نمسکار!

نیتی آیوگ کی گوورننگ کونسل میں، میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ملک کی ترقی کی بنیاد یہ ہے کہ مرکز اور ریاستیں مل کر کام کریں اور متعین سمت میں آگے بڑھیں۔ کوآپریٹیو وفاق  کو زیادہ بامعنی بنانا ہے اور یہی نہیں، ہمیں فعال مسابقتی کوآپریٹیو وفاق  کو نہ صرف ریاستوں کے درمیان لے جانا ہے بلکہ ضلعی سطح تک بھی لے جانا ہے ، تاکہ ترقی  کی یہ مسابقت برابر جاری رہے، ترقی کرنا ایک پرائم ایجنڈا بنا رہے۔ ملک کو نئی بلندیوں  پر لے جانے کا مقابلہ  کس طرح فروغ پائے ، اس پر غور  و فکر کرنے کی خاطر ہم نے پہلے بھی کئی بار بات چیت کی ہے ، آج بھی فطری بات ہے کہ اس اجلاس میں اس بات پر زور دیا جائے گا۔ ہم نے  کورونا وبا کے دوران  دیکھا کہ کس طرح جب ریاستوں  اور مرکزی حکومت نے مل کر کام کیا، تو پورا ملک کامیاب ہوا اور دنیا میں بھی بھارت کی ایک اچھی شبیہ کی تعمیر ہوئی۔

ساتھیو،

آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرنے جا رہا ہے، اس پس منظر میں اس گورننگ کونسل کا اجلاس اور بھی اہم ہو گیا  ہے۔ میں ریاستوں سے بھی درخواست کروں گا کہ آزادی کے 75 سال کی تکمیل کے موقع پر اپنی اپنی ریاستوں میں معاشرے کے تمام لوگوں کو شامل کرکے کمیٹیوں کی تشکیل ہو، اضلاع میں بھی کمیٹیوں کی تشکیل ہو۔ اب سے کچھ دیر پہلے اس اجلاس کے لیے پوائنٹس کا ایک سرسری تذکرہ آپ کے سامنے ہوا ہے۔ ایجنڈے کے ان نکات کا انتخاب، ملک کی اہم ترین ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ان ایجنڈا پوائنٹس پر ریاستوں سے تجاویز لینے کے لیے، ریاستوں کو تیاری کے لیے کافی وقت دینے کے لیے،  ایک نیا تجربہ کیا گیا کہ اس بار کی نیتی آیوگ کے ساتھ ریاستوں کے تمام اہم حکام کے ساتھ ایک اچھی سی ورکشاپ کا انعقاد بھی ہوا ، اس سے قبل۔ اور اس بحث میں جو پوائنٹس آئے ان کو بھی اس میں شامل کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے۔ اور اس کی وجہ سے بہت بہتر اور ایک قسم سے ریاستوں کی توقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایجنڈا بنا ہے۔ اس عمل سے گزرنے کی وجہ سے اس بار گورننگ کونسل کے ایجنڈا کے نکات بہت متعین ہوگئے ہیں اور یہ ہماری بحث مزید بامعنی بنائیں گے۔

ساتھیو،

گذشتہ چند برسوں  کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک کے غریبوں کو بااختیار بنانے کی سمت میں بینک اکاؤنٹ کھلنے سے، ٹیکہ کاری کی توسیع سے، صحت کی سہولیات بڑھنے سے، مفت بجلی کے کنکشن ملنے سے، مفت گیس کنکشن، مفت ٹوائلٹ تعمیر کے منصوبوں سے، ان کے زندگی میں، خاص طور پر غریبوں کی زندگی میں ایک بے نظیر تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ ملک میں اب ہر غریب کو پکی چھت دینے کی مہم بھی تیز رفتاری  سے جاری ہے۔ کچھ ریاستیں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، کچھ ریاستوں کو اپنی رفتار بڑھانے کی ضرورت بھی ہے۔ 2014 کے بعد سے دیکھیں تو دیہاتوں اور شہروں کو ملا کر 2 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ گھروں کی تعمیر مکمل کی گئی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملک کے چھ شہروں میں جدید ٹیکنالوجی سے گھروں کو بنانے کی ایک مہم چل رہی ہے۔ ایک آدھ ماہ کے اندر اندر نئی ٹیکنالوجی سے، تیزی سے اچھے معیار کے مضبوط مکان بنانے کی سمت میں ملک کے 6 شہروں میں نئے ماڈل تیار ہوں گے۔ ہر ریاست کے لیے یہ مفید ہونے والا ہے۔ اسی طرح پانی کی کمی اور گندے پانی سے ہونے والی بیماری، لوگوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، غذائی قلت کے مسائل کو وہ بڑھائے نہیں، اس سمت میں بھی مشن موڈ میں کام ہو رہا ہے۔ جل جیون مشن شروع ہونے کے بعد سے گذشتہ 18 ماہ میں ہی ساڑھے تین کروڑ سے بھی زیادہ دیہی گھروں کو پائپ  سے پانی کی سپلائی سے جوڑا جا چکا ہے۔ دیہاتوں میں انٹرنیٹ رابطے کے لیے بھارت نیٹ اسکیم ایک بڑی تبدیلی کا وسیلہ بن رہی ہے۔ ایسی تمام اسکیموں میں جب مرکز اور ریاستی حکومتیں مل کر کام کریں گی تو کام کی رفتار بھی بڑھے گی اور آخری شخص تک اس کا فائدہ پہنچنا بھی یقینی ہو جائے گا۔

