’’زلزلے کے دوران ہندوستان کے فوری ردعمل نے پوری دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ یہ ہماری ریسکیو اور ریلیف ٹیموں کی تیاری کا عکاس ہے‘‘
’’ہندوستان نے اپنی خود کفالت کے ساتھ اپنی بے لوثی کو بھی پروان چڑھایا ہے‘‘
’’دنیا میں جہاں بھی کوئی آفت آتی ہے، ہندوستان سب سے پہلے جواب دہندہ کے طور پر تیار پایا جاتا ہے‘‘
’’ہم ’ترنگا‘ کے ساتھ جہاں بھی پہنچتے ہیں، وہاں ایک یقین دہانی ہوتی ہے کہ اب جب کہ ہندوستانی ٹیمیں پہنچ چکی ہیں، حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے‘‘
’’این ڈی آر ایف نے ملک کے لوگوں میں بہت اچھی ساکھ بنائی ہے۔ ملک کے عوام آپ پر اعتماد کرتے ہیں‘‘
’’ہمیں دنیا کی بہترین ریلیف اور ریسکیو ٹیم کے طور پر اپنی شناخت کو مضبوط کرنا ہے۔ ہماری اپنی تیاری جتنی بہتر ہوگی ہم اتنی ہی بہتر دنیا کی خدمت کر پائیں گے‘‘

آپ سب کا بہت بہت خیرمقدم!

آپ انسانیت کے لیے ایک عظیم کام کرنے کے بعد واپس آئے ہیں۔ آپریشن دوست سے وابستہ پوری ٹیم چاہے وہ این ڈی آر ایف ہو، آرمی ہو، ایئرفورس ہو یا دیگر سروسز کے ہمارے ساتھیوں نے شاندار کام کیا ہے اور یہاں تک کہ ہمارے بے زبان دوستوں، ڈاگ اسکواڈز کے ممبران نے بھی حیرت انگیز صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کو آپ سب پر بہت فخر ہے۔

ساتھیوں،

ہماری ثقافت نے ہمیں وسودھیو کٹمبکم کی تعلیم دی ہے اور جس اشلوک سے یہ منتر اخذ کیے گئے ہیں وہ بہت متاثر کن ہیں۔ ایم نجہہ:  پرو ویتی گننا لگھو چیت سام۔ ادارچریتانہ تو وسودھیو کٹمبکم ۔ یعنی بڑے دل والے لوگ اپنے اجنبیوں کو شمار نہیں کرتے۔ سخی کردار والوں کے لیے پوری زمین ان کا خاندان ہے۔ یعنی وہ صرف جانداروں کو اپنا سمجھتے ہوئے خدمت کرتے ہیں۔

ساتھیوں،

ترکی ہو یا شام، پوری ٹیم نے انہی ہندوستانی اقدار کو ایک طرح سے ظاہر کیا ہے۔ ہم پوری دنیا کو ایک خاندان سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اگر خاندان کے کسی فرد پر کوئی بحران آتا ہے تو ہندوستان کا دھرم ہے، ہندوستان کا فرض ہے کہ وہ اس کی مدد کے لیے تیزی سے آگے بڑھے۔ کسی بھی ملک کا معاملہ ہو، اگر انسانیت، انسانی حساسیت کا معاملہ ہو تو ہندوستان انسانی مفاد کو سب سے مقدم رکھتا ہے۔

