“Chintan Shivir is a prime example of cooperative federalism”
“‘The Panch Pran’ must be the guiding force for good governance”
“Law and order system can be improved with the help of smart technology”
“Maintaining law and order is a 24X7 job”
“Laws like UAPA have given strength to the system in a decisive battle against terrorism”
“‘One Nation, One Police Uniform’ will give a common identity to law enforcement”
“We have to come up with technological advancement to prevent the spreading of fake news”
“Every form of Naxalism, be it the one with guns or the one with pens, they have to be uprooted”
“Police vehicles should never be old as it is related to their efficiency”

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب امت شاہ، الگ الگ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ،  وزرائے داخلہ، ریاستوں کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس، وزارت داخلہ کے  سینئر عہدیداران، دیگر تمام شخصیات، خواتین و حضرات! آج کل ملک میں جشن  کا ماحول ہے۔ اونم، عید، دشہرہ، درگا پوجا، دیوالی سمیت  متعدد  تہوار امن و ہم آہنگی کے ساتھ ہم وطنوں نے منائے ہیں۔ ابھی چھٹھ پوجا سمیت کئی دوسرے تہوار بھی ہیں۔ مختلف چنوتیوں کے درمیان، ان تہواروں میں ملک کے اتحاد کا مضبوط ہونا، آپ کی تیاریوں کا بھی عکاس ہے۔ آئین میں بھلے قانون اور نظم و نسق ریاستوں کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ملک کی یکجہتی و سالمیت کے ساتھ بھی اتنے ہی جڑے ہوئے ہیں۔ سورج کنڈ میں ہو رہا وزرائے داخلہ کا یہ چنتن شیور، کوآپریٹو فیڈرل ازم کی بھی ایک عمدہ مثال ہے۔  ہر ایک ریاست ایک دوسرے سے سیکھے، ایک دوسرے سے حوصلہ لے، ملک کی بہتری کے لیے مل جل کرکام کرے، یہ آئین کا بھی جذبہ ہے اور ہم وطنوں کے تئیں ہماری ذمہ داری بھی ہے۔

ساتھیوں،

آزادی کا امرت کال ہمارے سامنے ہے۔ آنے والے 25 سال ملک میں ایک امرت نسل کی تعمیر کے ہیں۔ یہ امرت نسل، پانچ عزائم  کے ساتھ تشکیل پائے گی۔ ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر، غلامی کی ہر سوچ سے آزادی، وراثت پر فخر، اتحاد و یکجہتی اور سب سے بڑی بات شہریوں کے فرائض، ان پانچ عزائم  کی اہمیت آپ سبھی  اچھی طرح جانتے ہیں، سمجھتے ہیں۔ یہ ایک عظیم  عہد ہے، جس کو صرف اور صرف  سب کی کوشش سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ طریقے اپنے اپنے ہو سکتے ہیں، راستے، ترجیحات الگ الگ ہو سکتی ہیں، لیکن یہ پنچ پرن (پانچ عزائم) ملک کی ہر ریاست میں ہماری گورننس کا  جذبہ ہونا چاہیے۔ جب یہ گڈ گورننس  کی بنیاد میں ہوں گے، تو بھارت  کی صلاحیت کی بڑے پیمانے پر توسیع ہوگی۔ جب ملک کی صلاحیت بڑھے گی تو ملک کے ہر شہری، ہر فیملی کی صلاحیت بڑھے گی۔ یہی تو  گڈ گورننس ہے، جس کا فائدہ ملک کی ہر ریاست کو سماج کی آخری قطار میں کھڑے شخص تک پہنچانا ہے۔ اس میں آپ سبھی کا بہت بڑا رول ہے۔

ساتھیوں،

یہاں آپ میں سے زیادہ تر یا تو ریاست کو قیادت فراہم کر رہے ہیں، یا پھر سیدھے سیدھے قانون اور نظم و نسق کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ قانون اور نظم و نسق کا سیدھا تعلق، ریاست کی ترقی سے ہے۔ اس لیے ریاستوں میں ترقی کے لیے موافق ماحول بنانے میں آپ سبھی کے فیصلے اور پالیسیاں اور آپ کی روایت یہ بہت اہم ہیں۔

ساتھیوں،

قانون اور نظم و نسق کے پورے نظام کا قابل اعتبار ہونا، عوام کے درمیان ان کا پرسیپشن کیا ہے، یہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے،  تو ان دنوں این ڈی آر ایف کی، ایس ڈی آر ایف کی ایک پہچان بنی ہوئی ہے۔ ان کو یونیفارم، وہ بحران کے وقت پہلے پہنچ جانا اور اس کی وجہ سے ہم وطنوں کے من میں ان کے تئیں ایک اعتماد بنا ہے کہ بھائی، یہ آئے ہیں چلئے سنبھل جائے گا، یہ جو کہہ رہے ہیں ماننا چاہیے۔ ان کی باتیں اگر مانیں گے تو ہمارا نقصان کم ہوگا۔ اور آپ دیکھئے این ڈی آر ایف میں ہے کون بھائی؟ ایس ڈی آر ایف میں ہے کون؟ آپ ہی کے سب ساتھی ہیں۔ سیکورٹی دستوں کے جوان ہی ہیں۔ لیکن سماج میں ان کے تئیں بڑی عزت بن گئی ہے۔ آفت کے وقت میں جیسے ہی این ڈی آر ایف-ایس ڈی آر ایف کی ٹیم پہنچتی ہے، ویسے ہی لوگوں کو اطمینان ہونے لگتا ہے کہ اب ایکسپرٹ ٹیم پہنچ گئی ہے، اب یہ اپنا کام کر لیں گے۔

ساتھیوں،

جرائم والی کسی بھی جگہ پر جیسے ہی پولیس پہنچتی ہے، لوگوں میں یہ خیال آتا ہے کہ سرکار پہنچ گئی۔ کورونا کے دور میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح پولیس کی ساکھ بہتر ہوئی تھی۔ پولیس کے لوگ ضرورت مندوں کی مدد کر رہے تھے، ضروری  سامانوں کا انتظام کر رہے تھے، اپنی ہی زندگی کو داؤ پر لگا رہے تھے۔ یعنی  فرائض کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں ہے، ضرورت اچھا پرسپشن بنائے رکھنے کی بھی ہے، اس کے لیے پولیس دستہ کی حوصلہ افزائی کرنا اس کے لیے پلان کرنا، ہر چھوٹی موٹی چیزوں پر لگاتار رہنمائی کرتے رہنا، کچھ غلط ہوتا ہے تو روکنا، یہ ہمارا ایک مناسب طریقہ ہونا چاہیے، اوپر سے نیچے تک ہر پل ہونا چاہیے۔

