Rajmata Scindia proved that for people's representatives not 'Raj Satta' but 'Jan Seva' is important: PM
Rajmata had turned down many posts with humility: PM Modi
There is lots to learn from several aspects of Rajmata's life: PM Modi

مرکزی کابینہ کے میرے سبھی ساتھیو، الگ الگ ریاستوں کے گورنر،وزرااعلیٰ ، ملک وبیرون ملک سے وابستہ راج ماتا وجے راجے سندھیا جی کے پرستاراور کنبے کے ارکان ، ان کے عزیزاورمیرے پیارے بھائیو اوربہنو۔

آج یہاں اس تقریب میں آنے وے پہلے میں وجے راجے جی کی یہ جیونی کو ذراکھنگال رہاتھا ۔ کچھ صفحوں پرمیری نظرگئی ۔ اس میں ایک حوالہ ہے ایکتا سفرکا جس میں انھوں نے میرا تعارف گجرات کے نوجوان رہنمانریندرمودی کے طورپرکروایاہے ۔

آج اتنے برسوں بعد ، ان کا وہی نریندر، ملک کا پردھان سیوک بن کر، ان کی مختلف یادوں کے ساتھ میں آج آپ کے سامنے ہے ۔ آپ کو پتہ ہوگا جب ڈاکٹرمرلی منوہرجوشی کی قیادت میں ،کنیا کماری سے کشمیر تک  ، ایک سفرکی شروعات ہوئی تھی ، اور میں اس کا انتظام دیکھ رہاتھا۔

راج ماتا جی اس پروگرام کے لئے کنیاکماری آئی تھی اوربعدمیں جب ہم سری نگرجارہے تھے وہ جموں میں الوداع کہنے بھی آئی تھی ۔اورانھوں نے لگاتارہماراحوصلہ بلند کیاتھا۔ تب ہماراخواب تھا ، لال چوک میں جھنڈ اپھیرانا ، ہمارا مقصد تھا دفعہ 370سے آزادی مل جائے ۔ راج ماتا جی نے اس سفرکو الوداع کہاتھا۔ جو خواب تھا وہ پوراہوگیا۔ آج اب میں کتاب میں اوربھی چیزیں دیکھ رہاہوں ۔

کتاب میں ایک جگہ انھوں نے لکھاہے ‘‘ ایک دن یہ جسم یہیں رہ جائے گا ، روح جہاں سے آئی تھی وہیں چلی جائے گی  ۔صفرسے صفرمیں ۔یادیں رہ جائیں گی ۔ اپنی ان یادوں کو میں ان کے لئے چھوڑجاوں گی جن سے میراسروکاررہاہے ، جن میں سروکاررہی ہوں۔ ’’

آج راج ماتاجہاں بھی ہیں ،ہمیں دیکھ رہی ہیں ، ہمیں آشیرواد دے رہی ہیں ۔ ہم سبھی لوگ جن کا ان سے سروکاررہاہے ، جن کی وہ سرکاررہی ہیں ، وہ یہاں اس خاص  پروگرام میں کچھ لوگ پہنچ بھی پائے ہیں اورموجود بھی ہیں ، اور ملک مختلف حصوں میں ، کونے کونے میں آج یہ موقع ورچوولی منایاجارہاہے ۔

ہم میں سے کئی لوگوں کو ان سے بہت قریب سے جڑنے کا ، ان کی خدمت ،ان کے برتاوکا احساس کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہے ۔ آج ان کے خاندان کے، ان کے قریبی رشتہ اس پروگرام میں ہیں لیکن ان کے لئے ہم سب ، ہردیش واسی ان کا پریوارہی تھا۔ راج ماتاجی کہتی بھی تھیں ‘‘ میں ایک بیٹے کی نہیں میں تو بہت سارے بیٹوں کی ماں ہوں ، ان کی محبت میں مجسم ڈوبی رہتی ہوں۔’’ ہم سب ان کے بیٹے بیٹیاں ہی ہیں ، ان کا خاندان ہی ہیں ۔

