محترم چیئرمین،
آج کا دن ہم سب کے لیے ایکیادگار اور تاریخی دن ہے۔ اس سے قبل مجھے لوک سبھا میں بھی اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ملا تھا۔ اب راجیہ سبھا میں بھی آج آپ نے مجھے موقع دیا، میں آپ کا مشکور ہوں۔
محترم چیئرمین،
ہمارے آئین میں راجیہ سبھا کو ایوان بالا کے طور پر تصور کیا گیا ہے۔ آئین بنانے والوں کییہی منشا تھی کہ یہ ایوان سیاست کے انتشار سے اوپر اٹھ کر سنجیدہ، فکری بحث کا مرکز بنے اور ملک کو سمت دینے کی طاقت یہیں سے آئے۔ یہ ملک کی ایک فطری توقع بھی ہے اور جمہوریتکی خوشحالی میںیہ تعاون بھی اس خوشحالی میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔
محترم چیئرمین،
اس ایوان میں کئی بڑے آدمی گزرے ہیں۔ میں شاید ان سب کا ذکر نہ کر سکوں، لیکن لال بہادر شاستری جی ہوں، گووند ولبھ پنت جی ہوں، لال کرشن اڈوانی جی ہوں، پرنب مکھرجی جی ہوں، ارون جیٹلی جی ہوں، ایسے لاتعداد اہل علم، تخلیقی صلاحیت والے افراد اور لوگ ہیں جنہوں نے تپسیا کی ہے۔ عوامی زندگی میں برسوں تک اس ایوان کو زینت بخشی اور ملک کی رہنمائی کی۔ ایسے بہت سے ممبران ہیں جو ایک طرح سے، ایک تنظیم کی طرح، ایک آزاد تھنک ٹینک کے طور پر اپنے آپ میں فرد رہے ہیں، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے ملک کو فائدہ پہنچایا ہے۔ پارلیمانی تاریخ کے ابتدائی دنوں میں ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنا نے راجیہ سبھا کی اہمیت پر کہا تھا کہ پارلیمنٹ نہ صرف ایک قانون ساز ادارہ ہے بلکہ ایک غور وفکر کا حامل ادارہ ہے۔ ملک کے عوام کو راجیہ سبھا سے بہت زیادہ توقعات ہیں، بہترین توقعات ہیں اور اسی لیے معزز اراکین کے درمیان سنجیدہ مسائل کو سننے اور ان پر بحث کرنے کا یہ ایک بہت ہی خوشگوار موقع ہے۔ نیا پارلیمنٹ ہاؤس صرف ایک نئی عمارت نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی شروعات کی علامت بھی ہے۔ ہم ذاتی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی نئی چیز سے وابستہ ہوتے ہیں تو ہمارا پہلا خیالیہ ہوتا ہے کہ اب میں نئے ماحول کا زیادہ سے زیادہ استعمال کروں گا، اس کے مثبت ترین ماحول میں کام کروں گا، ایسا فطرتاً ہوتا ہے اور یہ عمارت امرت کال کے آغاز میں بنی ہے۔ اس کا وجود اور اس عمارت میں ہم سب کا داخلہ خود ہی ہمارے ملک کے 140 کروڑ شہریوں کی امیدوں اور امنگوں میں ایک نئی توانائی بھر دے گا۔ نئی امید اور نیا یقین پیدا کرے گا۔
محترم چیئرمین،
ہمیں مقررہ مدت میں اہداف حاصل کرنا ہوں گے۔ کیونکہ ملک، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔ ایک دور تھا جب عام ذہن کو لگتا تھا کہ ٹھیک ہے ہمارے ماں باپ بھی ایسے ہی رہتے تھے، ہم بھی ایسا ہی کریں گے، یہ ہماری قسمت میں تھا کہ ہم جی لیں گے۔ آج سماجی زندگی اور خاص طور پر نئی نسل کی سوچ ایسی نہیں ہے اس لیے ہمیں بھی محدودیت کے پیش نظر عام آدمی کی امیدوں اور امنگوں کی تکمیل کے لیے نئی سوچ اور نئے انداز کے ساتھ اپنے کام کا دائرہ بڑھانا ہو گا۔ ہمیں اس سے بھی آگے بڑھنا ہو گا اور جتنی ہماری صلاحیت بڑھے گی، ملک کی استعداد بڑھانے میں ہمارا تعاون بھی اتنا ہی بڑھے گا۔
