سیاور رام چندر کی جے۔
سیاور رام چندر کی جے۔
عقیدت مند منچ، تمام سنتوں اور رشیوں، یہاں موجود دنیا کے کونے کونے میں ہم سب کے ساتھ جڑے ہوئے تمام رام بھکت، آپ سب کو پرنام، سب کو رام رام۔
آج ہمارے رام آ گئےہیں!صدیوں کے انتظار کے بعد ہمارے رام آگئے ہیں۔ صدیوں کے بے مثال صبر، بے شمار قربانیاں، تیاگ اور تپسیا کے بعد ہمارے پربھو رام آگئے ہیں ۔اس پرمسرت موقع پرآپ سب کو اور تمام ہم وطنوں کو بہت بہت مبارکباد۔
میں ابھی گربھ گرہ میں خدائی شعور کے گواہ کے طور پر حاضر ہوا ہوں۔ کہنے کو بہت کچھ ہے، لیکن میرا گلا بند ہے۔ میرا جسم اب بھی ہل رہا ہے، میرا دماغ ابھی بھی اس لمحے میں جذب ہے۔ ہمارے رام للا اب ٹینٹ میں نہیں رہیں گے۔ ہمارے رام للا اب اس عالی شان مندر میں رہیں گے۔ مجھے پختہ یقین ہے اور بے پناہ یقین ہے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے، ملک اور دنیا کے کونے کونے میں رام کے بھکت اسے محسوس کر رہے ہوں گے۔ یہ لمحہ مافوق الفطرت ہے۔ یہ لمحہ سب سے مقدس ہے۔ یہ ماحول، ی طاقت ، یہ لمحہ... پربھو شری رام کا ہم سب پر آشیرواد ہے۔ 22 جنوری 2024 کا یہ سورج ایک شاندار چمک لے کر آیا ہے۔ 22 جنوری 2024 یہ کیلنڈر پر لکھی گئی ایک تاریخ نہیں ہے۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ رام مندر کے بھومی پوجن کے بعد پورے ملک میں ہر دن جوش و خروش بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ تعمیراتی کام دیکھ کر اہل وطن میں ہردن ایک نیا اعتماد پیدا ہو رہا تھا۔ آج ہمیں صدیوں کے وہ صبر کاپھل ملا ہے، آج ہمیں شری رام کا مندر ملا ہے۔ غلامی کی ذہنیت توڑ کر اٹھ کھڑا ہورہا ملک ، ماضی کے لمحے سے حوصلہ لیتا ہوا ملک، ایسے ہی نئی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ آج سے ہزار سال بعد بھی لوگ اس تاریخ، اس لمحے کی بات کریں گے اور یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ ہم اس لمحے کو جی رہے ہیں اور اسے حقیقت میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔آج دن، سمتیں، مسافت اور مسافت سب الوہیت سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ وقت عام نہیں ہیں۔ یہ انمٹ یادداشت کی لکیریں ہیں جو وقت کے پہیے پر ابدی سیاہی سے لکھی جاتی ہیں۔
ساتھیوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں بھی رام کا کام ہوتا ہے،وہاں پون پتر ہنومان ضرور موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے میں رام بھکت ہنومان اور ہنومان گڑھی کو بھی پرنام کرتا ہوں۔ میں ماتا جانکی، لکشمن جی، بھرت-شتروگھن، سب کو سلام کرتا ہوں۔ میں مقدس ایودھیا پوری اور مقدس سریو کو بھی پرنام کرتا ہوں۔ مجھے اس وقت ایک منفرد تجربہ کر رہا ہوں کہ جن کے آشیرواد سے یہ عظیم کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہے... وہ منفرد روحیں، وہ منفرد ہستیاں بھی اس وقت ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ میں ان تمام باشعوروں ہستیوں کو بھی پورے احترام سے پرنام کرتا ہوں۔ آج میں بھگوان شری رام سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ ہماری کوششوں، قربانیوں اور تپسیا میں کچھ کمی ضرور رہ گئی ہوگی کہ ہم یہ کام اتنی صدیوں تک نہ کر سکے۔آج وہ کمی پوری ہو گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھگوان رام آج ہمیں ضرور معاف کر دیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
