مشن امرُت کے اگلے مرحلے میں ملک کا ہدف گندے پانی کو نکالنے اور گڈھے والے فلش نظام کی غلاظت صاف کرنے کے انتظام کو بہتر بنانا ، ہمارے شہروں کو پانی سے محفوظ شہر بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے دریاؤں میں کہیں بھی گندے پانی کی نکاسی نہ ہونے پائے'
"سوچھ بھارت ابھیان اور امرت مشن کے سفر میں، ایک مشن ہے ، عزت ہے ، وقار ہے اور اس میں یہ جذبہ بھی کارفرما ہے کہ مادر وطن سے بے لوث محبت کی جائے"
"بابا صاحب امبیڈیکر شہروں کی ترقی عدم مساوات کو دور کرنے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھتے تھے ... ... سوچھ بھارت مشن اور مشن امرت کا اگلا مرحلہ بابا صاحب کے خوابوں کو پورا کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے"
"صفائی ہر ایک کے لیے ایک عظیم مہم ہے ، ہر روز ، ہر پندرہ دن ، ہر سال ، نسل در نسل۔ صفائی ایک طرز زندگی ہے ، صفائی زندگی کا منتر ہے
سنہ 2014 میں ، 20 فیصد سے بھی کم کچرے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج ہم روزانہ کچرے کا تقریباً 70 ف
'' سوچھ بھارت مشن-اربن 2.0 '' کا مقصد شہروں کو مکمل طور پر کچرے سے مُبرا بنانا ہے

 نمسکار! پروگرام میں میرے ساتھ موجود کابینہ کے میرے ساتھی جناب  ہردیپ سنگھ پوری جی، جناب  گجیندر سنگھ شیخاوت جی، جناب پرلہاد سنگھ پٹیل جی، جناب کوشل کشور جی، جناب بنشیشور جی، سبھی ریاستوں کے موجود وزراء، اربن لوکل باڈیز کے میئرس اور چیئر پرسن، میونسپل کمشنرز، سووچھ بھارت مشن کے، امرت یوجنا کے آپ سبھی سارتھی، خواتین و خضرات!

میں ملک کو سوچھ بھارت ابھیان اور امرت مشن کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ 2014 میں، اہل وطن نے بھارت کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کا او ڈی ایف بنانے کا عہد کیا تھا۔ 10 کروڑ سے زائد بیت الخلاء کی تعمیر سے ہم وطنوں نے اس عہد کو پورا کیا۔ اب ’سوچھ بھارت مشن-اربن 2.0‘ کا ہدف کوڑا کرکٹ سے پاک شہر، کوڑے کے ڈھیر سے مکمل طور پر پاک ایسا شہر بناناہے۔ امرت مشن اس میں ہم وطنوں کی مزید مدد کرنے والا ہے۔ شہروں میں سو فیصد لوگوں کی صاف پانی تک رسائی ہو، شہروں میں سیویج کا بہترین  انتظام ہو۔ اس سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ مشن امرت کے اگلے مرحلے میں، ملک کا نشانہ ’سیویج اور سیپٹک مینجمنٹ کو بڑھانا، اپنے شہروں کو واٹر سکیور سٹیز بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے دریاؤں میں کہیں بھی کوئی گندا نالہ نہ گرے۔

ساتھیو،

سووچھ بھارت ابھیان اور امرت مشن کا اب تک کا سفر واقعی ہر ایک اہل وطن کو فخر سے سرشار کردینے والا ہے۔ اس میں مشن بھی ہے، عزت بھی ہے، مریادا بھی ہے، ایک ملک کی امید بھی ہے اور مادر وطن کے لئے بے پناہ پیار بھی ہے۔ ملک نے سووچھ بھارت مشن کے ذریعہ سے جو حاصل کیا ہے، وہ ہمیں  یقین دلاتا ہے کہ ہر بھارتی اپنے فرض کے لئے کتنا حساس ہے، کتنا خبردار ہے۔ اس کامیابی میں ہندوستان کے ہر شہری کا تعاون ہے، سب کی محنت ہے اور سب کا پسینہ ہے اور ہمارے صفائی ستھرائی کے اہلکار، ہمارے صفائی متر، ہر روز جھاڑو اٹھاکر سڑکوں کو صاف کرنے والے ہمارے  بھائی بہن، کوڑے کی بدبو کو برداشت کرتے ہوئے کوڑا صاف کرنے والے ہمارے ساتھی صحیح معنوں میں اس مہم کے ہیرو ہیں۔ کورونا کے مشکل وقت میں ان کے تعاون کو ملک نے قریب سے دیکھا ہے، محسوس کیا ہے۔

