بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
اسٹیج پر موجودگجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت جی، گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل جی، مرکز میں میرے ساتھی سی آر۔ پاٹل جی اور گجرات کے میرے بھائی اور بہن، اور آج خاص طور پر امریلی کےمیرے بھائی اور بہن۔
آگےدیوالی اور دھنتیرس دروازے پر دستک دے رہی ہے، یہ مبارک کاموں کا وقت ہے۔ ایک طرف ثقافت کا جشن ہے، دوسری طرف ترقی کا جشن ہے اور یہ ہندوستان کی نئی چھاپ ہے۔ وراثت اور ترقی کے اشتراک کا کام چل رہا ہے۔آج مجھے گجرات کی ترقی سے متعلق کئی پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ آج یہاں آنے سے پہلے میں وڈودرا میں تھا اور ہندوستان کی پہلی ایسی فیکٹری کا افتتاح ہوا ہے۔ ہمارے اپنے گجرات، ہمارے وڈودرا میں اور ہمارا امریلی گائیکواڑ کا ہے، اور وڈودرا بھی گایکواڑ کا ہے، اور اس افتتاح میں ہماری فضائیہ کے لیے میڈ اِن انڈیا طیارے بنانے کے لیے ایک فیکٹری کا افتتاح بھی شامل تھا۔ اتنا بولو کہ چھاتی پھٹ جائے کے نہیں۔ بولیئے ذرا امریلی والوں..... نہیں تو ہمارے روپالا کا ڈائرا پڑھنا پڑے گا۔اور یہاں آکربھارت ماتا سروورکاافتتاح کرنے کا موقع ملا۔ یہاں کے پلیٹ فارم سے پانی، سڑک، ریلوے کے کئی طویل المدتی پرجیکٹوں کا سنگ بنیادرکھااور افتتاح کیا گیا۔ یہ تمام پروجیکٹس سوراشٹراور کچھ کی زندگی کو آسان بنانے والے منصوبے ہیں۔ اور ایسے پروجیکٹس ہیں جو ترقی کو نئی رفتار دیتے ہیں۔ جن منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اور افتتاح کیا گیا ہے وہ ہمارے کسان بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں، زرعی کام کرنے والے لوگوں کی خوشحالی کے لیے ہیں اور ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار... اس کے لیے بہت سے مواقع کی بنیاد بھی یہی ہے۔ کچھ سوراشٹر، گجرات کے میرے سبھی بھائیوں۔بہنوں کو کئی پروجیکٹوں کے لیے میری نیک خواہشات۔
ساتھیوں،
سوراشٹر اور امریلی کی سرزمین یعنی اس سرزمین نے بہت سے جواہر دیےہیں۔ تاریخی، ثقافتی، ادبی اور سیاست ہرطرح سے امریلی کا ماضی قابل فخر رہا ہے۔یہ وہی سرزمین ہے، جس نے یوگی جی مہاراج دیے، یہ وہی سر زمین ہے، جس نے بھوجا بھگت دیے۔ اور گجرات کی عوامی زندگی میں شاید ہی کوئی ایسی شام ہوتی ہوگی، جب گجرات کے کسی کونے میں دولا بھیا کاگ کو یاد نہ کیا جاتا ہو۔ ایساایک بھی ڈائرا یا یا لوک کہانی نہیں ہوگی،جس میں کاگ باپو کی چرچا نہ ہو۔ اور آج وہ مٹی،جس پر آج بھی طلبہ زندگی سے لے کر زندگی کے خاتمہ تک رے پنکھیڑا سکھتھی چنجو کی .... کوی کلاپی اور شاید کالاپی کی یادگار نہ ہو اور شادید کلاپتی کی روح، شاید کلاپی کی روح آج مطمئن ہوگی کہ پانی آگیاتو .... رے پنکھیڑا سکھتھی چنجو، اس کے دن سنہرےآگئے ہیں۔ اور یہ امریلی ہے، یہ جادوئی سرزمین ہے۔ کے لال بھی یہیں سے آتے ہیں اور ہمارے رمیش بھائی پاریکھ،
جدید شاعری کے علمبردار اور گجرات کے پہلے وزیر اعلیٰ جیوراج بھائی مہتا کو یاد کرتے ہیں، انہیں بھی اس سرزمین نے دیا تھا۔یہاں کے بچوں نے نامساعد حالات کا سامنا کیا اور چیلنجز کا سامنا کیا۔ جولوگ قدرتی آفات کے سامنے جھکنے کی بجائے طاقت کا راستہ منتخب کرتے ہیں، وہ اسی سرزمین کے بچے ہیں۔اور اس میں سے کچھ صنعتکار نکلے ہیں۔ اس سرزمین نے ایسے جواہر دیے ہیں، جنہوں نے نہ صرف ضلع بلکہ گجرات اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اور معاشرے کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ہمارا ڈھولکیا خاندان بھی اسی عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ پانی کے لیےگجرات حکومت 80/20 منصوبہ اور عوامی شراکت، چیک ڈیم بنانا، کھیت تالاب بنانا، جھیلوںکو گہرا کرنا، جل مندر بنانا، تالاوڈی کھودنا، جو بھی کوشش.... مجھے یاد ہے جب میں وزیر اعلیٰ کے طور پر آل انڈیا میٹنگ میں جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہمیں اپنے گجرات کے بجٹ میں ایک بڑا حصہ پانی کے لیے خرچ کرنا ہوتا ہے تو ہندوستان کی کئی سرکاروں کے وزیر اعلیٰ، سربراہ میری جانب دیکھتے رہتے، جیسےیہ تمہیں کہاں سے ملا۔
میں نے ان سے کہا کہ میرے گجرات میں بہت سےپانی دار لوگ ہیں اور اگر ہمیں ایک بار پانی مل جائے تو میرا پورا گجرات پانی دار ہو جائے گا۔ یہ کلچر ہمارے گجرات کا ہے۔ اور بہت سے لوگ 80/20 پلان میں شامل ہوگئے ہیں۔ سماج، گاؤں سب نے حصہ لیا، میرے ڈھولکیا خاندان نے اسے بڑے پیمانے پر اٹھایا، ندیوں کو زندہ کیا۔ اور دریاؤں کو زندہ رکھنے کا یہی طریقہ ہے۔ ہم نرمدا ندی سے 20 ندیوں سے جڑے ہوئے تھے۔ ہمارے ذہن میں ندیوںمیں چھوٹے چھوٹے چ تالاب بنانے کا خیال آیا، جس سے ہم میلوں تک پانی کو محفوظ کر سکیں۔ اور پانی زمین میں اترنے کے بعد امرت آئے بغیر نہیں رہے گا بھائی۔ پانی کی اہمیت گجرات کے لوگوں کو یا سوراشٹر، یا کچھ کے لوگوںکو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے ، اسے کسی کتاب میں پڑھانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ صبح اٹھے اور مسائل سے گزرے ہوں گے، وہ جانتے ہیں بالکل ان کے مسائل ، وہ جانتے ہیں کہ مسائل کتنے اقسام کی ہوتی ہیں۔
اور ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ پانی کی اس کمی کی وجہ سے ہمارا پورا سوراشٹر ہجرت کر رہا تھا، کچھ ہجرت کر رہا تھا۔ اور ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں، جب شہروں میں8-8؍لوگ ایک کمرے میں رہنے پر مجبور تھے اور آج ہم نے ملک میں پہلی بار جل شکتی کی وزارت تشکیل دی ہے، کیونکہ ہم اس کی اہمیت کو جانتے ہیں۔اور آج ان تمام کوششوں کے مطابق حالات بدل چکے ہیں، اب نرمدا کا پانی گاؤں ۔گاؤںتک پہنچانے کی ہماری انتھک کوششوں نے ہمیں کامیابی دی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا، جب نرمدا‘پریکرما سےپونیہ ملتا تھا، اب زمانہ بدل گیا ہے اور ماں نرمدا خود گاؤں گاؤں گھوم کر پونیہ بانٹ رہی ہیں اور پانی بھی بانٹ رہی ہیں۔ حکومت کی واٹر ہارویسٹنگ اسکیم سونی اسکیم ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار سونی اسکیم لانچ کی تھی تو کوئی بھی یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھاکہ تھوڑی نہ ہوگا۔اور کچھ کٹل لوگوں نے تو یہ بھی ہیڈ لائن بنادیا کہ مودی کے الیکشن سامنے ہیں تو غبارے چھوڑ دیے ہیں،لیکن ان تمام پروجیکٹوں نے کچھ، سوراشٹرا کو ایک نئی زندگی بخشی ہے اور آپ کے خواب پورا کرکےآپ کے سامنے ہری بھری دھرتی دیکھنےکے لطف کا احساس بھی کرایا ہے۔پاک جذبےسے کیاگیا عزم کیسے پورا ہوتا ہے، اس کی یہ مثال ہے۔ اور جب میں ملک کے عوام سے کہتا تھا کہ آج میں اتنا بڑا پائپ بچھارہا ہوں، کہ پائپ کے ذریعہ آپ ماروتی کار چلا سکیں گے، تب لوگ حیران رہ گئے۔آج گجرات کے کونے کونے میں زیر زمین پائپ پڑے ہیں، جو پانی کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ یہ کام گجرات نے کیا ہے۔ہمیں ندی کی گہرائی میں اضافہ کرنا ہے تو چیک ڈیم بنانا ہے، کچھ نہیں تو بیراج بنانا ہے،اتنی دور تک جانا ہے ، لیکن پانی بچانا ہے۔ گجرات نے اس مہم کواچھے سےپکڑا، عوامی شراکت داری سے پکڑا۔جس کے سبب آس پاس کے علاقوں میں پینے کا پانی بھی صاف ہونے لگا ،صحت میں بھی بہتر ہونے لگی اور نئے منصوبوں کی وجہ سے دو دہائیوں میں گھر گھر پانی پہنچانے کے خواب اور کھیت سے کھیت تک پانی پہنچانے کی خواہش کو بہت رفتار ملی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔آج 18-20 سال کے لابر موچیا کو شاید معلوم بھی نہیں ہوگاکہ پانی کے بغیر کتنی تکلیف ہوتی تھی، آج وہ نل چالو کر کے نہا رہا ہو گا، اسے معلوم نہیں ہو گا کہ ماں کو کتنے برتن اٹھا کر 3-4 کلو میٹر تک جانا پڑتا تھا پہلے۔ گجرات نے جو کام کیا ہے وہ آج ملک کے سامنے ایک مثال کے طور پر ثابت ہو رہا ہے۔ گجرات میں گھر گھر، کھیت۔ کھیت پانی پہنچانے کی مہم آج بھی اسی لگن اور پاکیزگی کے ساتھ چل رہی ہے۔ آج پروجیکٹ کے سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح سے لاکھوں لوگوں کےفائدہ ہونے کی امید ہے، نواد۔ چاونڈ بلاک پائپ لائن پروجیکٹ کے پانی سے تقریباً 1300 گاؤوں اور 35 سے زیادہ شہروں کو فائدہ ہوگا۔امریلی ، بوٹاد، راجکوٹ، جونا گڑھ، پور بندر اضلاع کے لاکھوں لوگ اس پانی کے حقدار ہونے والے ہیں، اور یومیہ تقریباً 30 کروڑ لیٹر اضافی پانی ان علاقوں میں پہنچنے والا ہے۔
آج پاسوی گروپ پروموشن واٹر سپلائی اسکیم کے دوسرے مرحلے کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ مہوا، تالاجا، پالیتانا اس پروجیکٹ کے تین تعلقے ہیں، اور پالیتانہ تیرتھ یاتریوں اور سیاحوں کے لیے ایک اہم مقام ہے جو پورے صوبہ کی معیشت کو چلاتا ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے 100 سے زائد دیہات براہ راست مستفید ہوں گے۔
ساتھیوں،
آج پانی کےپروجیکٹس کا سنگ بنیاد اور افتتاح حکومت اور سماج کی شراکت داری سے وابستہ ہے۔ یہ ایک بہترین مثال ہے اور ہم عوام کی شرکت پر زور دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر پانی کی اہم اسکیم(انوشٹھان)چلے گی تو عوام کی شرکت سے چلے گی۔ جب آزادی کے 75 سال مکمل ہوئے تو سرکار کئی پروگرام منعقد کر سکتی تھی۔ مودی کے نام کے بورڈ لگانے کے کئی پروگرام ہوتے ،لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم نے گاؤں۔ گاؤں میں امرت سروور بنانے کا منصوبہ بنایا اور ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنانے کا منصوبہ بنایا، اور آخری اطلاع یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر، تقریباً 75 ہزار جگہوں پر تالاب بننے کا کام چل رہاہے۔ 60,000 سے زیادہ جھیلیں آج بھی زندگی سے بھرپور ہیں۔ ان آنے والی نسلوں کی خدمت کرنا ایک بہت بڑا کام رہا ہے اور اس سے پڑوسں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ کیچ دی رین مہم چلایا، دہلی گیا تو یہاں کا تجربہ کام آیا۔اور اس کی کامیابی بھی ایک بڑی مثال بن گئی ہے۔ پانی کی ایک ایک بوند بچانے کے لیے خاندان ہو، گاؤں ہوکالونی، لوگوں کو پانی بچانے کے لیے تحریک دینا ہوگی، اور خوش قسمتی سے سی آر پاٹل اب ہماری کابینہ میں ہیں۔ انہیں گجرات کے پانی کا تجربہ ہے۔ اب پورے ملک میں لکھا جانے لگا ہے، اور پاٹل جی نے کیچ دی رین کے کام کو اپنے اہم پروگراموں میں سے ایک کے طور پر لیا ہے۔ گجرات کے ساتھ ساتھ، ملک کی کئی ریاستوں جیسے راجستھان، ایم پی، بہار میں عوامی شراکت سے ہزاروں ریچارج کنوؤں کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں سورت، جنوبی گجرات میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع ملا، جہاں لوگ اپنے آبائی گائوں میں ریچارج کنویں بنانے کا کام کر رہے ہیں، جس سے خاندان کی کچھ دولت گاؤں کو واپس مل جائے گی۔ یہ ایک نئی دلچسپ پیش رفت ہے، گاؤں کا پانی گاؤں میں ہی رہے، سرحد کا پانی سرحد میں ہی رہے، یہ مہم ایک اور بڑا قدم ہے۔ اور دنیا کے کئی ممالک میں بہت کم بارش ہوتی ہیں اور پانی بچاتے ہیں اور بچائے ہوئے پانی سے یہ چلتا ہے۔ اگر آپ کبھی پوربندر میں مہاتما گاندھی کے گھر جائیں تو آپ کو زمین کے نیچے 200 سال پرانا پانی ذخیرہ کرنے کا ٹنکی مل جائے گی۔ پانی کی اہمیت کو ہمارے لوگ 200-200 سال پہلے ہی سمجھ چکے ہیں۔
ساتھیوں،
اب پانی کی اس دستیابی کی وجہ سے کھیتی کرناآسان ہو گیا ہے، لیکن ہمارا بنیادی منتر ہے - بوند، زیادہ فصل، یعنی گجرات میں ہم نے کم سنچائی یعنی چھڑکاؤ پر بھی زور دیا۔ گجرات کے کسانوں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ آج جہاں بھی نرمدا کا پانی پہنچا ہے ،وہاں تین فصلیں لی جاتی ہیں، جس کسان کو ایک فصل اگانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ تین فصلیں لینے لگےہیں۔ ایسے میں ان کے گھر میں خوشی اور مسرت کا ماحول ہے۔ آج امریلی ضلع ہمارے زراعت کے شعبے میں کپاس میں، مونگ پھلی میں، تل میں، باجرا میں، جعفرآباد باجرا میں آگے آرہا ہے، میں دہلی میں اس کی تعریف کر رہا ہوں۔ ہمارے ہیرا بھائی مجھے بھیج رہے ہیں۔ اور امریلی سے ہمارے کیسر آم، کیسرآم کو اب جی آئی ٹیگ مل گیا ہے۔اور اس کی وجہ دنیا بھر میں امریلی کا کیسر آم جی آئی ٹیک کے ساتھ ایک اس کی پہچان بن گئی ہے۔قدرتی کاشتکاری امریلی کی پہچان بن چکی ہے۔ ہمارے گورنرصاحب اس پر مشن موڈ میں کام کر رہے ہیں۔ اس میں بھی امریلی کے ترقی پسند کسان اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اپنے ہلول میںنچرل فارمنگ کی ایک الگ یونیورسٹی ڈیولپ کی گئی ہے۔ اس یونیورسٹی کے تحت پہلا نیچرل فارمنگ کالج اپنے یہاں امریلی کو ملا ہے۔اس کی وجہ سے یہاں کے کسان اس نئے تجربے کے لیے پرعزم اور پابندعہد ہے۔ اس لیے اگر یہاں استعمال کیا جائے تو اس کی فصل فوراً پک جائے گی اور کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسان جانوربھی پالیں اور اس میں گائے بھی پالیں، اور قدرتی کاشتکاری سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ یہاں امریلی میں ڈیری انڈسٹری ہے، مجھے یاد ہے کہ پہلے بھی ایسے قوانین تھے کہ ڈیری بنائیں تو گناہ لگتا تھا ۔وہ سب نکال دیا میں نے ، آکےاور یہاں امریلی میں ڈیری صنعت شروع کی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ترقی ہوئی اوریہ تعاون اور امداد باہمی کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے۔ مجھے یاد ہے 2007 میں اپنی امر ڈیری کی شروعات ہوئی تب 25 گاؤں میں کوآپریٹیو کمیٹیاں تھیں۔ آج 700 سے زیادہ گاؤں اس میں شامل ہو چکے ہیں۔دلیپ بھائی، میری بات۔ یہ ڈیری کمیٹیاں 700 سے زیادہ دیہاتوں میں اس ڈیری سے وابستہ ہیں۔ اور مجھے جو آخری معلومات ملی اس کے مطابق اس ڈیری میں روزانہ 1.25 لیٹر دودھ بھرا جاتا ہے۔ یہ ایک مکمل انقلاب ہے بھائی، اور صرف ایک راستہ نہیں، ترقی کی بہت سی راہیں پکڑیں ہیں ہم نے بھائی۔
ساتھیوں،
