میرے پرانے وقتوں میں جنگ پر جانے سے پہلے بہت زور سے بگل بجایا جاتا تھا، بڑے بڑے بگل بجائے جاتے تھے تاکہ جانے والا تھوڑا پرجوش ہو جائے، شکریہ داس! ٹی وی نائن کے تمام ناظرین اور یہاں موجود آپ سب کو میرا سلام… میں اکثر ہندوستان کے تنوع کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ یہ تنوع ٹی وی نائن کے نیوز روم اور آپ کی رپورٹنگ ٹیم میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ٹی وی نائن کے پاس کئی ہندوستانی زبانوں میں میڈیا پلیٹ فارم ہیں۔آپ ہندوستان کی متحرک جمہوریت کے نمائندے بھی ہیں۔ میں مختلف ریاستوں، مختلف زبانوں میں ٹی وی نائن میں کام کرنے والے تمام صحافی ساتھیوں اور آپ کی تکنیکی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔
دوستو،
آج ٹی وی نائن کی ٹیم نے اس سمٹ کے لیے ایک انتہائی دلچسپ موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ ہندوستاٖن: اگلی بڑی چھلانگ کے لیے تیار۔ اور ہم بڑی چھلانگیں صرف اسی وقت لے سکتے ہیں جب ہم پرجوش اور توانائی سے بھرپور ہوں۔ کوئی بھی مایوس ملک یا فرد بڑی چھلانگ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تھیم اپنے آپ میں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آج کے ہندوستان کا اعتماد کس بلندی پر ہے، اس کی آرزو کیا ہے؟ اگر آج دنیا کو لگتا ہے کہ ہندوستان ایک بڑی چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہے، تو اس کے پیچھے 10 سال کا ایک طاقتور لانچ پیڈ ہے۔ تو 10 سالوں میں ایسا کیا بدلا کہ ہم آج یہاں تک آ پہنچے ہیں؟یہ تبدیلی ذہنیت کی ہے۔ یہ تبدیلی خود اعتمادی اوریقین کے بارے میں ہے، یہ تبدیلی گڈ گورننس کی ہے۔
دوستو،
ایک بہت پرانی کہاوت ہے- من کے ہارے ہار ہے،من کے جیتے جیت۔ ابھی میں داس کا اقتباس سن رہا تھا لیکن مجھے اس میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ ایک طرح سے عظیم شخصیات کی سوانح حیات ہوتی ہے۔ یہ مغرب کی سوچ ہو سکتی ہے لیکن ہندوستان میں ایک عام انسان کی سوانح تاریخ ہوتی ہے۔ یہی ملک کی اصل طاقت ہے اور اسی لیے بڑے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، ملک زندہ رہتا ہے۔
دوستو،
شکست خوردہ ذہن سے فتح حاصل کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ اس لیے پچھلے 10 سالوں میں ذہنیت میں جو تبدیلی آئی ہے، ہم نے جو چھلانگ لگائی ہے، وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ آج کے بعد کئی دہائیوں تک حکومت چلانے والوں کو ہندوستانیت کی طاقت پر یقین نہیں تھا۔انہوں نے ہندوستانیوں کونظر انداز کیا، ان کی صلاحیتوں کو کم سمجھا۔ اس وقت لال قلعہ سے کہاجاتا تھا کہ ہم ہندوستانی مایوسی پسند ہیں اور شکست خوردہ جذبات کو اپناتے ہیں۔ لال قلعہ سے ہی، ہندوستانیوں کو کاہل اور سخت محنت سے جی چرانے والا کہا گیا۔ جب ملک کی قیادت ہی مایوسی سے بھری ہو تو ملک میں امید کیسےپھیلائی جاسکتی ہے؟۔ اس لیے ملک کے اکثر لوگوں نے بھی مان لیا تھا کہ اب سے ملک ایسے ہی چلے گا۔ اس کے اوپر بدعنوانی، ہزاروں کروڑ کے گھوٹالے، مفلوج پالیسی، اقرباء پروری، ان سب نے ملک کی بنیاد ہی تباہ کر دی تھی۔
