’’ آج آپ جیسے کھلاڑیوں کاجذبہ کافی بلند ہے، تربیت بھی بہتر ڈھنگ سےحاصل کررہے ہیں اور کھیلوں کےتئیں ملک میں ماحول بھی بہت زبردست طور پر سازگارہے‘‘
’’مقصد ترنگاپرچم کواونچارکھنا ہے اور قومی ترانہ کو بجتےہوئے سنناہے ‘‘
’’ ہمارےایتھلیٹس ایسے وقت میں کامن ویلتھ گیمس میں حصہ لینے جارہے ہیں جب ملک آزادی کی 75 ویں سالگرہ منا رہا ہے‘‘
’’آپ سبھی کو بہترین تربیت دی گئی ہے اور دنیا میں بہترین سہولتوں کے ساتھ پوری طرح تربیت فراہم کی گئی ہے ۔ یہی وقت ہے کہ اس تربیت کو اوراپنےقوت ارادی کوشامل کیا جائے ‘‘
ابھی تک آپ نے جو کچھ حاصل کیاہے وہ یقینا تحریک دینے والا ہے لیکن اب آپ کو نئے ریکارڈس کےلئےپھر سے کوشش کرنی ہوگی ‘‘

میں ان سے بات کرنے سے پہلے ایک یا دو لفظ ضرور کہوں گا، اس کے بعد ان سے بات کروں گا۔

ساتھیو،

میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ مجھے آپ سب سے ملنے کا موقع ملا۔ ویسے روبرو ملتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی، لیکن آپ میں سے بہت سے لوگ اب بھی بیرون ملک اپنی کوچنگ کے انتظامات میں ہیں۔ دوسری طرف میں بھی پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہوں، تو وہاں بھی کچھ مصروفیت ہے۔

ساتھیو،

آج 20 جولائی ہے۔ یہ دن کھیلوں کی دنیا کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ آپ میں سے کچھ لوگ ضرور جانتے ہوں گے کہ آج شطرنج کا عالمی دن ہے۔ یہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ 28 جولائی کو جس دن دولت مشترکہ کھیل برمنگھم میں شروع ہوں گے، اسی دن تمل ناڈو کے مہابلی پورم میں شطرنج اولمپیاڈ شروع ہوگا۔ یعنی آنے والے 10-15 دنوں میں بھارت کے کھلاڑیوں کے پاس اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا، دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا بہت سنہری موقع ہے۔ میں ملک کے ہر کھلاڑی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آپ میں سے بہت سے کھلاڑی پہلے ہی کھیلوں کے بڑے مقابلوں میں ملک کو قابل فخر لمحات دے چکے ہیں۔ اس بار بھی آپ تمام کھلاڑی، آپ کے کوچ جوش و خروش سے بھرے ہوئے ہیں۔ جن کے پاس دولت مشترکہ میں کھیلنے کا سابقہ ​​تجربہ ہے، یہ ان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خود کو دوبارہ آزمائیں۔ 65 سے زائد کھلاڑی جو پہلی بار اس ٹورنامنٹ میں حصہ لے رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی زبردست تاثر چھوڑیں گے۔ آپ ماہر ہیں آپ لوگوں کو کیا کرنا ہے، کیسے کھیلنا ہے۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ جی بھر کے کھلئے گا، جم کر کھیلئے گا۔ پوری قوت سے کھیلئے گا اور بغیر کسی تناؤ کے کھیلئے گا۔ اور آپ لوگوں نے وہ پرانا ڈائیلاگ ضرور سنا ہوگا۔ کوئی نہیں ہے ٹکر میں، کہاں پڑے ہو چکر میں، بس اسی رویے کے ساتھ آپ کو وہاں جانا ہے، کھیلنا ہے، باقی میں اب اپنی طرف سے زیادہ گیان دینا نہیں چاہتا۔ آئیے گفتگو شروع کرتے ہیں۔ سب سے پہلے کس سے بات کرنا ہے مجھے؟

پیش کنندہ: اویناش سابلے مہاراشٹر سے ہیں، ایتھلیٹکس سے ہیں۔

وزیر اعظم: اویناش نمسکار۔

اویناش سابلے: جئے ہند سر، میں اویناش سابلے، میں دولت مشترکہ کھیلوں میں ایتھلیٹکس میں 3000 میٹر ایونٹ میں بھارت کی نمائندگی کررہا ہوں۔

وزیر اعظم: اویناش مجھے بتایا گیا کہ آپ فوج میں ہیں اور آپ سیاچن میں بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ مہاراشٹر سے آکر ہمالیہ میں ڈیوٹی دے رہے ہیں، سب سے پہلے اس بارے میں مجھے اپنے تجربات بتائیں۔

