نمسکار،
اس بار نیسکام ٹیکنالوجی اور لیڈرشپ فورم میرے نقطہ نظر سے بہت خاص ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب دنیا ہندوستان کی طرف پہلے سے کہیں زیادہ امید اور بھروسے کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔
ہمارے یہاں کہا گیا ہے- نہ دینیم، نہ پلاینم! یعنی چیلنج کتنا بھی مشکل ہو، ہمیں خود کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ چیلنجوں سے ڈر کر بھاگنا چاہیے۔ کورونا کے دوران ہندوستان کی سائنس، ہماری ٹیکنالوجی نے نہ صرف خود کو ثابت کیا ہے بلکہ خود کی ترقی کی ہے۔ ایک وقت تھا جب چھوٹی چیچک کے ٹیکے کے لیے بھی ہم دوسرے ملکوں پر منحصر تھے۔ ایک وقت یہ ہے کہ کئی ملکوں کو میڈ ان انڈیا کوروناویکسین دے رہے ہیں۔ کورونا کے دوران بھارت نے جو حل پیش کیے وہ آج پوری دنیا کے لیے متاثر کن ہیں۔ اور جیسا ابھی آپ سبھی ساتھیوں کو مجھے سننے کا موقع ملا اور کچھ سی ای او نے بتایا اس میں بھی بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری نے کمال کرکے دکھایا ہے۔ جب پورا ملک گھر کی چار دیواری میں سمٹ گیا تھا، تب آپ گھر سے ہی انڈسٹری کو ہموار طریقے سے چلا رہے تھے۔ پچھلے سال کے اعداد و شمار بھلے ہی دنیا کو حیرت میں ڈالتے ہوں، آپ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، ہندوستان کے لوگوں کو یہ بہت فطری لگتا ہے۔
ساتھیو،
ایسی صورتحال میں جب کورونا سے ہر شعبہ متاثر ہوا ہے، آپ نے تقریباً 2 فیصد کی ترقی حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ جب De-growth کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا، تب بھی اگر ہندوستان کی آئی ٹی انڈسٹری نے اپنی آمدنی میں مزید 4 بلین ڈالر کا اضافہ کیا تو یہ واقعی قابل تحسین ہے، اور آپ کی پوری ٹیم مبارکباد کی حقدار ہے۔ اس دوران، آئی ٹی انڈسٹری نے لاکھوں نئی ملازمتیں دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ ہندوستان کی ترقی کا ایک مضبوط ستون کیوں ہے۔ آج تمام اعداد و شمار، ہر اشارے ظاہر کررہے ہیں کہ آئی ٹی انڈسٹری کی یہ ترقی اس طرح کی نئی بلندیوں کو چھونے والی ہے۔
ساتھیو،
نیا ہندوستان، ہر ہندوستانی، ترقی کے لیے بے چین ہے۔ ہماری حکومت نئے ہندوستان، ہندوستان کے نوجوانوں کے اس احساس کو سمجھتی ہے۔ 130 کروڑ سے زیادہ ہندوستانیوں کی توقعات ہمیں تیز رفتار سے آگے بڑھنے کے لیے متحرک کرتی ہیں۔ نئے ہندوستان سے متعلق توقعات جتنی حکومت سے ہیں، اتنی ہی آپ سے بھی ہیں، ملک کے نجی شعبے سے ہیں۔
ساتھیو،
ہندوستان کی آئی ٹی انڈسٹری نے برسوں پہلے عالمی سطح پر اپنے نقش قدم جما دیے تھے ۔ ہمارے ہندوستانی ماہرین پوری دنیا کو خدمات اور حل فراہم کرنے میں پیش پیش تھے، اور تعاون کر رہے تھے۔ لیکن کچھ وجوہات ہیں کہ آئی ٹی انڈسٹری کو ہندوستان کی بڑی گھریلو مارکیٹ کا فائدہ نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ سے ، ہندوستان میں ڈجیٹل تقسیم میں اضافہ ہوا۔ ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں - چراغ تلے اندھیرا والا معاملہ ہمارے سامنے تھا۔ ہماری حکومت کی پالیسیاں اور فیصلے گواہ ہیں کہ کس طرح ہماری حکومت نے گذشتہ برسوں میں اس انداز کو تبدیل کیا ہے۔
ساتھیو،
