India has emerged as the nerve centre of global health: PM Modi
The last day of 2020 is dedicated to all health workers who are putting their lives at stake to keep us safe: PM Modi
In the recent years, more people have got access to health care facilities: PM Modi

نمسکار!

کیم چھے، گجرات میں ٹھنڈی وَنڈی چھے  کہ نہیں، گجرات کے گورنر آچاریہ دیب ورت جی، وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، اسمبلی کے اسپیکر جناب راجیندر ترویدی، مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن جی، ڈپٹی سی ایم بھائی نتن پٹیل جی، کابینہ میں میرے ساتھی جناب اشونی چوبے جی، من سکھ بھائی مانڈویا جی، پرشوتم روپالا جی، گجرات سرکار میں وزیر جناب بھوپیندر سنگھ چوڑاسما جی، جناب کشور کنانی جی، دیگر تمام وزراء، اراکین پارلیمنٹ، دیگر تمام حضرات۔

بھائیوں اور بہنوں،

نیا سال دستک دے رہا ہے۔ آج ملک کے میڈیکل انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے والی ایک اور کڑی جڑ رہی ہے۔ راجکوٹ میں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا سنگ بنیاد گجرات کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں صحت اور میڈیکل ایجوکیشن کے نیٹ ورک کو اس کے سبب تقویت ملے گی۔ بھائیوں اور بہنوں، سال 2020 کو ایک نئی نیشنل ہیلتھ فیسیلٹی کے ساتھ وداع کرنا، اس سال کی چنوتیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے اور نئے سال کی ترجیحات کو بھی واضح کرتا ہے۔ یہ سال پوری دنیا کے لیے صحت کے طور پر غیر معمولی چنوتیوں کا سال رہا ہے۔ اس سال نے دکھایا ہے کہ صحت ہی دولت ہے، یہ کہانی ہمارے اجداد نے کیوں سکھائی ہے، یہ ہمیں بار بار کیوں رٹایا گیا ہے یہ 2020 نے ہمیں بخوبی سکھا دیا ہے۔ صحت پر جب چوٹ ہوتی ہے تو زندگی کا ہر پہلو بری طرح متاثر ہوتا ہے اور صرف فیملی ہی نہیں پورا معاشرتی دائرہ اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور اس لیے سال کا یہ آخری دن بھارت کے ان لاکھوں ڈاکٹروں، صحت کے جانبازوں، صفائی ملازمین، دو کی دکانوں میں کام کرنے والے اور دوسرے فرنٹ لائن کورونا جانبازوں کو یاد کرنے کا ہے، جو انسانیت کی حفاظت کے لیے لگاتار اپنی زندگی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ فرائض کی راہ پر جن ساتھیوں نے اپنی زندگی قربان کر دی ہے، میں آج ان تمام کو ادب و احترام کے ساتھ سلام کرتا ہوں۔ آج ملک ان ساتھیوں کو، ان سائنسدانوں کو، ان ملازمین کو بھی بار بار یاد کر رہا ہے، جو کورونا سے لڑائی کے لیے ضروری میڈیکل انفراسٹرکچر تیار کرنے میں دن رات مصروف رہے ہیں۔ آج کا دن ان تمام ساتھیوں کی پذیرائی کا ہے جنہوں نے اس مشکل دور میں غریب تک کھانا اور دیگر سہولیات پہنچانے میں پوری ایمانداری کے ساتھ کام کیا۔ اتنا لمبا عرصہ، اتنی بڑی آفت، لیکن یہ معاشرہ کی منظم مجموعی طاقت، سماج کا خدمت کرنے کا جذبہ، سماج کی حساسیت اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم وطنوں نے کسی غریب کو بھی اس مشکل بھرے دنوں میں رات کو بھوکا سونے نہیں دیا۔ یہ سب سلامی کے مستحق ہیں، عزت و احترام کے مستحق ہیں۔

ساتھیوں،

مشکل بھرے اس سال نے دکھایا ہے کہ بھارت جب متحد ہوتا ہے تو مشکل سے مشکل بحران کا سامنا کتنے مؤثر طریقے سے کر سکتا ہے۔ بھارت نے اتحاد کے ساتھ جس طرح وقت پر مؤثر قدم اٹھائے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم بہت بہتر حالت میں ہیں۔ جس ملک میں 130 کروڑ سے زیادہ لوگ ہوں، کثیر آبادی ہو، وہاں تقریباً ایک کروڑ لوگ اس بیماری سے لڑ کر جیت چکے ہیں۔ کورونا سے متاثر ساتھیوں کو بچانے کا بھارت کا ریکارڈ دنیا سے بہت بہتر رہا ہے۔ وہیں اب بحران کے معاملے میں بھی بھارت لگاتار نیچے کی طرف جا رہا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