مجھے دوسری بھی خوشی ہے، میں نے برسوں پہلے بات کہی تھی، سب کے سامنے کہی تھی اور میں نے کہا تھا کہ سفید انقلاب کریں، گرین ریولیوشن کریں، لیکن اب ہمیں سیوٹ ریولیوشن کرنا ہے۔ شہد پیدا کرنا ہے، ہنی صرف گھر میں بولنے کے لیے نہیں ہے، شہد کی پیداوار کھیتوں میں کریںاور امریلی ضلع کے کسانوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنی چاہیے، ہمارے دلیپ بھائی اور روپالا جی نے یہ معاملہ اٹھایا اور یہاں کھیتوں میں شہد پالنا شروع ہو گیا ہے۔اور لوگوں نے اس کی تربیت لی ہے۔
اور اب یہاں کا شہد بھی اپنی ایک الگ پہچان بنا رہا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے۔ ماحولیات سے متعلق جو بھی کام ہیں، جب یہاں درخت لگانے کی بات آتی ہے، تو‘ایک پیر ماں کے نام’ وہ جو مہم گجرات نے اٹھائی تھی، اب پورے ملک نے اٹھا لیا اور دنیا میں‘ ایک پیر ماں کے نام’ ایسا کہوں تودنیا کے لوگوں کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔سبھی اس کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔ ماحولیات کا بڑا کام چل رہا ہےاور دوسرا بڑا ماحولیاتی کام ہمارے بجلی کے بل کو صفر تک کم کرنے کی سمت کام کرنا ہے۔
سوریہ گھر یوجنا، یہ پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی اسکیم تمام خاندانوں کو سال میں 25 سے 30 ہزار روپے کے بجلی کے بچے اور اتنا ہی نہیں، وہ بچنے والی بجلی فروخت کر کے جو آمدنی کمائے ، ایسا بڑا کام ہم نے ہاتھ میں لیا ہے۔اور اس اسکیم کو شروع کیے ابھی تو ، آپ نے مجھے جو تیسری بار کام سونپا ، تبھی کام شروع کیا۔اور اب تک تقریباً 1.50 کروڑ خاندان رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔
اور اپنےگجرات میں 2 لاکھ گھروں پر ، ان کی چھتوں پر سولر پینل لگ چکے ہیں، وہ بجلی بنا رہے ہیں اور بجلی فروخت کررہے ہیں۔ اور توانائی کے معاملے میں امریلی ضلع نے بھی نئے قدم اٹھائے ہیں۔ آج ہمارے اس دودھاڑا گاؤں میں، اس میں اپنے گووند بھائی، انہو ں نے مشن اٹھایا،6؍ ماہ قبل مجھے گووند بھائی کہہ رہے تھے کہ مجھے پورے گاؤں کو شمسی گھر بنانا ہے اور اب کام مکمل ہونے کے قریب ہے۔اور اس کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کو مہینے میں تقریباً بجلی کے 75000؍ ہزار بچنے والے ہیں۔ دودھاڑا گاؤں وہ گھر، جنہوں نے سولر پلانٹ لگائے ہیں، انہیں ہر سال 4000 روپے کی بچت ہونے والی ہے۔ دودھاڑا گاؤں امریلی کا پہلا شمسی گاؤں بن رہا ہے، اس کے لیے گووند بھائی اور امریلی کو مبارکباد۔
ساتھیوں،
پانی اور سیاحت کا براہ راست رشتہ ہے، جہاں پانی ہوتا ہے وہاں سیاحت آتی ہے۔ ابھی میں بھارت ماتا سروور کو دیکھ رہا تھا، تو فوراً خیال آیا کہ ممکن ہے کہ اس دسمبر میں جو مہاجر پرندے آتے ہیں، جو کچھ میں آتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ انہیں اب یہاں نیا پتہ مل جائے گا۔اور جیسے ہی انہیں یہ نیا پتہ ملے گا، فلیمنگو کو تو یہاں پر سیاحوں کی بھیڑ بڑھ جائے گی۔ سیاحت کا ایک بڑا مرکز اس سے جڑا ہوا ہے۔ اور ہمارے امریلی ضلع میں بہت بڑے زیارت اور عقیدے کے مقامات ہیں۔ جہاں لوگ سر جھکانے آتے ہیں۔ہم نے دیکھا کہ سردار سروور ڈیم ، ڈیم تو بنایا تھا پانی کےلیے،وہ تو کام کرتا ہی ہے، لیکن اس کی قیمت بڑھا کر اسے دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ بنا دیا اور آج اس مجسمے کو دیکھنے کے لیے لاکھوں لوگ آتے ہیں۔ اس اسٹیچو کو دیکھنے کےلیے نرمدا کے درشن کےلیے تقریباً 50 لاکھ لوگو گزشتہ برس اس سردار صاحب کے کے مجسمہ کا درشن کر کے گئے۔