محترم اسپیکر،
مجھےیقین ہے کہ اس نئی عمارت میں، اس ایوان بالا میں، ہم اپنے طرز عمل اور کردار سے ملک کی قانون ساز اسمبلیوں، ملک کے مقامی خود مختار اداروں اور باقی نظام کو پارلیمانی معلومات کی علامت کے طور پر تحریک دے سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ یہ جگہ ایسی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہے اور ملک کو اس کا فائدہ ملنا چاہیے، ملک کے عوامی نمائندے کو ملنا چاہیے، چاہے وہ گاؤں کا سربراہ منتخب ہوا ہو، چاہے وہ پارلیمنٹ میں آیا ہو اور یہ روایت یہاں سے ہم آگے کیسے بڑھیں؟
محترم اسپیکر،
پچھلے9برسوں سے آپ سب کے تعاون سے ہمیں ملک کی خدمت کا موقع ملا۔ بہت سے بڑے فیصلے کرنے کے مواقع پیدا ہوئے اور بہت اہم فیصلوں پر فیصلے کیے گئے اور بہت سے فیصلے دہائیوں سے زیر التوا تھے۔ وہ فیصلے اور ایسے فیصلے ایسی چیزیں تھیں جنہیں بہت مشکل، مشکل سمجھا جاتا تھا اور سیاسی نقطہ نظر سے ان کو ہاتھ لگانا بھی بہت غلط سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم نے اس سمت میں کچھ ہمت دکھائی۔ راجیہ سبھا میں ہمارے پاس اتنی تعداد نہیں تھی، لیکن ہمیںیقین تھا کہ راجیہ سبھا متعصبانہ سوچ سے اوپر اٹھ کر ملک کے مفاد میں فیصلے کرے گی۔ اور آج میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری عددی طاقت ہماری لبرل سوچ کے نتائج سے کم ہونے کے باوجود، آپ تمام معزز اراکین اسمبلی کی پختگی، فہم و فراست اور ذمہ داری کی وجہ سے، آپ سب کے تعاون سے ہم یہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس طرح کے مشکل فیصلےکرنے میں کامیاب ہوئے اور راجیہ سبھا کا وقار بلند کرنے کا کام اراکین کی تعداد کے زور پر نہیں بلکہ سمجھ کی طاقت سے آگے بڑھا۔ اس سے بڑا اطمینان اور کیا ہو سکتا ہے اور اسی لیے میں ایوان کے تمام معزز اراکین اسمبلی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو آج موجود ہیں اور جو پہلے بھی موجود تھےان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محترم اسپیکر،
جمہوریت میں کون اقتدار میں آئے گا، کون نہیں آئے گا، کون کب آئے گا، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ بہت فطری ہے اور یہ جمہوریت کی فطرت اور رجحان ہے۔ لیکن جب بھی ملک کا مسئلہ آیا ہم سب نے مل کر سیاست سے اوپر اٹھ کر ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔
محترم اسپیکر،
ایک طرح سے راجیہ سبھا بھی ریاستوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایک طرح سے جب ہم تعاون پر مبنی وفاقیت پر زور دے رہے ہیں اور اب مسابقتی تعاون پر مبنی وفاقیت پر زور دے رہے ہیں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس طرح کے بہت سے معاملات پر بھرپور تعاون سے ملک نے ترقی کی ہے۔ کوویڈکا بحران بہت بڑا تھا۔ دنیا کو بھی مسائل کا سامنا ہے، ہم نے بھی ان کا سامنا کیا ہے۔ لیکن ہماری وفاقیت کی طاقت یہ تھی کہ مرکز اور ریاستوں نے مل کر ہر ممکن طریقے سے ملک کو ایک بہت بڑے بحران سے نجات دلانے کی کوشش کی اور اس سے ہماری تعاون پر مبنی وفاقیت کی مضبوطی میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے وفاقی ڈھانچے کی قوتوں کے سہارے بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ اور نہ صرف بحران کے وقت بلکہ جشن کے وقت بھی ہم نے ہندوستان کی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ہندوستان کا تنوع، ہندوستان میں اتنی سیاسی پارٹیاں، ہندوستان میں اتنے میڈیا ہاؤسز، ہندوستان کے بہت سارے طرز زندگی اور بولیاں،یہ سب چیزیں جی-20 سمٹ، ریاستوں میں منعقد ہونے والی چوٹی کانفرنسوں میں دیکھی گئیں کیونکہیہ دہلی میں تو بہت دیر سے آئی۔ لیکن اس سے پہلے ملک کے 60 شہروں میں 220 سے زائد سربراہی اجلاس منعقد ہوئے اور ہر ریاست میں مہمان نوازی بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس طرح کی گئی کہ اس نے دنیا کو متاثر کیا اور جو بحث و مباحثہ ہوا اس نے سمت دینے کی صلاحیت دکھائی۔ اور یہی ہماری وفاقیت کی طاقت ہے اور اسی وفاقیت اور اسی تعاون پر مبنی وفاقیت کی وجہ سے آج ہم یہاں ترقی کر رہے ہیں۔
محترم اسپیکر،
اس نئے ایوان میں بھی نئی اس ہماری پارلیمنٹ عمارت میں بھی اس وفاقیت کا ایک حصہ نظر آتا ہے، کیونکہ جب بنتا تھا تو ریاستوں سے درخواست کی گئی تھی کہ کئی باتیں ایسی ہیں، جس میں ہمیں ریاستوں کی کوئی نہ کوئی یاد یہاں چاہئے۔ لگنا چاہئے کہ یہ بھارت کی سبھی ریاستوں کی نمائندگی ہے اور یہاں کئی طرح کے ایسے فن پارے ، کئی تصویریں، پوری ہماری دیواروں کی زینت میں اضافہ کررہے ہیں۔ وہ ریاستوں میں پسند کرکے اپنے یہاں کا کوئی بہترین فن پارہ بھیجیں، یعنی ایک طرح یہاں کے ماحول میں بھی ریاست بھی ہے، ریاستوں کا تنوع بھی ہے اور وفاقیت کی خوشبو بھی ہے۔
محترم اسپیکر!
ٹیکنالوجی نے زندگی کو بہت تیزی سے متاثر کیا ہے۔ پہلے جو ٹیکنالوجی میں تبدیلی آتے آتے 50-50 سال لگ جاتے تھے، وہ آج کل کچھ ہفتوں میں آ جاتے ہیں۔ جدت ضرورت بن گئی ہے اور ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہم نے اپنے آپ کو بھی لگاتار متحرک طور سے آگے بڑھا نا ہی پڑے گا، جب جاکر اس جدت کے ساتھ ہم قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔
محترم اسپیکر،
پرانی عمارت میں ہم نے جس کو ابھی آپ نے پارلیمنٹ کی شکل میں کہا ، ہم وہاں کبھی آزادی کا امرت مہوتسو بڑے آن بان شان کے ساتھ منایا، 75 سال کے اپنے سفر کی طرف ہم نے دیکھا بھی اور نئی سمت ، نیا عزم کرنے کی کوشش بھی شروع کی ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت آزادی کی جب ہم صدی منائیں گے ، وہ گولڈن جوبلی ترقی یافتہ بھارت کی ہوگی۔ ترقی یافتہ بھارت کی ہوگی۔مجھے پورا یقین ہے۔ پرانی عمارت میں ہم پانچویں معیشت تک پہنچے تھے، مجھے یقین ہے کہ نئی عمارت میں ہم دنیا کی سرفہرست تیسری معیشت بنیں گے، مقام حاصل کریں گے۔ پرانی پارلیمنٹ عمارت میں غریبوں کی بہبود کے بہت سے اقدام کئے گئے ، بہت سے کام ہوئے، نئے ایوان کی عمارت میں ہم اب سو فیصد سیچوریشن ، جس کا حق اس کو دوبارہ ملے۔