ساتھیوں،

ہمیں ایک بات اور سمجھنی ہوگی۔ اب قانون اور نظم و نسق کسی ایک ریاست کے دائرے میں سمٹا رہنے والا نظام نہیں رہ گیا ہے۔ اب جرائم انٹر اسٹیٹ اور انٹر نیشنل ہو رہے ہیں یعنی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ریاست میں بیٹھے مجرم، دوسری ریاست میں خطرناک جرم انجام دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ملک کی سرحد کے باہر بیٹھے مجرم بھی ٹیکنالوجی کا جم کر غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے ہر ریاست کی ایجنسیوں کا آپس میں تال میل، مرکز اور ریاست کی ایجنسیوں کا آپس میں تال میل یہ بہت ضروری ہے۔ اور اسی لیے آپ کو معلوم ہوگا میں نے ڈی جی پی کانفرنس میں کہا تھا کہ دو  ایڈجوائننگ اسٹیٹ ہوتے ہیں اس کے جو  ایڈجوائننگ ڈسٹرکٹ ہوتے ہیں انہوں نے  پیریاڈیکلی  بیٹھ کر کے دونوں ریاستوں کے دونوں ضلعوں کے مسائل  کو جمع کرنا چاہیے، ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اسی میں سے طاقت بنے گی۔ کئی بار مرکزی ایجنسیوں کو کئی ریاستوں میں ایک ساتھ جانچ کرنی پڑتی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی جانا پڑتا ہے۔ اس لیے ہر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ چاہے ریاست کی ایجنسی ہو، چاہے مرکز کی ایجنسی ہو یا متعلقہ کہیں کسی اور ریاست سے  رابطہ آتا ہے۔ سبھی ایجنسیوں کو ایک دوسرے کو پورا تعاون دینا چاہیے۔ کوئی بڑا ہے، کوئی چھوٹا ہے، کس کا  اختیار ہے اسی میں کبھی کبھی تو ہم دیکھتے ہیں ایک آدھی ایف آئی آر رجسٹر نہیں ہوئی، کیوں نہیں ہوئی تو بولے یہ طے نہیں ہو رہا ہے کہ وہ جو جگہ ہے وہ اس تھانے میں پڑتی ہے کہ اس تھانے میں پڑتی ہے۔ یہ جو چیزیں ہیں وہ صرف پولیس تھانے تک نہیں ہیں۔ ریاستوں کے درمیان بھی ہو جاتی ہیں۔ مرکز اور ریاستوں کے درمیان ہو جاتی ہیں۔ بھارت اور بیرونی ممالک کے انتظامات کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہماری ایفیشئنسی کے لیے، ہمارے آؤٹ کم کے لیے عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہمارے درمیان میں تال میل،  اتحاد، تعاون بہت لازمی ہے۔ اور اس کے لیے جتنا اتحاد بڑھے گا، آپ کی ریاست کی بھی طاقت بڑھنے والی ہے۔

ساتھیوں،

سائبر کرائم ہو یا پھر ڈرون ٹیکنالوجی کا ہتھیاروں اور ڈرگز کی اسمگلنگ میں استعمال، ان کے لیے ہمیں نئی ٹیکنالوجی پر کام کرتے رہنا ہوگا۔ اب دیکھئے ہم 5 جی کے دور میں داخل ہو گئے ہیں، تیزی سے 5 جی پہنچنے والا ہے۔ اب 5 جی کے جتنے فائدے ہیں، اتنی ہی بیداری بھی ضروری رہے گی۔ 5 جی سے فیشیل ریکگ نیشن ٹیکنالوجی، آٹومیٹک نمبر پلیٹ ریکگ نیشن ٹیکنالوجی، ڈرونز اور سی سی ٹی وی جیسی ٹیکنالوجی کی پرفارمنس میں کئی گنا بہتری ہونے والی ہے۔ لیکن ہم جتنی تیزی سے آگے بڑھیں گے، جو کرائم کرنے والا ورلڈ ہے، اسکا بھی گلوبلائزیشن ہو چکا ہے۔ وہ بھی انٹریسٹیڈ ہو چکا ہے۔ وہ بھی ٹیکنالوجی میں فارورڈ ہو چکے ہیں۔ مطلب ہمیں ان سے دس قدم آگے جانا ہوگا۔ ہمیں ہمارے نظم و نسق کو بھی اسمارٹ بنانا ہوگا اور اس کے لیے بہت ہی  تحمل سے کام کرنا ہوگا۔

ساتھیوں،

میری اپیل یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو براہ کرم  بجٹ کے ترازو سے نہ تولیں۔ اور میرا سبھی  قابل احترام وزرائے اعلیٰ سے، سبھی قابل احترام وزرائے داخلہ سے اس موضوع پر ایک ٹیم بنا کر دنیا میں کرمنل ورلڈ کی کس ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ رہا ہے، دستیاب ٹیکنالوجی ہمارے لوگوں کو کیسے تحفظ فراہم کر سکتا ہے، اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اس میں جو بجٹ جائے گا وہ باقی سینکڑوں خرچوں کو بچانے کا سبب بن جائے گا۔ اور اس لیے ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال پورے پولیس سسٹم کو تو مضبوط کرتا ہی کرتا ہے، عام انسانوں کو  تحفظ فراہم کرنے کا ایک بھروسہ نیچے تک ہم پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی،  جرم کی روک تھام میں بھی مدد کرتی ہے اور  کرائم کا پتہ لگانے میں بھی، کرائم انویسٹی گیشن میں بھی بہت کام آتی ہے۔ آج دیکھئے، کتنے ہی مجرم، سی سی ٹی وی کی وجہ سے پکڑے جا رہے ہیں اسمارٹ سٹی مہم کے تحت شہروں میں بنائے گئے جدید کمانڈ اور کنٹرول سسٹم سے بھی بہت مدد مل رہی ہے۔