تریتا میں رام کی آمد پر تلسی داس جی نے لکھا ہے - پربھو بلوکی ہرشے پرباسی۔جنِت ویوگ بپتی سب ناسی۔ یعنی بھگوان کی آمد کو دیکھ کر ایودھیا کے سبھی لوگ اور پورا ملک خوشی سے بھر گیا۔ طویل عرصے سے جو اعتراضات اٹھے تھے، وہ ختم ہوگئے۔ اس وقت وہ جدائی صرف 14 سال کی تھی، تب بھی اتنی ناقابل برداشت تھی۔ اس دور میں ایودھیا اور اہل وطن نے سینکڑوں سالوں سے جدائی برداشت کی ہے۔ ہماری کئی نسلیں جدائی کا شکار ہو چکی ہیں۔ بھگوان رام ہندوستان کے آئین میں اس کے پہلے صفحہ پر موجود ہیں۔ آئین کے وجود میں آنے کے بعد بھی بھگوان شری رام کے وجود کو لے کر کئی دہائیوں تک قانونی جنگ جاری رہی۔ میں ہندوستانی عدلیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جس نے انصاف کے وقار کو برقرار رکھا ہے۔ انصاف کے مترادف بھگوان رام کا مندر بھی منصفانہ انداز میں بنایا گیا ۔
ساتھیوں،
آج گاؤں گاؤں میں ایک ساتھ کیرتن اور سنکیرتن ہو رہے ہیں۔ آج مندروں میں تہوار منائے جارہے ہیں، صفائی مہم چلائی جارہی ہے۔ پورا ملک آج دیوالی منا رہا ہے۔ آج شام گھر گھر میں رام جیوتی روشن کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ کل میں شری رام کے آشیرواد سے دھنوش کوڈی میں رام سیتو کے ابتدائی پوائنٹ اریچل منائی پر تھا۔ جس لمحے پربھو رام سمندر پار کرنے نکلتے تھے وہ ایک پل تھا، جس نے کال چکر کو بدلا تھا۔ اس جذباتی لمحے کو محسوس کرنے کی یہ میری عاجزانہ کوشش تھی۔ میں نے وہاں پھولوں کی پوجا کی۔ میرے اندر یہ یقین پیدا ہوا کہ جس طرح اس وقت دور بدلا تھا، اسی طرح وقت کا چکر پھر بدلے گا اور نیک سمت میں چلے گا۔ اپنے 11 دن کے ورت انوشٹھان کے دوران میں نے ان جگہوں کے پاؤں چھونے کی کوشش کی جہاں بھگوان رام کے پاؤں پڑے تھے۔ ناسک کا پنچوٹی دھام ہو، کیرالہ کا مقدس تری پرایر مندر ہو، آندھرا پردیش کا لیپاکشی ہو، سری رنگم میں رنگناتھ سوامی مندر ہو، رامیشورم کا سری رامناتھ سوامی مندر ہو، یا پھر دھنوش کوڈی... میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس عقیدت کے جذبے کے ساتھ مجھے ساگر سے سریو تک کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ ساگر سے لے کر سریو تک ہر جگہ رام کے نام کا ایک ہی جوش و جذبہ دکھائی دے رہا ہے۔ بھگوان رام ہندوستان کی روح کے ہر ذرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ رام ہندوستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ہم ہندوستان میں کہیں بھی کسی کے ضمیر کو چھوئیں گے تو ہم اس یکجہتی کو محسوس کریں گے اور یہ احساس ہر جگہ ملے گا۔اس سے زیادہ ملک کومحظوظ کرنے والا ذریعہ اور فارمولہ کیا ہو سکتا ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو!
