’’بغیر کسی تناؤ کے خوشگوار موڈ میں امتحانات میں شرکت کریں‘‘
’’ٹیکنالوجی کو ایک موقع کے طور پر دیکھیں ، چیلنج کے طور پر نہیں‘‘
’’قومی تعلیمی پالیسی کے لیے مشاورت محنت طلب رہی ہے۔ اس پر ہندوستان بھر کے لوگوں سے مشورہ کیا گیاہے‘‘
’’20ویں صدی کا نظام تعلیم اور نظریات 21ویں صدی میں ہماری ترقی کی رفتار کا تعین نہیں کر سکتے۔ ہمیں وقت کے ساتھ بدلنا ہوگا‘‘
’’اساتذہ اور والدین کے ادھورے خوابوں کو طلباء پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں کے لیے اپنے خوابوں کی پیروی کرنا ضروری ہے‘‘
’’حوصلہ افزائی کے لیے کوئی انجکشن یا فارمولہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اپنے آپ کو بہتر طریقے سے پہچانیں اور معلوم کریں کہ آپ کو کس چیز سے خوشی ملتی ہے اور اس پر کام کریں‘‘
’’ایسے کام کریں جن میں آپ کی دلچسپی ہو، اسی صورت میں آپ کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ مل سکے گا‘‘
’’آپ کا تعلق ایک خاص نسل سے ہے۔ ہاں، مسابقت زیادہ ہے لیکن مواقع بھی زیادہ ہیں‘‘
’’بیٹی خاندان کی طاقت ہوتی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں ہماری ناری شکتی کی کارکردگی کو دیکھنے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’ایسے کام کریں جن میں آپ کی دلچسپی ہو، اسی صورت میں آپ کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ مل سکے گا‘‘
’’حوصلہ افزائی کے لیے کوئی انجکشن یا فارمولہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اپنے آپ کو بہتر طریقے سے پہچانیں اور معلوم کریں کہ آپ کو کس چیز سے خوشی ملتی ہے اور اس پر کام کریں‘‘

آپ سب کو نمسکار ویسے میرا بہت پسندیدہ پروگرام ہے لیکن  کورونا کی وجہ سے بیچ میں، میں آپ کے  ساتھیوں سے  مل نہیں پایا۔ میرے لئے آج کا پروگرام ذراخاص  خوشی کا باعث ہے۔ کیونکہ ایک لمبے وقفے کے بعد آپ سے ملنے کا موقع ملا۔ مجھے نہیں لگتا ہے امتحان کی کہ آپ لوگوں کو  کوئی ٹینشن ہو گی۔  میں صحیح  ہوں نا ؟ میں صحیح  ہوں نا ؟ آپ لوگوں کو کوئی ٹینشن   ہوگی نا؟، اگر ٹینشن ہوگی  تو آپ کے والدین ہو گی کہ یہ  کیا کرے گا؟ سچ میں بتایئے کہ  کس کو ٹینشن ہے، آپ کو کیا آپ کے خاندان  والوں کو؟ جن کو خود کو  ٹینشن ہے وہ ہاتھ اوپر کرلیں۔ اچھا  ابھی بھی لوگ ہیں، اچھا۔اور جن کو پکا یقین ہے  کہ ممی پاپا کو ٹینشن ہے، وہ کون کون ہیں؟ زیادہ  لوگ وہ ہی  ہیں ۔ کل وکرم سموت نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ اور ویسے بھی اپریل  مہینہ ہمارے ملک میں بہت سے تہواروں سے بھرا رہتا ہے۔ میری آنے والے تمام تہواروں کے لیے آپ سب کو بہت بہت  نیک خواہشات۔ لیکن تہواروں کے درمیان  میں ایکزام بھی ہوتا ہے اور  اس لیے  تہواروں کا مزہ  نہیں  لے  پاتے۔ لیکن اگر ایکزام   کو ہی  تہوار بنا دیں۔  توپھر وہ  تہوار میں  کئی رنگ بھر جاتے ہیں۔ اور اس لیے آج کا ہمارا پروگرام، ہم  اپنے ایکزامس  میں تہوار کا ماحول کیسے  بنائیں ، اس کو رنگوں سے کیسے بھر دیں،  امنگ اور جوش و  ولولے کے ساتھ  ہم امتحان کے لئے کیسے  نکلیں؟ ان ہی باتوں کو لیکر ہم چرچا کریں گے۔ کئی  ساتھیوں نے  بہت سارے سوال  مجھے بھیجے بھی ہیں۔ کچھ لوگوں نے مجھے آڈیو میسج  بھی بھیجے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ویڈیو  میسج بھیجے ہیں۔ میڈیا کے ساتھیوں نے بھی جگہ جگہ پر طلباء سے باتیں کرکے کئی سوال نکالے ہیں۔ لیکن وقت  کی حدود میں  جتنا کر سکتا ہوں اتنا  ضرور کروں گا۔ لیکن میں  اس بار میں ایک نیا حوصلہ کرنےوالا ہوں۔ بس کیوں کہ  پچھلے پنچ بار کا تجرہبہ ہے کہ بعد میں  کچھ لوگوں کی  شکایت رہتی ہے کہ میری بات رہ گئی،  میری بات نہیں آئی تو  میں ایک کام کروں کا اس بار کہ آج  جتنا  ہو سکتا ہے۔ وقت کی حدود  میں ہم  باتیں کریں گے۔ لیکن بعد میں آپ کے  جو سوال ہیں۔ ان کو میں  اگر  وقت ملا تو ویڈیو کے ذریعے  سے اور کبھی میرے پاس موقع ہوگا  تو آڈیو کے ذریعے سے یا تو پھر ریٹرن ٹیکسٹ کی شکل میں، میں  نمو ایپ پر ساری چرچا کو پھر سے ایک بار  آپ کے سامنے جو چیزیں یہاں چھوٹ گئی ہیں ان  کو  رکھوں گا تاکہ آپ نمو ایپ پر جا کر اور اس میں بھی اس بار  ایک نیا تجربہ کیا ہے، ایک مائیکرو سائٹ بنائی ہے۔ تو وہاں  پر جا کر  آپ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو آئیے  ہم پروگرام شروع کرتے ہیں۔ سب سے پہلے  کون ہے؟

ناظم: تھینک یو آنریبل  پرائم منسٹر سر ، عزت مآب وزیر اعظم جی ، آپ کا تحریک دینے والی اور   معلوماتی تقریر ہمیشہ ہمیں مثبت توانائی اور اعتماد سے بھر دیتی ہے۔ آپ کے وسیع تجربے اور علمی رہنمائی کا  ہم سب بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ عزت مآب، آپ کے آشیرواد اور اجازت سے ہم  اس  پروگرام  کا آگاز کرنا چاہتے ہیں۔ شکریہ جناب، عزت مآب وزیر اعظم جی بھارت کی راجدھانی ، تاریخی شہر  دہلی کے   ویویکانند اسکول کی 12ویں جماعت کی طالبہ، خوشی جین  آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہیں۔ خوشی برائے کرم اپنا سوال پوچھئے۔

یہ اچھی بات ہے کہ یہ خوشی سے شروع ہو رہا ہے۔ اور یہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ امتحان پورا  ہونے تک خوشی ہی خوشی  رہے۔

خوشی: قابل صد احترام وزیر اعظم جی،  نمسکار ، میرا نام خوشی جین ہے۔ میں بارہویں جماعت وویکانند اسکول آنند وہار دہلی کی طالبہ ہوں۔ جناب میرا سوالہ ہے  جب ہم گھبراہٹ کی حالت میں ہوتے ہیں تو امتحان کے وقت ہم  تیاری کیسے کریں؟ شکریہ

ناظم: شکریہ، خوشی ، عزت ماآب ادبی ادبی روایت کے معاملے  میں مالا مال ریاست چھتیس گڑھ کے بلاس پور کے بارہویں جماعت کے طالب علم اے سشری دھر شرما  کچھ اسی طرح کے مسئلے کا سامنا کررہے  کا سامنا ہے۔ وہ  وزیر اعظم کے سامنے اپنی بات رکھنے  کے لئے بے تاب ہیں، شری دھر برائے کرم اپنا سوال پوچھئے۔

اے  شری دھر شرما: نمسکار عزت مآب وزیر اعظم، میں اے  شری دھر شرما ساؤتھ ایسٹ سنٹرل ریلوے ہائیر سیکنڈری اسکول نمبر 1 چھتیس گڑھ بلاس پور کی بارہویں جماعت کے آرٹس کا طالب علم ہے۔ جناب میرے سوال کچھ اس طرح ہیں – میں امتحان سے متعلق تناؤ سے کیسے نمٹوں؟ اگر میرے نمبراچھے  نہیں ئے  تو کیا ہوگا؟ اگر مجھے متوقع  نمبر نہ ملے تو کیا ہوگا؟ اور آخر کار ،  میرے گریڈ  اچھے نہیں آئے تو میں اپنے خاندان کی نا امیدی سے  کیسے نمٹوں؟

ناظم: شکریہ شری دھر، اس سرزمین سے جہاں سے سابرمتی سنت مہاتما گاندھی جی نے اپنی ستیہ گرہ تحریک شروع کی تھی، میں کینی پٹیل کو مدعو کرتا ہوں جو  وڈوڈرا کی 10ویں جماعت کی  طالبہ ہیں  جو ایمانداری سے  ان چیلنجوں کے بارے  میں آپ کی رہنمائی چاہتی ہیں جن کا وہ سامنا کررہی ہیں۔ کینی برائے کرم اپنا سوال پوچھئے۔

کینی پٹیل: نمسکار وزیر اعظم  سر ، میرا نام کینی پٹیل ہے، میں ٹری ہاؤس ہائی اسکول، وڈوڈرا، گجرات میں 10ویں جماعت کی طالبہ  ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ پورے نصاب کو  درست  طریقے سے دہرانے  کے ساتھ مکمل کرنے اور اس طرح  اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے  تناؤ پر کیسے قابو پایا جائے اور امتحان کے  دوران کس طرح اچھی  نیند سوئیں  اور آرام  کریں۔  تھینک یو سر۔

ناظم: تھینک یو کینی، قابل صدر احترام  وزیر اعظم جی، خوشی، شری دھر شرما اور کینی پٹیل امتحان کے تناؤ سے پریشان ہیں۔ انہیں کی طرح، ملک بھر سے بہت سے طلباء نے امتحان کی ٹینشن سے متعلق سوالات پوچھے ہیں۔ امتحان کے تناؤ س  تقریباً تمام طلبہ  متاثر ہوتے ہیں۔ اور آپ کی رہنمائی کے متمنی ہیں، محترم وزیراعظم جی۔

وزیر اعظم: ایک ساتھ آپ لوگوں نے اتنے سوالات پوچھ لئےہیں کہ ایسا لگ رہا  ہے کہ  مجھے ہی پینک  سے گزرنا پڑے گا۔ دیکھئے  آپ کے من میں  خوف کیوں ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں ہے۔ کیا آپ پہلی بار امتحان دینے جا رہے ہیں کیا ؟ آپ میں سے کوئی ایسا نہیں جو پہلی بار امتحان دینے جارہا ہے۔ مطلب کہ  آپ  بہت سارے  امتحانات دے چکے ہیں۔ اور اب تو آپ  ایک طرح سے، امتحان کے اس مرحلے سے آخری کنارے کی طرف  پہنچ چکے ہیں۔ اتنا بڑا سمندر عبور کرنے کے بعد کنارے پر ڈوبنے کا خوف یہ تو ذہن میں بیٹھتا نہیں ہے۔  پہلی بات ہے کہ آپ اپنے ذہن میں ایک بات طے کر لیں کہ امتحان زندگی کا  ایک فطری حصہ ہے۔ ہماری  ترقی کے سفر میں چھوٹے چھوٹے  پڑاؤ  ہیں۔ اور اس پڑاؤ سے  ہمیں گزرنا ہے اور ہم گزر چکے ہیں۔ جب ہم اتنی بار امتحان دے چکے ہیں۔ امتحان دیتے  دیتے ہم  ایکزام پروف ہوچکے  ہیں۔ اور جب یہ یقین  پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ  ہی   آنے والے کسی بھی امتحان کے لیے یہ تجربات  آپ کی طاقت بن جاتے ہیں۔ اسے  آپ کے اس  تجربے کو جس عمل سے آپ گزریں ہیں، اس کو آپ قطعی چھوٹا  نہ سمجھیں۔ دوسرا  یہ آپ کے من میں  جو پینک ہوتا ہے۔ کیا  یہ تو نہیں ہے کہ تیاری میں کمی ہے؟  کہنے کو تو  ہم کچھ کہتے ہوں گے۔ لیکن ذہن میں رہتا ہے۔ میرا آپ کو  مشورہ  ہے۔ اب امتحان کے  بیچ میں وقت تو  زیادہ ہے  نہیں، آپ کو اس بوجھ کو  جینا ہے کہ جو  کیا ہے اس  میں یقین کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہو سکتا ہے ایک دو چیزیں چھوٹ  گئی ہوں گی ۔  ایک آدھ  چیز میں تھوڑی جتنی محنت  چاہیے نہیں ہوئی ہوگی، اس میں کیا ہے۔ لیکن جو  ہوا ہے اس میں میری خود اعتمادی بھرپور ہے۔  تو وہ دوسری چیزوں میں بھی اوور کم کرجا تا ہے۔ اور اس لیے میری  آپ سے اپیل ہے کہ آپ اس پریشر میں مت رہیئے۔ پینک کریئٹ ہو ، ایسا  ماحول تو پنپنے ہی  نہ دیجئے۔ جتنا  فطری روٹین کا  رہتا ۔  اتنے ہی فطری روٹین میں آپ اپنے آنے  والے امتحان کے وقت  کو بھی گزاریئے۔  ایکسٹرا کم  زیادہ جوڑنا ، توڑنا، وہ  آپ کی پوری فطرت  سے  ڈسٹربینس پیدا کرے گا۔  وہ یہ کرتا  ہے تو چلو میں  بھی یہ کروں گا۔ میرا ایک دوست ایسا کرتا ہے ، اس لئے اس کے  اچھے نمبر آتے ہیں، میں بھی وہ کروں گا۔ آپ وہ کچھ مت کیجئے جو آپ نے سنا ہے، آپ وہی کیجئے جو اتنی مدت میں آپر کرتے آئے ہیں ۔ اور اُس  میں آپ یقین بھریں ۔ مجھے پکا  بھروسہ ہے آپ پر کہ آپ بہت آسانی سے، امنگ سے، جوش و لولے سے  ایک فیسٹیو موڈ  میں  امتحان دے پائیں گے اور کامیاب ہوکر رہیں  گے۔

ناظم: تھینک یو آنریبل پرائم منسٹر سر، آپ نے ہمیں یہ سکھایا کہ ہم  اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کے لئے  امتحان کو ایک  فطری تجربے کے طور پر کیسے تسلیم کریں۔ آنریبل پرائم منسٹر سر، اگلا سوال میسور سے ہے، جو کہ کرناٹک میں اپنے تاریخی مقامات اور  نیشنل پارکوں کی وجہ  مشہور ہے، 11ویں جماعت کے طالب علم  ترون ایم بی  اپنے مسئلے کا حل  چاہتے ہیں ، ترون اب  آپ اپنا  سوال پوچھئے۔

ترون: گڈ مارننگ سر، میں ترون ایم بی، جواہر نوودیہ ودیالیہ، میسور، کرناٹک میں 11ویں جماعت میں پڑھتا ہوں۔ میں پریکشا پہ چرچہ 2022 کے 5ویں ایڈیشن  میں شرکت کا  موقع  دیئے جانے پر میں  دلی ممنوعیت کا  اظہار کرتا ہوں۔ عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی سے میرا سوال یہ ہے ، سر، ایک طالب علم صبح کو اپنے مطالعے پر کس طرح  توجہ  مرکوز کر جا سکتا ہے جبکہ یوٹیوب، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا ایپ جیسے  اتنے سارے توجہ کو بھٹکانے والی چیزیں موجود ہیں۔ آن لائن  مطالعہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے سر   کیا اس کا کوئی حل ہے؟

تھینک یو سر۔

ناظم: شکریہ ترون، قابل وزیر اعظم  سر، شاہد علی جو سلور اوکس اسکول دہلی کنٹونمنٹ بورڈ کے 10ویں جماعت کے طالب علم ہیں، اسی طرح کے موضوع پر اپنا سوال پوچھنے کے لیے بے تاب ہیں، شاہد برائے کرم اپنا سوال پوچھئے۔

