کنکلیو میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن جی، انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک گروتھ کے صدر این کے سنگھ جی، ہندوستان اور بیرون ملک کے دیگر معززین، خواتین و حضرات!
یہ کوٹیلیہ کنکلیو کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ اور یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ مجھے آپ لوگوں سے ملنے کا موقع مل رہا ہے۔ یہاں تین دن تک کئی سیشن ہونے والے ہیں، معیشت سے متعلق مختلف مسائل پر بات چیت ہونے والی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ بات چیت ہندوستان کی ترقی کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
ساتھیوں،
اس بارکا یہ کنکلیوایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دنیا کے دو بڑے خطوں میں جنگ کی صورتحال ہے۔ یہ دونوں خطے عالمی معیشت کے لیے بالخصوص توانائی کے تحفظ کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ اتنی بڑی عالمی غیر یقینی صورتحال کے درمیان، ہم سب یہاں بات کر رہے ہیں - ہندوستانی دور۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آج ہندوستان پر اعتماد کچھ مختلف ہے... یہ ظاہر کرتا ہے کہ آج ہندوستان کا اعتماد کچھ خاص ہے۔
ساتھیوں،
آج ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے۔ آج ہندوستان جی ڈی پی کے لحاظ سے پانچویں بڑی معیشت ہے۔ ہم عالمی فنٹیک ایڈوپشن کی شرح کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں۔ آج، ہم اسمارٹ فون ڈیٹا کی کھپت کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے لحاظ سے ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ دنیا کے تقریباً نصف حقیقی وقت میں ڈیجیٹل لین دین آج ہندوستان میں ہو رہے ہیں۔ آج ہندوستان کے پاس دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام ہے۔ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کے لحاظ سے ہندوستان چوتھے نمبر پر ہے۔ اگر ہم مینوفیکچرنگ کی بات کریں تو ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا موبائل بنانے والا ملک ہے۔ ہندوستان دو پہیوں اور ٹریکٹروں کا سب سے بڑا کارخانہ دار ہے۔ اور اتنا ہی نہیں، ہندوستان دنیا کا سب سے جوان ملک ہے۔ ہندوستان کے پاس دنیا میں سائنس دانوں اور تکنیکی ماہرین کا تیسرا سب سے بڑا پُول ہے۔یعنی سائنس ہو، ٹیکنالوجی ہو، اختراع ہو، ہندوستان ایک پُرکشش مقام پر واضح طور پر موجود ہے۔
ساتھیوں،
ریفارم، پرفارم اور ٹرانسفارم کے منتر پر چلتے ہوئے، ہم ملک کو تیز رفتاری سے آگے لے کر، مسلسل فیصلے لے رہے ہیں۔ یہی وہ اثر ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کے عوام نے 60 سال کے بعد لگاتار تیسری بار کسی حکومت کو منتخب کیا ہے۔ جب لوگوں کی زندگیاں بدلتی ہیں، تب لوگوں کا اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ملک صحیح راستے پر گامزن ہے۔ یہی جذبہ ہندوستان کے عوام کے مینڈیٹ میں جھلکتا ہے۔ 140 کروڑ ہم وطنوں کا اعتماد اس حکومت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہندوستان کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے مسلسل ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرتے رہیں گے۔ہمارا یہ عزم آپ ہمارے تیسری مدت کے پہلے تین مہینوں کے کام میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جرأت مندانہ پالیسی تبدیلیاں... ملازمتوں اور مہارتوں کے لیے مضبوط عزم، پائیدار ترقی اور اختراع، جدید انفراسٹرکچر، معیار زندگی اور تیز رفتار ترقی کے تسلسل پر توجہ، یہ ہماری پہلے تین ماہ کی پالیسیوں کی عکاس ہیں۔ اس مدت کے دوران 15 ٹریلین روپے یعنی 15 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے فیصلے لیے گئے ہیں۔ ان تین مہینوں میں ہندوستان میں بہت سے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے پر کام شروع ہو گیا ہے۔ ہم نے ملک میں 12 صنعتی نوڈس بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے ملک میں 3 کروڑ نئے گھر بنانے کی بھی منظوری دی ہے۔
