نمسکار!
نیتی آیوگ کی گوورننگ کونسل میں، میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ملک کی ترقی کی بنیاد یہ ہے کہ مرکز اور ریاستیں مل کر کام کریں اور متعین سمت میں آگے بڑھیں۔ کوآپریٹیو وفاق کو زیادہ بامعنی بنانا ہے اور یہی نہیں، ہمیں فعال مسابقتی کوآپریٹیو وفاق کو نہ صرف ریاستوں کے درمیان لے جانا ہے بلکہ ضلعی سطح تک بھی لے جانا ہے ، تاکہ ترقی کی یہ مسابقت برابر جاری رہے، ترقی کرنا ایک پرائم ایجنڈا بنا رہے۔ ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا مقابلہ کس طرح فروغ پائے ، اس پر غور و فکر کرنے کی خاطر ہم نے پہلے بھی کئی بار بات چیت کی ہے ، آج بھی فطری بات ہے کہ اس اجلاس میں اس بات پر زور دیا جائے گا۔ ہم نے کورونا وبا کے دوران دیکھا کہ کس طرح جب ریاستوں اور مرکزی حکومت نے مل کر کام کیا، تو پورا ملک کامیاب ہوا اور دنیا میں بھی بھارت کی ایک اچھی شبیہ کی تعمیر ہوئی۔
ساتھیو،
آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرنے جا رہا ہے، اس پس منظر میں اس گورننگ کونسل کا اجلاس اور بھی اہم ہو گیا ہے۔ میں ریاستوں سے بھی درخواست کروں گا کہ آزادی کے 75 سال کی تکمیل کے موقع پر اپنی اپنی ریاستوں میں معاشرے کے تمام لوگوں کو شامل کرکے کمیٹیوں کی تشکیل ہو، اضلاع میں بھی کمیٹیوں کی تشکیل ہو۔ اب سے کچھ دیر پہلے اس اجلاس کے لیے پوائنٹس کا ایک سرسری تذکرہ آپ کے سامنے ہوا ہے۔ ایجنڈے کے ان نکات کا انتخاب، ملک کی اہم ترین ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ان ایجنڈا پوائنٹس پر ریاستوں سے تجاویز لینے کے لیے، ریاستوں کو تیاری کے لیے کافی وقت دینے کے لیے، ایک نیا تجربہ کیا گیا کہ اس بار کی نیتی آیوگ کے ساتھ ریاستوں کے تمام اہم حکام کے ساتھ ایک اچھی سی ورکشاپ کا انعقاد بھی ہوا ، اس سے قبل۔ اور اس بحث میں جو پوائنٹس آئے ان کو بھی اس میں شامل کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے۔ اور اس کی وجہ سے بہت بہتر اور ایک قسم سے ریاستوں کی توقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایجنڈا بنا ہے۔ اس عمل سے گزرنے کی وجہ سے اس بار گورننگ کونسل کے ایجنڈا کے نکات بہت متعین ہوگئے ہیں اور یہ ہماری بحث مزید بامعنی بنائیں گے۔
ساتھیو،
گذشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک کے غریبوں کو بااختیار بنانے کی سمت میں بینک اکاؤنٹ کھلنے سے، ٹیکہ کاری کی توسیع سے، صحت کی سہولیات بڑھنے سے، مفت بجلی کے کنکشن ملنے سے، مفت گیس کنکشن، مفت ٹوائلٹ تعمیر کے منصوبوں سے، ان کے زندگی میں، خاص طور پر غریبوں کی زندگی میں ایک بے نظیر تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ ملک میں اب ہر غریب کو پکی چھت دینے کی مہم بھی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ کچھ ریاستیں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، کچھ ریاستوں کو اپنی رفتار بڑھانے کی ضرورت بھی ہے۔ 2014 کے بعد سے دیکھیں تو دیہاتوں اور شہروں کو ملا کر 2 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ گھروں کی تعمیر مکمل کی گئی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ملک کے چھ شہروں میں جدید ٹیکنالوجی سے گھروں کو بنانے کی ایک مہم چل رہی ہے۔ ایک آدھ ماہ کے اندر اندر نئی ٹیکنالوجی سے، تیزی سے اچھے معیار کے مضبوط مکان بنانے کی سمت میں ملک کے 6 شہروں میں نئے ماڈل تیار ہوں گے۔ ہر ریاست کے لیے یہ مفید ہونے والا ہے۔ اسی طرح پانی کی کمی اور گندے پانی سے ہونے والی بیماری، لوگوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، غذائی قلت کے مسائل کو وہ بڑھائے نہیں، اس سمت میں بھی مشن موڈ میں کام ہو رہا ہے۔ جل جیون مشن شروع ہونے کے بعد سے گذشتہ 18 ماہ میں ہی ساڑھے تین کروڑ سے بھی زیادہ دیہی گھروں کو پائپ سے پانی کی سپلائی سے جوڑا جا چکا ہے۔ دیہاتوں میں انٹرنیٹ رابطے کے لیے بھارت نیٹ اسکیم ایک بڑی تبدیلی کا وسیلہ بن رہی ہے۔ ایسی تمام اسکیموں میں جب مرکز اور ریاستی حکومتیں مل کر کام کریں گی تو کام کی رفتار بھی بڑھے گی اور آخری شخص تک اس کا فائدہ پہنچنا بھی یقینی ہو جائے گا۔
ساتھیو،
اس سال کے بجٹ پر جس طرح کا ایک مثبت ردعمل آیا ہے، چاروں طرف سے ایک نئی امید کا ماحول پیدا ہو ا ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ قوم کا موڈ کیا ہے۔ ملک من بنا چکا ہے، ملک تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا ہے، ملک اب وقت نہیں گنوانا چاہتا ہے۔ اور مجموعی طور پر ملک کے ذہن کو بنانے میں ملک کا نوجوان ذہن بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور تبھی اس تبدیلی کے تئیں ایک نئی کشش پیدا ہوئی ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ملک کا نجی شعبہ، ملک کی اس ترقی کے سفر میں اور زیادہ جوش و خروش سے آگے آ رہا ہے۔ حکومت میں ہونے کے ناطےہمیں اس جوش و خروش کا، نجی شعبہ کی توانائی کا احترام بھی کرنا ہے اور اسے آتم نربھر بھارت ابھیان میں اتنا ہی موقع بھی دینا ہے۔ خود کفیل بھارت ایک ایسے نئے بھارت کی طرف قدم ہے جہاں ہر شخص، ہر ادارے، ہر انٹرپرائز کو اپنی مکمل صلاحیتوں سے آگے بڑھنے کا موقع ملے۔
ساتھیو،
آتم نربھر بھارت ابھیان، ایک ایسے بھارت کی تعمیر کی راہ ہے جو نہ صرف آپ کی ضروریات کے لیے بلکہ دنیا کے لیے بھی پیداوار کرے اور یہ پیداوار عالمی برتری کی کسوٹی پر بھی کھری اترے۔ اور اسی لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں زیرو ڈفیکٹ زیرو ایفیکٹ۔ بھارت جیسا نوجوان ملک، اس کی امنگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں جدید بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنی ہوگی ، جدت طرازی کو فروغ دینا ہوگا، ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا پڑے گا، تعلیم، ہنرمندی کے بہتر مواقع ان کو دینے ہوں گے۔
ساتھیو،
ہمیں اپنے کاروباروں کو، بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو، اسٹارٹ اپس کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ہر ریاست کی اپنی ایک خوبی ہے، ہر ریاست کے ہر ضلع کے پاس اپنا ہنر ہے، اپنی خصوصیت ہے۔ کئی قسم کے امکانات، ہم قریب سے دیکھیں تو نظر آتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے، ملک کے سیکڑوں اضلاع کی مصنوعات کو شارٹ لسٹ کر کے ان کے قدر افزائی کے لیے، مارکیٹنگ اور برآمد کے لیے فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس سے ریاستوں کے درمیان ایک صحت مند مسابقت اب شروع ہوئی ہے لیکن اسے مزید آگے بڑھانا ہے۔ کون سی ریاست سب سے زیادہ برآمد کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ قسم کی چیزیں برآمد کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ ممالک میں برآمد کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ قیمت کی چیزیں برآمد کرتی ہے۔ اور پھر اضلاع میں بھی یہ مقابلے ہوںاور ان برآمد ات پر خصوصی توجہ ہر ریاست ہر ضلع میں کس طرح دے۔ ہمیں اس تجربے کو ضلعوں اور بلاک سطح تک بھی لے کر جانا ہے۔ ہمیں ریاستوں کے وسائل کا مکمل استعمال کرنا پڑے گا، ریاستوں سے ہونے والی برآمد ہمیں اس کا حساب ہر ماہ لینا چاہیے، اور اس کو بڑھانا ضروری ہے۔