سال 2020 میں بحران کی مایوسی تھی، تشویشیں تھیں، چاروں طرف سوالیہ نشان تھے 2020 کی وہ پہچان بن گئی لیکن 2021 علاج کی امید لیکر آ رہا ہے۔ ویکسین کو لیکر بھارت میں ہر ضروری تیاریاں چل رہی ہیں۔ بھارت میں بنی ویکسین تیزی سے ہر ضروری طبقہ تک پہنچے، اس کے لیے کوششیں آخری مرحلے میں ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم چلانے کے لیے بھارت کی تیاری زوروں پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح گزشتہ سال وبائی امراض سے روکنے کے لیے ہم نے متحد ہوکر کوشش کی، اسی طرح ٹیکہ کاری کو کامیاب بنانے کے لیے بھی پورا بھارت متحد ہوکر آگے بڑھے گا۔

ساتھیوں،

گجرات میں بھی وبائی مرض کو روکنے کے لیے اور اب ٹیکہ کاری کے لیے تیاریوں کو لیکر قابل تعریف کام ہوا ہے۔ گزشتہ 2 دہائیوں میں جس قسم کا میڈیکل انفراسٹرکچر گجرات میں تیار ہوا ہے، وہ ایک بڑی وجہ ہے کہ گجرات کورونا چنوتی سے بہتر طریقے سے نمٹ پا رہا ہے۔ ایمس راجکوٹ گجرات کے ہیلتھ نیٹ ورک کو اور مضبوط کرے گا، تقویت بخشے گا۔ اب سنگین سے سنگین بیماریوں کے لیے راجکوٹ میں ہی جدید سہولت دستیاب ہو رہی ہے۔ علاج اور تعلیم کے علاوہ اس سے روزگار کے بھی متعدد مواقع تیار ہوں گے۔ نئے اسپتال میں کام کرنے والے تقریباً 5 ہزار بلاواسطہ روزگار دستیاب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بودوباش، کھانا پینا، ٹرانسپورٹ، دیگر طبی سہولیات سے وابستہ دیگر بالواسطہ روزگار بھی یہاں بنیں گے اور ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں بڑا اسپتال ہوتا ہے اس کے باہر ایک چھوٹا شہر ہی بس جاتا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

میڈیکل سیکٹر میں گجرات کی اس کامیابی کے پیچھے دو دہائیوں کی مسلسل کوشش ہے، عزم و حوصلہ ہے۔ گزشتہ 6 سالوں میں پورے ملک میں جس علاج اور میڈیکل ایجوکیشن کو لیکر جس پیمانے پر کام ہوا ہے، اس کا یقینی فائدہ گجرات کو بھی حاصل ہو رہا ہے۔

ساتھیوں،

بڑے اسپتالوں کی حالت، ان پر دباؤ سے آپ بھی اچھی طرف واقف ہیں۔ حالت یہ تھی کہ آزادی کی اتنی دہائیوں بعد بھی ملک میں صرف 6 ایمس ہی بن پائے تھے۔ 2003 میں اٹل جی کی سرکار نے 6 مزید ایمس بنانے کے لیے قدم اٹھائے تھے۔ ان کے بناتے بناتے 2012 آ گیا تھا، یعنی 9 سال لگ گئے تھے۔ گزشتہ 6 سالوں میں 10 نئے ایمس بنانے پر کام شروع ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی آج پوری طرح سے کام شروع کر چکے ہیں۔ ایمس کے ساتھ ساتھ ملک میں 20 ایمس جیسے ہی سپر اسپیشیلٹی ہاسپیٹلز کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے۔

ساتھیوں،

سال 2014 سے پہلے ہمارا ہیلتھ سیکٹر الگ الگ سمت میں، الگ الگ اپروچ کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ پرائمری ہیلتھ کیئر کا اپنا سسٹم تھا۔ گاؤوں میں سہولیات نہ کے برابر تھیں۔ ہم نے ہیلتھ سیکٹر میں ہولسٹک طریقے سے کام کرنا شروع کیا۔ ہم نے جہاں ایک طرف پریونٹو کیئر پر زور دیا وہیں علاج کی جدید سہولیات کو بھی ترجیح دی۔ ہم نے جہاں غریب کاعلاج پر ہونے والا خرچ کم کیا، وہیں اس بات پر بھی زور دیا کہ ڈاکٹروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو۔

