آپ سبھی سے بات کرکے مجھے بہت اچھا لگا۔ میری ہر سال یہی کوشش رہتی ہے کہ آپ جیسے نوجوان ساتھیوں سے گفتگو کروں، آپ کے خیالات کو مسلسل جانتا رہوں۔ آپ کی باتیں، آپ کے سوال، آپ کا تجسس، مجھے بھی مستقبل کی چنوتیوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
ساتھیو
اس مرتبہ کی یہ گفتگو ایسے وقت ہو رہی ہے جب بھارت، اپنی آزادی کے 75 برس کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ اس سال کی 15 اگست کی تاریخ، اپنے ساتھ آزادی کی 75ویں سالگرہ لے کر آرہی ہے۔ گذشتہ 75 برسوں میں بھارت نے ایک بہتر پولیس سروس کے قیام کی کوشش کی ہے۔ پولیس تربیت سے متعلق بنیادی ڈھانچے میں بھی حالیہ برسوں میں بہت بہتری واقع ہوئی ہے۔ آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، تو ان نوجوانوں کو دیکھ رہا ہوں، جو آئندہ 25 برسوں تک بھارت میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے میں حصہ لیں گے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اب ایک نئی شروعات، ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔
ساتھیو،
مجھے بہت معلومات تو نہیں کہ آپ میں سے کتنے لوگ دانڈی گئے ہوئے ہیں یا پھر کتنوں نے سابرمتی آشرم دیکھا ہے۔ تاہم میں آپ کو 1930 کی دانڈی یاترا کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ گاندھی جی نے نمک ستیہ گرہ کی طاقت پر انگریزی حکومت کی بنیاد ہلا دینے کی بات کہی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’جب وسائل منصفانہ اور صحیح ہوتے ہیں تو بھگوان بھی ساتھ دینے کے لئے موجود ہوتےہیں۔‘‘
ساتھیو،
ایک چھوٹے سے گروپ کو ساتھ لے کر مہاتما گاندھی سابرمتی آشرم سے نکل پڑے تھے۔ ایک ایک دن گزرتا گیا، اور جو لوگ جہاں تھے، وہ نمک ستیہ گرہ سے جڑتے چلے گئے تھے۔ 24 دن بعد جب گاندھی جی نے دانڈی میں اپنا سفر مکمل کیا، تو پورا ملک، ایک طرح سے پورا ملک اُٹھ کھڑا ہوا۔ کشمیر سے کنیاکماری، اٹک سے کٹک۔ پورا ہندوستان بیدار ہوچکا تھا۔ اس احساس کو یاد کیجئے، اس قوت ارادی کو یاد کیجئے۔ اسی جوش نے، اسی اتحاد نے بھارت کی آزادی کی لڑائی کو اجتماعی طاقت سے بھر دیا تھا۔ تبدیلی کا وہی احساس، عزم میں وہی قوت ارادی آج ملک آپ جیسے نوجوانوں سے مانگ رہا ہے۔ 1930 سے 1947 کے دوران ملک میں جو زبردست لہر آئی تھی، جس طرح ملک کے نوجوان آگے بڑھ کر آئے، ایک ہدف کے لئے متحد ہوکر پوری نوجوان نسل جٹ گئی، آج وہی احساس آپ کے اندر بھی ہونا چاہئے۔ ہم سب کو اس احساس میں جینا ہوگا۔ اس عزم کے ساتھ جڑنا ہوگا۔ اس وقت ملک کے لوگ خاص کر ملک کے نوجوان سواراج کے لئے لڑے تھے۔ آج آپ کو سوراجیہ کے لئے جی جان سے محنت کرنی ہے۔ اس وقت لوگ ملک کی آزادی کے لئے مرنے مٹنے کو تیار تھے۔ آج آپ کو ملک کے لئے جینے کا احساس لے کر آگے بڑھنا ہے۔ 25 سال بعد جب بھارت کی آزادی کے 100 برس مکمل ہوں گے، تب ہماری پولیس سروس کیسی ہوگی، کتنی طاقتور ہوگی، وہ آپ کے آج کے کاموں پر منحصر کرے گا۔ آپ کو وہ بنیاد تیار کرنی ہے، جس پر 2047 کے شاندار، منظم بھارت کی عمارت تعمیر کرنی ہوگی۔ وقت نے اس عزم کی کامیابی کے لئے آپ جیسے نوجوانوں کو منتخب کیا ہے۔ اور میں اسے آپ سبھی کی بہت بڑی خوش قسمتی مانتا ہوں۔ آپ ایک ایسے وقت میں کرئیر شروع کر رہے ہیں، جب بھارت ہر شعبے، ہر سطح پر تغیراتی دور سے گزر رہا ہے۔ آپ کے کرئیر کے آنے والے 25 برس، بھارت کی ترقی کے بھی سب سے اہم 25 برس ہونے والے ہیں۔ اس لیے آپ کی تیاری، آپ کا مزاج، اسی بڑے ہدف کے مطابق ہونا چاہئے۔ آنے والے 25 برسوں کے دوران آپ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف عہدوں پر کام کریں گے، الگ ۔الگ ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ آپ سبھی پر ایک جدید، مؤثر اور حساس پولیس سروس کی ترقی کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اور اس لیے، آپ کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہے کہ آپ 25 سال کے ایک اہم مشن پر ہیں، اور بھارت نے اس کے لئے خصوصی طور پر آپ کو منتخب کیا ہے۔
