Quote’’روحانی گوشہ کے ساتھ ساتھ عقائد کے مرکز بھی سماجی بیداری پھیلانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں‘‘
Quote’’ایودھیا کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں رام نومی بڑے زور شور سے منائی جا رہی ہے‘‘
Quoteپانی کے تحفظ اور قدرتی کھیتی کی اہمیت پر زور دیا
Quote’’کم غذائیت کے درد کو پوری طرح سے ختم کرنے کی ضرورت ہے‘‘
Quote’’کووڈ وائرس بہت گمراہ کن ہے اور ہمیں اس کے لیے محتاط رہنا ہوگا‘‘

اومیہ ماتا کی جے!

گجرات کے مقبول، نرم دل اور مضبوط قوت ارادی والے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی بھائی پرشوتم روپالا، ریاستی حکومت کے سبھی وزراء، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی، دیگر سبھی اراکین اسمبلی، پنچایتوں، میونسپل کارپوریشنوں میں سبھی منتخب عوامی نمائندے، اوما دھام گھاٹلا کے صدر بال جی بھائی پھلدو، دیگر عہدیداران اور سماج کے دور دور سے آئے سبھی معززین اور بڑی تعداد میں موجود مائیں اور بہنیں – جنھیں آج ماں اومیہ کے 14ویں پاٹوتسو کے موقع پر میں خاص طور پر سلام پیش کرتا ہوں۔  آپ سبھی کو اس مبارک باد موقع پر ڈھیر ساری نیک خواہشات، بہت بہت مبارکباد۔

گزشتہ دسمبر میں مجھے ماتا اومیہ دھام مندر اور اومیہ دھام کیمپس کا سنگ بنیاد رکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا  اور آج مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے گھاٹیلا کی اس عظیم الشان تقریب میں مدعو کیا ہے۔ اگر میں براہ راست آیا ہوتا تو مجھے  زیادہ خوشی ہوتی، لیکن میں براہ راست نہیں آ سکا  پھر بھی دور سے پرانے معززین کے درشن ہو سکتے ہیں ، وہ بھی میرے لیے خوشی کا موقع ہے۔

آج چیترا نوراتری کا نواں دن ہے۔ میں آپ سب کو  نیک خواہشات  پیش کرتا ہوں کہ ماں سدھا تری آپ کی تمام خواہشات  پوری کریں ۔ ہمارا گرنار جپ اور تپ کی سرزمین ہے۔ گرنار دھام میں رونق افروز  ماں امبا۔ اور اسی طرح تعلیم اور دیکشا  کا مقام بھی یہی گرنار دھام ہے۔ اور میں اس مقدس سرزمین کو سلام کرتا ہوں  جہاں بھگوان دتاتریہ براجمان  ہیں۔ یہ بھی ماں کا کرم ہے کہ ہم سب مل کر ہمیشہ گجرات کی فکر کرتے رہے ہیں، گجرات کی ترقی کے لیے کوشاں رہے ہیں، گجرات کی ترقی کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے رہے ہیں اور مل کر کر رہے ہیں۔

میں نے ہمیشہ اس اجتماعیت کی طاقت کو محسوس کیا ہے۔ آج جب بھگوان رام چندر جی کا پراگٹیہ  مہوتسو بھی ہے، ایودھیا میں یہ تہوار بڑی شان و شو کت سے منایا جا رہا ہے، ملک بھر میں منایا جا رہا ہے، یہ بھی ہمارے لیے ایک اہم بات ہے۔

آپ سب کے درمیان آنا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں، ماں  اومیہ کے قدموں میں جانا کوئی نئی بات نہیں۔ شاید پچھلے 35 سالوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں، کسی موقع پر میں آپ کے درمیان نہ آیا ہوں۔ اسی طرح آج ایک بار پھر مجھے معلوم ہوا، مجھے کسی نے ابھی بتایا تھا، 2008 میں مجھے یہاں افتتاح کے لیے آنے کا موقع ملا تھا ۔ یہ مقدس مقام ایک طرح سے تعظیم کا مرکز رہا ہے، لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ سماجی شعور کا مرکز بھی بن گیا ہے۔ اور سیاحت کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ 60 سے زائد کمرے بنائے گئے ہیں، کئی شادی ہال بنائے گئے ہیں، ایک عظیم الشان کھانے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ ایک طرح سے ماں اومیہ آشیرواد  سے آپ سب کی طرف سے ماں اومیہ کے عقیدت مندوں اور سماج کو شعور دینے کے لیے جو بھی ضرورتیں ہیں پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور میں تمام ٹرسٹیوں، نگرانوں اور ماں اومیہ کے عقیدت مندوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے 14 سال کے اس مختصر عرصے میں کام کو بڑھایا ہے۔

ابھی ہمارے وزیر اعلیٰ نے بہت جذباتی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دھرتی ہماری ماں ہے اور اگر میں اومیہ ماتا کا بھکت ہوں تو میرے پاس اس دھرتی ماں  کو تکلیف دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیا ہم اپنی ماں کو بغیر کسی وجہ کے گھر میں دوائی دیں گے؟ کیا آپ بغیر کسی وجہ کے خون چڑھانے  وغیرہ کا کام  کریں گے؟ ہم جانتے ہیں کہ ماں کو اتنا  ہی دینا پڑتا ہے جتنا انہیں چاہئے ۔ لیکن ہم نے ماں دھرتی کے لیے فرض کر لیا ہے کہ انہیں  یہ چاہیے، وہ چاہئے … پھر ماں بھی اوب جائیں کہ نہ اوب جائیں ۔

اور اس کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنی مصیبتیں آرہی ہیں۔ اس ماں دھرتی کو بچانا ایک بڑی مہم ہے۔ ہم ماضی میں پانی کے بحران میں زندگی گزار رہے تھے۔ خشک سالی ہماری مستقل  تشویش تھی۔ لیکن جب سے ہم نے چیک ڈیم کی مہم شروع کی، پانی ذخیرہ کرنے کی مہم شروع کی، پر ڈراپ مور کراپ کی مہم شروع کی، ڈرپ اریگیشن کی مہم چلائی ، سونی ا سکیم نافذ کی، پانی کے لیے بہت کوششیں کیں۔

