نمو راگھواے!
نمو راگھواے!
ہم سب کو آشیرواد دینے کے لئے موجود قابل احترام جگد گرو شری رام بھدراچاریہ جی ، یہاں تشریف لائے تمام تپسوی، سرکردہ سنیاسی، رشی حضرات، مدھیہ پردیش کے گورنرجناب منگو بھائی پٹیل، وزیراعلیٰ بھائی شیوراج سنگھ چوہان جی ، یہاں موجود دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات!
میں چترکوٹ کی مقدس سرزمین کو ایک بار پھر سلام کرتا ہوں، میری خوش قسمتی ہے کہ آج پورے دن میں مجھے الگ الگ مندروں میں پربھو شری رام کے درشن کا موقع ملا اور سنتوں کا آشیرواد بھی ملا ہے۔ خاص طور پر جگد گرو رام بھدراچاریہ جی سے جو محبت ملتی ہے، وہ مجھے شدت جذبات سے مغلوب کردیتی ہے۔ تمام قابل احترام سنتوں، مجھے خوشی ہے کہ آج اس مقدس مقام پر مجھے جگد گرو جی کی کتاب کے اجراء کا موقع ملا ہے۔ اشٹا دھیائی بھاشیہ ، رامانند چاریہ چریتم، اور بھگوان کرشن کی راشٹر لیلا، یہ سبھی گرنتھ بھارت کی عظیم علمی روایت کو مزید تقویت بخشیں گے۔ میں ان کتابوں کو جگد گرو جی کے آشیرواد کا ایک اور روپ مانتا ہوں۔ آپ سبھی کو میں ان کتابوں کے اجراء پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنوں،
اشٹادھیائی بھارت کی لسانیات، بھارت کی دانشوری اور ہماری تحقیقی ثقافت کا ہزاروں سال پرانا گرنتھ ہے۔ کس طرح وسیع علم قوائد کو ایک - ایک سوتر میں سمیٹا جاسکتا ہے ، کیسے زبان کو ’سنسکرت سائنس ‘ میں تبدیل کیاجاسکتا ہے، مہارشی پانینی کی یہ ہزاروں برس پرانی تخلیق اس بات کا ثبوت ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیامیں ان ہزاروں برسوں میں کتنی زبانیں تخلیق ہوئیں اور معدوم ہوگئیں نئی زبانوں نے پرانی زبانوں کی جگہ لے لی، لیکن ہماری سنسکرت آج بھی اتنی ہی بے نقص، اتنی ہی اٹل ہے۔ سنسکرت وقت کے ساتھ ساتھ بہتر تو ہوئی لیکن اس میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوا ۔ اس کی وجہ سنسکرت کی پختہ قوائد سائنس ہے۔ صرف 14 مہیشور سوتروں پر مبنی یہ زبان ہزاروں برسوں سےسشتر اور شاستر، دونوں ہی صنفوں کی ماں رہی ہے۔ سنسکرت زبان میں ہی رشیوں کے ذریعے وید کی مناجات نازل ہوئی ہیں۔ اسی زبان میں پتنجلی کے ذریعے یوگ سائنس ظاہر ہوا۔ اسی زبان میں دھونتری اور چرک جیسے بقراطوں نے آیوروید کا جوہر تحریر کیا۔ اسی زبان میں کرشی پراشر جیسے گرنتھوں نے زراعت کو محنت کے ساتھ ساتھ تحقیق سے جوڑنے کا کام کیا۔ اسی زبان میں ہمیں بھرت منی کے ذریعے ڈرامہ اور علم موسیقی کا تحفہ ملا ہے۔ اسی زبان میں کالیداس جیسے دانشور نے ادب کی طاقت سے دنیا کو حیران کیا ہے ۔ اور اسی زبان میں خلائی سائنس، تیر اندازی اور جنگی ہنر کے گرنتھ بھی تحریر کئے گئے ہیں۔ یہ تو میں نے کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ آپ ایک قوم کے طور پر بھارت کی ترقی کا جو بھی پہلو دیکھیں گے، اس میں آپ کو سنسکرت کے کردار کا حصہ نظر آئے گا۔ آج بھی دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں سنسکرت پر تحقیق ہوتی ہے۔ ابھی ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح بھارت کو جاننے کے لئے لتھوانیا کے سفیر نے سنسکرت زبان کو سیکھا ہے۔ یعنی سنسکرت کا پھیلاؤ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔
ساتھیوں،