ساتھیوں،

اس قسم کی نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے پولیس ٹیکنالوجی مشن بھی شروع کیا ہے۔ متعدد ریاستیں بھی اس میں اپنی سطح پر کام کر رہی ہیں۔ لیکن یہ تجربہ آ رہا ہے کہ ہمارے الگ الگ  تجربات ہونے کے سبب ہماری ٹیکنالوجی ایک دوسرے کے ساتھ بات نہیں کرتی ہے، اور اس لیے ہماری انرجی ویسٹ ہوتی ہے۔ وہ جو بھی میٹریل ہے، وہ اس ریاست تک محدود رہتا ہے۔ ہمیں کامن پلیٹ فارم کے بارے میں بڑا من رکھ کر سوچنا ہی پڑے گا۔ کسی ایک کے پاس بہت عمدہ چیز ہے تو یہ مان کر کے نہ بیٹھیں کہ میرے پاس ہے، میں تو کسی کو دوں گا نہیں، میں اپنی طاقت بنائے رکھوں گا، ایک وقت آئے کہ اتنی عمدہ ٹیکنالوجی ہوگی اور لوگوں کے تعاون میں نہیں ہوگی تو اسٹینڈ ایلون نکمی ہو جائے گی۔ اور اس لیے ٹیکنالوجی میں بھارت کے سلسے میں سوچنا ہماری سبھی بیسٹ پریکٹسز، بیسٹ انوویشن کامن لنک والے ہی ہونے چاہیے، انٹر آپریبل ہونے چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ لگاتار آسانی سے بات کر سکیں یہ انتظامات ضروری ہیں۔

ساتھیوں،

آج فارنسک سائنس کی اہمیت بڑھ رہی ہے، اور وہ صرف پولیس محکمہ تک محدود نہیں ہے جی! لیگل فریٹرنٹی کو فارنسک  سائنس کو سمجھنا پڑے گا، عدلیہ کو فارنسک سائنس سمجھنا پڑے گا،  یہاں تک کہ ہسپتال کو بھی فارنسک سائنس سمجھنا پڑے گا۔ ان سب کی کوشش سے ہی فارنسک سائنس کا استعمال کرائم اور کرمنل کو سزا دلانے میں بہت کام آ سکتا ہے۔ اکیلے پولیس کے پاس فارنسک سائنس کے کچھ انتظام ہیں، یہ کافی نہیں ہوگا۔ اور اس لیے ہر ریاست میں ہمیں  متحد اور متوازن نظام ہر ریاست کو گاندھی نگر واقع نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی کی اور اس کی صلاحیت آج دنیا کے 70-60 ممالک فارنسک سائنس  یونیورسٹی کا فائدہ لے رہے ہیں۔ ہماری ریاستوں کو بھی بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ پوری طرح فیوچرسٹک ٹیکنالوجی ڈریون نظام ہے۔ ہیومن رسورس ڈیولپمنٹ کا بھی وہاں کام ہے، نئے نئے ٹیکنالوجی ٹول بنانے کا بھی کام ہے۔ اور بڑے مشکل کیسز کو سلجھانے میں بھی وہ لیب کام آ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نظام کا استعمال سبھی ریاستیں سرگرمی سے کیسے کریں؟

ساتھیوں،

قانون اور نظم و نسق کو بنائے رکھنا، ایک  ’ٹونٹی فور سیون‘ (ہفتے میں چوبیسوں گھنٹے) والا کام ہے۔ لیکن کسی بھی کام میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مسلسل طریقہ کار کو بہتر کرتے چلیں، انہیں جدید بناتے چلیں۔ گزشتہ برسوں میں حکومت ہند کی سطح پر قانون اور نظم و نسق سے جڑے جو رفارمز ہوئے ہیں، انہوں نے پورے ملک میں امن کا ماحول بنانے میں مدد کی ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ بھارت کا تنوع، بھارت کی وسعت کی وجہ سے ہمارے لاء انفورسمنٹ سسٹم پر کتنا دباؤ ہوتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہمارا یہ سسٹم صحیح سمت میں توانائی لگائے۔ ورنہ ہم نے  دیکھا ہے کہ کتنے ہی غیر ضروری کیسوں میں، چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی جانچ میں ہی پولیس ڈپارٹمنٹ کی توانائی چلی جاتی ہے۔ اس لیے ہم نے تجارت و کاروبار سے جڑے متعدد التزامات کو اب ڈی کرمنلائز کر دیا ہے، انہیں جرائم کے زمرے سے باہر نکال دیا ہے۔ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ پرانے قوانین کو ختم کرکے مستقبل کا بہت بڑا بوجھ کم کیا گیا ہے۔ میں تو ریاستوں سے بھی اپیل کرتا ہوں آپ بھی اپنے یہاں قوانین کو ایویلوئیٹ کیجئے۔ آزادی سے پہلے کے جتنے قانون ہیں، ان کو موجودہ طریقوں کے ساتھ بدلئے۔ ہر قانون میں کرمنل اینگل اور  بے قصور شہروں کو پریشانی، وہ وقت چلا گیا ہے جی!

ساتھیوں،

سرکار کو اب جیسے سوامتو یوجنا، یہ سوامتو یوجنا کے تحت ملک کے گاؤوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے پراپرٹی کارڈ تقسیم کر رہے ہیں، وہ بھی زمین سے جڑے تنازعات کو کم کریں گے، جھگڑے ختم ہوں گے گاؤں کے۔ ورنہ گاؤں  کا مسئلہ زیادہ تر ایک فٹ زمین جس نے لے لی اسی میں سے بڑے بڑے جھگڑے ہو جاتے تھے۔

ساتھیوں،

بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر کی گئی ایسی متعدد کوششوں سے لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کو بھی  اپنی ترجیحات طے کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ لیکن ہم جب پورے کینواس پر چیزوں کو رکھ کر کے اپنی اسٹریٹجی میں تبدیلی نہیں کریں گے، 50-30-20 سال پرانے طریقوں سے چلیں گے تو شاید ان چیزوں کا فائدہ نہیں ملے گا۔ گزشتہ برسوں میں مرکزی حکومت کے ذریعے بنائے گئے قوانین نے بھی  قانون اور نظم و نسق کو مضبوط کیا ہے۔ دہشت گردی ہو، حوالہ نیٹ ورک ہو، بدعنوانی ہو، اس پر آج ملک میں بہت زیادہ سختی دکھائی جا رہی ہے۔ لوگوں میں اعتماد پیدا ہونے لگا ہے۔ یو اے پی اے جیسے قوانین نے دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی میں  سسٹمز کو طاقت دی ہے۔ یعنی ایک طرف ہم ملک کے لاء انفورسمنٹ سسٹم کا، اس کی صلاحیت بڑھا رہے ہیں تو دوسری طرف ان پر غیر ضروری بوجھ کو بھی ہٹا سکیں۔