گجرات میں جب میں وزیر اعلیٰ تھا اور کسی دوسری ریاست کے وزیر اعلیٰ سے بات کرتا تھا کہ  ہمیں یہاں پانی کے لیے اتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہماری حکومت کا زیادہ تر وقت پانی کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے،  تو دوسری ریاستیں حیران ہوتی تھیں ، کیونکہ انہیں اس مصیبت کا اندازہ نہیں تھا۔ ہم آہستہ آہستہ اس مصیبت سے نکل آئے، کیونکہ ہم نے ایک عوامی تحریک شروع کی۔ آپ سب کے تعاون سے ایک عوامی تحریک چلائی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عوامی تحریک چلائی ۔ اور آج پانی کے تئیں  بیداری ہے۔ لیکن پھر بھی میرا ماننا ہے کہ ہمیں پانی کے تحفظ کے لیے بالکل بھی لاتعلق نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ کام ہر بارش سے پہلے کرنا ہے۔ تالاب گہرے بنانے ہیں، نالیاں صاف کرنی ہیں، یہ سب کام کرنے ہیں، تب ہی پانی جمع ہوگا اور پانی زمین میں اترے گا۔ اسی طرح اب سوچنا پڑے گا کہ کیمیکل سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ ورنہ ایک دن دھرتی ماں کہے گی کہ اب بہت ہو گیا.. تم جاؤ.. میں تمہاری خدمت نہیں کرنا چاہتی  اور چاہے آپ کتنا ہی پسینہ بہا لیں، کتنے ہی مہنگے بیج بو لیں، کوئی پیداوار نہیں ہوگی۔ اس  دھرتی ماں  کو بچانا ہے۔ اور اس کے لیے یہ اچھی بات ہے کہ گجرات میں ہمیں ایسے گورنر ملے ہیں جو قدرتی کھیتی کے لیے پوری طرح وقف ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ گجرات کے ہر تعلقہ میں گئے اور قدرتی کھیتی کے لیے کسانوں کی کئی کانفرنسیں منعقد کیں۔ میں خوش ہوں ۔ روپالا جی بتا رہے تھے کہ لاکھوں کسان قدرتی کھیتی کی طرف بڑھے ہیں اور وہ قدرتی کھیتی کو اپنانے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔ اب جب کہ وزیر اعلیٰ نے کال دی ہے، ہمیں ایک نرم اور پرعزم وزیر اعلیٰ مل گیا ہے، تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے جذبات کو سچ کریں۔ گجرات کے دیہاتوں میں کسان قدرتی کھیتی کے لیے آگے آئے۔ جس طرح کیشو بھائی اور میں نے پانی کے لیے محنت کی، اسی طرح بھوپیندر بھائی ماں دھرتی کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

|

گجرات کے تمام لوگوں کو اس  دھرتی  ماں کو بچانے کی کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ آپ جو بھی کام کرتے ہیں اس میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اونجھا میں بیٹی بچاؤ کے حوالے سے بہت پریشان تھا۔ ماں اومیہ کا تیرتھ ہو اور بیٹیوں کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ پھر میں ایک بار ماں  اومیہ کے قدموں میں گیا اور معاشرے کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ آپ سب مجھ سے وعدہ کریں کہ بیٹیوں کو بچانا ہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ گجرات میں ماں اومیہ کے عقیدت مندوں، ماں کھوڈل دھام کے عقیدت مندوں اور پورے گجرات نے اس بات کو اٹھالیا ۔ اور گجرات میں بیٹیوں کو بچانے کے لیے  ،اور ماں کے پیٹ میں  بیٹیوں کو نہیں مارنا چاہیے، اس کیلئے کافی بیداری آئی۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ گجرات کی بیٹیاں کیا کمال کر رہی ہیں، ہمارے مہسانہ کی بیٹی دیویانگ نے اولمپکس میں جا کر پرچم لہرایا۔ اس بار اولمپکس میں جانے والی کھلاڑیوں میں گجرات کی 6 بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ کون فخر نہیں کرے گا-- اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اومیہ ماں کی سچی عقیدت یہ ہے کہ یہ طاقت ہمارے اندر آتی ہے، اور اس طاقت کی مدد سے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ہم جتنا زیادہ قدرتی زراعت پر زور دیں گے، ہم بھوپیندر بھائی کی اتنی ہی مدد کریں گے، ہماری  دھرتی  ماں سرسبز ہو جائے گی۔ گجرات کھل اٹھے گا ،آج آگے تو بڑھا ہی ہے، لیکن مزید کھل اٹھے گا۔

اور ایک دوسرا خیال بھی میرے ذہن میں آتا ہے، ہمارے گجرات میں بچےسوئے تغذیہ  کا شکار ہیں، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ گھر میں ماں کہتی ہے کھا لو مگر وہ نہیں کھاتا ۔ غربت نہیں ہے لیکن کھانے پینے کی عادات ایسی ہیں کہ جسم کو پرورش نہیں ملتی۔ اگر بیٹی کو خون کی کمی ہو اور وہ بیس چوبیس سال میں شادی کر لے تو اس کے پیٹ سے  کیسا بچہ پیدا ہو گا؟ ماں مضبوط نہ ہو تو بچے کا کیا بنے گا؟ اس لیے بیٹیوں کی صحت کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے اور عام طور پر تمام بچوں کی صحت کا خیال رکھا جانا  چاہیے۔