میں ملک کی ان کامیابیوں پر ہر بھارتی کو مبارکباد دینے کے ساتھ ہی ’سوچھ بھارت مشن - اربن ٹو پوائنٹ او‘ اور ’امرت ٹو پوائنٹ او‘ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور اس سے زیادہ خوشگوار کیا ہوگا کہ ایک نئی شروعات آج  گاندھی جینتی سے ایک دن قبل ہو رہی ہے۔ یہ مہم لائق صداحترام باپو کی تحریک کا  ہی نتیجہ ہے، اور باپو کے اصولوں سے ہی کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ آپ تصور کیجئے، صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ اس میں  ہماری ماؤں  بہنوں کے لیے کتنی سہولت بڑھ گئی ہے! پہلے کتنی ہی خواتین گھر سے نکل نہیں پاتی تھیں، کام پر نہیں جا پاتی تھیں کیونکہ باہر بیت الخلا کی سہولت  ہی نہیں ہوتی تھی۔ کتنی بیٹیوں کو اسکول میں بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑتی تھی۔ اب ان  میں تبدیلی آرہی ہے۔ آزادی کے 75 ویں سال میں ملک کی ان  کامیابیوں کو ، آج کےنئے عزائم کو، لائق صد احترام باپو کے قدموں میں  پیش کرتا ہوں اور نمن کرتا ہوں۔

ساتھیو،

ہم سب کی یہ بھی  خوش قسمتی ہے کہ آج یہ پروگرام باباصاحب کے لیے وقف اس  انٹرنیشنل سینٹر میں منعقد ہو رہا ہے۔ باباصاحب ، عدم مساوات کو دور کرنے کا ایک بڑا ذریعہ شہری ترقی کو مانتے  تھے۔ بہتر زندگی کی خواہش میں دیہات سے بہت سے لوگ شہروں کی طرف آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انہیں روزگار تو مل جاتا ہے لیکن ان کی زندگی کا معیار گاؤوں سے بھی  مشکل صورتحال میں رہتا  ہے۔ یہ ان پر ایک طرح سے دوہری مار کی طرح ہوتا ہے۔ ایک تو گھر سے دور ، اور اوپر سے  ایسی مشکل صورتحال میں رہنا۔ ان حالات  کو بدلنے پر، اس عدم مساوات کو دور کرنے پر بابا صاحب کا بڑا زور تھا۔ سوچھ بھارت مشن اور مشن امرت کا اگلا مرحلہ ، بابا صاحب کے خوابوں کو پورا کرنے کی سمت میں بھی  ایک اہم قدم ہے۔

ساتھیو،

آزادی کے اس 75 ویں سال میں، ملک نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، اور سب کا وشواس‘ کے ساتھ ’سب کا پریاس‘ کی اپیل بھی کی ہے۔سب کے پریاس کا  یہ جذبہ، صفائی ستھرائی کے لیے بھی اتنا ہی  ضروری ہے۔ آپ میں سے  کئی لوگ دور دراز کے  دیہی علاقوں میں  گھومنے  گئے ہوں گے، قبائلی معاشرے کے روایتی گھروں کو  ضرور دیکھا ہوگا۔ کم وسائل کے باوجود ان کے  گھروں میں صفائی ستھرائی اور خوبصورتی  کودیکھ کر بھی ہر کوئی متوجہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ شمال مشرق میں جایئے، ہماچل یا اتراکھنڈ کے پہاڑوں پر جایئے، پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی صفائی ستھرائی کی وجہ سے ایک الگ ہی مثبت توانائی بہتی ہے۔ ان ساتھیوں کے ساتھ رہ کر ہم سیکھ سکتے ہیں کہ صفائی ستھرائی اور خوشی کا کتنا  گہرا تعلق ہے۔