ساتھیوں،

ایک اور موضوع ہمارے ملک کی پولیس کے لیے اہم ہے۔ جیسے آج ملک میں ون نیشن، ون راشن کارڈ کا نظام بنا ہے، ون نیشن ون موبلٹی کارڈ کا انتظام ہو رہا ہے، ون نیشن ون گرڈ بنا ہے، ون نیشن ون سائن لینگویج بنی ہے، ویسے ہی پولیس کی وردی کو بھی لے کر  ایسا ہی کوئی اپروچ اپنایا  جا سکتا ہے۔ کیا ہماری ریاستیں مل بیٹھ کر، اس سے بہت فائدے ہوں گے، ایک تو کوالٹی میٹریل پروڈکٹ ہوگا، کیوں کہ ماس اسکیل پر ہوگا۔ کیپ ہوگی تو کروڑوں کیپ کی ضرورت پڑے گی۔ بیلٹ چاہیے تو کروڑوں میں چاہیے ہوگا۔ اور ملک کا کوئی بھی شہری کہیں پر بھی جائے گا دیکھتے ہی اس کو پتہ چلے گا ہاں یہ پولیس والا ہے۔ اب جیسے پوسٹ آفس کا ڈبہ۔ ہندوستان میں کوئی پڑھا لکھا، ان پڑھ آدمی کو معلوم ہے یہ پوسٹ کا ڈبہ ہے۔ یعنی کاغذ ڈالا وہاں پہنچتا ہے۔ ایک پہچان ہوتی ہے۔ ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے پولیس بیڑے میں، ہم سوچیں، ساتھ مل کر کے سوچیں، کوئی کسی پر تھوپنے کی ضرورت نہیں ہے، ایک ایوالو کریں۔ آپ دیکھئے بہت بڑا فائدہ ہوگا اور ایک دوسرے کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ون نیشن ون پولیس یونیفارم، ہاں اس ریاست کا ایک ٹیگ ہو سکتا ہے، اس ریاست کا ایک نمبر ہو سکتا ہے، لیکن پہچان کامن بنے، اس پر سوچیں، میں ایک خیال کے طور پر رکھ رہا ہوں۔ نا میں کوئی آپ سے اپیل بھی کرتا ہوں۔ میں صرف ایک خیال رکھتا ہوں۔ اور اس خیال پر چرچہ کیجئے۔ کبھی ٹھیک لگے 5 سال 50 سال 100 سال کے بعد بھی  مفید لگے گا، تو ضرور دیکھئے۔ اسی طرح سے الگ الگ قسم کی پولیس کے نئے نئے محکمے شروع ہوئے ہیں۔ ایکسپرٹائز آئی ہے۔

اب ہم دیکھئے دنیا میں ٹورزم کا بہت بڑا مارکیٹ ہے۔ بھارت میں ٹورزم کے امکانات بہت بڑھ رہے ہیں۔ دنیا سے بہت بڑی مقدار میں ٹورسٹوں کا بھارت میں آنے کا امکان بڑھنا ہی بڑھنا ہے۔ آج دنیا میں کئی ملک جو ٹورزم کے شعبے میں بہت آگے ہیں، وہاں ٹورز کے لیے کام کرنے والی پولیس بنائی جاتی ہے۔ ان کی ٹریننگ الگ ہوتی ہے۔ ان کو لینگویجز بھی سکھائی جاتی ہے۔ ان کے برتاؤ پوری طرح چینج ہوتے ہیں۔ اور مسافروں کو بھی  بیرونی ممالک کے ٹورسٹوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ بھائی یہ مدد کرنے کے لیے پولیس کا انتظام ہے اور وہ پولیس ہونے کے سبب وہ پولیس انفورسمنٹ جو انسٹی ٹیوٹس ہیں اس سے بھی بڑی آسانی سے  تال میل کر پاتا ہے۔ کبھی نہ کبھی ہمیں ہمارے ملک میں اس سہولت کی ایکسپرٹائز کو ڈیولپ کرنا ہی پڑے گا، تاکہ  بھارت میں ٹورزم کے لیے دنیا بھر سے آنے والے آدمی اور ایک  سرمایہ کاری کے لیے آنے والے میں بہت فرق ہے۔ ٹورسٹ فوراً آپ کا امبیسڈر بن جاتا ہے۔ اچھی چیز بھی وہی دنیا میں لے جائے گا، بری چیز بھی وہی دنیا میں لے جائے گا۔  سرمایہ کاری جو کرتا ہے اس کو اس کام میں کافی وقت لگ جاتا ہے اگر غلط ہو گیا تو۔ لیکن ٹورسٹ تو دو دن میں ہی خبر پہنچا دیتا ہے ارے یار بھائی یہاں تو یہ حال ہے۔ اور اس لیے آج بھارت میں بھی مڈل کلاس کا بلک اتنا بڑھ رہا  ہے ٹورزم کو لے کر کے بہت تبدیلی آ رہی ہے۔ اب ٹورزم اور ٹریفک نیا مسئلہ سامنے آ رہا ہے۔ اب ہم ایڈوانس میں نہیں سوچیں گے، الٹرنیٹ نہیں سوچیں گے تو وہیں ٹورزم کے ہمارے سینٹرز تو کوئی بدلنے والے نہیں ہیں۔ ہم کہیں کہ بھائی آپ شملہ نہیں وہاں جائیے تو یہ تو ہونے سے شملہ جس کو جانا ہے شملہ ہی جائے گا۔ نینی تال جانا ہے وہ نینی تال ہی جائے گا، سرینگر جانا ہے وہ سرینگر ہی جائے گا، گل مرگ جانا ہے وہ گل مرگ ہی جائے گا۔ ہمیں  سہولیات کو تیار کرنا ہوگا۔