اویناش سابلے: سر، میں مہاراشٹر کے بیر ضلع سے ہوں اور میں نے 2012 میں انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ اور اس کے بعد سر میں فوج کی جو ڈیوٹی ہوتی ہے، نارمل ڈیوٹی میں چار سال، مطلب میں نے نارمل ڈیوٹی کی اور اس میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جو چار سال میں نارمل ڈیوٹی کرتا رہا، اس میں 9 مہینے کی جو بہت مضبوط ٹریننگ ہوتی ہے، بہت سخت ہوتی ہے۔ اس ٹریننگ نے مجھے بہت مضبوط بنا دیا اور اسی ٹریننگ سے میں اب کسی بھی شعبے میں جاؤں گا تو مجھے لگتا ہے کہ میں بہت اچھا کر سکوں گا اور اسی ٹریننگ کے ساتھ چار سال بعد جب مجھے آرمی کی طرف سے ایتھلیٹکس میں جانے کا موقع ملا تو میں بہت شکر گزار رہا اور فوج کا جو نظم و ضبط ہے اور جہاں میں اتنی مشکل جگہ پر رہا تو مجھے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم: اچھا اویناش میں نے سنا ہے کہ آپ نے فوج میں شامل ہونے کے بعد ہی اسٹیپل چیز کا انتخاب کیا ہے۔ کیا سیاچن اور اسٹیپل چیز میں کوئی تعلق ہے؟

اویناش سابلے: جی جناب۔ وہاں پر بھی ایسی ٹریننگ ہوتی ہے جیسے آپ کو یہ اسٹیپل چیز جیسے ایونٹ بھی ایک رکاوٹ کا کھیل ہے۔ جیسے اس میں ہمیں ہڈلز کو اس کے اوپر کودنا  ہے اور پھر پانی کی چھلانگ لگانا ہے۔ اسی طرح فوج کی تربیت میں بھی ہمیں بہت سی رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیسے رینگنا پڑتا ہے یا 9 فٹ کھائی ہوتی ہے اسے کودکر پار کرنا ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ تربیت میں بہت سی رکاوٹیں ہوتی ہیں اور یہاں مجھے یہ بہت آسان لگ رہا ہے۔ فوج کی ٹریننگ کے بعد، مجھے اسٹیپل جیسے ایونٹ بہت آسان لگ رہے ہیں۔

وزیر اعظم: اچھا اویناش، یہ بتائیے کہ پہلے آپ کا وزن بہت زیادہ تھا اور آپ نے بہت کم وقت میں اپنا وزن کم کیا اور آج بھی میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ بہت دبلے پتلے لگ رہے ہیں، میں نے دیکھا تھا کہ ہمارے ایک ساتھی نیرج چوپڑا نے بھی بہت کم وقت میں اپنا وزن کم کرلیا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ اپنا تجربہ بتائیں کہ آپ نے ایسا کیسے کیا تو شاید کھیلوں کی بجائے اور لوگوں کو بھی یہ کام آسکے۔

اویناش سابلے: سر، جب میں فوج میں بطور سپاہی ڈیوٹی کرتا تھا، تو میرا وزن بہت زیادہ تھا۔ تو جب میں نے سوچا کہ مجھے کھیلوں میں جانا چاہیے تو میری یونٹ اور فوج نے مجھے کھیلوں میں شامل ہونے کے لیے بہت زیادہ ترغیب دی۔ تو میں نے سوچا کہ ابھی دوڑنے کے لئے میرا وزن بہت زیادہ ہے۔ میرا وزن کم از کم 74 کلوگرام تھا۔ تو میں نے سوچا کہ ابھی یہ کیسے ہوگا؟لیکن انھوں نے مجھے بہت سپوٹ کیا اور ٹریننگ کے لئے الگ سے اضافی وقت ملتا تھا مجھے فوج میں، اس طرح اس وزن کو کم کرنے میں مجھے 3-4 مہینے لگے۔

وزیر اعظم: آپ کا وزن کتنا کم ہوا؟

اویناش سابلے: سر، اب وزن 53 کلو رہ گیا ہے، جناب میرا 53 کلو۔ اور تب 74 تھا، مطلب 20 کلو کم ہوا۔

وزیر اعظم: اوہ بہت کم کیا۔ اچھا اویناش مجھے کھیل کے بارے میں سب سے اچھی بات اور یہ ضرور میرے من کو چھوتی ہے کہ اس میں پیچھے کی ہار جیت کا زیادہ بیگیج نہیں ہوتا ہے۔ ہر بار مقابلہ نیا اور تازہ ہوتا ہے۔ اور آپ نے بتایا کہ آپ بالکل تیار ہیں۔ تمام اہل وطن کی نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ جم کر کھیلیں۔ آئیے، اب ہم کس سے بات کریں؟