اور اب 31 اکتوبرسامنے ہی ہے، دو دن بعد سردار صاحب کا یوم پیدائش ہے، اور اس بار یہ 150 سال خاص ہو رہاہے۔ اور میں آج دہلی واپس جاؤں گا اور پرسوں پھر آکر سردار صاحب کے قدموں میں سر جھکاؤں گا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم سردار صاحب کی سالگرہ پر قومی یکجہتی کی دوڑ لگاتے ہیں۔ لیکن اس بار دیوالی 31 تاریخ کو ہے، اس لیے اسے 29 تاریخ کو رکھا گیا ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ پورے گجرات میں بڑے پیمانے پر اتحاد کی دوڑ کے پروگرام منعقد کیے جائیں اور میں وہاں کیواڑیہ میں ہونے والی قومی اتحاد پریڈ میں بھی شرکت کرنے جا رہا ہوں۔
ساتھیوں،
آنے والے وقت میں اپنا یہ جو کیرلی ریچارج ریزروائر جو بنا ہے،وہ ایکو ٹورازم کا ایک بڑا مرکز بنے گا، یہ میں آج سے اندازہ لگا رہا ہوں۔ میں وہاں ایڈونچر ٹورازم کا امکان دیکھ رہا ہوں۔ اور کیرلی برتھ سنچری اس کی دنیا میں شناخت نمایاں ہوگی اور آپ سب کو اسے دیکھنے کے لیے دنیا میں زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ ایسا سیاح کہاں آئے گا، جو پرندوں کا نگراں ہو، جو لوگ پرندے دیکھنے آتے ہیں، وہ جنگلوں میں آکر دیر تک کیمرے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں، کئی دن ٹھہرتے ہیں۔ اس لیے یہ ٹورزم ویسے تو یہ بڑا سیلہ بن جاتا ہے۔ اپن گجرات کی تو قسمت ہے، اتنا بڑا سمندری ساحل، ماضی میں یہ سمندر اپنے کو کھارا پانی اور دکھ دے گا، لگتا تھا۔ آج ہم اسے بھی خوشحالی کے دروازے کے طور پر تبدیل کر رہے ہیں۔ وہ گجرات کی ساحلی پٹی کو نہ صرف گجرات بلکہ ملک کی خوشحالی کا گیٹ وے بنانے کے لیے اپنی ترجیحات پر کام کر رہے ہیں۔ متسیا سمپدا ماہی گیر بھائیوں کو اپنے بندروں سے وابستہ ہزاروں سال کی ورثے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیں دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔ لوتھل، ایسا نہیں ہے کہ یہ لوتھل مودی کے آنے کے بعد آیا، یہ 5 ہزار سال پرانا ہے۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو اس لوتھل کو دنیا کے سیاحتی نقشے پر لانا میرا خواب تھا۔ اور میں دنیا کے نقشے پر خود کو چھوٹا رکھنا اچھا نہیں سمجھتا۔ اور اب لوتھل میں آتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا میری ٹائم ہیریٹیج کمپلیکس بنایا جا رہا ہے۔ جب ہم امریلی سے احمد آباد جاتے ہیں تو راستے میں یہ ملتا ہے،یہ زیادہ دور نہیں ہے، ہمیں تھوڑا آگے جانا پڑتا ہے۔
یہ ملک اور دنیا کو ہندوستان کے سمندری وراثت سے واقف کرانے کی کوشش ہے۔ ہزاروں سالوں سے یہ لوگ سمندر پار کرنے والے تھے۔ اور ہماری کوشش ہے کہ بلیو ریولیوشن، نیلاپانی، نیلا انقلاب کو رفتار دینی ہے۔ پورٹ لیٹ ڈیولپمنٹ ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کو مضبوط کرنے کی سمت ہمارا کام ہے۔ جعفرآباد، شیال بیٹ ، اس میں اپنے ماہی گیر بھائیوں کے لیے بہترین انفراسٹرکچر تیار کیا جا رہا ہے اور یہ امریلی کا فخر بنتا جا رہا ہے۔ پیپاوا کی بندش اور اس کی جدید کاری کی وجہ سے اس کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ آج یہ بندرگاہ ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا مرکز بن رہی ہے۔آج اس میں 10 لاکھ سے زیادہ کنٹینرز اور ہزاروں گاڑیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے، پیپاو پورٹ کی۔ اور اب ہماری کوشش ہے کہ بندرگاہوں کو گجرات کی تمام بندرگاہوں اور ملک کے تمام خطوں سے جوڑنے کی مہم چلائی جائے۔ پورے ہندوستان کی بندرگاہوں کو گجرات کی بندرگاہوں سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف عام آدمی کی زندگی کے لیے برابر کے لیے اتنے ہی فکر مند ہیں۔ غریبوں کے لیے پکے گھر ہوں، بجلی ہو، ریلوے ہو، سڑک ہو، گیس کی پائپ لائنیں ہو، ٹیلی فون کی تاریں ہو، آپٹک فائبر لگانے ہوں یہ انفراسٹرکچر کے سبھی کام اسپتال بنانے ہوں اور ہماری تیسری ٹرم میں، کیونکہ 60 سال گزرنے کے بعد ملک نےکسی بھی وزیر اعظم کو تیسری بار وزیر اعظم کے طور پر خدمت کاموقع دیاہے۔ گجرات کے ساتھ تعاون کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ اچھے سے اچھا کنیکٹیویٹی،اس کے لیے انفرا اسٹرکچر، وہ اتنا فائدہ کرتا ہے ، وہ ہم نے سوراشٹر میں دیکھا ہے۔
