سوامتویوجنا سے جو خود اعتمادی، جو بھروسہ گاؤں میں آیا ہے، وہ استفادہ کنندگان کے ساتھ بات چیت میں بھی صاف صاف نظر آرہا ہے اور میں آج یہاں بھی دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے مجھے اپنی بمبو والی کرسیاں تو دکھائیں لیکن میری نظر تو دور دور تک یہ جو عوام، ان کا جو جوش ہے، ،امنگ ہے اسی پر ٹکی ہوئی ہے۔ اتنا پیار، اتنا آشیرواد عوام کا مل رہا ہے، ان کا کتنا بھلا ہوتا ہوگا، اس کا میں پوری طرح اندازہ لگا سکتا ہوں۔ یہ یوجنا کتنی بڑی طاقت بن کر ابھر رہی ہے، یہ احسان ابھی جن ساتھیوں سے مجھے بات کرنے کا موقع ملا، انہوں نے تفصیل سے بتایا ہے۔ سوامتو یوجنا کے بعد لوگوں کو بینکوں سے لون ملنا اور زیادہ آسان ہوا ہے۔
اس پروگرام میں موجود مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نریندر سنگھ تومر جی، ویریندر جی، دھرمیندر پردھان جی، جیوترادتیہ سندھیا جی، پرلہاد سنگھ پٹیل جی، فگن سنگھ کلستے جی، کپل موریشور پاٹل جی، ایل۔ موروگن جی، مدھیہ پردیش کے وزیر جناب اعلی شیوراج سنگھ چوہان جی، ایم پی حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ ارکان اسمبلی، دیگر معززین اور ہدرہ سمیت ایم پی کے الگ الگ علاقوں کے ہزاروں کی تعداد میں گاؤوں سے جڑے بھائیوں اور بہنوں،
سب سے پہلے یہ بھائی کمل جی کی سالگرہ ہے، ان کو میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات۔ اب ہم ٹی وی پر تو دیکھتے ہی ہیں۔ ایم پی ہے تو غضب ہے اور ایم پی غضب تو ہے ہی، ایم پی ملک کی شان بھی ہے۔ ایم پی میں رفتار بھی ہے اور ایم پی میں ترقی کی چاہت بھی ہے۔ لوگوں کے مفاد میں کوئی اسکیم بنتے ہی، کیسے مدھیہ پردیش میں اس اسکیم کو زمین پر اتارنے کے لئے دن رات ایک کردیا جاتا ہے، یہ جب جب میں سنتا ہوں، جب بھی میں دیکھتا ہوں، مجھے بہت لطف آتا ہے، بہت اچھا لگتا ہے اور میرے ساتھی اتنا بڑھیا کام کرتے ہیں، یہ اپنے آپ میں میرے لئے اطمینان کی بات ہوتی ہے۔
ساتھیو،
ابتدائی مراحل میں، پردھان منتری سوامتوا یوجنا کو مدھیہ پردیش، اتر پردیش، مہاراشٹر، اتراکھنڈ، ہریانہ، پنجاب، کرناٹک اور راجستھان کے کچھ گاؤوں میں نافذ کیا گیا تھا۔ ان ریاستوں میں گاؤوں میں رہنے والے تقریباً 22 لاکھ خاندانوں کے لیے پراپرٹی کارڈ تیار ہوچکا ہے۔ اب ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس کی توسیع کی جارہی ہے۔ ایک طرح سے وہ پائلٹ پروجیکٹ تھا تاکہ آگے چل کر اس اسکیم میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اب پورے ملک میں اس کی توسیع کی گئی ہے۔ مدھیہ پردیش نے اس میں بھی اپنے ہی انداز میں تیز رفتار سے کام کیا ہے اور مدھیہ پردیش اس کے لیے مبارکباد کا مستحق ہے۔ آج ایم پی کے 3 ہزار گاؤوں کے ایک لاکھ 70 ہزار سے زیادہ خاندانوں کو ملا پراپرٹی کارڈ ۔ ان کے حق کی دستاویز ان کی خوشحالی کا ذریعہ بنے گا۔ یہ لوگ ڈیجی لاکر کے ذریعے اپنے موبائل پر اپنا پراپرٹی کارڈ ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے جن جن لوگوں نے یہ محنت کی ہے، جی جان سے اس کام میں جٹے ہیں، ان سب کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباداور جن کو یہ فائدہ ملا ہے، ان کو مبارکباد بھی اور نیک تمنائیں بھی۔ جس رفتار سے مدھیہ پردیش آگے بڑھ رہا ہے، میرا یقین ہے کہ جلد ہی ریاست کے تمام دیہی خاندانوں کو حقوق کے دستاویز ضرور مل جائیں گے۔
بھائیو اور بہنو،
یہ ہم نے اکثر کہتے سنا ہے کہ بھارت کی روح گاؤں میں بستی ہے۔ لیکن آزادی کی دہائیاں گزر گئیں، بھارت کے گاؤوں کی بڑی صلاحیت کو جکڑ کر رکھا گیا۔ گاؤوں کی جو طاقت ہے، گاؤں کے لوگوں کی جو زمین ہے، جو گھر ہے، اس کا ستعمال گاؤں کے لوگ اسے اپنی ترقی کے لیے پوری طرح کر ہی نہیں پاتے تھے۔ اس کے برعکس، گاؤں کی زمین اور گاؤں کے گھروں کو لیکر تنازع، لڑائی جھگڑے، غیر قانونی قبضوں میں گاؤں کے لوگوں کی توانائی، کوٹ کچہری، نہ جانے کتنی کتنی مصیبتیں جھیلنی پڑتی تھیں۔ وقت اور پیسہ برباد ہوتا تھا۔ اور یہ فکر آج کی نہیں ہے۔ گاندھی جی نے بھی اپنے وقت میں اس کے بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس صورتحال کو بدلنا ہم سب کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ میں اس سمت میں جب سے کام کر رہا ہوں جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا۔ ہم نے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے گجرات میں ’سمرس گرام پنچایت‘ مہم چلائی تھی۔ میں نے دیکھا ہے کہ صحیح کوشش کی جائے تو پورا گاؤں مل کر اسے آگے بڑھاتا ہے اور ابھی شیوراج جی بیان کر رہے تھے کہ آج مجھے اس ذمہ داری کو نبھاتے 20 سال مکمل کر رہےہیں اور جب وہ شیوراج جی بول رہے تھے تو مجھے یاد آیا کہ جب میں پہلی بار وزیراعلیٰ بنا اور میرا جو پہلا بڑا پروگرام تھا وہ بھی غریب کلیان میلہ تھا اور اب مجھے خوشی ہے کہ بیسویں سال کے آخری دن بھی میں آج غریبوں کے لیے پروگرام سے وابستہ ہوں۔ یہ شایدایشور کا اشارہ ہے کہ مجھے متواتر میرے ملک کے غریبوں کی خدمت کرنے کی موقع ملتا رہا ہے۔ خیر، مجھے یقین ہے کہ سوامتوا یوجنا بھی آپ کی شرکت سے گرام سوراج کی ایک مثال بنے گی۔ ابھی ہم نے اس کورونا دور میں بھی دیکھا ہے کہ کیسے بھارت کے گاؤوں نے مل کر ایک مقصد پر کام کیا، بہت احتیاط کے ساتھ اس عالمی وبا کا مقابلہ کیا۔ گاؤں والوں نے ایک ماڈل کھڑا کیا۔ باہر سے آئے لوگوں کے لئے رہنے کا الگ انتظام ہو، کھانے اور کام کے بندوبست ہو، ویکسینیشن سے متعلق کام، بھارت کے گاؤں بہت آگے رہے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کی دانش مندی نے بھارت کے گاؤوں کو کورونا سے کافی حد تک بچاکر رکھا اور اس لئے میرے ملک کے تمام گاؤوں کے لوگ ابھینندن کے مستحق ہیں۔ انہوں نے تمام قوانین کو اپنے طریقے سے ڈھالا، اصولوں پر عمل کیا، بیداری برقرار رکھی اور حکومت کے ساتھ بھی بڑھ چڑھ کر تعاون کیا۔ میں گاؤوں نے اس ملک کو بچانے میں جو مدد کی ہے، اس کو میں کبھی بھول نہیں سکتا ہوں۔