پیش کنندہ: سر، اچنتا شیولی کا تعلق مغربی بنگال سے ہے، وہ ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں۔

وزیر اعظم: اچنتا جی نمستے۔

اچنتا شیولی: نمستے سر، سر میں مغربی بنگال سے ہوں۔ میں ابھی 12ویں کر رہا ہوں سر۔

وزیر اعظم: مجھے اپنے بارے میں تھوڑا بتائیے۔

اچنتا شیولی: میں 73 کٹیگری میں کھیلتا ہوں سر۔

وزیر اعظم: اچھا اچنتا، لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت پرسکون مزاج کے ہیں۔ ایک دم سے کول جس کو کہتے ہیں۔ اور یہ آپ کا کھیل ہے جس میں طاقت کا استعمال ہوتا ہے، یہ طاقت کا کھیل ہے۔ تو آپ نے اس طاقت اور امن میں کیسے میل قائم کیا؟

اچنتا شیولی: سر، ہم کچھ کچھ یوگا کرتے ہیں، اس سے دماغ پرسکون ہوجاتا ہے اور ٹریننگ کے وقت اسے باہر نکال دیتے ہے۔ جوش کے ساتھ سر ایک دم۔

وزیر اعظم: اچھا اچنتا کیا آپ باقاعدگی سے یوگا کرتے ہیں؟

اچنتا شیولی: جی جناب کبھی کبھی مِس ہوتا ہے، لیکن کرتا ہوں سر۔

وزیر اعظم- اچھا، اچھا، آپ کے خاندان میں کون کون ہیں؟

اچنتا شیولی: ممی ہیں اور میرے بڑے بھائی ہیں سر۔

وزیر اعظم: اور کیا خاندان سے بھی مدد ملتی ہے؟

اچنتا شیولی: جی جناب، مجھے اپنے خاندان کی طرف سے مکمل تعاون حاصل ہے۔ کہ کرو اچھے سے کرو۔ روزانہ بات ہوتی ہے، ہمیشہ سپورٹ رہا ہے سر۔

وزیر اعظم:  دیکھئے، ماں کو اس بات کی فکر رہتی ہوگی کہ کوئی تکلیف نہ پہنچے، کیونکہ وزن اٹھانے میں ہمیشہ زخمی ہونے کی بڑی تشویش رہتی ہے۔ تو

اچنتا شیولی: سر، جب میں ماں سے بات کرتا ہوں تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اچھے سے کھیلو۔

وزیر اعظم: دیکھئے، میں چاہتا ہوں کہ آپ بہت ترقی کریں، آپ کو بہت سے فوائد حاصل ہوں ۔ اچھا آپ نے خود کو چوٹ سے کیسے بچایا؟ کیا آپ نے اس کے لیے کوئی خاص تیاری کی ہے؟

اچنتا شیولی: نہیں جناب، چوٹ تو لگتی رہتی ہے، لیکن اس پر ہم تھوڑی توجہ دیتے ہیں، کہ میں نے کیا غلطی کی کہ چوٹ لگی۔ اس کے بعد  میں نے پھر اسے ٹھیک کیا۔ پھر اس کے بعد چوٹ نہیں لگی جناب۔

وزیر اعظم: اچھا اچنتا، مجھے بتایا گیا کہ آپ کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق ہے، اگر آپ فلمیں دیکھتے ہیں تو ٹریننگ کی وجہ سے آپ کو وقت نہیں ملتا ہوگا۔

اچنتا شیولی: جی جناب۔ مجھے وقت نہیں ملتا لیکن کبھی کبھی جب میں فارغ ہوتا ہوں تو تھوڑا دیکھ لیتا ہوں سر۔

وزیر اعظم: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں سے تمغہ لے کر آئیں گے، اس کے بعد یہی کام رہے گا فلم دیکھنے کا؟

اچنتا شیولی: نہیں - نہیں سر۔

وزیر اعظم: میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور میں آپ کے خاندان کو بھی داد دینا چاہوں گا۔ میں خاص طور پر آپ کی والدہ اور آپ کے بھائی کو سلام کرتا ہوں کہ جنھوں نے آپ کی تیاری میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ مجھے یقین ہے کہ جب کوئی کھلاڑی بنتا ہے تو کھلاڑی کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کو تپسیا کرنا پڑتی ہے۔ آپ دولت مشترکہ کھیلوں میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیجئے۔ آپ کی والدہ کے ساتھ ساتھ ملک کے لوگوں کا آشیرواد بھی آپ کے ساتھ ہے۔ ۔ اچنتا آپ کے لیے بہت بہت نیک خواہشات۔