مجھے یقین ہے کہ ماتا اومیہ کے تمام عقیدت مند گاؤں گاؤں جائیں گے اوروہ  پانچ  دس بچے حاصل  کریں گے - خواہ وہ کسی بھی معاشرے سے ہوں -  اور وہ اس بات کی کوشش کریں گے کہ وہ  اب سوئے تغذیہ  کا شکار نہیں ہوں- ہمیں ایسا عزم کرنا چاہیے۔ کیونکہ بچہ مضبوط ہوگا تو خاندان بھی مضبوط ہوگا اور معاشرہ بھی مضبوط ہوگا اور ملک بھی مضبوط ہوگا۔ آپ پا ٹوتسو کر رہے ہیں، آج خون کے عطیہ وغیرہ کے پروگرام بھی ہو چکے ہیں۔ اب یہ کریں ماں اومیہ ٹرسٹ کے ذریعے گاؤں گاؤں میں صحت مند بچوں کا مسابقہ  کروائیں۔ دو، تین، چار سال کے تمام بچوں کی تپاس ہو اور جو تندرست ہو اسے انعام  دیا جائے ۔ سارا ماحول بدل جائے گا۔ یہ ایک چھوٹا سا کام ہے، لیکن ہم اسے اچھی طرح سے کر سکتے ہیں۔

ابھی مجھے بتایا گیا کہ یہاں بہت سے شادی ہال بنائے گئے ہیں۔ بارہ مہینے شادیاں نہیں ہوتیں۔ اس جگہ کا کیا استعمال ہوتا ہے ؟ ہم وہاں کوچنگ کلاسز چلا سکتے ہیں، یہاں غریب بچے آئیں ، معاشرے کے لوگ پڑھانے کا کام کریں ۔ ایک گھنٹے کے لیے، دو گھنٹے کے لیے، جگہ کافی کام آئے گی۔ اسی طرح یوگا کا مرکز بھی ہو سکتا ہے۔ ہر صبح ماں اومیہ کے درشن بھی ہوجائیں، گھنٹے دو گھنٹے یوگا پروگرام ہو، اور اس جگہ کا اچھا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جگہ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، تب ہی یہ حقیقی معنوں میں سماجی شعور کا مرکز بنے گا۔ اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔

|

یہ آزادی کے امرت مہوتسو کا وقت ہے –  ایک طرح سے یہ ہمارے لیے بہت اہم دور ہے۔ 2047 میں جب ملک آزادی کی سو سالہ تقریبات منا رہا ہوگا  تو ہم کہاں ہوں گے، ہمارا گاؤں کہاں ہوگا، ہمارا معاشرہ کہاں ہوگا، ہمارا ملک کہاں تک پہنچ چکا ہوگا، یہ خواب اور عزم ہر شہری میں پیدا ہونا چاہیے۔ اور آزادی کے امرت مہوتسو سے ہم ایسا شعور لا سکتے ہیں، تاکہ معاشرے میں اچھے کام کیے جا سکیں، جس سے ہماری نئی نسل کو اطمینان حاصل ہو۔ اور اس طرح میرے ذہن میں ایک چھوٹا سا خیال آیا، کہ آزادی کے امرت مہوتسو پر، ہر ضلع نے آزادی کے 75 سال مکمل کر لیے ہیں، تو 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ پرانی جھیلیں ہیں، انہیں بڑی، گہری اور بہتر بنائیں۔ ایک ضلع میں 75۔ آپ سوچیں آج سے 25 سال بعد جب آزادی کی صد ی  منائی جارہی ہو گی تو وہ نسل دیکھے گی کہ ہمارے گاؤں کے لوگوں نے 75 سال بعد یہ تالاب بنایا تھا۔ اور اگر کسی گاؤں میں تالاب ہو تو وہاں طاقت ہوتی ہے ۔ پاٹیدار تبھی پانیدار بنتے ہیں جب پانی ہو۔ اس لیے ہم بھی ماں اومیہ کی رہنمائی میں اس 75 تالاب کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اور یہ کوئی بڑا کام نہیں، ہم نے لاکھوں چیک ڈیم بنائے، ہم ایسے لوگ ہیں۔ آپ تصور کریں کہ یہ کتنی بڑی خدمت ہوگی۔ 15 اگست 2023 سے پہلے کام مکمل کر لیں گے۔ معاشرے کو تحریک ملے، ایسا کام ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ ہر 15 اگست کو تالاب کے قریب پرچم کشائی کا پروگرام بھی گاؤں کے سینئر کو بلا کر منعقد کیا جائے - ہم جیسے لیڈروں کو مدعو نہ کریں۔ گاؤں کے سینئر کو بلا کر پرچم کشائی کا پروگرام منعقد کریں۔

|

آج بھگوان رام چندر جی کا جنم دن ہے۔ جب ہم بھگوان رام چندر جی کو یاد کرتے ہیں، ہمیں شبری یاد آتی ہے ، ہمیں کیوٹ  یاد آتے ہیں، ہمیں نشاد راجہ یاد آتے ہیں، سماج کے ایسے چھوٹے لوگوں کا نام آتا ہے کہ بھگوان رام کا مطلب یہ سب کچھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو معاشرے کے پسماندہ طبقے کا خیال رکھتا ہے، وہ مستقبل میں لوگوں کے ذہنوں میں عزت کا مقام پاتا ہے۔ ماں اومیہ کے عقیدت مند سماج کے پسماندہ لوگوں کو اپنا سمجھتے ہیں - کسی بھی معاشرے کا دکھی، غریب - خواہ وہ کچھ بھی ہو۔ بھگوان رام کو بھگوان اور پورن پرشوتم کہا جاتا ہے، اس کی اصل میں یہ ہے کہ  انہوں نے معاشرے کے چھوٹے لوگوں کے لیے جس طرح زندگی گزاری اور ان کے درمیان کس طرح زندگی گزاری، ان کی شان کم نہیں  ہے ۔ ماں اومیہ کے عقیدت مند بھی خود آگے بڑھیں، لیکن کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے، انہیں بھی اس کی فکر کرنی چاہیے۔ تبھی ہمارا آگے بڑھنا درست ہو گا، ورنہ جو پیچھے رہ گیا ہے وہ آگے بڑھنے والے کو پیچھے کھینچ لے گا۔ پھر ہمیں مزید محنت کرنی پڑے گی، اس لیے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے پیچھے والوں کو آگے لاتے رہیں گے تو ہم بھی آگے بڑھیں گے۔

