’’ بنیادی ڈھانچہ کی ترقی ملکی معیشت کا محرک ہے‘‘
’’یہ ہر شراکت دار کے لیے نئی ذمہ داریوں، نئے امکانات اور جرات مندانہ فیصلوں کا وقت ہے‘‘
’’ہندوستان میں شاہراہوں کی اہمیت کو صدیوں سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے‘‘
’’ہم غربت کو قسمت سمجھنے‘‘ کی ذہنیت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں
’’اب ہمیں اپنی رفتار کو بہتر کرنا ہے اور ٹاپ گیئر میں جانا ہے‘‘
’’پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان، ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے اور اس کے ملٹی موڈل لاجسٹکس کا چہرہ بدلنے والا ہے‘‘
’’پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان ایک اہم ذریعہ ہے جو اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی کو ترقی کے ساتھ مربوط کرتا ہے‘‘
’’معیار اور ملٹی موڈل بنیادی ڈھانچہ کے ساتھ، ہماری لاجسٹک لاگت آنے والے دنوں میں مزید کم ہونے والی ہے‘‘
’’فزیکل بنیادی ڈھانچہ کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ملک کے سماجی بنیادی ڈھانچہ کا مضبوط ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے‘‘
’’آپ نہ صرف ملک کی ترقی میں اپنی حصہ رسدی کررہے ہیں بلکہ ہندوستان کی ترقی کے انجن کو بھی رفتار فراہم کر رہے ہیں‘‘

نمسکار جی۔‏

‏مجھے خوشی ہے کہ ‏‏سیکڑوں اسٹیک ہولڈروں نے آج انفراسٹرکچر پر اس ویبینار میں شرکت کی ہے اور 700 سے زیادہ ایم ڈیز ‏‏اور سی ای اوز نے اس اہم اقدام کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے وقت نکالا اور ویلیو ایڈیشن کے طور پر کام کیا ہے۔ میں سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے شعبے کے ماہرین اور مختلف اسٹیک ہولڈر بھی بڑی تعداد میں شامل ہوں گے اور اس ویبینار کو بہت قیمتی اور نتیجہ خیز بنائیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور آپ کا گرم جوشی سے خیر مقدم کرتا ہوں۔ اس سال کا بجٹ انفراسٹرکچر کے شعبے کی ترقی کو نئی توانائی دینے جا رہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ماہرین اور کئی معروف میڈیا ہاؤسز نے بھارت کے بجٹ اور اس کے اسٹریٹجک فیصلوں کی ستائش کی ہے۔ اب سال 2013-14 کے مقابلے میں، یعنی میرے آنے سے پہلے جو صورتحال تھی اس کے مقابلے میں، ہمارے کیپیکس میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے ۔ ‏‏نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن کے تحت حکومت آنے والے وقت میں 110 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسے میں یہ ہر اسٹیک ہولڈر کے لیے نئی ذمہ داری، نئے امکانات اور جرات مندانہ فیصلوں کا وقت ہے۔ ‏

‏ساتھیو،

‏کسی بھی ملک کی ترقی میں، پائیدار ترقی میں،  روشن مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنیادی ڈھانچہ ہمیشہ اہم رہا ہے۔ جو لوگ بنیادی ڈھانچے سے متعلق تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے چندر گپت موریہ نے اتر پتھ کی تعمیر کروائی تھی۔ اس روٹ نے وسطی ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارت اور کاروبار کو بڑھانے میں بہت مدد کی۔ بعد میں شہنشاہ اشوک نے بھی اس روٹ پر کئی ترقیاتی کام کروائے۔ سولہویں صدی عیسوی میں شیر شاہ سوری نے بھی اس روٹ کی اہمیت کو سمجھا اور اس میں نئے سرے سے ترقیاتی کام مکمل کیے۔ جب انگریز آئے تو انھوں نے اس روٹ کو مزید اپ گریڈ کیا اور پھر اسے جی ٹی روڈ کا نام دیا گیا۔ یعنی ملک کی ترقی کے لیے شاہراہوں کی ترقی کا تصور ہزاروں سال پرانا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل دریاؤں اور آبی گزرگاہوں کے بارے میں بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم بنارس کے گھاٹوں پر نظر ڈالیں تو وہ بھی ہزاروں سال پہلے تعمیر کیا گیا ایک ریور فرنٹ ہے۔ کولکاتا سے براہ راست پانی کے رابطے کی وجہ سے بنارس کئی صدیوں تک تجارت اور کاروبار کا مرکز بھی رہا۔‏