جیسے جیسے انفراسٹرکچر بہتر ہوتا ہے، صنعتیں بڑے پیمانے پر آتی ہیں، بڑے پیمانے پر آتی ہیں، ہم نے ریرو۔ فیری سروس کا فائدہ دیکھا ہے۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھاتب سنتا تھا۔ گوگا کی فیری، گوگا کی فیری، کیا کسی نے... نہیں۔ ہمیں یہ موقع ملا اور ہم نےکیا 7؍لاکھ سے زیادہ لوگ اس رورو ۔ فیری سروس میں آچکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں، 75؍ہزار سے زیادہ ٹرک، بس، اس کے سبب کتنے لوگوں کا وقت بچا ہے۔ کتنے لوگوں کے پیسے بچے ہیں اور کتنا سارا پیٹرول کا دھواں بچا ہے۔ اس کا آپ لوگ حساب لگاؤں تو ہم سبھی کو حیرانی ہوگی کہ اتنا بڑا کام پہلے کیوں نہیں ہوا۔ مجھے لگتا ہے ایسے اچھے کام میری قسمت میں لکھے تھے۔
ساتھیوں،
آج جام نگر سے امرتسر بھٹنڈاتا اکانومی کوریڈور کی تعمیر کا کام چل رہا ہے۔ اس کابھی بہت فائدہ ملنے والا ہے۔ گجرات سے لے کر پنجاب تک کی ریاستیں اس کے ساتھ مستفید ہونے والی ہیں۔ اس راستے پر بہت بڑے اقتصادی شعبے آ رہے ہیں۔ بڑے متھک آرہے ہیں۔ اور جس سڑک پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا ہے،اسے جام نگر موربی، اور میں نے ہمیشہ کہا تھا کہ راجکوٹ-موربی-جام نگر ایک ایسی مثلث ہے کہ اسے ہندوستان کا مینوفیکچرنگ ہب کی شکل میں اس کا نام دینے کی صلاحیت ہے۔ اس کے پاس منی جاپان بننے کی صلاحیت ہے،ایسا جب میں نے 20 برس پہلے کہا ہوگا، تب یہ سب لوگ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔یہ آج ہو رہا ہے، اور اس کی کنٹی ویٹی کاکام آج اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اس کی وجہ سے سیمنٹ فیکٹری ایریا کا رابطہ بھی بہتر ہونے جا رہا ہے۔اس کے علاوہ سومناتھا، دوارکا، پوربندر، شیر آف گر کے یاتری علاقے آسان اور شاندار سیاحتی علاقے بننے جا رہے ہیں۔ آج، کچھ کا ریل رابطہ بھی وسعت اختیار کر چکا ہے، سوراشٹرا، کچھ اور کچھ کا یہ رابطہ منصوبہ اب سیاحت کے لیے ملک گیر توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ ملک بھر میں لوگ پریشان ہیں کہ کچھ کی سیاحت اور کچھ کی صنعت میں تاخیر ہو جائے گی اور لوگ دوڑرہے ہیں۔
ساتھیوں،
جیسے جیسے ہندوستان ترقی کر رہا ہے، دنیا میں ہندوستان کا سرفخر سے بلند ہو رہا ہے۔ پوری دنیا نئی امید کے ساتھ ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے، ہندوستان کو دنیا میں دیکھنے کے لئے ایک نیا وژن تشکیل دیا جارہا ہے۔ ہندوستان کی صلاحیت کو لوگوں میں پہچانا جانے لگا ہے۔ اور آج پوری دنیا ہندوستان کو سنجیدگی سے، غور سے سن رہی ہے۔ اور ہر کوئی اس بات پر بحث کر رہا ہے کہ ہندوستان میں کیا امکانات ہیں۔ اور اس میں گجرات کا کردار ہے، گجرات نے دنیا کو دکھایا ہے کہ ہندوستان کے شہروں کے دیہات کتنی صلاحیتوں سے بھراپڑا ہے۔