ساتھیوں،

آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت ملک بھر کے دور دراز کے علاقوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر بنانے کے لیے کام تیزی سے چل رہا ہے۔ ابھی تک ان میں سے 50 ہزار سینٹر خدمات فراہم کرنا شروع بھی کر چکے ہیں، جس میں تقریباً 5 ہزار گجرات میں ہی ہیں۔ اس اسکیم سے اب تک ملک کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج ملا ہے۔ اس اسکیم نے غریب بھائی بہنوں کی کتنی بڑی مدد کی ہے اس کے لیے ایک ڈیٹا میں ملک کو بتانا چاہتا ہوں۔

ساتھیوں،

آیوشمان بھارت یوجنا سے غریبوں کے تقریباً 30 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بچے ہیں۔ 30 ہزار کروڑ روپے یہ بہت بڑی رقم ہے۔ آپ سوچئے، اس اسکیم نے غریبوں کو کتنی بڑی مالی فکر سے آزاد کیا ہے۔ کینسر ہو، امراض قلب ہو، کڈنی کی پریشانی ہو، متعدد سنگین بیماریوں کا علاج، میرے ملک کے غریبوں نے مفت کرایا ہے اور وہ بھی اچھے اسپتالوں میں۔

ساتھیوں،

بیماری کے دوران، غریبوں کا ایک اور ساتھی ہے – جن اوشدھی کیندر۔ ملک میں تقریباً 7 ہزار جن اوشدھی کیندر، غریبوں کو بہت ہی کم قیمت پر دوائیں مہیا کرا رہے ہیں۔ ان جن اوشدھی کیندروں پر دوائیں تقریباً 90 فیصد تک سستی ہوتی ہیں۔ یعنی سو روپے کی دوائی دس روپے میں ملتی ہے۔ ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ غریب مریض، ہر روز ان جن اوشدھی کیندروں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان مراکز کی سستی دواؤں کی وجہ سے غریبوں کے ہر سال اوسطاً 3600 کروڑ روپے خرچ ہونے سے بچ رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بڑی مدد ہو رہی ہے۔ ویسے کچھ لوگوں کے ذہن میں سوال اٹھ سکتا ہے کہ آخر سرکار علاج کا خرچ کم کرنے، دواؤں پر ہونے والے خرچ کو کم کرنے پر اتنا زور کیوں دے رہی ہے؟

ساتھیوں،

ہم سے اکثر، اسی پس منظر سے نکلے لوگ ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ میں علاج کا خرچ ہمیشہ سے بہت بڑی تشویش رہی ہے۔ جب کسی غریب کو سنگین مرض ہوتا ہے، تو اس بات کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا علاج کرائے ہی نہیں۔ علاج کے لیے پیسے نہ ہونا، گھر کے دیگر اخراجات، اپنی ذمہ داریوں کی فکر، آدمی کے برتاؤ میں یہ تبدیلی لا ہی دیتی ہے اور ہم نے دیکھا ہے جب غریب بیمار ہو جاتا ہے، پیسے نہیں ہوتے ہیں تو وہ کیا کرتا ہے ڈورے- دھاگے کی دنیا میں چلا جاتا ہے، پوجا پاٹ کی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ اس کو لگتا ہے شاید وہیں سے بچ جاؤں گا لیکن وہ اس لیے جاتا ہے کہ اس کے پاس صحیح جگہ پر جانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، غریبی اس کو پریشان کر رہی ہے۔

ساتھیوں،

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو برتاؤ پیسے کی کمی کی وجہ سے بدلتا ہے، وہی برتاؤ جب غریب کے پاس ایک محفوظ ڈھانچہ ہوتا ہے، تو وہ ایک خود اعتمادی میں بدل جاتا ہے۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت غریبوں کا علاج لوگوں کی اس فکر، اس برتاؤ کو بدلنے میں کامیاب رہا ہے۔ جس میں وہ پیسے کی کمی کی وجہ سے اپنا علاج کرانے اسپتال جاتے ہی نہیں تھے۔ اور کبھی کبھی تو میں نے دیکھا ہے کہ گھر کے جو بزرگ ہیں زیادہ بزرگ نہیں 50-45 سال کی عمر، بڑے آدمی وہ اس لیے دوائی نہیں کراتے وہ کہتے ہیں قرض ہو جائے گا تو سارا قرض بچوں کو دینا پڑے گا اور بچے برباد ہو جائیں گے۔ بچوں کی زندگی برباد نہ ہو اس لیے کئی ماں باپ زندگی بھر درد جھیلتے ہیں اور درد میں ہی مرتے ہیں۔ کیوں کہ قرض نہ ہو، درد جھیلیں لیکن بچوں کے نصیب میں قرض نہ آئے اس لیے وہ ٹریٹمنٹ نہیں کراتے ہیں۔ خاص کر یہ بھی صحیح ہے کہ پرائیویٹ اسپتال جانے کی تو غریب پہلے کبھی سوچ ہی نہیں پاتا تھا۔ آیوشمان بھارت کے بعد اب یہ بھی بدل رہا ہے۔

