نمسکار!
آج کے ویبنار کا موضوع، دفاع میں آتم نربھرتا - کال ٹو ایکشن، قوم کے ارادوں کی وضاحت کرتا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں آپ کو خود انحصاری کا عزم بھی نظر آئے گا جس پر ہندوستان پچھلے کچھ سالوں سے اپنے دفاعی شعبے میں زور دے رہا ہے۔
ساتھیوں،
غلامی کے دور میں بھی اور آزادی کے فوراً بعد بھی ہماری دفاعی تیاری کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان میں بنائے گئے ہتھیاروں نے بڑا کردار ادا کیا۔ اگرچہ ہماری یہ طاقت بعد کے سالوں میں کمزور ہوتی رہی، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں صلاحیت کی کمی نہ اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔
ساتھیوں،
سیکورٹی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنی مرضی کے مطابق اور منفرد نظام ہونا چاہیے، تبھی یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اگر 10 ممالک کے پاس ایک ہی قسم کا دفاعی سازوسامان ہے تو آپ کی افواج کی کوئی انفرادیت نہیں رہے گی۔ انفرادیت اور حیرت کا عنصر، یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب آلات آپ کے اپنے ملک میں تیار کیے جائیں۔
اس سال کے بجٹ میں ملک کے اندر ہی تحقیق، ڈیزائن اور ترقی سے لے کر مینوفیکچرنگ تک ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی ترقی کا خاکہ ہے۔ دفاعی بجٹ کا 70 فیصد صرف ملکی صنعت کے لیے رکھا گیا ہے۔ وزارت دفاع نے اب تک 200 سے زیادہ دفاعی پلیٹ فارمز اور آلات کی مثبت انڈیجنائزیشن کی فہرستیں جاری کی ہیں۔ اس فہرست کے اعلان کے بعد گھریلو خریداری کے لیے 54 ہزار کروڑ روپے کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 4.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے آلات سے متعلق خریداری کا عمل بھی مختلف مراحل میں ہے۔ بہت جلد تیسری فہرست بھی آنے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ہی دفاعی مینوفیکچرنگ کو کس طرح سپورٹ کر رہے ہیں۔
ساتھیوں،
جب ہم باہر سے اسلحے لاتے ہیں تو اس کا عمل اتنا طویل ہوتا ہے کہ جب تک وہ ہماری سکیورٹی فورسز تک پہنچتے ہیں، ان میں سے بہت سے پرانے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کا حل بھی آتم نربھر بھارت مہم اور میک ان انڈیا میں ہے۔ میں ملک کی فوجوں کی بھی تعریف کروں گا کہ وہ بھی دفاعی شعبے میں ہندوستان کی خود انحصاری کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بہت اہم فیصلے لے رہی ہیں۔ آج ہماری فوج کے پاس ہندوستان میں بنایا ہوا سامان ہے، اس لیے ان کا اعتماد، ان کا غرور بھی نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اور اس میں ہمیں سرحد پر کھڑے فوجیوں کے جذبات کو بھی سمجھنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے جب میں اقتدار میں نہیں تھا، اپنی پارٹی کے لیے کام کرتا تھا، پنجاب میرے کام کرنے کی جگہ تھی، مجھے ایک بار واگھہ بارڈر پر جوانوں سے گپ شپ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں تعینات فوجیوں نے بحث کے دوران میرے سامنے ایک بات کہی تھی اور وہ بات میرے دل کو چھو گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ واگھہ بارڈر پر بھارت کا گیٹ ہمارے دشمن کے گیٹ سے تھوڑا چھوٹا ہے۔ ہمارا گیٹ بھی بڑا ہونا چاہیے، ہمارا جھنڈا بھی اس سے اونچا ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کا جذبہ ہے۔ ہمارے ملک کا سپاہی اسی احساس کے ساتھ سرحد پر رہتا ہے۔ وہ ہندوستان میں بنی چیزوں کے بارے میں ایک الگ عزت نفس رکھتا ہے۔ اس لیے ہمارے پاس جو دفاعی سامان ہے، ہمیں اپنے فوجیوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم یہ تب ہی کر سکتے ہیں جب ہم آتم نربھر ہوں گے۔
ساتھیوں،
ہلے زمانے میں جنگیں مختلف طریقوں سے ہوتی تھیں، آج مختلف طریقوں سے۔ پہلے جنگی ساز و سامان کی تبدیلی میں دہائیاں لگتی تھیں لیکن آج جنگی ہتھیاروں میں دیکھتے ہی دیکھتے تبدیلی آ جاتی ہے۔ آج جو ہتھیار موجود ہیں ان کے پرانے ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ وہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہتھیار اور بھی تیزی سے پرانے ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان کی آئی ٹی کی طاقت ہماری بڑی طاقت ہے۔ ہم جتنا زیادہ اس طاقت کو اپنے دفاع میں استعمال کریں گے، اتنا ہی ہم اپنی حفاظت میں پر اعتماد ہوں گے۔ مثال کے طور پر اب سائبر سیکیورٹی کا معاملہ ہی لے لیں۔ اب وہ بھی جنگی ہتھیار بن چکا ہے۔ اور یہ صرف ڈجیٹل سرگرمی تک محدود نہیں ہے۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔
ساتھیوں،
آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ دفاعی شعبے میں ہمیشہ کس قسم کی مسابقت رہتی ہے۔ پہلے زمانے میں جو سامان باہر کی کمپنیوں سے خریدا جاتا تھا اس پر اکثر طرح طرح کے الزامات لگتے تھے۔ میں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہر خریداری تنازعہ کا باعث بنی۔ مختلف صنعت کاروں کے درمیان مسابقت کی وجہ سے دوسروں کی مصنوعات کو نیچا دکھانے کی مہم مسلسل جاری ہے۔ اور اسی وجہ سے ابہام بھی پیدا ہوتا ہے، خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں اور کرپشن کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ کون سا ہتھیار اچھا ہے، کون سا ہتھیار برا ہے، کون سا ہتھیار ہمارے لیے کارآمد ہے، کون سا ہتھیار مفید نہیں۔ اس کے بارے میں بھی کافی ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ یہ کارپوریٹ دنیا کی جنگ کا حصہ ہے۔ ہمیں آتم نربھر بھارت مہم کے ذریعے ایسے بہت سے مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔
ساتھیوں،
ہماری آرڈیننس فیکٹریاں اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ جب ہم پورے اخلاص کے ساتھ عزم کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمارے دفاع کے سکریٹری نے ابھی اس کی بڑی تفصیل پیش کی ہے۔ پچھلے سال سے پہلے، ہم نے 7 نئے ڈیفنس پبلک انڈرٹیکنگس بنائے تھے۔ آج وہ تیزی سے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں، نئی منڈیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ایکسپورٹ آرڈرز بھی لیے جا رہے ہیں۔ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ گزشتہ 5 سے 6 سالوں میں ہم نے دفاعی برآمدات میں 6 گنا اضافہ کیا ہے۔ آج ہم 75 سے زیادہ ممالک کو میڈ ان انڈیا دفاعی ساز و سامان اور خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ میک ان انڈیا کے لیے حکومت کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں، پچھلے 7 سالوں میں دفاعی مینوفیکچرنگ کے لیے 350 سے زیادہ نئے صنعتی لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ جبکہ 2001 سے 2014 تک چودہ سالوں میں صرف 200 لائسنس جاری کیے گئے تھے۔
ساتھیوں،
پرائیویٹ سیکٹر کو بھی DRDO اور دفاعی PSUs کے برابر آنا چاہیے، اس لیے دفاعی R&D بجٹ کا 25 فیصد صنعت، اسٹارٹ اپس اور اکیڈمیا کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ بجٹ میں اسپیشل پرپز وہیکل ماڈل کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ یہ نجی صنعت کے کردار کو صرف ایک وینڈر یا سپلائر سے آگے ایک پارٹنر کے طور پر قائم کرے گا۔ ہم نے خلائی اور ڈرون کے شعبوں میں بھی نجی شعبے کے لیے نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔ اتر پردیش اور تمل ناڈو کے دفاعی کوریڈورز اور پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے ساتھ ان کے انضمام سے ملک کے دفاعی شعبے کو مطلوبہ طاقت ملے گی۔
ساتھیوں،
ایک متحرک دفاعی صنعت کی ترقی کے لیے ٹرائل، ٹیسٹنگ اور سرٹیفیکیشن کا شفاف، وقت پابند، عملی اور منصفانہ نظام بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک آزاد نظام مسائل کے حل میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ملک میں مطلوبہ مہارت کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی۔
ساتھیوں،
آپ سب سے ملک کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بحث سے دفاعی شعبے میں خود انحصاری کی نئی راہیں کھلیں گی۔ میں آج تمام اسٹیک ہولڈرز سے سننا چاہتا ہوں، ہم آپ لوگوں کو لمبی تقریریں نہیں کرنا چاہتے۔ یہ دن آپ کے لیے ہے۔ آپ عملی چیزیں لے کر آئیں، بتائیں۔ اب بجٹ طے پا گیا ہے، یکم اپریل سے نیا بجٹ لاگو ہونے جا رہا ہے، ہمارے پاس تیاری کے لیے یہ پورا مہینہ ہے۔ آئیے اتنی تیزی سے کام کریں کہ یکم اپریل سے چیزیں زمین پر اترنے لگیں۔ ہم نے ایک ماہ کا بجٹ تیار کرنے کا طریقہ بھی تیار کیا ہے۔ اس کے پیچھے مقصد یہ بھی ہے کہ بجٹ کے حقیقی نفاذ سے پہلے تمام محکموں، اسٹیک ہولڈرز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کی تیاری کا پورا موقع ملنا چاہیے، تاکہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ یہ حب الوطنی کا عمل ہے۔ یہ قوم کی خدمت کا کام ہے۔ آئیں، منافع کب ہوگا، کتنا ہوگا، بعد میں سوچیں، پہلے سوچیں کہ ہم ملک کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ آج ہماری فوج، ہماری فوج کے تینوں شعبے ان کاموں میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ بھر پور پہل کر رہے ہیں، حوصلہ دے رہے ہیں۔ اب ہماری پرائیویٹ پارٹی والوں کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں آپ کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہوں۔
میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں! شکریہ!