واہے گورو داکھالسا، واہے گورو دی فتح!
مرکزی کابینہ میں میرے معاونین ، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ، مختلف باوقار اداروں کے سربراہ اور صدر، صفراء، ملک بھر سے جڑے خاص طور سے اس پروگرا م کے ساتھ آئے ہوئے بچوں-بچیوں، دیگر تمام صاحبان، خواتین و حضرات۔
آج ملک پہلا’ویر بال دِوس‘منا رہا ہے۔ جس دن کو، جس قربانی کو ہم نسلوں سے یاد کرتے آئے ہیں، آج ایک قوم کی شکل میں اسے متحدہ طورپر خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔شہیدی ہفتہ اور یہ ویر بال دِوس ہم سکھ روایت کے لئے جذبوں سے بھرا ضرور ہے، لیکن اس سے آسمان جیسی بے پناہ تحریکیں بھی جڑی ہیں۔ ویر بال دِوس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بہادری کا مظاہرہ کرتے وقت کم عمر معنی نہیں رکھتی۔ ’ویر بال دِوس‘ہمیں یاد دلائے گا کہ دس گروؤں کا تعاون کیا ہے۔ملک کے وقار کے لئے سکھ روایت کی قربانی کیا ہے۔ ’ویر بال دِوس‘ ہمیں بتائے گا کہ ہندوستان کیا ہے، ہندوستان کی پہچان کیا ہے۔ ہر سال ویر بال دِوس کا یہ مقدس موقع ہمیں اپنے ماضی کو پہچاننے اور آنے والے مستقبل کی تعمیر کرنے کی تحریک دے گا۔ہندوستان کی نوجوان نسل کی صلاحیت کیا ہے، ہندوستان کی نوجوان نسل نے کس طرح ماضی میں ملک کی حفاظت کی ہے، انسانیت کے کتنے گہرے اندھیروں سے ہماری نوجوان نسل نے ہندوستان کو باہر نکالا ہے۔ ویر بال دِوس آنے والی دہائیوں اور صدیوں کے لئے یہ اعلان کرے گا۔
میں آج اس موقع پر بہادر صاحبزادوں کے قدموں میں جھکتے ہوئے انہیں ممنونیت سے بھری خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ اسے میں اپنی سرکار کی خوش نصیبی تصور کرتا ہوں کہ اسے آج 26دسمبر کے دن کو ویر بال دِوس کے طورپر اعلان کرنے کا موقع ملا۔ میں باپ دشمیش گورو گووند سنگھ جی، اور تمام گوروؤں کے قدموں میں بھی عقیدت سے سلام پیش کرتا ہوں۔ میں ماتر شکتی کی علامت ماتا گجری کے قدموں میں بھی اپنا سر جھکاتاہوں۔
ساتھیوں!
دنیا کی ہزاروں سال کی تاریخ بربریت کے ایک سے ایک خوفناک باب سے بھری ہے۔ تاریخ سے لے کر قصے کہانیوں تک، ہر بے رحم چہرے کے سامنے مہانایکوں اور مہانایکاؤں کے بھی ایک سے ایک عظیم کردار رہے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چمکور اور سرہند کی جنگ جو کچھ ہوا وہ ’بھوتو نہ بھویشیت‘تھا۔ یہ ماضی ہزاروں سال پرانا نہیں ہے کہ وقت کی گردش نے اس کے نشانات کو دھندلا کردیا ہو۔ یہ سب کچھ اسی ملک کی مٹی پر صرف تین صدی پہلے ہوا۔ ایک طرف مذہبی شدت پسندی اور اس شدت پسندی میں اندھی اتنی بڑی مغل سلطنت، دوسری طرف، علم اور تپسیا میں تپے ہوئے ہمارے گورو، ہندوستان کی قدیم انسانی قدروں کو جینے والی روایت! ایک طرف دہشت کا سلسلہ ، تو دوسری طرف روحانیت کی انتہا، ایک طرف مذہبی جنون تو دوسری طرف سب میں ایشور دیکھنے والی رواداری اور ان سب کے درمیان ایک طرف لاکھوں کی فوج اور دوسری طرف تنہا ہوکر بھی نڈر کھڑے گورو کے ویر صاحبزادے!یہ ویر صاحبزادے کسی دھمکی سے ڈرے نہیں، کسی کے سامنے جھکے نہیں۔ زوراور سنگھ صاحب اور فتح سنگھ صاحب دونوں کو دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا۔ ایک طرف بربربیت نے اپنی تمام حدیں توڑ دیں، تو دوسری طرف صبر، بہادری، حوصلے کے بھی سبھی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ صاحبزادہ اجیت سنگھ اور صاحبزادہ ججھار سنگھ نے بھی بہادری کی وہ مثال قائم کی جو صدیوں کو تحریک دے رہی ہے۔
بھائیوں اور بہوں !