اچنتا شیولی: شکریہ جناب، شکریہ جناب۔

پیش کنندہ: سر اب ٹریسا جولی کیرالہ سے ہیں، بیڈمنٹن کھیلتی ہیں۔

ٹریسا جولی: گڈ مارننگ سر، میں ٹریسا جولی ہوں۔ سر، میں 2020 کامن ویلتھ گیمز، بیڈمنٹن کے لیے کھیل رہی ہوں، سر۔

وزیر اعظم: اچھا ٹریسا، آپ کنور ضلع سے ہیں۔ وہاں زراعت اور فٹ بال دونوں بہت مشہور ہیں۔ کس چیز نے آپ کو بیڈمنٹن میں آنے کی ترغیب دی؟

ٹریسا جولی: سر، میرے والد نے مجھے اس کھیل کو کھیلنے کی ترغیب دی، کیونکہ میرے آبائی شہر میں والی بال اور فٹ بال سب سے زیادہ مقبول ہے۔ لیکن اس عمر میں بیڈمنٹن کھیلنا زیادہ آسان ہے۔ 5 سال کی عمر میں۔

وزیر اعظم: ٹھیک ہے ٹریسا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اور گایتری گوپی چند دونوں اچھے دوست اور ڈبلز پارٹنر ہیں۔ اپنی دوستی اور فیلڈ پارٹنر کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ٹریسا جولی: سر، گایتری کے ساتھ اچھا رشتہ ہے، جیسے کہ جب ہم کھیل رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک اچھا امتزاج بناتا ہے جب ہم کورٹ پر کھیل رہے ہوتے ہیں اور یہ بہت اہم ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شراکت داروں کے ساتھ اچھا رشتہ رکھنا بہت ضروری ہے۔

وزیر اعظم: ٹھیک ہے ٹریسا، آپ نے اور گایتری نے لوٹنے کے بعد جشن منانے کا کیاس منصوبہ بنایا ہے؟

ٹریسا جولی: سر، ادھر جاکے میڈل آئے تو ہم جشن منائیں گے۔ سر پتا نہیں، ابھی کیسے ہم جشن منائیں؟

وزیر اعظم: پی وی سندھو نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ آکر آئس کریم کھائیں گی۔ خیر آپ نے شاندار آغاز کیا ہے، ابھی پورا کیرئیر آپ کے سامنے ہے، ابھی تو آپ کی جیت کا آغاز ہے اور آپ ہر میچ میں اپنا 100 فیصد دیجئے۔ ہر میچ کو پوری سنجیدگی سے لیجئے۔ میچ کے بعد نتیجہ جو بھی ہو۔ دیکھئے آپ کا لگنا یعنی بالکل آپ کو محسوس ہونا چاہیے کہ میں نے اپنی بہترین کارکردگی پیش کی ہے۔ چلئے آپ سب کو نیک خواہشات۔ آپ کی سبھی ٹولی کے لیے میری نیک خواہشات۔

ٹریسا جولی: شکریہ سر۔

پیش کنندہ: سر، اب مس سلیمہ ٹیٹے جھارکھنڈ کی ہاکی کھلاڑی ہیں۔

وزیر اعظم: سلیمہ جی نمستے۔

سلیمہ ٹیٹے: گڈ مارننگ سر،

وزیر اعظم: ہاں، سلیمہ جی، آپ کیسی ہیں؟

سلیمہ ٹیٹے: ٹھیک ہے جناب، کیسے ہیں آپ لوگ؟

وزیر اعظم: تو آپ اس وقت کہاں ہیں، کوچنگ کے لیے کہیں اور ہیں؟ باہر ہیں آپ؟

سلیمہ ٹیٹے: جی جناب، ہم اس وقت انگلینڈ میں ہیں، ہماری پوری ٹیم۔

وزیر اعظم: اچھا سلیمہ، میں کہیں آپ کے بارے میں پڑھ رہا تھا کہ آپ اور آپ کے والد نے ہاکی کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک کے سفر کے بارے میں کچھ بتائیں تو ملک کے کھلاڑیوں کو بھی ضروری ترغیب ملے گی۔

