نمسکار
تقریب میں موجود اور آج کی تقریب کا مرکز ہمارے سینئر ساتھی جناب وینکیا نائیڈو گارو، ان کے خاندان کے افراد، مختلف ریاستوں کے گورنر صاحبان، مختلف ریاستوں کے وزراء، دیگر سبھی معززین، خواتین اور حضرات ۔
کل یکم جولائی کو وینکیا نائیڈو جی کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی زندگی کے سفر کو 75 سال مکمل ہورہے ہیں۔ یہ 75 سال غیر معمولی حصول یابیوں کے رہے ہیں۔ یہ 75 سال حیرت انگیز پڑاؤ سے بھرے ہوئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج مجھے ان کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ مزید دو کتابوں کے اجرا کا موقع بھی ملا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتابیں لوگوں کو متاثر کریں گی اور انہیں قوم کی خدمت کی صحیح سمت دکھائیں گی۔
ساتھیو،
مجھے وینکیا جی کے ساتھ بہت طویل عرصے تک کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ جب وہ پارٹی کے قومی صدر تھے، جب وہ حکومت میں کابینہ کے سینئر ساتھی تھے، جب وہ ملک کے نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین تھے۔ ذرا سوچئے، ایک عام گاؤں سے آنے والے اور بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے والے کسان خاندان کے بچے کا یہ طویل سفر کئی تجربات سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے بھی اور میرے جیسے ہزاروں کارکنوں کو وینکیا جی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
ساتھیو،
وینکیا جی کی زندگی، خیالات، وژن اور شخصیت کی مکمل جھلک پیش کرتی ہے۔ آج ہم آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں اتنی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ لیکن، دہائیوں پہلے، جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی وہاں مضبوط بنیاد نہیں تھی۔ اس کے باوجود، نائیڈو جی نے، اس وقت اے بی وی پی کے کارکن کے طور پر، ملک پہلے کے جذبے سے ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا۔ بعد میں وہ جن سنگھ میں شامل ہوگئے۔ اور ابھی کچھ دن پہلے، آئین کی ساکھ کو داغدار کرنے والی کانگریس کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کو 50 سال مکمل ہوئے ہیں۔ وینکیا جی ہمارے ان دوستوں میں سے ایک تھے جنھوں نے ایمرجنسی کے خلاف جی جان سے لڑائی کی اور اس وقت وینکیا جی تقریباً 17 ماہ جیل میں رہے تھے۔ اس لیے میں انھیں ایمرجنسی کی آگ میں تپا ہوا اپنا ایک مضبوط ساتھی مانتا ہوں۔
ساتھیو،
اقتدار خوشی کا نہیں بلکہ خدمت اور عزم کی تکمیل کا ذریعہ ہوتا ہے۔ وینکیا جی نے اٹل بہاری واجپئی جی کی حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملنے کے بعد یہ ثابت کر دیا۔ ہماری پارٹی میں وینکیا جی کی شخصیت بہت بلند تھی، اس لیے فطری طور پر جب وزارت کی بات ہوگی تو وہ ایسا محکمہ چاہتے ہیں جس سے دنیا میں ان کی زبردست ستائش ہو۔ وینکیا جی جانتے تھے کہ شاید مجھے بھی ایسی ہی وزارت ملے گی، چنانچہ وہ سامنے آئے اور بولے کہ برائے کرم مجھے دیہی ترقیات کی وزارت دے دیں تو اچھا رہے گا۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، اور وینکیا جی نے ایسا کیوں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ نائیڈو جی گاؤں، غریبوں اور کسانوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اور یہ خاصیت دیکھیں، شاید وہ ہندوستان میں ایسے وزیر تھے جنہوں نے اٹل جی کے زمانے میں دیہی ترقیات کے لیے کام کیا۔ اور ہمارے ساتھ کابینہ میں ایک سینئر ساتھی کے طور پر شہری ترقیات کے وزیر کی شکل میں کام کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک طرح سے وہ دونوں شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ اور جس طرح سے انھوں نے اس کام کو انجام دیا، اگر میں ان کے مختلف اقدامات، اس کے پیچھے ان کی لگن، ہندوستان کے جدید شہروں کے بارے میں ان کے وژن کے بارے میں کچھ کہوں، تو اس میں کئی گھنٹے لگیں گے۔ وینکیا جی کی مدت کار میں، سوچھ بھارت مشن، اسمارٹ سٹی مشن اور امرت یوجنا جیسی کئی مہمیں شروع کی گئیں۔
ساتھیو،
وینکیا جی کی بات ہو اور ان کی زبان، ان کی حاضر جوابی، ان کی ذہانت کا ذکر نہ کریں تو شاید ہماری بات نامکمل رہ جائے گی۔ وینکیا جی کی ہوشیاری، ان کی بے ساختگی، ان کا فوری ردّعمل، ان کے ون لائنرز، میں سمجھتا ہوں کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مجھے یاد ہے، جب واجپئی جی کی مخلوط حکومت تھی تو وینکیا جی کا اعلان تھا - ایک ہاتھ میں بی جے پی کا جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں این ڈی اے کا ایجنڈا۔ اور 2014 میں حکومت بننے کے بعد، کچھ ہی دنوں میں انہوں نے کہا – ’میکنگ آف ڈیولپڈ انڈیا‘ یعنی مودی۔ میں خود حیران رہ گیا کہ وینکیا جی کیسے اتنا سوچ لیتے ہیں۔ اسی لیے وینکیا جی کے اسٹائل میں، میں نے ایک بار راجیہ سبھا میں کہا تھا - وینکیا جی کی باتوں میں گہرائی ہوتی ہے، سنجیدگی بھی ہوتی ہے۔ ان کی باتوں میں وژن بھی ہوتا ہے اور شوخی بھی ہوتی ہے۔ گرم جوشی بھی ہوتی ہے اور ذہانت بھی ہوتی ہے۔