مجھے ملک کے کونے کونے میں مختلف زبانوں میں رامائن سننے کا موقع ملا ہے، لیکن خاص طور پر پچھلے 11 دنوں میں مختلف زبانوں میں، مختلف ریاستوں سے مجھے خاص طور پر سننے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ رام کی تعریف کرتے ہوئے رشیوں نے کہا ہے – رمنتے یاسمن ایتی رامہ۔ یعنی جس میں مگن ہو جائے وہی رام ہے۔ تہواروں سے لے کر روایات تک ہر جگہ رام لوگوں کی یادوں میں موجود ہے۔ہر دور میں لوگوں نے اپنے اپنے لفظوں میں، اپنے اپنے انداز میں رام کا اظہار کیا ہے اور یہ رام رس، زندگی کے بہاؤ کی طرح مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔ قدیم زمانے سے ہندوستان کے کونے کونے کے لوگ رام رس کی پوجا کرتے رہے ہیں۔ رام کتھا لامحدود ہے، رامائن بھی لامحدود ہے۔ رام کے آدرش، رام کی اقدار، رام کی تعلیمات، ہر جگہ ایک جیسی ہیں۔
پیارے ہم وطنو،
آج اس تاریخی وقت میں ملک ان شخصیات کو بھی یاد کر رہا ہے، جن کی محنت اور لگن کی وجہ سے ہم یہ مبارک دن دیکھ رہے ہیں۔ رام کے اس کام میں بہت سے لوگوں نے قربانی اور تپسیا کا کمال دکھایا ہے۔ ہم سب ان لاتعداد رام بھکتوں، ان گنت کار سیوکوں کے اور ان ان گنت سنتوں اور مہاتماوں کے مقروض ہیں۔
ساتھیوں،
آج کا یہ موقع نہ صرف جشن کا لمحہ ہے، بلکہ ساتھ ہی یہ ہندوستانی سماج کی پختگی کے احساس کا بھی لمحہ ہے۔ ہمارے لیے یہ نہ صرف فتح کا موقع ہے، بلکہ عاجزی کا بھی موقع ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بہت سی قومیں اپنی ہی تاریخ میں الجھ جاتے ہیں۔ ایسے ممالک نے جب بھی اپنی تاریخ کی الجھی ہوئی گرہیں کھولنے کی کوشش کی، انہیں کامیابی حاصل کرنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ کئی بار حالات پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئے، لیکن جس سنجیدگی اور جذبے کے ساتھ ہمارے ملک نے تاریخ کی اس گرہ کو کھولا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا مستقبل ماضی سے کہیں زیادہ خوبصورت ہونے والا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب کچھ لوگ کہتے تھے کہ رام مندر بنے گا تو آگ لگ جائے گی۔ ایسے لوگ ہندوستان کی سماجی روح کی پاکیزگی کو نہیں سمجھ سکے۔ رام للا کے اس مندر کی تعمیر ہندوستانی سماج کے امن، صبر، باہمی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کی علامت بھی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تعمیر کسی آگ کو نہیں، بلکہ توانائی کو جنم دے رہی ہے۔ رام مندر نے سماج کے ہر طبقے کو روشن مستقبل کی راہ پر آگے بڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ میں آج ان لوگوں سے اپیل کروں گا... آئیے، آپ محسوس کیجئے، اپنی سوچ پر نظر ثانی کیجئے۔ رام آگ نہیں ہے، رام توانائی ہے۔ رام جھگڑا نہیں، رام حل ہے۔ رام صرف ہمارےنہیں، رام سب کےہیں۔ رام صرف حال ہی نہیں، رام ازلی ہیں۔
ساتھیوں،
آج جس طرح سے رام مندر پران پرتشٹھا کے اس پروگرام سے پوری دنیا جڑی ہوئی ہے، اس سے رام کی ہمہ گیریت نظر آ رہی ہے۔جیسا جشن ہندوستان میں ہے، ویسا ہی کئی ملکوں میں ہے۔آج ایودھیا کا یہ تہوار بھی رامائن کی ان عالمی روایات کا جشن بن گیا ہے۔ رام للا کا یہ وقار ’وسودھیو کٹمبکم‘ کے خیال کا بھی وقار ہے۔
ساتھیوں،