شاہد: نمسکار سر، عزت مآب وزیر اعظم جی ، میں شاہد علی سلور اوکس اسکول، دہلی کنٹونمنٹ بورڈ میں 10ویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ پچھلے دو سالوں سے ہم اپنی پڑھائی آن لائن موڈ میں کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے استعمال نے ہم میں سے بہت سے بچوں  کو سوشل میڈیا اور آن لائن گیمنگ کا عادی بنا دیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں۔

ناظم: تھینک یو شاہد، آنریبل سر، کیرتنا نائر، تھرواننت پورم، کیرالہ سے 10ویں جماعت کی طالبہ بھی اسی مسئلے سے دوچار یں اور آپ سے رہنمائی کی توقع رکھتی ہے۔ جناب، کیرتنا کا سوال ٹائمز ناؤ سے موصول ہوا ہے۔ کیرتنا برائے کرم اپنا سوال پوچھئے۔

کیرتنا:  میں کیرتنا کرسل اسکول ترواننت پورم، کیرالہ میں دسویں جماعت  میں پڑھتی  ہوں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی وباکے دوران ہماری کلاسیں آن لائن شفٹ ہو گئی تھیں۔ ہمارے گھروں میں موبائل، سوشل میڈیا وغیرہ کی وجہ سے  بہت زیادہ  دقت  ہے۔ سر، اس لئے میرا سوال یہ ہے کہ ہم آن لائن کلاسز کے ذریعے آموزش  کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔

ناظم: تھینک یو کیرتنا، آنریبل سر، آن لائن تعلیم نے نہ صرف طلباء بلکہ اساتذہ کو بھی چیلنج کیا ہے۔ جناب چنداچوڈیشورن ایم  جو کہ کرشناگیری میں ٹیچر ہیں  آپ سے رہنمائی  چاہتے ہیں، سر  برائے کرام اپنا سوال پوچھئے۔

چنداچوڈیشورن ایم: نمستے آنریبل پرائم منسٹر سر، میں چندچوڈیشورن اشوک للن اسکول، ہوسور تملناڈو سے تعلق رکھنے والا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ - بحیثیت استاد، آن لائن پڑھانا اور سیکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے، اس کا سامنا کیسے کرنا ہے  سر، شکریہ  سر۔

ناظم :  تھینک یو سر ، آنریبل پرائم منسٹر سر، ترون، شاہد کیرتنا اور چنداچوڈیشورن سر اور  آن لائن تعلیم  سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کا کا کہنا ہے کہ  پچھلے دو برسوں کے دوران سوشل میڈیا  کے وہ عادی  ہوئے ہیں اور  اس  نے انہیں پریشان کیا ہے۔ آنریبل سر  ملک کے مختلف حصوں سے ہمیں اسی طرح کے بہت سے سوالات موصول ہوئے ہیں۔ ان سب میں سے،  جن  میں سے ایسے  سوالات کو منتخب کیا گیا ہے جو سبھی سے تعلق کھتے ہیں۔ میری  درخواست ہے کہ برائے کرم آپ ان کی رہنمائی کریں سر۔

وزیراعظم: میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ آپ لوگوں نے بتایا کہ وہ ادھر ادھر  بھٹک جاتے ہیں۔ تھوڑا اپنے آپ کو پوچھئے کہ جب آپ آن لائن ریڈرنگ کرتے ہیں تو سچ مچھ میں ریڈنگ کرتے ہیں کہ ریل دیکھتے ہیں، اب میں آپ کو  ہاتھ اوپر  نہیں کر واؤں گا۔ لیکن آپ  سمجھ گئے کہ میں نے آپ کو  پکڑ لیا ہے۔ حقیقت میں، قصور اس کا آن لائن یا آف لائن نہیں ہے۔ آپ نے محسوس کرتے ہوں گے  کلاس میں بھی،  کئی بار آپ کا جسم کلاس روم میں ہوگا، آپ کی نظریں استاد کی طرف ہوں گی۔ لیکن ایک بات بھی کان میں نہیں جاتی ہوگی۔ کیونکہ تمہارا دماغ کہیں اور ہو گا۔ تن کو تو  کوئی دروازہ نہیں لگایا ہے، کوئی کھڑکی نہیں لگائی، لیکن ذہن کہیں اور ہے تو سننا ہی  بند ہو جاتا ہے۔  رجسٹر  ہی  نہیں ہوتا ہے۔ جو  چیزیں  آف لائن ہوتی ہیں، وہی چیزیں  آن لائن بھی ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیم مسئلہ نہیں ہے۔ ذہن  کا مسئلہ ہے۔ میڈیم چاہے آن لائن ہو یا آف لائن، اگر میرا ذہن اس سے پوری طرح جڑا ہوا ہے،  اس میں ڈوبا ہوا ہے۔ میرا ایک کھوجی من ہے جو اس کی  باریکیوں  کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تو آپ کے لیے آن لائن یا آف لائن، میں نہیں مانتا  ہوں کہ اس سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔ اور اس لئے ہم، جیسے  دور بدلتا ہے، تو  میڈیم بھی بدلتے ہیں۔ اب پہلے کے  زمانے میں جو گرو کل  چلتے تھے، صدیوں پہلے، ستر سال پہلے، تو  وہاں تو  پرنٹنگ پیپر بھی  نہیں تھے۔  تو اس  وقت کوئی کتاب بھی نہیں تھی۔ تو ایسے ہی  یاد کرنے سے  سب  چلتا تھا۔  تو  ان کی  سننے کی طاقت  اتنی رہتی  تھی کہ وہ اسے سنتے اور یاد کرلیتے تھے۔ اور نسل در نسل کان کے ذریعہ  سیکھ کر ، بعد میں دور بدل گیا، پرنٹیڈ میٹیریل آگیا، کتابیں آنے لگیں،  تو لوگوں نے اس میں  ڈھال لیا۔ یہ ایوولیوشن  مسلسل جاری رہا ہے۔ یہ اور یہی  تو انسانی زندگی کی خصوصیت ہے۔ تو  وہ ایوولیوشن  کا ایک حصہ ہے کہ آج ہم ڈیجیٹل گیجٹس کے ذریعہ سے، نئے ٹیکنولوجیکل ٹولز کے ذریعے س بڑی  آسانی سے چیزوں کو  حاصل کر سکتے ہیں۔ اور وسیع پیمانے پر حاصل کرسکتے ہیں۔ اسے ہم کو  ایک موقع سمجھنا چاہیے۔ ہمیں اس کو  مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کبھی ہمیں  ایک کوشش کرنی چاہیے، ہم آن لائن  اپنی پڑھائی کو  ایک ریوارڈ کی شکل میں اپنے ٹائم ٹیبل میں رکھ سکتے ہیں۔ مجھے پکا  یقین ہے کہ  مان لیجئےکہ آپ کے  ٹیچر کے ذریعہ آپ کو ملے ہوئے  نوٹس اور اسٹینڈرڈ میٹیریل  کہیں آپ کو آن لائن دستیاب ہے ۔ اگر آپ دونوں کو برابر  دیکھیں گے، تو آپ ہی اس  کا ویلیو ایڈیشن کر سکتے ہیں۔ آپ کہیں گے ہاں، ٹیچر  نے  اتنا بتایا تھا، مجھے اتنا یاد رہا تھا۔ لیکن یہاں دو چیزیں  مجھے اچھی  مل گئی ہیں۔ اچھے طریقے سے مل گئی ہیں۔ میں دونوں کا جوڑ کرد وں گا  تو وہ آپ کی طاقت  بہت  بڑھا دیں گے۔ آن لائن کا دوسرا  فائدہ یہ ہے کہ آخر کار  تعلیم کا ایک حصہ ہے، علم حاصل کرنا،اب آن لائن اور آف لائن کا اصول کیا ہو سکتا ہے۔ میں مانتا ہوں  کہ آن لائن پانے کے لئے ہے ، آف لائن بننے کے لئے ہے۔ مجھے کتنا علم حاصل کرنا ہے، کتنا پانا ہے۔ میں آن لائن جاکر دنیا کے  جس سرے سے جو بھی  دستیاب ہے،میں اپنے موبائل فون پر یا اپنے آئی پیڈ پر لے آؤں گا۔ اس کو میں اپنا لوں گا۔ اور آف لائن، جو میں نے وہاں پایا ہے ، اس کو پنپنے کے لئے میں  موقع دوں گا، میں آف لائن اس جو چیزوں کو مان لیجئے ، یہاں ساؤتھ انڈیا کے ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا، آخر میں وانکم کم کرتے ہوئے بات ہوئی۔ ٹیچر صاحب نے پوچھا تو میں یہ کہوں گا کہ  ماں آن لائن آپ نے ڈوسا کیسے بنتا ہے، کون سے انڈیگریئنٹس ہوتے ہیں، کیا پروسیس ہوتا ہے سب دیکھ لیا، لیکن کیا پیٹ بھرے گا؟  بڑھیا سے بڑھیا ڈوسا آپ نے  کمپیوٹر پربنالیا ۔  سارے انڈیگریئنٹس کا استعمال کرلیا، لیکن  پیٹ بھرے گا کیا؟ لیکن  وہ علم  اگر آپ نے کوشش کی اور  آپ نے  ڈوسا بنا لیا تو پیٹ بھرے گا کہ نہیں بھرے گا؟  تو  آن لائن کو اپنی بنیاد مضبوط کرنے کے لئے استعمال کریں۔ آپ کو آف لائن میں جا کر اس کو  زندگی میں حقیقت بنانا ہے۔ تعلیم کا بھی ایسا ہی ہے۔ پہلے آپ کی  جو کتابیں ہیں، آپ کے  جو ٹیچر ہیں وہ ، آپ کی جو سراؤنڈنگ ہے وہ ، بہت محدود ذرائع  سے عمل حاصل کرنے کے لئے  آج لامحدود وسائل ہیں۔ اس لئے  آپ  اپنے آپ کو  کتنا وسیع کر سکتے ہیں؟ خود ی کتنی توسیع سکتے ہیں؟ اتنی ہی چیزین  آپ  اس کی ایڈوپ کرتے جائیں گے ۔ اور اس لیے آن لائن کو  ایک موقع سمجھئے ۔ لیکن ادھر ادھر  بھٹک کرکے کام کرتے ہیں  تو پھر  ٹول بھی دستیاب ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ کے ہر گیجٹ میں ایک ٹول موجود ہے۔ جو آپ کو انسٹرکشن دیتے ہیں۔ وارننگ دیتے ہیں ، یہ کرو، یہ مت کرو، اب رک جاؤ، کچھ دیر آرام کرو، اب 15 منٹ کے بعد پھر آنا ہے۔ وہ 15 منٹ بعد آئیں گے۔ آپ اس ٹول کا استعمال کرکے خود کو ڈسپلن میں لا سکتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے بچے ہوتے ہیں،  جو آن لائن ان ٹولز کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اپنے آپ پر پابندی لگاتے ہیں۔ دوسرا، زندگی میں اپنے آپ سے جڑنا، یہ  بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا آئی پیڈ کے اندر گھسنے میں لطف  آتا ہے، موبائل فون کے اندر  گھسنے میں لطف آتا ہے، اس سے ہزاروں گنا لطف اپنے اندر  جانے کا بھی ہوتا ہے۔ تو دن بھر میں کچھ لمحات ایسے نکالئے کہ جب آپ آن لائن بھی نہیں  ہوں گے، آف لائن بھی نہ یں ہوں گے۔ ان لائن ہوں گے۔ جتنا آپ اندر جائیں گے اپنی توانائی  کو محسوس کریں گے۔ اگر ان چیزوں کو کر لیتے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ سارے چیلنج آپ کے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔

ناظم: قابل احترام وزیر اعظم، آپ نے ہمیں بنیادی منتر دیا ہے کہ جب ہم یکسوی کےے ساتھ اپنی پڑھائی کریں گے تو ہمیں کامیابی ضرور ملے گی۔  تھینک یو سر،  قابل احترام وزیر اعظم ویدک تہذیب اور وادی سندھو کی تہذیب کے اصل مسکن پانی پت، ہریانہ سے محترمہ سمن رانی جو کہ ایک ٹیچر ہیں ۔آپ کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہتی ہیں۔ محترمہ سمن رانی میم ، برائے  کرم آپ  سوال پوچھئے۔

سمن رانی: نمسکار وزیراعظم سر، میں سمن رانی ٹی جی ٹی سوشل سائنس، ڈی اے وی پولیس پبلک اسکول، پانی پت سے، سر میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی طلباء کو ان کی مہارت کو فروغ دینے میں  نئے مواقع کیسے فراہم کرے گی؟ شکریہ سر،

ناظم: شکریہ میم، عزت مآب سابق مشرق کے اسکاٹ لینڈ کے نام سے مشہور میگھالیہ  کی ایسٹ خاصی ہیلس کی 9ویں جماعت کی طالبہ ، شیلا ویشنوی آپ سے اس موضوع پر سوال پوچھنا چاہتی ہیں، ۔ شیلا  ویشنو برائے کرم اپنا سال رکھیں۔

شیلا ویشنو: گڈ مارننگ سر، میں شیلا ویشنو جوان نوودیا ودیالیہ ایسٹ کھاسی ہلز میگھالیہ کی میں 9   کلاس میں پڑھتی ہے۔ عزت مآب وزیر اعظم سے میرا سوال یہ ہے کہ  کس طرح قومی تعلیمی پالیسی کس طرح خصوصی پر طلبا کی زندگی کو  اور  عمومی طور پر معاشرے کو  بااختیار بنانے اور نئے  بھارت کے لیے راہ  ہموار کرے گی۔ تھینک یو سر،

ناظم: تھینک یو شیلا۔ عرب مآب  وزیراعظم جی، نئی تعلیمی پالیسی کو ذہن میں  رکھتے ہوئے اس طرح کے کئی مزید سوالات ملک بھر سے موصول ہوئے ہیں۔ جن میں طلباء نے یہ  کہا ہے کہ  ہماری دلچسپی کچھ اور ہوتی ہے، جب ہم مضمون کوئی اور پڑھ رہے ہوتے ہیں ، ایسی صورت میں کیا کریں، برائے کرم  رہنمائی فرمائیں۔