ہماری حکومت بھی یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ مستقبل کی قیادت بندشوں میں ترقی نہیں کرسکتی۔ لہذا، حکومت کوشش کررہی ہے کہ ٹیک انڈسٹری کو غیرضروری قواعد و ضوابط کی بندشوں سے آزاد کیا جائے۔ نیشنل ڈجیٹلکمیونیکیشن پالیسی اسی طرح کی ایک بڑی کوشش تھی۔ ہندوستان کو عالمی سافٹ ویئر پروڈکٹ کا مرکز بنانے کے لیے ایک قومی پالیسی بھی مرتب کی گئی۔ اصلاحات کا یہ سلسلہ کورونا دور میں بھی جاری رہا۔ "دیگر سروس فراہم کنندہ" (OSP) کے رہنما خطوط کورونا دور میں ہی جاری کیے گئے تھے، جس کا ذکر آپ کی بحث میں بھی کیا گیا تھا۔ اس سے آپ کو نئے حالات میں کام کرنا آسان ہوگیا ، آپ کے کام کو کم سے کم رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی، جیسا کہ آپ میں سے کچھ دوستوں نے کہا ہے، 90 فیصد سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے کام کررہے ہیں، صرف یہی نہیں، کچھ لوگ اپنے آبائی گاؤں سے کام کر رہے ہیں۔ دیکھو، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی مضبوط طاقت بننے والا ہے۔ 12 چیمپیئن سروس سیکٹر میں انفارمیشن ٹکنالوجی کو شامل کرنے کا فائدہ بھیآپ کو حاصل ہونا شروع ہو گیا ہے۔
ساتھیو،
دو دن پہلے ہی ایک اور اہم پالیسی میں اصلاحات کی گئی ہیں، جس کا آپ سب نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔ نقشہ اور Geo-spatialڈیٹا کو کنٹرول سے آزاد کرکے، اسے صنعت کے لیے کھول دینا، ایک بہت اہم قدم ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو اس فورم کا مرکزی خیال ہے۔ 'مستقبل کی تشکیل ایک بہتر معمول کی طرف' ، میں سمجھتا ہوں کہ ایک طرح سے آپ کا جو کام ہے وہ حکومت نے کر دیا ہے، یہ ایسا قدم ہے جو ہمارے ٹیک اسٹارٹ اپ کے ماحولیاتی نظام کو مضبوط بنائے گا۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو آئی ٹی انڈسٹری ہی نہیں بلکہ خود انحصار کرنے والے ہندوستان کے وسیع مشن کو تقویت دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے، آپ میں سے بہت سارے کاروباری افراد، نقشہ جات اور جیو اسپیشیل ڈیٹا اور ریڈ ٹیپ سے متعلق پابندیوں کو مختلف فورمز پر رکھتے رہے ہیں۔
اب میں آپ کو ایک بات بتادوں، کہ ان تمام مضامین میں جو ریڈ لائٹ دکھائی جاتی تھی وہ سیکیورٹی سے متعلق تھی، کہ اگر یہ چیزیں کھل گئیں تو سیکیورٹی میں پریشانی ہوگی، یہ ذکر بار بار آتا تھا، لیکن سیکیورٹی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اعتماد ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اور آج ہندوستان اعتماد سے بھرا ہوا ہے، ہم سرحد پر دیکھ رہے ہیں اور تبھی اس قسم کا فیصلہ بھی ممکن ہوتا ہے، یہ فیصلہ صرف ٹیکنالوجی کے دائرہ کار میں نہیں ہے، یہ فیصلہ صرف انتظامی اصلاحات ہیں، ایسا نہیں ہے، یہ فیصلہ صرف حکومت کے ایک پالیسی اصولوں سے ہٹ گئی، ایسا نہیں ہے، یہ فیصلہ ہندوستان کی طاقت کا اشارہ ہے۔ ہندوستان کو یقین ہے کہ ان فیصلوں کے بعد بھی ہم ملک کو محفوظ رکھنے کے قابل ہوں گے اور ملک کے نوجوانوں کو دنیا کے اندر اپنا لوہا منوانے کے مواقع بھی فراہم کریں گے۔ جب میں آپ جیسے ساتھیوں سے تبادلہ خیال کرتا تھا تو مجھے اس مسئلے کا احساس ہوتا تھا۔ ہمارے اسٹارٹ اپ کو، دنیا میں پیدا ہونے والے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری آزادی سے کام لینا چاہیے، اس سوچ کے ساتھ ہی اس کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کو ملک باشندوں پر، ہمارے اسٹارٹ اپ اور اختراع کرنے والوں پر مکمل اعتماد ہے۔ اسی اعتماد کے ساتھ خود سرٹیفیکیشن کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