ساتھیوں،

قدرتی آفات کے وقت اس بات کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ امداد کتنی تیزی سے پہنچتی ہے، جس طرح حادثے کے وقت اسے گولڈن آور کہتے ہیں، ان کا بھی ایک سنہری وقت ہوتا ہے۔ امدادی ٹیم کتنی جلدی پہنچی۔ ترکی میں زلزلے کے بعد جس رفتار سے آپ سب وہاں پہنچے اس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ یہ آپ کی تیاری کو ظاہر کرتا ہے، آپ کی تربیت کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس طرح سے آپ نے وہاں پورے 10 دن پوری لگن کے ساتھ کام کیا، ہر چیلنج کا سامنا کیا، وہ واقعی متاثر کن ہے۔ وہ تصویریں ہم سب نے دیکھی ہیں، جب ایک ماں آپ کی پیشانی چوم کر آپ کو آشیرواد  دے رہی ہے۔ جب آپ کی کوششوں سے ملبے تلے دبی معصوم زندگی پھر سے  کھلکھلااٹھی۔ ملبے کے درمیان ایک طرح سے آپ کو وہاں موت کا سامنا بھی تھا، لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ وہاں سے آنے والی ہر تصویر کے ساتھ پورا ملک فخر سے لبریز ہواٹھتاتھا۔ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ وہاں جانے والی ہندوستانی ٹیم کی طرف سے انسانی حساسیت کو پیش نظر رکھنا بے مثال ہے۔ یہ اس وقت زیادہ کام آتا ہے جب کوئی شخص صدمے سے گزر رہا ہو، جب کوئی اپنا سب کچھ کھو کر ہوش میں آنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ایسے حالات میں آرمی اسپتال اور اس کے اہلکاروں نے جس حساسیت کے ساتھ کام کیا وہ بھی قابل تعریف ہے۔

ساتھیوں،

جب 2001 میں گجرات میں زلزلہ آیا تھا اور جسے پچھلی صدی کا سب سے بڑا زلزلہ سمجھا جاتا  ہے، یہ اس سے کئی گنا بڑا ہے۔ جب گجرات میں زلزلہ آیا تو وہ ایک طویل عرصے تک وہاں امدادی کاموں میں بطور رضاکار شامل رہے۔ ملبہ ہٹانے میں درپیش مشکلات، ملبے میں لوگوں کو تلاش کرنا کتنا مشکل ہے، کھانے پینے کی دشواری، ادویات سے لے کر اسپتال کی ضروریات تک سب کچھ ہے اور میں نے دیکھا تھا کہ  بھوج کا پورا اسپتال تباہ ہو چکا تھا، یعنی سارا نظام تباہ ہو چکا تھا اور مجھے اس کا براہ راست تجربہ  ہواہے۔ اسی طرح 1979 میں جب گجرات میں موربی میں مچھو ڈیم ٹوٹا اور پورا گاؤں پانی سے تباہ ہو گیا تو پورا موربی شہر تباہ ہو گیا، سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ اس وقت بھی میں ایک رضاکار کے طور پر مہینوں وہاں رہا تھا اور زمین پر رہ کر کام کرتا تھا۔ آج اپنے ان تجربات کو یاد کرتے ہوئے، میں تصور کر سکتا ہوں کہ آپ کی محنت کتنی زبردست ہوگی، آپ کے جذبات میں بہت اچھی طرح محسوس کر سکتا ہوں۔ آپ وہاں کام کرتے تھے، میں یہاں  محسوس کرتا تھا کہ کیسے کرتے ہوں گے ؟ اور اسی لیے آج میرے لیے آپ کو سلام کرنے کا موقع ہے اور میں آپ کو سلام کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