ساتھیو،
دنیا بھر کے تجربات بتاتے ہیں کہ جب کوئی ملک ترقی کے راستے پر آگے بڑھتا ہے، تو ملک کے باہر سے اور ملک کے اندر سے، چنوتیاں بھی اتنی ہی بڑھتی ہیں۔ ایسے میں آپ کی چنوتی، تکنالوجی کے خلل کے دور میں پولیس خدمات کو مسلسل تیار کرنے کی ہے۔ آپ کی چنوتی، جرائم کے نئے طور طریقوں کو اس سے بھی زیادہ اختراعی طریقے سے روکنے کی ہے۔ خصوصی طور سے سائبر سکیورٹی کو لے کر نئے تجربات، نئی تحقیق اور نئے طور طریقوں کو آپ کو تیار بھی کرنا ہوگا اور ان کو عمل میں بھی لانا ہوگا۔
ساتھیو،
ملک کے آئین نے، ملک کی جمہوریت نے، جو بھی اختیارات اہل وطن کو دیے ہیں، جن فرائض کو نبھانے کی امید کی ہے، ان کو یقینی بنانے میں آپ کا کردار اہم ہے۔ اور اس لیے، آپ سے امیدیں وابستہ رہتی ہیں، آپ کے رویہ پر ہمیشہ نظر رہتی ہے۔ آپ پر دباؤ بھی بہت آتے رہیں گے۔ آپ کو صرف پولیس تھانے سے لے کر پولیس ہیڈکوارٹر کی حدود تک ہی نہیں سوچنا ہے۔ آپ کو سماج میں ہر ذمہ داری، ہر کردار سے آگاہ بھی رہنا ہے، دوستی والا رویہ بھی اپنانا ہے اور وردی کی آبرو کو بھی ہمیشہ ترجیح دینی ہے۔ ایک اور بات کا آپ کو ہمیشہ خیال رکھنا ہوگا۔ آپ کی خدمات، ملک کے الگ الگ اضلاع میں ہوں گی، شہروں میں ہوں گی۔ اس لیے آپ کو ایک اصول ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ میدان میں رہتے ہوئے آپ جو بھی فیصلے لیں، اس میں ملک کا مفاد ہونا چاہئے، قومی نقطہ نظر ہونا چاہئے۔ آپ کے کام کاج کا دائرہ اور پریشانیاں اکثر مقامی ہوں گی، ایسے میں ان سے نمٹتے ہوئے یہ اصول بہت کام آئے گا۔ آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے کہ آپ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے بھی علمبردار ہیں۔ اس لیے، آپ کا ہر عمل، آپ کی ہر سرگرمی پر ملک کو اولیت، ہمیشہ اولیت کے جذبے کی عکاس ہونی چاہئے۔
ساتھیو،
میں اپنے سامنے پرجوش خواتین افسران کی نئی نسل کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ گذشتہ برسوں میں پولیس فورس میں بیٹیوں کی حصہ داری کو بڑھانے کے لئے مسلسل کوششیں کی گئی ہیں۔ ہماری بیٹیاں پولیس سروس میں مؤثریت اور جوابدہی کے ساتھ ساتھ شائستگی، آسانی اور حساسیت کے اقدار کو بھی مضبوط بناتی ہیں۔ اسی طرح 10 لاکھ سے زائد آبادی والے شہروں میں کمشنرنظام نافذ کرنے کو لے کر بھی ریاستیں کام کر رہی ہیں۔ ابھی تک 16 ریاستوں کے مختلف شہروں میں یہ نظام نافذ کیا جا چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بقیہ جگہوں پر بھی اس کو لے کر مثبت اقدامات کیے جائیں گے۔
ساتھیو،
پولیسنگ کو مستقبل کے لحاظ سے مؤثر بنانے میں اجتماعیت اور حساسیت کے ساتھ کام کرنا بہت ضروری ہے۔ کورونا کے اس دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ پولیس کے ساتھیوں نے کس طرح صورتحال کو سنبھالنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ کورونا کے خلاف نبردآزمائی میں ہمارے پولیس والوں نے، اہل وطن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کام کیا ہے۔ اس کوشش میں کئی پولیس والوں کو اپنی جان بھی قربان کرنی پڑی ہے۔ میں ان تمام جوانوں کو پولیس ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ملک کی طرف سے ان کے کنبوں کے تئیں اظہار تعزیت کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آج آپ سے بات کرتے ہوئے، میں ایک اور پہلو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں قدرتی آفات آتی ہیں، کہیں سیلاب، کہیں سمندری طوفان، کہیں زمین کھسکنا، تو ہمارے این ڈی آر ایف کے ساتھی پوری مستعدی کے ساتھ وہاں نظر آتے ہیں۔ مصیبت کے وقت این ڈی آر ایف کا نام سنتے ہی لوگوں میں ایک یقین جاگتا ہے۔ یہ شبیہ این ڈی آر ایف نے اپنے بہترین کام سے بنائی ہے۔ آج لوگوں کو یہ بھروسہ ہے کہ مصیبت کے وقت این ڈی آر ایف کے جوان ہمیں جان کی بازی لگاکر بھی بچائیں گے۔ این ڈی آر ایف میں بھی تو زیادہ تر پولیس فورس کے ہی جوان ہوتے ہیں، آپ کے ہی ساتھی ہوتے ہیں۔ لیکن کیا یہی جذبہ، یہ عزت، سماج میں پولیس کے لئے ہے؟ این ڈی آر ایف میں پولیس کے لو گ ہیں۔ این ڈی آر ایف کو عزت بھی ملتی ہے۔ این ڈی آر ایف میں کام کرنے والے پولیس کے جوان کو بھی عزت ملتی ہے۔ لیکن سماجی نظام ویسا ہے کیا؟ آخر کیوں؟ اس کا جواب، آپ کو بھی پتہ ہے۔ عوام الناس کے درمیان پولیس کے تعلق سے جو منفی تصور پایا جاتا ہے، یہ اپنے آپ میں بڑی چنوتی ہے۔ کورونا کے دور کی شروعات میں محسوس کیا گیا تھا کہ یہ تصور تھوڑا بدلا ہے۔ کیونکہ لوگ جب ویڈیو دیکھ رہے تھے، سوشل میڈیا دیکھ رہے تھے۔ پولیس کے لوگ غریبوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ بھوکے کو کھلا رہے ہیں۔ کہیں کھانا پکاکر غریبوں کو پہنچا رہے ہیں تو سماج میں پولیس کی جانب دیکھنے کا، سوچنے کا ماحول تبدیل ہو رہا تھا۔ تاہم اب پھر وہی پرانی صورتحال ہوگئی ہے۔ آخر عوام کا یقین کیوں نہیں بڑھتا، شبیہ کیوں نہیں سدھرتی؟
ساتھیو،
ملک کی سلامتی کے لئے، قانونی نظام بنائے رکھنے کے لئے، دہشت کو مٹانے کے لئے ہماری پولیس کے ساتھی، اپنی جان تک نیوچھاور کر دیتے ہیں۔ کئی کئی دن تک آپ گھر نہیں جا پاتے، تیوہاروں میں بھی اکثر آپ کو اپنے کنبے سے دور رہنا پڑتا ہے۔ لیکن جب پولیس کی شبیہ کی بات آتی ہے ، تو لوگوں کا احساس بدل جاتا ہے۔ پولیس میں آرہی نئی نسل کا یہ فرض ہے کہ اس شبیہ کو بدلے، پولیس کے تعلق سے یہ منفی تصور ختم ہو۔ یہ آپ لوگوں کو ہی کرنا ہے۔ آپ کی تربیت، آپ کی سوچ کے درمیان برسوں سے چلی آرہی پولیس محکمے کی جو قائم شدہ روایت ہے، اس سے آپ کا ہر روز آمنا سامنا ہونا ہی ہے۔ سسٹم آپ کو بدل دیتا ہے یا آپ سسٹم کو بدل دیتے ہیں، یہ آپ کی تربیت، آپ کی قوت ارادی اور آپ کے حوصلے پر منحصر ہے۔ آپ کے ارادے کیا ہیں۔ کن اصولوں سے آپ جڑے ہوئے ہیں۔ ان اصولوں کی تکمیل کے لئے کس جذبے کے ساتھ آپ چل رہے ہیں۔ آپ کے رویہ کے تعلق سے یہی اہم ہے۔ یہ ایک طرح سے آپ کی ایک اور آزمائش ہوگی۔ اور مجھے بھروسہ ہے، آپ اس میں بھی کامیاب ہوں گے، ضرور کامیاب ہوں گے۔
ساتھیو،
یہاں جو ہمارے پڑوسی ممالک کے نوجوان افسران ہیں، ان کو بھی میں بہت بہت مبارکباد دینا چاہوں گا۔ بھوٹان ہو، نیپال، مالدیپ ہو، ماریشس ہو، ہم سبھی صرف پڑوسی ہی نہیں ہیں، بلکہ ہماری سوچ اور سماجی تانے بانے میں بھی بہت مشابہت ہے۔ ہم سبھی خوشی و غم کے ساتھی ہیں۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے، آفت آتی ہے، تو سب سے پہلے ہم ہی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ کورونا کے دور میں بھی ہم نے یہ محسوس کیا ہے۔ اس لیے، آنے والے برسوں میں ہونے والی ترقی میں بھی ہماری حصہ داری بڑھنا طے ہے۔ خصوصاً آج جب جرائم اور مجرمین، سرحدوں کے پار ہیں، ایسے میں آپسی تال میل اور زیادہ ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سردار پٹیل اکیڈمی میں گذارے گئے آپ کے یہ دن، آپ کے کرئیر، آپ کی قومی اور سماجی عہد بستگی اور بھارت کے ساتھ دوستی کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ ایک مرتبہ پھر آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ!