نمسکار!
سب سے پہلے میں اس حادثہ پر اپنی طرف سے گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جو آج تمل ناڈو کے تھانجاور میں پیش آیا۔ مرنے والے شہریوں کے اہل خانہ سے میری تعزیت۔ متاثرہ خاندانوں کی مالی مدد بھی کی جا رہی ہے۔
ساتھیو!
گزشتہ دو سال میں کورونا کے حوالے سے یہ ہماری چوبیسویں ملاقات ہے۔ جس طرح سے مرکز اور ریاستوں نے کورونا کے دور میں مل کر کام کیا، اس نے ملک کی کورونا کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں تمام وزرائے اعلیٰ، ریاستی حکومتوں اور افسران کے ساتھ تمام کورونا واریئرز کی تعریف کرتا ہوں۔
ساتھیو!
صحت سکریٹری نے کچھ ریاستوں میں ہمیں صرف کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔ محترم وزیر داخلہ نے بھی کئی اہم جہات ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے کئی وزیر اعلیٰ ساتھیوں نے بھی بہت سے اہم نکات سب کے سامنے رکھے ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا کا چیلنج ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔ اومیکرون اور اس کی ذیلی اقسام کس طرح سنگین حالات کا سبب بن سکتی ہیں، ہم یورپ کے ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے چند مہینوں میں کچھ ممالک میں ان ذیلی قسموں کی وجہ سے کئی اضافے ہوئے ہیں۔ ہم ہندوستانیوں نے اپنے ملک کے حالات کو دوسرے ممالک کے مقابلے بہت بہتر اور قابو میں رکھا ہے۔ ان سب کے باوجود، جس طرح سے کچھ ریاستوں میں پچھلے دو ہفتوں سے کیسز بڑھ رہے ہیں، ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے چند ماہ قبل آنے والی لہر سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تمام اہل وطن نے اومکرون لہر کا کامیابی سے دفاع کیا۔ گھبرائے بغیر اہل وطن نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ساتھیو!
دو سال کے اندر ملک نے صحت کے بنیادی ڈھانچے سے لے کر آکسیجن کی فراہمی تک کورونا سے متعلق ہر پہلو میں جو بھی ضروری ہے اسے مضبوط بنانے کا کام کیا ہے۔ تیسری لہر میں کسی بھی ریاست سے بے قابو صورتحال کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس سے ہماری کووڈ ٹیکہ کاری مہم سے بھی کافی مدد ملی۔ ملک کے ہر ریاست میں، ہر ضلع میں، ہر علاقے میں، چاہے وہاں کی جغرافیائی حالات کیسی بھی رہی ہوں، ویکسین لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے لیے فخر کی بات ہے کہ آج ہندوستان کی 96 فیصد بالغ آبادی کو کورونا ویکسین کی پہلی خوراک مل گئی ہے۔ 15 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 85 فیصد شہری پہلے ہی دوسری خوراک لے چکے ہیں۔
ساتھیو!