‏ایک اور دلچسپ مثال‏‏ ‏‏تمل ناڈو کے تھنجاور میں کلنائی باندھ کی ہے۔ یہ کلنائی ڈیم چولا سلطنت کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ڈیم تقریباً 2 ہزار سال پرانا ہے اور دنیا کے لوگ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ ڈیم آج بھی آپریشنل ہے۔ 2 ہزار سال قبل تعمیر ہونے والا یہ ڈیم آج بھی اس خطے میں خوشحالی لا رہا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ بھارت کی وراثت کیا رہی ہے، کیا مہارت‏‏ رہی ہے، کیا طاقت رہی ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد جدید انفراسٹرکچر پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ کئی دہائیوں سے، ہم یہ سوچ رہے تھے کہ غربت ایک احساس ہے - غربت ایک خوبی ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے ماضی کی حکومتوں کو ملک کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان کا ووٹ بینک ریاستی پالیسی کے لیے سازگار نہیں تھا۔ ہماری حکومت نے نہ صرف ملک کو اس سوچ سے باہر نکالا ہے بلکہ جدید انفراسٹرکچر پر ریکارڈ سرمایہ کاری بھی کر رہی ہے۔‏

‏ساتھیو،

‏اسی سوچ اور ان کوششوں کا نتیجہ‏‏ ‏‏آج ملک کو بھی نظر آ رہا ہے۔ آج، قومی شاہراہوں کی اوسط سالانہ تعمیر 2014 سے پہلے کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ اسی طرح‏‏، 2014 سے پہلے، ہر سال 600 روٹ کلومیٹر ریل لائنوں کو بجلی فراہم کی جاتی تھی۔ آج یہ تقریباً 4 ہزار روٹ کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے۔ ہوائی اڈوں  پر نظر ڈالیں تو 2014 کے مقابلے میں ہوائی اڈوں کی تعداد بھی 74 سے بڑھ کر تقریباً 150 ہو گئی ہے، یعنی یہ دگنی ہو گئی ہے، یعنی اتنے کم وقت میں ہوائی اڈے مکمل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جب آج گلوبلائزیشن کا دور ہے تو سمندری بندرگاہ بھی بہت اہم ہے۔ ہماری بندرگاہوں کی صلاحیت میں اضافہ بھی پہلے کے مقابلے میں آج تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔‏

‏ساتھیو،

‏ہم بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ملک کی معیشت کی محرک قوت سمجھتے ہیں۔ اسی راستے پر چلتے‏‏ ‏‏ہوئے بھارت 2047 تک ایک ترقی یافتہ بھارت کا ہدف حاصل کر لے گا۔ اب ہمیں اپنی رفتار کو مزید بڑھانا ہوگا۔ اب ہمیں ٹاپ گیئر میں چلنا ہے۔ اور اس میں پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کا بہت بڑا رول ہے۔ گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان بھارت کے بنیادی ڈھانچے، بھارت کے کثیر الجہتی لاجسٹکس کو تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ یہ اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی، ترقی کو ایک طرح سے ضم کرنے کے لیے ایک بہت بڑا آلہ ‏‏ہے. یاد رہے کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ بندرگاہیں ہوائی اڈے بن جاتی تھیں لیکن پہلے میل اور آخری میل کے رابطے پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، ترجیح نہیں دی جاتی تھی۔ ایس ای زیڈ اور صنعتی ٹاؤن شپ تعمیر کیے گئے، لیکن ان کے رابطے اور بنیادی ڈھانچے جیسے بجلی، پانی، گیس پائپ لائنوں میں بہت تاخیر ہوئی۔‏

‏اس کی وجہ سے‏‏ ‏‏لاجسٹکس کے اتنے مسائل تھے کہ ملک کی جی ڈی پی کا کتنا حصہ غیر ضروری طور پر خرچ کیا جا رہا تھا۔ اور ترقی کے ہر کام کو ایک طرح سے روک دیا گیا۔ اب ان تمام نوڈز کو ایک مقررہ وقت کی حد کی بنیاد پر ایک ساتھ تیار کیا جا رہا ہے، ایک طرح سے سب کو ساتھ لے کر۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ‏‏پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے نتائج بھی آج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہم نے اس خلا کی نشاندہی کی ہے جو ہماری لاجسٹک کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے اس سال کے بجٹ میں 100 اہم پروجیکٹوں کو ترجیح دی گئی ہے اور اس کے لیے 75,000 کروڑ روپئے کا التزام کیا گیا ہے۔ معیار اور ملٹی ماڈل انفراسٹرکچر کے ساتھ، آنے والے دنوں میں ہماری لاجسٹک لاگت مزید کم ہونے جا رہی ہے۔  اس کا بھارت میں بننے والی اشیا پر، ہماری مصنوعات کی قابلیت پر بہت مثبت اثر پڑنا چاہیے۔ لاجسٹک سیکٹر کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے میں آسانی اور کاروبار میں آسانی سے بہت بہتری آئے گی۔ ایسے میں نجی شعبے کی شرکت کے امکانات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ میں نجی شعبے کو ان منصوبوں میں حصہ لینے کی دعوت دیتا ہوں۔ ‏