پچھلے10 سالوں میں ہم نے ملک کو اس خوفناک صورتحال سے باہرنکال کر یہاں تک پہنچایا ہے۔صرف 10 سالوں میں ہندوستان دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ آج ملک میں اہم پالیسیاں تیزی سے بنتی ہیں اور فیصلے بھی اتنی ہی تیزی سے ہوتے ہیں۔ذہنیت میں تبدیلی نے حیرت انگیز کام کیا ہے۔ اکیسویں صدی کے ہندوستان نے چھوٹا سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ آج ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، سب سے بہتر اور سب سے بڑا کرتے ہیں۔ آج دنیا ہندوستان کی کامیابیوں کو دیکھ کر حیران ہے۔ ہندوستان کے ساتھ چلنے میں دنیا اپنا فائدہ دیکھ رہی ہے۔ ارے، ہندوستان نے بھی یہ کیا ہے -یہ ردعمل، ٹھیک ہے ہندوستان نے یہ کیا ہے؟ کیا ہندوستان میں ایسا ہوا؟ یہ ردعمل آج کی دنیا میں نیا معمول ہے۔ساکھ میں اضافہ آج ہندوستان کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ آپ 10 سال پہلے اور آج کے ایف ڈی آئی کے اعداد و شمار کو دیکھیں۔ پچھلی حکومت کے 10 سالوں میں ہندوستان میں 300 بلین ڈالر کی ایف ڈی آئی آئی ہندوستان میں آئی۔ ہماری حکومت کے 10 سالوں میں ہندوستان میں 640 بلین ڈالر کی ایف ڈی آئی آئی ملک میں آئی۔ پچھلے 10 سالوں میں جو ڈیجیٹل انقلاب آیا ہے، کورونا کے زمانے میں ویکسین پر جو بھروسہ بنا ہے، آج ٹیکس دینے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ حکومت اور نظام پر ہندوستانی عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔
میں آپ کو ایک اور اعداد و شمار دیتا ہوں،یہاں اس ہال میں زیادہ تر لوگ وہ ہوں گے جو میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ سال 2014 میں،ملک کے لوگوں نے میوچل فنڈز میں تقریباً 9 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اگر میں سال 2024 کی بات کروں تو آج ملک کے لوگوں نے میوچل فنڈز میں52 لاکھ کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کیونکہ ہر ہندوستانی کو یقین ہے کہ ملک مضبوطی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اور اسے اپنے آپ پر اتنا ہی بھروسہ ہے جتنا ملک پر ہے۔ ہر ہندوستانی سوچ رہا ہے کہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں، میرے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اور ٹی وی نائن کے ناظرین یہ بھی نوٹ کریں گے کہ ہم نے اس سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی بہت سے لوگوں نے پیش گوئی کی تھی۔
دوستو،
آج ذہنیت اور اعتماد میں اس تبدیلی کی سب سے بڑا سبب ہماری حکومت کا ورک کلچر اور گورننس ہے۔ وہی افسران، وہی دفاتر، وہی نظام، وہی فائلیں، لیکن نتائج مختلف ہیں۔ آج سرکاری دفاتر مسائل کی بجائے اہل وطن کے حلیف بنتے جا رہے ہیں۔ یہ نظام آنے والے وقتوں کے لیے حکمرانی کے نئے آئیڈیل ترتیب دے رہا ہے۔
دوستو،
ہندوستان کی ترقی کو تیز کرنے اور بڑی چھلانگ لگانے کے لیے اس گیئر کو تبدیل کرنا بہت ضروری تھا جس پر ہندوستان پہلے چل رہا تھا۔ میں آپ کو کچھ مثالیں دیتا ہوں کہ ہندوستان پہلے کی حکومتوں کے دوران کس طرح ریورس گیئر میں تھا۔ یوپی میں سرجو کینال پروجیکٹ کا سنگ بنیاد80 کی دہائی میں رکھا گیا تھا۔یہ منصوبہ چار دہائیوں تک اٹکا رہا۔ 2014 میں حکومت بننے کے بعد ہم نے اس منصوبے کو تیزی سے مکمل کیا۔سردار سروور پروجیکٹ، اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد پنڈت نہرو نے 60 کی دہائی میں رکھا تھا۔ سردار سروور ڈیم کا کام 60 سال تک اسی طرح التوا میں پڑا رہا۔ حکومت بننے کے بعد ہم نے اس ڈیم کا کام مکمل کیا اور 2017 میں اس کا افتتاح کیا۔ مہاراشٹر کا کرشنا کوینا پروجیکٹ بھی 80 کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ یہ بھی 2014 تک اسی طرح لٹکا رہا۔ اس ڈیم کا کام بھی ہماری حکومت نے مکمل کیا۔