میری آپ سب سے گزارش ہے کہ آزادی کا یہ امرت مہوتسو، بھگوان رام کا پراگٹیہ  مہوتسو اور ماں اومیہ کا پوٹوتسو اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے ہیں، پھر جس رفتار سے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، آپ دیکھیں، کورونا کتنا ہے۔ ایک بہت بڑا بحران آیا ہے، اور اب بحران ختم ہو گیا ہے، ہمیں یقین نہیں کیونکہ  یہ اب بھی کہیں  کہیں دکھائی دے رہا ہے۔ کافی بہو روپی ہے یہ بیماری۔ اس کے سامنے مقابلہ کرنے کے لئے تقریبا 185 کروڑ خوراکیں ۔دنیا کے لوگ سنتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوا - آپ سب کے تعاون کی وجہ سے۔ اس لیے ہم بڑے پیمانے پر بیداری لائیں گے۔ اب صفائی کی مہم،  ہماری فطرت کیوں نہ بن جائے، ہم پلاسٹک کا استعمال نہیں کریں گے- کیوں نہ ہماری فطرت بن جائے، ہم سنگل یوز پلاسٹک کا استعمال نہیں کریں گے۔ گائے کی پوجا کرتے ہیں، ماں اومیہ کے عقیدت مند ہیں، جانور کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر وہ پلاسٹک کھاتی ہے تو ماں اومیہ کے  عقیدت مند ہونے کے ناطے یہ درست نہیں ہے۔ اگر ہم ان سب چیزوں کو لے کر آگے بڑھیں تو.. اور مجھے خوشی ہے کہ آپ نے سماجی کاموں میں اضافہ کیا ہے۔ پوٹوتسو کے ساتھ، پوجا پاٹھ ، تعظیم، عقیدہ، جو کچھ  بھی ہوتا ہے ،وہ ہوتا ہے  ، لیکن اس سے آگے آپ نے پوری نوجوان نسل کو ساتھ لے کر، خون کا عطیہ وغیرہ کا جو بھی کام کیا ہے ۔ میری تمام نیک تمنائیں ہیں۔ آپ کے درمیان دور سے ہی سہی لیکن ّآنے کا موقع ملا ، میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے ۔

آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ۔ ماں او میہ کے قدموں  میں پرنام !

شکریہ!

  • JBL SRIVASTAVA July 04, 2024

    नमो नमो
  • Vaishali Tangsale February 15, 2024

    🙏🏻🙏🏻🙏🏻
  • Shivkumragupta Gupta July 23, 2022

    नमो नमो नमो नमो नमो नमो नमो
  • G.shankar Srivastav May 28, 2022

    नमो
  • Sanjay Kumar Singh May 14, 2022

    Jai Shri Laxmi Narsimh
  • R N Singh BJP May 12, 2022

    jai hind 5
  • ranjeet kumar May 10, 2022

    omm
  • Vivek Kumar Gupta May 05, 2022

    जय जयश्रीराम
  • Vivek Kumar Gupta May 05, 2022

    नमो नमो.
  • Vivek Kumar Gupta May 05, 2022

    जयश्रीराम
Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Laying the digital path to a developed India

Media Coverage

Laying the digital path to a developed India
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
India is driving global growth today: PM Modi at Republic Plenary Summit
March 06, 2025
QuoteIndia's achievements and successes have sparked a new wave of hope across the globe: PM
QuoteIndia is driving global growth today: PM
QuoteToday's India thinks big, sets ambitious targets and delivers remarkable results: PM
QuoteWe launched the SVAMITVA Scheme to grant property rights to rural households in India: PM
QuoteYouth is the X-Factor of today's India, where X stands for Experimentation, Excellence, and Expansion: PM
QuoteIn the past decade, we have transformed impact-less administration into impactful governance: PM
QuoteEarlier, construction of houses was government-driven, but we have transformed it into an owner-driven approach: PM

नमस्कार!

आप लोग सब थक गए होंगे, अर्णब की ऊंची आवाज से कान तो जरूर थक गए होंगे, बैठिये अर्णब, अभी चुनाव का मौसम नहीं है। सबसे पहले तो मैं रिपब्लिक टीवी को उसके इस अभिनव प्रयोग के लिए बहुत बधाई देता हूं। आप लोग युवाओं को ग्रासरूट लेवल पर इन्वॉल्व करके, इतना बड़ा कंपटीशन कराकर यहां लाए हैं। जब देश का युवा नेशनल डिस्कोर्स में इन्वॉल्व होता है, तो विचारों में नवीनता आती है, वो पूरे वातावरण में एक नई ऊर्जा भर देता है और यही ऊर्जा इस समय हम यहां महसूस भी कर रहे हैं। एक तरह से युवाओं के इन्वॉल्वमेंट से हम हर बंधन को तोड़ पाते हैं, सीमाओं के परे जा पाते हैं, फिर भी कोई भी लक्ष्य ऐसा नहीं रहता, जिसे पाया ना जा सके। कोई मंजिल ऐसी नहीं रहती जिस तक पहुंचा ना जा सके। रिपब्लिक टीवी ने इस समिट के लिए एक नए कॉन्सेप्ट पर काम किया है। मैं इस समिट की सफलता के लिए आप सभी को बहुत-बहुत बधाई देता हूं, आपका अभिनंदन करता हूं। अच्छा मेरा भी इसमें थोड़ा स्वार्थ है, एक तो मैं पिछले दिनों से लगा हूं, कि मुझे एक लाख नौजवानों को राजनीति में लाना है और वो एक लाख ऐसे, जो उनकी फैमिली में फर्स्ट टाइमर हो, तो एक प्रकार से ऐसे इवेंट मेरा जो यह मेरा मकसद है उसका ग्राउंड बना रहे हैं। दूसरा मेरा व्यक्तिगत लाभ है, व्यक्तिगत लाभ यह है कि 2029 में जो वोट करने जाएंगे उनको पता ही नहीं है कि 2014 के पहले अखबारों की हेडलाइन क्या हुआ करती थी, उसे पता नहीं है, 10-10, 12-12 लाख करोड़ के घोटाले होते थे, उसे पता नहीं है और वो जब 2029 में वोट करने जाएगा, तो उसके सामने कंपैरिजन के लिए कुछ नहीं होगा और इसलिए मुझे उस कसौटी से पार होना है और मुझे पक्का विश्वास है, यह जो ग्राउंड बन रहा है ना, वो उस काम को पक्का कर देगा।