آپ بھی سمجھتے ہیں اور دنیا کے اکثر ماہرین کا خیال یہ ہے کہ ویکسین کورونا سے بچاؤ کی سب سے بڑی ڈھال ہے۔ ہمارے ملک میں طویل عرصے بعد اسکول کھلے ہیں، کلاسز شروع ہو گئی ہیں۔ ایسے میں کورونا کیسز بڑھنے سے کہیں نہ کہیں والدین کی پریشانی بڑھ رہی ہے۔ کچھ اسکولوں میں بچوں کے متاثر ہونے کی بھی خبریں آرہی ہیں۔ لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو ویکسین کا تحفظ بھی مل رہا ہے۔ مارچ میں ہم نے 12 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کے لیے ویکسینیشن شروع کردیاتھا۔ گزشتہ روز ہی 6 سے 12 سال کے بچوں کو ویکسین کے ٹیکے لگانے کی اجازت مل گئی ہے۔ ہماری ترجیح تمام اہل بچوں کو جلد از جلد ویکسین لگانا ہے۔ اس کے لیے پہلے کی طرح اسکولوں میں خصوصی مہم کی ضرورت ہوگی۔ اساتذہ اور والدین کو اس بارے میں آگاہ ہونا چاہیے، ہمیں بھی اسے یقینی بنانا ہوگا۔ ویکسین کی حفاظتی ڈھال کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں تمام بالغوں کے لیے ایک احتیاطی خوراک بھی دستیاب ہے۔ اساتذہ، والدین اور دیگر اہل لوگ بھی احتیاطی خوراک لے سکتے ہیں، اس طرف بھی ہمیں انہیں آگاہ کرتے رہنا ہے۔
ساتھیو،
تیسری لہر کے دوران، ہم نے روزانہ تین لاکھ سے زیادہ کیسز دیکھے ہیں۔ ہماری تمام ریاستوں نے بھی ان معاملات کو سنبھالا، اور باقی سماجی و اقتصادی سرگرمیوں کو تحریک دی۔ یہ توازن مستقبل میں بھی ہماری حکمت عملی کا حصہ رہنا چاہیے۔ ہمارے سائنسدان اور ماہرین قومی اور عالمی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تجاویز پر ہمیں پیشگی، پرو ایکٹو اور اجتماعی نقطہ نظر کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ شروع میں انفیکشن کی روک تھام ہماری ترجیح بھی تھی اور اب بھی یہی رہنا چاہیے۔ ہمیں ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ کی اپنی حکمت عملی کو اتنا ہی مؤثر طریقے سے نافذ کرنا ہے جیسا کہ آپ سب نے بتایا ہے۔ آج کورونا کی جوصورتحال ہے اس میں یہ ضروری ہے کہ اسپتالوں میں داخل مریضوں میں جو شدید انفلوئنزا کے مریض ہیں ان کاصد فیصد آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ کیا جائے۔ جو بھی اس میں مثبت آتا ہے اس کا نمونہ جینوم سیکوینسنگ کے لیے ضرور بھیجیں۔ اس سے ہم ویرینٹ کی وقت وقت پر شناخت کرپائیں گے۔
ساتھیو،
ہمیں عوامی مقامات پر کووِڈ کے مناسب رویے کو فروغ دینا ہوگا، ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام میں خوف و ہراس نہ پھیلے۔
ساتھیو،
آج کی اس بحث میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کیے جانے والے کام پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کا کام تیز رفتاری سے جاری رہے۔ یہ یقینی بنایا جاناچاہیے کہ بستر، وینٹی لیٹرز اور پی ایس اے آکسیجن پلانٹس جیسی سہولیات کے لحاظ سے ہم بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ لیکن یہ تمام سہولتیں فعال رہیں، ہمیں یہ بھی یقینی کرنا ہوگا اور اس کی نگرانی کیاجائے، ذمہ داری کا تعین کرنا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ہمیں کسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ساتھ ہی اگر کہیں کوئی خلا ہے تو میری گزارش ہے کہ اس کی اعلیٰ سطح سے تصدیق کرائی جائے، اسے پر کرنے کی کوشش کی جائے۔ میڈیکل کالجز، ضلع ہسپتال ان سب میں ہمیں اپنے میڈیکل انفراسٹرکچر کو بڑھانا ہوگا، اور افرادی قوت کو بھی بڑھانا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ باہمی تعاون اور بات چیت سے ہم مستقل بہترین طریقوں کو تیار کرتے رہیں گے، اور ہم مضبوطی سے کورونا کے خلاف جنگ لڑتے رہیں گے اور اس سے نکلنے کے راستے تلاش کرتے رہیں گے۔
ساتھیو،