وزیر اعظم: ذرا  سنجیدہ قسم کا  سوال پوچھا ہے اور اتنے کم وقت میں اس کا پوری تفصیل سے جواب دینا مشکل ہے۔  پہلی بات تو ہ ہے کہ یہ نیو ایجوکیشن پالیسی  کی بجائے یہ کہیں کہ یہ  نیشنل ایجوکیشن  پالیسی ہے۔ این ای پی  ، کچھ لوگ این کو نیو کہتے ہیں۔ دراصل یہ  نیشنل ایجوکیشن پالیسی ہے۔ اور مجھے اچھا لگا کہ آپ نے یہ پوچھا، شاید دنیا میں تعلیم کی پالیسی کے تعین میں  اتنے لوگوں کی شمولیت ہوئی ہوگی،  ایسی سطح پر ہوئی ہوگگی، یہ شاید اپنے آپ میں بہت بڑا عالمی ریکارڈ ہے۔ 2014 سے جب مجھ سے  اس کام کے لیے  آپ سب نے سوال کیا ہے  تو  شروعات سے ہی ہم اس کام میں لگے ہوئے تھے۔ تقریباً چھ ، سات سال تک، بہت برین اسٹورمنگ  ہوئی۔ ہر سطح پر ہوئی، گاؤں کے اساتذہ کے درمیان ہوئی، گاؤں کے طلباء کے درمیان ہوئی، شہر کے اساتذہ کے درمیان ہوئی، شہر کے طلباء کے درمیان ہوئی۔ طلبا نے کہا،طالبات نے کہا،  دور سے دور پہاڑوں میں جنگلوں میں، یعنی ایک طرح سے بھارت کے ہر کونے  میں برسوں تک اس موضوع پر برین اسٹورمنگ  ہوئی۔اس  سب کے خلاصےتیار کیے گئے اور ملک کے بہت ہی  اچھے اسکالرز اور وہ بھی آج کے دور کو پیش نظر رکھتے ہوئے  جو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ تھے،  ایسے لوگوں  کی قیادت  میں اس کی خصوصی مباحثے ہوئے، اس میں سے ایک مسودہ تیار ہوا۔ اس  مسودے کو پھر  عوام کے درمیان  بھیجا گیا اور 15-20 لاکھ ان پٹ آئے۔ یعنی اتنی بڑی ایکسرسائز، اتنی وسیع ایکسرسائز، اس کے بعد  ایجوکیشن پالیسی آئی اور اس ایجوکیشن  پالیسی کو میں نے دیکھاہے کہ سیاسی جماعت، حکومت کچھ بھی کریں ، تو  کہیں نہ کہیں پہ تو مخالفت کی آواز، کچھ نہ کچھ تو ہر کوئی موقع ڈھونٹا رہتا ہے۔  لیکن آج  میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کا بھارت  کے ہر طبقے میں پرزور استقبال ہوا  ہے اور اس لیے اس  کام  کوکرنے والے  سب  مبارکباد کے مستحق ہیں لاکھوں لوگ ہیں جنہوں نے اس بنایا ہے۔ یہ سرکار نے نہیں بنایا ہے۔ ملک کے شہریوں نے بنایا ہے، ملک کے طلباء نے بنایا ہے، ملک کے اساتذہ نے بنایا ہے اور ملک کے مستقبل کے لیے بنایا ہے۔ اب ایک چھوٹا سا موضوع، پہلے ہمارے یہاں  کھیل کود ایک ایکسٹرا ایکٹی وٹی  سمجھا جاتا تھا۔ آپ کو جو پانچویں، چھٹی، ساتویں میں پڑھے ہوں گے، ان کو پتہ ہوگا۔ اب اس قومی تعلیمی پالیسی میں  وہ  تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یعنی کھیل کود، کھیلنا، کھلنے  کےلئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ بغیر کھیلے کوئی کھل نہیں سکتا۔ اگر آپ کھلنا چاہتے ہیں، کھلنا چاہتے ہیں تو  کھیل زندگی میں بہت ضروری ہے۔ ٹیم اسپرٹ آتی ہے، ہمت آتی ہے، اپنے حریف کو سمجھنے کی طاقت آتی ہے۔ یہ ساری  کتابوں میں سے  جو سیکھتے، کھیل کے میدان میں آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن  پہلے و ہ ہمارے تعلیمی نظام سے باہر تھا،  ایکسٹرا ایکٹی وٹی تھا۔ اس جو وقار  بخشا، اب آپ دیکھتے ہیں کہ تبدیلی آنے والی ہے اور ان دنوں کھیل کود میں جو  دلچسپی بڑھ رہی ہے،  تو اس پر ایک وقر ملا ہے۔ لیکن میں  ایک ایسی  چیز بتا رہا ہوں کہ جو آپ کو دھیان میں آئے، کہنے کے لئے تو میرے ساتھ بہت ساری چیزیں ہیں اسی طرح سے کیا ہم بیسویں صدی کی پالیسیوں کو لے کرکے اکیسویں صدی کی تعمیر کر سکتے ہیں کیا؟ میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں۔ 20ویں صدی کی سوچ، 20ویں صدی کا نظام، 20ویں صدی کی پالیسی، اس سے 21ویں صدی میں آگے بڑھ سکتے ہیں کیا؟ ذرا زور سے بتایئے نا۔

ناظم: نہیں سر!

وزیر اعظم: نہیں بڑھ سکتےنا،  تو ہمیں 21ویں صدی کے مطابق اپنے تمام نظاموں، تمام پالیسیوں کو ڈھالنا چاہیے کہ  نہیں ڈھنا چاہیے؟ اگر ہم اپنے آپ  کو ایوولو  نہیں کریں  تو ہم  ٹھہر جائیں  اور ٹھہر جائیں گے ایسا نہیں ، ہم پچھڑ جائیں گےاور  اس لئے بھی ، ویسے درمیان وقت جتنا جانا چاہیے، اس سے زیادہ چلا گیا، اس سے ملک کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن جب ہم پہنچ چکے ہیں، اب جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھار والدین کی مرضی کی وجہ سے ،  وسائل کی وجہ سے، نزدیک میں نظاموں  کی وجہ سے۔  ہم اپنی خواہش کی تعلیم کے لیے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں اور سب پریشر کی وجہ سے اور عزت کی وجہ سے ایک ڈھرے  چلے گئے کہ نہیں، ہاں،  ڈاکٹر بننا ہے۔ لیکن ہماری کو انسٹنکٹ  ہے  کچھ اور ہے۔ مجھے  وائلڈ لائف میں  دلچسپی ہے، مجھے پینٹنگ میں دلچسپی ہے، مجھے ٹیکنالوجی میں دلچسپی ہے، مجھے سائنس میں دلچسپی ہے، مجھے ریسرچ میں دلچسپی ہے، اب کنہیں وجوہات کی باعث میں، میں میڈیکل میں تو چلا گیا ہوں۔ پہلے توگئے ہیں، تو پھر اس پائپ لائن میں یہاں گھسے آپ،تو آپ کو وہیں نکلنا پڑے گا دوسرے چھور پر۔ اب ہم نے کہہ دیا ہے  کہ  ایسا ضروری نہیں، آپ نے داخلہ تو لے لیا  ہے  لیکن  ایک  سال،  2 سال کے  بعد  لگا کہ  بھئی نہیں  نہیں میرا راستہ  یہ  نہیں ہے، میرا  تو مزاج  وہ ہے ،  میں وہاں جانا چاہتا ہوں، تو اب قومی تعلیمی پالیسی آپ کو نئے راستے پرجانے کا موقع دیتی ہے، عزت  کے ساتھ  موقع دیتی ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں کھیل کی  اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ صرف تعلیم، صرف علم کا ذخیرہ، یہ  کافی نہیں ہے، ہنر  بھی ہونا چاہیے،  اسکل ہونی چاہیے۔ اب اس کو ہم نے سلیبس کا حصہ بنا یا ہےتاکہ اس کو پوری  ترقی کے لیے  اس کو  خود  موقع ملے۔ مجھے آج خوش ہوئی، میں ابھی آج ایک نمائش دیکھ کر آیا ۔ قومی تعلیمی پالیسی کا کیا رفلیکشن ہوتا ہے، وہ ایک  چھوٹی سی شکل آج محکمہ تعلیم کے لوگوں نے  رکھا تھا، میں محکمہ تعلیم کے لوگوں کو مبارکباد  دیتا ہوں، یعنی بہت  ہی موثر تھا۔  لطف آتا تھا کہ ہمارے  VIII-X  کلاس کے بچے ڈی  پرنٹر بنا رہے ہیں۔  مزہ آرہا ہے کہ  ہمارے  VIII-X کے  بچے  ویدک  میٹ میٹکس کا  ایپ چلا رہے ہیں اور  دنیا بھر کے اسٹوڈنٹس ان سے سیکھ رہے ہیں۔ نندتا اور نویدیتا دو بہنیں مجھے  ملیں، میں بہت ہی  حیران تھا۔ ہمارے یہاں  ان چیزوںکو برا مانا جانے والا ایک طبقہ ہوتا ہے ۔ لیکن انہوں نے  دنیا بھر میں اپنے  اسٹوڈنٹس تلاش کرلیے ہیں۔ وہ خود اسٹوڈنٹس ہیں ، لیکن گرو بن گئے ہیں۔ اب دیکھیں انہوں نے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ ٹیکنالوجی سے وہ ڈرے نہیں ہیں،  ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ہے۔ اسی طرح سے میں نے دیکھا  کچھ  اسکلپچرز بنائے ہوئے ہیں۔  بہت کچھ اچھی پینٹنگز بنائی ہوئی ہیں اور  اتنا  ہی نہیں اس ممیں  وژن  تھا۔ ایسے ہی  کرنے کے لیے کام نہیں کیا گیا۔ میں اس وژن کو محسوس کرتا تھا، اس کا مطلب ہوا  کہ قومی تعلیمی پالیسی شخصیت کی نشوونما کے لیے بہت سارے  مواقع فراہم کرا رہی ہے اور ان معنوں میں  میں کہوں گا کہ ہم  جتنی باریکی سے قومی تعلیمی پالیسی کو سمجھیں گے اور ظاہر طور پر اس کی  زمین پر اتریں گے، آپ دیکھئے، ملٹی پل بنیفٹس آپ کے سامنے ہوں گے۔  تو میری ملک بھر کے ٹیچرز کو ، ملک بھر کے ماہرین تعلیم سے، ملک بھر کے اسکولوں سے، میری  اپیل  ہے کہ آپ اس کی باریکیوں کو زمین پر اتارنے کے لیے نئے طریقے  ڈیولپ کیجئےاور جتنے زیادہ طریقے ہوں گے،  اتنے ہی زیادہ مواقع  حاصل ہوں گے، میری نیک خواہشات ہیں۔

ناظم: آنریبل پرائم منسٹر سر، اب ہمیں پوری طرح  یقین ہوگیا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی ہمارے لیے تعلیم کے معنی کی از سر نو تشریح کرے گی  اور ہمارا مستقبل شاندار ہے۔ ہم کھلیں گے تو ضرور کھلیں گے۔ آنریبل سر، صنعتی شہر  غازی آباد میں راجکیہ کنیا انٹر کالج کی روشنی کچھ مسائل پر محترم وزیر اعظم سے مدد اور رہنمائی کی خواہاں ہیں۔ روشنی برائے کرم  اپنا سوال پوچھئے۔

روشنی: نمسکار سر! عزت مآب وزیر اعظم، میں روشنی راجکیہ کنیا  انٹر کالج وجے نگر غازی آباد، اتر پردیش میں 11ویں جماعت کی طالبہ ہوں۔ سر میرا سوال یہ ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ  طلبا امتحانات سے ڈرتے ہیں یا ان کے والدین اور اساتذہ سے؟ کیا ہمیں امتحانات کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے جیسا کہ ہمارے والدین یا اساتذہ ہم سے توقع کرتے ہیں یا بس تہواروں کی طرح  ان کا لطف لیں؟ برائے کرم ہماری رہنمائی کریں، شکریہ۔

ناظم: شکریہ روشنی۔ پانچ دریاؤں کے علاقے گروؤں کی سرزمین  ریاست پنجاب کے بھٹنڈہ میں دسویں جماعت کی طالبہ کرن پریت اسی موضوع پر اپنا سوال پوچھنا چاہتی ہیں۔ کرن پریت، برائے کرم اپنا سوال پوچھئے۔

کرن پریت: گڈ مارننگ عزت مآب وزیر اعظم سر، میرا نام کرن پریت کور ہے میں بلوم پبلک سینئر سیکنڈری اسکول، کلیان سکھ، ضلع بھٹنڈا، پنجاب میں 10ویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ سر، آپ سے میرا  سوال یہ ہے کہ اپنے نتیجے کے اچھے نہ ہونے کی صورت میں اپنے خاندان کی مایوسی کو کس طرح دور کرسکتی ہوں ، اپنے والدین کے خلاف  میرے اندر منفی خیالات نہیں ہیں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ جتنا میں یقین دلاتی ہوں انہیں اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ شکریہ سر،  پلیز  میری رہنمائی کریں۔

ناظم: شکریہ کرن پریت۔ آنریبل پرائم منسٹر سر، ہم میں سے بہت سے لوگوں کی طرح، روشنی اور کرن پریت کو بھی اپنے والدین اور اساتذہ کی توقعات کو پورا کرنے کا چیلنج درپیش ہے، ہم آپ کے مشورے کے منتظر ہیں۔  آنریبل سر۔

وزیراعظم:روشنی، کیا وجہ ہے کہ آپ نے  جب یہ سوال  پوچھ کہ  سب سے زیادہ تالیاں بجیں، کیا وجہ ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے سوال طالب علم کے لیے نہیں پوچھا، آپ نے بڑی ہوشیار سے والدین اور ٹیچر کےلئے پوچھا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ چاہتی بھی  ہیں کہ میں یہاں سے ہر ایک کے والدین کو  اور اساتذہ کو کچھ  یہاں سے کہہ دوں تاکہ  آپ کے کام آجائے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ پر  پریشر ہے اساتذہ کا، آپ پر ریشر ہے والدین کا اور اس کے لئے  آپ کو الجھن ہے کہ میں، میرے لیے کچھ کروں کہ ان کے کہنے پر کچھ کروں۔ اب  ان کو سمجھا نہیں پارہے ہیں اور میں اپنا  چھوڑ نہیں پا رہا ہوں  یہ آپ کی تشویش مین  محسوس کررہا ہوں۔ میں  سب سے پہلے تو والدین کو  اور اساتذہ  کو یہ ضرور  کہنا چاہوں گا کہ  برائے مہربانی سے آپ ذہن میں خواب لیکر کے جیتے  ہیں، یا تو جو خواب  آپ کے خود کے  ادھورے رہ گئے ہیں، آپ جو کرنا چاہتے تھے  اپنے طالب علمی کے  دور  میں ، آپ جو اپنی زندگی کرنا چاہتے تھے، وہ آپ  نہیں کرپائے  اور اس لیے دن رات  آپ کو لگتا ہے  کہ بس اس کو تو وہ بناکر رہوں گا۔ یعنی، آپ اپنےمن کی باتوں کو ، اپنے خوابوں کو، اپنی توقعات اور خواہشات کو اپنے بچے میں ایک طرح سے انجیکٹ  کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچہ آپ کا احترام  کرتا ہے، والدین کی باتوں کو بہت اہمیت دیتا ہے، دوسری طرف استاد کہتے ہیں کہ دیکھو، تمہیں یہ کرنا ہے، یہ کرو،  ہمارے اسکول میں تو یہ رہتا ہے، ہماری تو  یہ روایت ہے۔ آپ کا  من  حوصلہ افزائی کرتا ہے اور  زیادہ تر  ہمارے  بچوں کی ترقی میں یہ جو  کنفیوژن اور کنٹریکٹ ٹری  جو اثرات کے درمیان سے اسے گزرنا پڑتا ہے، یہ اس کے لیے  بہت بڑی فکر کا باعث ہوتا ہے اور اس کے لیے پرانے زمانے میں استاد کا خاندان  سے رابطہ رہتا تھا۔ خاندان کے تمام لوگوں کو اساتذہ جانتے تھے اور خاندان بھی اپنے بچوں کے لئے کیا سوچتا ہے، اس سے اساتذہ واقف  ہوتے تھے۔ ٹیچر کیا کرتے ہیں، کیسا کرتے ہیں، اس سے  والدین واقف ہوتے تھے۔ یعنی ایک طرح سے تعلیم چاہے اسکول میں چلتی ہو چاہے  گھر میں چلتی ہو، ہر کوئی ایک ہی پلیٹ فارم پر ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے آپ ، کیا ہوا ہے؟ بچہ دن بھر کیا کرتا ہے، والدین کے پاس وقت نہیں ہے،  جانتے نہیں ہیں ، ٹیچر کو سلیبس سے لینا دینا ہے، میرا سلیبس مکمل ہو گیا، میرا کام ہو گیا۔ میں نے اچھی طرح سے پڑھایا، بہت محنت کرکے  پڑھاتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ میں نہیں پڑھاتے، لیکن اس کو لگتا ہے کہ میری ذمہ داری ہے کہ سلیبس مکمل کروں۔ وہ میرا فرض ہے لیکن بچے کا من کچھ اور کرتا ہے اور اس لیے جب تک ، خواہ والدین ہوں یا اساتذہ، یا اسکول کا ماحول ہو، ہم بچے کی قوت اور اس کی حدود، اور دلچسپی اور اس کا رجحان، اس کی امیدیں، اس کی آرزوئیں ان سب کا  باریکی سے مشاہدہ نہیں کرتے ہیں۔ اس کو جاننے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور ہم اس کو دھکا مارتے جاتے ہیں تو کہیں نہ کہیں وہ لڑکھڑا جاتا ہے اور اس لیے میں روشنی کے ذریعہ تمام والدین کو تمام اساتذہ کو کہنا چاہوں گا کہ آپ اپنے من کی امیدوں و آرزوؤں کے مطابق اپنے بچوں پر بوجھ بڑھ جائے، اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ ہر بچے کے پاس ایک قوت ہوتی ہے، ہر ماں باپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ کے ترازو میں وہ فٹ ہوں یا نہ ہوں، لیکن پرماتما نے اسے کسی نہ کسی خصوصی صلاحیت  کے ساتھ بھیجا ہے۔ اس کے اندر کوئی صلاحیت ہے۔ یہ  آپ کی کمی ہے کہ آپ اس کی صلاحیت  کو پہچان نہیں پاتے ہو۔ یہ آپ کی کمی ہے کہ آپ اس کے خوابوں کو سمجھ نہیں پا رہے ہو اور اس لیے دوری وہیں سے بن جاتی ہے۔ اور میں چاہوں گا کہ آپ تناؤ کے درمیان بھی، اب یہ تو میں نہیں کہوں گاکہ ماں ۔ باپ کی مت سنو، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ استاد کی بات مت سنو، یہ صلاح تو ٹھیک نہیں ہوگی، سننا تو ہے ہی۔ وہ جو کہتے ہیں اس کو سمجھنا ہے لیکن ہمیں ان چیزوں کو تسلیم کرناہے جو ہمارے اندر ہے۔ عموماً دیکھا ہوگا، زمین بھی ویسے تو بے جان نظر آتی ہے، ایک بیج بوئیں گے تو اس میں کچھ نکلتا ہے، لیکن اسی زمین کے دوسرے حصہ پر بوئیں گے تو بہت کچھ نکل کرکے آتا ہے ، تناور درخت بن جاتا ہے۔ وہ اس زمین کا نہیں ہے، اس پر کون سا بیج بویا ہے۔ اور اس لیے آپ کو معلوم ہے کہ کون سی چیز آپ بآسانی اختیار کر لیتے ہیں۔ کون سی چیز آپ کے من کے ساتھ ایک دم اس میں آگے بڑھ جاتی ہیں۔ آپ جی جان سے اس میں آگے بڑھتے جایئے، آپ کو کبھی بوجھ محسوس نہیں ہوگا اور شروع میں شاید رکاوٹ آئے گی لیکن بعد میں آپ کا کنبہ آپ پر فخر کرنے لگے گا، ہاں ہم تو سوچتے تھے کہ اس نے یہ بہت اچھا کیا، آج تو ہمارا نام روشن ہو گیا۔ 4 لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو تعریف ہوتی ہے۔ جو کل تک آپ کی طاقت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، وہ آنے والے وقت میں آپ ہی کی طاقت کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیں گے اور اسی لیے آپ ہنستے کھیلتے ہوئے، جو  کم از کم ضرورت  ہے اس کو پورا کرتے ہوئے، جو اضافی اہلیت ہے اس کو جوڑتے ہوئے آگے بڑھیں گے ، آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔

ناظم : محترم وزیر اعظم، آپ نے سرپست اور استاد کے درمیان بچوں کی دلچسپی اور امنگوں کو نئی قوت فراہم کی ہے، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ محترم وزیر اعظم، دہلی جیسے ثقافتی طور پر مالامال شہر کے، کیندریہ ودیالیہ جنک پوری کے ایک 10ویں کلاس کے طالب علم ، ویبھو، اپنی پریشانی کے حل کے لیے آپ سے مشورہ چاہتے ہیں  ۔ ویبھو، برائے مہربانی اپنا سوال پوچھیں۔

ویبھو: نمسکار پردھان منترجی جی، میرانام ویبھو کنوجیا ہے۔ میں دسویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ میں کیندریہ ودیالیہ جنک پوری میں زیر تعلیم ہوں۔ محترم، میرا آپ سے ایک سوال یہ ہے کہ ، جب ہم پر کام کا اتنا بوجھ ہے، ایسے میں ہم حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

پرزینٹر : شکریہ ویبھو، محترم وزیر اعظم  ، ہم بچے ہی نہیں ہمارے سرپرست حضرات بھی آپ سے اپنی پریشانیوں کا حل چاہتے ہیں۔ سجیت کمار پردھان جی، جو جھاڑسو گوڑا ، اڈیشہ کے رہنے والے ایک سرپرست ہیں، آپ سے اسی موضوع پر رہنمائی کی امید کرتے ہیں۔ محترم سجیت پردھان جی، برائے مہربانی اپنا سوال پوچھیں۔

سجیت پردھان جی: میرے محترم وزیر اعظم، نمسکار! میرا نام سجیت کمار پردھان ہے۔ میرا سوال ہے کہ غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے بچوں کو کیسے ترغیب فراہم کریں؟ شکریہ۔

ناظم: شکریہ جناب۔ محترم  وزیر اعظم  جی! فن تعمیر اور پینٹنگ  کے لیے مشہور راجستھان کے جےپور شہر  کے درجہ بارہویں کی طالبہ کومل شرما آپ سے اپنی پریشانی کا حل دریافت کرنا چاہتی ہیں۔ کومل، برائے مہربانی اپنا سوال پوچھئے۔

کومل:نمسکار محترم وزیر اعظم ، میرا نام کومل شرما ہے ۔ میں راجکیہ بالیکا اُچّ مادھیہ مک ودیالیہ، بگرو جےپور میں بارہویں درجہ کی طالبہ ہوں۔ میرا سوال آپ سے یہ تھا کہ میرے ایک ہم  جماعت کا ایک پیپر اچھا نہیں گیا تو میں اسے دلاسہ کیسے دوں؟

ناظم: شکریہ کومل۔ محترم وزیر اعظم جی، قطر سے درجہ 10ویں کے ایک طالب علم ، آرن ایپن بھی اسی طرح کے مسئلے سے دوچار ہیں۔  آرن، برائے مہربانی اپنا سوال پوچھیں۔

آرن: نمستے سر! دوحہ، قطر کے ایم ای ایس انڈین اسکول کی جانب سے آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میرا نام آرن ایپن ہے اور درجہ 10ویں کا طالب علم ہوں۔ محترم وزیر اعظم ہند سے میرے سوالات یہ ہیں کہ ، میں خود کو سستی و کاہلی سے کیسے روکوں ، اس کے علاوہ امتحانات  کے خوف اور تیاری میں کمی کے احساس سے خود کو کیسے محفوظ رکھوں۔

ناظم: آپ کا شکریہ آرن۔ محترم وزیر اعظم جی، ویبھو، جناب پردھان جی، کومل اور آرن، آپ کی حکمت سے فیضیاب ہونے کے مشتاق ہیں کہ حوصلہ کی کمی کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے اور ساتھ ہی تعلیم سے وابستہ عہدبندگی کو کیسے برقرار رکھا جائے۔ اس کے علاوہ، بھارت بھر کے متعدد دیگر طلبا یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بہتر طور پر مربوط طالب علم بننے کے لیے وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں مساوی طور پر اپنی شرکت کو کیسے یقینی بنائیں۔برائے مہربانی، ان سب حضرات کی رہنمائی فرمائیں۔

محترم وزیر اعظم: کوئی یہ سوچتا ہے کہ حوصلہ افزائی کے لیے کوئی انجکشن ملتا ہے، اور وہ انجکشن ہم لگوا لیں تو پھر ترغیب کا انشیورینس مل جاتا ہے۔ کسی کو لگتا ہے کہ یہ فورمولہ مل جائے تو پھر ترغیب کا کبھی مسئلہ ہی نہیں رہے گا، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ لیکن سب سے آپ خود کے بارے میں سوچیں کہ وہ کون سی باتیں ہوتی ہیں جو پوری طرح آپ کے حوصلے پست کر دیتی ہیں ۔ آپ کو پتہ چلے گا ، آپ دن بھر دیکھیں گے، پورے ہفتے دیکھیں گے ، مہینوں دیکھیں گے، تو آپ کو معلوم ہو ہی جائے گا کہ کون سی ایسی چیزیں جو آپ کو مشکل نظر آتی ہیں، کون سی ایسی باتیں ہیں جن سے آپ کا حوصلہ پست ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ ان سب باتوں کا پتہ لگا لیں اور پھر انہیں نمبر باکس میں ڈال دیں۔ پھر آپ کوشش کیجئے کہ وہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو ترغیب فراہم کرتی ہیں ۔ ان کی نشاندہی کیجئے۔ فرض کیجئے کہ آپ نے کوئی بہت اچھا نغمہ سنا۔ محض اس کی موسیقی نہیں، بلکہ اس کے الفاظ میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جس سے ترغیب حاصل ہو۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہاں یار سوچنے کا طریقہ ایسا بھی ہو سکتا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ اچانک نئے سرے سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی نے آپ کو بتایا تھا، نہیں بتایا تھا، لیکن آپ نے خود کو تیار کیا تھا کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جو مجھے ترغیب فراہم کرتی ہیں۔  آپ نے سمجھ لیا تو آپ کا من  کرے گا کہ ہاں، یہ میرے لیے بہت کام کی چیز ہے۔ اس لیے میں چاہوں گا کہ آپ خود کے بارے میں غور ضرور کرتے رہئے۔ اس میں کسی دیگر کی مدد حاصل کرنے کے چکر میں نہ پڑیں۔ باربار کسی کو یہ جاکر مت کہئے کہ ، یار میرا موڈ نہیں ہے۔ مجھے مزہ نہیں آتا ہے، پھر آپ کے اندر ایک ایسی کمزوری پیدا ہوگی کہ ہر مرتبہ آپ ہمدردی حاصل کرنا چاہیں گے، پھر آپ کا من کرے گا کہ ممی میرے پاس بیٹھی ہیں ، ذرا مجھے دُلار کریں، مجھے خوش کریں، اس سے آپ کے اندر دھیرے دھیرے کمزوری گھر کرنا شروع کر دےگی۔وقتی طور پر تو یہ سب اچھا لگے گا۔ اس لیے کبھی بھی ان چیزوں کے لیے ہمدردی حاصل نہ کریں۔ ہاں، میری زندگی میں پریشانیاں آئیں، مصیبتیں آئیں، میں خود جاؤں گا، ان سے جنگ کروں گا، اور اپنی پریشانیوں اور تکلیفوں کو میں خود ہی ختم کروں گا۔ میں ہی اس کو قبر میں گاڑ دوں گا۔ یہ خود اعتمادی پیداہونی چاہئے۔ دوسرا، ہم کن چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کچھ چیزوں کا مشاہدہ کرنے سے بھی ہمیں ترغیب حاصل ہوتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ آپ کے گھر میں ایک 2 یا 3 سال کا بچہ  ہے ۔ اس کو کچھ لینا ہے، لیکن اس کے لیے وہ چیز حاصل کرنا بڑا مشکل ہے۔ آپ دور سے دیکھتے رہئے کہ وہ گر جائے گا ، پہنچ نہیں پائے گا، تھک جائے گا تو تھوڑے وقفہ کے بعد پھر کوشش کرے گا۔ اس طرح وہ بچہ آپ کو سکھا رہا ہے کہ ، خواہ میرے لیے یہ کام مشکل ہے ، لیکن میں اپنی کوشش نہیں چھوڑوں گا۔ یہ ترغیب کیا کسی اسکول میں پڑھائی گئی؟ اس دو سالہ بچہ کو کسی  وزیر اعظم نے بتایا تھا کیا؟ کسی وزیر اعظم نے سمجھایا تھا کیا؟ ارے میرے بیٹا ذرا کھڑے ہو جاؤ، دوڑو، ایسا کسی نے کہا تھا کیا، جی نہیں۔ ایشور نے ایک خداداد صلاحیت ہم سب کو دی ہوئی ہے  جو ہمیں کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے ترغیب کا وسیلہ بنتی ہے۔ چھوٹے بچوں میں بھی ہوتا ہے ، ہم نے کبھی ان چیزوں پر غور کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کوئی دیویانگ اپنا کوئی کام کرتا ہے تو اس کے لیے اس نے اپنے طریقہ ڈھونڈھ لیے ہیں، اور وہ اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔ لیکن ہم نے باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے کہ  ایشور نے اس کے جسم میں اتنی کمیاں دی ہیں، تاہم اس نے ہار نہیں مانی، اس نے اپنی کمیوں کو ہی اپنی طاقت بنا دیا ہے۔ اور وہ طاقت خود کو تو فائدہ پہنچاتی ہی ہے، جو مشاہدہ کر رہا ہے، اسے بھی  اس سے ترغیب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے آس پاس جو چیزیں ہیں، ان پر ہم غور کریں۔ ان کی کمزوریوں پر نظر نہ ڈالیں، بلکہ اس نے ان کمزوریوں کو کیسے شکست دی،  اس عمل پر باریک بینی سے نظر ڈالیں۔ آپ پھر اپنے آپ کو اس سے جوڑیں گے، اگر میں ایسا ہوتا تو میں بھی شاید ایسا کر سکتا ہوں۔ ایشور نے تو مجھے ہاتھ پیر سب سلامت دیے ہیں، مجھ میں تو کوئی کمی نہیں ہے۔ میں کیوں چپ بیٹھا ہوں۔ آپ خود دوڑنے لگ جائیں  گے اور اس لیے مجھے لگتا ہے کہ دوسرا ا یک موضوع ہے کہ کیا کبھی آپ خود کا امتحان لیتے ہیں ۔ آپ اپنا امتحان بھی تو خود لیجئے۔ کوئی آپ کا امتحان کیوں لے۔ جیسا میں نے اپنی کتاب ’ایگزام واریئرس‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ آپ کبھی امتحان کو ہی ایک خط لکھ دو کہ، Hey Dear exam، اور اس کو لکھو کہ تم کیا سمجھتے ہو، میں نے یہ تیاری کی ہے، میں نے یہ محنت کی ہے، میں نے اتنی کوشش کی ہے، میں نے یہ پڑھا ہے، میں نے اتنے نوٹ بھرے ہیں، میں استاد کے ساتھ اتنے گھنٹے بیٹھا ہوں۔ میں نے والدہ کے ساتھ اتنا وقت گزارا ہے، میرے ہمسائے کے اچھے طالب علم نے اتنا اچھا کام کیا تو اس سے جاکر کے ، ارے میں اتنا سیکھ کر آیا ہوں۔ تم کون ہوتے ہو میرا مقابلہ کرنے والے، تم کون ہوتے ہومیرا امتحان لینے والے، میں تمہارا امتحان لے رہا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں تم مجھے نیچے گراکردکھا دو، میں تمہیں نیچے کرکے دکھا دیتا ہوں۔ کبھی تو کریئے۔ کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ بھائی میں یہ جو سوچتا ہوں، صحیح ہے یا غلط ۔ آپ ایسا کیجئے، ایک مرتبہ ری پلے کرنے کی عادت بنایئے۔ ری پلے کرنے کی عادت بنائیں گے تو آپ کو ایک نیا نظریہ ملے گا۔ جیسے کلاس کے اندر کچھ سیکھ کر آئے ہو، آپ کے تین چار دوست ہیں، بیٹھئے اور آج جو سیکھا ہے، آپ بھی استاد بن کر اپنے تین دوستوں کو سکھایئے۔ پھر دوسرا دوست مزید تین دوستوں کو سکھائے، پھر تیسرا دوست مزید تین دوستوں کو سکھائے، پھر چوتھا دوست۔۔۔۔ یعنی ایک طرح سے جتنا جس نے علم حاصل کیا ہوگا، وہ تقسیم کرے گا۔ اور ہر ایک کے ذہن میں آئے گاکہ دیکھو یار، اس نے اس بات کو سمجھا تھا، میں نہیں سمجھ پایا۔ چاروں لوگ جب ری پلے کریں گے تو اس بات کو، اور خود آپ کریئے، کتاب نہیں ہے کچھ نہیں ہے، سنا سنایا ہے۔ اب دیکھئے، وہ آپ کا اپنا بن جائے گا۔ مثال کے طور پر، کہیں کوئی حادثہ ہوا ہو، بڑے بڑے سیاسی رہنماوں کو بھی ، یہ ٹی وی والے کھڑے ہو جاتے ہیں نا ڈنڈا لے کرکرکے، اور آپ نے دیکھا ہوگا وہ جواب دینے میں اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو تو پیچھے سے پرامپٹنگ کرنا پڑتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا۔ لیکن ایک گاؤں کی خاتون ہے اور کہیں حادثہ ہوا ہے، اور کوئی ٹی وی والا پہنچ گیا۔ اس بےچاری کو ٹی وی کیا ہے، معلوم بھی نہیں ہے اور اس سے پوچھ لیا۔ آپ دیکھئے، وہ بڑی خوداعتمادی کے ساتھ سب کچھ بیان کر دیتی ہے۔ کیسے ہوا تھا، پھر ایسے ہوا تھا۔ یعنی بہترین طریقہ سے چیزیں بتائیں، کیوں، کیونکہ اس نے جو دیکھا اسے بخوبی یاد کر لیا اور اسی وجہ سے وہ اس کو ری پلے بڑی آسانی سے کر لیتی ہے۔ اور اس لیے میں مانتا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو کھلے من سے ان چزوں سے جوڑیں گے تو مایوسی کبھی بھی  آپ کے دروازے پر دستک نہیں دے سکتی ہے۔