سلیمہ ٹیٹے: جی جناب، جیسے میں گاؤں سے ہوں، تو جیسے میرے والد بھی کھیلتے تھے پہلے۔ ابھی تو بہت عرصہ ہوا، پاپا نے چھوڑ دیا۔ تو میں ان کے ساتھ کہیں بھی پاپا جاتے تھے کھیلنے کے لئے تو میں ان کے ساتھ سائیکل پر جاتی تھی، کھیلنے ان کے ساتھ۔ میں بیٹھ کر دیکھتی تھی کہ کیسے گیم ہوتا ہے۔ میں اپنے والد سیکھانا چاہتی تھی کہ میں کیسے سیکھوں کہ مجھے بھی ہاکی کھیلنا ہے۔ جیسے یشونت لکڑا جیسے جھارکھنڈ سے بھی تو ان کو میں دیکھتی تھی کہ پلیئر کیسے یہ ہیں۔ تو میں ویسے بننا ہے۔ تو میں اپنے والد کے ساتھ سائیکل پر جاتی تھی، پھر بیٹھ کر دیکھتی تھی کہ گیم کیسے ہوتا ہے۔ تو بعد میں آہستہ آہستہ مجھے یہ سمجھ آنے لگی کہ میں اپنی زندگی کو بہت کچھ دے سکتی ہوں۔ تو میں نے پاپا سے سیکھا کہ اسٹرگل کرنے سے ہمیں بہت کچھ ملتا ہے۔ تو مجھے اپنی فیملی سے ان سے بہت اچھا لگتا ہے مجھے کہ ان سے میں نے اتنا اچھا نالیج سیکھا ہے۔

وزیر اعظم: ٹھیک ہے سلیمہ، ٹوکیو اولمپکس میں آپ کے کھیل نے سب کو متاثر کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ٹوکیو والا اپنا تجربہ شیئر کرتی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ سب کو یہ پسند آئے گا۔

سلیمہ ٹیٹے: جی جناب بالکل، اسی طرح جیسے ہم نے ٹوکیو اولمپکس میں جانے سے پہلے آپ سے بات کی تھی۔ پھر دولت مشترکہ کے آنے سے پہلے ہی ہم وہاں موجود ہیں۔ لیکن سب سے پہلے آپ نے ہمیں بہت اچھی طرح سے حوصلہ دیا، جیسا کہ آپ نے ٹوکیو اولمپکس میں جانے سے پہلے ہم سے بات کی تھی، تو ہمیں یہ بہت پسند آیا، پھر ہمیں بہت حوصلہ ملا۔ تو بس اتنا ہے کہ ہم ٹوکیو اولمپکس میں یہ سوچ کر گئے تھے کہ ہمیں اس بار کچھ کرنا ہے، اس لیے ہم اس ٹورنامنٹ میں بھی اسی سوچ کے ساتھ آئے ہیں جو ہمیں کرنا ہے۔ جیسا کہ ہمارے پاس ٹوکیو اولمپکس میں کووڈ بھی تھا، تو ہمیں بہت مشکل پیش آئی تھی، جیسے ہمیں بہت زیادہ آرگنائز کیا ہوا تھا، جیسے کہ پہلے وہاں ہمارے لیے بہت اچھا آرگنائز کیا ہوا تھا کہ ہم ٹوکیو میں جاکر بہت کچھ سیکھ کر آئیں پھر اپنے دم پر بہت کچھ کرکے آئیں۔ بس آپ لوگ ہمیں ایسے ہی سپورٹ کیجئے تاکہ ہم اور آگے تک جائیں۔ جیسے ٹوکیو اولمپکس ہماری ایک بہت اچھی پہچان تھی، جیسے ہم نے اور ہماری ٹیم نے بہت اچھا کھیلا۔ تو ہمیں اس کو جاری رکھنا ہے سر۔

وزیراعظم: سلیمہ، آپ نے بہت چھوٹی عمر میں کئی بڑے انٹرنیشنل میچ کھیلے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ تجربہ مستقبل میں بھی آپ کی بہت مدد کرے گا۔ آپ بہت آگے جائیں گی۔ آپ کے توسط سے، مردوں اور خواتین دونوں ہی ہاکی ٹیم کو میں اپنی طرف سے اور ملک کی طرف سے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ سبھی بغیر کسی تناؤ کے مستی سے کھیلئے۔ جب ہر کوئی اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا، تو تمغہ ہر قیمت پر آنا ہی آنا ہے۔ آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔

سلیمہ ٹیٹے: شکریہ جناب۔

پیش کنندہ: سر، شرمیلا ہیں ہریانہ سے، یہ پیرا ایتھلیٹکس میں شاٹ پٹ کی کھلاڑی ہیں سر۔

شرمیلا: نمستے سر۔

وزیر اعظم: نمستے شرمیلا جی۔ شرمیلا جی، آپ ہریانہ سے ہیں، تو کھیل کھود میں تو ہریانہ ہوتا ہی ہوتا ہے۔ اچھا آپ نے 34 سال کی عمر میں کھیلوں میں کیریئر کا آغاز کیا۔ اور آپ نے دو سال میں ہی گولڈ میڈل جیت کر دکھایا۔ میں ضرور جاننا چاہوں گا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟ آپ کو تحریک کہاں سے ملی؟