साथियों,

आज पूरी दुनिया कह रही है कि ये भारत की सदी है, ये आपने नहीं सुना है। भारत की उपलब्धियों ने, भारत की सफलताओं ने पूरे विश्व में एक नई उम्मीद जगाई है। जिस भारत के बारे में कहा जाता था, ये खुद भी डूबेगा और हमें भी ले डूबेगा, वो भारत आज दुनिया की ग्रोथ को ड्राइव कर रहा है। मैं भारत के फ्यूचर की दिशा क्या है, ये हमें आज के हमारे काम और सिद्धियों से पता चलता है। आज़ादी के 65 साल बाद भी भारत दुनिया की ग्यारहवें नंबर की इकॉनॉमी था। बीते दशक में हम दुनिया की पांचवें नंबर की इकॉनॉमी बने, और अब उतनी ही तेजी से दुनिया की तीसरी सबसे बड़ी अर्थव्यवस्था बनने जा रहे हैं।

|

साथियों,

मैं आपको 18 साल पहले की भी बात याद दिलाता हूं। ये 18 साल का खास कारण है, क्योंकि जो लोग 18 साल की उम्र के हुए हैं, जो पहली बार वोटर बन रहे हैं, उनको 18 साल के पहले का पता नहीं है, इसलिए मैंने वो आंकड़ा लिया है। 18 साल पहले यानि 2007 में भारत की annual GDP, एक लाख करोड़ डॉलर तक पहुंची थी। यानि आसान शब्दों में कहें तो ये वो समय था, जब एक साल में भारत में एक लाख करोड़ डॉलर की इकॉनॉमिक एक्टिविटी होती थी। अब आज देखिए क्या हो रहा है? अब एक क्वार्टर में ही लगभग एक लाख करोड़ डॉलर की इकॉनॉमिक एक्टिविटी हो रही है। इसका क्या मतलब हुआ? 18 साल पहले के भारत में साल भर में जितनी इकॉनॉमिक एक्टिविटी हो रही थी, उतनी अब सिर्फ तीन महीने में होने लगी है। ये दिखाता है कि आज का भारत कितनी तेजी से आगे बढ़ रहा है। मैं आपको कुछ उदाहरण दूंगा, जो दिखाते हैं कि बीते एक दशक में कैसे बड़े बदलाव भी आए और नतीजे भी आए। बीते 10 सालों में, हम 25 करोड़ लोगों को गरीबी से बाहर निकालने में सफल हुए हैं। ये संख्या कई देशों की कुल जनसंख्या से भी ज्यादा है। आप वो दौर भी याद करिए, जब सरकार खुद स्वीकार करती थी, प्रधानमंत्री खुद कहते थे, कि एक रूपया भेजते थे, तो 15 पैसा गरीब तक पहुंचता था, वो 85 पैसा कौन पंजा खा जाता था और एक आज का दौर है। बीते दशक में गरीबों के खाते में, DBT के जरिए, Direct Benefit Transfer, DBT के जरिए 42 लाख करोड़ रुपए से ज्यादा ट्रांसफर किए गए हैं, 42 लाख करोड़ रुपए। अगर आप वो हिसाब लगा दें, रुपये में से 15 पैसे वाला, तो 42 लाख करोड़ का क्या हिसाब निकलेगा? साथियों, आज दिल्ली से एक रुपया निकलता है, तो 100 पैसे आखिरी जगह तक पहुंचते हैं।

साथियों,

10 साल पहले सोलर एनर्जी के मामले में भारत दुनिया में कहीं गिनती नहीं होती थी। लेकिन आज भारत सोलर एनर्जी कैपेसिटी के मामले में दुनिया के टॉप-5 countries में से है। हमने सोलर एनर्जी कैपेसिटी को 30 गुना बढ़ाया है। Solar module manufacturing में भी 30 गुना वृद्धि हुई है। 10 साल पहले तो हम होली की पिचकारी भी, बच्चों के खिलौने भी विदेशों से मंगाते थे। आज हमारे Toys Exports तीन गुना हो चुके हैं। 10 साल पहले तक हम अपनी सेना के लिए राइफल तक विदेशों से इंपोर्ट करते थे और बीते 10 वर्षों में हमारा डिफेंस एक्सपोर्ट 20 गुना बढ़ गया है।

|

साथियों,

इन 10 वर्षों में, हम दुनिया के दूसरे सबसे बड़े स्टील प्रोड्यूसर हैं, दुनिया के दूसरे सबसे बड़े मोबाइल फोन मैन्युफैक्चरर हैं और दुनिया का तीसरा सबसे बड़ा स्टार्टअप इकोसिस्टम बने हैं। इन्हीं 10 सालों में हमने इंफ्रास्ट्रक्चर पर अपने Capital Expenditure को, पांच गुना बढ़ाया है। देश में एयरपोर्ट्स की संख्या दोगुनी हो गई है। इन दस सालों में ही, देश में ऑपरेशनल एम्स की संख्या तीन गुना हो गई है। और इन्हीं 10 सालों में मेडिकल कॉलेजों और मेडिकल सीट्स की संख्या भी करीब-करीब दोगुनी हो गई है।