پالیسی فریم ورک اور مرکز اور ریاستوں کے درمیان بہتر تال میل بھی بہت ضروری ہے۔ اب جیسے ہمارے یہاں ساحلی ریاستوں میں ماہی پروری کی صنعت کو، نیلی معیشت کو اور مچھلی کو بیرون ملک برآمد کرنے کے لیے لامحدود مواقع موجود ہیں۔ ہماری ساحلی ریاستیں اس کے لیے کیوں نہ خصوصی پہل لیں۔ دیکھیے اس سے معیشت کو بہت بڑی طاقت مل سکتی ہے، ہمارے ماہی گیر وں کو بہت تقویت مل سکتی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ اس بات سے واقف ہوں کہ مرکزی حکومت نے مختلف شعبوں کے لیے پی ایل آئی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ یہ ملک میں مینو فیکچرنگ بڑھانے کا بہترین موقع ہے۔ ریاستوں کو بھی اس اسکیم کا مکمل فائدہ لیتے ہوئے اپنے یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کم کرنے کا فائدہ بھی ریاستوں کو بڑھ چڑھ کر اٹھانا چاہیے۔ آپ کو اس طرح کی کمپنیوں سے رابطہ کرنا چاہیے کی دنیا میں جب اتنا کم ٹیکس ریٹ دیا گیا ہے تو اس کا فائدہ آپ کی ریاست کو ملنا چاہیے۔
ساتھیو،
اس بار کے بجٹ میں بنیادی ڈھانچے کے لیے مختص کیے گئے فنڈ پر بھی کافی بحث ہو رہی ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر ہونے والا یہ خرچ ملک کی معیشت کو کئی سطحوں پر آگے بڑھانے کا کام کرے گا، روزگار کے بھی بہت سے مواقع پیدا کرے گا۔ اس کاایک ضربی اثر ہوتا ہے ۔ نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن میں ریاستوں کا حصہ 40 فیصد ہے اور اس لیے یہ ضروری ہے کہ ریاستیں اور مرکز مل کر اپنے بجٹوں کو ہم آہنگ کریں، منصوبہ بندی اور ترجیحات کو طے کریں۔ اب بھارت سرکار نے اپنے بجٹ کو پہلے کے مقابلے میں ایک مہینہ پیشتر کردیا ہے۔ ریاستوں کے بجٹ اور مرکز کے بجٹ کے درمیان تین چار ہفتے مل جاتے ہیں۔ مرکز کے بجٹ کی روشنی میں ریاستوں کا بجٹ بنتا ہے تو دونوں مل کر ایک سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔ اور میں چاہوں گا کہ اس سمت میں ریاستوں کے بجٹ بحث کرتے ہوں گے۔ جن ریاستوں کا بجٹ اب آنے والا ہے، وہ اس کام کو مزید ترجیحی طور پر کر سکتے ہیں۔ مرکزی بجٹ کے ساتھ ہی، ریاستوں کا بجٹ بھی ترقی کو رفتار دینے میں، ریاستوں کو خود کفیل بنانے میں اتنا ہی اہم ہے۔
ساتھیو،
15 ویں فنانس کمیشن میں لوکل باڈیز کے اقتصادی وسائل میں بڑا اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر حکمرانی میں اصلاح، لوگوں کے معیار زندگی اور ان کے اعتماد کی بنیاد بنتی ہے۔ ان اصلاحات میں ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ عوامی حصہ داری بھی بہت ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنچایتی راج سسٹم اور شہری اداروں کے منتخب نمائندوں کو اس انضمام اور نتیجے کے لیے جواب دہ بنانے کا بھی وقت آ گیا ہے۔ مقامی سطح پر تبدیلی کے لیے ضلع، ریاست اور مرکز ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو نتائج کتنے مثبت آتے ہیں، اس کے لیے امنگ رکھنے والے اضلاع کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امنگ رکھنے والے ضلعوں کا جو استعمال رہا ہے وہ اچھے نتائج دے رہا ہے۔ لیکن گذشتہ کچھ دنوں میں کورونا وبا کے سبب سے جو رفتار آنی چاہیے تھی وہ نہیں آئی ہے۔ تاہم اب دوبارہ ہم اس پر زور دے سکتے ہیں۔
