر ملکی حملہ آوروں کے دور میں سوراشٹر سے تمل ناڈو کی طرف ہجرت کا تھوڑا بہت ذکر تاریخ کے جاننے والوں تک محدود رہا۔ لیکن اس سے بھی پہلے ان دونوں ریاستوں کے درمیان پورانک کال سے ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔ سوراشٹر اور تمل ناڈو کا، مغرب اور جنوب کا یہ ثقافتی ربط ایک ایسا بہاؤ ہے، جو ہزاروں سال سے جاری ہے۔
ساتھیو!
آج ہمارے پاس 2047 کے ہندوستان کا ہدف ہے۔ ہمارے سامنے غلامی اور اس کے بعد کی 7 دہائیوں کے عہد کے چیلنج بھی ہیں۔ ہمیں ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ لیکن راستے میں توڑنے والی طاقتیں بھی ملیں گی ، بہکانے والے لوگ بھی ملیں گے۔ لیکن ہندوستان مشکل سے مشکل حالات میں بھی کچھ نیا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ سوراشٹر اور تمل ناڈو کی مشترکہ تحریک ہمیں یہ بھروسہ دیتی ہے۔
آپ یاد کیجئے، جب ہندوستان پر غیر ملکی حملہ آوروں کے حملے شروع ہوئے ، سومناتھ کی شکل میں ملک کی ثقافت اور وقار پر پہلا اتنا بڑا حملہ ہوا۔ صدیوں پہلے کے اس دور میں آج کے جیسے وسائل نہیں تھے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا دور نہیں تھا، آنے جانے کے لئے تیز ٹرینیں اور ہوائی جہاز نہیں تھے، لیکن ہمارے آبا اجداد کو یہ بات معلوم تھی کہ ہمالیات سماربھیہ، یاوت اندو وسروورم تا دیو نرمتہ دیشم ہندوستھان پرچکشتے، یعنی ہمالیہ سے لے کر بحر ہند تک یہ تمام دیوتاؤں کی سرزمین ہمار ا اپنا ہندوستان ہے۔ اس لئے انہیں یہ فکر نہیں ہوئی کہ اتنی دور نئی زبان ، نئے لوگ، نیا ماحول ہوگا، تو وہاں وہ کیسے رہ سکیں گے۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنے اعتقاد اور شناخت کے تحفظ کے لئے سوراشٹر سے تمل ناڈو چلے گئے۔ تمل ناڈو کے لوگوں نے ان کا کھلے دل سے ، خاندانی جذبے سے استقبال کیا۔ انہیں نئی زندگی کے لئے تمام سہولتیں فراہم کیں۔ ‘ایک بھارت سریشٹھ بھارت’ کی اس سے بڑی اور بلند مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
ساتھیو!
مہان سنت تھروولور جی نے کہا تھا، اگن امنردو سیال اوریوم مگند امنردو، نلورندو، اوم بوان ایل یعنی سکھ اور خوشحالی وہ مقدر ان لوگوں کے ساتھ رہتا ہے جو دوسروں کا اپنے یہاں خوشی خوشی استقبال کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ثقافتی ٹکراؤ نہیں، تال میل پر زور دینا ہے۔ ہمیں چھڑپوں کو نہیں سنگم اور سماگموں کو آگے بڑھانا ہے ، ہمیں تفریق کی تلاش نہیں کرنی ہے ، ہمیں جذباتی روابط قائم کرنے ہیں۔
تمل ناڈو میں آباد سوراشٹر بنیاد کے لوگوں نے اور تمل ناڈو کے لوگوں نے اسے جی کر دکھایا ہے۔ آپ سب نے تمل کو اپنایا لیکن اسی کے ساتھ ساتھ سوراشٹر کی زبان کو ، کھان پان کو ، ریت رواج کو بھی یاد رکھا۔ یہی ہندوستان کی وہ زندہ روایت ہے، جو سب کو ساتھ لے کر شمولیت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، سب کو قبول کر کے آگے بڑھتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ ہم سب اپنے آباو اجداد کے اس تعاون کو فرض کے جذبے سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ مقامی سطح پر بھی ملک کے الگ الگ حصوں سے لوگوں کو اسی طرح مدعو کریں، انہیں ہندوستان کو جاننے اور جینے کا موقع دیں۔ مجھے یقین ہے کہ سوراشٹر تمل سنگمم اس سمت میں ایک تاریخی پہل ثابت ہوگی۔
آپ اسی جذبے کے ساتھ ایک بار پھر تمل ناڈو سے اتنی بڑی تعداد میں آئے، میں آکر وہاں آپ کا استقبال کرتا، تو مجھے اور زیادہ لطف آتا۔ لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں نہیں آپایا۔ لیکن آج ورچوئل طریقے سے مجھے آپ سب کے دیدار کا موقع ملا ہے۔ مگر جو جذبہ اس پورے سنگمم میں ہم نے دیکھا ہے، اس جذبے کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ اس جذبے کو ہمیں جینا ہے اور اس جذبے کے لئے ہماری آنے والی نسلوں کو بھی تیار کرنا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ! ونکم!