شرمیلا: سر، میں ہریانہ کے ضلع مہندر گڑھ کے ریواڑی میں رہتی ہوں۔ اور سر، میری زندگی میں بڑے طوفان آئے ہیں۔ لیکن میرا بچپن سے کھیلنے کا شوق تھا لیکن مجھے موقع نہیں ملا۔ میرا خاندان غریب تھا، میرے والد، والدہ نابینا تھے، تین بہنیں، ایک بھائی ہے ہمارا، ہم بہت غریب ہیں سر۔ پھر میری چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی، لیکن شوہر کچھ اچھے نہیں ملے، بہت ظلم کیا۔ میری دو بیٹیاں ہیں سر،وہ بھی کھیلوں میں ہیں۔ لیکن ہم تینوں ماں بیٹیوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے، پھر میرے والدین مجھے اپنے میکے لے آئے۔ میں چھ سال سے میکے میں ہوں جناب۔ لیکن مجھے بچپن سے ہی کچھ کرنا تھا۔ لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں ملا جناب۔ تو دوسری شادی کے بعد مجھے کھیلوں میں کچھ امید دکھائی دی، ہمارے رشتہ دار ٹیک چند بھائی جو ہیں، پرچم بردار رہے ہیں، انھوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا اور انھوں نے مجھ سے صبح و شام آٹھ گھنٹے سخت محنت کرائی اور ان کی وجہ سے آج میں ایک سال دو سال میں نیشنل میں گولڈ میڈل جیت چکی جناب۔

وزیر اعظم: شرمیلا جی، آپ کی زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جسے سن کر کوئی بھی یہ سوچے گا کہ وہ آگے جینا ہی چھوڑ دے دنیا میں، لیکن آپ نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ شرمیلا جی، آپ واقعی ہر اہل وطن کے لیے ایک رول ماڈل ہیں اور آپ کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ جیسا کہ آپ نے کہا، اب انہیں بھی کھیلوں کی تھوڑی بہت سمجھ ہے۔ دیویکا کو بھی دلچسپی ہوگی اور وہ بھی آپ سے گیم کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتی رہتی ہوگی۔ ان بچوں کی دلچسپی کیا ہے؟

شرمیلا: سر بڑی بیٹی اب جیولن میں ہے انڈر 14 میں اب کھیلے گی۔ لیکن وہ کھلاڑی بہت اچھی بنے گی۔ اب بھی شاید یوٹوپیا ہریانہ میں جب گیمز ہوں گے اس دن پتہ چلے گا۔ سر چھوٹی بیٹی ٹیبل ٹینس میں ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی بیٹیوں کو بھی کھیلوں میں لاکر ان کی زندگی بھی اچھی بناؤں، کیونکہ جو کچھ پہلے برداشت کر چکی ہوں وہ بچوں پر نہ آئے۔

وزیر اعظم: اچھا شرمیلا جی، آپ کے جو کوچ ہیں، ٹیک چند جی، وہ بھی پیرالمپئن رہ چکے ہیں۔ ان سے بھی آپ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہوگا؟

شرمیلا: جی جناب! انھوں نے ہی مجھے تحریک دیا اور مجھے چار چار گھنٹے تک پریکٹکس کروائی۔ جب میں اسٹیڈیم نہیں جاتی تو وہ مجھے پکڑ کر گھر لے جاتے تھے۔ میں تھک جاتی تھی، پھر انھوں نے میرا حوصلہ بڑھایا کہ ہار نہیں ماننا، جتنی بھی محنت کروگی، اتنا پھل تمہارے سامنے آئے گا، محنت پر توجہ دو۔

وزیر اعظم: شرمیلا جی، آپ نے جس عمر میں کھیلنے کے بارے میں سوچا، اس میں بہت سے لوگوں کے لیے کھیل شروع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ نے ثابت کردیا کہ اگر جیتنے کا جذبہ ہو تو کوئی بھی ہدف ناممکن نہیں ہے۔ ہر چیلنج آپ کی ہمت اور حوصلے سے بالاتر ہے۔ آپ کی لگن پوری قوم کو متاثر کرتی ہے۔ میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات۔ اور آپ کی بیٹیوں کو لے جانے کا آپ کا جو خواب ہے، وہ ضرور پورا ہو گا، جس جذبے کے ساتھ آپ کام کررہی ہیں، آپ کی بیٹیوں کی زندگی بھی اتنی ہی روشن ہو گی۔ میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات اور بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور دعائیں!