ساتھیوں،
ہندوستان کی ترقی کی کہانی کا ایک اور قابل ذکر عنصر ہے اور وہ ہےاس کی انکلیوسیو اسپریٹ ، پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب ترقی ہوتی ہے تو عدم مساوات بھی بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں ترقی کے ساتھ ساتھ شمولیت بھی ہو رہی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ پچھلے 10 برسوں میں 25 کروڑ یعنی 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ ہندوستان کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ، ہم اس بات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ عدم مساوات کم ہو اور ترقی کے ثمرات سبھی تک پہنچیں۔
ساتھیوں،
ہندوستان کی ترقی کے حوالے سے آج جو بھی پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں، ان کا اعتماد یہ بھی بتاتا ہے کہ ہندوستان کس سمت جا رہا ہے۔یہ آپ پچھلے چند ہفتوں اور مہینوں کے ڈیٹا میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلے سال ہماری معیشت نے ہر پیشین گوئی سے باہر کہیں بہتر کیا ہے ۔ ورلڈ بینک ہو، آئی ایم ایف ہو، موڈیز، سبھی نے ہندوستان سے متعلق پیشن گوئی کو اپ گریڈ کیا ہے۔ یہ تمام ادارے کہہ رہے ہیں کہ عالمی غیر یقینی صورتحال کے باوجود ہندوستان سات پلس کی شرح سے ترقی کرتا ہے۔تاہم ہم ہندوستانیوں کو پورا بھروسہ ہے کہ ہم اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
ساتھیوں،
ہندوستان کے اس اعتماد کے پیچھے کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ مینوفیکچرنگ ہو یا سروس سیکٹر،آج دنیا ہندوستان کو سرمایہ کاری کے لیے پسندیدہ جگہ سمجھ رہی ہے۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ پچھلے 10 برسوں میں ہونے والی بڑی اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ ان اصلاحات نے ہندوستان کے میکرو اکنامک بنیادی اصولوں کو تبدیل کر دیا ہے۔جیسے ایک مثال ہندوستان کی بینکاری اصلاحات ہے۔ ہماری بینکاری اصلاحات نے نہ صرف بینکوں کے مالی حالات کو مضبوط کیا ہے بلکہ ان کی قرض دینے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح جی ایس ٹی نے الگ الگ مرکزی اور ریاستی بالواسطہ ٹیکسوں کو مربوط کیا ہے۔ انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ یعنی آئی بی سی نے ذمہ داری، وصولی اور حل کا ایک نیا کریڈٹ کلچر تیار کیا ہے۔ ہندوستان نے کان کنی، دفاع، خلائی جیسے کئی شعبے نجی کھلاڑیوں اور ہمارے نوجوان کاروباریوں کے لیے کھولے ہیں۔ ہم نے ایف ڈی آئی پالیسی کو آزاد کیا، تاکہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے یہاں زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ہم اپنی لاجسٹک لاگت اور وقت کو کم کرنے کے لیے جدید انفراسٹرکچر پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ہم نے گزشتہ دہائی میں انفراسٹرکچر میں غیر معمولی پیمانے پر سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔
ساتھیوں،
ہندوستان نے پراسیس ریفارمز کو حکومت کی مسلسل سرگرمیوں کا حصہ بنایا ہے۔ ہم نے 40 ہزار سے زیادہ تعمیلات کو ختم کیا اور کمپنیز ایکٹ کو غیرمجرمانہ قرار دیا۔ایسی درجنوں دفعات تھیں جن کی وجہ سے پہلے کاروبار مشکل تھا،ہم نے ان میں تبدیلیاں کیں۔ نیشنل سنگل ونڈو سسٹم کمپنی شروع کرنے، بند کرنے اور کلیئرنس کو آسان بنانے کے لیے شروع کیا گیا۔ اب ہم ریاستی حکومتوں کو ریاستی سطح پر اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ساتھیوں،
ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کو تیز کرنے کے لیے، ہم پروڈکشن سے منسلک مراعات لائے ہیں۔ اس کا اثر آج کئی شعبوں میں نظر آرہا ہے۔ اگر میں صرف پچھلے 3 برسوں میں ہی پی ایل آئی کے اثرات کی بات کروں تو تقریباً 1.25 ٹریلین روپے یعنی 1.25 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری آئی ہے۔ اس سے تقریباً گیارہ ٹریلین یعنی 11 لاکھ کروڑ روپے کی پیداوار اور فروخت ہوئی ہے۔ آج خلائی اور دفاعی شعبے میں بھی ہندوستان کی ترقی شاندار ہے۔ ان دونوں شعبوں کواوپن کئے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے۔ خلائی شعبے میں 200 سے زیادہ اسٹارٹ اپس آچکے ہیں۔آج ہماری کل دفاعی تیاری کا 20 فیصد حصہ ہماری نجی دفاعی کمپنیوں کا ہے۔
ساتھیوں،
الیکٹرانکس کے شعبے کی ترقی کی کہانی اور بھی حیرت انگیز ہے۔ 10 سال پہلے تک، ہندوستان زیادہ تر موبائل فونز کا ایک بڑا درآمد کنندہ تھا۔ آج ہندوستان میں تین سو تیس ملین یعنی 33 کروڑ سے زیادہ موبائل فون تیار ہو رہے ہیں۔یعنی آپ کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں ، آج ہندوستان میں سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری اور سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کے بہترین مواقع موجود ہیں۔
ساتھیوں،
آج ہندوستان کی توجہ اے آئی اور سیمی کنڈکٹر جیسی اہم ٹیکنالوجیز پر بھی ہے۔ ہم ان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ہمارےاے آئی مشن سے اے آئی کے شعبہ میں تحقیق اور مہارت دونوں میں اضافہ ہوگا۔ انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن کی وجہ سے 1.5 ٹریلین روپے یعنی 1.5 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ بہت جلد، ہندوستان کے 5 سیمی کنڈکٹر پلانٹس دنیا کے کونے کونے میں میڈ ان انڈیا چپس پہنچانے لگے گیں۔
ساتھیوں،
آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان سستی دانشورانہ طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اس کی گواہی، دنیا بھر سے کمپنیوں کے 1700 سے زیادہ عالمی صلاحیت کے مراکز ہیں، جو آج ہندوستان میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں دو ملین یعنی 20 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی نوجوان دنیا کو انتہائی ہنر مند خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان اپنے اس ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ پر بے مثال توجہ دے رہا ہے اور اس کے لیے تعلیم، اختراع، ہنر اور تحقیق پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ہم نے نئی قومی تعلیمی پالیسی بنا کر اس شعبے میں بہت بڑی اصلاحات کی ہیں۔ پچھلے 10 برسوں میں ہر ہفتے ایک نئی یونیورسٹی اور ہر روز دو نئے کالج کھولے گئے ہیں۔ ان 10 برسوں میں ہمارے یہاں میڈیکل کالجوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔
اور ساتھیوں،
نہ صرف مقدار بلکہ ہم معیاری تعلیم پر بھی یکساں زور دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 10 برسوں میں کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگس میں ہندوستانی ادارے کی تعداد تین گنا سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اس سال کے بجٹ میں ہم نے کروڑوں نوجوانوں کی ہنر مندی اور انٹرن شپ کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ پی ایم انٹرن شپ اسکیم کے تحت پہلے ہی دن 111 کمپنیوں نے پورٹل پر رجسٹرکیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت ہم ایک کروڑ نوجوانوں کو بڑی کمپنیوں میں انٹرن شپ حاصل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
ساتھیوں،