غلامی کے ایک ہزار سال کے دور میں بھارت کو طرح طرح سے جڑوں سے اکھاڑنے کی کوششیں ہوئیں۔ انہی میں سے ایک تھی، سنسکرت زبان کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی۔ ہم آزاد ہوئے لیکن جن لوگوں میں غلامی کی ذہنیت برقرار رہی، وہ سنسکرت کے تئیں بغض و کینہ پرور تھے۔ جب کسی معدوم ہوئی زبان کا کہیں کوئی نوشتہ مل جائے تو ایسے لوگ اس کی توعزت و توقیر کرتے ہیں لیکن ایس لوگ ہزاروں برسوں سے موجود سنسکرت زبان کا احترام نہیں کرتے ۔ دوسرے ملکوں کے لوگ اگر اپنی مادری زبان جانیں تو یہ لوگ اس کی تعریف کریں گے لیکن سنسکرت زبان جاننے کو یہ پسماندگی کی علامت مانتے ہیں۔ اس ذہنیت کے حامل لوگ پچھلے ایک ہزار سال سے ہارتے آرہے ہیں اور آگے بھی یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ سنسکرت صرف روایات کی زبان نہیں ہے، یہ ہماری ترقی کی پہچان کی زبان ہے ۔ گزرے 9 برسوں میں ہم نے سنسکرت کے پھیلاؤ کے لئے وسیع کوششیں کی ہیں۔ جدید تناظر میں، اشٹادھیائے بھاشیہ جیسے گرنتھ ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں بڑا کردار ادا کریں گے۔
میرے عزیز و اقارب،
رام بھدر جی ہمارے ملک کے ایسے سنت ہیں، جن کے علم و دانشمندی پر دنیاکی کئی یونیورسٹیاں مطالعہ کرسکتی ہیں ۔ بچپن سے ہی قدرتی طور پر نابینا ہونے کے باوجود آپ کی عقلی بصیرت اتنی وسیع ہے کہ آپ کوپورے وید زبانی یاد ہیں۔ آپ سینکڑوں گرنتھوں کی تخلیق کرچکے ہیں۔ بھارتی گیان اور درشن میں ’پرستھانتریی‘ کو بڑے بڑے دانشوروں کے لئے بھی کٹھن مانا جاتا ہے ۔ جگد گرو جی ان کی بھی تفسیر جدید زبان میں تحریر کرچکے ہیں۔ اس سطح کا علم، ایسی ذہانت ذاتی نہیں ہوتی۔ یہ ذہانت پور ی قوم کی وراثت ہوتی ہے ۔ اور اس لئے ہماری سرکار نے 2015 میں سوامی جی کو پدم وبھوشن سے سرفراز کیا تھا۔
ساتھیوں،
سوامی جی جتنا دھرم اور روحانیت میں سرگرم عمل ہیں، اتنا ہی سماج اور قوم کے لئے بھی کوشاں ہیں ۔ میں نے جب سووچھ بھارت مہم کے نو رتنوں میں آپ کو نامزد کیا تھا، تو اس ذمہ داری کو بھی آپنے اتنی ہی لگن سے نبھایا تھا۔ مجھے خوشی ہے سوامی جی نے دیش کے وقار کے لئے جو عہد اٹھائے تھے، وہ اب پورے ہورہے ہیں۔ ہمارا بھارت اب سووچھ بھی بن رہا ہے اور سوستھ بھی بن رہا ہے۔ ماں گنگا کی دھارا بھی پاک و صاف ہوتی جارہی ہے۔ ملک کے ہر شخص کا ایک اور خواب پورا کرنے میں جگدگرو رام بھدر چاریہ جی کا بہت بڑا کردار رہا ہے ۔ عدالت سے لے کر عدالت کے باہر تک جس رام مندر کے لئے آپ نے اپنا تعاون دیا، وہ بھی بن کر تیار ہونے جارہا ہے۔ اور ابھی دو دن پہلے ہی مجھے ایودھیا میں شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کے ذریعے ، پران پرتشٹھا تقریب میں شامل ہونے کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ میں اسے بھی اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں ۔ سبھی سنت حضرات آزادی کے 75 برس سے آزادی کے 100 برس کے سب سے اہم دور کو یعنی 25 سال ، ملک جو اب سے امرت کال کی شکل میں دیکھ رہا ہے ۔ اس امرت کال میں ملک ، ترقی اور اپنی وراثت کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ ہم اپنے تیرتھ مقامات کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔۔ چترکوٹ تو وہ مقام ہے ، جہاں روحانیت کی چمک بھی ہے، اور قدرتی حسن بھی ہے۔ 45 ہزار کروڑ روپے کا کین بیتوا لنک منصوبہ ہو، بندیل کھنڈ ایکسپریس وے ہو، ڈیفنس کوریڈور ہو، ایسی تمام کوششیں اس علاقے میں نئے امکانات پیدا کریں گی۔ میری خواہش اور کوشش ہے کہ چترکوٹ ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچے۔ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ عظیم المرتبت جگدگرو شری رام بھدراچاریہ جی کو سلام کرتا ہوں۔ ان کے آشیرواد ہم سب کو حوصلہ دیں، ہمیں طاقت دیں اور ان کے علم کی جو برکتیں ہیں ، پرساد ہے وہ مسلسل ہماری رہنمائی کرتا رہے ۔ اپنے انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے میں تہہ دل سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