ساتھیوں،

ہم نے دیکھا ہے، کورونا کے وقت میں جب پولیس کے لوگ اپنے علاقے کے لوگوں کو فون کرکے پوچھتے تھے اور خاص کر میں نے دیکھا ہے کچھ شہروں میں سینئر سٹیزن کے لیے پولیس میں جو بڑی عمر کے لوگ ہیں، جن سے اب زیادہ مزدوری کروانا ان کے ساتھ بھی  زیادتی ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے ایسے کام لیے ہیں۔ اور وہ سینئر سٹیزن کو لگاتار پوچھتے ہیں ٹھیک ہو نا، کہیں باہر تو جانے والے نہیں ہو نا، گھر بند کرکے جانے والے نہیں ہو نا، اس کی وجہ سے شہریوں کا جو کانفیڈنس بڑھتا ہے، وہ ایک طرح سے آپ کی طاقت بن جاتا ہے۔ اس چیز کو ہم جتنا زیادہ استعمال کر سکتے ہیں، پروفیشنل وے میں کر سکتے ہیں اور پوری طرح تازگی ہو، حساسیت ہو، آپ دیکھے سماج زندگی میں یہ فون آپ کا ہفتہ میں اگر کسی سینئر سٹیزن کو جاتا ہے وہ مہینے بھر دنیا کو کہتا رہتا ہے کہ بھئی پولیس تھانے سے بالکل فون آ جاتا ہے، ہر بدھ کو پوچھ لیتے ہیں میری کوئی دقت تو نہیں ہے، ان چیزوں  میں بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ جو پرسپشن کی لڑائی ہے نا، یہ آپ کے سارے پرسپشن بنانے والے لوگ ہیں۔ ہمیں ایک اور کام کی طرف بہت  محتاط ہونے کی ضرورت ہے جی، ٹیکنالوجیکل انٹیلی جنس اس کی اپنی ہی ایک طاقت ہے، اس کا استعمال ہے لیکن ہم ہیومن انٹیلی جنس کا انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ اس  ہنر کو پولیس ڈپارٹمنٹ نے آج سے سو سال، کتنی ہی ٹیکنالوجی بدل جائے، 100 سال کے بعد اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کو جتنا طاقتور بنا سکتے ہیں بنائے۔ اس میں جو صلاحیت ہے، اس کی جو نظریں ہیں وہ اس کی جو بات چیت میں سے جو پکڑ کے لے آتا ہے، یہ آپ کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اور اگر دونوں شعبوں میں طاقت ہے پھر تو آپ چیزوں کو بہت آسانی سے تصور کر سکتے ہیں کہ بھئی یہ امکان ہے، دس دن کے بعد یہ امکان نظر آتا ہے، یہ چل رہا ہے، چلو ہم دیکھتے ہیں، یہاں کچھ لوگ آتے ہیں جاتے ہیں، کچھ ہو رہا ہے، فوراً پتہ چلے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں، اس کی وجہ سے  ہمارا سسٹم بہت چست ہو جائے گا۔ جو 50 بار کرائم کرنے والے کو سوچنے کے لیے  مجبور کرے گا۔

ساتھیوں،

ہمیں ایک اور بات بھی سمجھنی ہے۔ آج عالمی سطح پر بھارت جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، اتنی ہی تیزی سے بھارت کی چنوتیاں بھی بڑھنے والی ہیں۔ پہلے وہ  اندیکھی کی فطرت ہوتی ہے، پھر اس کا ذرا مذاق اڑانے کی فطرت بنتی ہے، پھر بھی آپ آگے بڑھتے ہیں۔ تو پھر تھوڑی کمپٹیشن کا جذبہ آ جاتا ہے، مقابلہ آرائی آ جاتی ہے۔ پھر بھی آگے بڑھتے ہیں، تو دشمنی کی شکل لے لیتی ہے۔ دنیا کی بہت ساری طاقتیں ہوں گی جو نہیں چاہیں گی کہ ان کے ملک کے  سلسلے میں بھارت کچھ با صلاحیت بنے۔ فلاں موضوع پر ان کی ایکسپرٹائز ہے اس میں بھارت نہ گھسے۔ فلاں پروڈکٹ ان بپوتی ہے، اگر اس میں بھارت پروڈکشن میں چلا گیا تو مارکیٹ پر بھارت قبضہ کر لے گا۔ بھارت بہت بڑا بازار ہے، بھارت خود بنانے لگ جائے تو پھر تو ہمارا مال کہاں جائے گا۔ کئی قسم کی چنوتی آنے والی ہے اور وہ چنوتیاں دشمنی کی شکل اختیار کرتے دیر نہیں کرتیں۔ اور اس لیے ہمیں ہمارے ان سارے چیلنجز کو ہمیں سمجھنا ہے اور یہ آسان ہے کسی کو ہم سے کوئی ہمارا برا کرنا نہیں ہے۔ انسان کی فطرت ہے آپ کے یہاں بھی دو افسر ہوں گے تو لگتا ہے کہ ہاں یار آگے چل کر اس کا پروموشن ہو جائے گا، میں تو ہار جاؤں گا۔ تو ان کا پھر 10 سال پہلے ہی تو تو شروع ہو جاتا ہے۔ ویسا ہر جگہ پر ہوتا ہے بھئی۔ اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہم تھوڑا دور کا سوچ کر کے ہماری صلاحیت کو پروٹیکٹیڈ انوائرمنٹ، پراپر میسیجنگ اس کے لیے ضروری باریکیوں  کو جو پہلے کی لاء اینڈ آرڈر اور آج کی چنوتیوں میں بہت بڑا فرق آنے والا ہے۔ پہلے کا تو برقرار رکھنا ہی پڑے گا، نئے کے لیے بھی ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا پڑے گا۔ ہمیں  ملک کے خلاف جو طاقتیں کھڑی ہو رہی ہیں۔ جس طرح ہر چیز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ عام شہریوں کی حفاظت کے لیے، قانون کی پابندی کرنے والے شہریوں کے حقوق کے لیے ایسی کسی بھی منفی طاقتوں کے خلاف سخت سے سخت برتاؤ ہی ہماری ذمہ داری ہے۔ کوئی رحمدلی نہیں چل سکتی ہے جی۔ کیوں کہ آخرکار جو قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہیں، جو قانون کو ماننے والا شخ ہے، وہ کہاں جائے گا بھئی۔ ہمارا کام ہے اور ایسے 99 پرسینٹ سٹیزن وہی ہوتے ہیں جی، 1 پرسینٹ کا ہی پرابلم ہوتا ہے۔ ہمیں ان 99 کو بھروسہ دلانے کے لیے ان 1 پرسینٹ کے تئیں ذرا بھی نرمی برتنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ساتھیوں،