دوستو،
پچھلے کچھ دنوں میں، آپ نے اٹل ٹنل کے اردگرد برف باری کی شاندار تصاویر دیکھی ہیں۔ اٹل ٹنل کا سنگ بنیاد2002 میں رکھا گیا تھا۔ 2014 تک یہ ٹنل بھی نامکمل رہی۔ ہماری حکومت نے اس کاکام بھی مکمل کیا اور 2020 میں اس کا افتتاح ہوا۔ آپ کو آسام کا بوگیبیل پل بھی یاد ہوگا۔ یہ پل بھی 1998 میں منظور ہوا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد ہم نے اسے تیزی سے مکمل کیا اور 20 سال بعد 2018 میں اس کا افتتاح کیا۔ ایسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور، 2008 میں منظور ہوا۔ یہ منصوبہ بھی لٹکتا رہا اور 15 سال بعد 2023 میں ہم نے اسے مکمل کیا۔ میں آپ کو کم از کم 500 ایسے پروجیکٹس گنوا سکتا ہوں۔ 2014 میں ہماری حکومت کے آنے کے بعد اس طرح کے سینکڑوں منصوبے تیزی سے مکمل ہوئے۔
ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم نے پرگتی کے نام سے وزیر اعظم کے دفتر میں ایک جدید نظام تیار کیا ہے۔ہر مہینے میں ذاتی طور پر ہر پروجیکٹ کی فائل لے کر بیٹھتا ہوں، تمام ڈیٹا کے ساتھ بیٹھتا ہوں، کئی دہائیوں سے پھنسے ہوئے پروجیکٹس کا آن لائن جائزہ لیتا ہوں، تمام ریاستوں کے چیف سکریٹری اور حکومت ہند کے تمام سکریٹری ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ وہاں ہر ایک چیز کا تجزیہ کیا جاتا ہے، میں نے پچھلے 10 سالوں میں 17 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا جائزہ لیا ہے۔ 17 لاکھ کروڑ روپے کے.... تب ہی یہ منصوبے مکمل ہوئے۔
آپ مجھے بتائیں کہ جس ملک میں پچھلی حکومتیں اس رفتار سے کام کر رہی ہوں، وہ ملک اتنی بڑی چھلانگ کیسے لے سکتاتھا؟ آج ہماری حکومت نے لٹکانے – بھٹکانے کے اس پرانے انداز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میں آپ کو اپنی حکومت کی کچھ مثالیں دوں گا۔ ممبئی کا اٹل سیتو، ملک کا سب سے بڑا پل، سی برج۔اس کا سنگ بنیاد سال 2016 میں رکھا گیا تھا۔ ہم نے اسے چند ہفتے پہلے ہی وقف بھی کردیا۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت۔ اس کا سنگ بنیاد سال 2020 میں رکھا گیا تھا۔ اسے پچھلے سال ہی لانچ کیا گیا تھا۔ جموں ایمس کا سنگ بنیاد سال 2019 میں رکھا گیا تھا۔ اس کا افتتاح بھی گزشتہ ہفتے 20 فروری کو ہوگیا۔ راج کوٹ ایمس کا سنگ بنیاد سال 2020 میں رکھا گیا تھا۔ ابھی کل اسے بھی لانچ کیا گیا۔ اسی طرح آئی آئی ایم سنبھل پور کا سنگ بنیاد سال 2021 میں رکھا گیا تھا… اور اس کا افتتاح سال 2024 میں کردیا گیا۔ تریچی ہوائی اڈے کے نئے ٹرمینل کا سنگ بنیاد 2019 میں رکھا گیا تھا اور اس کا افتتاح بھی چند ہفتے قبل ہوچکا ہے۔ آئی آئی ٹی بھیلائی کا سنگ بنیاد سال 2018 میں رکھا گیا تھا اور کچھ دن پہلے ہم نے اس کا افتتاح بھی کیاہے۔ گوا کے نئے ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد 2016 میں رکھا گیا تھا اور اس کا افتتاح بھی2022 میں ہوگیا۔ لکشدیپ تک سمندر کے نیچے آپٹیکل فائبر بچھانا بہت مشکل سمجھا جاتا تھا۔ ہم نے یہ کام سال 2020 میں شروع کیا تھا اور اسے چند ہفتے پہلے مکمل بھی کردیا۔