ساتھیو،
اپنی اس خاص اسٹائل کے ساتھ ، آپ راجیہ سبھا کے چیئرمین رہنے کے دوران، آپ نے ایوان کو مثبت انداز میں رکھا۔ پورے ملک نے دیکھا کہ آپ کی مدت کار میں ایوان نے کتنے ہی تاریخی فیصلے لیے۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کا بل پہلی بار لوک سبھا کے بجائے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس وقت راجیہ سبھا میں ہمارے پاس اکثریت نہیں تھی۔ لیکن، آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا بل راجیہ سبھا میں بڑے زور و شور سے اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔ اس میں یقیناً بہت سے ساتھیوں، جماعتوں اور ممبران پارلیمنٹ کا رول تو تھا ہی، لیکن ایسے حساس موقع پر ایوان کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے وینکیا جی جیسی تجربہ کار قیادت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ آپ نے اس ملک اور اس جمہوریت کے لیے ان گنت خدمات سرانجام دی ہیں۔ وینکیا گارو، میں ایشور سے دعا کرتا ہوں کہ آپ صحت مند اور فعال رہیں اور طویل عرصے تک ہم سب کی رہنمائی کرتے رہیں۔ اور آپ نے دیکھا ہوگا، بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وینکیا جی بہت جذباتی انسان ہیں۔ جب ہم گجرات میں کام کرتے تھے، جب بھی وینکیا جی آتے تھے۔ اگر کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے تھے تو وہ سب سے زیادہ غم زدہ نظر آتے تھے۔ وہ فیصلہ کن رہے اور آج بھارتیہ جنتا پارٹی کا جو یہ عظیم برگد کا درخت دکھائی دیتا ہے، اس میں وینکیا گارو جیسے لاکھوں کارکنان تین تین، چار چار نسلوں سے ’بھارت ماں کی جئے‘ کے عہد کو لے کر کھپتے رہے ہیں۔ تبھی آج برگد کا یہ بہت بڑا درخت سرسبز و شاداب ہوا ہے۔ جس طرح وینکیا جی اپنی جملے بازی سے توجہ مبذول کراتے تھے ٹھیک ویسے ہی وینکیا جی کھلانے کے بھی شوقین رہے ہیں۔ مکر سنکرانتی پر، دہلی میں ان کی رہائش گاہ پر پوری دہلی کا ہلہو اور ایک طرح سے، پورا تیلگو میلہ، کبھی کبھی پورا ساؤتھ انڈین فیسٹول۔ شاید کسی سال ایسا نہ ہوا تو ہر کوئی یاد کرتا تھا کہ وینکیا جی کہیں باہر تو نہیں ہیں۔ مکر سنکرانتی کا تہوار ہر ایک کے ذہن میں رہتا تھا، یعنی ہم وینکیا جی کی سادہ زندگی کے عمل سے بخوبی واقف ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آج بھی اگر کوئی اچھی خبر ان کے کانوں تک پہنچتی ہے، کوئی اچھا واقعہ اس کے نوٹس میں آتا ہے تو وہ فون کرنا کم ہی بھولتے ہیں ۔ وہ کچھ اس طرح جذباتی ہوکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم جیسے لوگوں کو اس سے بڑا حوصلہ، جوش اور ولولہ ملتا ہے۔ اس لیے وینکیا جی کی زندگی آنے والی نسلوں کے لئے اور عوامی زندگی میں جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں، ایسے نوجوانوں کے لیے بہت ہی تحریک دینے والی ہے، بہترین رہنمائی کرنے والی ہے۔ یہ جو تین کتابیں ہیں، ان کو دیکھتے ہی ان کے سفر کا ہمیں پتا چل جاتا ہے، ہم بھی اس سفر سے جڑ جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک واقعات کا تسلسل ہمیں اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔
ساتھیو،
آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار میں نے راجیہ سبھا میں محترم وینکیا گارو کے لیے کچھ لائنیں کہی تھیں۔ راجیہ سبھا میں جو کچھ کہا تھا آج میں اسے دہرانا چاہتا ہوں... عمل کرو ایسا امن میں... جہاں سے گزریں تمہاری نظریں... ادھر سے تم کو سلام آئے... آپ کی شخصیت ایسی ہی ہے۔ ایک بار پھر آپ کے 75 سال کے سفر اور مجھے تو یاد ہے ہمارے ایک دوست ہیں، کبھی میں نے ان کو فون کرکے پوچھا تھا کہ بھائی، کتنے سال کے ہوگئے؟ کیونکہ ان کا بھی 75 واں یوم پیدائش تھا۔ میں نے ان کو ایسے ہی فون کیا تو انھوں نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ ان کی عمر 75 سال کی ہوگئی ہے۔ انھوں نے مجھے جواب دیا کہ نہیں، ابھی 25 باقی ہے۔ دیکھنے کا یہ نظریہ ہے۔ آج آپ کا 75 سال کا یہ سفر جس پڑاؤ پر پہنچا ہے، جب آپ صدی منائیں گے اس وقت ملک 2047 میں وِکست بھارت آزادی کی صدی منارہا ہوگا۔ ۔ آپ کو یوم پیدائش کی بہت بہت مبارک باد! آپ کے اہل خانہ کو بھی۔ آپ کی کامیابی میں ان کا جو تعاون رہا ہے، کندھے سے کندھے ملاکر اور کہیں چھا جانے کی کوئی کوشش نہیں، بلکہ ایک خادم کی طرح سب نے کام کیا ہے۔ میں آپ کے خاندان کے تمام لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!