نمسکار!
تعلیم ،ہنر مندی ،تحقیق ایسے بہت سے اہم شعبوں سے جڑے ہوئے آپ سبھی شخصیات کا بہت بہت خیر مقدم ہے۔
آج کا یہ تبادلہ خیال ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک اپنے پرسنل ،انٹلیکچئول ،انڈسٹریل ،ٹیمپرامینٹ اور ٹیلنٹ کو سمت دینے والےپورے ماحول کو یکسر تبدیل کرنے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اسے اور رفتار دینے کیلئے آپ سبھی سے بجٹ سے پہلے بھی مشورہ کیا گیا تھا ،نئی قومی تعلیمی پالیسی سے متعلق بھی ملک کے لاکھوں لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا تھا اور اب اس کے نفاذ کیلئے ہم سبھی کو ایک ساتھ مل کر چلنا ہے۔
ساتھیو!
آتم نربھر بھارت کی تعمیر کیلئے ملک کے نوجوانوں میں خود اعتمادی اتنی ہی ضروری ہے۔خود اعتمادی جب ہی آتی ہے جب نوجوانوں کو اپنی تعلیم ،اپنے علم ،اپنے ہنر پر پورا بھروسہ ہوا ،یقین ہو۔خود اعتمادی تب ہی آتی ہے جب اس کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی پڑھائی اسے اپنا کام کرنے کا موقع دے رہی ہے اور ضروری ہنر بھی دے رہی ہے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی اسی نظریہ کے ساتھ بنائی گئی ہے ۔پری نرسری سی پی ایچ ڈی تک قومی تعلیمی پالیسی کے ہر ضابطے کو جلد سے جلد زمین پر اتارنے کیلئے اب ہمیں تیزی سے کام کرنا ہے۔کورونا کی وجہ سے اگر رفتار میں کچھ کمی بھی آئی ہے تو اب اس کے اثر سے نکل کر ہمیں ذرا رفتار بڑھانی بھی ضروری ہےاور آگے بڑھنا بھی ضروری ہے۔
اس سال کا بجٹ بھی اسی سمت میں بہت مدد گار ثابت ہوگا ۔ اس سال کے بجٹ میں صحت کے بعد جو دوسرا سب سے بڑا فوکس ہے وہ تعلیم ،ہنر مندی ،تحقیق اور جدت طرازی پر ہی ہے۔ملک کے یونیورسٹی ، کالج اور آر اینڈ ڈی اداروں میں بہتر تال میل ہو آج ہمارے ملک کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے گلیو گرانٹ کا التزام رکھا گیا ہے جس کے تحت ابھی 9شہروں میں اس کیلئے ضروری نظام تیار کیا جاسکے۔
ساتھیو!
اپرینٹس شپ پر ،اسکیل ڈیولپمینٹ اور اپ گریڈیشن پر اس بجٹ میں جو زور دیا گیا ہے وہ بھی پہلے کبھی نہیں دیا گیا ۔اس بجٹ میں ان کو لیکر جتنے بھی التزامات کئے گئے ہیں،اعلیٰ تعلیم کو لیکر ملک کے طریقہ کار میں ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔گزشتہ سالوں میں تعلیم کو روزگار کی صلاحیت اور صنعت کاری کی صلاحیت سے جوڑنے کی جو کوشش کی گئی ہے یہ بجٹ ان کو اور توسیع دیتا ہے۔
انہی تجربات کا نتیجہ ہے کہ آج سائنسی اشاعتوں کے معاملے میں ہندوستان ٹاپ -3 ملکوں میں آچکا ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد اور اسٹارٹ اپ ماحول کے معاملے میں بھی ہم دنیا میں ٹاپ-3 میں پہنچ چکے ہیں۔
عالمی انوویشن انڈیکس میں ہندوستان دنیا کی ٹاپ 50 جدت طراز ملکوں میں شامل ہوچکا ہے اور اس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔اعلیٰ تعلیم ، تحقیق اور جدت طرازی کی مسلسل ہمت افزائی سے ہمارے طلبا اور نوجوان سائنسدانوں کیلئے نئے مواقع بہت بڑھ رہے ہیں اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ آر اینڈ ڈی میں بیٹیوں کی ساجھیداری میں ایک اچھا اطمینان بخش اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ساتھیو!