پچھلے 10 برسوں میں ہندوستان کی تحقیقی پیداوار اور پیٹنٹ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 10 سال سے بھی کم عرصے میں، ہندوستان گلوبل انوویشن انڈیکس کی رینکنگ میں ایٹی فرسٹ (81) سے 39ویں نمبر پر آگیا ہے۔ یہاں سے ہمیں آگے جانا ہے۔ اپنے تحقیقی ماحولیاتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے، ہندوستان نے 1 ٹریلین روپے کا ریسرچ فنڈ بھی بنایا ہے۔
ساتھیوں،
آج گرین فیچور ،گرین جوبس کے معاملے میں بھی ہندوستان میں ہندوستان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں اور اس شعبے میں آپ کے لیے اتنے ہی مواقع ہیں۔آپ سب نے ہندوستان کی صدارت میں منعقدہ جی20 سربراہی اجلاس کی پیروی کی ہے۔ اس سربراہی اجلاس کی کامیابی کی بہت سی کہانیوں میں سے ایک گرین ٹرانزیشن کے بارے میں نیا جوش و جذبہ تھا۔ جی-20 سمٹ کے دوران ہی ہندوستان کی پہل پر گلوبل بائیو فیول الائنس کا آغاز کیا گیا تھا۔ جی-20 کے رکن ممالک نے ہندوستان کی گرین ہائیڈروجن توانائی کی ترقی کی بھرپور حمایت کی۔ ہندوستان میں، ہم نے اس دہائی کے آخر تک 5 ملین ٹن گرین ہائیڈروجن پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ہندوستان میں ہم شمسی توانائی کی پیداوار کو بھی مائیکرو لیول پر لے جا رہے ہیں۔
حکومت ہند نے پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی اسکیم شروع کی ہے۔ یہ ایک روف ٹاپ سولر اسکیم ہے، لیکن اس کا پیمانہ بہت بڑا ہے۔ ہم ہر خاندان کو چھت پر شمسی توانائی کے سیٹ اپ کے لیے فنڈز فراہم کر رہے ہیں اور سولر انفرا انسٹال کرنے میں بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ اب تک اس میں 13 ملین سے زیادہ یعنی 1 کروڑ 30 لاکھ خاندان رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت سارے لوگ شمسی توانائی کے پروڈیوسر بن گئے ہیں۔ اس سے ہر خاندان کو اوسطاً پچیس ہزار روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ ہر تین کلو واٹ شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی توانائی کے لیے 50-60 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے بچا جائے گا۔ اس اسکیم کے ذریعے تقریباً 17 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی، ہنر مند نوجوانوں کی ایک بڑی فوج بھی تیار کی جائے گی۔ یعنی آپ کے لیے اس شعبے میں بھی سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ساتھیوں،
آج ہندوستانی معیشت ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ ہندوستانی معیشت مضبوط اقتصادی بنیادوں کی بنیاد پر مسلسل بلند ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آج ہندوستان نہ صرف چوٹی تک پہنچنے کی تیاری کر رہا ہے بلکہ ٹاپ پر رہنے کے لیے سخت محنت بھی کر رہا ہے۔ آج دنیا میں ہر شعبے میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں آپ کی گفتگو سے بہت سے قیمتی ان پٹ سامنے آئیں گے۔ میں اس کاوش کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے ڈیبیٹنگ کلب نہیں ہے۔ یہاں جو بحثیں ہوتی ہیں، جو چیزیں سامنے آتی ہیں، کیا کرنا اور نہ کرنا ہمارے لیے مفید ہے، ہم اس کومذہبی طور پر سرکار کےسسٹم میں فالو کرتے ہیں ،ہم اس کو ہماری پالیسی کا حصہ بناتے ہیں ، وہ ہماری حکمرانی کا حصہ بناتے ہیں، اور اس لیے آپ جو وقت دے کرکے یہ جوغوروفکر میں جڑتے ہیں وہ امرت ہے۔ ہمارے ملک میں ہم اپنے مستقبل کو مزید روشن بنانے کے لیے کام کرتے ہیں، اور اس لیے آپ کا تعاون ہمارے لیے بہت اہم ہے۔آپ کاایک ایک لفظ ہمارے لیے قیمتی ہے۔ آپ کے خیالات، آپ کا تجربہ ہمارا سرمایہ ہیں۔ میں ایک بار پھر آپ کے تعاون کے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں اس کوشش کے لیے این کے سنگھ اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ نیک خواہشات، شکریہ!