بنارس کی بناس ڈیری کا سنگ بنیاد سال 2021 میں رکھا گیا تھا اور اس کا افتتاح کچھ دن پہلے ہوا ۔ ابھی کل ہی آپ نے دوارکا میں سدرشن پل کی شاندار تصاویر دیکھی ہوں گی۔ ہندوستان کا سب سے طویل کیبل برج ملک کے وقار میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد بھی ہماری حکومت نے سال 2017 میں رکھا تھا۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جس کے بارے میں مودی کی ضمانت کے طور پر بات کرتا ہوں۔ جب یہ رفتار ہوتی ہے تو تیزی سے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے... جب ٹیکس دہندگان کے پیسے کی عزت ہوتی ہے... تب ملک آگے بڑھتا ہے، تب ملک ایک بڑی چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
دوستو،
آج ہندوستان جس پیمانے پر کام کر رہا ہے وہ بے مثال ہے، تصور سے باہر ہے۔ میں آپ کو پچھلے ایک ہفتے کی کچھ اور مثالیں دینا چاہتا ہوں… ایک ہفتہ کی … 20 فروری کو، میں نے جموں سے ملک کے درجنوں اعلیٰ تعلیمی اداروں جیسے آئی آئی ایم،آئی آئی ٹی- ٹریپل آئی ٹی کا ایک ساتھ افتتاح کیا۔ 24 فروری کو، میں نے راجکوٹ سے ملک کے 5 ایمس کا بہ یک وقت افتتاح کیا۔ آج صبح میں نے ملک کی 27 ریاستوں میں 500 سے زیادہ ریلوے اسٹیشنوں کی دوبارہ ترقی کا سنگ بنیاد رکھا۔ اسی پروگرام میں آج ملک میں 1500 سے زائد اوور برجز اور انڈر پاسز پربہ یک وقت کام شروع کر دیا گیا۔ اس تقریب میں آنے سے پہلے، میں نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک تھریڈ شیئر کیا ہے۔ اس میں میں نے اپنے آنے والے 2 دنوں کے پروگراموں کے بارے میں بتایا ہے۔ میں کل صبح کیرالہ، تمل ناڈو اور مہاراشٹر جا رہا ہوں۔ خلا سے متعلق پروگرام ہیں…ایم ایس ایم ای سے متعلق پروگرام ہیں، بندرگاہوں سے متعلق پروگرام ہیں، گرین ہائیڈروجن سے متعلق پروگرام ہیں… کسانوں سے متعلق پروگرام ہیں… ہندوستان اتنے پیمانے پر کام کرکے ہی بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ ہم پہلے، دوسرے اور تیسرے صنعتی انقلاب میں پیچھے رہ گئے۔ اب ہمیں چوتھے صنعتی انقلاب میں دنیا کی قیادت کرنی چاہیے۔ اور اس کے لیے ہندوستان میں ہر روز ہونے والے ترقیاتی کاموں سے ملک کی رفتار کو توانائی مل رہی ہے۔
ہندوستان میں ہر روز ایک کے بعد ایک اپنے ذہن کو چوکنا رکھیں… ہندوستان میں ہر روز دو نئے کالج کھلتے ہیں، ہر ہفتے ایک یونیورسٹی کھلتی ہے۔ ہندوستان میں روزانہ 55 پیٹنٹ اور 600 ٹریڈ مارک رجسٹر ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں روزانہ تقریباً 1.5 لاکھ مدرا قرض تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ہر روز سینتیس نئے اسٹارٹ اپ بنتے ہیں۔ ہندوستان میں ہر روز سولہ ہزار کروڑ روپے کے یو پی آئی لین دین ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ہر روز 3 نئے جن اوشدھی مراکز کھولے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ہر روز چودہ کلومیٹر ریلوے ٹریک بنتا ہے۔ ہندوستان میں ہر روز 50 ہزار سے زیادہ ایل پی جی کنکشن دیئے گئے ہیں۔ ہندوستان میں ہر سیکنڈ، ہر سیکنڈ… ایک نل کے پانی کا کنکشن فراہم کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں روزانہ 75 ہزار لوگوں کو غربت سے باہر لایا جا رہا ہے۔ ہم نے ہمیشہ غریبی ہٹاؤ کا نعرہ ہی سنا ہے۔ کس نے سوچا ہوگا کہ 10 سال میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آجائیں گے۔ لیکن ایسا ہوا ہے اور ہماری حکومت میں ہی ہوا ہے۔
دوستو،