‏ساتھیو،

‏یقینا اس میں ہماری ریاستوں کا بھی بڑا رول ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ریاستی حکومتوں کے پاس اس کے لیے فنڈز کی کمی نہ ہو‏‏،‏‏ 50 سال تک کے بلا سود قرض کو ایک سال کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ اس میں بھی گذشتہ سال کے بجٹ اخراجات کے مقابلے میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ریاستوں کو معیاری بنیادی ڈھانچے کو بھی فروغ دینا چاہیے۔‏

‏ساتھیو،

‏اس ویبینار میں میں ‏‏آپ سب سے گزارش کروں ‏‏گا کہ اگر آپ کسی اور موضوع پر سوچ سکتے ہیں تو ضرور سوچیں۔ ‏‏جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے مختلف قسم کے مواد کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ یعنی، یہ ہماری مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے بہت بڑے امکانات پیدا کرتا ہے۔  اگر یہ شعبہ اپنی ضروریات کا جائزہ لے اور پیش گوئی کرے، اگر کوئی میکانزم تیار کیا جا سکے تو تعمیراتی صنعت کے لیے مواد کو متحرک کرنا بھی اتنا ہی آسان ہو جائے گا۔ ہمیں ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے، ‏‏سرکلر اکانومی کا حصہ، ہمیں اسے اپنے مستقبل کے تعمیراتی کام سے بھی جوڑنا ہوگا۔ کچرے کے بہترین تصور کو بھی اس کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس میں وزیر اعظم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کا بھی بڑا رول ہے۔‏

‏ساتھیو،

‏جب کسی جگہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہوتی ہے‏‏ ‏‏تو یہ اس کے ساتھ ترقی بھی لاتا ہے۔ ایک طرح سے ترقی کا پورا ایکو سسٹم بیک وقت کھڑا ہونے لگتا ہے۔ اور جب مجھے اپنے پرانے دن یاد آتے ہیں، جب کَچھ میں زلزلہ آیا تھا، تو یہ فطری بات ہے کہ اگر حکومت کے سامنے اتنا بڑا حادثہ آتا ہے، تو پہلے سے کیا تصور تھا۔ میں نے کہا، ’’لو بھائی جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہاں اور وہاں کرکے کام کریں، معمول کی زندگی کی طرف بڑھیں۔ ‏‏میرے سامنے دو راستے تھے، یا تو راحت اور بچاؤ کے کام کے بعد، چھوٹی موٹی جو بھی ٹوت پھوت اس ٹھیک کرکے ان اضلاع کو ان کی قسمت پر چھوڑ دیا جائے یا اس آفت کو ایک موقع میں بدل دیا جائے، جو حادثہ ہوا  اسے کَچھ کو جدید بنانے کی سمت میں استعمال کیا جائے۔ جو نقصان ہوا سو ہوا، لیکن اب میں کچھ نیا کرتا ہوں، کچھ اچھا کرتا ہوں، کچھ بہت بڑا کرتا ہوں۔‏

‏اور ساتھیو، آپ خوش ہوں گے کہ میں نے سیاسی فائدے‏‏ ‏‏اور نفع نقصان کے بارے میں نہیں سوچا، فوری طور پر ہلکا پھلکا کام نہیں کیا اور تعریف حاصل کرنے کا کام نہیں کیا، میں نے ایک لمبی چھلانگ لگائی، ‏‏میں نے ایک اور راستہ چنا اور انفراسٹرکچر کو کچھ میں ترقی کے لیے اپنے کام کا بنیادی ذریعہ بنایا۔ پھر گجرات حکومت نے کچھ کے لیے ریاست کی بہترین سڑکیں بنائیں، بہت چوڑی سڑکیں بنائیں، پانی کے بڑے ٹینک بنائے، لمبے عرصے تک بجلی کا نظام بنایا۔ ‏‏اور پھر میں جانتا ہوں کہ بہت سے ‏‏لوگ مجھ سے کہا کرتے تھے‏‏،’’ارے، آپ اتنی بڑی سڑک بنا رہے ہیں، پانچ منٹ، دس منٹ میں بھی یہاں ایک بھی گاڑی نہیں آتی، آپ اسے بنا کر کیا کریں گے؟ آپ بہت زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔‘‘لوگ مجھ سے ایسی باتیں کہا کرتے تھے۔  کچھ میں ایک طرح کی منفی ترقی ہوئی تھی، لوگ وہاں سے جا رہے تھے اور پچھلے 50 برسوں سے کَچھ کو چھوڑ رہے تھے۔ ‏

