نمسکار!
آج کا یہ اُتکرش سماروہ سچ مچ عمدہ ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ایمانداری سے، ایک عزم کے ساتھ استفادہ کنندہ تک پہنچتی ہے، تو کتنے بامعنی نتیجے حاصل ہوتے ہیں۔ میں بھڑوچ ضلع انتظامیہ کو گجرات حکومت کو سماجی تحفظ سے وابستہ 4 منصوبوں کے سو فیصد سیچوریشن کوریج کے لئے آپ سب کو جتنی مبارک باد دوں اتنی کم ہے۔ آپ سب بہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ابھی میں جب ان منصوبوں کے استفادہ کنندگان سے بات چیت کررہا تھا، تو میں دیکھ رہا تھا کہ ان کے اندر کتنی طمانیت ہے، کتنی خوداعتمادی ہے۔ مصیبتوں سے مقابلہ کرنے میں جب حکومت کی چھوٹی سی بھی مدد مل جائے، اور حوصلہ کتنا بلند ہوجاتا ہے اور مصیبت خود مجبور ہوجاتی ہے اور جو مصیبت کو جھیلتا ہے وہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ آج میں آپ سب کے ساتھ بات چیت کرکے محسوس کررہا تھا۔ ان 4 منصوبوں میں جن بہنوں کو، جن کنبوں کو فائدہ ملا ہے وہ میرے آدیواسی سماج کے بھائی بہن، میرے دلت – پسماندہ طبقے کے بھائی بہن، میرے اقلیتی سماج کے بھائی بہن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات کی عدم دستیابی کے سبب متعدد لوگ اسکیموں کے فائدے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اسکیمیں کاغذ پر ہی رہ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی اسکیموں کا فائدہ بے ایمان لوگ اٹھا لے جاتے ہیں، لیکن جب ارادہ ہو، نیت صاف ہو، نیکی سے کام کرنے کا ارادہ ہو اور جس بات کو لے کر میں ہمیشہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں، وہ ہے – سب کا ساتھ – سب کا وکاس کا جذبہ، جس سے نتیجے بھی برآمد ہوتے ہیں۔ کسی بھی منصوبے کا سو فیصد مستفیدین تک پہنچنا ایک بڑا ہدف ہے۔ کام مشکل ضرور ہے، لیکن راستہ صحیح یہی ہے۔ میں سبھی مستفیدین کو، انتظامیہ کو یہ آپ نے جو حاصل کیا ہے، اس کے لئے مبارک باد دینی ہی ہے۔
ساتھیو!
آپ جانتے ہیں اچھی طرح، ہماری حکومت جب سے آپ نے مجھے گجرات سے دہلی کی خدمت کے لئے بھیجا، ملک کی خدمت کے لئے بھیجا، اب اس کو بھی 8 سال ہوجائیں گے۔ 8 سال خدمت، اچھی حکمرانی اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہے ہیں۔ آج جو کچھ بھی میں کرپا رہا ہوں، وہ آپ ہی لوگوں سےسیکھا ہے۔ آپ ہی کے درمیان جیتے ہوئے، ترقی کیا ہوتی ہے، دکھ درد کیا ہوتا ہے، غریبی کیا ہوتی ہے، مصیبتیں کیا ہوتی ہیں، ان کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے اور وہی تجربہ ہے جس کو لے کر آج پورے ملک کے لئے، ملک کے کروڑوں کروڑوں شہریوں کے لئے، خاندان کے ایک فرد کے طور پر کام کررہا ہوں۔ حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ غریبوں کی فلاح و بہبود کے متعلق منصوبوں سے کوئی بھی استفادہ کنندہ جو اس کا حقدار ہے، وہ حق دار چھوٹنا نہیں چاہئے۔ سب کو فائدہ ملنا چاہئے جو حق دار ہے اور پورا فائدہ ملنا چاہئے۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو!
جب ہم کسی بھی منصوبے کے سو فیصد ہدف کو حاصل کرتے ہیں تو یہ 100 فیصد صرف اعداد و شمار نہیں ہے۔ اخبار میں اشتہار دینے کا معاملہ نہیں ہے صرف۔ اس کا مطلب ہوتا ہے – حکومت، انتظامیہ، حساس ہے۔ آپ کے سکھ دکھ کا ساتھی ہے۔ یہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ آج ملک میں ہماری حکومت کے آٹھ سال پورے ہورہے ہیں اور جب آٹھ سال پورے ہورہے ہیں تو ہم ایک نئے عزم کے ساتھ، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے ایک دن ایک بہت بڑے لیڈر ملے، سینئر لیڈر ہیں۔ ویسے ہماری مسلسل مخالفت بھی کرتے رہے، سیاسی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن میں ان کا احترام بھی کرتا رہا ہوں۔ تو کچھ باتوں کے سبب ان کو تھوڑا شکوہ و گلہ تھا تو ایک دن ملنے آئے۔ تو کہا مودی جی یہ کیا کرنا ہے۔ دو دو بار آپ کو ملک نے وزیر اعظم بنادیا۔ اب کیا کرنا ہے۔ ان کو لگتا تھا کہ دو مرتبہ وزیر اعظم بن گیا مطلب بہت کچھ ہوگیا۔ ان کو پتہ نہیں ہے کہ مودی کسی الگ مٹی کا ہے۔ گجرات کی سرزمین نے اس کو تیار کیا ہے اور اس لئے جو بھی ہوگیا اچھا ہوگیا، چلو اب آرام کرو، نہیں میرا خواب ہے – سیچوریشن۔ سو فیصد ہدف کی طرف ہم آگے بڑھیں۔ سرکاری مشینری کو ہم عادت ڈالیں۔ شہریوں میں بھی ہم اعتماد پیدا کریں۔ آپ کو یاد ہوگا 2014 میں جب آپ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا تھا تو ملک کی تقریباً نصف آبادی بیت الخلاء کی سہولت سے، ٹیکہ کاری کی سہولت سے، بجلی کنیکشن کی سہولت سے، بینک اکاؤنٹ کی سہولت سے سیکڑوں میل دور تھی، ایک طرح سے محروم تھی۔ ان برسوں میں ہم سبھی کی کوششوں سے متعدد منصوبوں کو سو فیصد سیچوریشن کے قریب قریب لا پائے ہیں۔ اب آٹھ سال کے اس اہم موقع پر، ایک بار پھر کمر کس کے، سب کا ساتھ لے کر، سب کی کوشش سے آگے بڑھنا ہی ہے اور ہر ضرورت مند ہو، ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کے لئے جی جان سے لگ جانا ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ ایسے کام مشکل ہوتے ہیں، لیڈران بھی ان کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن میں سیاست کرنے کے لئے نہیں، میں صرف اور صرف اہل وطن کی خدمت کرنے کے لئے آیا ہوں۔ ملک نے عزم کیا ہے سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا، اور جب سو فیصد پہنچتے ہیں نا، تو سب سے پہلے جو نفسیاتی تبدیلی آتی ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اس میں ملک کا شہری سائل کی حالت سے باہر نکل جاتا ہے پہلے تو۔ وہ مانگنے کے لئے قطار میں کھڑا ہے، یہ احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ یہ میرا ملک ہے، یہ میری حکومت ہے، ان پیسوں پر میرا حق ہے، میرے ملک کے شہریوں کا حق ہے۔ یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوتا ہے اور اس کے اندر فرض کے بیج بھی بودیتا ہے۔
ساتھیو!
جب سیچوریشن ہوتا ہے نا تو تفریق کی ساری گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ ہر کسی کو اعتماد رہتا ہے، بھلے اس کو پہلے ملا ہوگا، لیکن بعد میں بھی مجھے ملے گا ہی۔ دو مہینے بعد ملے گا، چھ مہینے بعد ملے گا، لیکن ملنے والا ہے۔ اس کو کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی اور جو دینے والا ہے وہ بھی کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ تم میرے ہو، اس لئے دے رہا ہوں۔ وہ تو میرا نہیں ہے اس لئے نہیں دے رہا ہوں۔ تفریق نہیں کرسکتا اور ملک نے عزم کیا ہے سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا۔ آج جب سو فیصد ہوتا ہے تو نازبرداری کی سیاست تو ختم ہی ہوجاتی ہے۔ اس کے لئے کوئی جگہ نہیں بچتی ہے۔ سو فیصد مستفیدین تک پہنچنے کا مطلب ہوتا ہے، سماج میں آخری پائیدان پر کھڑے شخص تک پہنچنا۔ جس کا کوئی نہیں ہے، اس کے لئے حکومت ہوتی ہے۔ حکومت کے عزائم ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی ساتھی بن کر چلتی ہے۔ یہ احساس ملک کے دور دراز جنگلوں میں رہنے والا میرا آدیواسی ہو، جھگی جھونپڑی میں جینے والا میری کوئی غریب ماں بہن ہو، بڑھاپے میں تنہا زندگی گزارنے والا کوئی شخص ہو، ہر کسی میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ اس کے حق کی چیزیں اس کے دروازے پر آکر دینے کے لئے کوشش کی ہے۔
ساتھیو!