ساتھیو،
دنیا کی بہت بڑے ادارے بھی ہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں جن شہریوں کے پاس اپنی جائیداد کے کاغذات نہیں ہوتے، ان شہریوں کی مالی صلاحیت ہمیشہ کم رہتی ہے۔ اور کم ہوتی جارتی ہے۔جائیداد کے کاغذات نہ ہونا ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ اس کا بہت تذکرہ نہیں ہوتا لیکن بڑے بڑے ممالک کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔
ساتھیو،
اسکول ہوں، ہسپتال ہوں، اسٹوریج کی سہولیات ہوں، سڑکیں ہوں، نہریں ہوں، فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز ہوں، ایسے ہر نظام کی تعمیر کے لیے زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ریکارڈ ہی واضح نہ ہو تا تو ایسے ترقیاتی کاموں میں سالوں سال لگ جاتے ہیں۔ اس خرابی سے بھارت کے گاؤوں کی ترقی پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ ملک کے گاؤوں کو ، گاؤوں کی جائیداد کو ، زمین اور گھر سے متعلق ریکارڈ کو غیر یقینی اور عدم اعتماد سے نکالنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے پی ایم سوامتوا یوجنا گاؤں کے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی بہت بڑی طاقت بننے جارہی ہے اور ہم جانتے ہیں جب کسی چیز پر آپ کا حق ہوتا ہے تو کتنا سکون ہوتا ہے، کبھی کبھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ریلوے میں آپ سفر کریں، آپ کے پاس ٹکٹ ہو لیکن آپ کے پاس ریزرویشن نہ ہو تو آپ مسلسل فکر لگی رہتی ہے کہ ڈبے میں سے کب نیچے اترکر کے کسی اور ڈبے میں جانا پڑے گا، لیکن اگر آپ کے پاس ریزرویشن ہو تو آپ ٹرین کے ٹکٹ ریزرویشن سے آرام سے بیٹھ سکتے ہیں کتنا ہی بڑا کوئی تیس مار خاں آجائے، کتنا ہی بڑا کوئی دولت مند شخص آ جائے، آپ حق سے کہہ سکتے ہیں کہ میرا یہ ریزرویشن ہے اور میں یہیں بیٹھوں گا۔ یہ طاقت ہوتی ہے اپنے حق کی۔یہ جو آج گاؤں کے لوگوں کے ہاتھ میں طاقت آئی ہے نہ، اس کے دور رس نتائج برآمد ہونے والے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ شیوراج جی کی قیادت میں، مدھیہ پردیش لینڈ ڈیجیٹلائزیشن کے معاملے میں اگلی صف کی ریاست بن کر ابھرا ہے۔ چاہے ڈیجیٹل ریکارڈز کا دائرہ بڑھانا ہو یا پھر ریکارڈز کی کوالٹی ہو، ہر پہلو میں مدھیہ پردیش قابل ستائش کام کر رہا ہے۔
ساتھیو،