ساتھیو،

اس سال کے بجٹ پر جس طرح کا ایک مثبت ردعمل آیا ہے، چاروں طرف سے ایک نئی امید کا ماحول پیدا ہو ا ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قوم کا موڈ کیا ہے۔ ملک من بنا چکا ہے، ملک تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا ہے، ملک اب وقت نہیں گنوانا چاہتا ہے۔ اور مجموعی طور پر ملک کے ذہن کو بنانے میں ملک کا نوجوان ذہن بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور تبھی اس تبدیلی کے تئیں ایک نئی کشش پیدا ہوئی ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ملک کا نجی شعبہ، ملک کی اس ترقی کے سفر میں اور زیادہ جوش و خروش سے آگے آ رہا ہے۔ حکومت میں ہونے کے ناطےہمیں اس جوش و خروش کا، نجی شعبہ کی توانائی کا احترام بھی کرنا ہے اور اسے آتم نربھر بھارت ابھیان میں اتنا ہی موقع بھی دینا ہے۔ خود کفیل بھارت ایک ایسے نئے بھارت کی طرف قدم ہے جہاں ہر شخص، ہر ادارے، ہر انٹرپرائز کو اپنی مکمل صلاحیتوں سے آگے بڑھنے کا موقع ملے۔

ساتھیو،

آتم نربھر بھارت ابھیان، ایک ایسے بھارت کی تعمیر کی راہ ہے جو نہ صرف آپ کی ضروریات کے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی پیداوار کرے اور یہ پیداوار عالمی برتری کی کسوٹی پر بھی کھری اترے۔ اور اسی لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں زیرو ڈفیکٹ زیرو ایفیکٹ۔ بھارت جیسا نوجوان ملک، اس کی امنگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں جدید بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنی ہوگی ، جدت طرازی کو فروغ دینا ہوگا، ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا پڑے گا، تعلیم، ہنرمندی کے بہتر مواقع ان کو دینے ہوں گے۔

ساتھیو،

ہمیں اپنے کاروباروں کو، بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو، اسٹارٹ اپس کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری  ہر ریاست کی اپنی ایک خوبی ہے، ہر ریاست کے ہر ضلع کے پاس اپنا ہنر ہے، اپنی خصوصیت ہے۔ کئی قسم کے امکانات، ہم قریب سے دیکھیں تو نظر آتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے، ملک کے سیکڑوں اضلاع کی مصنوعات کو شارٹ لسٹ کر کے ان کے قدر افزائی کے لیے، مارکیٹنگ اور برآمد کے لیے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس سے ریاستوں کے درمیان ایک صحت مند مسابقت اب شروع ہوئی ہے لیکن اسے مزید آگے بڑھانا ہے۔ کون سی ریاست سب سے زیادہ برآمد کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ قسم کی چیزیں برآمد کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ ممالک میں برآمد کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ قیمت کی چیزیں برآمد کرتی ہے۔ اور پھر اضلاع میں بھی یہ مقابلے ہوںاور ان برآمد ات پر خصوصی توجہ ہر ریاست ہر ضلع میں کس طرح دے۔ ہمیں اس تجربے کو ضلعوں اور بلاک سطح تک بھی لے کر جانا ہے۔ ہمیں ریاستوں کے وسائل کا مکمل استعمال کرنا پڑے گا، ریاستوں سے ہونے والی برآمد ہمیں اس کا حساب ہر ماہ لینا چاہیے،  اور اس کو بڑھانا ضروری ہے۔