آج ایودھیا میں، صرف شری رام کی مورتی کی تقدیس نہیں کی گئی ہے۔ یہ شری رام کی شکل میں ظاہر ہونے والے ہندوستانی ثقافت کے تئیں اٹوٹ یقین کی پران پرتشٹھا بھی ہے۔ یہ انسانی اقدار اور اعلیٰ ترین نظریات کا مجسمہ بھی ہے۔ آج پوری دنیا کو ان اقدار، ان آدرشوں کی ضرورت ہے۔ سروے بھونتو سکھین: ہم ان قراردادوں کو صدیوں سے دہراتے آرہے ہیں۔ آج وہی قرارداد رام مندر کی شکل میں ٹھوس شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ مندر صرف دیوتا کا مندر نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے وژن، ہندوستان کے فلسفے، ہندوستان کی سمت کا مندر ہے۔ یہ رام کی شکل میں قومی شعور کا مندر ہے۔ رام ہندوستان کا عقیدہ ہے، رام ہندوستان کی بنیاد ہے۔ رام ہندوستان کا نظریہ ہے، رام ہندوستان کا وِدھان ہے۔ رام ہندوستان کا شعور ہے، رام ہندوستان کی سوچ ہے۔ رام ہندوستان کی شان ہے۔ رام بہاؤ ہے، رام اثر ہے۔ رام نیتی بھی ہے۔ رام نیتی بھی ہے۔ رام ابدی بھی ہے۔ رام تسلسل بھی ہے۔ رام وبھو ہیں، وشد ہیں۔ رام ہمہ جہت، عالم، آفاقی روح ہے اور اسی لیے جب رام کی تعظیم کی جاتی ہے تو اس کا اثر برسوں یا صدیوں تک ہی نہیں رہتا۔ اس کا اثر ہزاروں سال تک رہتا ہے۔ مہارشی والمیکی نے کہا ہے – راجیم دش سہسترانی پریاپیہ ورشانی راگھوہ۔ یعنی رام نے دس ہزار سال تک سلطنت پر حکومت کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہزاروں برسوں کے لیے رام راجیہ قائم ہوا۔ جب تریتا میں رام آئے تھے، تب ہزاروں برسوں کے لیے رام راجیہ قائم ہوئی۔ رام ہزاروں سالوں سے دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے اور اس لیے میرے پیارے ہم وطنو،
آج ایودھیا کی سرزمین ہم سب سے، ہر ایک رام بھکت سے، ہر ہندوستانی سے کچھ سوال کررہی ہے۔ شری رام کا عظیم الشان مندر بن گیا، اب آگے کیا ہوگا؟ صدیوں کا انتظار ختم گیا،اب آگے کیا ہوگا؟ آج کے اس موقع پر جودیوتاؤں، جودیوتاؤں کی روحیں، جو ہمیں آشیرواد دینے آئے ہیں اور ہمیں دیکھ رہے ہیں، انہیں ہم کیا ایسے ہی وداع کریں گے؟ کوئی بالکل نہیں۔ آج میں صاف دل سے محسوس کر رہا ہوں کہ وقت بدل رہا ہے۔ یہ ایک خوش آئند اتفاق ہے کہ ہماری نسل کو ایک لازوال راستے کے معمار کے طور پر چنا گیا ہے۔ ایک ہزار سال بعد کی نسل آج قوم کی تعمیر کی ہماری کوششوں کو یاد رکھے گی۔ اس لیے میں کہتا ہوں – یہی وقت ہے، یہی صحیح وقت ہے۔ آج سے اس مقدس وقت سے، ہمیں اگلے ہزار سال کے ہندوستان کی بنیاد رکھنی ہے۔ مندر کی تعمیر کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، اب ہم سبھی ہم وطن اس لمحے سے ایک مضبوط، قابل، عظیم الشان ہندوستان کی تعمیر کا حلف لیتے ہیں۔ رام کے خیالات ’مانس کے ساتھ ہی جن مانس ‘میں بھی ہوں،یہی قوم کی تعمیر کی طرف قدم ہے۔
ساتھیوں،
آج کا دور تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے ضمیر کو وسعت دینا ہوگی۔ دیو سے ملک تک ، رام سے راشٹر تک ہونا چاہئے ۔ ہنومان جی کے لیے عقیدت، ہنومان جی کی خدمت، ہنومان جی قربانی، یہ ایسی خوبیاں ہیں، جنہیں ہمیں باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر ہندوستانی میں عقیدت، خدمت اور لگن کے یہ جذبات ایک قابل، عظیم الشان ہندوستان کی بنیاد بنیں گے اور یہی تو ہے دیو سے ملک اور رام سے راشٹر کے شعور کی توسیع ہے!دور جنگل میں کٹیا مہ زندگی گزارنے والی میری آدی واسی ماں شبری کے بارے میں سوچتا ہوں، تو ایمان جاگ اٹھتا ہے۔ ماں شبری کافی دنوں سے کہہ رہی تھی کہ رام آئے گا۔ ہر ہندوستانی میں پیدا ہونے والا یہ عقیدہ ایک مضبوط، قابل، عظیم الشان ہندوستان کی بنیاد بنے گا اور یہ خدا کی طرف سے ملک اور رام سے قوم کے شعور کی توسیع ہے! ہم سب جانتے ہیں کہ نشادراج کی دوستی تمام بندھوں سے پرے ہے۔ نشاد راج کا رام کے تئیں جذبہ کتنا بنیادی ہے، سب اپنے اپنے ہیں، سبھی برابر ہیں۔ ہر ہندوستانی میں تعلق اور بھائی چارے کا یہ احساس ایک مضبوط، قابل، عظیم الشان الہی ہندوستان کی بنیاد بنے گا اور یہی تو ہے دیو سے ملک اور رام سے ملک کی بیدار کو فروغ دینا!