جب کوئی اپنی مدد خودکر سکتا ہے تو آپ اسے خود کفیل کہہ سکتے ہیں لیکن جب کوئی دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہوتا ہے تو وہ بے لوث ہوتا ہے۔ اس کا اطلاق نہ صرف افراد پر ہوتا ہے بلکہ قوموں پر بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے گزشتہ برسوں میں خود کفالت کے ساتھ بے لوثی کی شناخت کو بھی مضبوط کیا ہے۔ ہم ترنگا لے کر جہاں بھی پہنچتے ہیں، وہاں یقین دہانی ہوجاتی ہے کہ اب جب کہ ہندوستانی ٹیمیں پہنچ چکی ہیں، حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے اور شام کی مثال   ہمارے سامنے ہے کہ جب  ا یک باکس میں جوجھنڈا لگا تھا  وہ الٹا تھا، جس کی وجہ سے اس کا نارنگی رنگ  نیچے ہوگیا تھا۔یعنی زعفرانی رنگ نیچے تھا، تو وہاں کے شہری نے اسے ٹھیک کرکے فخر سے کہا کہ میں ہندوستان کا احترام کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم نے کچھ عرصہ قبل یوکرین میں ترنگے کا یہی کردار دیکھا تھا۔ جب ہندوستان کا ترنگا ہندوستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ مشکلات میں گھرے کئی ممالک کے دوستوں کے لیے ڈھال بنا تو آپریشن گنگا نے سب کے لیے امید بن کر ایک عظیم مثال قائم کی۔ ہم نے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے پیاروں کو افغانستان سے بحفاظت واپس بلایا، ہم نے آپریشن دیو شکتی کیا۔ ہم نے کورونا کی عالمی وبا کے دوران بھی یہی عزم دیکھا۔ اس غیر یقینی ماحول میں، ہندوستان نے ہر شہری کو واپس لانے کی پہل کی۔ ہم نے دوسرے ممالک کے بھی بہت سے لوگوں کی مدد کی۔ یہ ہندوستان ہی ہے جس نے دنیا کے سینکڑوں ضرورت مند ممالک کو ضروری ادویات اور ویکسین فراہم کی ہیں۔ اسی لیے آج پوری دنیا میں ہندوستان کے تئیں خیر سگالی کا جذبہ ہے۔

ساتھیوں،

آپریشن دوست انسانیت کے تئیں ہندوستان کی لگن اور مصیبت زدہ ممالک کی مدد کے لیے فوری طور پر کھڑے ہونے کے ہمارے عزم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی آفت آتی ہے، ہندوستان سب سے پہلے جواب دہندہ  (ریسپانڈر)کے طور پر تیار پایا جاتا ہے۔ نیپال کا زلزلہ ہو، مالدیپ کا بحران ہو، سری لنکا کامعاملہ ہو، مدد کے لیے سب سے پہلے ہندوستان آگے آیا تھا۔ اب ملک کے علاوہ دیگر ممالک کا اعتماد ہندوستانی افواج کے ساتھ ساتھ این ڈی آر ایف پر بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ گزشتہ برسوں میں این ڈی آر ایف نے ملک کے لوگوں میں بہت اچھی ساکھ بنائی ہے۔ ملک کے لوگ آپ کو دیکھتے ہی، جہاں کہیں بحران کا امکان ہو، طوفان ہو،  جیسے ہی آپ کو دیکھتے ہیں آپ پر یقین  کرنا شروع کردیتے ہیں ، آپ کی بات ماننا شروع کردیتے ہیں۔ بحران کے کسی بھی وقت، چاہے وہ طوفان ہو، سیلاب ہو یا زلزلہ جیسی آفت، جیسے ہی  آپ اور آپ کے ساتھی این ڈی آر ایف کی وردی میں میدان پر پہنچتے ہیں، لوگوں کی امیدیں لوٹ آتی ہیں، یقین لوٹ آتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ جب  کسی فورس میں مہارت کے ساتھ حساسیت بھی جڑ جاتی ہے،  اس کا ایک انسانی چہرہ بن جاتا ہے، تو اس فورس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ میں اس کے لیے خاص طور پر این ڈی آر ا یف کی تعریف کروں گا۔