جس ملک کی وراثت ایسی ہو، جس کی تاریخ ایسی ہو، اس میں فطری طور سے خودداری اور خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہونی چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں تاریخ کے نام پر وہ گڑھے ہوئے نیریٹیو بتائے اور پڑھائے جاتے رہے، جس سے ہمارے اندر احساس کمتری پیدا ہو! اس کے باوجود ہمارے سماج نے، ہماری روایتوں نے ان بہادری کی داستانوں کو زندہ رکھا۔
ساتھیوں!
اگر ہمیں ہندوستان کو مستقبل میں کامیابی کی چوٹیوں تک لے کر جانا ہے، تو ہمیں ماضی کے محدود نظریوں سے بھی آزاد ہونا پڑے گا۔ اسی لیے، آزادی کے امرت کال میں ملک نے ’غلامی کی ذہنیت سے آزادی‘کی روح پھونکی ہے۔ ’ویر بال دِوس‘ملک کے ان ’پنچ –پرانوں‘کے لئے زندگی کی ہوا کی طرح ہے۔
ساتھیوں!
اتنی کم عمر میں صاحبزادوں کی اس قربانی میں ہمارے لیے ایک اور بڑا پیغام چھپا ہوا ہے۔ آپ اس دور کا تصور کیجئے! اورنگ زیب کی دہشت کے خلاف، ہندوستان کو بدلنے کے اس منصوبوں کے خلاف،گورو گووند سنگھ جی، پہاڑ کی طرح کھڑے تھے، لیکن زوراور سنگھ صاحب اور فتح سنگھ صاحب جیسے کم عمر کے بچوں سے اورنگ زیب اور اس کی سلطنت کی کیا دشمنی ہوسکتی تھی؟ دو معصوم بچوں کو دیوار میں زندہ چنوانے جیسی درندگی کیوں کی گئی؟ وہ اس لئے، کیونکہ اورنگ زیب اور اس کے لوگ گورو گووند سنگھ کے بچوں کا مذہب تلوار کے زور سے بدلنا چاہتے تھے۔ جس سماج میں، جس ملک میں اس کی نئی نسل ظلم و جور کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے، اس کی خود اعتمادی اور مستقبل اپنے آپ مرجاتا ہے، لیکن ہندوستان کے وہ بیٹے، وہ بہادر بچے موت سے بھی نہیں گھبرائے۔ وہ دیوار میں زندہ چنوادیئے گئے، لیکن انہوں نے ان انتہا پسند منصوبوں کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ کسی بھی ملک کی طاقت نوجوان کی طاقت ہوتی ہے۔ نوجوان، اپنےحوصلے سے وقت کی رفتار کو ہمیشہ کے لئے موڑ دیتا ہے۔ اسی قوت ارادی کے ساتھ آج ہندوستان کی نوجوان نسل بھی ملک کی نئی بلندیوں پر لے جانے کے لئےنکل پڑی ہے اور اسی لئے اب 26دسمبر کو ویر بال دِوس کا کردار اور بھی اہم ہوگیا ہے۔
ساتھیوں!