سو فیصد مستفیدین کی کوریج یعنی ہر خیال، ہر مذہب، ہر طبقے کو یکساں طور پر سب کا ساتھ، سب کا وکاس سو فیصد فائدہ غریبوں کی بہبود کی ہر اسکیم سے کوئی چھوٹے نہ، کوئی پیچھے نہ رہے۔ یہ بہت بڑا عزم ہے۔ آپ نے آج جو راکھی دی ہے نا، سب بیوہ ماؤں نے، میرے لئے جو راکھی بھی اتنی بڑی بنائی ہے راکھی، یہ سب دھاگا نہیں ہے۔ یہ آپ نے مجھے ایک طاقت دی ہے، قوت دی ہے، اور جن خوابوں کو لے کرکے چلے ہیں، ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے طاقت دی ہے۔ اس لئے آج جو آپ نے مجھے راکھی دی ہے اسے میں انمول تحفہ مانتا ہوں۔ یہ راکھی مجھے ہمیشہ ملک کے غریبوں کی خدمت کے لئے، سو فیصد سیچوریشن کی طرف حکومتوں کو دوڑانے کے لئے تحریک بھی دے گی، حوصلہ بھی دے گی اور ساتھ بھی دے گی۔ یہی تو ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس۔ آج راکھی بھی سب بیوہ ماؤں کی کوشش سے بنی ہے اور میں تو جب گجرات میں تھا، بار بار میں کہتا تھا، کبھی کبھی خبریں آتی تھیں۔ میرے متعلق، میری سکیورٹی کو لے کر خبریں آتی تھیں۔ ایک آدھ بار تو میری بیماری کی خبر آئی تھی تب میں کہتا تھا بھائی مجھے ماؤں بہنوں کی حفاظتی ڈھال ملی ہوئی ہے۔ جب تک یہ ماؤں بہنوں کی حفاظتی ڈھال مجھے ملی ہوئی ہے اس حفاظتی ڈھال کو توڑکر کوئی بھی مجھے کچھ نہیں کرسکتا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں ہر قدم پر، ہر لمحہ مائیں بہنیں، ان کا آشیرواد ہمیشہ مجھ پر رہتا ہے۔ ان ماؤں بہنوں کا جتنا قرض میں چکاؤں اتنا کم ہے۔ اور اسی لئے ساتھیو، اسی سنسکار کے سبب میں نے لال قلعہ سے ہمت کی تھی ایک بار بولنے کی، مشکل کام ہے میں پھر کہہ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے یہ مشکل کام ہے، کیسے کرنا مشکل ہے میں جانتا ہوں۔ سب ریاستوں کو آمادہ کرنا، ساتھ لینا مشکل کام ہے میں جانتا ہوں۔ سبھی سرکاری ملازمین کو اس کام کے لئے دوڑانا مشکل ہے، میں جانتا ہوں۔ لیکن یہ آزادی کا امرت کال ہے۔ آزادی کے 75 سال ہوئے ہیں۔ اس امرت کال میں بنیادی سہولتوں سے متعلق منصوبوں کے سیچوریشن کی بات میں نے لال قلعہ سے کہی تھی۔ سو فیصد جذبۂ خدمت کی ہماری یہ مہم سماجی انصاف، سوشل جسٹس کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے گجرات کے مردیہ اور مکم وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل، ان کی قیادت میں گجرات حکومت اس عزم کی تکمیل میں پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہے۔
ساتھیو!
