نمسکار!
پروگرام میں موجود مختلف ریاستوں کے گورنر حضرات، وزرائے اعلیٰ، وزراء کی کونسل میں میرے ساتھی ،بہن اسمرتی ایرانی جی، ڈاکٹر مہیندر بھائی، درشنا جردوش جی، قومی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن محترمہ ریکھا شرما جی، تمام ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن و اراکین حضرات، سیلف ہیلپ گروپوں کے اراکین حضرات، دیگر معززین، بھائیو اور بہنو!
آپ تمام حضرات کو قومی کمیشن برائے خواتین کے قیام کے 30 برس مکمل ہونے پر بہت بہت مبارکباد۔ 30 برسوں کا سفر خواہ کسی فرد کی زندگی کا ہو یا پھر کسی تنظیم کا، یہ بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ وقت نئی ذمہ داریوں کا ہوتا ہے، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے، اپنے قیام کے 30ویں برس کو قومی کمیشن برائے خواتین کے ذریعہ بھی اسی شکل میں دیکھا جا رہا ہوگا۔ مزید اثر انگیز اور مزید جوابدہ، نئی توانائی سے شرابور۔ آج بدلتے ہوئے بھارت میں خواتین کا کردار مسلسل توسیع سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ اس لیے قومی کمیشن برائے خواتین کی توسیع بھی آج وقت کا تقاضہ ہے۔ ایسے میں، آج ملک کی تمام خواتین کمیشنوں کو اپنا دائرہ بھی بڑھانا ہوگا اور اپنی ریاست کی خواتین کو نئی سمت بھی دینی ہوگی۔
آج آزادی کے امرت مہوتسو میں ایک نئے بھارت کا عزم ہمارے سامنے ہے۔ آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے اصول پر کام کر رہا ہے۔ ملک سب کی ترقی کے اس ہدف تک بھی پہنچے گا جب سب کے لیے تمام امکانات یکساں طور پر کھلے ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں، پہلے جب کاروبار کی بات ہوتی تھی، تو اس کا یہی مطلب نکالا جاتا تھا کہ بڑے کارپوریٹ کی بات ہو رہی ہے، مردوں کے کام کی بات ہو رہی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے بھارت کی طاقت ہماری چھوٹی مقامی صنعتیں رہی ہیں، جنہیں آج ہم ایم ایس ایم ای کہتے ہیں۔ ان صنعتوں میں جتنا کردار مردوں کا ہوتا ہے، اتنا ہی خواتین کا ہوتا ہے۔
ساتھیو،
آج آزادی کے امرت مہوتسو میں ایک نئے بھارت کا عزم ہمارے سامنے ہے۔ آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ کے اصول پر کام کر رہا ہے۔ ملک سب کی ترقی کے اس ہدف تک بھی پہنچے گا جب سب کے لیے تمام امکانات یکساں طور پر کھلے ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں، پہلے جب کاروبار کی بات ہوتی تھی، تو اس کا یہی مطلب نکالا جاتا تھا کہ بڑے کارپوریٹ کی بات ہو رہی ہے، مردوں کے کام کی بات ہو رہی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے بھارت کی طاقت ہماری چھوٹی مقامی صنعتیں رہی ہیں، جنہیں آج ہم ایم ایس ایم ای کہتے ہیں۔ ان صنعتوں میں جتنا کردار مردوں کا ہوتا ہے، اتنا ہی خواتین کا ہوتا ہے۔
آپ ٹیکسٹائل صنعت کی مثال لیجئے، پاٹری کی مثال لیجئے، زرعی اور دودھ کی مصنوعات دیکھئے، ایسی کتنی ہی صنعتیں ہیں جن کی بنیاد خواتین کی طاقت خواتین کی مہارت ہی ہے۔ لیکن یہ بدنصیبی رہی کہ ان صنعتوں کی طاقت کو پہچاننا چھوڑ دیا گیا تھا۔ دقیانوسی سوچ رکھنے والوں نے خواتین کی مہارت کو گھریلو کام کاج کا ہی موضوع مان لیا تھا۔