حال ہی میں ہندوستان میں کھپت کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں ایک نئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ ہندوستان میں غربت اب تک کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے... یعنی سنگل ڈیجٹ میں۔ اس اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دہائی کے مقابلے میں کھپت میں ڈھائی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کی مختلف خدمات اور سہولیات پر خرچ کرنے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں دیہاتوں میں کھپت شہروں کے مقابلے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے بڑھی ہے۔ یعنی گاؤں کے لوگوں کی معاشی طاقت بڑھ رہی ہے، ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے زیادہ پیسے ہیں۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوا،یہ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے جس کی توجہ دیہاتوں، غریبوں اور کسانوں پر ہے۔ 2014 سے ہماری حکومت نے گاؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنیادی ڈھانچہ بنایا ہے۔ دیہات اور شہروں کے درمیان رابطے بہتر ہوئے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے، خواتین کی آمدنی بڑھانے کے ذرائع تیار ہوئے۔ ترقی کے اس ماڈل سے دیہی ہندوستان بااختیار ہوا ہے۔ میں آپ کو ایک اوراعداد و شمار دوں گا۔ ہندوستان میں پہلی بار خوراک کے اخراجات کل اخراجات کے 50 فیصد سے بھی کم ہو گئے ہیں۔ یعنی جو خاندان پہلے اپنی ساری توانائی خوراک کے حصول میں صرف کرتا تھا، آج اس کے افراد ہر چیز پر پیسہ خرچ کرنے کے قابل ہیں۔
دوستو،
پہلے کی حکومتوں کی ایک اور سوچ یہ تھی کہ وہ ملک کے لوگوں کو غربت میں رکھنا پسند کرتی تھیں۔ یہ لوگ الیکشن کے وقت غریب عوام کو تھوڑا بہت دے کر اپنے مفادات کی تکمیل کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک میں ووٹ بینک کی سیاست نے جنم لیا۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے صرف ان کے لیے کام کیا جنہوں نے انہیں ووٹ دیا۔
لیکن دوستو،
پچھلے 10 سالوں میں، ہندوستان اس تنگ ذہنیت کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھا ہے۔بدعنوانی پر روک لگا کر، ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ترقی کے فوائد ہندوستان کے ہر خطہ میں برابر تقسیم ہوں۔ ہم قلت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، بلکہ گورننس آف سیچوریشن پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے منھ بھرائی کے بجائے اہل وطن کو مطمئن کرنے کا راستہ چنا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں یہی ہمارا واحد منتر رہا ہے، یہی ہماری سوچ رہی ہے۔ یہی سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ہے۔ ہم نے ووٹ بینک کی سیاست کو کارکردگی کی سیاست میں بدل دیا ہے۔ جب قلت ہوتی ہے تو بدعنوانی اور امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ جب تکمیل ہوتی ہے تو اطمینان اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
آج حکومت اپنی طرف سے گھر گھر جا کر مستحقین کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ آپ نے ماضی میں مودی کی گارنٹی والی گاڑی کے بارے میں سنا ہوگا۔ ملک میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سرکاری اہلکار اپنی گاڑیوں میں گاؤں گاؤں جائیں اور پوچھیں کہ آپ کو ان سرکاری اسکیموں کا فائدہ ملا یا نہیں؟ آج ہماری حکومت خود لوگوں کی دہلیز پر جا رہی ہے اور ان سے سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کے لیے کہہ رہی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں، جب تکمیلیت ایک مشن بن جائے تو ہر قسم کے امتیاز کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہم وہ لوگ ہیں جو سیاست پر نہیں قومی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