محترم اسپیکر،
اس نئے ایوان کی دیواروں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اب ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے آپ کو اب ایڈجسٹ کرنا پڑے گا، کیونکہ اب ساری چیزیں ہمارے سامنے آئی پیڈ پر ہے۔ میں تو درخواست کروں گا کہ بہت سے معزز ارکان کو اگر کل کچھ وقت نکال کر اُن کو اگر متعارف کرادیا جائے ٹیکنالوجی سے تو ان کو آسانی رہے گی، وہاں بیٹھیں گے، اپنا اسکرین بھی دیکھیں گے۔ یہ اسکرین بھی دیکھیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ان کو پریشانی نہ ہو، کیونکہ آج میں ابھی لوک سبھا میں تھا، تو کئی ساتھیوں کو ان چیزوں کو آپریٹ کرنے میں دقت ہورہی تھی تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس میں سب کی مدد کریں ، تو کل کچھ وقت نکال کر اگر یہ ہوسکتا ہے تو اچھا ہوگا۔
محترم اسپیکر،
یہ ڈیجیٹل دور ہے۔ ہم نے اس ایوان سے بھی اُن چیزوں سے عادتاً ہمارا حصہ بنانا ہی ہوگا۔ شروع میں تھوڑے دن لگتے ہیں، لیکن اب تو بہت سی چیزیں یوزر فرینڈلی ہوتی ہیں، بڑے آرام سے اِن چیزوں کو اپنایا جاسکتا ہے اب اس کو کریں۔ میک اِن انڈیا ایک طرح سے عالمی سطح پر تبدیلی لانے کی شکل میں ہم نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور میں نے کہا ویسے نئی سوچ ، نیا ولولہ ، نئی اُمنگ ، نئی توانائی کے ساتھ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ آج پارلیمنٹ کی نئی عمارت ملک کے لئے ایک اہم تاریخی فیصلے کی چشم دید گواہ بن رہی ہے۔ ابھی پارلیمنٹ لوک سبھا میں ایک بل پیش کیا گیا ہے، وہاں پر مباحثے کے بعد یہاں بھی آئے گا۔ ناری شکتی کے بااختیار بنانے کی سمت جو پچھلے کئی سال سے اہم قدم اٹھائے گئے ہیں، اس میں ایک انتہائی اہم قدم آج ہم سب مل کر اٹھانے والے ہیں۔ سرکار کی کوشش رہی زندگی میں آسانی کی ، زندگی کی کوالٹی کی اور زندگی کی آسانی اور زندگی کی کوالٹی کی بات کرتے ہیں، تو اس کی پہلی حقدار ہماری بہنیں ہوتی ہیں۔ ہماری ناری ہوتی ہے،کیونکہ اسی کو سب چیزیں جھیلنی ہے اور اس لئے ہماری کوشش رہی ہے اور ملک کی تعمیر میں ان کا رول رہے، یہ بھی ہماری اتنی ہی ذمہ داری ہے۔ بہت سے نئے نئے شعبے ہیں، جس میں خواتین کی طاقت ، خواتین کی حصے داری لگاتار یقینی بنائی جارہی ہے۔ کانکنی میں بہنیں کام کرسکیں یہ فیصلہ ہے، ہمارے ہی ارکان پارلیمنٹ کی مدد سے ہوا۔ ہم نے سبھی اسکولوں کے بیٹیوں کے لئے دروازے کھول دیئے ، کیونکہ بیٹیوں میں جو صلاحیت ہے۔ اُس صلاحیت کو اب موقع ملنا چاہئے، ان کی زندگی میں اگر مگر کا دور ختم ہوچکا ہے، ہم جتنی سہولت دیں گے، اتنی صلاحیت محض طاقت ہماری بیٹیاں، ہماری بہنیں دکھائیں گی۔ بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کی مہم وہ کوئی سرکاری پروگرام نہیں ہے، سماج نے اسے اپنا بنایا ہے اور بیٹیوں کی عزت و آبرو کی سمت سماج میں ایک نظریہ پیدا ہو اہے۔ مُدرا یوجنا ہو، جن دھن یوجنا ہو، خواتین نے بڑھ چڑھ کر اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مالی شمولیت کے اندر آج بھارت میں خواتین کا سرگرم رول نظرآرہا ہے۔