साथियों,

आज के भारत का मिजाज़ कुछ और ही है। आज का भारत बड़ा सोचता है, बड़े टार्गेट तय करता है और आज का भारत बड़े नतीजे लाकर के दिखाता है। और ये इसलिए हो रहा है, क्योंकि देश की सोच बदल गई है, भारत बड़ी Aspirations के साथ आगे बढ़ रहा है। पहले हमारी सोच ये बन गई थी, चलता है, होता है, अरे चलने दो यार, जो करेगा करेगा, अपन अपना चला लो। पहले सोच कितनी छोटी हो गई थी, मैं इसका एक उदाहरण देता हूं। एक समय था, अगर कहीं सूखा हो जाए, सूखाग्रस्त इलाका हो, तो लोग उस समय कांग्रेस का शासन हुआ करता था, तो मेमोरेंडम देते थे गांव के लोग और क्या मांग करते थे, कि साहब अकाल होता रहता है, तो इस समय अकाल के समय अकाल के राहत के काम रिलीफ के वर्क शुरू हो जाए, गड्ढे खोदेंगे, मिट्टी उठाएंगे, दूसरे गड्डे में भर देंगे, यही मांग किया करते थे लोग, कोई कहता था क्या मांग करता था, कि साहब मेरे इलाके में एक हैंड पंप लगवा दो ना, पानी के लिए हैंड पंप की मांग करते थे, कभी कभी सांसद क्या मांग करते थे, गैस सिलेंडर इसको जरा जल्दी देना, सांसद ये काम करते थे, उनको 25 कूपन मिला करती थी और उस 25 कूपन को पार्लियामेंट का मेंबर अपने पूरे क्षेत्र में गैस सिलेंडर के लिए oblige करने के लिए उपयोग करता था। एक साल में एक एमपी 25 सिलेंडर और यह सारा 2014 तक था। एमपी क्या मांग करते थे, साहब ये जो ट्रेन जा रही है ना, मेरे इलाके में एक स्टॉपेज दे देना, स्टॉपेज की मांग हो रही थी। यह सारी बातें मैं 2014 के पहले की कर रहा हूं, बहुत पुरानी नहीं कर रहा हूं। कांग्रेस ने देश के लोगों की Aspirations को कुचल दिया था। इसलिए देश के लोगों ने उम्मीद लगानी भी छोड़ दी थी, मान लिया था यार इनसे कुछ होना नहीं है, क्या कर रहा है।। लोग कहते थे कि भई ठीक है तुम इतना ही कर सकते हो तो इतना ही कर दो। और आज आप देखिए, हालात और सोच कितनी तेजी से बदल रही है। अब लोग जानते हैं कि कौन काम कर सकता है, कौन नतीजे ला सकता है, और यह सामान्य नागरिक नहीं, आप सदन के भाषण सुनोगे, तो विपक्ष भी यही भाषण करता है, मोदी जी ये क्यों नहीं कर रहे हो, इसका मतलब उनको लगता है कि यही करेगा।

|

साथियों,

आज जो एस्पिरेशन है, उसका प्रतिबिंब उनकी बातों में झलकता है, कहने का तरीका बदल गया , अब लोगों की डिमांड क्या आती है? लोग पहले स्टॉपेज मांगते थे, अब आकर के कहते जी, मेरे यहां भी तो एक वंदे भारत शुरू कर दो। अभी मैं कुछ समय पहले कुवैत गया था, तो मैं वहां लेबर कैंप में नॉर्मली मैं बाहर जाता हूं तो अपने देशवासी जहां काम करते हैं तो उनके पास जाने का प्रयास करता हूं। तो मैं वहां लेबर कॉलोनी में गया था, तो हमारे जो श्रमिक भाई बहन हैं, जो वहां कुवैत में काम करते हैं, उनसे कोई 10 साल से कोई 15 साल से काम, मैं उनसे बात कर रहा था, अब देखिए एक श्रमिक बिहार के गांव का जो 9 साल से कुवैत में काम कर रहा है, बीच-बीच में आता है, मैं जब उससे बातें कर रहा था, तो उसने कहा साहब मुझे एक सवाल पूछना है, मैंने कहा पूछिए, उसने कहा साहब मेरे गांव के पास डिस्ट्रिक्ट हेड क्वार्टर पर इंटरनेशनल एयरपोर्ट बना दीजिए ना, जी मैं इतना प्रसन्न हो गया, कि मेरे देश के बिहार के गांव का श्रमिक जो 9 साल से कुवैत में मजदूरी करता है, वह भी सोचता है, अब मेरे डिस्ट्रिक्ट में इंटरनेशनल एयरपोर्ट बनेगा। ये है, आज भारत के एक सामान्य नागरिक की एस्पिरेशन, जो विकसित भारत के लक्ष्य की ओर पूरे देश को ड्राइव कर रही है।

साथियों,

किसी भी समाज की, राष्ट्र की ताकत तभी बढ़ती है, जब उसके नागरिकों के सामने से बंदिशें हटती हैं, बाधाएं हटती हैं, रुकावटों की दीवारें गिरती है। तभी उस देश के नागरिकों का सामर्थ्य बढ़ता है, आसमान की ऊंचाई भी उनके लिए छोटी पड़ जाती है। इसलिए, हम निरंतर उन रुकावटों को हटा रहे हैं, जो पहले की सरकारों ने नागरिकों के सामने लगा रखी थी। अब मैं उदाहरण देता हूं स्पेस सेक्टर। स्पेस सेक्टर में पहले सबकुछ ISRO के ही जिम्मे था। ISRO ने निश्चित तौर पर शानदार काम किया, लेकिन स्पेस साइंस और आंत्रप्रन्योरशिप को लेकर देश में जो बाकी सामर्थ्य था, उसका उपयोग नहीं हो पा रहा था, सब कुछ इसरो में सिमट गया था। हमने हिम्मत करके स्पेस सेक्टर को युवा इनोवेटर्स के लिए खोल दिया। और जब मैंने निर्णय किया था, किसी अखबार की हेडलाइन नहीं बना था, क्योंकि समझ भी नहीं है। रिपब्लिक टीवी के दर्शकों को जानकर खुशी होगी, कि आज ढाई सौ से ज्यादा स्पेस स्टार्टअप्स देश में बन गए हैं, ये मेरे देश के युवाओं का कमाल है। यही स्टार्टअप्स आज, विक्रम-एस और अग्निबाण जैसे रॉकेट्स बना रहे हैं। ऐसे ही mapping के सेक्टर में हुआ, इतने बंधन थे, आप एक एटलस नहीं बना सकते थे, टेक्नॉलाजी बदल चुकी है। पहले अगर भारत में कोई मैप बनाना होता था, तो उसके लिए सरकारी दरवाजों पर सालों तक आपको चक्कर काटने पड़ते थे। हमने इस बंदिश को भी हटाया। आज Geo-spatial mapping से जुडा डेटा, नए स्टार्टअप्स का रास्ता बना रहा है।

|

साथियों,

न्यूक्लियर एनर्जी, न्यूक्लियर एनर्जी से जुड़े सेक्टर को भी पहले सरकारी कंट्रोल में रखा गया था। बंदिशें थीं, बंधन थे, दीवारें खड़ी कर दी गई थीं। अब इस साल के बजट में सरकार ने इसको भी प्राइवेट सेक्टर के लिए ओपन करने की घोषणा की है। और इससे 2047 तक 100 गीगावॉट न्यूक्लियर एनर्जी कैपेसिटी जोड़ने का रास्ता मजबूत हुआ है।