پیش کنندہ: ہیولوک سے جناب ڈیوڈ بیکھم، یہ انڈمان و نیکوبار سے ہیں۔ سائیکلنگ کرتے ہیں۔

ڈیوڈ: نمستے سر!

وزیر اعظم: نمستے ڈیوڈ! آپ کیسے ہو؟

ڈیوڈ: ٹھیک ہوں سر!

وزیر اعظم: ڈیوڈ آپ کا نام تو ایک بہت بڑے فٹ بال کھلاڑی کے نام پر ہے۔ لیکن آپ سائیکلنگ کرتے رہے ہیں۔ کیا لوگ آپ کو فٹ بال کھیلنے کی بھی رائے دیتے ہیں؟ کبھی سوچا کہ آپ کو فٹ بال پیشہ ورانہ طور پر کھیلنا چاہیے یا پھر سائیکلنگ ہی آپ کی پہلی پسند رہی ہے؟

ڈیوڈ: مجھے فٹ بال میں پیشہ ورانہ طور پر کھیلنے کا شوق تھا، لیکن ہمارے پاس انڈمان اور نکوبار میں فٹ بال کی اتنی گنجائش نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں فٹ بال ترقی نہیں کر سکا۔

وزیر اعظم: ٹھیک ہے ڈیوڈ جی، مجھے بتایا گیا کہ آپ کا ایک اور ساتھی ہے جس کا نام ایک مشہور فٹ بال کھلاڑی کے نام پر ہی ہے۔ کیا آپ دونوں فارغ وقت میں فٹ بال کھیلتے ہیں؟

ڈیوڈ: ہم فٹ بال نہیں کھیلتے، کیونکہ ہم لوگ ٹریننگ پر ہی فوکس کرتے ہیں، ٹریک سائیکل میں۔ بس اسی ٹریننگ میں ہمارا پورا وقت چلا جاتا ہے۔

وزیر اعظم: اچھا ڈیوڈ جی، آپ نے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن سائیکل سے ہاتھ کبھی نہیں چھوٹا اور اس کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ یہ حوصلہ افزائی اور اپنے آپ کو متحرک رکھنا اپنے آپ میں حیرت کی بات ہے، آپ اسے کیسے کرتے ہیں؟

ڈیوڈ: میرے خاندان کے لوگ مجھے بہت حوصلہ دیتے ہیں کہ آپ کو آگے بڑھنا ہے اور تمغہ جیت کر آنا ہے یہاں پر، اور یہ بڑی بات ہوگی کہ میں باہر جا کر اپنا تمغہ لاسکوں۔

وزیر اعظم: اچھا ڈیوڈ جی، آپ نے کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں بھی گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کھیلو انڈیا گیمز نے آپ کی مدد کیسے کی؟ اس نے آپ کے جیتنے کے عزم کو کتنا مضبوط کیا ہے؟

ڈیوڈ: سر، وہ میرا پہلا سفر تھا کہ میں نے اپنا نیشنل ریکارڈ توڑا تھا دو بار اور بہت خوشی کی بات ہے کہ من کی بات میں آپ نے میرے بارے میں بہت بولا تھا اور میں اس وقت بہت خوش تھا کہ آپ نے من کی بات میں میراموٹیویٹ کیا۔ میں انڈمان اور نکوبار کا ایک کھلاڑی ہوں کہ وہاں سے نکل کر یہاں نیشنل ٹیم میں پہنچا ہوں۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ میری انڈمان ٹیم بھی بہت فخر محسوس کرتی ہے کہ میں اپنے انڈین ٹیم میں یہاں انٹرنیشنل ٹیم میں یہاں تک آیا۔

وزیر اعظم: دیکھئے ڈیوڈ، آپ نے انڈمان و نیکوبار کو یاد کیا اور میں ضرور کہوں گا کہ آپ ملک کے سب سے خوبصورت علاقے سے آتے ہیں۔ آپ ایک ڈیڑھ سال کے رہے ہوں گے جب نیکوبار میں آئی سونامی نے آپ کے والد کو آپ سے چھین لیا تھا۔ ایک دہائی بعد، آپ نے اپنی ماں کو بھی کھودیا۔ مجھے یاد ہے جب میں 2018 میں کار نیکوبار گیا تھا، مجھے سونامی میموریل کا دورہ کرنے اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا موقع ملا تھا جنھیں ہم نے کھودیا تھا۔ انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔میں آپ کے خاندان کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اتنی مشکلات میں بھی آپ کی حوصلہ افزائی کی۔ ہر اہل وطن کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات!

ڈیوڈ: شکریہ سر!