سوامتو یوجنا، محض قانونی دستاویز دینے کی یوجنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ جدید ٹیکنالوجی سے ملک کے گاؤوں میں ترقی اور اعتماد کا ایک نیا منتر بھی ہے۔ یہ جو ’گاؤں-محلہ میں اڑن کھٹولا‘ اڑ رہا ہے، جس کو کچھ گاؤں والے چھوٹا ہیلی کاپٹر کہہ رہے ہیں، یہ جو ڈرون اڑ رہا ہے، وہ بھارت کے گاؤوں کو نئی اڑان دینے والا ہے۔ ڈرون سائنسی طریقہ سے گھروں کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ بغیر کسی امتیاز کے جائیداد کی نشان دہی کررہے ہیں۔ ابھی تک ملک کے تقریباً 60 اضلاع میں ڈرون نے یہ کام مکمل کرلیا ہے۔ اس سے صحیح لینڈ ریکارڈ اور جی آئی ایس میپ کی وجہ سے اب گرام پنچایتوں کو گرام پنچایت ڈیولپمنٹ پلان کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔
بھائیو بہنو،
سوامیتو یوجنا کے فوائد جو آج نظر آرہے ہیں وہ ملک کی ایک بہت بڑی مہم کا حصہ ہیں۔ یہ مہم ہے گاؤں کو، غریب کو خود کفیل، مالی اعتبار اور اور مضبوط بنانے کی ۔ اور ابھی ہم نے سنا پون جی کو، تین مہینوں میں کتنی بڑی طاقت آگئی، خود کا ہی تو گھر تھا، کاغذ کی کمی تھی۔ کاغذ آگیا، زندگی بدل گئی۔ ہمارے گاؤں کے لوگوں میں بے پناہ صلاحیت کے باوجود، انہیں دقت آتی رہی ہے ابتدائی وسائل کی، ایک طرح کے لانچنگ پیڈ کی! گھر بنوانا ہوتا تھا،تو ہوم لون کا دقت! کاروبار شروع کرنا ہوتا تھا پھر سرمائے کی دقت! کاشتکاری کو بڑھانے کا کوئی آئیڈیا ہو، ٹریکٹر خریدنا ہو، کوئی اوزار خریدنا ہو، کوئی نئی کھیتی کرنے کا خیال ہو، تو اس میں بھی شروعات بھی شروعات کرنے کے لیے پیسے کی پریشانی! جائیداد کے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بینکوں سے آسانی سے قرض بھی نہیں ملتا۔ مجبوری میں بھارت کے گاؤں کے لوگ بینکنگ نظام کے باہر کے لوگوں سے قرض لینے پر مجبور ہوگئے، بینکنگ سسٹم سے ہی وہ باہر ہوگئے۔ میں نے وہ تکلیف دیکھی ہے جب چھوٹے چھوٹے کام کے لیے کسی غریب کو تیسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا تھا، بڑھتا ہوا سود اس کی زندگی کی سب سے بڑی پریشانی بن جاتا تھا۔ مشکل یہ کہ اس کے پاس کسی تیسرے سے قرض مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ وہ جتنا لوٹنا چاہے لوٹ سکتا تھا کیونکہ مجبوری تھی۔ میں ملک کے غریبوں کو، گاؤں کے غریبوں کو، گاؤں کے نوجوانوں کو اس چکر سے ہی باہر نکالنا چاہتا ہوں۔ سوامیتو یوجنا اس کی بہت اہم بنیاد ہے۔ پراپرٹی کارڈ بننے کے بعد اب گاؤں کے لوگوں کو بینکوں سے آسانی سے قرض ملنے والا ہے۔ ابھی استفادہ کنندگان کے ساتھ بات چیت میں بھی ہم نے سنا کہ کس طرح پراپرٹی کارڈ نے ان کی بینک سے قرض لینے میں مدد کی ہے۔
ساتھیو،
گزشتہ 6-7 برسوں کی ہماری کوششوں کو دیکھیں، اسکیموں کو دیکھیں تو ہم نے کوشش کی ہے کہ غریب کو کسی تیسرے شخص کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، اس کو سر نہ جھکانا پڑے۔ آج کھیتی کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت، سیدھے کسانوں کے بینک کھاتوں میں پیسہ بھیجا جا رہے ہیں۔ اور چھوٹے کسانوں کا جو مجھے آشیرواد ملتا رہتا ہے اور میرا یقین ہے کہ بھارت کا چھوٹا چھوٹا جو کسان ہے، 100 میں سے 80 کسان ہیں، چھوٹے کسان ہیں جن طرف ہر کسی نے توجہ نہیں دی، کچھ ہی مٹھی بھر کسانوں کی فکر کی گئی۔ ہم نے پوری طاقت لگائی ہے چھوٹے کسانوں کے حقوق کے لیے۔ اور چھوٹا کسان میرا مضبوط ہو جائے گا نہ، میرے ملک کو پھر کوئی کمزور نہیں کرسکتا ہے۔ کورونا دور کے باوجود، ہم نے مہم کر 2 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو کسان کریڈٹ کارڈ بھی دیے ہیں۔ مویشی پروری کرنے والوں، ماہی پروری کرنے والوں کو بھی اس سے جوڑا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انہیں ضرورت پڑنے پر بینکوں سے پیسہ ملے، انہیں کسی اور کے پاس نہیں جانا پڑے۔ مدرا یوجنا نے بھی لوگوں کو اپنا کام شروع کرنے کے لئے بینکوں سے بغیر گارنٹی قرض کا بہترین موقع دیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت پچھلے 6 برسوں میں تقریباً 29 کروڑ قرضے دیے گئے ہیں۔ تقریباً 15 لاکھ کروڑ روپے کی رقم، 15 لاکھ کروڑ روپیہ کم نہیں ہوتا ہے جی، 15 لاکھ کروڑ روپے کی رقم مدرا یوجنا کے تحت لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔ اسی رقم کے لیے، پہلے انہیں کسی تیسرے کے پاس جانا پڑتا تھا، زیادہ سود کے چکر میں پھنسنا پڑتا تھا۔
ساتھیو،
بھارت کے گاؤوں کی معاشی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بہت بڑا رول ہماری مائیں اور بہنیں، ہماری خواتین کی طاقت کا بھی ہے۔ آج ملک بھر میں تقریباً 70 لاکھ سے زیادہ سیلف ہیلپ گروپس ہیں، جن سے تقریباً 8 کروڑ بہنیں منسلک ہیں اور یہ زیادہ تر گاؤوں میں ہی کام کر رہی ہیں۔ ان بہنوں کو جن دھن کھاتوں کے ذریعے سے بینکنگ سسٹم کے ساتھ تو جوڑا ہی گیا ہے، بغیر ضمانت کے قرضوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے ایک اور اہم فیصلہ کیا ہے۔ ہر سیلف ہیلپ گروپ جہاں پہلے 10 لاکھ روپے تک کا بغیر گارنٹی کا قرض ملتا تھا، اب یہ حد بڑھاکر دو گنی یعنی 10 لاکھ سے 20 لاکھ کر دی گئی ہے ۔
بھائیو اور بہنو،
ہمارے گاؤں کے بہت سے ساتھی قریبی شہروں میں جاکر ریہڑی پٹری کا بھی کام کرتے ہیں۔ انہیں بھی پی ایم سوانیدھی یوجنا کے ذریعے بینک سے قرض لینے کی سہولت دی گئی ہے۔ آج 25 لاکھ سے زائد ایسے ساتھیوں کو بینک سے قرض مل بھی چکا ہے۔ اب انہیں بھی اپنا کام آگے بڑھانے کے لیے کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ساتھیو،
آپ ان تمام اسکیموں کو دیکھیں تو مقصد یہی ہے کہک پیسے دینے کے لیے جب حکومت ہے، بینک ہیں، تو غریبوں کو کسی دوسرے تیسرے کے پاس نہیں جانا پڑے۔وہ زمانہ ملک پیچھے چھوڑ آیا ہے جب غریب کو ایک ایک پیسے، ایک ایک چیز کے لیے سرکار کے پاس چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب غریب کے پاس حکومت خود چل کر آ رہی ہے اور اس غریب کو بااختیار بنا رہی ہے۔ آپ دیکھئے کورونا کے دور میں مشکلات میں اضافہ ہوا تو حکومت خود سامنے آکر 80 کروڑ سے زائد لوگوں کے لیے مفت اناج کو یقینی بنایا۔ ایک بھی غریب ایسا نہیں ہو کہ جس کے گھر میں چولہا نہ جلے۔ اور اس میں مدھیہ پردیش کے کسانوں کا تعاون تو ہے ہی ان کی محنت بھی ہے۔ غریبوں کو مفت اناج دینے کے لئے تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے حکومت نے خرچ کیے ہیں۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت بھی جو مفت علاج کی سہولت غریبوں کو ملی ہے، اس نے غریبوں کے 40 سے 50 ہزار کروڑ روپے بچائے ہیں۔ جن 8 ہزار سے زائد جن اوشدھی کیندروں پر سستی ادویات مل رہی ہیں اس سے بھی غریبوں کے سینکڑوں کروڑ روپے خرچ ہونے سے بچے ہیں۔ مشن اندرا دھنش میں نئی ویکسینوں کو شامل کرکے، ویکسینیشن مہم کو زیادہ سے زیادہ غریبوں تک پہنچا کر، ہم نے کروڑوں حاملہ خواتین کو ، بچوں کو ،متعدد بیماریوں سے بچایا ہے۔ آج یہ ساری کوششیں آج گاؤں کے غریب کی جیب میں پیسے بچا کر اسے مجبوری میں سے باہر نکال رہی ہیں، امکانات کے آسمان سے جوڑ رہی ہیں۔ اور مجھے یقین ہے سوامتو یوجنا کی طاقت ملنے کے بعد بھارت کی دیہی معیشت میں ترقی کا ایک نیا باب لکھا جائے گا۔
ساتھیو،
بھارت میں ایک روایت جیسی رہی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی پہلے شہروں میں پہنچتی ہے اور پھر گاؤوں تک جاتی ہے۔ لیکن آج ملک نے اس روایت کو بدلنے کا کام کیا ہے۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تب وہاں بھی زمین کی معلومات آن لائن کرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔ حکومت ٹیکنالوجی کے ذریعے گاؤں تک چل کر جائے اس کے لیے ای۔ گرام سیوا شروع کی گئی تھی۔ لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے گجرات نے سواگت نام سے پہل بھی کی تھی جو آج بھی ایک مثال ہے۔ اسی منتر پر چلتے ہوئے، آج ملک یہ یقینی بنارہا ہے کہ سوامتو یوجنا اور ڈرون ٹکنالوجی کی طاقت سے پہلے بھارت کے گاؤوں کو خوشحال بنایا جائے۔ ڈرون ٹیکنالوجی کم سے کم وقت میں مشکل سے مشکل کام صحیح طریقے سے کر سکتی ہے۔ ڈرون وہاں بھی آسانی سے آجاسکتاجہاں انسان نہیں جاسکتا۔ گھر کی میپنگ کے علاوہ، ملک کے زمین سے متعلق ریکارڈز، سروے، ڈی مارکیشن جیسے کاموں کو زیادہ موثر اور شفاف بنانے میں ڈرون بہت بہت کام آنے والا ہے۔ میپنگ سے لیکر ڈیزاسٹر منیجمنٹ ، کھیتی کے کام اور سروس ڈلیوری میں ڈرون کا استعمال اب وسیع پیمانے پر ہوگا۔ آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، اخبار میں، دو دن پہلے ہی منی پور میں ڈرون سے ایسے علاقوں تک ، کورونا کی ویکسین تیزی سے پہنچائی گئی جہاں انسانوں کو پہنچنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ ایسے ہی ابھی گجرات میں ڈرون کا استعمال کھیت میں یوریا کے چھڑکاؤ کے لیے کیا گیا ۔
بھائیو اور بہنو،