کوآپریٹو فیڈرلزم کی روح کے مطابق جس کا آئین میں اظہار کیا گیا ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان نے کورونا کے خلاف یہ طویل جنگ لڑی ہے۔ عالمی حالات کی وجہ سے ملک کے اندرونی حالات پر بیرونی عوامل کا جو اثر پڑتا ہے، مرکز اور ریاستوں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا ہے اور آگے بھی کرنا پڑے گا۔ مرکز اور ریاستوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی آج ملک میں صحت کے بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے۔ لیکن ساتھیو، آج کی اس بحث میں ایک اور پہلو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ آج کے عالمی حالات میں ہندوستان کی معیشت کی مضبوطی کے لیے، اقتصادی فیصلوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تال میل پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جنگ کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جس طرح سے سپلائی چین متاثر ہوا ہے اور ایسے ماحول میں چیلنجز روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ یہ بحران عالمی بحران بہت سے چیلنجوں کے ساتھ آرہا ہے۔ بحران کے ایے وقت مرکز اور ریاستوں کے درمیان تال میل ،ہم آہنگی کے جذبے کو مزید بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ جیسے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا موضوع ہم سب کے سامنے ہے۔ اہل وطن پرپیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی تھی۔ گزشتہ نومبر میں یہ کم کیا تھا۔ مرکزی حکومت نے ریاستوں سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اپنے یہاں ٹیکس کم کریں اور یہ فوائد شہریوں کو منتقل کریں۔ اس کے بعد کچھ ریاستوں نے حکومت ہند کے اس جذبے کے مطابق یہاں ٹیکس کم کیا، لیکن کچھ ریاستوں نے اپنی ریاست کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ اس کی وجہ سے ان ریاستوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں اب بھی دوسروں کے مقابلے زیادہ ہیں۔ ایک طرح سے یہ نہ صرف ان ریاستوں کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ پڑوسی ریاستوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ جو ریاستیں ٹیکسوں میں کٹوتی کرتی ہیں وہ ریونیو سے محروم ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کرناٹک نے ٹیکس میں کمی نہ کی ہوتی تو اسے ان چھ مہینوں میں 5 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی آمدنی ہوتی۔ گجرات نے بھی ٹیکس کم نہ کیا ہوتا تو اسے ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی آمدنی ہوتی۔ لیکن کچھ ایسی ریاستوں نے اپنے شہریوں کی بہتری کے لیے اپنے ویٹ ٹیکس میں کمی کی ہے تاکہ ان کے شہریوں کو تکلیف نہ پہنچے، مثبت قدم اٹھائے ہیں۔ دوسری طرف پڑوسی ریاستوں گجرات اور کرناٹک نے ان چھ مہینوں میں ٹیکس میں کمی نہ کرکے ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے سے لے کر ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپے تک اضافی آمدنی حاصل کی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ویٹ کم کرنے کی بات ہوئی تھی، میں نے سب سے گزارش کی۔ لیکن بہت سی ریاستیں، میں یہاں کسی پر تنقید نہیں کر رہا، میں صرف آپ سے گزارش کر رہا ہوں۔ اپنی ریاست کے شہریوں کی بھلائی کے لیے گزارش کررہا ہوں۔ اب جیسے چھ ماہ پہلے اس وقت کچھ ریاستوں نے اس معاملے کو قبول کیا تھا، کچھ ریاستوں نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اب مہاراشٹر، مغربی بنگال، تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کیرالہ، جھارکھنڈ جیسی کئی ریاستوں نے کسی وجہ سے اسے قبول نہیں کیا اور اپنی ریاست کے شہریوں پر بوجھ ڈالتے رہے۔ میں اس بات میں نہیں جاؤں گا کہ اس مدت کے دوران ان ریاستوں نے کتنی آمدنی حاصل کی۔ لیکن اب میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ نے گزشتہ نومبر میں ملک کے مفاد میں جو کچھ بھی کرنا تھا۔ چھ ماہ کی تاخیر ہوچکی ہے۔ اب بھی، آپ اپنی ریاست کے شہریوں کے لیے ویٹ کم کرکے اس کا فائدہ پہنچایے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ حکومت ہند کو جو ریونیو آتا ہے اس کا 42 فیصد ریاستوں کے پاس چلاجاتاہے۔ میں تمام ریاستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ عالمی بحران کے اس وقت میں تعاون پر مبنی وفاقیت کے جذبے پر عمل کرتے ہوئے ہم سب مل کر ایک ٹیم کے طور پر کام کریں، اب میں بہت سے موضوعات پر باریکی میں نہیں جا رہا ہوں۔ جیسے کھاد ، آج ہم تو کھادوں پر دنیا کے ممالک منحصر ہیں۔ کتنا بڑا بحران ہے۔ سبسڈی میں مسلسل کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم کسانوں پر بوجھ منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ اب آپ اس طرح کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں، تب میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں، میری گزارش ہے کہ آپ تمام ہم وطنوں کے مفاد میں اپنی ریاست، اپنی پڑوسی ریاست کو اولین ترجیح دیں۔ میں ایک اور مثال دیتا ہوں۔ اب نومبر میں جو کرنا تھا وہ نہیں ہوا۔ اس لئے پچھلے چھ ماہ میں کیا ہواہے؟ آج چنئی میں، تمل ناڈو میں پٹرول 111 روپے کے قریب ہے۔ جے پور میں 118 سے زیادہ ہیں۔ حیدرآباد میں 119 سے زیادہ ہیں۔ کولکاتا میں 115 سے زیادہ ہیں۔ ممبئی میں 120 سے زیادہ ہے اور جنہوں نے کٹوتی کی، ممبئی کے ہی پڑوس میں دمن ودیو میں 102 روپے ہیں۔ ممبئی میں 120، دیو دمن میں 102 روپے ۔ اب کولکتہ میں 115، لکھنؤ میں 105۔ حیدرآباد میں 120قریب قریب ، جموں میں 106۔ جے پور میں 118، گوہاٹی میں 105۔ گروگرام میں یہ 105 ہے، دہرادون میں ہماری چھوٹی ریاست اتراکھنڈ میں 103 روپے ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ چھ مہینے بھلے جو کچھ بھی آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ آپ کی ریاست کام آئے گی، لیکن اب آپ پورے ملک میں تعاون کریں، میری آپ سے خصوصی گزارش ہے۔
ساتھیو،
ایک اور موضوع جس پر میں آج اپنی بات کہنا چاہتا ہوں۔ ملک میں گرمی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وقت سے پہلے شدید گرمی بڑھ رہی ہے اور ایسے وقت میں ہم مختلف مقامات پر آتشزدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں جنگلوں میں، اہم عمارتوں میں، اسپتالوں میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ وہ دن کتنے تکلیف دہ تھے جب پچھلے سال کئی اسپتالوں میں آگ لگ گئی تھی اور یہ بہت تکلیف دہ صورتحال تھی۔ وہ بہت مشکل وقت تھا۔ ان حادثات میں کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس لیے میں تمام ریاستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ ابھی سے ہم خاص طور پر اسپتالوں کا سیفٹی آڈٹ کروائیں، حفاظتی انتظامات کو مضبوط کریں اور اسے ترجیحی بنیادوں پر کریں۔ ہم ایسے واقعات سے بچ سکیں، ایسے واقعات کو کم سے کم کیا ہوں، ہمارا رسپانس ٹائم بھی کم سے کم ہونا چاہیے، جان و مال کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے بھی میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس کام پر اپنی ٹیم کو خصوصی طور پر لگائیں، اور مکمل نگرانی کریں کہ ملک میں کہیں کوئی حادثہ نہ ہو۔ ہمارے معصوم شہریوں کو اپنی جان نہیں گنوانی پڑے۔
ساتھیو،
میں ایک بار پھر وقت نکالنے کے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں آپ کے لیے ہمیشہ دستیاب ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی اہم تجاویز ہوں تو مجھے اچھا لگے گا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