محترم وزیر اعظم، ہمیں سوچنے، غور کرنے اور بھروسہ کرنے کا منتر دینے کے لیے آپ کا شکریہ۔  اجلاس خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔محترم وزیر اعظم جی، اپنے فن، ثقافت اور روایات کے لیے مشہور ،تلنگانہ سے یادو انوشا ، جو کہ 12ویں جماعت کی طالبہ ہیں، آپ سے ایک سوال کا حل چاہتی ہیں۔ انوشا، برائے مہربانی اپنا سوال پوچھئے۔

انوشا: محترم وزیر اعظم جی، نمسکار! مسیرا نام انوشا ہے۔ میں گورنمنٹ جونیئر کالج میں 12ویں جماعت میں زیر تعلیم ہوں۔ میرا تعلق تلنگانہ سے ہے۔ سر، میرا سوال یہ ہے کہ جب اساتذہ ہمیں پڑھاتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ وقت یا کچھ دن بعد ہم بھول جاتے ہیں۔ براہِ کرم اس کے بارے میں میری مدد کریں۔ آپ کا شکر یہ سر۔

ناظم:شکریہ انوشا۔ محترم، ہمیں ایک دیگر سوال نمو ایپ کے توسط سے موصول ہوا ہے۔ جس میں سوال پوچھنے والی گایتری سکسینا جاننا چاہتی ہیں کہ امتحان دیتے وقت ان کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے جو پڑھے اور یاد کیے ہوئے مضامین ہیں وہ بھی امتحان گاہ میں بھول جاتی ہیں۔ جبکہ امتحان سے قبل یا امتحان کے بعد ساتھیوں سے بات کرتے وقت وہی جواب ان کے ذہن میں رہتا ہے۔ ایسی حالت کو بدلنے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔ محترم، انوشا اور گایتری سکسینا کے جیسے سوالات دیگر افراد کے من میں بھی ہیںَ جن کا تعلق قوت یاددشت سے ہے۔ محترم وزیر اعظم، براہِ کرم اس سلسلے میں ہمیں رہنمائی فراہم کریں۔

محترم وزیر اعظم: شاید ہر طالب علم کے ذہن میں یہ موضوع تو کبھی نہ کبھی ایک مسئلہ بن کر کھڑا ہو ہی جاتا ہے۔ ہر ایک کو لگتا ہے کہ مجھے یاد نہیں رہتا ہے، یہ میں بھول گیا۔ لیکن آپ اگر دیکھیں گے تو امتحانات کے وقت اچانک ایسی چیزیں آپ کے ذہن میں آنے لگیں گی، آپ کو کبھی امتحان کے بعد یاد آئے گا کہ ارے، میں نے گذشتہ ہفتہ بھر میں کبھی اس مضمون کو چھوا نہیں تھا ، اچانک سوال آگیا، لیکن میرا جواب بہت اچھا ہوگیا، مطلب یہ مضمون ذہن میں کہیں موجود تھا۔ آپ کوبھی دھیان نہیں تھا، اندر اسٹور تھا۔ اور وہ اسٹور کیوں تھا؟ کیونکہ جب وہ جمع کر رہے تھے، تب دروازے کھلے تھے، الماری کھلی تھی، اس لیے علم اندر گیا۔ اگر الماری بند ہوتی، کتنا ہی علم حاصل کرتے ، کچھ یاد نہیں رہتا۔  اور اس لیے کبھی کبھی دھیان لفظ ایسا ہے کہ لوگ اس کو یوگ، مراقبہ، ہمالیہ، رشی ۔منی، وہاں جوڑ دیتے ہیں۔ میری ایک سیدھی سی بات ہے، دھیان کا مطلب کیا ہے۔ اگر آپ یہاں ہیں لیکن ابھی آپ سوچتے ہوں گے کہ ممی گھر پر ٹی وی دیکھتی ہوں گی، وہ ڈھونڈھتی ہوں گی کہ میں کس کونے میں بیٹھا ہوں۔ مطلب آپ یہاں نہیں ہیں، آپ گھر میں ہیں۔ آپ کے دماغ میں یہی چل رہا ہے کہ ممی ٹی وی دیکھتی ہوں گی ، نہیں دیکھتی ہوں گی۔ میں یہاں بیٹھا ہوا ان کو نظر آ رہا ہوں گا یا نہیں آرہا ہوں گا۔ آپ کی توجہ یہاں چاہئے تھی لیکن آپ کی توجہ وہاں ہے، مطلب آپ کی توجہ نہیں ہے۔ اگر آپ یہاں ہیں تو آپ دھیان میں ہیں۔ آپ وہاں ہیں تو بے دھیان  ہیں۔ اور اس لیے دھیان کو  آسانی سے زندگی میں اُتار لیجئے۔ یہ کوئی بہت بڑا سائنس ہے ، اور ناک پکڑ کر ہمالیہ میں جاکر بیٹھنا پڑتا ہے، ایسا نہیں ہے جی۔ بہت آسان ہے۔ آپ اس لمحہ کو جینے کی کوشش کیجئے۔ اگر آپ اس لمحہ کو دل لگا کر جیتے ہیں تو وہ آپ کی طاقت بن جاتا ہے۔

بہت سے لوگ آپ نے دیکھے ہوں گے، صبح چائے پیتے رہیں گے، اخبار پڑھتے رہیں گے، گھر کے لوگ کہتے ہیں، ارے پانی گرم ہو گیا ہے، چلو جلدی نہانے کے لیے چلو۔ میں نہیں، مجھے اخبار پڑھنا ہے۔ پھر کہیں گے، ناشتہ گرم ہے وہ ٹھنڈا ہو جائے گا، پھر بھی کہیں گے ، نہیں مجھے اخبار پڑھنا ہے۔ میں ماتاؤں سے اس لیے کہتا ہوں کہ  جو بہن ایسی پریشانی میں رہتی ہیں وہ ذرا شام کو پوچھیں کہ آج اخبار میں کیا پڑھا تھا۔ میں 99 فیصد یہ بتاتا ہوں کہ وہ نہیں بتا پائیں گے کہ آج کے اخبار کی سرخی کیا تھی۔ کیوں، وہ نہ بیدار ہیں، نہ وہ اس لمحہ کو جی رہے ہیں۔ وہ عادت کے طورپر صفحات پلٹ رہا ہے، آنکھیں دیکھ رہی ہیں، چیزیں پڑھی جا رہی ہیں، کچھ بھی رجسٹر نہیں ہو رہا ہے۔ اور اگر رجسٹر نہیں ہو رہا ہے تو میموری چپ میں نہیں جاتا ہے۔ اب اس لیے آپ کے لیے پہلی ضروری بات یہ ہے کہ آپ جو بھی کریں اس لمحہ کو، اور میری ا بھی بھی یہ رائے ہے کہ پرماتما کا سب سے بڑا تحفہ ہے، اگر مجھ سے کوئی پوچھے گا تو میں تو کہوں گا وہ سوغات موجود لمحہ ہے۔ جو اس موجود لمحہ کو جان جاتا ہے، جو اس موجود لمحہ کو جیتا ہے، جو اس موجود لمحہ کو یاد رکھتا ہے، اس کے لیے مستقبل میں کوئی سوالیہ نشان نہیں لگتا ہے۔ اور میموری کا بھی یہ معاملہ ہے کہ ہم اس لمحہ کو نہیں جیتے ہیں۔ اور اس وجہ سے ہم اس کو گنوا دیتے ہیں۔

دوسری بات،  میموری کا زندگی سے تعلق ہوتا ہے۔ صرف امتحانات سے ہے، یہ سوچوگے تو پھر آپ اس کی قدرو قیمت کو نہیں سمجھ سکتے۔ فرض کیجئے، آپ کے کسی دوست کا یو م پیدائش آپ کو یاد رہا  اور آپ نے یوم پیدائش پر اس کو فون کیا ہے۔ آپ کی تو وہ یاد داشت تھی، جس کی وجہ سے آپ کو یوم پیدائش یاد رہا۔ لیکن وہ یادداشت آپ کی زندگی کی توسیع کی وجہ بن جاتی ہے جب اس دوست کو ٹیلی فون جاتا ہے۔ ارے واہ! ا س کو میرا یوم پیدائش اتنا یاد تھا۔ مطلب میری زندگی کی اہمیت اس کی زندگی میں ہے۔ وہ زندگی بھر آپ کا بن جاتا ہے، وجہ کیا تھی، وہ میموری۔ میموری زندگی کی توسیع کا ازحد اہم عنصر ہے۔ اور اس لیے ہم اپنی یادداشت کو محض امتحان تک، سوال و جواب تک محدود نہ کریں۔ آپ اس کی توسیع کرتے چلئے۔ جتنی توسیع کریں گے، چیزیں اپنے آپ جڑتی جائیں گی۔

آپ کبھی دو برتن لیجئے۔ دو برتن میں پانی بھریئے۔ پانی بھر کر اس کے اندر ایک سکہ رکھیئے، دونوں میں۔ پانی صاف ستھرا ہے، دونوں میں ایک ہی طرح کا پانی ہے، دونوں برتن ایک ہی طرح کے ہیں، دونوں میں ایک ہی قسم کے سکے ہیں، اور آپ دیکھئے۔ لیکن ایک برتن ہے جو ہل رہا ہے۔ پانی ادھر ادھر ہو رہا ہے۔ نیچے سکہ ہے۔ دوسرے برتن کا پانی ساکت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جو ساکت پانی والا سکہ ہے وہ آپ کو صاف نظر آتا ہے، ہو سکتا ہے  اس پر لکھی ہوئی چیز بھی نظر آئے ۔ اور جو پانی ہل رہا ہے وہاں پر بھی وہی سکہ، وہی سائز ہے، پانی بھی اتنا ہی گہرا ہے لیکن دکھتا نہیں ، کیوں، کیونکہ پانی ہل رہا ہے۔ برتن ہل رہا ہے۔ اگر من بھی ایسے ڈولتا رہے اور ہم سوچیں کہ اس میں جو سکہ ہے وہ مجھے دکھائی دے  گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ امتحان کے دوران آپ کی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ دیکھو یہ برابرا والا تو اوپر دیکھتا ہی نہیں، لکھتا ہی رہتا ہے، اب میں پیچھے رہ جاؤں گا، یعنی دماغ اسی میں لگا ہوا ہے۔ آپ کا دماغ اتنا منتشر ہے کہ جو آپ کے اندر میموری جیسا سکہ ہے، وہ آپ کو دکھتا ہی نہیں۔ ایک مرتبہ من کو سکون دیجئے۔ من کو پرسکون بنانے میں اگر پریشانی ہے تو لمبی گہری سانس لیجئے، تین چار مرتبہ گہری سانس لیجئے۔ سینہ تان کر، آنکھ بند کرکے کچھ لمحے بیٹھئے، من کو سکون حاصل ہوتے ہی وہ سکہ نظر آنے لگتا ہے، آپ کی میموری میں موجود چیز ابھر کر سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس لیے ایشور نے، جس کی یادداشت زیادہ ہے ، اس کو اضافی توانائی دی ہے، ایسا نہیں ہے۔ ہم کس کوگھٹاتے ہیں، کس کو بڑھاتے ہیں، اس پر منحصر کرتا ہے۔ تو آپ اس کو بہت آسانی سے کر سکتے ہو۔

آپ میں سے جو لوگ پرانے شاستروں کو جانتے ہوں گے ، کچھ تو یوٹیوب پر بھی کچھ چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ کچھ شتابدانگی لوگ ہوتے ہیں، ان کو ایک ساتھ سو چیزیں یاد ہوتی ہیں۔  ہمارے ملک میں یہ چیزیں کبھی رواج میں تھیں۔ تو ہم اس  کو ٹرینڈ کر سکتے ہیں، اپنے من کو بھی ٹرینڈ کر سکتے ہیں۔  لیکن آج آپ امتحانات میں جا رہے ہیں، اس لیے میں اس طرف آپ کو نہیں لے جاؤں گا، لیکن میں کہتا ہوں من کو پرسکون رکھئے۔ آپ کے آس پاس چیزیں پڑی ہیں، وہ اپنے آپ آنا شروع ہو جائیں گی، آپ کو نظر آنا شروع ہو جائیں گی، آپ کو وہ یاد آنا شروع ہو جائیں گی اور وہ بہت بڑی طاقت بن جائیں گی۔

ناظم:محترم وزیر اعظم، آپ نے جس محبت اور سہل انداز میں ہمیں دھیان کے بارے میں بتایا، یقیناً ہی میری طرح سب کا دل خوش ہو گیا ہے۔ شکریہ جناب۔ محترم وزیر اعظم، معدنیاتی وسائل سے مالامال ریاست جھارکھنڈ کے  دلکش سیاحتی مقام رام گڑھ سے درجہ 10ویں کی ایک طالبہ شویتا کماری آپ سے سوال کا حل چاہتی ہیں۔ شویتا، براہِ کرم آپ اپنا سوال پوچھئے۔

شویتا: محترم وزیر اعظم جی، نمسکار! میں شویتا کماری، کیندریہ ودیالیہ پٹاراٹو کی 10ویں درجہ کی طالبہ ہوں۔ میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔ میری پرھائی میں پروڈکٹیویٹی رات کے وقت زیادہ ہوتی ہے، لیکن سب مجھے دن میں مطالعہ کرنے کو کہتے ہیں۔ میں کیا کروں؟ شکریہ۔

ناظم: شکریہ شویتا! محترم وزیر اعظم، نمو ایپ کے توسط سے موصول سوال جس میں راگھو جوشی کے سامنے ایک عجیب سی پریشانی ہے۔ ماں۔ باپ ہمیشہ کہتے ہیں، پہلے پڑھائی کرو،پھر کھیل کود کرو۔ لیکن انہیں لگتا ہے کہ کھیلنے کودنے کے بعد پڑھائی کرتے ہیں تو انہیں چیزیں بہتر طریقہ سے سمجھ میں آتی ہیں۔ محترم وزیر اعظم! براہِ کرم راگھو اور شویتا کے ساتھ ساتھ ان جیسے متعدد طلبا کو سمجھائیں کہ وہ ایسا کیا کریں کہ ان کی پروڈکٹیویٹی افضل بنی رہے۔ ہم سب کی پریشانی کو حل کیجئے۔