کچھ دن پہلے، میں گزشتہ ہفتے برکس کانفرنس میں شرکت کے لیے روس گیا تھا، وہاں دنیا کے کئی ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور موجود تھے، مجھے ان کے ساتھ پر امن بات کرنے کا موقع ملا اور سب کا یہی حال تھا۔ بھارت کے ساتھ ہاتھ ملانا۔ ہمیں ہندوستان کی ترقی کے سفر میں شراکت دار بننا ہے۔ تمام ممالک پوچھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے کیا امکانات ہیں۔ جب میں روس سے واپس آیا تو جرمنی کے چانسلر دہلی آئے اور اپنے ساتھ ایک بڑا وفد لے کر آئے، جرمنی کے صنعت کار جو پورے ایشیا میں سرمایہ کاری کرتے تھے، ان سب کو دہلی لے آئے۔ اور ان سب سے کہا کہ جناب آپ سب مودی صاحب کی بات سنیں اور فیصلہ کریں کہ آپ کو ہندوستان میں کیا کرنا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمنی بھی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا خواہشمند ہے۔ یہی نہیں، اس نے ایک اہم بات کہی ہے جو ان کے نوجوانوں کے لیے مفید ہوگی۔ پہلے جرمنی 20 ہزار ویزے دیتا تھا، انہوں نے آکر اعلان کیا کہ 90 ہزار ویزے دیں گے اور ہمیں نوجوانوں کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی فیکٹری میں افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اور ہندوستان کے نوجوانوں میں بہت زیادہ صلاحیت ہے اور ہندوستان کے لوگ قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو خوشی اور سکون کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہمیں یہاں 90 ہزار افراد کی ضرورت ہے، اور انہوں نے ہر سال 90 ہزار لوگوں کو ویزے دینے کا اعلان کیا ہے۔اب موقع ہمارے لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق تیاری کریں۔ آج اسپین کے صدر یہاں تھے، اسپین کو ہندوستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنی چاہیے، آج بڑودہ میں ٹرانسپورٹ فیکٹری بنے گی، اس سے گجرات کی چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ راجکوٹ کی چھوٹی فیکٹریاں جو چھوٹے اوزار بناتی ہیں وہیں اس طیارے کو بھی تیار کیا جائے گا۔ گجرات کے کونے کونے سےچھوٹے چھوٹےسے لیتھ مشین پر کام کرنے والے لوگ بھی چھوٹے چھوٹے پرزے بناکر دیں گے نہ، کیونکہ ہزاروں پرزے لگتے ہیں ایک ایر کرافٹ میں اور ایک ایک فیکٹری، ایک ایک پرزے کی ماسٹری رکھتی ہے۔ یہ کام پورے سوراشٹر میں ہوتا ہے، جہاں چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کا ڈھانچہ ہے نہ… اس کے لیے تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہے بھائی، اس کے سبب روزگار کے کئی مواقع آنے والے ہیں۔
ساتھیوں،
یہاں جب گجرات کے اندر رہ کر مجھے موقع ملا تھا، آپ کی خدمت میں مصروف تھا، تب گجرات کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی، اور میرا تو منتر تھا کہ ہندوستان کی ترقی کے لیے گجرات کی ترقی، ترقی یافتہ گجرات، ترقی یافتہ ہندوستان۔ اس خواب کو پورا کرنے راستے کو مضبوط کرنے کا کام کرتا ہے۔
ساتھیوں،
آج ایک طویل عرصے کے بعدکئی پرانے ساتھیوں کے درمیان آنا ہوا ہے۔سبھی پرانے چہرے دیکھ رہا ہوں، سبھی مسکرا رہے ہیں، میں خوشی محسوس کر رہا ہوں۔پھر ایک بار ، اور میں اپنے ساؤجی بھائی کو کہتا ہوں کہ آپ نےاب سورت جانا بند کرو، اور یہ پانی ۔ پانی ہی کہاکرو، بہو سورت کیا، اب ماٹی اٹھاؤ اور گجرات کے کونے کونے میں پانی پہنچاؤ۔ 80/20 کی اسکیموں کا پورا فائدہ گجرات کو دو، میری آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔
میرے ساتھ بولیئے
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
شکریہ دوستوں
مادر ہند زندہ باد۔
مادر ہند زندہ باد۔
شکریہ دوستوں۔
اعلان دستبرداری:اصل تقریر گجراتی میں ہے، یہ اس کا قریب تر اردو ترجمہ ہے۔