اس لئے میری یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ مجھے راج ماتاوجے راجے سندھیا جی کی یاد میں 100روپے مخصوص علامتی سکے کوجاری کرنے کا موقع ملاہے ۔حالانکہ میں خود کو آج بندھا ہوامحسوس کررہاہوں ، بہت بندھاہوامحسوس کررہاہے ،کیونکہ میں جانتاہوں کہ اگرکوروناوبانہیں ہوتی توآج اس پروگرام کا روپ کتنا بڑا ہوتا، کتنادلفریب ہوتا۔لیکن یہ بات میں ضرورت مانتاہوں جتنا میراراج ماتا کے ساتھ تعلق رہاہے ، پروگرام بہت بڑا تونہیں کرپارہے لیکن یہ پروگرام جذباتی ضرورہے ، اس میں جذبات ہیں ۔

ساتھیو ، پچھلی صدی میں بھارت کوراہ دکھانے والے کچھ شخصیتوں میں راج ماتا وجے راجے سندھیا بھی شامل تھیں ۔ راج ماتاجی صرف انسانیت کی مورتی ہی نہیں ، وہ ایک سرکردہ نیتا تھیں اوربہترین منتظم بھی تھیں ۔ جدوجہد آزادی سے لے کر آزادی کے اتنے دہائیوں تک ، ہندوستانی سیاست کے ہراہم پڑاو کی وہ گواہ رہی۔ آزادی سے قبل غیرملکی ملبوسات کی ہولی جلانے سے لے کر ایمرجنسی اوررام مندرتحریرتک راج ماتا کے تجربات کا وسیع مظہررہاہے ۔

ہم سبھی جو ان سے منسلک رہے ہیں ، جو ان کے قریبی رہے ہیں ، وہ انھیں بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں ،ان سے جڑی باتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں ، لیکن یہ بھی بہت ضروری ہے کہ راج ماتاکے زندگی کے سفرکو ، ان کے زندگی کے پیغام کو ملک کی آج پیڑھی بھی جانے ، ان سے جلاحاصل کرے ، ان سے سیکھے ۔اس لئے ان کے بارے میں ، ان کے تجربات کے بارے میں بارباربات کرنا ضروری ہے ۔ کچھ دن پہلے ‘من کی بات ’پروگرام میں میں نے بہت تفصیل سے ان کی شخصیت پربات چیت کی تھی ۔

شادی سے قبل راج ماتا جی کسی راج گھرانے سے نہیں تھیں ، ایک عام خاندان سے تھیں ، لیکن شادی کے بعد انھوں نے سب کو اپنا بھی بنایا اور یہ سبق بھی پڑھایا کہ عوام الناس کی خدمت کے لئے ، سیاسی ذمہ داریوں کو پوراکرنے کے لئے کسی خاص خاندان میں جنم لینا ہی ضروری نہیں ہوتا۔

کوئی بھی عام سے عام فرد ، جس میں قابلیت ہو سمجھ بوجھ ہو ، ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو، اس جمہوریت میں حکومت کو بھی خدمت کا وسیلہ بناسکتاہے ۔ آپ تصورکیجئے ، حکومت ہی جائیداد تھی ، طاقت تھی ، لیکن ان سب سے بڑھ کرجو راج ماتاکی امانت تھی ، وہ تھی روایات ، خدمت اور خلوص کی فطرت ۔

یہ سوچ ،یہ بڑا پن ان کی زندگی کے ہرقدم پرہم دیکھ سکتے ہیں ۔ اتنے بڑے راج گھرانے کی مکھیاکی شکل میں ان کے پاس ہزاروں کام کرنے والے تھے ، شاندارمحل تھے ، ساری سہولیات تھیں ۔ لیکن انھوں نے عام انسانیت کے ساتھ، گاؤں ۔ غریب کے ساتھ جڑکر زندگی جی ، ان کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا۔

راج ماتانے یہ ثابت کیاکہ عوامی نمائندگان کے لئے سیاسی اقتدارکی نہیں ، عوام الناس کی خدمت سب سے زیادہ اہم ہے ۔ وہ ایک راج خاندان کی مہارانی تھیں ۔ راج شاہی سلسلے سے تھیں لیکن انھوں نے جدوجہد جمہوریت کی حفاظت کے لئے کی ۔ زندگی کا کچھ حصہ کال کھنڈجیل میں بتایا۔