سکھ گورو روایت صرف اعتقاد اور روحانیت کی روایت نہیں ہے۔ یہ ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘کے نظریے کا بھی محرک ہے۔ ہمارے مقدس گروگرنتھ صاحب سے بڑھ کر اس کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس میں سکھ گوروؤں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے الگ الگ کونے سے 15سنتوں اور 14 تخلیق کاروں کا کلام شامل ہے۔ اسی طرح آپ گورو گووند سنگھ کی زندگی کی سفر کو بھی دیکھئے۔ ان کی پیدائش مشرقی ہندوستان کے پٹنہ میں ہوئی۔ ان کا دائرہ کار شمال-مغربی ہندوستان کے پہاڑی علاقے رہے اور ان کی زندگی کا سفر مہاراشٹر میں پورا ہوا۔ گورو کے پنچ پیارے بھی ملک کے الگ الگ حصوں سے تھے اور مجھے تو فخر ہے کہ پہلے پنچ پیاروں نے ایک اس سرزمین سے بھی تھا ، دواریکا سے گجرات سے، جہاں مجھے پیدا ہونے کی سعادت ملی ہے۔ ’فرد سے بڑا خیال، خیال سے بڑا ملک‘، ’ملک پہلے‘ کا یہ منتر گورو گووند سنگھ جی کا اٹل عہد تھا۔ جب وہ بچے تھے تو یہ سوال آیا کہ راشٹر دھرم کی حفاظت کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ سے عظیم آج کون ہے؟ یہ قربانی آپ دیجئے، جب وہ باپ بنے تو اسی تیزی سے انہوں نے اپنے بیٹو ں کو بھی راشٹر دھرم کے لئے قربان کردینے میں تردد نہیں کیا۔ جب ا ن کے بیٹوں کی قربانی ہوئی تو انہوں نے اپنی سنگت کو دیکھ کر کہا’چار موئے تو کیا ہوا، جیوت کئی ہزار‘۔ یعنی میرے چار بیٹے مر گئے تو کیا ہوا؟ سنگت کے کئی ہزار ساتھی ، ہزاروں ملک کے شہری میرے بیٹے ہی ہیں۔ ملک پہلے ، نیشن فرسٹ کو سب سے اوپر رکھنے کی یہ روایت ہمارے لئے بہت بڑی تحریک ہے۔ اس روایت کو طاقتور بنانے کی ذمہ داری آج ہمارے کاندھوں پر ہے۔
ساتھیوں!
ہندوستان کی آنے والی نسل کیسی ہوگی، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس سے تحریک لے رہی ہے۔ ہندوستان کی آنے والی نسل کے لئے تحریک کا ہرذریعہ اسی سرزمین پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کا نام جس بچے بھارت کے نام پر پڑا، وہ شیروں اور شیطانوں تک کا قتل عام کرکے تھکتے نہیں تھے۔ ہم آج بھی دھرم اور بھکتی کی بات کرتے ہیں تو بھکت راج پرہلاد کو یاد کرتے ہیں۔ ہم صبر اور ذہانت کی بات کرتے ہیں تو بالک دھرو کی مثال دیتے ہیں۔ ہم موت کے دیوتا یمراج کو بھی اپنے تپ سے متاثر کرلینے والے نچیکیتا کو نمن کرتے ہیں۔ جس نچکیتا نے عہد طفلی میں یمراج سے پوچھا تھا موت کیا ہوتی ہے؟ ہم بال رام کے علم سے لے کر ان کی بہادری ترک، وششٹھ کے آشرم سے لے کر وشوامتر کے آشرم تک ، ان کی زندگی میں ہم قدم قدم پر آدرش دیکھتے ہیں۔ پربھو رام کے بیٹے لو-کُش کی کہانی بھی ہر ماں اپنے بچوں کو سناتی ہے۔ شری کرشن بھی جب ہمیں یاد آتے ہیں تو سب سے پہلے کانہا کی وہ تصویر یاد آتی ہے، جس کی بنسی میں محبت کی آواز بھی ہے اور وہ بڑے بڑے شیطانوں کا قتل عام بھی کرتے ہیں۔ اس قدیم عہد سے لے کر جدید عہد تک ویر بالک-بالکائیں، ہندوستان کی روایت کا عکس رہی ہیں۔
لیکن ساتھیوں!