ساتھیو،
پچھلے 6 سالوں میں، آئی ٹی انڈسٹری نے جو پروڈکٹس اور حل تیار کیے ہیں، ہم نے انہیں گورننس کا ایک اہم حصہ بنایا ہے۔ خاص طور پر ڈجیٹل انڈیا نے حکومت سے منسلک عام ہندوستانی کو بااختیار بنایا ہے۔ آج، ڈیٹا کو بھی جمہوری بنایا گیا ہے اور حتمی میل سروس فراہمی بھی مؤثر ہوئی ہے۔ آج سیکڑوں سرکاری خدمات آن لائن پہنچائی جارہی ہیں۔ گورننس میں ٹکنالوجی کے مؤثر استعمال سے غریب اور متوسط طبقےکوسہولتکےساتھبدعنوانی سے بھی بڑی راحت ملی ہے۔ آج ہمارے ڈجیٹل پلیٹ فارمز جیسے Fintech Products اور UPI کی چرچا پوری دنیا میں ہے۔ ہم اس کی صلاحیت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس میں ورلڈ بینک بھی شامل ہے۔ 3 سے 4سال کے اندر، ہم ایک نقدی منحصر معاشرے سے کم نقدی سوسائٹی میں منتقل ہوگئے ہیں۔ جیسے جیسےڈجیٹل لین دین زیادہ ہوتا جارہا ہے، کالے دھن کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں۔ آج، JAMٹرینٹی اور ڈی بی ٹی کی وجہ سے، غریبوں کے حق کا ایک ایک پیسہ بغیر کسی کمی کے اس تک پہنچنے میں کامیاب ہے۔
ساتھیو،
شفافیت، گڈ گورننس کی سب سے اہم شرط ہے۔ یہی تبدیلی اب ملک کی حکمرانی میں بھی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سروے میں حکومت ہند پر عوام کا اعتماد مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ اب سرکاری کام سرکاری رجسٹروں سے ہٹا کر ڈیش بورڈ پر لایا جارہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ حکومت اور سرکاری محکمہ کی ہر سرگرمی ملک کا عام شہری اپنے فون پر دیکھ سکے، جو بھی کام ہو ، وہ ملک کے سامنے ہونا چاہیے۔
ساتھیو،
اس سے قبل سرکاری خریداری کے بارے میں کیسے کیسے سوالات اٹھائے جاتے تھے، ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں جانتا، ہم بھی تو بحث میں وہی بولتے تھے، وہی سنتے تھے، ہم نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اب آجڈجیٹل ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی GeM کے ذریعے پوری شفافیت کے ساتھ خریداری کی جا رہی ہے۔ آج بیشتر سرکاری ٹینڈرز کو آن لائن منگایا جاتا ہے۔ ہمارے انفراسٹرکچر سے جڑے پروجیکٹ ہوں یا غریبوں کے گھر، ہر پروجیکٹ کی جیو ٹیگنگ کی جارہی ہے تاکہ وہ بروقت مکمل ہوسکیں۔ آج دیہاتوں کے گھروں کی میپنگڈرون سے کی جارہی ہے۔ ٹیکس سے جڑے معاملوںمیں بھی انسانی انٹرفیس کو کم کیا جارہا ہے، بے چہرہ نظام تیار کیا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی سے عوام کو تیز، درست اور شفاف نظام دینا ہی تو کم سے کم گورنمنٹ، زیادہ سے زیادہگورننس کا مطلب ہے۔
ساتھیو،