ملک کی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے اس دقیانوسی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ میک ان انڈیا آج یہی کام کر رہا ہے۔ آتم نربھر بھارت مہم خواتین کی اسی صلاحیت کو ملک کی ترقی کے ساتھ مربوط کر رہی ہے۔ اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آج مدرایوجنا کی تقریباً 70 فیصد مستفیدین خواتین ہیں۔ کروڑوں خواتین نے اس اسکیم کی مدد سے اپنا کام شروع کیا ہے اور دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر رہی ہیں۔
اسی طرح، خواتین میں سیلف ہیلپ گروپوں کے ذریعہ صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے ملک دین دیال انتیودیہ یوجنا چلا رہا ہے۔ ملک کی خواتین کا جوش اور طاقت اتنی ہے کہ 6۔7 برسوں میں سیلف ہیلپ گروپوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی ہے۔ یہی رجحان ہمیں بھارت کے اسٹارٹ اپ ایکو نظام میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سال 2016 سے ہمارے ملک میں 56 مختلف شعبوں میں 60 ہزار سے زیادہ نئے اسٹارٹ اپس قائم ہوئے ہیں۔ اور ہم سبھی کے لیے باعث فخر ہے کہ ان میں سے 45 فیصد میں کم سے کم ایک خاتون ڈائرکٹر ہے۔
ساتھیو،
نیو انڈیا کے ترقی کے سائیکل میں خواتین کی حصہ داری میں مسلسل اضافہ رونما ہو رہا ہے۔ خواتین کمیشنوں کو چاہئے کہ سماج کی صنعت کاری میں خواتین کے اس کردار کو زیادہ سے زیادہ پہچان ملے، اسے فروغ دیا جائے۔ آپ تمام حضرات نے دیکھا ہے کہ گذشتہ 7 برسوں میں ملک نے اس طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ مقتدر پدم اعزاز میں خواتین کی بڑھتی حصہ داری اس کی ایک مثال ہے۔
2015 سے لے کر اب تک 185 خواتین کو ان کے غیر معمولی کاموں کے لیے پدم اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اس برس بھی 34 پدم ایوارڈس مختلف شعبوں میں مصروف عمل خواتین کو حاصل ہوئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ آج تک کبھی اتنی زیادہ تعداد میں پدم ایوارڈس نہیں دیے گئے ہیں۔
اسی طرح، آج کھیلوں میں بھی بھارت کی بیٹیاں دنیاں میں کمال کر رہی ہیں، اولمپکس میں ملک کے لیے تمغات جیت رہی ہیں۔ کورونا وبائی مرض کے خلاف اتنی بڑی لڑائی پورے ملک نے لڑی، اس میں ہماری نرسوں نے، ڈاکٹروں نے، خواتین سائنس دانوں نے کتنا بڑا کردار ادا کیا ہے۔
یعنی، جب بھی موقع ملا ہے، بھارت کی خواتین نے اپنی طاقت کو ثابت کرکے دکھایا ہے۔ اور آپ سب سے بہتراس بات کو کون جانے گا کہ ایک خاتون سب سے اچھی استانی اور ٹرینر بھی ہوتی ہے۔ اس لیے، ملک کی تمام خواتین کمیشنوں کے سامنے بھارت میں صنعت کاری سے لے کر کھیل کود تک ایک نئی سوچ اور صلاحیت تیار کرنے کی بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
ساتھیو،
