محترم وزیر اعظم: روہت جی، آپ تو بہت سینئر ہیں ۔ کتنے برس ہوگئے روہت جی کھیلتے کھیلتے؟
روہت جی: میں 1997 سے کئی برس تک اولمپکس کھیل چکا ہوں ۔
محترم وزیر اعظم: جب سامنے والے کھلاڑیوں سے کھیلتے ہیں تو آپ کے سامنے کافی پرانے کھلاڑی آتے ہوں گے۔ کیسا احساس ہوتا ہے؟
روہت جی: سر جب میں پہلے کھیلتا تھا 1997 سے تو میرا مقابلہ قوت سماعت کے حامل افراد سے ہوتا تھا اور میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور میں نے اولمپکس کھیلے۔ مقابلے جیسے بالکل ہیئرنگ والے لوگوں کے ساتھ جیسا مقابلہ ہوتا ہے، میں نے بھی اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کی اور اب تک میں تقریباً قوت سماعت کے حامل لوگوں کے ساتھ کھیل سکتا ہوں۔
محترم وزیر اعظم: اچھا روہت خود کے بارے میں بتایئے۔ اس میدان میں کیسے آئے، شروعات میں کس نے ترغیب فراہم کی؟ اور اتنے طویل عرصے سے جی جان سے کھیلتے رہنا کبھی تھکنا نہیں۔
روہت جی: سر جب میں بہت چھوٹا تھا تو جب میں ، میرے خیال سے مجھے یاد بھی نہیں ہے کہ میں جب دیکھتا تھا، میں بس ایسے ہی ماں باپ کے ساتھ چلتا تھا، میں دیکھتا تھا، چیزیں دیکھ کر خوش رہتا تھا کہ قوت سماعت کے حامل لوگ کیسے کھیلتے ہیں، میں بھی چاہتا تھا کہ میں بھی کھیلوں، میں نے بھی وہیں سے اپنا نصب العین طے کیا اور پھر آگے بڑھتا چلا گیا۔ جب 1997 میں ، میں نے کھیلنا شروع کیا تو پہلے قوت سماعت سے محروم افراد کھیلتے نہیں تھے، مجھے کسی طریقہ کی حمایت نہیں مل رہی تھی، بس دلاسہ دیا جاتا تھا۔ میرے والد اس سلسلے میں بہت مدد کرتے تھے، کھانہ ۔پینا، جوس ، جو بھی خوراک چاہئے ہوتی تھی، اس کا بہت خیال رکھتے تھے، بھگوان کا بہت کرم رہا ہے۔ تو مجھے بھی بیڈمنٹن اس لیے بہت پسند ہے۔
محترم وزیر اعظم: روہت، جب آپ ڈبلس میں کھیلتے ہیں، تو آپ کا پارٹنر، میں نے سنا ہے مہیش، آپ سے عمر میں بہت چھوٹا ہے، اتنا فرق ہے کہ آپ اتنے سینئر ہیں تو مہیش بہت چھوٹا ہے۔ آپ کیسے اس کو سنبھالتے ہیں، کیسے رہنمائی کرتے ہیں، اس کے ساتھ کیسے میچ کرتے ہیں اپنے آپ کو؟
روہت جی: مہیش بہت چھوٹا ہے، 2014 میں میرے ساتھ کھیلنا شروع ہوا ہے۔ میرے گھر کے پاس رہتا تھا، میں نے اسے کافی کچھ سکھایا ہے۔ کیسے موومینٹ کرنی چاہئے، کیسے محنت کرنا ہے۔ ڈیف لمپکس میں کیسے تیار ہونا ہے ۔ وہ تھوڑا سا غیر متوازن تو رہتا ہے، لیکن میں نے اس کو جو بھی سکھایا ہے، وہ مجھے بہت سپورٹ کرتا ہے۔
محترم وزیر اعظم : روہت جی، ہم بھی آپ کے ساتھ کر دیں گے۔ روہت جی بطور کھلاڑی اور بطور ایک فرد ، میں سمجھتا ہوں کہ آپ قائدانہ صلاحیت کے حامل ہیں، آپ میں خوداعتمادی ہے اور آپ کسی چیز سے اُکتا نہیں جاتے ہیں۔ اس میں مسلسل شعور بھرتے رہتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ملک کے نوجوانوں کے لیے آپ واقعی باعث ترغیب رہے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کی رکاوٹوں سے کبھی ہار نہیں مانی۔ ٹھیک ہے پرماتما نے کچھ کمی دی، لیکن آپ نے کبھی ہار نہیں مانی۔ آپ گذشتہ 27 برسوں سے ملک کے تمغات جیت رہے ہیں۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ابھی بھی مطمئن نہیں ہیں، کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ عمر بڑھتی ہے لیکن ساتھ ساتھ آپ کی کارکردگی بھی بہت بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اپنے نئے اہداف طے کرتے جاتے ہو۔ نئے اہداف کی حصولیابی کی کوشش کرتے ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ کھلاڑی کی زندگی میں یہی ایک خوبی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ وہ کبھی مطمئن ہو کر نہیں بیٹھتا۔ نئے اہداف طے کرتا ہے، اس کے لیے خود کو وقف کردیتا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کچھ نہ کچھ حاصل کرتا رہتا ہے۔ میں اپنی طرف سے، میرے ملک کی طرف سے روہت کو بہت ساری نیک خواہشات اور بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
روہت جی: بہت بہت شکریہ! میں بھی آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں سر۔
اعلان کنندہ: جناب وریندر سنگھ (کشتی)
محترم وزیر اعظم: جی وریندر! کیسے ہو؟
وریندر سنگھ: جی، بالکل ٹھیک ہوں۔
محترم وزیر اعظم: آپ ٹھیک ہیں؟
وریندر سنگھ : جی، جی!
محترم وزیر اعظم: اپنے متعلق کچھ بتایئے، اہل وطن حضرات آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
وریندر سنگھ : میرے والد صاحب اور میرے چاچا جی پہلوان تھے۔ میں نے انہیں کو دیکھ کر پہلوانی سیکھی اور وہ صلاحیت مجھے بھی حاصل ہوئی اور میں نے مسلسل یہ کوشش کی کہ میں آگے بڑھتا رہوں۔ بچپن سے ہی میرے والدین میری مدد کرتے تھے۔ میرے والد صاحب نے میری مدد کی اور میں پہلوانی سیکھتا چلا گیا اور آج اس سطح تک پہنچا ہوں۔
محترم وزیر اعظم: لیکن والد صاحب اور چاچا مطمئن ہیں؟
وریندر سنگھ: نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ میں مزید کچھ کروں، اور کھیلوں، اور بڑھتا رہوں، اور ترقی کرتا رہوں کہ جیسے جیسے دیکھتا ہوں کہ جو قوت سماعت کے حامل معاشرے کے افراد ہیں وہ مسلسل آگے بڑھتے جا رہے ہیں، جیسے کہ وہ لوگ فتحیاب ہوتے جا رہے ہیں، میں بھی قوت سماعت کے حامل افراد کے ساتھ کھیلتا ہوں، میں نے بھی ان کو شکست دی ہے اور میں منتخب بھی ہوا ہوں۔ لیکن میں سُن نہیں پاتا تھا، اس وجہ سے مجھے نکال دیا گیا اور میں نہیں رہ پایا اور میں اس کے لیے بہت پچھتایا اور رویا بھی۔ لیکن پھر میں نے قوت سماعت سے محروم سماج کو قریب سے سمجھا ، تو میں خوشی سے پھولا نہیں سمایا کہ میں جیت گیا۔ جب میں نے تمغہ پہلی مرتبہ جیتا، ایسے ہی مجھے لگتا تھا کہ چلو چھوڑو، اب میں کیوں ہیئرنگ سماج کے پیچھے جاؤں؟ اب میں قوت سماعت سے محروم سماج میں ہی ایک نام کما سکتا ہوں اور میں اس میں مسلسل آگے بڑھ سکتا ہوں۔ میں نے متعدد تمغات جیتے، 2005 میں، اس کے بعد 2007 میں، اس کے بعد میں نے اولین اولمپکس ترکی میں جیتا تھا۔