 

ساتھیو،

اچھا ہوتا جیسا میں نے پہلے کہا کہ میں آپ سب سے روبرو مل کر، سب سے بات کرپاتا۔ لیکن جیسا میں نے کہا کہ آپ میں سے بہت سے لوگ دنیا کے مختلف ممالک میں ٹریننگ لے رہے ہیں اور میں بھی پارلیمنٹ کے جاری اجلاس کی وجہ سے بہت مصروف ہوں جس کی وجہ سے اس بار یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ لیکن، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب آپ واپس آئیں گے، ہم آپ کی جیت کا جشن ضرور منائیں گے۔ نیرج چوپڑا پر تو ملک کی خاص نظر رہنے والی ہے۔

ساتھیو،

آج کا وقت ایک طرح سے بھارتی کھیلوں کی تاریخ کا سب سے اہم دور ہے۔ آج آپ جیسے کھلاڑیوں کا جذبہ بھی بلند ہے، ٹریننگ بھی بہتر ہو رہی ہے اور ملک میں کھیلوں کے تعلق سے ماحول بھی زبردست ہے۔ آپ تمام نئی چوٹیوں کو سر کررہے ہیں، نئی چوٹیاں بنا رہے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے ساتھی بین الاقوامی ٹورنامنٹوں میں مسلسل قابل ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پورا ملک آج آپ سب کے اندر اس بے مثال اعتماد کو محسوس کر رہا ہے۔ اور دوستو، اس بار ہماری کامن ویلتھ ٹیم کئی لحاظ سے بہت خاص ہے۔ ہمارے پاس تجربے کے ساتھ ساتھ نئی توانائی دونوں کا شاندار امتزاج ہے۔ اس ٹیم میں 14 سال کی انہت ہیں، 16 سال کی سنجنا سشیل جوشی ہیں، شیفالی اور بے بی سہانا، یہ 17-18 سال کے بچے، یہ ہمارے ملک کا نام روشن کرنے کے لئے جا رہے ہیں۔ آپ نہ صرف کھیلوں میں بلکہ عالمی سطح پر نئے بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ آپ جیسے نوجوان کھلاڑی ثابت کر رہے ہیں کہ بھارت کا کونا کونا اسپورٹس ٹیلنٹ سے بھرا ہوا ہے۔

ساتھیو،

آپ کو حوصلہ افزائی کے لیے باہر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب آپ اپنی ٹیم کے اندر ہی من پریت جیسے اپنے ساتھیوں کو دیکھیں گے تو جذبہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ پیروں میں فریکچر کے سبب ان کو رنر کے بجائے شاٹ پٹ میں اپنے نئے رول کو اپنانا پڑا، اور اس نے اسی کھیل میں قومی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ کسی چیلنج کے سامنے شکست نہ کھانا، مسلسل متحرک رہنا، اپنے ہدف کے تئیں وقف رہنے کا نام ہی کھلاڑی ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ پہلی بار بڑے بین الاقوامی میدان میں اتر رہے ہیں، میں کہوں گا کہ زمین بدل گئی، ماحول بھی بدل گیا، لیکن آپ کا مزاج نہیں بدلا، آپ کی ضد نہیں بدلی۔ مقصد ترنگا لہراتا دیکھنا، قومی ترانہ بجتے سننا ہے۔ اس لیے دباؤ نہیں لینا ہے، آپ کو اچھے اور مضبوط کھیل سے اثر چھوڑکر آنا ہے۔ آپ کامن ویلتھ گیمز میں ایسے وقت جا رہے ہیں جب ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے۔ اس موقع پر ملک کو بہترین کارکردگی کا تحفہ دیں گے، اس ہدف کے ساتھ جب میدان میں اتریں گے تو سامنے کون ہے، اس بات سے فرق نہیں پڑے گا ۔

ساتھیو،

آپ سب نے اچھی ٹریننگ لی ہے، دنیا کی بہترین سہولیات کے ساتھ تربیت یافتہ ہے۔ یہ وقت اس ٹریننگ کو اور اپنی قوت ارادی کو ضم کرنے کا ہے۔ آپ نے ابھی تک کیا حاصل کیا وہ یقیناً متاثر کن ہے۔ لیکن اب آپ کو نئے ریکارڈز کی طرف نئے سرے سے دیکھنا ہوگا۔ آپ اپنی پوری کوشش کریں، اہل وطن آپ سے یہی توقع رکھتے ہیں، آپ کو اہل وطن کی طرف سے نیک تمنائیں بھی ہیں، آپ کو اہل وطن کی طرف سے آشیرواد بھی ہے۔ اور میری طرف سے آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشا! بہت بہت شکریہ۔ اور جب آپ فتح یاب ہوکر آئیں گے، تو میرے یہاں آنے کی دعوت ابھی سے دیتا ہوں آپ کو، نیک خواہشات! شکریہ!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।