साथियों,

आप हैरान रह जाएंगे, कि हमारे गांवों में 100 लाख करोड़ रुपए, Hundred lakh crore rupees, उससे भी ज्यादा untapped आर्थिक सामर्थ्य पड़ा हुआ है। मैं आपके सामने फिर ये आंकड़ा दोहरा रहा हूं- 100 लाख करोड़ रुपए, ये छोटा आंकड़ा नहीं है, ये आर्थिक सामर्थ्य, गांव में जो घर होते हैं, उनके रूप में उपस्थित है। मैं आपको और आसान तरीके से समझाता हूं। अब जैसे यहां दिल्ली जैसे शहर में आपके घर 50 लाख, एक करोड़, 2 करोड़ के होते हैं, आपकी प्रॉपर्टी की वैल्यू पर आपको बैंक लोन भी मिल जाता है। अगर आपका दिल्ली में घर है, तो आप बैंक से करोड़ों रुपये का लोन ले सकते हैं। अब सवाल यह है, कि घर दिल्ली में थोड़े है, गांव में भी तो घर है, वहां भी तो घरों का मालिक है, वहां ऐसा क्यों नहीं होता? गांवों में घरों पर लोन इसलिए नहीं मिलता, क्योंकि भारत में गांव के घरों के लीगल डॉक्यूमेंट्स नहीं होते थे, प्रॉपर मैपिंग ही नहीं हो पाई थी। इसलिए गांव की इस ताकत का उचित लाभ देश को, देशवासियों को नहीं मिल पाया। और ये सिर्फ भारत की समस्या है ऐसा नहीं है, दुनिया के बड़े-बड़े देशों में लोगों के पास प्रॉपर्टी के राइट्स नहीं हैं। बड़ी-बड़ी अंतरराष्ट्रीय संस्थाएं कहती हैं, कि जो देश अपने यहां लोगों को प्रॉपर्टी राइट्स देता है, वहां की GDP में उछाल आ जाता है।

|

साथियों,

भारत में गांव के घरों के प्रॉपर्टी राइट्स देने के लिए हमने एक स्वामित्व स्कीम शुरु की। इसके लिए हम गांव-गांव में ड्रोन से सर्वे करा रहे हैं, गांव के एक-एक घर की मैपिंग करा रहे हैं। आज देशभर में गांव के घरों के प्रॉपर्टी कार्ड लोगों को दिए जा रहे हैं। दो करोड़ से अधिक प्रॉपर्टी कार्ड सरकार ने बांटे हैं और ये काम लगातार चल रहा है। प्रॉपर्टी कार्ड ना होने के कारण पहले गांवों में बहुत सारे विवाद भी होते थे, लोगों को अदालतों के चक्कर लगाने पड़ते थे, ये सब भी अब खत्म हुआ है। इन प्रॉपर्टी कार्ड्स पर अब गांव के लोगों को बैंकों से लोन मिल रहे हैं, इससे गांव के लोग अपना व्यवसाय शुरू कर रहे हैं, स्वरोजगार कर रहे हैं। अभी मैं एक दिन ये स्वामित्व योजना के तहत वीडियो कॉन्फ्रेंस पर उसके लाभार्थियों से बात कर रहा था, मुझे राजस्थान की एक बहन मिली, उसने कहा कि मैंने मेरा प्रॉपर्टी कार्ड मिलने के बाद मैंने 9 लाख रुपये का लोन लिया गांव में और बोली मैंने बिजनेस शुरू किया और मैं आधा लोन वापस कर चुकी हूं और अब मुझे पूरा लोन वापस करने में समय नहीं लगेगा और मुझे अधिक लोन की संभावना बन गई है कितना कॉन्फिडेंस लेवल है।

साथियों,

ये जितने भी उदाहरण मैंने दिए हैं, इनका सबसे बड़ा बेनिफिशरी मेरे देश का नौजवान है। वो यूथ, जो विकसित भारत का सबसे बड़ा स्टेकहोल्डर है। जो यूथ, आज के भारत का X-Factor है। इस X का अर्थ है, Experimentation Excellence और Expansion, Experimentation यानि हमारे युवाओं ने पुराने तौर तरीकों से आगे बढ़कर नए रास्ते बनाए हैं। Excellence यानी नौजवानों ने Global Benchmark सेट किए हैं। और Expansion यानी इनोवेशन को हमारे य़ुवाओं ने 140 करोड़ देशवासियों के लिए स्केल-अप किया है। हमारा यूथ, देश की बड़ी समस्याओं का समाधान दे सकता है, लेकिन इस सामर्थ्य का सदुपयोग भी पहले नहीं किया गया। हैकाथॉन के ज़रिए युवा, देश की समस्याओं का समाधान भी दे सकते हैं, इसको लेकर पहले सरकारों ने सोचा तक नहीं। आज हम हर वर्ष स्मार्ट इंडिया हैकाथॉन आयोजित करते हैं। अभी तक 10 लाख युवा इसका हिस्सा बन चुके हैं, सरकार की अनेकों मिनिस्ट्रीज और डिपार्टमेंट ने गवर्नेंस से जुड़े कई प्रॉब्लम और उनके सामने रखें, समस्याएं बताई कि भई बताइये आप खोजिये क्या सॉल्यूशन हो सकता है। हैकाथॉन में हमारे युवाओं ने लगभग ढाई हज़ार सोल्यूशन डेवलप करके देश को दिए हैं। मुझे खुशी है कि आपने भी हैकाथॉन के इस कल्चर को आगे बढ़ाया है। और जिन नौजवानों ने विजय प्राप्त की है, मैं उन नौजवानों को बधाई देता हूं और मुझे खुशी है कि मुझे उन नौजवानों से मिलने का मौका मिला।