آج دنیا میں ہندوستانی ٹیکنالوجی کی جو پہچان ہے اسے دیکھتے ہوئے، ملک کو آپ سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ آپ نے یہ یقینی بنایا ہے کہ ہماری ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ میڈ ان انڈیا ہو۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ کے حل میں بھی ابمیکفار انڈیا کی چھاپ ہونی چاہیے۔ اگر ہمیں کثیرڈومین میں انڈین ٹکنالوجی کی قیادت کو مزید بڑھانا ہے، تو ہمیں اپنی مسابقت کے نئے معیار بنانا ہوں گے۔ آپ کو مقابلہ کرنا ہوگا۔ گلوبل ٹیکنالوجی کا رہنما بننے کے لیے، ہندوستانی آئی ٹی انڈسٹری کو جدت اور انٹرپرائز کے ساتھ ساتھ کلچر آف ایکسیلینساورانسٹی ٹیوشن بلڈنگ پر بھی یکساں توجہ دینی ہوگی۔ ایسے میں اپنے اسٹارٹ اپ کے بانیوں کے لیے میرا ایک خصوصی پیغام ہے۔ اپنے آپ کو صرف تشخیص اور خارجی حکمت عملی تک ہی محدود نہ رکھیں۔ سوچیں کہ آپ کس طرح ایسے ادارے تشکیل دے سکتے ہیں جو اس صدی سے زیادہ دیر پا ہوں۔ سوچیں کہ آپ عالمی معیار کی مصنوعات کس طرح بنا سکتے ہیں جو عالمی سطح پر عمدگی کے معیار قائم کریں گے۔ ان دونوں اہداف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے بغیر ہم ہمیشہ پیروکار رہیں گے نہ کہ عالمی رہنما۔
ساتھیو،
اس سال ہم اپنی آزادی کے 75ویں سال میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ صحیح وقت ہے نئے اہداف بنانے کا ، ان کو حاصل کرنے کے لئے پوری قوت سے کام لینے کا۔ اب سے 25-26 سال بعد جب ہندوستان اپنی آزادی کے 100 سال منائے گا، جب ہم صدی کا جشن منائیں گے، تب ہم نے عالمی سطح پر کتنی نئے مصنوعات تیار کر لیہوں گی۔ کتنے عالمی قائدین ہم نے بنائے ہوں گے، یہ سوچ کر ہمیں ابھی سے کام کرنا ہوگا۔ آپ اہداف طے کریں، ملک آپ کے ساتھ ہے۔ ہندوستان کی اتنی بڑی آبادی آپ کی بڑی طاقت ہے۔ پچھلے مہینوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ہندوستانی عوام میں ٹیک حل کے لیے بے صبری بڑھی ہے۔ لوگ نئے تکنیکیحلوں کے منتظر ہیں۔ لوگ نئی چیزیں آزمانا چاہتے ہیں اور خاص طور پر ہندوستانی اپلیکیشنز کے لیے تو ان میں ایک جوش ہے۔ ملک نے اپنا ذہن بنا لیا ہے۔ آپ بھی اپنا ذہن بنائیے۔
ساتھیو،
اکیسویں صدی میں ہندوستان کے چیلنجوں کے حل کے لیے پرو ایکٹوتکنیکی حل فراہم کرنا آئی ٹی انڈسٹری، ٹیک انڈسٹری، جدت پسندوں، محققین، نوجوان ذہنوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اب ہماری زراعت میں پانی اور کھاد کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے بڑی پریشانیاں آتی ہیں۔ کیا صنعت کو ایسی اسمارٹ ٹیکنالوجی کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے کاشتکاروں کو ہر فصل میں پانی اور کھاد کی ضرورت کے بارے میں بتاسکے؟ صرف ٹیکنالوجی بنانے سے ہی کام نہیں چلے گا، اسے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اپنایا بھی جاسکے، ہمیں ایسے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ، ہندوستان آج آپ کی طرف دیکھ رہا ہے کہ صحت اور تندرستی کے اعداد و شمار کی طاقت کی وجہ سے غریب سے غریب کو کیسے فائدہ پہنچے۔ ٹیلی میڈیسن کو مؤثر بنانے کے لیے بھی ملک آپ سے عظیم حل کی توقع کر رہا ہے۔
ساتھیو،