محترم وزیر اعظم: اچھا وریندر یہ بتاؤ۔ 2005 سے لے کر اب تک کے ہر ڈیف لمپکس میں آپ تمغات جیت کر آئے ہیں۔ یہ مستقل مزاجی آپ کہاں سے لاتے ہیں؟ اس کے پیچھے کیا ترغیب ہے آپ کی؟
وریندر سنگھ: میں خوراک پر اتنی توجہ نہیں دیتا جتنا کہ مشق پر دیتا ہوں۔ میں قوت سماعت کے حامل افراد کے ساتھ مسلسل پریکٹس کرتا ہوں۔ بہت محنت کرتا ہوں۔ وہ محنت رائیگاں نہیں جاتی ہے، میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے کھیل رہے ہیں اور اس پر مسلسل نظر رکھتا ہوں۔ صبح و شام میں مسلسل مشق پر توجہ دیتا ہوں۔میرا یہ مقصد رہتا ہے کہ میں اپنے ملک سے باہر کہیں کھیلنے جاؤں تو اپنے والدین کے پاؤں چھوکر نکلوں ، اور میں ان کو یاد کرکے ہی کھیلتا ہوں۔ اور میں خوش رہتا ہوں کہ میں کامیاب ہوکر آیا ہوں۔ یہ میرے دل میں امید رہتی ہے۔
محترم وزیر اعظم: اچھا وریندر دنیا میں وہ کون کھلاڑی ہے جس کے ساتھ کھیلتے وقت تمہیں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے؟ تمہیں ان کا کھیل دیکھنے کا دل کرتا ہے، وہ کون ہیں؟
وریندر سنگھ: جتنے بھی پہلوان ہوتے ہیں، میں ان کو دیکھتا ہوں کہ اسٹریٹجی کیا ہے؟ میں وہ دیکھ کے سیکھتا ہوں کہ وہ کیسے داؤ کھیلتے ہیں۔ میں انہیں کو دیکھ کر کھیلتا ہوں اور میں سوچتا ہوں کہ مجھے اس پر توجہ دینی ہے کہ میں بھی گھر پر اس بارے میں مسلسل سوچتا بھی رہتا ہوں کہ اس کھلاڑی نے کیسا کھیلا تھا۔ تو مجھے بھی اس سے اچھا اور اس سے برابر کی ٹکر دے کر کھیلنا ہے۔ مجھے اس سے بالکل گھبرانا نہیں ہے۔ ایک دم سامنے کی زبردست ٹکر دینی ہے اور جیتنا ہے اس داؤ پیچ کے ساتھ۔
محترم وزیر اعظم: وریندر ، اچھی بات ہے کہ آپ کھیل کی دنیا میں استاد بھی ہیں، ساتھ ہی ساتھ طالب علم بھی ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ آپ کی جو قوت ارادی ہے، وہ یقیناً ہر کسی کو ترغیب فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میرا ماننا ہے کہ آپ سے ملک کے کھلاڑی اور نوجوان دونوں جو سیکھ سکتے ہیں ، وہ ہے آپ کی مستقل مزاجی، بلندی پر پہنچنا مشکل تو ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ جہاں پہنچے ہیں وہاں قائم رہنا اور مزید اوپر جانے کی کوشش کرتے رہنا۔ آپ نے بلندی پر پہنچنے کے لیے تپسیا کی۔ آپ کے چاچا نے، آپ کے والد نے مسلسل آپ کی رہنمائی کی، آپ کی مدد کی۔ پہنچنا ایک بات ہے، پہنچنے کے بعد قائم رہنا، یہ میں سمجھتا ہوں آپ کی غیر معمولی طاقت ہے اور اس لیے کھیل کود برادری اس بات کو سمجھے گی، آپ سے سیکھے گی، میری طرف سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ۔
محترم وزیر اعظم: دھنش، نام تو دھنش ہے، پر شوٹنگ کرتا ہے؟
دھنش: جی، جی میں شوٹنگ کرتا ہوں۔
محترم وزیر اعظم: بتایئے دھنش! اپنے بارے میں بتایئے!
دھنش: جی، میں مسلسل نشانے بازی کی مشق کرتا رہا۔ مجھے میرے کنبے کی حمایت حاصل رہی۔ وہ مرحلہ وار مجھے بتاتے رہے کہ مجھے جیتنا ہی ہے، اول آنا ہی ہے۔ میں چار مرتبہ غیرملکی دورہ کر چکا ہوں جیتنے کے لیے اور میرا یہ عزم رہتا ہے کہ مجھے تمغہ لانا ہے، مجھے طلائی تمغہ ہی جیتنا ہے۔
محترم وزیر اعظم: دھنش جی، آپ، اور دیگر طلبا جو اس کھیل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، آپ ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟
دھنش: میں کھیل کود کے لیے بچوں کو بتاؤں گا کہ ہاں، ہم اس میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ مسلسل مشق آپ کو آگے بڑھائے گی۔ آپ کو مسلسل رننگ پریکٹس کرنی چاہئے، چاق و چوبند رہنا چاہئے۔ بس سر میں اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں۔
محترم وزیر اعظم: یوگا کرتے ہو؟
دھنش : جی میں کافی وقت سے کرتا آ رہا ہوں۔
محترم وزیر اعظم: اور میڈی ٹیشن کرتے ہو؟
دھنش: ہاں کرتا ہوں، لیکن بہت زیادہ نہیں، کبھی کبھی کرتا ہوں، دھیان کے لیے ۔
محترم وزیر اعظم: تمہیں معلوم ہے نشانے بازی میں میڈی ٹیشن، دھیان یہ بہت کام آتا ہے؟
دھنش: جی، بالکل توجہ مرکوز کرنا پڑتی ہے جی۔ بالکل ہول کرکے ایک دم دھیان لگاکر، ایک دم نشانے پر ایک دم دھیان رکھ کر کرنا پڑتا ہے۔
محترم وزیر اعظم: اچھا دھنش بتایئے، چھوٹی عمر سے تم نے اتنی ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں، دنیا بھر میں جاکر آئے ہو۔ تمہاری سب سے بڑی ترغیب کیا ہے؟ کون تمہیں حوصلہ فراہم کرتا ہے؟
دھنش: مجھے سب سے زیادہ انسیت اپنی ماں سے ہے۔ ان کے ساتھ مجھے بہت خوشی ملتی ہے۔ میرے والد بھی میری حمایت کرتے ہیں اور مجھے پیار کرتے ہیں۔ لیکن پہلے 2017 میں، جب میں تھوڑا پریشان رہتا تھا، مایوسی کا شکار تھا، تو والدہ کی زیادہ حمایت حاصل رہتی تھی اور پھر مسلسل کوشش کرتے کرتے جب میں جیتنے لگا تو مجھے بہت خوشی ملنے لگی اور وہی ترغیب کا باعث بنتی چلی گئی۔
محترم وزیر اعظم: دھنش، سب سے پہلے تو آپ کی والدہ محترمہ اور آپ کے کنبے کو سلام کرتا ہوں، اور خصوصاً آپ کی والدہ کو۔ جیسا کہ آپ نے بتایا کہ وہ کیسے آپ کو سنبھالتی تھیں، کیسے آپ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں، کیسے آپ کو لڑائی جیتنے میں مدد کرتی تھیں اور ہر چنوتی کے سامنے کھڑے رہنے کے لیے آپ کو تیار کرتی تھیں۔ تو یقیناً آپ بڑے خوش نصیب ہیں اور آپ نے بتایا کہ آپ نے کھیلو انڈیا میں بھی کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کی، نئی چیزیں جاننے کی کوشش کی۔ اور کھیلو انڈیا نے آج ملک کو بہت اچھے اچھے کھلاڑی دیے ہیں۔ کئی باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے جانے میں مدد حاصل ہوئی۔ آپ نے اپنی صلاحیت کو پہچانا۔ لیکن میرا یقین ہے کہ آپ کی صلاحیت اس سے بھی زیادہ ہے اور آپ اس سے بھی زیادہ قوت کا مظاہرہ کرو گے، یہ میرا یقین ہے۔ میری جانب سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔
دھنش: بہت بہت شکریہ۔
اعلان کنندہ: محترمہ پرینشا دیش مکھ، شوٹنگ
محترم وزیر اعظم: اچھا پرینشا، آپ پونے سے ہیں۔
پرینشا: اصلاً میں مہاراشٹر سے ہوں۔ میرا نام پرینشا دیش مکھ ہے۔ میں شوٹنگ میں آٹھ برس سے پریکٹس کر رہی ہوں ۔ اس سے پہلے میں نے بیڈمنٹن، سب کچھ کیا لیکن تب میں ہار گئی تو میں نے سوچا شوٹنگ آسان ہے۔ تو میں 2014 میں شوٹنگ کے کھیل سے وابستہ ہوئیں۔ اس کے بعد 2014۔15 میں قومی کیمپ میں زمرہ 7 گولڈ میڈل اور اوپن زمرے میں سِلور میڈل حاصل کیا۔ پہلی عالمی چیمپئن شپ روس میں تھی تو میں نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر کھیلا۔ مجھے تھوڑا ڈر لگا تھا اور پریشانی بھی ہوئی۔ لیکن دادا جی کے آشیرواد سے اور میرے والد نے مجھے سمجھایا کہ جو کچھ بھی ہو آپ پہلی مرتبہ جا رہے ہو ، تو جاؤ، کھیلو، جو ملے گا وہ ملے گا۔ لیکن اب کارکردگی دکھاؤ۔ مجھے پتہ نہیں کیا ملا، لیکن جب آخری مرتبہ میرا انتخاب ہوا تو فائنل ہوا۔ بعد میں تو فائنل ہوگیا تو مجھے اور میڈل ملا۔
محترم وزیر اعظم: اچھا 2017 میں آپ چھٹویں مقام پر آئی تھیں۔ اس بار طلائی تمغہ لے کر آئی ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ تو تم ابھی بھی مطمئن نہیں ہو، ابھی بھی اپنے آپ سے شکایت کرتی رہتی ہو۔
پرینشا: نہیں تھی، میں پر اعتماد نہیں تھی، میں پھر بھی ڈر رہی ہوں۔ دادی اور پاپا کے آشیرواد اور میرا گورو ہے انجلی بھاگوت، اس کوچ نے مجھے سکھایا کہ جو کرنا ہے کرو، لیکن مثبت سوچو تو کر لیں گے۔ اور ابھی دوسرے اولمپک میں ، جو براز یل میں ہوا، اس میں دھنش کے ساتھ ٹیم میں مجھے گولڈ میڈل ملا۔ تو دادا اولمپک سے قبل، اب اس دنیا میں نہیں ہیں، انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ ہم تمغہ جیت کر ضرور آئیں گے، لیکن دادی نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اب میڈل ضرور ملے گا۔ لیکن اچانک ان کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے ان کا خواب پوراکر دیا، تو مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔
محترم وزیر اعظم: دیکھئے پرینشا، سب سے پہلے تو میں انجلی بھاگوت جی کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے تمہارے لیے جی جان سے محنت کی۔
پریشا: شکریہ سر!
محترم وزیر اعظم: یقیناً ، ایک تو تمہارا، تمہارے والدین کا، لیکن کوچ بھی اگر جی جا ن سے تمہارے لیے کام کرتا ہے، تو اس کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلی میں دیکھ رہا ہوں۔ اچھا یہ بتاؤ آپ ہو تو پونے سے، اور پونے کے لوگ تو خالص مراٹھی بولتے ہیں۔
پرینشا: ہاں معلوم ہے، میں مراٹھی ہوں۔
محترم وزیر اعظم: تو آپ اتنی اچھی ہندی کیسے بولتی ہیں؟
پرینشا: میں مراٹھی، ہندی سب بولتی ہوں، لیکن پریشانی یہ ہے کہ مراٹھی تو میری مادری زبان ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ ایک زبان میں بات نہیں کرنا، سب زبانوں میں بات کرتے ہیں، لیکن میں کم بات کرتی ہوں مراٹھی میں۔
محترم وزیر اعظم: مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ آپ کی دادی نے ہمیشہ آپ کو حوصلہ فراہم کیا، کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا، کبھی آپ کو رنجیدہ نہیں ہونے دیا۔متعدد چنوتیوں کا سامنا آپ کر پائیں اور جیسا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ نے نئے نئے طریقہ سے اس کو سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ میں آپ کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، آپ کے لیے بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ سب کو ترغیب فراہم کرتی رہیں گی۔
پرینشا: شکریہ!
اعلان کنندہ: جعفرین شیخ، ٹینس
محترم وزیر اعظم: ہاں جعفرین نمستے۔
جعفرین: میرا نام جعفرین شیخ ہے، میں ٹینس کھلاڑی ہوں۔ میں نے ڈیف لمپکس 2021 میں کانسہ کا تمغہ جیتا ہے۔ مجھے میرے والد بہت سپورٹ کرتے ہیں، بہت محنت کرتے ہیں۔ بھارت میں میرے بہت میڈل ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، آپ کا شکریہ۔
محترم وزیر اعظم:اچھا جعفرین، آپ اور پرتھوی شیکھر، آپ کی جوڑی نے بڑا کمال کر دیا۔ آپ دونوں کورٹ میں ایک دوسرے کی مدد کیسے کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کیسے کرتے ہیں۔
جعفرین: ہم دونوں سپورٹ کرتے ہیں (غیر واضح)
محترم وزیر اعظم: دیکھئے، ٹینس میں، میں تو کوئی کھلاڑی نہیں رہا ہوں، مجھے وہ نصیب نہیں ہوا ہے، لیکن کہتے ہیں کہ ٹینس ایک ایسا کھیل ہے کہ اس میں تکنیک پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ آپ نے اس کھیل کو نہ صرف اپنایا، بلکہ کئی مرتبہ اپنے ملک کا نام بلند کیا۔ ان چیزوں کو حاصل کرنے میں آپ کو کتنی محنت کرنی پڑتی تھی۔
جعفرین: سر، میں نے بہت محنت کی، ہمیشہ بہت محنت کی (غیر واضح)
محترم وزیر اعظم: اچھا، آپ ایک طرح سے ملک کی بیٹیوں کا، ان کی قوت کا ایک طرح سے مترادف تو ہیں ہی، ساتھ ہی آپ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے لیے بھی ترغیب کا وسیلہ ہیں۔ آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی بیٹی اگر کچھ ٹھان لے تو کوئی بھی رکاوٹ اسے روک نہیں سکتی ہے۔ میری طرف سے جعفرین کو بہت ساری نیک خواہشات۔ آپ کے والد کو خصوصی طور پر مبارکباد کہ انہوں نے آپ کے لیے اتنی محنت کی اور آپ کو یہاں تک پہنچایا۔
جعفرین: سر، آپ سب کو بہت سپورٹ کرتے ہیں، (غیر واضح) سپورٹ کرو۔
محترم وزیر اعظم : میں کروں گا۔
جعفرین: آپ کا شکریہ سر، آپ کا شکریہ!