|

साथियों,

बीते 10 वर्षों में देश ने एक new age governance को फील किया है। बीते दशक में हमने, impact less administration को Impactful Governance में बदला है। आप जब फील्ड में जाते हैं, तो अक्सर लोग कहते हैं, कि हमें फलां सरकारी स्कीम का बेनिफिट पहली बार मिला। ऐसा नहीं है कि वो सरकारी स्कीम्स पहले नहीं थीं। स्कीम्स पहले भी थीं, लेकिन इस लेवल की last mile delivery पहली बार सुनिश्चित हो रही है। आप अक्सर पीएम आवास स्कीम के बेनिफिशरीज़ के इंटरव्यूज़ चलाते हैं। पहले कागज़ पर गरीबों के मकान सेंक्शन होते थे। आज हम जमीन पर गरीबों के घर बनाते हैं। पहले मकान बनाने की पूरी प्रक्रिया, govt driven होती थी। कैसा मकान बनेगा, कौन सा सामान लगेगा, ये सरकार ही तय करती थी। हमने इसको owner driven बनाया। सरकार, लाभार्थी के अकाउंट में पैसा डालती है, बाकी कैसा घर बनेगा, ये लाभार्थी खुद डिसाइड करता है। और घर के डिजाइन के लिए भी हमने देशभर में कंपीटिशन किया, घरों के मॉडल सामने रखे, डिजाइन के लिए भी लोगों को जोड़ा, जनभागीदारी से चीज़ें तय कीं। इससे घरों की क्वालिटी भी अच्छी हुई है और घर तेज़ गति से कंप्लीट भी होने लगे हैं। पहले ईंट-पत्थर जोड़कर आधे-अधूरे मकान बनाकर दिए जाते थे, हमने गरीब को उसके सपनों का घर बनाकर दिया है। इन घरों में नल से जल आता है, उज्ज्वला योजना का गैस कनेक्शन होता है, सौभाग्य योजना का बिजली कनेक्शन होता है, हमने सिर्फ चार दीवारें खड़ी नहीं कीं है, हमने उन घरों में ज़िंदगी खड़ी की है।

साथियों,

किसी भी देश के विकास के लिए बहुत जरूरी पक्ष है उस देश की सुरक्षा, नेशनल सिक्योरिटी। बीते दशक में हमने सिक्योरिटी पर भी बहुत अधिक काम किया है। आप याद करिए, पहले टीवी पर अक्सर, सीरियल बम ब्लास्ट की ब्रेकिंग न्यूज चला करती थी, स्लीपर सेल्स के नेटवर्क पर स्पेशल प्रोग्राम हुआ करते थे। आज ये सब, टीवी स्क्रीन और भारत की ज़मीन दोनों जगह से गायब हो चुका है। वरना पहले आप ट्रेन में जाते थे, हवाई अड्डे पर जाते थे, लावारिस कोई बैग पड़ा है तो छूना मत ऐसी सूचनाएं आती थी, आज वो जो 18-20 साल के नौजवान हैं, उन्होंने वो सूचना सुनी नहीं होगी। आज देश में नक्सलवाद भी अंतिम सांसें गिन रहा है। पहले जहां सौ से अधिक जिले, नक्सलवाद की चपेट में थे, आज ये दो दर्जन से भी कम जिलों में ही सीमित रह गया है। ये तभी संभव हुआ, जब हमने nation first की भावना से काम किया। हमने इन क्षेत्रों में Governance को Grassroot Level तक पहुंचाया। देखते ही देखते इन जिलों मे हज़ारों किलोमीटर लंबी सड़कें बनीं, स्कूल-अस्पताल बने, 4G मोबाइल नेटवर्क पहुंचा और परिणाम आज देश देख रहा है।

साथियों,

सरकार के निर्णायक फैसलों से आज नक्सलवाद जंगल से तो साफ हो रहा है, लेकिन अब वो Urban सेंटर्स में पैर पसार रहा है। Urban नक्सलियों ने अपना जाल इतनी तेज़ी से फैलाया है कि जो राजनीतिक दल, अर्बन नक्सल के विरोधी थे, जिनकी विचारधारा कभी गांधी जी से प्रेरित थी, जो भारत की ज़ड़ों से जुड़ी थी, ऐसे राजनीतिक दलों में आज Urban नक्सल पैठ जमा चुके हैं। आज वहां Urban नक्सलियों की आवाज, उनकी ही भाषा सुनाई देती है। इसी से हम समझ सकते हैं कि इनकी जड़ें कितनी गहरी हैं। हमें याद रखना है कि Urban नक्सली, भारत के विकास और हमारी विरासत, इन दोनों के घोर विरोधी हैं। वैसे अर्नब ने भी Urban नक्सलियों को एक्सपोज करने का जिम्मा उठाया हुआ है। विकसित भारत के लिए विकास भी ज़रूरी है और विरासत को मज़बूत करना भी आवश्यक है। और इसलिए हमें Urban नक्सलियों से सावधान रहना है।

साथियों,

आज का भारत, हर चुनौती से टकराते हुए नई ऊंचाइयों को छू रहा है। मुझे भरोसा है कि रिपब्लिक टीवी नेटवर्क के आप सभी लोग हमेशा नेशन फर्स्ट के भाव से पत्रकारिता को नया आयाम देते रहेंगे। आप विकसित भारत की एस्पिरेशन को अपनी पत्रकारिता से catalyse करते रहें, इसी विश्वास के साथ, आप सभी का बहुत-बहुत आभार, बहुत-बहुत शुभकामनाएं।

धन्यवाद!