تعلیم اور مہارت کی ترقی کے حوالے سے بھی ٹیک انڈسٹری کو ایسے حل فراہم کرنا ہوں گے جو ملک کی سب سے بڑی آبادی کے لیے قابل رسائی ہوں۔ آج ملک میں اٹل ٹنکرنگلیب سے لے کر اٹل انکیوبیشن سینٹر تک، اسکول-کالج میں ٹکنالوجی کے لیے ماحول بنایا جارہا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں، تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر پر بھی اتنا ہی زور دیا گیا ہے۔ صنعت کی حمایت کے بغیر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک بات میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ اپنی CSR سرگرمیوں کے نتائج پر بھی توجہ دیں۔اگر آپ کے CSR سرگرمیوں کی توجہ ملک کے پسماندہ علاقوں کے بچوں پر ہے، تو آپ ان کو ڈجیٹل تعلیم سے زیادہ مربوط کریں گے۔ آپ ان میں تجزیاتی سوچ تیار کریں گے، تو یہ ایک بہت بڑا گیم چینجر ہوگا۔ حکومت اپنی طرف سے کوششیں کر رہی ہے، لیکن اگر اس میں آپ کا تعاون ملے گا تو پھر یہ معاملہ کہاں سے کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں نظریات کی کمی نہیں ہے۔ اس کے لیے ایسے سرپرستوں کی ضرورت ہے جو نظریات کو حقیقت میں بدلنے میں مدد کرسکیں۔
ساتھیو،
خود انحصار ہندوستان کے بڑے مراکز آجدرجہ 2، درجہ 3 کے شہر بن رہے ہیں۔ یہ چھوٹے شہر آئی ٹی پر مبنی ٹیکنالوجیز کی طلب اور نمو کے بھی بڑے مراکز بن رہے ہیں۔ ملک کے ان چھوٹے شہروں کے نوجوان حیرت انگیز موجد کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ حکومت کی توجہ ان چھوٹے شہروں میں بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھی ہے، تاکہ وہاں مقیم دیہی باشندوں کے ساتھ ساتھ آپ جیسے کاروباری افراد کو تکلیف نہ ہو۔ آپ جتنا زیادہ ان چھوٹے شہروں، قصبوں میں جائیں گے اتنا ہی ان کی ترقی ہوگی۔
ساتھیو،
مجھے یقین ہے کہ آنے والے 3 دنوں میں آپ حال اور مستقبل میں بھی اسی طرح کے حل پر سنجیدگی سے گفتگو کریں گے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت بھی آپ کے مشوروں پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، پچھلی بار 15 اگست کو جب میں لال قلعے سے بات کر رہا تھا، آپ نے سنا ہوگا، میں نے ملک کے سامنے ایک ہدف طے کیا تھا، کہ ہندوستان کے 6 لاکھ دیہات میں آپٹیکلفائبر نیٹ ورک کا کام مکمل کرنا ہے۔ اب آپٹیکلفائبر نیٹ ورک ایک جال بن جائے گا اور میں پیچھے لگا ہوں تو ہم شاید یہ کر بھی لیں گے، ریاستیں بھی ہم سے جڑ جائیں گی، لیکن اس کے بعد کا جو کام ہوگا وہ آپ کے دماغ سے جڑا ہوا ہے۔ آپٹیکلفائبر نیٹ ورک کا بنیادی ڈھانچہ یہ ہے کہ ہندوستان کے غریب ترین لوگ اس کا استعمال کیسے کریں، صارف دوست نئی مصنوعات کیسے آئیں۔ گاؤں کے عوام بھی حکومت کے ساتھ، بازار سے، تعلیم کے ساتھ، صحت کے ساتھ کیسے جڑیں۔ یہ ان کی زندگی کو بدلنے کے لیے بہت بڑا راستہ کیسے بن سکتا ہے۔ ابھی سے، آپ کے یہاں چھوٹے چھوٹے اسٹارٹ اپس ایسی مصنوعات لے کر آئیں کہ گاؤں میں آپٹیکلفائبر پہنچے اور گاؤں کی یہ 10 ضروریات پوری ہو جائیں۔ گاؤں میںآپٹیکلفائبر پہنچے اور گاؤں کے بچوں کی زندگی میں تبدیلی آنے کے لیے تیار رہے۔
آپ دیکھیے کہ کتنا بڑا موقع ہے، اور اسی وجہ سے میں آپ کو دعوت دیتا ہوں، حکومت یہ کام کررہی ہے، فیصلہ کریں، ہمیں ایک طویل عرصہ تک قیادت لینیہوگی، اسے ہر شعبے میں لے کر چلنا ہے، پوری صلاحیت کے ساتھ لینا ہے، اور اس قیادت کی سوچ سے جو امرت نکلے گا وہ پورے ملک کے کام آئے گا۔
اسی امید کے ساتھ ایک بار پھر آپ کو نیک خواہشات۔
بہت بہتشکریہ!!