ساتھیو،
زراعت کا میدان بے شمار صلاحیتوں سے پُر ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ سچائیاں ہمیں قبول کرنی ہوں گی۔ ہم کھیتی پردھان ملک کہے جاتے ہیں اس کے باوجود بھی آج قریب قریب 65-70 ہزار کروڑ روپے کا خوردنی تیل ہم باہر سے لاتے ہیں۔ یہ ہم بند کر سکتے ہیں۔ ہمارے کسانوں کے اکاؤنٹ میں پیسہ جا سکتا ہے۔ ان پیسوں کا حق دار تو ہمارا کسان ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمارے منصوبے اس طرح سے ہمیں بنانے ہوں گی۔ ہم نے گذشتہ دنوں دالوں میں تجربہ کیا تھا، اس میں کامیابی ملی۔ ابھی دالیں درآمد کرنے میں ہمارا خرچ کافی کم ہوا ہے۔ ایسی کئی چیزیں، بہت سے کھانے کی چیزیں بلا وجہ ہماری میز پر آج آ جاتی ہیں۔ ہمارے ملک کے کسانوں کو ایسی چیزوں کی پیداوار میں کوئی مشکل نہیں ہے، تھوڑی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور اس وجہ سے ایسی کئی زرعی مصنوعات ہیں، جو ہمارے کسان نہ صرف ملک کے لیے پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کو بھی سپلائی کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی خود زرعی ماحولیاتی ضابطہ جاتی منصوبہ بندی ، اس کی حکمت عملی بنائیں، اس کے حساب سے کسانوں کی مدد کریں۔
ساتھیو،
گذشتہ برسوں میں زراعت سے لے کر، مویشی پروری اور ماہی پروری تک ایک ہمہ جہت اپروچ اپنائی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کورونا وبا کے دور میں بھی ملک میں زرعی برآمد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ہماری صلاحیت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہمارے مصنوعات کا ضیاع کم سے کم ہو، اس کے لیے ذخیرہ کاری اور پروسیسنگ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس میں سرمایہ کاری کے لیے ہم جتنی بھی صاحیت کے حامل ہیں، جہاں بھی ہیں اسے شامل کرنا ہوگا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ بھارت، جنوب مشرقی ایشیا میں خام مچھلی برآمد کرتا ہے۔ جو میں نے ابتدا میں کہا وہاں اس مچھلی کو پراسیس کرکے بھاری منافع پر پراسیس شدہ ماہی مصنوعات کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ کیا ہم براہ راست پراسیس شدہ مچھلی پر مبنی اشیا کو بڑے پیمانے پر برآمد نہیں کر سکتے؟ ہماری تمام ساحلی ریاستیں خود پہل لے کر اس پوری عالمی مارکیٹ میں اپنا اثر پیدا نہیں کرسکتیں؟ ایسی صورت حال بہت سے علاقوں، کئی دوسری مصنوعات کے ساتھ بھی ہے۔ ہمارے کسانوں کو ضروری مالی وسائل ملیں، بہتر بنیادی ڈھانچہ ملے، جدید ٹکنالوجی ملے، اس کے لیے اصلاحات بہت ضروری ہیں۔
ساتھیو،
حال ہی میں ایسی کئی اصلاحات کی گئی ہیں جو ضابطہ بندی کو کم کرتی ہیں، حکومت کے دخل کو کم کرتی ہیں۔ میں نے گذشتہ دنوں دیکھا، حکومت میں عام شخص کو شکایات ، ہزاروں ایسی شکایات ہیں جن کو ہم ختم کر سکتے ہیں۔ جیسے پچھلے دنوں ہم نے 1500 قانون ختم کیے۔ میں ریاستوں پر زور دوں گا آپ کو ایک چھوٹی سی ٹیم بٹھائیے، بغیر کسی وجہ سے اب ، جب ٹیکنالوجی ہے تو بار بار چیزیں مانگنے کی ضرورت نہیں ہے لوگوں سے۔ یہ شکایات کا بوجھ ملک کے شہری کے سر سے ہم کم کریں۔ ریاستیں آگے آئیں۔ میں نے بھی بھارت سرکار میں کہا ہے اور ہمارے کابینہ سکریٹری اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ شکایات کی تعداد اب جتنی کم ہو، کرنی ہے۔ یہ بھی گزر بسر میں آسانی کے لیے بہت ضروری ہے۔