محترم وزیر اعظم : یہ بات صحیح ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے وقت کا بہتر استعمال ہو۔ جس کام کے لیے وقت صرف کیا ہے اس کا اتنا ہی فائدہ حاصل ہو، اور یہ اچھی سوچ ہے۔ اور یہ ضروری بھی ہے کہ ہمیں ہمیشہ بیداری کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ کیا میں جو وقت لگا رہا ہوں، اس کا مجھے نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں۔ ماحصل تو نظر آئے گا، نتیجہ نہیں ۔ اس لیے پہلے تو اپنے اندر ایک عادت ڈالنی چاہئے کہ میں نے جتنا وقت صرف کیا ہے اتنا علم مجھے حاصل ہوا کہ نہیں ۔ اب اس  کا ہم حساب کتاب لگا سکتے ہیں اور یہ عادت ہمیں  ڈالنی چاہئے کہ  میں نے آج ریاضی کے مضمون کے لیے ایک گھنٹہ صرف کیا ہے۔ تو مجھے اس ایک گھنٹے میں جو کرنا تھا وہ میں کر پایا ، یا نہیں کر پایا۔ اس میں جو سوال مجھے مشکل لگتے تھے وہ اب مجھے آسان لگتے ہیں کہ نہیں۔ مطلب میرا آؤٹ کم بہتر ہو رہا ہے۔ ہمیں تجزیہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ بہت کم لوگوں کو تجزیہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ ایک کے بعد ایک کام مکمل کرتے ہی جاتے ہیں، اور بعد میں پتہ ہی نہیں رہتا کہ ، ارے وہاں  ذرا زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی، اس پر میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ کبھی کبھی کیا ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے ٹائم ٹیبل میں جو سب سے آسان ہے جو سب سے زیادہ پسند ہے ، ہم گھوم پھر کر اسی میں گھس جاتے ہیں۔ من کرتا ہے کہ چلو اسی کو کر لیں، کیوں ؟ کیونکہ مزہ آتا ہے۔ اب اس کی وجہ سے، جو کم پسند ہے، تھوڑا مشکل ہے، اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا، ہماری باڈی جو ہے نا، وہ باڈی۔۔۔۔ لفظ میرا اچھا نہیں ہے، لیکن آسانی کے لیے بتا دیتا ہوں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ میری باڈی چیٹر ہے۔ آپ طے کریں کہ مجھے ایسے بیٹھنا ہے۔ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کیسے، ایسے ہوجاتے ہو، پتہ ہی نہیں ہوتا ہے۔ مطلب آپ کے ساتھ آپ کا جسم چیٹنگ کرتا ہے۔ آپ نے من سے طے کیا ہے کہ مجھے ایسے بیٹھنا ہے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں ڈھیلے ہو جاتے ہو، یعنی جو فطری مزاج ہے، آپ کا جسم اسی میں ڈھل جاتا ہے۔پھر بیدار ہو کر کے ایسے کر لوگے، پھر ہو جاؤ گے۔ مطلب جس طرح یہ جسم چیٹر ہے ، ویسے من بھی چیٹنگ کرتا ہے کبھی کبھی۔ اور اس لیے ہمیں اس چیٹنگ یا دھوکہ سے بچنا چاہئے ۔ ہمارا من ہمارا چیٹر نہیں بننا چاہئے۔ وہ کیسے بن جاتا ہے کہ جو چیز من کو پسند آئے ہم اسی میں چلے جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔ مہاتما گاندھی جی افضل اور پسندیدہ کی بات کرتے تھے۔ جو چیز افضل ہے اور جو چیز پسندیدہ  ہے، انسان افضل کی بجائے پسندیدہ چیز کی جانب راغب ہوتا ہے۔ جو افضل ہے، اس پر ہمیں چپک کررہنا چاہئے، یہ بہت ضروری ہے اور اسی کی طرف اگر من چیٹنگ کرتا ہے تو وہاں لے جاتا ہے، پھر کھینچ کر لے آئیں۔ تو آپ کی پروڈکٹیویٹی آپ کا  آؤٹ کم بڑھے گا، اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہئے۔

یہ سوچنا کہ میں رات کو پڑھوں تو اچھا ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے میں صبح میں پڑھوں تو اچھا ہوتا ہے۔ کوئی کہے کھانا کھاکر پڑھوں تو اچھا ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے بھوکا رہ کر کے پڑھوں ۔ یہ ہر ایک کی اپنی اپنی فطرت ہے۔ آپ غور کیجئے اپنے آپ کس چیز میں آرام محسوس کرتے ہیں۔ اگر جگہ آرام دہ نہیں ہے، اٹھنے بیٹھنے میں پریشانی ہے تو آپ شاید اس کو نہیں کر پائیں گے۔ اب کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ہی قسم کی جگہ ہوگی تبھی نیند آئے گی۔ مجھے یاد ہے میں نے بہت سال پہلے ایک فلم دیکھی تھی۔ اس فلم میں ایک منظر آتا ہے، کوئی ایک شخص جھگی چھونپڑی کے پاس اپنی زندگی گزارتا ہے اور پھر اچانک کوئی اچھی جگہ پر رہنے جاتا ہے۔ لیکن نیند ہی نہیں آرہی ہے۔ اب نیند کیوں نہیں آتی ، اس بارے میں سوچتا ہے، وہ ریلوے اسٹیشن پر جاتا ہے اور ریل کی پٹری کی جو آواز آتی ہے اس کو ٹیپ کرتا ہے اور گھر میں لاکر ٹیپ ریکارڈر شروع کرتا ہے پھر سو جاتا ہے، نیند آجاتی ہے۔ اس کے لیے وہی آرام کا باعث ہے۔ جب تک اس کو وہ۔۔۔۔ اب ہر ایک کے لیے تو ایسا نہیں ہوتا ہے کہ بھائی ٹرین کی آواز آئے گی تو تمہیں نیند آئے گی، ہر ایک کے لیے ضروری نہیں ہوتا، لیکن اس کو اسی سے آرام حاصل ہوا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھی معلوم ہونا چاہئے، اس کا پریشر بالکل مت رکھئے۔ جس چیز میں آپ کو لطف آتا ہے، آپ کو اس کے لیے کم سے کم ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ وہ راستہ چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس آرام کی حالت میں بھی آپ کا کام ہے آپ کی پڑھائی۔ آپ کا کام ہے زیادہ سے زیادہ آؤٹ کم۔ اس سے ذرا بھی ہٹنا نہیں ہے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ لوگ کیسے کام کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں سننے میں اچھا لگتا ہے کہ فلاں شخص 12 گھنٹے کام کرتا ہے، 14 گھنٹے کام کرتا ہے، 18 گھنٹے کام کرتا ہے۔۔۔ سننا اچھا لگتا ہے۔ لیکن  حقیقتاً 18 گھنٹے کام کرنا کیا ہوتا ہے،اس کا میری  میری زندگی میں ایک بہت بڑا سبق ہے۔ میں جب گجرات میں تھا تو کیکا شاستری جی نام کے ایک بہت بڑے عالم تھے۔ خود تو پانچویں ساتویں درجہ تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن انہوں نے متعدد کتابیں لکھی تھیں، انہیں پدم اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

انہوں نے 103 برس کی حیات پائی، اور جب میں وہاں تھا تو میں نے ان کی صد سالہ سرکاری تقریب کا اہتمام بھی کیا تھا۔ میرا ان سے بہت قریبی رشتہ تھا، انہیں مجھ سے بہت محبت تھی۔ تو میں بہت سال پہلے، تب میں وزیر اعلیٰ بھی نہیں تھا، ہم نے ایک مرتبہ پروگرام بنایا کہ ان کو لے کر راجستھان کے تیرتھ والے علاقوں میں درشن کرانے کے  لیے لے جاؤں گا۔ تو میں ان کو لے کر چلا۔ ہم سب لوگ ایک گاڑی میں تھے۔ میں دیکھتا تھا کہ ان کے پاس بہت کم سامان تھا۔ لیکن اس میں بھی زیادہ تر لکھنے پڑھنے کی چیزیں تھیں۔ کہیں ریلوے کراسنگ آتا تھا تو بند ہو جاتا تھا، رک جانا پڑتا تھا، جب تک ریل گاڑی نہ گزر جائے، پھاٹک نہیں کھلتا تھا، آگے بڑھتے نہیں تھے۔ اب اس وقت ہم کیا کرتے ہیں۔ ہم یا تو نیچے اترکر تھوڑا ٹہلیں گے، یا کوئی سینگ چنا بیچتا ہوگا تو تھوڑا لےکر کے کھائیں گے۔۔۔۔

میں دیکھتا تھا کہ جیسے ہی گاڑی کھڑی ہوئی، وہ اپنے تھیلے سے کاغذ نکالتے تھے اور فوراً لکھنا شروع کر دیتے تھے۔ تب ان کی جو عمر میں سمجھتا ہوں 80 برس کے قریب ہوگی۔ یعنی وقت کا صحیح استعمال کیسے کرنا ہے، آؤٹ کم کسے کہتے ہیں۔ میں اتنی باریکی سے ان کو دیکھ رہا تھا۔ اور شاید تیرتھ یاترا کے وقت آرام کرنا، گھومنا، پھرنا، دیکھنا، وہ سب ایک طرف، اپنا کام کرتے ہی رہنا، کسی بھی صورتحال میں کرتے رہنا، میں سمجھتا ہوں یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ زندگی میں اس سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔

ناظم: محترم جناب، ہمیں خود کا تجزیہ کرنے کی اہمیت کو سمجھانے اور یہ احساس دلانے کے لیے آپ کا شکریہ کہ ہمیں عمدگی کی جانب بڑھنے کے لیے خوشی خوشی سیکھنا چاہئے۔ محترم وزیر اعظم ، خوبصورت سرسبز زمین اور یوکلپٹس کے جنگلات والے، مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کےشہر، اودھم پور  میں 9ویں درجہ کی ایک طالہ ایریکا جورج  آپ کی رہنمائی چاہتی ہیں۔ ایریکا، برائے مہربانی اپنا سوال پوچھیں۔

ایریکا جورج: جناب  وزیر اعظم صاحب، میں ، ایریکا جورج  ،کلاس 9 کی طالبہ ہوں ، میرا تعلق اے پی ایس ادھم پور، جموں و کشمیر سے ہے۔ سر،  میں جو سوال پوچھنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ آج کل خاص طور پر تعلیمی میدان اور ہندوستان جیسے ملک میں کافی مقابلہ ہے۔ اس معاملے میں، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو واقعی بہت باصلاحیت اور  اہل علم ہیں۔ لیکن کسی وجہ سے وہ امتحان میں شریک نہیں ہو سکے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح راستے کا انتخاب نہ کیا ہو یا ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس کوئی مناسب مشورہ دینے والا نہ ہو۔ سر، اس معاملے میں ہم ان لوگوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں، تاکہ ان لوگوں کی صلاحیت رائیگاں نہ جائے، بجائے اس کے کہ ان کا بھرپور استعمال کیا جا سکے۔ شکریہ جناب۔

ناظم: شکریہ ایریکا، جناب وزیر اعظم صاحب ، صنعتی مرکز گوتم بدھ نگر کے ہری اوم مشرا 12ویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ وہ  اپنے بورڈ کے امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں اور اسی طرح کا سوال پوچھنا چاہتا ہیں۔ انہیں زی ٹی وی کے زیر اہتمام ایک مقابلے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ ہری اوم ، برائے مہربانی آپ  سوال پوچھیں۔

ہری اوم : نمسکار میرا نام ہری اوم مشرا ہے اور میں کیمبرج اسکول ، نوئیڈا کے کلاس 12 کا طالب علم ہوں۔ میرا آج وزیر اعظم صاحب سے یہ سوال ہے کہ جیسا  کہ اس سال کالج میں داخلہ لینے کے عمل میں بہت تبدیلی آ گئی ہے اور اس سال بورڈ امتحان کے پیٹرن میں بھی کافی تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔ ان ساری تبدیلیوں کے درمیان ہم طلباء ابھی بورڈ امتحان پر توجہ دیں یا پھر ہم کالج میں داخلہ لینے کے عمل پر توجہ دیں۔ ہم کس چیز کو  ترجیح دیں، اپنی تیاری کس طرح کریں۔

ناظم: شکریہ ہرہ اوم۔ جناب وزیر اعظم صاحب ، ایریکا اور ہری اوم کی طرح، ملک کے مختلف حصوں سے بہت سے طلباء نے اپنی بے چینی اور تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آیا پڑھائی، مسابقہ جاتی  امتحانات، بورڈ امتحانات کی تیاری یا کالج میں داخلہ پر توجہ مرکوز کی جائے۔ جناب  وزیر اعظم،  ہم سب آپ کی رہنمائی چاہتے ہیں ۔

وزیر اعظم: ویسے دو مختلف نوعیت کے سوال ہیں۔ ایک کا موضوع ہے مقابلہ اور دوسرا موضوع ہے کہ یہ امتحان دوں یا وہ امتحان دوں۔ اور بیک وقت دو دو امتحان ہیں تو کیا کروں ۔ میں نہیں مانتا ہوں  آپ کو  امتحان کے لیے پڑھنا چاہیے۔ غلطی وہیں ہو جاتی ہے ۔ میں اس امتحان کے لیے پڑھوں گا ، پھر میں اس امتحان کے لیے پڑھوں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ پڑھ نہیں رہے ہیں ، آپ ان جڑی بوٹیوں کی تلاش کر رہے ہیں جو آپ کا کام آسان کردے اور شاید اسی وجہ سے ہمارے لیے الگ الگ امتحان الگ لگتے ہیں، مشکل لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی ہم پڑھ رہے ہیں اسے پوری طرح سے ، ہم پوری طرح سے اسے ذہن نشیں کریں گے ، پھر وہ بورڈ کا امتحان ہے یا داخلہ لینے کا امتحان ہے یا نوکری کے لیے کوئی انٹرویو  یا امتحان ہے ، کہیں بھی ہوسکتا ہے امتحان، اگر آپ نے اپنی پڑھائی پوری طرح مکمل کی ہے ،ذہن نشیں کیا ہے تو آپ کو امتحان کی نوعیت کیا ہے ، وہ رکاوٹ کا باعث نہیں ہوتا ہے۔ اور اس لیے خود کو امتحان کے لیے تیار کرنے کےلیے  دماغ کھپانے  کے بجائے اپنے آپ کو قابل تعلیم یافتہ شخص بنانے کے لیے موضوع کا ماہر بننے کے لیے محنت کریں۔ بعد ازاں نتیجہ جو سامنے آئے گا وہ آئے گا۔ جہاں پہلے  آئے گا وہاں پہلے مقابلہ کریں گے ، دوسرا آئے گا  تو دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ تاہم مقابلہ اس لیے کرتے ہیں ۔۔۔ اب آپ نے کھلاڑیوں کو دیکھا ہوگا، وہ کھلاڑی کھیل میں ماہر ہوتا ہے۔ کس سطح کا کھیل کھیلنا ہے ، اس کے لیے وہ محنت نہیں کرتا ہے۔ پھر وہ تحصیل میں کھیلے گا تو وہ اپنا وہی کرتب دکھائے گا ، ضلع میں کھیلے گا ، وہاں بھی اپنا ہنر دکھائے گا، قومی سطح پر کھیلے گا ، وہاں اپنی صلاحیت دکھائے گا، بین الاقوامی سطح پر کھیلے گا وہاں بھی اپنا کمال دکھائے گا اور خود بھی منہمک ہوتا جائے گا۔ اس لیے میں مانتا ہوں کہ ہم فلاں امتحان کے لیے یہ جڑی بوٹی ، اس امتحان کے لیے یہ جڑی بوٹی۔  اس چکر سے نکل کر  میرے پاس یہ کیپسول ہے ، میں لے کر جا رہا ہوں۔ اگر میں وہاں سے نکل  گیا تو ٹھیک ہے ، نہیں نکل پایا تو میں کوئی اور راستہ تلاش کروں گا، تو مجھے لگتا ہے کہ اس کے بارے میں یہ سوچنا چاہیے۔

دوسرا ، مقابلہ ، دیکھئے دوستو ! مقابلہ کو ہمیں زندگی کی سب سے بڑی سوغات  تصور کرنا چاہیے ۔ اگر مقابلہ نہیں ہے تو زندگی کس چیز کی ہے ۔ پھر تو ہم ایسے ہی خوش رہیں گے ، اور کچھ نہیں  ، ہم ہی ہم ہیں بس۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ سچ پوچھئے تو ہمیں مقابلہ کو مدعو کرنا چاہے ۔ تبھی ہماری کسوٹی ہوتی ہے۔ میں تو کہوں گا کہ گھر میں بھی کبھی چھٹی کا دن ہے ، پڑھائی نہیں ، امتحان نہیں ، کچھ نہیں ہے تو بھائی بہن بیٹھ کر کمپٹیشن کریں۔ آپ چار روٹی کھاتے ہیں ، میں پانچ کھاتا ہوں ۔ تم پانچ کھاتے ہوئے ، میں چھ کھاتا ہوں ۔ ایسے کریں کمپٹیشن۔  ہمیں زندگی کو کمپٹیشن سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ مقابلہ زندگی میں آگے بڑھنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے، جس سے ہم خود کو ترقی دینے کا آغاز کر تے ہیں۔ دوسرا، میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں یا آپ کے والدین جس نسل سے ہیں، ان کو وہ چیزیں میسر نہیں تھیں جو آپ کو مل رہی ہیں۔ آپ اس خوش قسمت نسل کے ہیں جو خوش قسمتی سے آپ کی پچھلی نسل میں سے کسی کو بھی اتنی بڑی مقدار نہیں ملی اور وہ یہ ہے کہ مقابلہ زیادہ ہے تو انتخاب بھی زیادہ ہے، مواقع بھی بہت ہیں۔ آپ کے خاندان میں اتنے مواقع نہیں تھے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دو کسان ہیں، فرض کریں ایک کے پاس دو ایکڑ زمین ہے، دوسرے کے پاس بھی دو ایکڑ زمین ہے، لیکن  ایک  کسان ہے،  چلو بھائی، گزارا کرنا ہے، گنے کی کاشت کرتے رہو ، گزر بسر ہوجائے گا۔ دوسرا کسان ہے، وہ سوچتا ہے کہ نہیں، دو ایکڑ زمین ہے، میں یہ کروں گا- میں ایک تہائی یہ  کروں گا، ایک تہائی  یہ کروں گا، گزشتہ سال یہ کیا تھا تو اس بار یہ  کروں گا۔ یہ  دو چیزیں نہیں کروں گا۔ آپ دیکھیں گے کہ جو دو ایکڑ زمین میں  ہی آرام سے بیٹھ کر گزر بسر کر لیتا ہے، اس کی زندگی ٹھپ ہوجاتی ہے۔ جو رسک لیتا ہے، تجربات کرتا ہے، نئی چیزیں لیتا ہے، نئی چیزیں جوڑتا ہے، وہ اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زندگی میں کہیں رکنے کا نام نہیں لیتاہے۔ ہماری زندگی میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہم اتنے مقابلے کے درمیان خود کو ثابت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس بہت سے چوائس ہیں۔ اگر یہ مقابلہ نہیں تو وہ مقابلہ نہیں تو وہ مقابلہ نہیں،  وہ مقابلہ نہیں تویہ راستہ نہیں ، یہ راستہ نہیں تو یہ راستہ نہیں۔ میرے خیال میں،  ہمیں اسے ایک موقع سمجھنا چاہیے، اسے ایک موقع تصور کرنا چاہیے۔ اور میں یہ موقع ضائع نہیں کروں گا، میں اس موقع کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا، اگر مجھ میں  یہ احساس پیدا  ہوجائے گا تو مجھے یقین ہے کہ آپ مقابلے کو اپنے لیے اس دور کا سب سے بڑا تحفہ سمجھیں گے۔