سوشل میڈیا کی طاقت کو ہمیں کام کرکے کیا ہو رہا ہے،  اتنے بھر سے اس کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔ ایک چھوٹی سی فیک نیوز، پورے ملک میں بڑی تبدیلی کھڑا کر سکتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک ریزرویشن کی ایسی افواہ پھیل گئی، فیک نیوز چل گیا، جس کی وجہ سے کیا کچھ نقصان جھیلنا پڑا تھا ملک کو۔ 8-6 گھنٹے بعد جب پتہ چلا تو سب  خاموش ہو گئے، لیکن تب تک تو نقصان بہت ہو چکا تھا۔ اور اس لیے لوگوں کو ہمیں متحد کرتے رہنا پڑے گا کہ کوئی بھی چیز آتی ہے اس کو فارورڈ کرنے سے پہلے 10 بار سوچو بھئی۔ کوئی بھی چیز آتی ہے اس کو ماننے سے پہلے ذرا ویریفائی کرو اور سارے پلیٹ فارم پر ویری فکیشن  کا انتظام ہوتا ہے۔ آپ ایک دو دس جگہ پر آ کر چکر لگاؤگے تو کچھ نہ کچھ نیا ورژن مل جائے گا۔ یہ ہمیں لوگوں کو متحد کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسی فیک ورلڈ سے ڈریون سوسائٹی، اسی سے ڈری ہوئی سوسائٹی، اسی سے ڈرائیو ہونے والی سوسائٹی اس کے بیچ میں ایک بہت بڑی طاقت ہمیں کھڑی کرنی ہوگی۔ ٹیکنالوجیکل طاقت کھڑی کرنی ہوگی۔

ساتھیوں،

سول ڈیفنس کی ضرورت اور جیسے ابھی امت بھائی بتا رہے تھے بھئی، کچھ چیز ہے جس پر ہمارا دھیان ابھی ہٹ رہا ہے۔ امت بھائی نے صحیح چیزوں کو پکڑا ہے۔ آپ لوگ بھی یہ جو کئی دہائیوں سے چلی ہوئی چیزیں ہیں، اس کا بہت استعمال ہے اسکول کالج میں بھی اس کو ہم نے سول ڈیفنس کا موضوع ہو، پرائمری ہیلتھ  والا موضوع ہو، جو چیزیں ہوتی ہیں، پہلے بھی کرتے تھے ہم لوگ۔ فائر فائٹنگ کا انتظام ہم پہلے بھی کرتے تھے۔ اس کو ہم نے  آسان عادت بنانی چاہیے اور میں نے تو کہا ہے ہر میونسپلٹی، میونسپل کارپوریشن میں ہفتہ میں ایک دن کسی اسکول میں جا کر کے فائر فائٹنگ کے شعبے کے لوگ اور پولیس نے جا کر کے ڈرل کرنی چاہیے۔ تو اسکول کے بچے دیکھیں گے تو ان کا بھی ایجوکیشن ہو جائے گا، جو سسٹم ہے وہ بھی ان کی ڈریم اور پریکٹس ہو جائے گی۔ اگلے ہفتے دوسرے اسکول، پھر ایک اسکول کا دس سال میں ایک بار باری آئے گی بڑے شہر میں تو۔ لیکن ہر نسل کو پتہ چلے گا وہ سول ڈیفنس کے بارے میں، فائر فائٹنگ کے بارے میں یہ ساری ڈرل شہریوں کو کرنی ہوتی ہے۔ آپ کو بھی ایک بہت بڑی طاقت ملے گی جی۔ یہ  آسانی سے کرنے والا کام ہے۔

ساتھیوں،

گزشتہ برسوں میں دہشت گردی کے گراؤنڈ نیٹ ورک کو برباد کرنے میں سبھی سرکاروں نے بہت ذمہ داری کے ساتھ اس کی سنجیدگی کو سمجھ کر کے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہیں پر شاید کامیابی پہلے ملی ہو،  کہیں پر دیر سے ملی ہو، لیکن ہر ایک کو اس کی سنجیدگی کو آج سمجھانا پڑے ایسا نہیں ہے۔ اب ہمیں اس میں طاقت کو جوڑ کر کے اس کو ہینڈل کرنا ہے جی۔ اسی طرح نکسل واد کے ہر فارم کو ہمیں  شکست دینی پڑے گی جی۔ بندوق والا بھی ہے اور قلم والا بھی نکسل واد ہے۔ ہمیں ان سب کا کاٹ نکالنا پڑے گا جی۔ ہماری نوجوان نسلوں  کو گمراہ  کرنے کے لیے  ایسی بچکانہ باتیں کر کرکے چل پڑتے ہیں لوگ اور اتنا نقصان ملک کا ہو رہا ہے، اور آنے والے دنوں میں کوئی سنبھال نہیں پائے گا جی۔ اور اس لیے ہم نے جیسے نکسل متاثرہ ضلعوں پر فوکس کیا ہے، اسی طرح سے انہوں نے اب اپنا اٹنیلکچوئل دائرہ ان جگہوں پر پہنچانے کی کوشش کی ہے، جو آنے والی نسلوں میں خراب ذہنیت پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تئیں دشمنی پیدا کر سکتے ہیں۔ ایموشنل چیزوں کو آؤٹ آف پروپورشن اچھال کر کے سماج کے  کئی ٹکڑوں میں  خلیج پیدا کر سکتے ہیں، انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔ ملک کی یکجہتی اور سلامتی سردار ولبھ بھائی پٹیل ہمارے حوصلہ کا باعث ہوں، ہمیں ایسی کسی چیزوں کو ملک میں چلنے نہیں دینا ہے جی۔ لیکن  عقلمندی سے کرنا پڑے گا، سمجھداری سے کرنا پڑے گا۔ ہمارے فائٹ فورسز میں بھی ایسی ایکسپرٹائز تیار کرنی پڑے گی۔ کسی ریاست میں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے، تو ہمارے ٹاپ  ایکسپرٹ کو وہاں اسٹڈی کے لیے بھیجنا چاہیے کہ  یونیورسٹی جاؤ تین دن وہاں رہ کر آؤ، وہاں پر ہوا ہے تو انہوں نے کیسے ہینڈل کیا تھا، معاملہ کیسے پنپا تھا، اس سے ہم سیکھتے ہیں۔ سیکھنے کے لیے ہمیں لگاتار کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو اس قسم کی دنیا والے لوگ ہیں، ان کو بین الاقوامی سطح سے بھی بہت مدد مل جاتی ہے اور وہ اس میں چالاک ہوتے ہیں، اور ان کا چہرہ  اتنا  معصوم دکھتا ہے۔ اتنا بڑا آئین اور قانون کی زبان میں بھی بولتے ہیں فطرت کچھ اورکرتی ہے۔ ان ساری چیزوں کو دودھکا دودھ اور پانی کا پانی یہ سمجھنے کی طاقت ہمارے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ میں ہونی چاہیے جی۔ ہمیں پائیدار امن کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا بہت ضروری ہے۔