ساتھیوں،

اپنی صحت کی حفاظت کا احساس، علاج کے لیے پیسے کی اتنی فکر کا نہ ہونا، اس نے سماج کی سوچ کو بدل دیا ہے اور ہم اس کے نتیجے بھی دیکھ رہے ہیں۔ آج ہیلتھ اور ویلنیس کو لیکر ایک بیداری آئی ہے، سنجیدگی آئی ہے۔ اور یہ صرف شہروں میں ہو رہا ہو، ایسا نہیں ہے۔ دور دراز کے ہمارے ملک کے گاؤوں میں بھی یہ بیداری ہم دیکھ رہے ہیں۔ برتاؤ میں تبدیلی کی ایسی مثالیں دیگر شعبوں میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ جیسے بیت الخلا کی دستیابی نے، لوگوں کو صاف صفائی کے لیے مزید بیدار کیا ہے۔ ہر گھر میں پانی کی مہم لوگوں کو صاف پانی کو یقینی بنا رہی ہے، پانی سے ہونے والی بیماریوں کو کم کر رہی ہے۔ باورچی خانہ میں گیس پہنچنے کے بعد نہ صرف ہماری بہنوں بیٹیوں کی صحت بہتر ہو رہی ہے بلکہ پوری فیملی میں ایک مثبت سوچ آئی ہے۔ ایسے ہی پردھان منتری سرکشِت ماترتو ابھیان نے حاملہ عورتوں کو ریگولر چیک اپ کے لیے آمادہ کیا ہے۔ اور چیک اپ کے سبب ان کو پہلے ہی سنگینی سے آگاہ کر دیا جاتا ہے اس کا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ حمل کے دوران جو پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ہیں، وہ جلدی پکڑ میں آتے ہیں اور ان کا وقت پر علاج بھی ہوتا ہے۔ وہیں پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا کے ذریعہ یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ حاملہ عورتوں کو مناسب غذا ملے، دیکھ بھال ملے۔ پوشن ابھیان نے بھی ان میں بیداری بڑھائی ہے۔ ان تمام کوششوں کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ملا ہے کہ ملک میں زچہ کی شرح اموات پہلے کے مقابلے کافی کم ہو رہی ہے۔

ساتھیوں،

صرف نتیجہ پر ہی فوکس کرنا کافی نہیں ہوتا ہے۔ اِمپیکٹ اہم ہے، لیکن نفاذ بھی اتنا ہی اہم ہے اور اس لیے، میں سمجھتا ہوں کہ برتاؤ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے طریقہ عمل میں اصلاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک ہیلتھ سیکٹر میں جہاں زمینی سطح پر تبدیلی آ رہی ہے، اور لوگوں کو جو سب سے بڑی چیز ملی ہے وہ ہے ایکسیس، طبی سہولیات تک ان کی رسائی۔ اور میں صحت اور تعلیم کے ماہرین سے آج یہ بھی اپیل کروں گا کہ وہ سرکار کی ان اسکیموں کا، بیٹیوں کی تعلیم پر جو اثر پڑا ہے، اس کا ضرور مطالعہ کریں۔ یہ اسکیمیں، یہ بیداری، ایک بڑی وجہ ہے جو اسکولوں میں بیٹیوں کے ڈراپ آؤٹ ریٹ میں کمی لا رہی ہے۔