‏لیکن ‏‏دوستو‏‏، ‏‏ہم نے اس وقت انفراسٹرکچر پر جو سرمایہ کاری کی تھی، ہم نے مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام منصوبے بنائے، اس وقت کی ضروریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔ آج ضلع کچھ کو اس سے حیرت انگیز فوائد مل رہے ہیں۔ آج کچھ گجرات کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ضلع بن گیا ہے۔ جو لوگ ایک طرح سے سرحد پر افسران تعینات کرتے تھے، پھر پوسٹنگ سزا سمجھی جاتی تھی، کالاپانی کی سزا کہا جاتا تھا۔ یہ آج سب سے زیادہ ترقی یافتہ ضلع بنتا جا رہا ہے۔ اتنا بڑا علاقہ جو کبھی ویران تھا اب متحرک ہے اور آج پورے ملک میں اس کا چرچا ہے۔ ایک ہی ضلع میں پانچ ہوائی اڈے ہیں۔ اور اگر سارا کریڈٹ کسی کو جاتا ہے، تو کچھ میں جو جدید انفراسٹرکچر بنایا گیا، اس نے مصیبت کو ایک موقع میں بدل دیا، اور فوری ضروریات سے بڑھ کر سوچا، آج اس کے نتائج مل رہے ہیں۔ ‏

‏ساتھیو،

‏فزیکل انفراسٹرکچر کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ملک کے سماجی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارا سماجی انفراسٹرکچر جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی باصلاحیت نوجوان، ہنر مند نوجوان کام کرنے کے لیے آگے آسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہنر مندی کی ‏‏ترقی، پروجیکٹ مینجمنٹ، فنانس اسکلز، انٹرپرینیور اسکلز جیسے بہت سے موضوعات کو ترجیح اور زور دینا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ مختلف شعبوں، چھوٹی اور بڑی صنعتوں میں، ہمیں مہارت کی پیش گوئی کے بارے میں ایک میکانزم بھی تیار کرنا ہوگا۔ اس سے ملک کے ہیومن ریسورس پول کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ میں حکومت کی مختلف وزارتوں سے بھی کہوں گا کہ وہ اس سمت میں تیزی سے کام کریں۔‏

‏ساتھیو،

‏آپ نہ ‏‏صرف بنیادی ڈھانچے کی تعمیر‏‏ ‏‏کر رہے ہیں بلکہ بھارت کی ترقی کے دور کو بھی رفتار دے رہے ہیں۔ لہٰذا اس ویبینار میں شامل ہر اسٹیک ہولڈر کا کردار اور ان کی تجاویز بہت اہم ہیں۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ جب انفراسٹرکچر کی بات آتی ہے، تو کبھی کبھی ریل، سڑک، ہوائی اڈے، اس کے آس پاس کی بندرگاہ۔ اب اس بجٹ پر نظر ڈالیں، کسانوں کی پیداوار کو ذخیرہ کرنے کے لیے گاؤوں میں اسٹوریج کا ایک بہت بڑا پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ کتنا بڑا انفراسٹرکچر تعمیر کرنا ہے۔ ہم ابھی سے سوچ سکتے ہیں۔

‏ ‏‏ملک میں ویلنیس سینٹرز بنائے جا رہے ہیں۔ لاکھوں گاؤوں میں صحت کی خدمات کے لیے بہترین ویلنیس سینٹر بنائے جا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہم نئے ریلوے اسٹیشن بنا رہے ہیں، یہ بھی بنیادی ڈھانچے کا کام ہے۔ ہم ہر کنبوں کو پکا گھر فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، یہ بھی بنیادی ڈھانچے کا کام ہے۔ ان کاموں میں، ہمیں ان تمام موضوعات پر ایک بڑی چھلانگ لگانے کی ضرورت ہے جیسے نئی ٹکنالوجی، مواد میں جدت طرازی، تعمیراتی وقت میں بھی مقررہ وقت میں کیسے کام کرنا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ ویبینار بہت اہم ہے۔ ‏

‏آپ ‏‏سب کے لیے میری نیک خواہشات! آپ کی سوچ‏‏، آپ کے خیالات، آپ کے تجربے سے اس بجٹ پر بہترین عمل درآمد ہوگا، فوری عمل درآمد ہوگا اور بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔ اس بات کا مجھے پورا یقین ہے۔ آپ کے لیے میری نیک خواہشات۔ ‏

‏شکریہ!‏

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।