پالیسی فریم ورک  اور مرکز اور ریاستوں کے درمیان بہتر تال میل بھی بہت ضروری ہے۔ اب جیسے ہمارے یہاں ساحلی ریاستوں میں ماہی پروری کی صنعت کو، نیلی معیشت کو اور مچھلی کو بیرون ملک برآمد کرنے کے لیے لامحدود مواقع  موجود ہیں۔ ہماری ساحلی ریاستیں اس کے لیے کیوں نہ خصوصی پہل  لیں۔ دیکھیے  اس سے معیشت کو بہت بڑی طاقت  مل سکتی ہے، ہمارے ماہی گیر وں کو بہت تقویت مل سکتی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ اس بات سے واقف ہوں کہ مرکزی حکومت نے مختلف شعبوں کے لیے پی ایل آئی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ یہ ملک میں مینو فیکچرنگ بڑھانے کا بہترین موقع ہے۔ ریاستوں کو بھی اس اسکیم کا مکمل فائدہ لیتے ہوئے اپنے یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری  کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کم کرنے کا فائدہ بھی ریاستوں کو بڑھ چڑھ کر اٹھانا چاہیے۔ آپ کو اس طرح کی کمپنیوں سے رابطہ کرنا چاہیے کی دنیا میں جب اتنا کم ٹیکس ریٹ دیا گیا ہے تو اس کا فائدہ آپ کی ریاست کو ملنا چاہیے۔

ساتھیو،

اس بار کے بجٹ میں بنیادی ڈھانچے کے لیے مختص کیے گئے فنڈ پر بھی کافی بحث ہو رہی ہے۔ بنیادی ڈھانچے  پر ہونے والا یہ خرچ ملک کی معیشت کو کئی سطحوں  پر آگے بڑھانے کا کام کرے گا، روزگار کے بھی بہت سے مواقع پیدا کرے گا۔ اس کاایک ضربی اثر  ہوتا ہے ۔ نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن میں ریاستوں کا حصہ 40 فیصد ہے اور اس لیے یہ ضروری ہے کہ ریاستیں اور مرکز مل کر اپنے بجٹوں کو ہم آہنگ کریں، منصوبہ بندی  اور ترجیحات کو طے کریں۔ اب بھارت سرکار نے اپنے بجٹ کو پہلے کے مقابلے میں ایک مہینہ پیشتر کردیا ہے۔ ریاستوں کے بجٹ اور مرکز کے بجٹ کے درمیان تین چار ہفتے مل جاتے ہیں۔ مرکز کے بجٹ کی روشنی میں ریاستوں کا بجٹ بنتا ہے تو دونوں مل کر ایک سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔ اور میں چاہوں گا کہ اس سمت میں ریاستوں کے بجٹ بحث کرتے ہوں گے۔ جن ریاستوں کا بجٹ اب آنے والا ہے، وہ اس کام کو مزید ترجیحی طور  پر کر سکتے ہیں۔ مرکزی بجٹ کے ساتھ ہی، ریاستوں کا بجٹ بھی ترقی کو رفتار دینے میں، ریاستوں کو خود کفیل بنانے میں اتنا ہی اہم ہے۔

ساتھیو،

15 ویں فنانس کمیشن میں لوکل باڈیز کے اقتصادی وسائل میں بڑا اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر حکمرانی میں اصلاح، لوگوں کے معیار زندگی اور ان کے اعتماد کی بنیاد بنتی ہے۔ ان اصلاحات میں ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ عوامی حصہ داری بھی بہت ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنچایتی راج سسٹم اور شہری  اداروں کے منتخب نمائندوں کو اس انضمام اور نتیجے کے لیے جواب دہ بنانے کا بھی وقت آ گیا ہے۔ مقامی سطح پر تبدیلی کے لیے ضلع، ریاست اور مرکز ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو نتائج کتنے مثبت آتے ہیں، اس کے لیے امنگ رکھنے والے اضلاع کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امنگ رکھنے والے ضلعوں کا جو استعمال رہا ہے وہ اچھے نتائج دے رہا ہے۔ لیکن گذشتہ کچھ دنوں میں کورونا وبا کے سبب سے جو رفتار آنی چاہیے تھی وہ نہیں آئی ہے۔ تاہم اب دوبارہ ہم اس پر زور دے سکتے ہیں۔