پہلی مرتبہ ملک کے اسکولوں میں اٹل ٹنکرینگ لیبس سے لیکر اعلیٰ اداروں میں اٹل انکیوبیٹر سینٹرس تک پر توجہ کی جارہی ہے۔ملک میں اسٹارٹ اپ کیلئے ہیکا تھون کی نئی روایت ملک میں قائم ہوچکی ہےجو ملک کے نوجوانوں اور انڈسٹری ،دونوں کیلئے بہت بڑی طاقت بن گئی ہے۔جدت طرازی کے فروغ اور پرورش کیلئے قو می پہل (این آئی ڈی اینڈ ایچ آئی) کے ذریعہ سے ہی ساڑھے تین ہزار سے زیادہ اسٹارٹ اپ کی پرورش کی جاچکی ہے۔
اسی طرح نیشنل سپر کمپیوٹنگ مشن کے تحت ’’پرم شوائے ،پرم شکتی پرم برہما‘‘ نام سے تین سپر کمپیوٹر آئی آئی ٹی بی ایچ یو ، آئی آئی ٹی کھڑک پور اور آئی آئی ایس ای آر ۔پونے میں قائم کئے جاچکے ہیں۔ اس سال ملک کے ایک درجن سے زیادہ اداروں میں ایسے سپر کمپوٹر نصب کرنے کی اسکیم ہے۔آئی آئی ٹی کھڑکپور ،آئی آئی ٹی دہلی اور بی ایچ یو میں تین سافسٹی کیٹیڈ اینالائیٹیکل اور ٹیکنکل ہیلپ انسٹی ٹیوٹ (ساتھی) بھی خدمات فراہم کررہے ہیں ۔
ان تمام کاموں کے بارے میں بات کرنا آج اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ حکومت کے ویژن ،حکومت کی اپروچ کی عکاسی کرتا ہے ۔21ویں صدی کے بھارت میں 19ویں صدی کی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر ہی ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔
ساتھیو!
ہمارے یہاں کہا گیا ہے
‘‘ویئے کرتے وردھتے ایوم نتیم ودیادھنم سنوردھن پردھانم’’
یعنی تعلیم ایسی دولت ہے، جو اپنے پاس تک محدود رکھنے سے نہیں، بلکہ بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ اسی لیے دیادھن، ودیادان سب سے اعلی ہے۔ علم کو، تحقیق کو محدود رکھنا ملک کی اہلیت کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ اسپیس ہو، ایٹمی توانائی ہو، ڈی آر ڈی او ہو، زراعت ہو، ایسے بہت سے سیکٹر کے دروازے اپنے باصلاحیت نوجوانوں کے لیے کھولے جارہے ہیں۔ حال ہی میں دو اور بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں، جس سے جدت طرازی، تحقیق اور ترقی کے پورے ماحول کو بہت فائدہ ہوگا۔ ملک کو پہلی مرتبہ میٹرولوجی سے جڑے بین الاقوامی پیمانے پر کھرا اترنے والے ہندوستانی سولوشنس مل چکے ہیں اور یہ سسٹم لگاتار مضبوط کیا جارہا ہے۔ اس سے آر اینڈ ڈی اور ہماری مصنوعات کی عالمی مسابقت میں بہت سدھار آئے گا۔
اس کے علاوہ حال ہی میں جیو اسپیشیل ڈاٹا کو لے کر بھی بہت بڑا ریفارم کیا گیا ہے۔ اب اسپیس ڈاٹا اور اس پر منحصر اسپیس ٹیکنالوجی کو ملک کے نوجوانوں کے لیے، ملک کے نوجوان صنعت کاروں کے لیے، اسٹارٹ اپس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ میری آپ سبھی ساتھیوں سے اپیل ہے کہ ان اصلاحات کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
ساتھیو!
اس سال کے بجٹ میں ادارے بنانے اور رسائی پر اور زور دیا گیا ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کی تعمیر کی جاری ہے۔ اس کے لیے 50 ہزار کروڑ روپے مختص کیے گیے ہیں۔ اس سے ریسرچ سے جڑے اداروں کی حکمرانی کے ڈھانچے سے لے کر آر اینڈڈی، اکیڈمیاں اور انڈسٹری کے تعلق کو تقویت ملے گی۔ بائیوٹیکنالوجی سے جڑی ریسرچ کے لیے بجٹ میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ حکومت کی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے۔
ساتھیو!
بھارت کے فارما اور ویکسین سے جڑے تحقیق کاروں نے، بھارت کوحفاظت اور اعزاز دونوں فراہم کیے ہیں۔ اپنے اس اہلیت کو اور مضبوط بنانے کے لیے حکومت پہلے ہی 7 نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فارما سیوٹیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، کو قومی اہمیت کے ادارے قرار دے چکی ہے۔ اس سیکٹر میں آراینڈ ڈی کو لے کر پرائیویٹ سیکٹر کی، ہماری انڈسٹری کا رول بہت قابل ستائش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس رول کو آنے والے وقت میں زیادہ سے زیادہ وسعت ملےگی۔
ساتھیو!