ایمرجنسی کے دوران انھوں نے جوجوبرادشت کیا، اس کے گواہ ہم میں سے بہت سے لوگ رہے ہیں ۔ایمرجنسی کے ہی دوران تہاڑجیل سے انھوں نے اپنی بیٹیوں کو خط لکھاتھا۔ امید ہے کہ اوشاراجے جی ، وسندھرراجے یا یشودھراراجے جی کو وہ چٹھی یادہوگی ۔

راج ماتا نے جو لکھاتھا اس میں بہت بڑا سبق تھا ، انھوں نے لکھاتھا ‘‘ اپنے آنے والی پیڑھیوں کوسینہ تان کر جینے کی تلقین ملے ،اس مقصد سے ہمیں آج بھی مشکلات کو بہادری کے ساتھ جھیلناچاہیئے ۔ ’’

قوم کے مستقبل کے لئے راج ماتانے اپنی شخصیت کووقف کردیاتھا۔ ملک کی آنے والی پیڑھی کے لئے انھوں نے اپناہرسکھ تیاگ دیاتھا۔ راج ماتا نے عہدے اور اقتدارکے لئے نہ جیون جیا نہ کبھی انھوں نے سیاست کا راستہ چنا ۔

ایسے کئی مواقع آئے جب عہدے ان کے پاس سامنے سے چل کرآئے ۔ لیکن انھوں نے اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ ایک بار خود اٹل بہاری واجپئی اور لاک کرشن اڈوانی جی نے ان سے بہت درخواست کی تھی کہ وہ جن سنگھ کی صدرنشین بن جائیں لیکن انھوں نے ایک کارکن روپ میں ہی جن سنگھ کی خدمت کرناپسند کیا۔

اگرراج ماتاجی چاہتی توان کے لئے بڑے سے بڑے عہدے تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ لیکن انھوں نے لوگوں کے درمیان رہ کر، گاوں اور غریب سے جڑے رہ کے ان کی خدمت کرنا پسند کیا۔

ساتھیو ، ہم راج ماتا کی زندگی کے ہرایک پہلوسے ہرلمحہ  بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ ان کی کئی ایسی کہانیاں ہیں ، زندگی کی گھٹنائیں ہیں ، جو ان سے منسلک  رہے لوگ بتاتے رہے ہیں ۔

ایکتایاتراکاہی ایک اورقصہ ہے جب وہ جموں میں تھیں تووہ دونئے کارکنان بھی ان کے ساتھ  تھے ۔ راج ماتا دوسرے کارکن کا کبھی کبھی نام بھول جاتی تھی تو باربارپہلے کارکن سے پوچھتی تھی کہ تم گولوہونہ ، اور دوسرے ساتھی کا کیانام ہے ؟وہ اپنے چھوٹے سے چھوٹے ساتھیوں کو ان کے نام سے جاننا، پہچاننا پسند کرتی تھیں ۔ ساتھ کے لوگ کہتے بھی تھے کہ آپ کیوں  نام کی اتنی فکرکرتی ہیں ۔ آپ بس آواز لگادیجئے لیکن راج ماتاانھیں جواب دیتی تھیں کہ میرے ورکرمیری مددکررہے ہیں اورمیں انھیں پہچانوں تک نہیں ، یہ توٹھیک بات نہیں ہوگی ۔مجھے لگتاہے کہ سماجی زندگی میں اگرآپ ہیں ، پھرآپ چاہے کسی بھی دھڑے سے ، کسی بھی پارٹی سے ہوں ، عام سے عام ورکرکے تئیں یہ سوچ ، یہ نظریہ سبھی کے دل میں ہوناچاہیئے ۔ ابھیمان نہیں سمان ، یہ سیاست کا بڑا منتر، انھوں نے جی کرکے دکھایاہے ۔