ساتھیوں،

جموں و کشمیر ہو یا نارتھ ایسٹ ہو آج ہم  اعتماد حاصل کر رہے ہیں۔  تخریب کاری طاقتوں کو بھی مین اسٹریم میں آنے کا من کرنے لگا ہے۔ اور جب ہم ترقی ان کو نظر آتی ہے، انفراسٹرکچر نظر آتا ہے، ان کی امیدیں پوری ہو رہی ہیں، تو وہ بھی اب  اسلحوں کو چھوڑ کر کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اسی طرح سے بارڈر اور کوسٹل ایریا میں ہمیں ترقی کی جانب دیکھنا ہوگا۔ بجٹ میں بھی وائبرنٹ ولیج کی بات کہی گئی ہے۔ آپ کو اس پر سوچنا چاہیے۔ آپ کے ٹاپ افسر ان کو بارڈر ولیج میں نائٹ اسٹے کرکے آنا چاہیے۔ اپیل کیجئے تو میں تو وزراء سے بھی کہوں گا کہ کم از کم ایک سال میں پانچ یا سات بارڈر ولیج میںجا کر دو تین گھنٹے گزار کر آئیے۔ چاہے وہ کسی اسٹیٹ کا بارڈر ولیج ہو، چاہیے انٹرنیشنل بارڈر ولیج ہو، آپ کو بہت کچھ باریکیوں کا پتہ چلے گا۔

ساتھیوں،

ہتھیار ڈرگ یہ چاری جو اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ ڈرون اس میں ایک نیا بحران گھسا ہوا ہے۔ ہمیں ہمارے بارڈر اور کوسٹل ان کے لیے  متحد ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم کہیں گے بھئی نہیں یہ کرے گی، کوسٹ گارڈ یہ کرے گا اتنے سے بات بنے گی نہیں یہاں،  ہمیں یہ اتحاد بہت اچھے سے بڑھانا پڑے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مل کر ایک قومی منظرنامہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ہر چنوتی ہمارے سامنے بے معنی ثابت ہو جائے گی۔ اور چیزوں کو ہینڈل کرنے کی ہماری طاقت بھی بڑھ جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ اس شیور میں جو چرچہ ہوگی، اس میں سے کوئی نہ کوئی ایکشن ایبل پوائنٹ نکلیں گے۔ ایک کلیکٹو روڈ میپ بنے گا، ہر ریاست کو ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا۔ یہ تیرا علاقہ ہے، یہ میرا علاقہ ہے، یہ تیرا اختیار ہے، یہ میرا اختیار ہے، اگر ہم اس میں الجھتے رہیں گے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ سماج مخالف طاقتیں جو قانون کو مانتی نہیں ہیں، وہ اس بدنظمی کا بھرپور فائدہ اٹا سکتی ہیں۔ اس لیے ہمارے درمیان سمجھداری، اتحاد، اعتماد اوریہ سب بڑا پروفیشنل ہونا چاہیے جی۔ اور یہ ذمہ داری ہمارے کیڈرس کی ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اور مجھے یقین ہے ہم ساتھ مل کر کے کریں گے تو ہم جو چاہتے ہیں ویسا نتیجہ حاصل کر سکیں گے، اور ملک کے لیے جو موقع آیا ہے، اس موقع کو پہلی نظر میں طاقت یونیفارم  فورسز سے آتی ہے جی۔ یقین کی ایک وجہ یونیفارم فورسز بن جاتی ہے۔ ہم اس کو جتنا زیادہ طاقتور بنائیں گے، جتنا زیادہ بہت وژن کے ساتھ کام کرنے والا بنائیں گے، جتنا زیادہ شہریوں کے تئیں حساس بنائیں گے، بہت فائدہ ہوگا۔

کچھ مشورے میں نے ڈی جی پی کانفرنس میں دیے ہیں۔ میں سبھی وزرائے اعلیٰ اور وزرائے داخلہ سے  درخواست کروں گا کہ ڈی جی پی کانفرنس ایک بہت ہی اچھی  انسٹی ٹیوشنل کے روپ میں تیار ہوئی ہے۔ کھل کر چرچہ ہوتی ہے اور اس میں پولیٹکل ایلمنٹ زیرو ہوتا ہے۔ اس میں سے جو باتیں نکلتی ہیں، میں سبھی  محکمہ امور داخلہ کے میرے سکریٹری جو رہتے ہیں وہ آئی اے ایس کیڈر کے ہوتے ہیں اور ہمارے جو پولیٹکل فیلڈ کے لوگ جو منتخب ہو کر سرکار چلاتے ہیں۔ ڈی جی پی کانفرنس میں جو باتیں ہوئیں ان سے پورابریفنگ لینا چاہیے۔ اس میں ایکشن ایبل پوائنٹ کو ہمیں اپنی ریاست میں فوراً لاگو کرنا چاہیے۔ تب جا کر کے فائدہ ہوگا۔ ہمیں ڈی جی پی کانفرنس سے تو ایک میٹنگ ہو گئی تھی ہمارے صاحب ہو کر کے آ گئے ہیں یہ نہیں ہے جی۔ یہ ایک ملک کی سیکورٹی کو لے کر کے کام کرنے کے لیے ہے۔ اب جیسے ایک تجویز آئی تھی کہ بھئی ہماری پولیس کے لیے رہنے کے لیے گھر۔ اب میں نے ایک مشورہ دیا تھا کہ خاص کر کے بڑے شہروں میں جو پولیس تھانے ہیں یا پولیس اسٹیشن ہیں۔ آپ ذرا سوچئے کہ اس میں سے کچھ ملٹی اسٹوری بن سکتاہے کیا؟ نیچے تھانہ چلا رہے گا، لیکن اگر اوپر اوپر 20 منزل مکان بنا دیا ہے اور کوارٹر بنا دیے رہنے کےلیے تو اس علاقے کے جتنے پولیس والے ہیں، ان کے لیے گھر وہیں مل جائے گا۔ ٹرانسفر ہو جائے گا، تو وہ خالی کرکے چلا جائے گا تو جو آئے گا اس کو وہی مکان مل جائے گا۔ توپولیس کو آج شہر کے باہر 25 کلومیٹر دور گھر ملتا ہے۔ اس کو آنے جانے میں دو دو گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم زمین کا بھی زیادہ اس ریاست سے بات کر سکتے ہیں، اس کارپوریشن سے بات کر سکتے ہیں، ذرا اس کو ہائی رائز کے لیے بنا سکتے ہیں، جس سے فائدہ ہوگا اور اوپر بھی ہم سیکورٹیکے لیے انتظامات آرگنائز کر سکتے ہیں۔ ہم چیزوں کو دیکھنے کے لیے انتظامات آرگنائز کر سکتے ہیں۔ یعنی اسینڈ ایلون ایک چھوٹا پولیس تھانہ ہے، اس کی بجائے جدید پولیس تھانہ بھی بن جائے گا اور اسی کے اوپر 25-20 منزلہ مکان بن کے رہنے کے لیے گھروں کا انتظام ہو جائے گا۔