محترم وزیر اعظم: میں کروں گا۔ آپ کی یہ توانائی، میں کہہ سکتا ہوں کہ جو مقام آپ لوگوں نے حاصل کیا، آپ کا جذبہ اس سے بہت آگے جانے کا ہے۔ یہ جذبہ برقرار رکھیئے گا، یہ جوش برقرار رکھیئے گا۔ اسی جوش سے ملک کی جیت کے نئے راستے کھلیں گے۔ بھارت کا روشن مستقبل تعمیر ہوگا۔ اور میں مانتا ہوں کہ ہمارے کھیل کود کے میدان میں کوئی شخص نام لے کر آتا ہے تو وہاں کی کھیل کود ثقافت اور کھیل کود اہلیت کی بات ہوتی ہے۔ لیکن کوئی دیویانگ، کوئی جسمانی کمزوری میں زندگی گزارنے والا شخص، وہ جب دنیا میں نام روشن کرتا ہے تو وہ صرف کھلاڑی جیت کرکے نہیں آتا، وہ صرف کھیل کا کھیل نہیں رہتا ہے، وہ اس ملک کی شبیہ کو بھی لے کر جاتا ہے کہ ہاں، یہ ملک ایسا ہے کہ جہاں دیویانگ حضرات کے لیے بھی یہی ہمدردی ہے، یہ احساس ہے اور اسی طاقت کی پوجا وہ ملک کرتا ہے۔
یہ بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے دنیا میں آپ جہاں بھی گئے ہوں گے، دنیا میں جب بھی آپ کی اس کامیابی کو کسی نے دیکھا ہوگا، تو آپ کو دیکھتا ہوگا، آپ کے کھیل کو دیکھتا ہوگا، آپ کے میڈل کو دیکھتا ہوگا، لیکن ذہن میں کہیں یہ سوچتا ہوگا، اچھا! ہندوستان میں یہ ماحول ہے، ہر ایک کو برابری حاصل ہے، ہر ایک کے پاس موقع ہے۔ اور اس سے ملک کی شبیہ بنتی ہے۔ یعنی عام کھلاڑی ملک کی شبیہ بناتا ہے، ملک کی اس سے کئی گنا زیادہ اچھی شبیہ بنانے کا کام آپ کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔ آپ کی کوششوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یعنی، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔
آپ سبھی کو ایک مرتبہ پھر اس شاندار فتح کے لیے اور ملک کا نام روشن کرنے کے لیے، ملک کا نام اونچا کرنے کے لیے، بھارت کا ترنگا جھنڈا لہرانے کے لیے، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں، ایسے وقت ملک کے ترنگے کو لہرانے کے لیے آپ سبھی حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آپ کی کوششوں میں آپ کے کنبہ اراکین کا، آپ کے والدین کا، آپ کے کوچوں کا، آپ کے آس پاس کا جو ماحول ہوگا، ان سب کا بہت بڑا تعاون رہا ہے۔ اور اس لیے ان سب کو میں مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
جن کھلاڑیوں نے ان عالمی مقابلوں میں حصہ لیا، انہوں نے پورے ملک کے سامنے حوصلے کی ایک غیر معمولی مثال پیش کی ہے۔ کچھ لوگ ہوں گے جو میڈل تک شاید نہیں پہنچ پائے ہوں گے، لیکن یہ مان لیجئے کہ اس میڈل نے آپ کو دیکھ لیا ہے۔ اب وہ میڈل آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ آپ یہ مت سوچئے کہ اب آپ پیچھے ہیں۔ آپ ضرور کامیابی حاصل کریں گے، آپ فتحیاب ہوکر آئیں گے اور جنہوں نے فتح حاصل کی ہے وہ بھی اب تو آپ کی ترغیب کا باعث ثابت ہوں گے۔ اور اس کھیل میں اب تک کے سارے ریکارڈ آپ توڑ کر آئے ہیں۔ ہندوستان کے سارے ریکارڈ آپ توڑ کر آئے ہیں۔
اس لیے اس ٹیم پر مجھے دل سے فخر ہے، میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آزادی کا امرت مہوتسو، اس میں بھی آپ ترغیب کا وسیلہ بنیں گے، ملک کے ترنگے کو آگے لہرانے میں ہر نوجوان کے لیے آپ ترغیب کا وسیلہ بنیں گے، اسی امید کے ساتھ میں سب سے پہلے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، آگے بڑھنے کے لیے مدعو کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!