ناظم: جناب وزیر اعظم، آپ نے ہمیں علم حاصل کرنے کی ترغیب دی، جو زندگی میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ شکریہ محترم وزیر اعظم، نوساری گجرات کی محترمہ سیما چنتن ڈیسائی، ایک بچے کی سرپرست ہیں، آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہیں۔ میڈم آپ اپنی بات بتائیں۔

سیما چنتن ڈیسائی - جئے شری رام، وزیر اعظم مودی جی، نمستے۔ میں نوساری سے سیما چنتن ڈیسائی ایک  طالب علم  کی ماں ہوں۔ جناب، آپ بہت سارے نوجوانوں کے آئیکون ہیں۔اس کی  وجہ یہ ہے کہ آپ صرف بولتے نہیں ہیں، آپ جو کہتے ہیں، کر کے دکھاتے ہیں۔ سر ، ایک سوال ہندوستانی گھروں میں دیہی علاقوں کی لڑکیوں کے لیے بہت سی اسکیمیں چل رہی ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس کی پیش رفت میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں،  شکریہ!

ناظم: شکریہ میڈم۔  جناب  وزیر اعظم ، سیما چنتن ڈیسائی صاحبہ  دیہی علاقوں کی لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں فکر مند ہیں، اورآپ سے جاننا چاہتی  ہیں کہ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے، محترم وزیراعظم،

وزیر اعظم: ویسے  مجھے لگتا ہے کہ حالات بہت بدل چکے ہیں۔ پہلے زمانے میں جب تعلیم کی بات آتی تھی تو والدین کو لگتا تھا کہ بیٹے کو پڑھانا چاہیے۔ اپنے محدود وسائل کے پیش نظر وہ سمجھتے تھے کہ یہی صورتحال ہے، بچہ پڑھے گا تو کچھ کمائے گا اور بسا  اوقات بعض والدین یہ بھی کہتے تھے کہ ارے بیٹی کو پڑھا کر کیا کرنا ہے، اس سے نوکری  تھوڑے ہی کروانی ہے۔ اور وہ تو اپنے سسرال جا کر اپنی زندگی گزر بسر کر لے گی۔ اس ذہنیت کا ایک دور تھا۔ شاید آج بھی کچھ گاؤں میں اس قسم کی ذہنیت کہیں نہ کہیں ہوگی ، لیکن آج کل حالات بدل چکے ہیں اور اگر معاشرہ بیٹیوں کی صلاحیتوں کو جاننے میں پیچھے رہ گیا تو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ کبھی کبھی آپ نے ایسے گھرانے دیکھے ہوں گے، جہاں یہ کہا جاتا ہو گا کہ بھائی بیٹا تو ہونا ہی چاہیے، تاکہ بڑھاپے میں کام آئے۔ بیٹی کا کیا ہے، وہ تو اپنے سسرال چلی جائے گی، وہ کس کام کی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی بھی ایک ذہنیت کارفرما ہے۔ اور کبھی  تو تھی، لیکن تاریخ ان چیزوں کا مشاہدہ کرتی ہے، اب میں ان چیزوں کو بہت باریکی سے دیکھتا ہوں۔ میں نے ایسی بہت سی بیٹیاں دیکھی ہیں، جنہوں نے اپنے والدین کی خوشی اور ان کے بڑھاپے کی فکر میں شادی نہیں کی اور اپنی زندگی ماں باپ کی خدمت میں گزار دی، جو بیٹا نہیں کر سکتا، وہ بیٹیوں نے کر دکھایا ہے۔ اور میں نے ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جن کے گھر میں چار بیٹے ہیں۔چار بیٹوں کے چار بنگلے ہیں۔ خوشی اور  امن کی زندگی ہے۔ غم کبھی دیکھا نہیں ہے۔ لیکن والدین اولڈ ایج ہوم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے ایسے  بھی بیٹے دیکھے ہیں۔ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ معاشرے میں بیٹے اور بیٹیاں برابر ہیں، کوئی تفریق نہیں ۔ یہ آج کے دور کی ضرورت ہے اور ہر دور کی ضرورت ہے۔ اور ہندوستان میں کچھ بگاڑ پیدا ہوا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی۔ لیکن یہ ملک فخر کر سکتا ہے۔ اگر حکمرانی کی بات یاد کریں تو کسی زمانے میں اہلیا  دیوی کا نام آتا تھا۔ بہترین گورننس کے طور پر۔ جب کبھی بہادری کی بات آئے تو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا نام بہادری کے لیے آتا تھا۔ یہ بیٹیاںہی تو تھیں۔ یعنی کوئی دور ایسا نہیں ہوگا اور ہمارے یہاں تو بیٹیوں نے جادوئی علم کا ذخیرہ  ثابت کر کے دکھایا ہے۔ پہلے تو ہماری اپنی ذہنیت ہے۔ دوسرا، آج صورتحال بدل گئی ہے۔ آج آپ دیکھیں گے کہ جو بچے اسکول آتے ہیں ان میں نہ تو بیٹیوں کی تعداد بیٹوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ حساب آرہا ہے۔ آج بیٹیوں کی امنگیں ہیں، امیدیں ہیں، ان میں کچھ کرنے کا  جو جذبہ ہے، شاید کوئی بھی ہندوستانی فخر کرے، ایسا ہے اور اس کو ہمیں موقع دینا چاہیے اور موقع کو ہمیں ادارہ جاتی بنانا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ایک خاندان اسے اپنے طریقے سے کرلے ، جیسا کہ آپ نے کھیلوں میں دیکھا ہوگا۔ آج کھیلوں میں کسی بھی سطح کا کھیل ہو، ہندوستان کی بیٹیاں ہر جگہ اپنا نام روشن کر رہی ہیں۔ سائنس کے شعبے کو ہی دیکھ لیں، اگر سائنس کے شعبے سے بڑے کارنامے سامنے آتے ہیں تو آپ دیکھیں تو اس میں سے آدھے سے زیادہ ہماری بیٹیوں نے سائنس کے میدان میں کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ اب دسویں اور بارہویں کا رزلٹ دیکھ لیں بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ نمبر لاتی ہیں۔ پاس آؤٹ ہونے والی لڑکیوں کی تعداد زیادہ  ہوتی ہے۔ تو آج بیٹی ہر خاندان کا بہت بڑا اثاثہ بن چکی ہے، خاندان کی ایک بہت بڑی طاقت بن چکی ہے اور یہ تبدیلی اچھی ہے، یہ تبدیلی جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی سود مند ہوگا۔ اب آپ دیکھیں کہ وہ گجرات سےہی ہیں جس نے سوال پوچھا ہے۔ گجرات میں جیسے پنچایتی راج کا نظام ہے، ایک اچھا پنچایتی راج نظام ہے۔ 50فیصد منتخب بہنیں ہیں۔ امن و امان ہے کہ پچاس فیصد ہے۔

لیکن دراصل الیکشن کے بعد صورتحال یہ بنتی ہے کہ منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد 53 فیصد 54 فیصد 55 فیصد ہے۔ یعنی وہ اپنی محفوظ نشستوں سے جیتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ان کی تعداد غیر محفوظ سیٹوں سے جیت کر 55 فیصد تک چلی جاتی ہے اور مرد 45 فیصد تک نیچے آ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا بھی  ماؤں بہنوں  کے تئیں اعتماد بڑھا ہے۔ تب ہی وہ عوامی نمائندے کے طور پر آتی ہیں۔ آج جب ہم آزادی کا امرت  مہوتسو منا رہے ہیں۔ آج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں اس دور کی سب سے زیادہ خواتین ممبران پارلیمنٹ ہیں اور گاؤں میں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ جو  پڑھی لکھی بیٹیاں ہیں،  لوگ انہیں منتخب کرنا  زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگروہ پانچویں ہیں تو الیکشن میں جیتنے میں سات کے سامنے گیارہویں والی ہے تو اس کو  پسند کرے گی۔ یعنی تعلیم کے احترام کا احساس معاشرے میں بھی ہر سطح پر نظر آرہا ہے۔آج آپ تعلیم کا میدان دیکھ لیں۔ شاید کبھی نہ کبھی تو مردوں کی جانب سے مانگ آنے کا امکان ہے۔ میں کسی کو راستہ نہیں دکھا رہا ہوں، سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو ۔ لیکن کبھی کبھی امکان ہے کہ مرد جلوس نکالیں گے کہ ٹیچر میں ہماری اتنی فیصد سیٹیں طے کرو۔ کیونکہ زیادہ تر ٹیچر ہمارے مائیں اور بہنیں ہیں۔ اس طرح سے نرسنگ میں زیادہ تر جو خدمت کا جذبہ ، ماں کا جذبہ ہوتا ہے ، وہ آج نرسنگ کے شعبہ میں ہندوستان کے فخر کو بڑھا رہا ہے۔ ہندوستان کی نرسیں  دنیا میں  جہاں جا رہی ہیں ، ہندوستان کی آن بان شان بڑھا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ پولیسنگ میں ، پولیسنگ میں آج ہماری بیٹیاں بہت بڑی تعداد میں آ رہی ہیں۔ اب تو ہم نے این سی سی میں بیٹیاں، سینک اسکول میں بیٹیاں، فوج میں بیٹیاں، زندگی کے ہر شعبہ میں اور یہ ساری چیزیں اس لیے ادارہ جاتی ہو رہی ہیں اور مجھے معاشرے سے بھی یہ درخواست  ہے کہ آپ بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق نہ کریں۔ دونوں کو یکساں موقع دیں ۔ اور میں کہتا ہوں شاید یکساں سرمایہ کاری سے ہی یکساں موقع سے ہی اگر بیٹا انیس کرے گا تو بیٹی 20 کرے گی۔

ناظم:عزت مآب وزیر اعظم صاحب، بیٹیاں گھر ، معاشرہ ، قوم کی زینت ہے۔ ان کی امنگوں کو آپ کی حوصلہ افزائی سے نئی اڑان ملی ہے ، آپ کا شکریہ ۔ جناب وزیر اعظم ،  ہمیں فخر ہے کہ ہم آج آپ سے براہ راست ترغیب  اور حوصلہ افزائی حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کے قیمتی وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اب دو آخری سوالات کے لیے  دعوت دیتا ہوں۔نئی دہلی کے آر کے پورم کے سیکٹر-8 میں واقع کیندریہ ودیالیہ سے تعلق رکھنے والی  بارہویں جماعت کے طالبہ ڈمپالا پویترا راؤ اپنے  سوال کا جواب جاننے کے لیے بے چین ہے۔ پاویترا راؤ برائے مہربانی اپنا سوال پوچھیں۔

پویترا راؤ : نمسکار وزیر اعظم صاحب، میں پویترا راؤ، آر  کے پورم ، نئی دہلی کے سیکٹر-8 میں واقع کیندریہ ودیالیہمیں 12ویں جماعت کی طالبہ  ہوں۔ جناب  وزیر اعظم، جیسا کہ ہمارا ہندوستان مزید ترقی کی طرف گامزن ہے، اسے برقرار رکھنے کے لیے ہماری نئی نسل کو اور کیا قدم اٹھانے ہوں گے؟ آپ کی رہنمائی سے ہندوستان صاف ستھرا  تو ہوا ہی ہے اور آنے والی نسل اس کے ماحولیاتی تحفظ میں کیا تعاون کرے ، رہنمائی فرمائیں، شکریہ، سر۔
ناظم: شکریہ پویترا، جناب وزیر اعظم ! نئی دہلی سے 11ویں جماعت کے طالب علم چیتنیالیلے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے اسی طرح کے ایک اور سوال کاحل  چاہتے ہیں ۔ چیتنیا براہ کرم اپنا سوال پوچھیں۔

چیتنیا:پرنام ، عزت مآب وزیر اعظم، میرا نام چیتنیاہے۔ میں ڈی اے وی اسکول کی گیارہویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ میرا آپ سے سوال  یہ ہے کہ ہم اپنے ماحول کو صاف ستھرا اور بہتر کیسے بنا سکتے ہیں؟ شکریہ!

ناظم: شکریہ چیتنیا ، جناب وزیر اعظم صاحب پویترا اور چیتنیا کی طرح ہندوستان کے نوجوان صاف اور سرسبز ہندوستان میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ آپ کے دل کے قریب ایک خواب جسے  ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور اپنے ماحول کو دنیا کے ہر لحاظ سے قدیم اور کامل کیسے رکھا جائے، ہم سب آپ کی رہنمائی کے منتظر ہیں۔

وزیر اعظم:ویسے یہ "پریکشا پر چرچا" سے متعلق موضوع نہیں ہے۔ لیکن جس طرح امتحان کے لیے اچھے ماحول کی ضرورت ہے۔ ویسے ہی روئے زمین کو اچھے ماحول کی ضرورت ہوتی  ہے اور ہم لوگ تو روئے زمین کو ماں  تصور کرنے والے لوگ ہیں۔ سب سے پہلے تو مجھے آج موقع دیا ہے، اس کے لیے میں عمومی طور پر  اپنے ملک کے بچوں اور بچیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ جب میں پہلی بار وزیر اعظم بنا تو 15 اگست کو لال قلعہ سے خطاب کر رہا تھا ۔ میری تقریر کے بعد اکثر لوگوں نے سوالیہ نشان لگا دیے تھے کہ ٹھیک ہے مودی جی نے کہہ تو دیا لیکن کیا یہ  ہو سکتا ہے؟ اور اس وقت میں نے صفائی کی بات کی تھی۔یہ بات بھی قدرے حیران کن تھی کہ ملک کے وزیر اعظم، یہ جگہ تو  ایسی ہی  ہے، خلا کی بات کرنی چاہیے  خارجہ پالیسی کی بات کرنی چاہیے، فوجی طاقت کی بات کرنی چاہیے۔ یہ آدمی کیسا ہے  صفائی کی بات کر رہا ہے؟ بہت سے لوگ حیران تھے۔ لیکن جو بھی خدشات ظاہر کی گئی تھیں ، ان سب کو غلط ثابت کرنے کا کام اگر کسی نے کیا ہے یا صفائی کے بارے میں میرے جذبے کو چار چاند لگانے کا کسی نے کام کیا ہے تو وہ میرے ملک کے لڑکوں اور لڑکیوں نے کیا ہے۔ صفائی کے اس سفر میں آج ہم جہاں تک پہنچے ہیں۔ اگر میں کسی کو اس کا زیادہ سے زیادہ کریڈٹ دیتا ہوں تو اپنے ملک کے لڑکوں اور لڑکیوں کو دیتا ہوں۔ میں نے ایسے سینکڑوں سوالات سنے ہیں۔ جہاں 5-5، 6-6 سال کے بچوں نے اپنے دادا -دادی، نانا -نانیکوٹوکا ہے کہ  ایک دن میں 10 بار  کا کوڑا مت ڈالو، مودی جی نے منع کیا ہے، یہاں کوڑا مت پھینکو مودی جی کو یہ پسند نہیں آئے گا۔