آپ تمام حضرات اس بات کے گواہ ہیں کہ گذشتہ 7 برسوں میں ملک کی پالیسیاں خواتین کو لے کر مزید حساس ہوئی ہیں۔ آج بھارت ان ممالک میں شامل ہے جو اپنے یہاں سب سے زیادہ زچگی رخصت فراہم کرتا ہے۔ کم عمر میں شادی بیٹیوں کی پڑھائی اور کرئیر میں رکاوٹ نہ بنے، اس کے لیے بیٹیوں کی شادی کی عمر کو 21 سال کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک وقت تھا جب ملک میں خواتین کی اختیارکاری کو محدود دائرے میں رکھا جاتا تھا۔ گاؤں کی، غریب کنبوں کی خواتین اس سے دور تھیں۔ ہم اس فرق کو ختم کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ آج خواتین کی اختیارکاری کا چہرہ وہ 9 کروڑ غریب خواتین بھی ہیں جنہیں پہلی مرتبہ گیس کنکشن ملا ہے، دھوئیں سے آزادی ملی ہے۔ آج خواتین کی اختیارکاری کا چہرہ وہ کروڑوں مائیں بہنیں بھی ہیں جنہیں ان کے گھر میں بیت الخلاء ملا، جس کو اترپردیش میں عزت گھر کہتے ہیں۔ آج خواتین کی اختیار کاری کا چہرہ وہ مائیں بھی ہیں جنہیں اپنے سر پر پہلی مرتبہ پکی چھت نصیب ہوئی ہے۔ جن کے نام سے پردھان منتری آواس بنے ہیں۔ اسی طرح، جب کروڑوں خواتین کو دورانِ حمل اور ڈلیوری کے وقت سہولت فراہم ہوتی ہے، جب کروڑوں خواتین کو اپنا جن دھن بینک کھاتہ ملتا ہے، جب حکومت کی سبسڈی راست طور پر خواتین کے کھاتوں میں جاتی ہے، تو یہ خواتین ، خواتین اختیارکاری اور بدلتے ہوئے بھارت کا چہرہ بنتی ہیں۔
ساتھیو،
آج ملک کی خاتون کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ اب خود اپنا مستقبل طے کر رہی ہیں، ملک کے مستقبل کو سمت دے رہی ہیں۔ آج برسوں بعد ملک میں جنسی تناسب بہتر ہوا ہے، آج اسکولوں سے لڑکیوں کی ڈراپ آؤٹ شرح کم ہوئی ہے، کیونکہ ملک کی ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم سے خواتین خود جڑی ہیں۔ اور جب عورت کچھ ٹھان لیتی ہے، تو اس کی سمت ناری ہی طے کرتی ہے۔ اسی لیے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن حکومتوں نے خواتین کے تحفظ کو ترجیح نہیں دی، خواتین نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔
جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو مجھے کئی مرتبہ حیرانی ہوتی تھی کہ باقی جگہ اس موضوع پر اس طرح سے کام کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ اس لیے 2014 میں حکومت قائم ہونے کے بعد ، ہم نے قومی سطح پر خواتین کے تحفظ سے متعلق متعدد کوششیں کیں۔ آج ملک میں خواتین کے خلاف جرائم پر سخت قانون ہیں، عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں پھانسی کا پروویژن بھی دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں فاسٹ ٹریک عدالتیں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ جو قوانین بنے ہیں، وہ سختی کے ساتھ نافذ ہوں، اس کے لیے ریاستوں کے تعاون سے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔
تھانوں میں ویمین ہیلپ ڈیسک کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو، چوبیس گھنٹے دستیاب رہنے والی ہیلپ لائن ہو، سائبر جرائم سے نمٹنے کے لیے پورٹل ہو، ایسی متعدد کوششیں آج ملک میں چاروں طرف ہو رہی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج حکومت خواتین کے خلاف جرم پر عدم برداشت کی پالیسی سے کام کر رہی ہے۔ ان تمام کوششوں میں قومی کمیشن برائے خواتین ریاست کی خواتین کمیشنوں کے ساتھ مل کر خواتین اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کا یہ مثبت کردار ہمارےسماج کو آگے بھی اسی طرح مضبوط بناتا رہے گا۔
اسی یقین کے ساتھ،
آپ سبھی کو ایک مرتبہ پھر یوم تاسیس کی بہت بہت مبارکباد۔
شکریہ!