اورمیں ضرور مانتاہوں بڑے شہر میں 50-25 تھانے تو ایسے ضرور مل سکتے ہیں کہ جہاں اس قسم کے ڈیولپمنٹ کا امکان ہے۔ کیوں کہ بڑے شہروں میں 20 کلومیٹر 25 کلومیٹر  باہر جانا پڑ رہا ہے پولیس کے کوارٹر بنانے کے لیے، اور اس میں دیکھا ہوگا اب جیسے امت بھائی بتا رہے تھے کہ بھئی بجٹ تو دیتے ہیں، وہ استعمال نہیں ہو رہاہے۔ جتنی مقدار میں خرچ ہونا چاہیے، نہیں ہو رہاہے۔ بھارت سرکار میں ایک ایسی حالت شروع ہوئی ہے کہ مجھے بار بار اپیل کرنی پڑتی ہے کہ جس کام کے لیے طے کیا ہے اس بجٹ کو اس کام کے لیے استعمال کرو اور  مقررہ مدت میں کرو، پیسے خرچ نہیں کر پا رہے ہم لوگ۔ ہمارے ملک میں یہ حالت ہمیں نہیں چاہیے، ہمیں اپنی طاقت بڑھانی ہوگی جی، ہماری صلاحیت بڑھانی ہوگی،  قوت ارادی کو بڑھانا ہوگا، تب جا کر اس  پیسے کا صحیح استعمال مقررہ مدت میں کر پائیں گے اور جب مقررہ مدت میں پیسے کا استعمال ہوتا ہے تو ویسٹیج  تو بچتا ہی بچتا ہے، ہمیں فائدہ بہت ہوتا ہے۔

میں ایک اور موضوع کی طرف آپ کی توجہ چاہتا ہوں سبھی ریاست کی پولیس اور بھارت سرکار کی پولیس جو ہم اسکریپنگ پالیسی لائے ہیں، اس کی اسٹڈی کیجئے اور آپ کے جتنے پرانے ویہکل ہیں۔ ایک بار ان کو اسکریپ کرنے کی سمت میں آپ آگے بڑھئے۔ پولیس کے پاس ویہکل پرانا نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس کی  ایفشئنسی سے جڑا ہوا موضوع ہے۔ اس کی وجہ سے دو فائدے ہوں گے۔ جو اسکریپنگ کے بزنس میں آنے والے لوگ ہیں، ان کو ایشورنس مل جائے گا کہ بھئی فلاں ریاست میں 2 ہزار ویہکلس اسکریپنگ کے لیے آل ریڈی انہوں نے آئڈنٹیفائی کر دیے۔ چلو میں ایک یونٹ لگادیتا ہوں۔ ری سائیکل کا سرکلر اکانومی کا کام ہو جائے گا اور ہم اگر 2 ہزار ویہکل وہاں جو نئی ویہکل بنانے والی کمپنیاں بھی آ جائیں گی کہ بھئی اگر آپ 2 ہزار ویہکل ہمارے ساتھ لیتے ہو تو ہم ریٹ اتنا کم کریں گے، ہم کوالٹی میں آپ کو جو چاہیے کر کے دیں گے، اتنا بڑھیا پیکیج بن سکتا ہے جی۔ سبھی ہمارے پولیس کے پاس جدید سے جدید ویہکل آ سکتے ہیں۔ ہم اس پر سوچیں اور میں چاہتا ہوں کہ منسٹر خود بلائے ایسے جو اسکریپنگ کی دنیا میں اچھا کام کر سکتے ہیں ان کو۔ اور کہیں ہم چلو زمین دیتے ہیں آپ کو، آپ اسکریپنگ کے لیے ری سائیکل کے یونٹ لگا دیجئے۔ ہم پہلے پولیس والے ویہکل دے دیں گے آپ کو۔ ہم پولیس کے لیے نئے ویہکل لیں گے۔ یہ بہت ضروری ہے جی۔ بھارت سرکار کے  الگ الگ یونٹ بھی اپنے پرانے سارے کوڑا کچرا نکال دیتے ہیں۔ اور نئے تو ہماری انوائرمنٹ ایفشیئنسی سب پر فرق آئے گا۔ تو ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی اگر آپ کچھ فیصلہ کرکے نکلیں گے اور اس کو مقررہ مدت میں لاگو کریں گے، آپ دیکھئے آپ لوگوں کو تو سیکورٹی دیں گے، آپ ملک کی ترقی میں بھی بہت بڑے  معاون بن جائیں گے۔ اورمجھے پورا یقین ہے کہ جس سنجیدگی سے اس میٹنگ کو آپ لوگوں نے لیا ہے اور خاص کر کے اتنی بڑی تعداد میں وزرائے اعلیٰ آ کر کے اس میٹنگ میں بیٹھنا سچ مچ میں تو جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرا من کرتا ہے کہ مجھے وہاں آپ کے درمیان میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پہلے سے ہی کچھ پروگراموں کا اتنا پریشر رہا ہے کہ میں نہیں آ پایا۔ لیکن جب اتنے سارے معزز وزرائے اعلی آتے ہوں تو ایک وزیر اعظم کا  فطری طور پر من کر جاتا ہے کہ ذرا آپ کے بیچ بیٹھوں، میں بھی آپ کے ساتھ چائے پان کرتے کرتے کافی باتیں کروں، لیکن میں نہیں کر پایا اس بار۔ وزیر داخلہ جی آپ کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ وہ جس بھی موضوع پر آپ سے بات چیت کرں گے، مجھ تک ضرور پہنچے گا اور میرے حصے میں جو ذمہ داری ہوگی میں سبھی وزرائے اعلیٰ کو، سبھی وزرائے داخلہ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی توقعات پر کھرا اترنے کے لیے بھارت سرکار بھی اتنی ہی کوشش کرے گی۔ میری طرف سے آپ سب کا بہت بہت شکریہ، بہت بہت نیک خواہشات۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India's Economic Growth Activity at 8-Month High in October, Festive Season Key Indicator

Media Coverage

India's Economic Growth Activity at 8-Month High in October, Festive Season Key Indicator
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.