اس پروگرام میں موجود چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ جی، جسٹس جناب سنجیو کھنہ جی، جسٹس بی آر گوی جی، ملک کے وزیر قانون ارجن رام میگھوال جی، اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی جی، سپریم کورٹ بار کونسل کے چیئرمین کپل سبل جی ، بار کونسل آف انڈیا کے صدر بھائی منن کمار مشرا جی، سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان، ڈسٹرکٹ جج صاحبان، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
آپ لوگ اتنے سنجیدہ ہیں، تو اس سے مجھے لگتا ہے کہ یہ تقریب بھی بہت سنجیدہ ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے میں راجستھان ہائی کورٹ کی پلاٹینم جوبلی تقریب میں گیا تھا۔ اور، آج سپریم کورٹ کے 75 سال کے سفر کو یادگار بنانے کے لیے ضلعی عدلیہ کی قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے 75 سال، یہ صرف ایک ادارے کا سفر نہیں ہے۔ یہ ہے ہندوستان کے آئین اور آئینی اقدار کا سفر! یہ ہے ہندوستان کا جمہوریت کے طور پر مزید پختہ ہونے کا سفر! اور اس سفر میں ہمارے آئین سازوں اور عدلیہ کے بہت سے دانشوروں کا تعاون بہت اہم رہا ہے۔ اس میں نسل در نسل ان کروڑوں ہم وطنوں کا بھی حصہ ہے، جنہوں نے ہر حال میں عدلیہ پر اپنا اعتماد قائم رکھا۔ ہندوستانی عوام نے سپریم کورٹ، ہماری عدلیہ پر کبھی بھی عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ لہٰذا، سپریم کورٹ کے یہ 75 سال ہندوستان کی مادر جمہوریت کے طور پر فخر میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے ثقافتی نعرے کو تقویت ملتی ہے جو کہتا ہے – ستیہ میو جیتے، نانریتم۔ اس وقت ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر کے آئین کی 75ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ تو اس موقع پر بھی فخر، عزت اور حوصلہ بھی ہے۔ میں آپ تمام ماہرین قانون اور تمام اہل وطن کو اس موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر میں آپ سب ضلعی عدلیہ کی قومی کانفرنس کی اہم تقریب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
دوستو
ہماری جمہوریت میں عدلیہ کو آئین کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہماری عدلیہ نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھانے کی کوشش کی ہے۔ آزادی کے بعد ایمرجنسی جیسے تاریک دور میں بھی عدلیہ نے انصاف کے جذبے کا تحفظ کیا۔ پھر عدلیہ نے آئین کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔ جب بنیادی حقوق پر حملہ ہوا تو سپریم کورٹ نے ان کا بھی تحفظ کیا۔ اور یہی نہیں، جب بھی ملکی سلامتی کا سوال آیا، عدلیہ نے قومی مفاد کو سب سے اوپر رکھتے ہوئے ہندوستان کے اتحاد کا بھی تحفظ کیا۔ ان تمام کامیابیوں کے درمیان میں آپ تمام دانشوروں کو ان یادگار 75 سالوں کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو
گزشتہ 10 سالوں میں ملک نے انصاف کی رسائی کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔ عدالتوں کی جدید کاری کے لیے مشن کی سطح پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس میں سپریم کورٹ اور عدلیہ کے تعاون نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج ضلعی عدلیہ کا یہ پروگرام بھی اس کی ایک اور مثال ہے۔ اس سے پہلے، جیسا کہ کچھ لوگوں نے یہاں ذکر کیا، سپریم کورٹ اور گجرات ہائی کورٹ نے مشترکہ طور پر "آل انڈیا ڈسٹرکٹ کورٹ ججز کانفرنس" کا اہتمام کیا تھا۔ انصاف کی آسانی کے لیے ایسے واقعات بہت اہم ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں بھی اگلے دو دنوں میں بہت سے اہم معاملات پر بات ہوگی۔ زیر التواء مقدمات کا انتظام، انسانی وسائل اور قانونی برادری کی بہتری ۔ آپ نے تمام اہم موضوعات پر بحث کے لیے طے کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان سب کے ساتھ ساتھ اگلے دو دنوں میں جوڈیشل ویلنس پر بھی ایک سیشن کا انعقاد کیا جائے گا ۔ ذاتی تندرستی... سماجی بہبود اولین ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں اپنے ورک کلچر میں صحت کو ترجیح دینے میں مدد ملے گی۔
دوستو
ہم سب جانتے ہیں کہ آج آزادی کے سنہری دور میں 140 کروڑ ہم وطنوں کا ایک ہی خواب ہے - ترقی یافتہ ہندوستان، نیا ہندوستان! نیو انڈیا کا مطلب ہے سوچ اور عزم کے ساتھ جدید ہندوستان! ہماری عدلیہ اس وژن کا ایک مضبوط ستون ہے۔ خصوصاً ہماری ضلعی عدلیہ۔ ضلعی عدلیہ ہندوستانی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔ ملک کا عام شہری انصاف کے لیے سب سے پہلے آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اس لیے یہ انصاف کا پہلا مرکز ہے، یہ پہلا قدم ہے۔ ملک کو ہر لحاظ سے قابل اور جدید بنانا اس کی ترجیح ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ قومی کانفرنس اور اس میں ہونے والی بات چیت سے ملک کی توقعات پر پورا اترنے میں مدد ملے گی۔
دوستو