ساتھیوں،
آج ملک میں مایوسی کی ایک ذرہ بھی گنجائش نہیں ہے۔ میں تو بہت عام ہوں، بہت چھوٹا ہوں، اگر کوئی یہ سوچتا ہے تو اسے گلہری کی خدمات کو یاد کرنا چاہیے۔ صرف گلہری کی یاد ہی ہماری تذبذب کو دور کرے گی، یہ ہمیں سکھائے گی کہ ہر کوشش، چھوٹی ہو یا بڑی، اس کی اپنی طاقت اور اپنا اپنا حصہ ہے اور سب کی کوششوں کا یہ جذبہ ایک مضبوط، قابل، عظیم الشان ہندوستان کی بنیاد بنے اور یہی تو ہے دیو سے ملک اور رام سے ملک کی بیدار کو فروغ دینا!
ساتھیوں،
لنکا کا حکمران راون انتہائی علم والا اور بے پناہ طاقت کا مالک تھا، لیکن جٹایو جی کی دیانتداری کو دیکھیں، وہ طاقتور راون کے خلاف لڑے تھے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ راون کو شکست نہیں دے سکے گا،لیکن پھر بھی اس نے راون کو چیلنج کیا۔ فرض کی یہی انتہا عزم، قابل، عظیم الشان ہندوستان کی بنیاد ہے اور یہی سب کچھ ہے، دیو سے ملک اور رام سے ملک کی بیداری کی توسیع ۔آئیے، ہم عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی کا ہر لمحہ قوم کی تعمیر کے لیے وقف کریں گے۔ رام کے کام سے، قوم کا کام، وقت کا ہر لمحہ، جسم کا ہر ذرہ، رام کی لگن کو قوم کے لیے وقف کے مقصد سے جوڑ دے گا۔
میرے ہم وطنو،
پربھو شری رام کی ہماری پوجا خاص ہونی چاہیے۔ یہ پوجا ارچنا خود سے اوپر اٹھ کر سبھی کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ پوجا اہم سے اٹھ کر ہم سب کے لیے ہونی چاہئے ۔پربھو کو جو بھوگ چڑھے گا، ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے ہمارے محنت کی انتہا بھی ہوگی۔ ہمیں اپنی روزانہ کی بہادری، کوششیں اور لگن بھگوان رام کو پیش کرنی ہوگی۔ ان کے ساتھ ہمیں روزانہ بھگوان رام کی پوجا کرنی ہوگی، تب ہی ہم ہندوستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
یہ ہندوستان کی ترقی کا سنہری دور ہے۔ آج ہندوستان نوجوانوں اور توانائی سے بھرا ہوا ہے۔ ایسے مثبت حالات کون جانے کب تک پیدا ہوں گے۔ ہمیں مزید کھونے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں مزید بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے ملک کے نوجوانوں کو بتاؤں گا۔ آپ سے پہلے ہزاروں سال کی روایت کا الہام ہے۔ آپ ہندوستان کی اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں... جو چاند پر ترنگا لہرا رہی ہے، جو 15 لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کر کے مشن آدتیہ کو کامیاب بنا رہی ہے، سورج کے قریب جا رہی ہے، جو آسمان میں تیجس ہے... سمندر میں وکرانت ..اپنا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ آپ کو اپنے ورثے پر فخر کرتے ہوئے ہندوستان کی نئی صبح لکھنی ہے۔ ہندوستان روایت کی پاکیزگی اور جدیدیت کی لامحدودیت دونوں کے راستے پر چل کر خوشحالی کے ہدف تک پہنچے گا۔
میرے ساتھیوں،
آنے والا وقت اب کامیابی کا ہے۔ آنے والا وقت اب تکمیل کا ہے۔ یہ عظیم الشان رام مندر ہندوستان کے عروج، ہندوستان کے عروج کا گواہ بنے گا، یہ عظیم الشان رام مندر ایک عظیم الشان ہندوستان، ترقی یافتہ ہندوستان کے عروج کا گواہ بنے گا۔ یہ مندر سکھاتا ہے کہ اگر مقصد جائز ہے، اگر مقصد اجتماعی اور منظم طاقت سے جنم لے تو اس مقصد کا حصول ناممکن نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کا وقت ہے اور ہندوستان آگے بڑھنے والا ہے۔ صدیوں کے انتظار کے بعد ہم یہاں پہنچے ہیں۔ ہم سب نے اس دور، اس دور کا انتظار کیا ہے۔ اب ہم نہیں رکیں گے۔ ہم ترقی کی بلندیوں تک پہنچتے رہیں گے۔ اس احساس کے ساتھ، ہم رام للا کے قدموں میں پرنام کرتے ہیں اور آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ تمام سنتوں کے قدموں میں میرا پرنام۔
سیاور رام چندر کی جے۔
سیاور رام چندر کی جے۔
سیاور رام چندر کی جے۔