یہ ایک بہت بڑی طاقت ہے اور شاید اسی نسل کے ہونے کے باعث آپ نے بھی اسی جذبے سے سوال پوچھا ہے۔ میں آپ کے سوال کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ آج پوری دنیا  عالمی حدت کی وجہ سے ماحولیات کی وجہ سے بہت پریشان ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے وسائل کا غلط استعمال کیا ہے۔ بھگوان نے  ہمیں جو انتظامات دیے ہیں ہم نے انہیں برباد کر دیا ہے۔ اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ آج اگر میں پانی پی رہا ہوں، یا میری قسمت میں پانی ہے، آج اگر مجھے کہیں ندی نظر آرہی ہے ، آج اگر میں کسی درخت کے سائے میں کھڑا ہوں،  تو اس میں میرا کوئی تعاون نہیں ہے۔یہ میرے باپ دادا نے میرے لیے چھوڑا ہے۔ جس چیز کا میں استعمال کر رہا ہوں، وہ میرے اجداد نے مجھے دیا ہے۔ کیا میرے بعد آنے والی نسلوں کو مجھے کچھ دینا چاہیے یا نہیں ؟ دینا چاہیے یا نہیں ؟اگر میں محفوظ نہیں کروں گا تو دوں گا کیا؟ اور اس لیے جیسے ہمارے اسلاف نے ہمیں دیا ، ہمیں ان کا قرض قبول کرنے کے لیے اوراپنی آئندہ نسل کو دینے کے لیے اپنی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ اب یہ کسی حکومتی پروگرام سے کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ جیسے فرض کیجئے ، میں کہتا ہوں کہ  بھائی واحد استعمال پلاسٹک سے بچنا چاہیے۔ لیکن ہم اپنے ہی گھر میں تقریر بھی کرتے ہیں، سنگل یوز پلاسٹک سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن اگر گھر میں شادی کا آتا ہے تو ہم گھر میں دیکھتے ہیں ، اس پر پلاسٹک کا ایک بہت ہی خوبصورت ریپر کر کے آتا ہے۔ہم اسے نکال کر پھینک دیتے ہیں۔ اب یہ ہماری سوچ کے برعکس ہے۔ تو آپ آسان فطرت کیسے بن گئے۔ کم از کم اپنے خاندان میں، اپنے گھر میں سنگل یوز پلاسٹک کو استعمال کرنے کی قطعی اجازت نہیں دوں گا۔ اس لیے ہم ماحولیات کے لیے کچھ مدد کر رہے ہیں اور اگر ملک کے تمام بچے یہ کام کرنے لگیں تو پھر آج جو ہمارا ، آپ نے دیکھا ہوگا کہ میں گجرات میں مویشیوں کی صحت کا میلہ لگا رہا تھا۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا اور جانوروں کی صحت کے میلے لگاتا تھا، آپ حیران ہوں گے ، میں گجرات کے اندر جانوروں کے دانتوں کا علاج کرایا کرتا تھا۔ جانوروں میں موتیا بند ہوتا ہے۔ موتیا بند کا کام کرتا تھا اور کچھ جانوروں کا آپریشن کرنا پڑتا تھا۔ تو میں نے ایک گائے کو دیکھا، اس کے پیٹ میں کم از کم 40 کلو گرام پلاسٹک نکلا تھا۔اب یہ انسانیت کے خلاف کام ہے۔ اگر ہم میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ مجھے تو اچھا لگتا ہے کہ چول بھائی ہلکی پھلکی تھیلی ہے ، لے کر جانا اچھا لگتا ہے ، اور پھر پھینک دیتا ہوں ۔ اب ہمیں اس یوز اینڈ تھرو کلچر سے بچنا  ہوگا اور ہمیں دوبارہ استعمال ، ری سائیکل اور یہ ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہےکہ ہمارے خاندان میں یہ چلن برسوں سے رہا ہے۔ ہم جتنا زیادہ وسائل کا استعمال کریں گے، اتنا ہی ہم ماحول کو تباہ کریں گے۔ ہم جتنا زیادہ وسائل  کا بہترین استعمال کریں گے، اتنا ہی ہم ماحول کی حفاظت کریں گے۔ آج  دیکھیں ہمارے الیکٹرانک  آلات ، یہ بھی ماحولیات کے لیے مسئلہ بن رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکومت ہند نے ابھی اسکریپ پالیسی نکالی ہے تاکہ پرانی گاڑیاں جو آلودگی پیدا کرتی ہیں، ان کو ختم کریں، اس سے کچھ پیسے کمائیں اور نئی گاڑی لے آئیں۔اس سمت میں بھی کافی کام ہونے والا ہے۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ پانی کی اہمیت کیا ہے، پودوں کی اہمیت کیا ہے، فطرت کی اہمیت کیا ہے، کیا ہم اس کے بارے میں حساس ہیں؟ اور اسے آسان فطرت بننا چاہیے اگریہ فطرت بننا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگاکوپ – 26 میں میں نے ایک موضوع رکھا تھا۔ برطانیہ میں ایک کانفرنس ہوئی تھی، میں نے اس میں کہا تھا  کہ طرز زندگی ایک مسئلہ ہے۔ ہمارا جو طرز زندگی اور کہا گیا ہے کہ مشن زندگی کی ضرورت ہے۔ اور میں نے وہاں مشن لائف کے لیے لفظ طے کر دیا تھا کہ ماحول کے لیے طرز زندگی، میں سمجھتا ہوں کہ ہم بھی اپنی زندگی میں بہت چھوٹی عمر کے  ہیں، ہمارے پاس چار منزلہ مکان ہے اور ہم بھی لفٹ میں جاتے ہیں، ارے ہم کوشش کریں ، ہم چڑھ جائیں گے کیا ، تو ہماری صحت کو بھی فائدہ ہوگا، ہم ماحولیات کی مدد کریں گے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہم اپنی زندگی میں لائیں گے اور اسی لیے میں نے کہا تھا کہ ہمیں دنیا میںپی -3تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔پرو – پلانیٹ – پیوپل ۔ اس پی – 3 تحریک میں زیادہ سے زیادہ لوگ شامل ہوں اور بیدار رہ کر اس کی کوشش کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم چیزیں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دوسرا، آج جب ملک آزادی کا امرت  مہوتسو منا رہا ہے۔ آزادی کے 75 سال آج کی  جو نسل ہے، وہ اپنی زندگی کے کامیاب ترین دور سے گزرتی ہے تو ملک صد سالہ جشن مناتا ہوگا۔ یعنی یہ 25 سال آپ کی زندگی کے ہیں۔ یہ آپ کے لیے آپ کا تعاون اس 25 سالوں میں کیا ہو تاکہ ہمارا ملک اس مقام تک پہنچے، ہم فخر سے دنیا کے سامنے اپنا چہرہ بلند رکھ کر ملک کی صد سالہ جشن منا سکیں، ہمیں اپنی زندگی کو اس سے جوڑنا ہےاور اس کا ایک آسان سا راستہ ہے ، فرض پر زور دینا۔  اگر میں اپنے فرائض کو انجام دیتا ہوں  یعنی میں کسی کے حق کی حفاظت کرتا ہوں  تو اس کو اپنے حق کی مانگ کے لیے نکلنا نہیں پڑے گا۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ ہم فرائض انجام نہیں دے رہے ہیں۔  اس لیے حق کے لیے اس کو لڑنا پڑتا ہے ۔ ہمارے ملک میں کسی کو اپنے حقوق کے لیے لڑنا نہ پڑے۔ یہ ہمارا فرض ہے اور اس فرض کا استعمال بھی ہمارے فرض کی ادائیگی ہے۔ اگر ہم فرائض کی ادائیگی کرتے ہیں، تو ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ، ان کی تکمیل کرتے ہیں۔ اب دیکھئے ، پوری دنیا  کے لوگ ہمارے یہاں تو ان چیزوں کا ذکر کرتے ہیں تو لوگوں کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں مودی کے کھاتے میں ہوجائے گا۔ مودی کی جئے جئے کار ہوجائے گی ۔ اس لیے تھوڑا ہچکچاتے ہیں اس کا جئے جئے کار کرنے میں۔ لیکن ہمارے یہاں جو ٹیکہ کاری ہوئی ہے اس میں بھی جب میں اسکول کے بچوں کے لیے ٹیکہ کاری شروع کی  اور جس تیزی سے ہمارے ملک میں بچوں نے دوڑ دوڑ کر ویکسین لی ، یہ اپنے آپ میں بہت بڑا واقعہ ہے ۔ آپ سب کی بھی ٹیکہ کاری ہو گئی ہے ۔ ہاتھ اٹھائیں کہ سب کی ٹیکہ کاری ہو گئی ہے ؟ اگر دنیا کے کسی ملک میں ایسا سوال کوئی پوچھنے کی ہمت  نہیں کر سکتا ہے ، ہندوستان کے بچوں نے بھی یہ کر کے دکھایا ہے یعنی کہ ہم نے اپنے فرض کی ادائیگی کی ہے ۔ یہ فرض کی ادائیگی  ہندوستان کی  آن بان شان بڑھانے  کی وجہ بن گئی ہے، اسی طرح سے ہمارے ملک کو آگے بڑھنا ہو ،  فطرت کی حفاظت کرنی ہو ، ماحولیات کا تحفظ کرنا ہو تو مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم اپنے فرائض کو شعوری طور پر ادا کریں تو مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

ناظم: وزیر اعظم کے ذریعہ "پریکشا پر چرچا 2022" میں ہم جیسے کروڑوں بچوں ، اساتذہ، والدین  کی بے چینی کو جوش ، امنگ اور کامیابی کی امید میں بدل دیا  ۔ ہم ممنون ہیں جناب وزیر اعظم، ہم  آپ کے سنہرے خیالات کے لیے بے حد شکر گزار ہیں۔ 

یہ  ہمیں حوصلہ افزائی اور ترغیب  کی اس شاندار صبح کے اختتام پرایسے لمحات پر  لے آئی ہے جو ہمیشہ ہماری یادوں میں رہے گا۔ ہم عزت مآب وزیر اعظم صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ جناب وزیر اعظم اپنا قیمتی وقت ہمارے ساتھ رہنے اور اپنی مقناطیسی شخصیت سے ہمیں متاثر کرنے کے لیے صرف کیا۔ بہت شکریہ جناب وزیر اعظم ۔

وزیر اعظم: آپ تمام، آپ کے اناؤنسرآ جائیے  یہاں ، سب کو بلا لیجیے۔ کچھ ادھر آ جائیے ، کچھ ادھر آ جائیے ۔ دیکھئے  آج میں سب سے پہلے تو ان لوگوں کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں ۔ ان سب نے اتنے بہترین انداز میں ان ساری چیزوں کو کنڈکٹ کیا ہے ، کہیں بھی خود اعتمادی میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ آپ نے بھی باریکی سے آبزرو کیا ہوگا میں مسلسل آبزرو کرتا تھا ۔ ایسی قابلیت یہاں بیٹھے ہر ایک میں ہوگی، جو ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں گے ، ان میں بھی ہوگی  اور جو نہیں دیکھ رہے ہوں گے ان میں بھی ہوگی۔ زندگی میں جو سوال کے دائرے میں نہیں ہے میں پھر بھی کہنا چاہوں گا کہ ہم واقعی زندگی میں خوشی محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ میں ایک خاصیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر ہم اس طرز عمل کو فروغ دیں گے تو ہم ہمیشہ خوش رہیں گے اور وہ  ہے صفات کا پجاری بننا۔ ہم کسی میں بھی یہ صفت دیکھتے ہیں، خصوصیت دیکھتے ہیں اور ہم اس کے پجاری بن جاتے ہیں۔  اس سے اس کو طاقت ملتی ہے ، ہمیں طاقت ملتی ہے ، ہماری طرز زندگی بن جاتی ہے کہ جہاں بھی دیکھیں اچھی چیزوں کا مشاہدہ کریں ، کیسے اچھا ہے ، اس کا مشاہدہ کریں، اسے ہم تسلیم کرنے کی کوشش کریں، خود کو اس میں ڈھالنے کی کوشش کریں ، جدت کاری کی کوشش کریں، جوڑنے کی کوشش کریں ، اگر ہم حسد کے جذبے کو پنپنے دیتے ہیں  کہ وہ مجھ سے آگے ہوگیا ، اس کا کتا تو میرے کتّے سے بھی زیادہ اچھا ہے ، اس کے خاندان میں تو اتنا اچھا ماحول ہے ، اس کو تو کوئی تکلیف نہیں ہے ۔ اگر یہی کمپٹیشن  کا خیال ذہن میں رہتا تو ہم دھیرے دھیرے خود کو بہت چھوٹا کرتے جاتے ہیں، ہم کبھی بڑے نہیں بن سکتے ۔  ہم دوسروں کی قابلیت کو ، دوسروں کی خصوصیات کو دوسروں کی طاقت کو جاننے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں گے تو وہ ان خصوصیات کو اپنے آپ  میں لانے کی قابلیت خود بخود فروغ پانے لگے گی۔ اور اس لیے اپنی زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے  آپ سب سے درخواست کروں گا کہ زندگی میں جہاں بھی موقع ملے ، جو خاص ہیں ، جو اچھا ہے ، جو اہل ہے اس کی طرف آپ کا میلان ہونا چاہیے ۔ اس کو جاننے ،سمجھنے اور تسلیم کرنے کا بہت ہی عمدہ خیال ہونا چاہیے۔  کبھی بھی حسد کا جذبہ نہیں ہوگا ، کبھی بھی ہمارے ذہن میں مخالفت کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ ہم بھی بڑی خوشی اور لطف کی زندگی بسر کر پائیں گے۔ اسی امید کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سبھی کو مبارکباد دیتا ، تمام طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور میں اب محکمہ تعلیم کو مبارکباد دیتا ہوں ، کتنے شاندار پروگرام کی آپ سب نے منصوبہ بندی  کی اور آپ  تمام نوجوانوں سے  مجھے ملنے کا موقع ملا۔ کچھ لوگوں کو لگتا  ہوگا کہ مودی "پریکشا پر چرچا" کیوں کرتے ہیں، امتحان میں تو ٹھیک ہے ٹیچر نے بہت کچھ سمجھا دیا ہوگا۔ آپ کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے مجھے معلوم نہیں ہے ، مجھے فائدہ ہوتا ۔ میرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب میں آپ کے درمیان آتا ہوں تو میں 50 سال چھوٹا ہوجاتا ہوں اور میں آپ کی عمر سے کچھ سیکھ کر  آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ، یعنی میں اپنی پیڑھی نہیں بدلتا ہوں میں خود کو آپ کے ساتھ جوڑنے کے باعث آپ کے من کو سمجھتا ہوں ، آپ کی  توقعات، امنگوں کو سمجھتا ہوں ، اپنی زندگی کو اس میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں اور اسی لیے یہ پروگرام مجھے بنانے میں کام آ رہا ہے ، اپنی صلاحیت کو بڑھانے کام آ رہا ہے  اور اس لیے میں آپ کے درمیان آتا ہوں ، مجھے آج خود کو ڈھالنے کے لیے ، خود کو سنوارنے کے لیے ، کچھ سیکھنے کے لیے ، آپ سب نے وقت دیا ، اس لیے میں آپ تمام لوگوں کا ممنون ہوں ۔

بہت بہت شکریہ !

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
5 Days, 31 World Leaders & 31 Bilaterals: Decoding PM Modi's Diplomatic Blitzkrieg

Media Coverage

5 Days, 31 World Leaders & 31 Bilaterals: Decoding PM Modi's Diplomatic Blitzkrieg
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Prime Minister urges the Indian Diaspora to participate in Bharat Ko Janiye Quiz
November 23, 2024

The Prime Minister Shri Narendra Modi today urged the Indian Diaspora and friends from other countries to participate in Bharat Ko Janiye (Know India) Quiz. He remarked that the quiz deepens the connect between India and its diaspora worldwide and was also a wonderful way to rediscover our rich heritage and vibrant culture.

He posted a message on X:

“Strengthening the bond with our diaspora!

Urge Indian community abroad and friends from other countries  to take part in the #BharatKoJaniye Quiz!

bkjquiz.com

This quiz deepens the connect between India and its diaspora worldwide. It’s also a wonderful way to rediscover our rich heritage and vibrant culture.

The winners will get an opportunity to experience the wonders of #IncredibleIndia.”