 

ساتھیو،

زراعت کا میدان بے شمار صلاحیتوں سے پُر ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ سچائیاں ہمیں قبول کرنی ہوں گی۔ ہم کھیتی پردھان ملک کہے جاتے ہیں اس کے باوجود بھی آج قریب قریب 65-70 ہزار کروڑ روپے کا خوردنی تیل ہم باہر سے لاتے ہیں۔ یہ ہم بند کر سکتے ہیں۔ ہمارے کسانوں کے اکاؤنٹ میں پیسہ جا سکتا ہے۔ ان پیسوں کا حق دار تو ہمارا کسان ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمارے منصوبے اس طرح سے ہمیں بنانے  ہوں گی۔ ہم نے گذشتہ دنوں دالوں میں تجربہ کیا تھا، اس میں کامیابی ملی۔ ابھی دالیں درآمد کرنے میں ہمارا خرچ کافی کم ہوا ہے۔ ایسی کئی چیزیں، بہت سے کھانے کی چیزیں بلا وجہ ہماری میز پر آج آ جاتی ہیں۔ ہمارے ملک کے کسانوں کو ایسی چیزوں کی پیداوار میں کوئی مشکل نہیں ہے، تھوڑی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور اس وجہ سے ایسی کئی زرعی مصنوعات ہیں، جو ہمارے کسان نہ صرف ملک کے لیے پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کو بھی سپلائی کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی خود زرعی ماحولیاتی ضابطہ جاتی منصوبہ بندی ، اس کی حکمت عملی بنائیں، اس کے حساب سے کسانوں کی مدد کریں۔

ساتھیو،

گذشتہ برسوں میں زراعت سے لے کر، مویشی پروری اور ماہی پروری تک ایک ہمہ جہت  اپروچ اپنائی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کورونا وبا کے دور میں بھی ملک میں زرعی برآمد میں بہت اضافہ  ہوا ہے۔ لیکن ہماری صلاحیت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہمارے مصنوعات کا ضیاع کم سے کم ہو، اس کے لیے ذخیرہ کاری اور پروسیسنگ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس میں سرمایہ کاری کے لیے ہم جتنی بھی صاحیت کے حامل ہیں، جہاں بھی ہیں اسے شامل کرنا ہوگا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ بھارت، جنوب مشرقی ایشیا میں خام مچھلی برآمد کرتا ہے۔ جو میں نے ابتدا میں کہا وہاں اس مچھلی کو پراسیس کرکے بھاری منافع  پر پراسیس شدہ ماہی مصنوعات کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ کیا ہم براہ راست پراسیس شدہ مچھلی پر مبنی اشیا کو بڑے پیمانے پر برآمد نہیں کر سکتے؟ ہماری تمام ساحلی ریاستیں خود پہل لے کر اس پوری عالمی مارکیٹ میں اپنا اثر پیدا نہیں کرسکتیں؟ ایسی صورت حال بہت سے علاقوں، کئی دوسری مصنوعات کے ساتھ بھی ہے۔ ہمارے کسانوں کو ضروری مالی وسائل ملیں، بہتر بنیادی ڈھانچہ ملے، جدید ٹکنالوجی ملے، اس کے لیے اصلاحات بہت ضروری ہیں۔

ساتھیو،

حال ہی میں ایسی کئی اصلاحات کی گئی ہیں جو ضابطہ بندی کو کم کرتی ہیں، حکومت کے دخل کو کم کرتی ہیں۔ میں نے گذشتہ دنوں دیکھا، حکومت میں عام شخص کو شکایات ، ہزاروں ایسی شکایات ہیں جن کو ہم ختم کر سکتے ہیں۔ جیسے پچھلے دنوں ہم نے 1500 قانون ختم کیے۔ میں ریاستوں پر زور دوں گا آپ کو ایک چھوٹی سی ٹیم بٹھائیے، بغیر کسی وجہ  سے اب ، جب ٹیکنالوجی ہے تو بار بار چیزیں مانگنے کی ضرورت نہیں ہے لوگوں سے۔ یہ شکایات کا بوجھ ملک کے شہری کے سر سے ہم کم کریں۔ ریاستیں آگے آئیں۔ میں نے بھی بھارت سرکار میں کہا ہے اور ہمارے کابینہ سکریٹری اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ شکایات کی تعداد اب جتنی کم ہو، کرنی ہے۔ یہ بھی گزر بسر میں آسانی کے لیے بہت ضروری ہے۔

اسی طرح سے  ساتھیو، نوجوانوں کو اپنی صلاحیت کھل کر دکھانے کا بھی ہمیں موقع دینا ہوگا۔ کچھ مہینے پہلے ہی آپ نے دیکھا ہوگا کچھ اہم فیصلے کیے گئے۔ اس کا تذکرہ بہت زیادہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ او ایس پی ضابطوں کی اصلاح کی گئی تھی۔ اس سے نوجوانوں کو کہیں سے بھی کام کرنے کی لچک ملی ہے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ ہمارے ٹکنالوجی شعبے کو ملا ہے۔

میں اب گذشتہ دنوں آئی ٹی سیکٹر کے لوگوں سے بات کر رہا تھا۔ مجھے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان کے 95 فیصد لوگ اب گھر سے ہی کام کر رہے ہیں اور ان کا کام اچھا چل رہا ہے۔ اب دیکھیے یہ کتنی بڑی  تبدیلی آ رہی ہے۔ ہمیں ان چیزوں پر زور دینا ہوگا۔ ہمیں ایسی جو بندشیں ہیں ان ساری بندشوں کو ختم کرنا چاہیے۔ کافی حد تک ہم نے گذشتہ دنوں اصلاحات کے ذریعے کیا بھی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کچھ دن پہلے ہم نے ایک بہت اہم فیصلہ کیا ہے۔ جغرافیائی ڈیٹا سے منسلک قوانین کو بھی لبرلائز کر دیا ہے۔ جو ابھی ہم نے کیا ہے وہ اگر آج سے دس سال پہلے ہم کر پاتے تو شاید یہ گوگل وغیرہ بھارت سے باہر نہیں بنتے، وہ ہمارے یہاں بنتے۔ ہمارے ہی لوگوں کا ٹیلنٹ ہے لیکن مصنوعات ہماری  نہیں ہیں۔ اس سے ہماری سٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی شعبے کو تو بہت بڑی مدد ملی ہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ ملک کے عام شہری کی گزر بسر میں آسانی  بڑھانے میں بھی مددگار ہو۔

 

اور ساتھیو میں، دو چیزوں پر کی درخواست کروں گا۔ آج دنیا میں ہمیں ایک موقع حاصل ہوا ہے۔ اس موقع کو جٹانے کے لیے ہماری کوشش رہنی چاہیے کاروبار میں آسانی ، اور بھارت کے شہریوں کے لیے ہماری کوشش رہنی چاہیے گزر بسر میں آسانی  ۔ دنیا بھر میں بھارت کے مقام کے لیے۔ بھارت کو مواقع دلانے کے لیے کاروبار میں آسانی کی اہمیت ہے اور اس کے لیے ہمارے قوانین میں اصلاح کرنی ہوگی، انتظامات میں اصلاح کرنی ہوگی، اور ملک کے شہریوں کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کرنے کے لیے ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے، گزر بسر میں آسانی کے لیے جو چیز ضروری ہے، اس پر زور دینا ہوگا۔

ساتھیو،

میں اب آپ کے تجربات، آپ کی آرا سننے کے لیے بے چین ہوں۔ آج ہم دن بھر بیٹھنے والے ہیں۔ درمیان میں ایک چھوٹا سا وقفہ لیں گے ۔ لیکن ہم تمام موضوعات پر بات کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ سب کی طرف سے تخلیقی اور مثبت خیالات سننے کو ملیں گے جو ملک کو آگے لے جانے میں بہت کام آئیں گے۔ اور ہم سب مل کر، مرکزی اور ریاستیں، ہم ایک ملک کے طور پر ایک ہی سمت میں جتنی طاقت لگا سکتے ہیں ، لگا کر دنیا میں ایک بے مثال موقع بھارت میں پیدا ہوتا ہے، یہ موقع ہم جانے نہیں دیں گے۔ اسی ایک توقع کے ساتھ پھر ایک بار اس اہم اجلاس میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ آپ کی تجاویز کا انتظار کرتا ہوں۔  بہت بہت شکریہ

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
80% of equity mutual funds outperform respective benchmarks in October 2024, PL Wealth study finds

Media Coverage

80% of equity mutual funds outperform respective benchmarks in October 2024, PL Wealth study finds
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.