اسی طرح سے ساتھیو، نوجوانوں کو اپنی صلاحیت کھل کر دکھانے کا بھی ہمیں موقع دینا ہوگا۔ کچھ مہینے پہلے ہی آپ نے دیکھا ہوگا کچھ اہم فیصلے کیے گئے۔ اس کا تذکرہ بہت زیادہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ او ایس پی ضابطوں کی اصلاح کی گئی تھی۔ اس سے نوجوانوں کو کہیں سے بھی کام کرنے کی لچک ملی ہے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ ہمارے ٹکنالوجی شعبے کو ملا ہے۔
میں اب گذشتہ دنوں آئی ٹی سیکٹر کے لوگوں سے بات کر رہا تھا۔ مجھے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ ان کے 95 فیصد لوگ اب گھر سے ہی کام کر رہے ہیں اور ان کا کام اچھا چل رہا ہے۔ اب دیکھیے یہ کتنی بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ ہمیں ان چیزوں پر زور دینا ہوگا۔ ہمیں ایسی جو بندشیں ہیں ان ساری بندشوں کو ختم کرنا چاہیے۔ کافی حد تک ہم نے گذشتہ دنوں اصلاحات کے ذریعے کیا بھی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کچھ دن پہلے ہم نے ایک بہت اہم فیصلہ کیا ہے۔ جغرافیائی ڈیٹا سے منسلک قوانین کو بھی لبرلائز کر دیا ہے۔ جو ابھی ہم نے کیا ہے وہ اگر آج سے دس سال پہلے ہم کر پاتے تو شاید یہ گوگل وغیرہ بھارت سے باہر نہیں بنتے، وہ ہمارے یہاں بنتے۔ ہمارے ہی لوگوں کا ٹیلنٹ ہے لیکن مصنوعات ہماری نہیں ہیں۔ اس سے ہماری سٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی شعبے کو تو بہت بڑی مدد ملی ہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ ملک کے عام شہری کی گزر بسر میں آسانی بڑھانے میں بھی مددگار ہو۔
اور ساتھیو میں، دو چیزوں پر کی درخواست کروں گا۔ آج دنیا میں ہمیں ایک موقع حاصل ہوا ہے۔ اس موقع کو جٹانے کے لیے ہماری کوشش رہنی چاہیے کاروبار میں آسانی ، اور بھارت کے شہریوں کے لیے ہماری کوشش رہنی چاہیے گزر بسر میں آسانی ۔ دنیا بھر میں بھارت کے مقام کے لیے۔ بھارت کو مواقع دلانے کے لیے کاروبار میں آسانی کی اہمیت ہے اور اس کے لیے ہمارے قوانین میں اصلاح کرنی ہوگی، انتظامات میں اصلاح کرنی ہوگی، اور ملک کے شہریوں کی امیدوں اور امنگوں کو پورا کرنے کے لیے ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے، گزر بسر میں آسانی کے لیے جو چیز ضروری ہے، اس پر زور دینا ہوگا۔
ساتھیو،
میں اب آپ کے تجربات، آپ کی آرا سننے کے لیے بے چین ہوں۔ آج ہم دن بھر بیٹھنے والے ہیں۔ درمیان میں ایک چھوٹا سا وقفہ لیں گے ۔ لیکن ہم تمام موضوعات پر بات کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ سب کی طرف سے تخلیقی اور مثبت خیالات سننے کو ملیں گے جو ملک کو آگے لے جانے میں بہت کام آئیں گے۔ اور ہم سب مل کر، مرکزی اور ریاستیں، ہم ایک ملک کے طور پر ایک ہی سمت میں جتنی طاقت لگا سکتے ہیں ، لگا کر دنیا میں ایک بے مثال موقع بھارت میں پیدا ہوتا ہے، یہ موقع ہم جانے نہیں دیں گے۔ اسی ایک توقع کے ساتھ پھر ایک بار اس اہم اجلاس میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ آپ کی تجاویز کا انتظار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