اب بائیوٹیکنالوجی کی صلاحیت کا دائرہ ملک کی خوراک کی سیکورٹی، ملک کے تغزیے، ملک کی زراعت کے حق میں کیسے بہتر ہو، اس کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کےلیے، ان کی زندگی بہتر بنانے کےلیے بائیوٹیکنالوجی سے متعلق تحقیق میں جو ساتھی مصروف ہیں، ملک کو ان سے بہت امید ہے۔ میری انڈسٹری کے تمام ساتھیوں سے اپیل ہے کہ اس میں اپنی ساجھے داری بڑھائیں۔ ملک میں 10 بائیوٹیک یونیورسٹی ریسرچ جوائنٹ انڈسٹری ٹرانسلیشنل کلسٹر(ارجت) بھی بنائے جارہے ہیں، تاکہ اس میں ہونے والی جدت طرازی کا انڈسٹری تیزی سے استعمال کرسکے۔ اسی طرح ملک کے 100 سے زیادہ امنگوں والے اضلاع میں بائیوٹیک –کسان پروگرام ہو، ہمالیائی بائیو ری سورس مشن پروگرام ہو یا پھر میرین بائیوٹیکنالوجی نیٹ ورک پر کنسورشیم پروگرام ہو، اس میں ریسرچ اور صنعت کی ساجھے داری کیسے بہتر ہوسکتی ہے، اس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔
ساتھیو!
فیوچر فیول، گرین انرجی ہماری توانائی میں خوداعتمادی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے بجٹ میں اعلان کردہ ہائیڈروجن مشن ایک بہت بڑا عہد ہے۔ بھارت میں ہائیڈروجن وہیکل کا ٹسٹ کرلیا ہے، اب ہائیڈروجن کو ٹرانسپورٹ کے ایندھن کی شکل میں افادیت اور اس کے لیے خود کو انڈسٹری ریڈی بنانے کے لیے اب ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ سمندری وسائل سے جڑی ریسرچ میں بھی اپنی اہلیت کو ہمیں بڑھانا ہے۔ حکومت گہرے سمندر کے مشن بھی لانچ کرنے والی ہے۔ یہ مشن مقررہ ہدف کے لیے ہوگا اور کثیر شعبہ جاتی اپروچ پر منحصر ہوگا، تاکہ سمندری معیشت کی صلاحیت کو ہم پوری طرح سے ان لاک کرسکیں۔
ساتھیو!
تعلیمی اداروں، ریسرچ سے جڑے اداروں اور صنعت کے اشتراک کو ہمیں مزید مضبوط کرنا ہے۔ ہمیں نئے ریسرچ پیپر پبلش کرنے پر تو فوکس کرنا ہی ہے، دنیا بھر میں جو ریسرچ پیپر پبلش ہوتے ہیں، ان تک بھارت کے تحقیق کاروں کی، بھارت کے طلبا کی رسائی کیسے آسان ہو، یہ یقینی بنانا بھی آج وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت اپنی سطح پر اس کے لیے کام کررہی ہے، لیکن صنعت کو بھی اس میں اپنی طرف سے تعاون کرنا ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا ہے، رسائی اور شمولیت یہ دونوں ناگزیر ہوگئے ہیں اور ایفورڈ ڈیبلٹی، رسائی کی ایک بہت بڑی پیشگی شرط ہوتی ہے۔ ایک اور بات جس پر ہمیں توجہ دینی ہے، وہ ہے گلوبل کو لوکل کے ساتھ مربوط کیسے کریں۔ آج بھارت کے ٹیلنٹ کی پوری دنیا میں بہت مانگ ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی مانگ کو دیکھتے ہوئے اسکل سیٹس کی میپنگ ہو اور اس کی بنیاد پر ملک میں نوجوانوں کو تیار کیا جائے۔
بین الاقوامی کیمپسوں کو بھارت میں لانے کی بات ہو،یا پھر دوسرے ملکوں کی بہترین پریکٹس کو اشتراک کے ساتھ اپنانے کی بات ہو، اس کے لیے ہمیں کندھے سے کندھا ملاکر چلنا ہوگا۔ ملک کے نوجوانوں کو صنعت کے لیے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ نئے چیلنجوں، بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہنرمندی کے فروغ کے موثر نظام کے بارے میں بھی ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ اس بجٹ میں ایز آف ڈوئنگ اپرینٹس شپ پروگرام سے بھی صنعت اور ملک کے نوجوانوں کو بہت فائدہ ہونے والا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس میں بھی صنعت کی ساجھے داری میں اضافہ ہوگا۔
ساتھیو!