آج ایک سچائی بھی میں ملک کے سامنے دوہرانا چاہتا ہوں۔ صاحبزادوں نے اتنی بڑی قربانی اور تیاگ کیا، اپنی زندگی نیوچھاور کردی، لیکن آج کی نسل کے بچوں سے پوچھیں گے تو ان میں سے زیادہ تر کو ان کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اتنی بڑی بہادری کی داستان کو اس طرح فراموش کردیا جائے۔ میں آج کے اس مقدس دن اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ پہلے ہمارے یہاں کیوں ویر بال دِوس کا خیال تک نہیں آیا۔لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اب نیا ہندوستان دہائیوں پہلے ہوئی ایک پرانی بھول کی اصلاح کررہا ہے۔
کسی بھی قوم کی پہچان اس کے اصولوں، قدر وں اور آدرشوں سے ہوتی ہے۔ ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے، جب کسی ملک کے اقدار بدل جاتے ہیں تو کچھ ہی وقت میں اس کا مستقبل بھی بدل جاتا ہے اور یہ اقدار محفوظ تب رہتی ہیں، جب موجودہ نسل کے سامنے اپنے ماضی کے آدرش واضح ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل کو آگے بڑھنے کے لئے ہمیشہ رول ماڈلز کی ضرورت ہوتی ہے۔نوجوان نسل کو سیکھنے اور تحریک لینے کے لئے عظیم شخصیات کے نایک-نایکاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اسی لیے ہم شری رام کے آدرشوں میں بھی اعتقاد رکھتے ہیں، ہم بھگوان گوتم بودھ اور بھگوان مہاویر سے تحریک حاصل کرتے ہیں۔ہم گورونانک دیو جی کی وانی کو جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم مہارانا پرتاپ اور چھتر پتی ویر شوا جی مہاراج جیسے بہادروں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اسی لیے ہم مختلف جینتیاں مناتے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں سال پرانے واقعات پر بھی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے سماج کی ضرورت کو سمجھا تھا، اور ہندوستان کو ایک ایسے ملک کے طورپر تراشا ، جس کی ثقافت، تقریبات اور اعتقادات سے جڑی ہے۔ آنے والی نسلوں کے لئے یہی ذمہ داری ہماری بھی ہے۔ ہمیں بھی اس فکر اور بیداری کو ہمیشگی عطا کرنا ہے۔ ہمیں اپنے فکری بہاؤ کو جاری رکھنا ہے۔
اسی لیے آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک جنگ آزادی کی تاریخ کو ازسر نو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمارے مجاہدین آزادی کے، بہادر خواتین کے ، قبائلی سماج کے تعاون کو عوام تک پہنچانے کے لئے ہم سب کام کررہے ہیں۔’ویر بال دِوس‘ جیسی مقدس تاریخ اس سمت میں مؤثر روشنی کے ستون کا رول ادا کرے گی۔
ساتھیوں!
مجھے خوشی ہے کہ ویر بال دِوس سے نئی نسل کو جوڑنے کے لئے جو کوئز کمپٹیشن ہوا، جو مضمون نگاری کا مقابلہ ہوا، اس میں ہزاروں نوجوانوں نے حصہ لیا ہے۔جموں وکشمیر ہو، جنوب میں پڈوچیری ہو، مشرق میں ناگالینڈ ہو، مغرب میں راجستھان ہو، ملک کا کوئی کونہ ایسا نہیں ہے، جہاں کے بچوں نے اس مقابلے میں حصہ لے کر صاحبزادوں کی زندگی کے بارے میں معلومات نہ حاصل کی ہو، مضمون نہ لکھا ہو۔ ملک کے مختلف اسکولوں میں بھی صاحبزادوں سے جڑے کئی مقابلے ہوئے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب کیرالہ کے بچوں کو ویر صاحبزادوں کے بارے میں معلوم ہوگا، شمال مشرق کے بچوں کو ویر صاحبزادوں کے بارے پتہ ہوگا۔
ساتھیوں!
ہمیں ساتھ مل کر ویر بال دِوس کے پیغام کو ملک کے کونے کونے تک لے کر جانا ہے۔ ہمارے صاحبزادوں کی زندگی، ان کی زندگی کا پیغام ملک کے ہر بچے تک پہنچے، وہ ان سے تحریک لے کر ملک کے لئے وقف شہری بنیں، ہمیں اس کے لئے بھی کوشش کرنی ہے۔ مجھے یقین ہے، ہماری یہ متحدہ کوشش اہل اور ترقی یافتہ ہندوستان کے ہمارے ہدف کو نئی توانائی دے گی۔ میں ایک باپھر ویر صاحبزادوں کے قدموں میں نمن کرتے ہوئے اسی عہد کے ساتھ ، آپ سب کا دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