کسی بھی ملک میں ترقی کا اگر کوئی سب سے زیادہ معنی خیز پیمانہ ہے تو وہ عام آدمی کا معیار زندگی ہے۔ ایک عام آدمی کا معیار زندگی اس کی آسانی سے طے ہوتا ہے۔ نیز ، سادہ اور آسان انصاف زندگی میں آسانی کی ایک لازمی شرط ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہماری ضلعی عدالتیں جدید انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوں گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج تقریباً 4.5 کروڑ مقدمات ضلعی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ انصاف میں اس تاخیر کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ دہائی میں کئی سطحوں پر کام کیا گیا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں ملک نے جوڈیشل انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے تقریباً 8 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ آپ کو ایک اور حقیقت جان کر خوشی ہوگی… پچھلے 25 سالوں میں جوڈیشل انفراسٹرکچر پر خرچ کی گئی رقم کا 75 فیصد صرف پچھلے 10 سالوں میں خرچ کیا گیا ہے۔ ان 10 سالوں میں ضلعی عدلیہ کے لیے ساڑھے 7 ہزار سے زائد کورٹ ہال اور 11 ہزار رہائشی یونٹ تیار کیے گئے ہیں۔
دوستو
جب بھی میں قانونی برادری کے درمیان آتا ہوں تو یہ بہت فطری بات ہے کہ ای کورٹس کا موضوع آتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس مداخلت/ اختراع نے نہ صرف عدالتی عمل کو تیز کیا ہے... یہ وکلاء سے لے کر شکایت کنندگان تک ہر کسی کے مسائل کو بھی کم کر رہا ہے۔ آج ملک میں عدالتوں کی ڈیجیٹل کاری کی جا رہی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، سپریم کورٹ کی ای کمیٹی ان تمام کوششوں میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
دوستو
گزشتہ سال ای کورٹس منصوبے کے تیسرے مرحلے کی بھی منظوری دی گئی تھی۔ ہم ایک متحدہ ٹیکنالوجی پلیٹ فارم بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کے تحت مصنوعی ذہانت، آپٹیکل کریکٹر ریکگنیشن جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ ہم زیر التواء مقدمات کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے مقدمات کی پیشین گوئی بھی کر سکیں گے۔ پولیس، فرانزک، جیل اور عدالت… ٹیکنالوجی ان کو مربوط کرے گی اور ان کے کام کو بھی تیز کرے گی۔ ہم ایک ایسے نظام انصاف کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مستقبل میں مکمل طور پر تیار ہوگا۔
دوستو
آپ جانتے ہیں کہ بڑی تبدیلیوں میں بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اصول، پالیسیاں اور ارادے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے آزادی کی 7 دہائیوں کے بعد پہلی بار ملک نے ہمارے قانونی ڈھانچے میں اتنی بڑی اور اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ ہمیں انڈین جوڈیشل کوڈ کی شکل میں ایک نیا ہندوستانی عدالتی آئین ملا ہے۔ ان قوانین کی روح ہے - ' شہری پہلے ، وقار پہلے اور انصاف پہلے'۔ ہمارے فوجداری قوانین حکمرانوں اور غلاموں کی استعماری سوچ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ سیڈیشن جیسے انگریزی قوانین کو ختم کر دیا گیا ہے۔ شہریوں کو سزا دینا جسٹس کوڈ کا واحد خیال نہیں ہے۔لیکن ہمیں شہریوں کو تحفظ بھی فراہم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم پر سخت قوانین بنائے گئے ہیں… دوسری طرف پہلی بار معمولی جرائم کی سزا کے طور پر کمیونٹی سروس کا انتظام کیا گیا ہے۔ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل ریکارڈ کو بھی انڈین ایویڈینس ایکٹ کے تحت ثبوت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ انڈین سول ڈیفنس کوڈ کے تحت الیکٹرانک موڈ میں سمن بھیجنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس سے عدلیہ پر زیر التواء مقدمات کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ میری گزارش ہوگی کہ سپریم کورٹ کی رہنمائی میں اس نئے نظام میں ضلعی عدلیہ کی تربیت کے لیے نئے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ ہمارے جج صاحبان اور وکلا کے ساتھی بھی اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس نئے نظام سے عوام کو آگاہ کرنے میں ہمارے وکلاء اور بار ایسوسی ایشن کا اہم کردار ہے۔
دوستو
میں آپ کے سامنے ملک اور معاشرے کا ایک اور سلگتا ہوا مسئلہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ آج خواتین کے خلاف مظالم اور بچوں کی حفاظت معاشرے کی سنگین تشویش ہے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے ملک میں کئی سخت قوانین بنائے گئے ہیں۔ 2019 میں حکومت نے فاسٹ ٹریک خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے تحت اہم گواہوں کے لیے ڈیپوزیشن سینٹر کا انتظام ہے۔ اس میں ضلعی مانیٹرنگ کمیٹیوں کا کردار بھی اہم ہو سکتا ہے۔ اس کمیٹی میں ڈسٹرکٹ جج، ڈی ایم اور ایس پی بھی شامل ہیں۔ فوجداری نظام انصاف کے مختلف پہلوؤں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں ان کا کردار اہم ہے۔ ہمیں ان کمیٹیوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم سے متعلق مقدمات میں جتنی تیزی سے فیصلے کیے جائیں گے، نصف آبادی کو تحفظ کی اتنی ہی زیادہ یقین دہانی حاصل ہوگی۔
دوستو
مجھے یقین ہے کہ یہاں ہونے والی بحث سے ملک کے لیے قیمتی حل نکلے گا اور 'سب کے لیے انصاف' کا راستہ مضبوط ہوگا۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو اس امید کے ساتھ اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں کہ اس مقدس تقریب اور اجتماع اور غور و فکر سے امرت ضرور نکلے گا۔