ساتھیوں،

ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کو فروغ دینے کے لیے بھی مشن موڈ پر کام چل رہا ہے۔ میڈیکل ایجوکیشن کے مینجمنٹ سے جڑے اداروں میں اصلاحات کیے۔ روایتی ہندوستانی طریقہ علاج سے متعلق تعلیم میں بھی ضروری اصلاحات کیے۔ نیشنل میڈیکل کمیشن بننے کے بعد ہیلتھ ایجوکیشن میں معیار بھی بہتر ہوگا اور مقدار کو لیکر بھی پیش رفت ہوگی۔ گریجویٹس کے لیے نیشنل ایگزٹ ٹیسٹ اس کے ساتھ ساتھ 2 سال کا پوسٹ ایم بی بی ایس ڈپلومہ ہو، یا پھر پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کے لیے ڈسٹرکٹ ریزیڈنسی اسکیم ہو، ایسے نئے قدموں سے ضرورت اور معیار دونوں سطح پر کام کیا جا رہا ہے۔

ساتھیوں،

ہدف یہ ہے کہ ہر ریاست تک ایمس پہنچے اور ہر 3 لوک سبھا حلقہ کے درمیان میں ایک میڈیکل کالج ضرور ہو۔ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ 6 سال میں ایم بی بی ایس میں 31 ہزار نئی سیٹیں اور پوسٹ گریجویٹ میں 24 ہزار نئی سیٹیں بڑھائی گئی ہیں۔ ساتھیوں، ہیلتھ سیکٹر میں بھارت زمینی سطح پر بڑی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر 2020 ہیلتھ چیلنجز کا سال تھا، تو 2021 ہیلتھ سالیوشنز کا سال ہونے والا ہے۔ 2021 میں دنیا، صحت کو لیکر اور زیادہ بیدار ہوکر حل کی طرف بڑھے گی۔ بھارت نے بھی جس طرح 2020 میں ہیلتھ چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا تعاون دیا ہے، وہ دنیا نے دیکھا ہے۔ میں نے شروع میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔

ساتھیوں،

بھارت کا یہ تعاون 2021 میں ہیلتھ سالیوشنز کے لیے، سالیوشنز کی اسکیلنگ کے لیے اہم ہونے والا ہے۔ بھارت، فیوچر آف ہیلتھ اور ہیلتھ آف فیوچر، دونوں میں ہی سب سے اہم رول نبھانے جا رہا ہے۔ یہاں دنیا کو کامپیٹنٹ میڈیکل پروفیشنلز بھی ملیں گے، ان کے اندر خدمت کا جذبہ بھی ملے گا۔ یہاں، دنیا کو ماس امیونائزیشن کا تجربہ بھی ملے گا اور ایکسپرٹائز بھی ملے گی۔ یہاں دنیا کو ہیلتھ سالیوشنز اور ٹیکنالوجی کو انٹیگریٹ کرنے والے اسٹارٹ اپس اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم بھی ملے گا۔ یہ اسٹارٹ اپس ہیلتھ کیئر کو قابل رسا بھی بنا رہے ہیں اور ہیلتھ آؤٹ کمز کو بہتر بھی کر رہے ہیں۔

ساتھیوں،

آج ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ بیماریاں اب کیسے گلوبلائزڈ ہو رہی ہیں۔ اس لیے، یہ وقت ہے کہ ہیلتھ سالیوشنز بھی گلوبلائزڈ ہوں، دنیا ایک ساتھ آکر کوشش کرے، ریسپانڈ کرے۔ آج الگ تھلگ کوشش، سیلوس میں کام کرنا، یہ راستہ کام آنے والا نہیں ہے۔ راستہ ہے سب کو ساتھ لیکر چلنا، سب کے لیے سوچنا اور بھارت آج ایک ایسا گلوبل پلیئر ہے جس نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ بھارت نے ڈیمانڈ کے مطابق، ’اَڈیپٹ، ایوالو اینڈ ایکسپینڈ‘ کرنے کی اپنی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ آگے بڑھے، اجتماعی کوششوں میں قدر میں اضافہ کیا، اور ہر چیز سے اوپر اٹھ کر ہم نے صرف انسانیت کو مرکز میں رکھا، انسانیت کی خدمت کی۔ آج بھارت کے پاس صلاحیت بھی ہے، اور خدمت کا جذبہ بھی ہے۔ اسی لیے، بھارت گلوبل ہیلتھ کا اعصابی مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ 2021 میں ہمیں بھارت کے اس رول کو مزید مضبوط کرنا ہے۔