ہماری حکومت نے سماجی تحفظ، عوامی بہبود اور غریبوں کے وقار کا یہ سارا جو میری سیچوریشن کی مہم ہے، اگر ایک لفظ میں کہنا ہے تو یہی ہے غریب کو وقار۔ غریب کے وقار کے لئے حکومت۔ غریب کے وقار کے لئے عزم اور غریب کے وقار کے سنسکار۔ یہی تو ہمیں تحریک دیتے ہیں۔ پہلے ہم جب سماجی تحفظ کی بات سنتے تھے، تو اکثر دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی مثال دیتے تھے۔ بھارت میں ان کو نافذ کرنے کی جو بھی کوششیں ہوئی ہیں ان کا دائرہ اور اثر دونوں بہت محدود رہے ہیں۔ لیکن سال 2014 کے بعد ملک نے اپنے دائرے کو وسیع کیا، ملک سب کو ساتھ لے کر چلا۔ نتیجہ ہم سبھی کے سامنے ہے۔ 50 کروڑ سے زیادہ اہل وطن کو 5 لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت ملی، کروڑوں لوگوں کو 4 لاکھ روپئے تک کا حادثہ اور لائف انشورنس کی سہولت ملی، کروڑوں بھارتیوں کو 60 سال کی عمر کے بعد ایک مقررہ پنشن کا نظام ملا۔ اپنا پختہ گھر، بیت الخلاء، گیس کنکشن، بجلی کنکشن، پانی کا کنکشن، بینک میں اکاؤنٹ، ایسی سہولتوں کے لئے تو غریب سرکاری دفاتر کے چکر کاٹ کاٹ کر ان کی زندگی ختم ہوجاتی تھی۔ وہ ہار جاتے تھے۔ ہماری حکومت نے ان سارے حالات کو بدلا، اسکیموں میں بہتری لائی، نئے ہدف مقرر کئے اور انھیں مسلسل ہم حاصل بھی کررہے ہیں۔ اسی کڑی میں کسانوں کو پہلی بار براہ راست مدد ملی۔ چھوٹے کسانوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں تھا بھائی اور ہمارے ملک میں 90 فیصد چھوٹے کسان ہیں۔ 80 فیصد سے زیادہ، قریب قریب 90 فیصد۔ جن کے پاس 2 ایکڑ زمین مشکل سے ہے۔ ان چھوٹے کسانوں کے لئے ہم نے ایک منصوبہ بنایا۔ ہمارے ماہی گیر بھائی بہن، بینک والے ان کو پوچھتے نہیں تھے۔ ہم نے کسان کریڈٹ کارڈ جیسا ہے وہ ماہی گیروں کے لئے شروع کیا۔ اتنا ہی نہیں، ریہڑی پٹری ٹھیلے والوں کو پی ایم سواندھی کی شکل میں بینک سے پہلی بار مدد یقینی بنی ہے اور میں تو چاہوں گا اور ہماری سی آر پاٹل جو بھارتی جنتا پارٹی کے کارکنوں نے سبھی شہروں میں یہ ریہڑی پٹری والوں کو سواندھی کے پیسے ملے۔ ان کا کاروبار سود کے چکر سے آزاد ہوجائے۔ جو بھی محنت کرکے کمائیں وہ گھر کے کام آئے۔ اس کے لئے جو مہم چلائی ہے، میں چاہوں گا بھڑوچ ہو، انکلیشور ہو، والیا ہو، سبھی اپنے ان شہروں میں بھی اس کا فائدہ پہنچے۔ ویسے تو بھڑوچ سے مجھے براہ راست ملاقات کرنی چاہئے اور کافی وقت سے آیا نہیں، تو من بھی ہوتا ہے، کیونکہ بھڑوچ کے ساتھ میرا تعلق بہت پرانا رہا ہے۔ اور بھڑوچ تو اپنی ثقافتی وراثت ہے، تجارت کا، ثقافتی وراثت کا ہزاروں سال پرانا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا دنیا کو ایک کرنے میں بھڑوچ کا نام تھا۔ اور اپنی ثقافتی وراثت، اپنے کسان، اپنے آدی واسی بھائیوں، اور اب تو صنعت و تجارت سے جگمگا رہا ہے۔ بھڑوچ – انکلیشور جڑواں شہر بن گیا ہے۔ پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اور میں جتنے وقت رہا، پرانے دن سب یاد ہیں۔ آج جدید ترقی کے سبب بھڑوچ ضلع کا نام ہورہا ہے۔ متعدد کام ہورہے ہیں اور فطری بات ہے بھڑوچ جب، بھڑوچ کے لوگوں کے پاس آتا ہوں تب پرانے پرانے لوگ سب یاد آتے ہیں۔ متعدد لوگ، پرانے پرانے دوست، سینئر دوست، کبھی کبھی، ابھی بھی رابطہ ہوتا ہے۔ بہت سالوں پہلے میں جب سنگھ کا کام کرتا تھا، تب بس میں سے اتروں، تب چلتا چلتا مکتی نگر سوسائٹی جاتا تھا۔ مول چند بھائی چوہان کے گھر، ہمارے بپن بھائی شاہ، ہمارے شنکر بھائی گاندھی، متعدد دوست سب پرانے پرانے اور جب آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں، تب مجھے میرے بہادر ساتھی شریش بنگالی بہت یاد آتے ہیں۔ سماج کے لئے جینے والے۔ اور ہمیں پتہ ہے للو بھائی کی گلی سے نکلتے ہیں تب اپنا پانچ بتی ایکسٹینشن۔ ابھی جو 20-25 سال کے جوان لڑکے لڑکیاں ہیں، ان کو تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ یہ پانچ بتی اور للو بھائی کی گلی کا کیا حال تھا۔ ایک دم پتلے راستے، اسکوٹر پر جانا ہو تو بھی مشکل ہوجاتی تھی۔ اور اتنے سارے گڈھے، کیوں کہ مجھے اب بھی یاد ہے میں جاتا تھا۔ اور پہلے تو مجھے کوئی عوامی جلسہ کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ سالوں پہلے بھڑوچ والوں نے مجھے پکڑا، اپنی شکتی نگر سوسائٹی میں۔ تب تو میں سیاست میں آیا بھی نہیں تھا۔ شکتی نگر سوسائٹی میں ایک میٹنگ رکھی تھی، 40 سال ہوگئے ہوں گے۔ اور میں حیران ہوگیا کہ سوسائٹی میں کھڑے رہنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اور اتنے سارے لوگ، اتنے سارے لوگ، آشیرواد دینے آئے تھے۔ میرا کوئی نام نہیں، کوئی جانتا نہیں، پھر بھی زبردست اور بڑا جلسہ ہوا۔ اس دن تب تو میں سیاست میں کچھ تھا ہی نہیں۔ نیا نیا تھا، سیکھ رہا تھا۔ اس وقت مجھے کتنے صحافی دوست ملے، میری تقریر ختم ہونے کے بعد۔ میں نے ان سے کہا، آپ لکھ کر رکھ لو، اس بھڑوچ کے اندر کانگریس کبھی بھی جیتے گی نہیں۔ ایسا میں نے اس وقت کہا تھا۔ آج سے 40 سال پہلے۔ تب سب ہنسنے لگے، میرا مذاق اڑانے لگے، اور آج مجھے کہنا ہے کہ بھڑوچ کے لوگوں کے پیار اور آشیرواد سے وہ بات میری صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اتنا سارا پیار، بھڑوچ اور آدی واسی کنبوں کی طرف سے، کیونکہ میں سارے گاؤں گھومتا تھا، تب متعدد قبائلی خاندانوں کے درمیان رہنے کا، ان کے سکھ دکھ میں کام کرنے کا، ہمارے ایک چندو بھائی دیش مکھ تھے پہلے، ان کے ساتھ کام کرنے کا، پھر ہمارے من سکھ بھائی نے سارا کام کاج سنبھال لیا۔ ہماری بہت ساری ذمے داری انھوں نے لے لی۔ اور اتنے سارے ساتھی، اتنے سارے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے، وہ سب دن جب آپ کے درمیان آیا ہوں، تب آپ کے سامنے آتا تو کتنا مزا آتا۔ اتنا دور ہوں تب بھی سب یاد آنے لگا۔ اور اس وقت یاد ہے، سبزی بیچنے والے کے لئے راستہ اتنا خراب کہ کوئی آئے تب اس کی سبزی بھی نیچے گر جائے۔ ایسی حالت تھی۔ اور جب میں راستے پر جاتا تو دیکھتا کہ غریب کا تھیلا الٹا ہوگیا، تب میں اسے سیدھا کرکے دیتا تھا۔ ایسے وقت میں، میں نے بھڑوچ میں کام کیا ہے۔ اور آج چاروں طرف بھڑوچ اپنا ترقی کررہا ہے۔ سڑکوں میں بہتری آئی ہے، طرز زندگی بہتر ہوا ہے، تعلیمی ادارے، طبی نظامات، تیز رفتار سے اپنا بھڑوچ ضلع آگے بڑھا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ پورا آدی واسی ایکسٹینشن عمر گاؤں سے امباجی، پورے آدی واسی پٹے میں، گجرات میں آدی واسی وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ لیکن سائنس کے اسکول نہیں ہیں، بولو، سائنس کے اسکول، میرے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد شروع کرنے کا موقع ملا۔ اور جب سائنس کے اسکول ہی نہ ہوں تو کسی کو انجینئرنگ بننا ہو، ڈاکٹر بننا ہو تو کیسے بنے؟ ابھی ہمارے یعقوب بھائی بات کررہے تھے، بیٹی کو ڈاکٹر بنانا ہے، کیوں بننے کا امکان پیدا ہوا، کیونکہ کوشش شروع ہوئی بھائی۔ اس لئے بیٹی نے بھی طے کیا کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔ آج تبدیلی آئی ہے نا۔ اسی طرح سے بھڑوچ میں صنعتی ترقی، اور اب تو اپنا بھڑوچ متعدد مین لائن، فرنٹ کوریڈور اور بلٹ ٹرین کہو، ایکسپریس وے کہو، کوئی آمد و رفت کا ذریعہ نہیں جو بھڑوچ کو نہ چھوتا ہو۔ اس لئے ایک طرح سے بھڑوچ نوجوانوں کے خوابوں کا ضلع بن رہا ہے۔ نوجوانوں کی امنگوں کا شہر اور اس کی توسیع بن رہا ہے۔ اور ماں نرمدا اسٹیچو آف یونٹی کے بعد تو، اپنا بھڑوچ ہو یا راج پیپلا ہو، پورے ہندوستان میں، اور دنیا میں آپ کا نام چھا گیا ہے، کہ بھائی اسٹیچو آف یونٹی جانا ہو تو کہاں سے جانا؟ تو کہا جاتا ہے بھڑوچ سے، راج پیپلا سے جانا۔ اور اب ہم دوسرا ویئر بھی بنارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے بھڑوچ نرمدا کے کنارے پینے کے پانی کی مشکل ہوتی تھی۔ نرمدا کے کنارے ہو، اور پینے کے پانی کی مشکل پڑے، تو اس کی تدبیر کیا ہوگی؟ تو اس کا حل ہم نے ڈھونڈ لیا۔ تو پورے سمندر کے اوپر پورا بڑا ویئر بنادیا۔ تو سمندر کا کھارا پانی اوپر آئے نہیں۔ اور نرمدا کا پانی رکا رہے اور نرمدا کا پانی کیویڈیا سے بھرا رہے۔ اور کبھی بھی پینے کے پانی کی مشکل نہ پڑے، اس کا کام چل رہا ہے۔ اور میں تو بھوپیندر بھائی کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کتنا سارہ فائدہ ہوگا آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ اس لئے دوستو، مجھے آپ لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، مجھے بہت خوشی ملی۔ پرانے پرانے دوستوں کی یاد آئے فطری بات ہے، ہمارے بلیو ایکونومی کا جو کام چل رہا ہے، اس میں بھڑوچ ضلع بہت کچھ کرسکتا ہے۔ سمندر کے اندر جو دولت ہے، اپنا ساگر کھیڑو منصوبہ ہے، اس کا فائدہ اٹھاکر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ تعلیم ہو، صحت ہو، جہازرانی ہو، کنیکٹیوٹی ہو، ہر شعبے میں بہت تیزی سے آگے بڑھنا ہے۔ آج مجھے خوشی ہوئی کہ بھڑوچ ضلع نے بڑی پہل کی ہے۔
آپ سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
جے جے گروی گجرات، وندے ماترم۔