ساتھیوں،

آپ کی تیاریوں کے تئیں ملک پراعتماد ہے، لیکن ہمیں یہیں نہیں رکنا ہے۔ ہمیں آفات کے وقت راحت اور بچاؤ کے لیے اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ ہمیں دنیا کی بہترین ریلیف اور ریسکیو ٹیم کے طور پر اپنی شناخت کو مضبوط کرنا ہوگا اور اسی لیے جب میں آپ سے بات کر رہا تھا تو میں مسلسل پوچھ رہا تھا کہ دوسرے ممالک سے جو لوگ آئے تھے، ان کا ورک کلچر، ان کے کام کرنے کا انداز، ان کا ساز وسامان کیسا تھا؟ کیونکہ تربیت جب میدان میں کام میں آتی ہے تواس کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اتنے بڑے حادثے میں حساسیت  کے ناطے ، ذمہ داری کے ناطے ، انسانیت کے ناطے  ہم نے کام تو کیا ہے لیکن ہم بہت کچھ سیکھ کر بھی واپس آئے ہیں ، بہت کچھ جان کر بھی آئے ہیں۔ اتنی بڑی آفت کے درمیان کام کرتے ہوئے ہم 10 چیزوں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ سوچتے ہیں  کہ ایسا نہ ہوتا تو بہتر ہوتا، یہ کام کرتے تو بہتر ہوتا،  وہ  ا یسا کرتے ہیں ،چلو میں بھی ایسا کروں   اور اس سے ہماری صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے ترکی کے عوام کے لیے ہم 10 دن تک اپنی ذمہ نبھاتے رہے ،  لیکن ہم نے وہاں جو کچھ سیکھا ہے اسے دستاویزی شکل دینا چاہیے اور ہم اس سے کیا نیا سیکھ سکتے ہیں؟ ابھی کون سے چیلنجز ہیں جن کے لیے ہماری طاقت کو مزید بڑھانا ہو گا۔ ہمیں اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ اب جیسے اس بار ہماری بیٹیاں گئیں، پہلی بار گئیں اور جتنی خبریں میرے پاس ہیں ، ان بیٹیوں کی موجودگی نے وہاں کی خواتین کے اندر ایک اور اعتماد پیدا کیا۔ وہ کھل کر اپنی شکایتیں بتا پائیں ۔ اپنا درد بتا پائیں ۔ پہلے کبھی کو سوچتا نہیں تھا کہ بھائی یہ اتنا مشکل کام ہے، ان بیٹیوں کو کیوں پریشان کریں ؟ لیکن اس بار فیصلہ ہوا اور ہماری بیٹیوں نے پھر.... ہم محدود تعداد لے کر گئےتھے لیکن وہاں پر ناطہ جوڑنے میں ہمارا یہ اقدام بہت کارآمد ثابت ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے آپ کو جتنے بہتر طریقے سے تیار کریں گے، ہم دنیا کی اتنی ہی بہتر خدمت کر سکیں گے ۔ ساتھیو، مجھے یقین ہے کہ آپ بہت کچھ کرنے کے بعد یہاں آئے ہیں اور بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا ہے ۔ آپ نے جو کچھ کیا اس سے ملک کا وقار بلند ہوا ہے۔ آپ نے جو کچھ سیکھا ہے اسے اگر ہم ادارہ جاتی شکل دیں گے، تو ہم آنے والے مستقبل کے تئیں  ایک نیا یقین پیدا کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کے پاس ایک کہانی ہے، ایک تجربہ ہے۔  کچھ نہ کچھ کہنے کو ہے اور میں یہ پوچھتا رہتا تھا، مجھے خوشی ہوتی تھی کہ ہمارے گروپ کے تمام لوگ سلامت ہیں، صحت بھی اچھی ہے کیونکہ یہ بھی تشویش رہتی تھی کہ موسم ا ور درجہ حرارت سے متعلق  بہت سے مسائل  ہیں اور وہاں کوئی انتظام نہیں ہے۔ جہاں اس قسم کا حادثہ پیش آتا ہے وہاں یہ ممکن نہیں۔ یہ کسی کے لیے ممکن نہیں لیکن ایسے حالات میں بھی مشکلات کے درمیان کام کر کے آپ نے ملک کا نام روشن کیا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے جو آنے والے دنوں میں کام آئے گا۔ میں ایک بار پھر آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں آپ آج ہی آئے ہیں ، تھک کر کے آئے ہوں گے، لیکن میں مسلسل گزشتہ 10 دن آ پ کے را بطے میں تھا، جانکاریاں لیتا رہتا تھا ، تو اس طرح من سے میں آپ سے جڑا ہوا تھا ، تو میرا من کرگیا کہ گھر بلاؤں آپ کو ، آپ کا خیر مقدم کروں، اتنا عمدہ کام کرکے آئے ہیں ، میں پھر سے ایک بارآپ سب کو سلام کرتاہوں، 

شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.