ساتھیو ، راج ماتا ، ان کے جیون میں روحانیت کا خزانہ تھا۔ روحانیت کے ساتھ ان کا لگاوتھا ۔کشف ، عبادت اوراعتقاد ان کی روح میں رچی بسی تھی ۔ لیکن جب وہ بھگوان کی پوجاکرتی تھی توان کے پوجا مندرمیں ایک تصویر بھارت ماتاکی بھی ہوتی تھی ۔ بھارت ماتا کی عبادت ان کے لئے ویسے ہی اعتقاد کاموضوع تھا ۔

مجھے ایک بار ان سے منسلک ایک بات ساتھیوں نے بتائی تھی اورجب میں اس بات کو یادکرتاہوں تومجھے  لگتاہے کہ میں بھی آپ کو بتاوں ۔ایک باروہ پارٹی کے پروگرام میں متھراگئی تھیں ، وہا ںراج ماتا بانکے بہاری سے درشن کرنے بھی گئیں ۔ مندرمیں انھوں نے بانکے بہاری سے جوخواہش کی اس کا اصل مقصد سمجھنا بہت ضروری ہے ۔

راج ماتا نے سب بھگوان کرشن  کی پرارتھنا کرتے ہوئے کیاکہا ، ہم سب کے لئے راج ماتا کے جیون کو سمجھنے کے لئے یہ بات بہت بڑی کام آنے والی ہے –وہ بھگوان کرشن کے سامنے کھڑی ہیں ، بہت عقیدت سے کے ساتھ کھڑی ہیں ،روحانی چیتنا جاگ چکی ہے اوروہ بھگوان کرشن کے سامنے کیادعاکرتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں ‘‘ہے کرشنا ایسی بانسری بجاو کہ پورے ہندوستان کے سب مردوعورت پھرسے بیدارہوجائیں ۔ ’’

آپ سوچیئے ، اپنے لئے کوئی دعانہیں ۔جو چاہاملک کے لئے چاہا ، عوام الناس کے لئے چاہا وہ بھی چیتنا جگانے کی بات ، جوکچھ بھی کیادیش کے لئے کیا، ایک بیداردیش ،ایک بیداردیش کے شہری کیاکچھ کرسکتے ہیں ، وہ یہ جانتی تھیں ، سمجھتی تھیں ۔

آج جب ہم راج ماتاجی کا جنم شتابدی منارہے ہیں توہمیں اطمینان ہے کہ بھارت کے شہریوں کی بیداری کو لے کر ان کی جوخواہش تھی ، بانکے بہاری سے ان کی جو دعاتھی ، وہ آج لگ رہاہے کہ فکرکی شکل میں سامنے آرہی ہے ۔

بیتے برسوں میں جومختلف تبدیلیاں آئی ہیں ، جومختلف مہمیں اور اسکیمیں کامیاب ہوئی ہیں ، ان کا مقصد یہ عوام کی فکرہے ، عوام کی بیداری ہے ، عوام کے آندولن ہیں ۔راج ماتا جی آشیرواد سے ملک آج ترقی کی راہ پرآگے بڑھ رہاہے ۔گاوں ، غریب ، مشکل سے دوچار، اورخواتین ملک کی اولین ترجیح میں شامل ہیں ۔

خواتین کی طاقت کے بارے میں تو وہ خاص طورپرکہتی تھیں کہ ‘‘ جو ہاتھ پالنے کو جھلاسکتاہے وہ دنیا پر راج بھی کرسکتے ہیں ۔’’ آج بھارت کی یہی خواتین کی طاقت ہرشعبے میں آگے بڑھ رہی ہے ، دیش کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ آج بھارت کی بیٹیاں فائٹرجیٹس اڑارہی ہیں ، بحریہ میں جنگ کی ذمہ داریوں میں اپنی خدمات پیش کررہی ہیں ۔ آج تین طلاق کے خلاف قانون بناکر دیش نے راج ماتاکی اس سوچ کو ، خواتین کو اختیارات دینے کی ان کی کوششوں کو اورآگے بڑھایاہے ۔

ملک کی یکجہتی اوراتحاد کے لئے ہندوستان کی ایکتا کے لئے انھوں نے جوجدوجہد کی ،جو  کوشش کی ، اس کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔ دفعہ 370ختم کرکے دیش نے ان کا بہت  بڑاخواب پوراکیاہے اوریہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ رام جنم بھومی مندر تعمیرکے لئے انھوں نے جو جدوجہد کی تھی ان کی صدسالہ سالگرہ تقریبات کے سال میں ہی ان کا یہ خواب بھی پوراہواہے ۔