یہ اپنے آپ میں، میں سمجھتا ہوں ان کے کنبے کی زندگی میں بھی ، ان کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جو صلاحیت اب قومی زندگی میں بھی ظاہر ہونے کا وقت آچکا ہے۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ ہماری ماؤں ، بہنوں کی صحت کو دھیان میں رکھتے ہوئے اوجولا یوجنا، ہمیں معلوم ہے کہ گیس سیلنڈر کے لئے پہلے ایم پی کے گھر کے چکر کاٹنے پڑتے تھے، غریب کنبوں تک اس کو پہنچانا ، میں جانتا ہوں بہت بڑامعاشی بوجھ ہے، لیکن خواتین کی زندگی کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس کام کو کیا۔ خواتین کے احترام کے لئے تین طلاق کا معاملہ لمبے عرصے سے سیاسی کوششوں اور سیاسی فائدوں کا شکار ہوچکا تھا۔ اتنا بڑا انسانی فیصلہ ، لیکن ہم سبھی معزز ارکان کی مدد سے اس کو کرپائے۔ خواتین کی حفاظت کے لئے سخت قانون بنانے کا کام بھی ہم سب کرسکے ہیں۔ خواتین کی قیادت والی ترقی جی 20 کا سب سے بڑا تذکرے کا موضوع رہا اور دنیا کے کئی ملک ہیں، جن کے لئے خواتین کی قیادت والی ترقی کا موضوع کچھ نیا سا محسوس ہوتا تھا اور جب ان کے تذکرے میں سُر آتے تھے، کچھ الگ سے سُر سننے کو ملتے تھے، لیکن جی 20 کے اعلامیہ میں سب نے مل کر خواتین کی قیادت والی ترقی کے موضوع کو اب بھارت سے دنیا کی طرف پہنچایا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے فخر کی ہے۔
محترم اسپیکر،
اسی پس منظر میں طویل عرصے سے ودھان سبھااور لوک سبھا میں سیدھے انتخاب میں بہنوں کی شراکت داری یقینی بنانے کا موضوع اور یہ بہت وقت سے ریزرویشن کا تذکرہ چلا آرہا تھا۔ ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کوشش کی ہے، لیکن 1996 سے اس کی شروعات ہوئی ہے اور اٹل جی کے وقت تو کئی بار بل لائے گئے، لیکن نمبر کم پڑتے تھے۔ اس شدید مخالفت کا بھی ماحول رہتا تھا، ایک اہم کام کرنے میں کافی مشکل ہوتی تھی، لیکن جب نئے ایوان میں آئے ہیں۔ نیا ہونے کی ایک اُمنگ بھی ہوتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ یہ جو لمبے عرصے سے تذکرے میں رہنے والا موضوع ہے، اب اس کو ہم نے قانون بناکر اپنے ملک کے ترقی کے سفر میں ناری شکتی کی شراکت داری یقینی بنانے کا وقت آچکا ہے اور اس لئے خواتین کی طاقت کا احترام ، آئینی قانون میں ترمیم کی شکل میں لانے کا سرکار کا خیال ہے، جسے آج لوک سبھا میں رکھا گیا ہے۔ کل لوک سبھا میں اس پر بحث ہوگی اور اس کے بعد راجیہ سبھا میں بھی آئے گا۔ میں آج آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک ایسا موضوع ہے، جسے ہم اگر متفقہ رائے سے آگے بڑھائیں گے تو صحیح معنوں میں وہ طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی اور جب بھی ہم سب کے سامنے آئیں ، تب میں راجیہ سبھا کے سبھی اپنے معزز رکن ساتھیوں سے آج اصرار کرنے آیا ہوں کہ ہم متفقہ رائے سے جب بھی اس پر فیصلہ کرنے کا موقع آئے ، آنے والے ایک دو دن میں آپ سب کے تعاون سے ،اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ۔