ڈرون ٹیکنالوجی سے کسانوں کو، مریضوں کو ، دور دراز کے علاقوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے اس کے لئے حال ہی میں پالیسی سے متعلق کئی فیصلے کئے گئے ہیں۔ جدید ڈرون بڑی تعداد میں بھارت میں ہی تیار کیے جائیں اس میں بھی بھارت خود کفیل ہو، اس کے لئے پی ایل آئی اسکیم کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ آج، میں اس موقع پر ملک کے محنتی سائنسدانوں، انجینئرز، سافٹ وئیر ڈیولپرز اور اسٹارٹ اپس سے جڑے نوجوانوں سے کہوں گا کہ بھارت کم قیمت والے اچھی کوالٹی کے ڈرون تیار کرنے کے لیے آگے آئیں۔ یہ ڈرون بھارت کی تقدیر کو آسمان کی نئی بلندیوں پر لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت نے یہ بھی طے کیا ہے کہ بھارتی کمپنیوں سے ڈرون اور اس سے متعلقہ خدمات خریدی جائیں گی۔ اس سے بڑی تعداد میں ملکی، غیر ملکی کمپنیوں کی بھارت میں ڈرون تیار کے لئے حوصلہ افزائی ہوگی، جس سے نئے روزگار بھی پیدا ہوں گے۔
ساتھیو،
آزادی کا امرت کال، یعنی آنے والے 25 سال، گاؤوں کی معاشی صلاحیت سے بھارت کی ترقیاتی سفر کو مضبوط کرنے کے ہیں۔ اس میں ٹیکنالوجی سے جڑا انفراسٹرکچر بہت بڑا کردار ادا کرنے والا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ آج گاؤں کے نوجوانوں کو نئے مواقع سے جوڑ رہے ہیں۔ کسانوں کو کاشتکاری کی نئی تکنیکوں، نئی فصلوں، نئے بازاروں سے جوڑنے میں موبائل فون آج بہت بڑی سہولت بن چکا ہے۔ آج بھارت کے گاؤوں میں شہروں سے بھی زیادہ نٹرنیٹ یوزرز ہیں۔ اب تو ملک کے تمام گاؤوں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑنے کی مہم بھی تیزی سے چل رہی ہے۔ بہتر انٹرنیٹ کی سہولت سے کھیتی کے علاوہ اچھی پڑھائی اور اچھی دوائی ، اس کی سہولت گاؤں کے غریبوں کو گھر بیٹھے ہی مل سکے، یہ ممکن ہونے والا ہے۔
ساتھیو،
ٹیکنالوجی سے گاؤوں کی صورتحال تبدیل کرنے کی یہ مہم محض آئی ٹی یا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک ہی محدود نہیں ہے۔ دوسری ٹکنالوجی کا بھی بھرپور استعمال گاؤوں کی ترقی میں کیا جارہا ہے۔ شمسی توانائی سے آبپاشی اور کمائی کے نئے مواقع بھی گاؤوں کو دستیاب کرائے جا رہے ہیں۔ بیجوں سے متعلق جدید ریسرچ کی مدد سے بدلتے موسم اور بدلتی مانگ کے مطابق کسانوں کو نئے بیج دستیاب کرائے جا رہے ہیں۔ نئی اور بہتر ویکسین سے مویشیوں کی صحت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی ہی مثبت کوششوں سئ، گاؤوں کی سرگرم حصے داری سے، سب کی کوششوں سے، ہم گاؤں کی مکمل صلاحیت کو بھارت کی ترقی کی بنیاد بنائیں گے۔ گاؤں بااختیار ہوگا تو مدھیہ پردیش بھی بااختیار ہوگا، بھارت بھی بااختیار ہوگا۔ اسی خواہش کے ساتھ، آپ سبھی کو پھر سے بہت بہت نیک خواہشات! کل سے نوراتری کا مقدس تہوار شروع ہورہا ہے، یہ شکتی سادھنا آپ سب پر آشیرواد بن کر آئے۔ ملک کو جلد از جلد کورونا سے پنجات پائے۔ ہم بھی اس کورونا کے دور میں احتیاط برتتے ہوئے اپنی زندگی کو بھی آگے بڑھاتے رہیں، زندگی کو مستی سے جیتے رہیں، انہیں نیک خواہشات کے ساتھ بہت بہت شکریہ!