ہنرمندی کا فروغ ہو یا پھر تحقیق یا جدت طرازی، وہ کومپری ہنشن یعنی سمجھ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ملک کے تعلیمی نظام میں یہ سب سے بڑا سدھار لایا جارہا ہے۔اس ویبینار میں بیٹھے تمام ماہرین، تمام تعلیمی ماہرین سے بہتر یہ کون جان سکتاہے کہ مضمون کی سمجھ میں زبان کا ایک بہت بڑا تعاون ہوتا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں قومی زبان کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔
اب یہ سبھی ماہرین تعلیم کا، ہر زبان کے ماہرین کا فرض ہے کہ ملک اور دنیا کا بہترین مواد ہندوستانی زبانوں میں کیسے تیار ہو۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ پوری طرح سے ممکن ہے۔ پرائمری سے لے کر اعلی تعلیم تک ہندوستانی زبانوں میں ایک بہترین مواد (کنٹینٹ) ملک کے نوجوانوں کو ملے، اسے ہمیں یقینی بنانا ہے۔ میڈیکل ہو، انجینئرنگ ہو، ٹیکنالوجی ہو، مینجمنٹ ہو، ایسی ہر مہارت کے لیے ہندوستانی زبانوں میں مواد کی تشکیل کرنا ضروری ہے۔
میں آپ سے ضرور اس بات پر زور دوں گا کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ گاؤں ہو، غریب ہو، جسے اپنی زبان کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا ہے، اس کے ٹیلنٹ میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ زبان کی وجہ سے ہمارے گاؤں کی، ہمارے غریب کے ٹیلنٹ کو، ہمیں ختم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ملک میں ملک کی ترقی کے سفر سے اس کو محروم نہیں رکھنا چاہیے۔ بھارت کا ٹیلنٹ گاؤں میں ہے، بھارت کا ٹیلنٹ غریب کے گھر میں بھی ہے، بھارت کا ٹیلنٹ کسی ایک یا کوئی بڑی زبان سے محروم رہ گئے ہمارے ملک کے بچوں میں بھی ہے اور اس لیے اس ٹیلنٹ کا استعمال اتنے بڑے ملک کے لیے جوڑنا بہت ضروری ہے۔اس لیے زبان کی رکاوٹ سے باہر نکل کر ہمیں اس کی زبان میں،اس کے ٹیلنٹ کو پھلنے پھولنے کےلیے موقع دینا ہے، یہ مشن موڈ میں کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ میں اعلان کردہ نیشنل لینگویج ٹرانسلیشن مشن سے اس کے لیے بہت ہمت افزائی ہوگی۔
ساتھیو!
یہ جتنے بھی التزامات ہیں، یہ جتنے بھی ری فارمس ہیں، یہ سبھی ساجھے داری سے ہی پورے ہوں گے۔ حکومت ہو، ماہرین تعلیم ہوں، ماہرین ہوں، انڈسٹری ہو، مشترکہ اپروچ سے اعلی تعلیم کے سیکٹر کو آگے کیسے بڑھائیں، اس پر آج کے تبادلے خیال میں آپ کے مشورے بہت بیش قیمت ہوں گے۔ بہت کام آئیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں اس سے جڑے 6 موضوعات پر یہاں تفصیل سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہاں سے نکلنے والے مشوروں اور حل سے ملک کو بہت امیدیں ہیں اور میں آپ سے یہ اپیل کروں گا کہ اب اسکیم میں یہ تبدیلی ہونی چاہیے یا بجٹ میں تبدیلی ہونی چاہیے، وہ وقت پر ہوچکا ہے۔ اب تو اگلے 365 دنوں، ایک تاریخ سے ہی نیا بجٹ ، نئی اسکیم تیز رفتاری سے کیسے نافذ ہو، زیادہ سے زیادہ ہندوستان کی سرزمین پر وہ کیسے پہنچے، آخری شخص تک، جہاں پہنچانا ہے، وہاں کیسے پہنچے، روڈمیپ کیسا ہو، ڈسیزن میکنگ کیساہو، جو چھوٹی موٹی رکاوٹیں ہوتی ہیں، نافذ کرنے میں اس سے نجات کیسے ملے، ان تمام باتوں پر جتنا زیادہ فوکس ہوگا، اتنا زیادہ فائدہ ایک اپریل سے ہی بجٹ نافذ کرنے میں ہوگا۔ ہمارے پاس جتنا وقت ہے، زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا ارادہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس تجربہ ہے، الگ الگ شعبوں کا تجربہ ہے، آپ کے خیالات، آپ کے تجربات اور کچھ نہ کچھ ذمہ داری لینے کی تیاری، ہمیں مقررہ نتائج ضرور دیں گے۔ میں آپ سب کو اس ویبینار کے لیے، بہترین خیالات کے لیے، بہت ہی پرفیکٹ روڈ میپ کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