اب جب رام جنم بھومی کی بات نکلی ہے تومیں ضرورکہناچاہوں گاکہ جب اڈوانی جی سومناتھ سے ایودھیا کے سفرکے لئے چلے تھے اور راج ماتاصاحب اس پروگرام میں موجود رہی تھیں ،یہ ہم سب کی خواہش تھی اورراج ماتا بھی چاہتی تھیں کہ ایسے اہم ترین موقع پران کو ہوناچاہیئے ۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس وقت نوراتری کے دن تھے ، اورراج ماتاصاحب نوراتری میں انوشٹھان کیاکرتی تھیں ۔اوروہ جس جگہ پرانوشٹھان کرتی تھیں ، وہ اس جگہ کو پورے انوشٹھان کے وقت چھوڑتی نہیں تھیں ۔

توراج ماتاصاحب سے جب میں بات کررہاتھا توانھوں نے کہاکہ دیکھوبھائی ، میں تونہیں آپاونگی لیکن مجھے آناضرورہے ۔میں نے کہاراستہ بتائیے انھوں نے کہامیں پوری نوراتری کے لئے گوالیار سے نکل کر کے سومنا تھ جاکرکے رہنا چاہتی ہوں اوروہیں پورے نوراتری کروں گی اوروہیں سے   جب نوراتری کے درمیان ہی یہ رتھ یاتراکی شروعات ہورہی تووہیں میں پروگرام میں شریک ہوجاوں گی ۔

راج ماتا جی اپواس بھی  بڑامشکل رہتاتھا میں اس وقت نیانیا سیاست میں آیاتھا۔ ایک ورکرکے روپ انتظام دیکھتاتھا ۔ میں نے راج ماتاصاحب کی سومنا تھ کاانتظام سنبھالااوروہ وقت تھا جب مجھے راج ماتاصاحب کے انتہائی قریب آنے کا موقع ملا ۔ اورمیں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی یہ پوری پوجا پورا نوراترکا انوشٹھان ایک طرح سے یہ ایودھیارتھ یاتراکو رام مندرکو ہی سونپ دیاتھا۔ ساری چیزیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں ۔

ساتھیو، راج ماتا وجے راجے سندھیاجی کے خوابوں کوپوراکرنے کے لئے ہم سبھی کو مل کر اسی رفتارسے آگے بڑھناہے ۔ مستحکم ،محفوظ ، خوشحال ہندوستان ان کا خواب تھا ، ان کے ان خوابوں کو ہم خود کفیل ہندوستان کی کامیابی سے پوراکریں گے ۔ راج ماتا کی دعاہمارے ساتھ ہے ، ان کاآشیرواد ہمارے ساتھ ہے ۔

ان ہی نیک خواہشات کے ساتھ میں آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ اداکرتاہوں اورراج ماتا صاحب نے جس طرح کی زندگی جی ہے ، تصور کیجئے آج ایک تحصیل صدربن جاتاہے نا، اس کابھی مزاج کیساہوجاتاہے ۔ راج ماتا اتنے بڑے گھرانے ، اتنی بڑی حکمرانی ، جائیداد سب کے بعد جنھوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے کیا نرمی تھی ، کیا مزاج تھا، کیاروایات تھیں ۔۔۔۔ زندگی کو جلا بخشنے والے ۔

آیئے ، ہماری نئی پیڑھی کے ساتھ ان باتوں کاذکرکریں اورمدعاصرف کسی سیاسی دھڑے کا نہیں ہے ، یہ ہماری آنے والی پیڑھیوں کا ہے ۔ آج بھارت سرکارکی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمیں  راج ماتاجی کے احترام میں یہ سکہ دیش کے سامنے رکھنے کاموقع ملاہے ۔

میں پھرایک بار راج ماتاجی کو انتہائی احترام کے ساتھ سلام کرتے ہوئے اپنی تقریرکو ختم کرتاہوں ۔ بہت بہت شکریہ ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.