دوستو،
ہماری حکومت نیشن فرسٹ کے اصول کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ پچھلی حکومتوں کے لیے کوئی کام نہیں کرنا… یہ سب سے آسان کام بن گیا تھا۔لیکن اس ورک کلچر سے نہ کوئی قوم بن سکتی ہے اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ اس لیے ہم نے قومی مفاد میں فیصلے کیے اور پرانے چیلنجز کو حل کیا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے… میں فلم کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ دفعہ 370 کے خاتمے سے لے کر رام مندر کی تعمیر تک، طلاق ثلاثہ کے خاتمے سے لے کر خواتین کے ریزرویشن تک، ون رینک ون پنشن سے لے کر چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے عہدے تک، حکومت نے ایسے تمام ادھورے کاموں کو نیشن فرسٹ کی سوچ کے ساتھ مکمل کیا۔
دوستو،
ہمیں آج ہی21ویں صدی کے ہندوستان کو اس کی آنے والی دہائیوں کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس لیے آج ہندوستان مستقبل کے منصوبوں میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ خلا ء سے سیمی کنڈکٹر تک، ڈیجیٹل سے ڈرون تک، اےآئی سے صاف توانائی تک، 5جی سے فن ٹیک تک، ہندوستان آج دنیا میں اگلی صف میں پہنچ گیا ہے۔ آج، ہندوستان عالمی دنیا میں ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ہندوستان آج فن ٹیک اپنانے کی شرح میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ ہندوستان آج چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والا پہلا ملک بن چکا ہے۔ ہندوستان آج شمسی توانائی کی نصب صلاحیت میں دنیا کے سرکردہ ممالک میں شامل ہے۔آج ہندوستان نے5 جی نیٹ ورک کی توسیع میں یورپ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج ہندوستان سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ آج، ہندوستان سبز ہائیڈروجن جیسے مستقبل کے ایندھن پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔
آج ہندوستان اپنے روشن مستقبل کے لیے دن رات محنت کر رہا ہے۔ ہندوستان مستقبل پسند ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی کہنے لگا ہے – ہندوستان ہی مستقبل ہے۔ آنے والا وقت زیادہ اہم ہے، آنے والے 5 سال بہت اہم ہیں۔ اور میں یہاں بیٹھے تمام سامعین سے بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں - ہماری تیسری مدت میں...اپنی تیسری مدت میں ہمیں ہندوستان کی صلاحیت کو نئی بلندیوں تک لے جانا ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے عہد کے سفر میں آنے والے پانچ سال ہمارے ملک کی ترقی اور ستائش کے سال ہیں۔ اس خواہش اور پورے یقین کے ساتھ، یہ سیمینار ہوتایا نہ ہوتا، ایک بڑی چھلانگ ضرور ہوتی۔ اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپ نے بگ لیپ پروگرام کا اہتمام کیا، لہذا مجھے بھی اپنے ہونٹ کھولنے کا موقع ملا۔اس پروگرام کے لیے آپ کو بہت بہت مبارک ہو!آپ لوگ صبح سے ہی بیٹھ کر سوچ بچار کر رہے ہوں گے، اس لیے یہ ایک پرلطف پروگرام اور پرلطف شام تھی۔
بہت بہت شکریہ!