ساتھیوں،

ہمارے یہاں کہتے ہیں- ’سروَم انیہ پرتیجیہ شریرم پال ییدتہ‘۔ یعنی سب سے بڑی ترجیح جسمانی صحت کی حفاظت ہی ہے۔ سب کچھ چھوڑ کر پہلے صحت کی ہی فکر کرنی چاہیے۔ نئے سال میں ہمیں اس منتر کو اپنی زندگی میں ترجیح کے ساتھ اتارنا ہے۔ ہم صحت مند رہیں گے تو ملک صحت مند رہے گا، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ فٹ انڈیا موومنٹ چل رہا ہے، وہ صرف نوجوانوں کے لیے ہے ایسا نہیں ہے، ہر عمر کے لوگ یہ فٹ انڈیا موومنٹ سے جڑنے چاہیے اور یہ موسم بھی فٹ انڈیا کے اپنے موومنٹ کو رفتار دینے کے لیے بہت اچھا ہے۔ کوئی فیملی ایسی نہ ہو چاہے یوگا کی بات ہو، چاہے فٹ انڈیا کی بات ہو، ہمیں اپنے آپ کو صحت مند رکھنا ہی ہوگا۔ بیمار ہونے کے بعد جو پریشانیاں ہوتی ہیں، صحت مند رہنے کے لیے اتنی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اوراس لیے فٹ انڈیا اس بات کو ہم ہمیشہ یاد رکھیں اپنے آپ کو فٹ رکھیں، اپنے ملک کو فٹ رکھیں، یہ بھی ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ راجکوٹ کے میرے پیارے بھائیوں بہنوں، گجرات کے میرے پیارے بھائیوں بہنوں یہ بات نہ بھولیں کہ کورونا وبائی مرض کم ضرور ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک ایسا وائرس ہے جو تیزی سے دوبارہ چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس لیے دو گز کی دوری، ماسک اور سینی ٹیشن کے معاملے میں ڈھیل بالکل بھی نہیں دینی ہے۔ نیا سال ہم سبھی کے لیے بہت خوشیاں لیکر آئے۔ آپ کے لیے اور ملک کے لیے نیا سال مبارک ہو۔ لیکن میں یہ بھی کہوں گا، میں پہلے کہتا تھا جب تک دوائی نہیں، تب تک ڈھیلائی نہیں، بار بار کہتا تھا۔ اب دوائی سامنے دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ ہی وقت کا سوال ہے تو بھی میں کہوں گا، پہلے میں کہتا تھا دوائی نہیں تو ڈھیلائی نہیں، لیکن اب میں پھر سے کہہ رہا ہوں، دوائی بھی اور کڑائی بھی۔ سختی بھی برتنی ہے اور دوائی بھی لینی ہے۔ دوائی آ گئی ہے تو سب چھوٹ مل گئی، یہ بھرم میں مت رہنا۔ دنیا یہی کہتی ہے، سائنسداں یہی کہتے ہیں اور اس لیے اب منتر رہے گا ہمارا 2021 کا، دوائی بھی اور کڑائی بھی۔

دوسری ایک بات ہمارے ملک میں افواہوں کا بازار ذرا تیز رہتا ہے۔ طرح طرح کے لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کبھی غیر ذمہ دارانہ برتاؤ کے لیے طرح طرح کی افواہیں پھیلاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے جب ویکسین کا کام شروع ہو تو بھی افواہوں کا بازار بھی اتنا ہی تیز چلے گا۔ کسی کو برا دکھانے کے لیے عام انسانیت کا کتنا نقصان ہو رہا ہے اس کی پرواہ کیے بغیر نہ جانے بے شمار خیالی جھوٹ پھیلائے جائیں گے۔ کچھ مقدار میں تو شروع بھی ہو چکے ہیں، اور بھولے بھالے غریب لوگ یا کچھ بد ارادے سے کام کرنے والے لوگ بڑے کنوِکشن کے ساتھ اس کو پھیلاتے ہیں۔ میری ملک کے لوگوں سے اپیل ہوگی کہ کورونا کے خلاف ایک انجان دشمن کے خلاف لڑائی ہے۔ افواہوں کے بازار گرم نہ ہونے دیں، ہم سبھی سوشل میڈیا پر کچھ بھی دیکھا، فارورڈ نہ کریں۔ ہم بھی ایک ذمہ دار شہری کے طور پر آنے والے دنوں میں ملک کے اندر صحت کی جو مہم چلے گی، ہم سب اپنی طرف سے تعاون دیں۔ سب اپنی طرف سے ذمہ داری اٹھائیں اور جن لوگوں کے لیے پہلے یہ بات پہنچانی ہے ان میں ہم پوری مدد کریں جیسے ہی ویکسین کا معاملہ آگے بڑھے گا ملک کے عوام کو وقت پر اس کی اطلاع ملے گی۔ میں پھر سے ایک بار 2021 کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।