اسی لئے  جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا اور ترقی کے لیے سیاحت کے امکانات کو نکھارنا  شروع کیا تو سب سے بڑا فوکس صفائی ستھرائی اور اس کوشش میں سب کو شامل کرنے پر کیا گیا۔ نرمل گجرات ابھیان، جب عوامی تحریک بنا،  تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اس سے گجرات  کو   نئی شناخت تو ملی ہی ،  ریاست میں سیاحت میں بھی اضافہ ہوا۔

بھائیو بہنو،

عوامی تحریک کا یہ جذبہ سووچھ بھارت مشن کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ پہلے شہروں میں کچرا سڑکوں پر ہوتا تھا، گلیوں میں ہوتا تھا، لیکن اب گھروں سے نہ صرف ویسٹ کلیکشن پر زور دیا جا رہا ہے، بلکہ کچرے کو الگ کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ بہت سے گھروں میں اب ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گیلے اور سوکھے کچرے کے لیے الگ الگ ڈسٹ بین رکھ رہے  ہیں۔ گھر  ہی نہیں ،  گھر کے باہر  بھی اگر کہیں  گندگی نظر آتی  ہے تو لوگ سووچھتا ایپ کے ذریعے اسے رپورٹ کرتے ہیں، دوسرے لوگوں کو بیدار بھی  کرتے ہیں۔ میں اس بات سے بہت خوش ہوتا ہوں کہ  سووچھتا ابھیان کو مضبوطی دینے کا بیڑا ہماری آج کی نسل نے  اٹھایا ہے۔ ٹافی ریپرز اب زمین پر نہیں پھینکے جاتے، بلکہ جیبوں میں رکھے جاتے ہیں۔ چھوٹے بچے، اب وہ بڑوں کو  ٹوکٹے ہیں کہ گندگی مت کیجئے۔ دادا جی ، ناناجی، دادی جی کو بتاتے ہیں مت کرو۔ شہروں میں نوجوان  طرح طرح کے سووچھتا ابھیان  میں مدد کر رہے ہیں۔ کوئی ویسٹ سے ویلتھ  بنا رہا ہے تو کوئی بیداری پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے۔

لوگوں میں بھی اب ایک مقابلہ ہے کہ سووچھ بھارت رینکنگ میں ان کا شہر آگے آنا چاہیے اور اگر  پیچھے رہ جاتا ہے تو گاؤں میں دباؤ پیدا ہو جاتا ہے، بھائی کیا ہوا، وہ شہر آگے نکل گیا ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ ہماری کیا کمی ہے؟ میڈیا کے لوگ بھی اس شہر کے بارے میں بات کرتے ہیں، دیکھیں وہ آگے بڑھ گئے ہیں،  تم رہ گئے ۔ ایک دباؤ پیدا ہورہا ہے۔ اب یہ ماحول بن رہا ہے کہ ان کا شہر صفائی کی درجہ بندی میں آگے رہے، ان کے شہر کی شناخت  گندگی سے بھرے شہر  کی نہ ہو! جو ساتھی  اندور سے جڑے  ہیں یا ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں گے وہ میری بات  سے اور بھی زیادہ  متفق ہوں گے۔ آج  ہر کوئی جانتا ہے کہ اندور  یعنی صفائی ستھرائی میں ٹاپر شہر! یہ  اندور کے لوگوں کی مشترکہ کامیابی ہے۔ اب  ایسی ہی  کامیابی سے  ملک کے ہر شہر کو جوڑنا ہے۔

میں ملک کی ہر ریاستی حکومت سے، مقامی انتظامیہ سے، شہروں کے میئرز سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ صفائی ستھرائی  کی اس بڑی  مہم میں ایک بار پھر مصروف ہوجائیں۔ کورونا کے وقت میں کچھ سستی  بھلے ہی آئی ہے، لیکن اب نئی ​​توانائی کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ صفائی  ستھرائی، ایک دن کا ، ایک پکھواڑے کا، ایک سال کا یا چند لوگوں کا ہی کام ہے، ایسا نہیں ہے۔ صفائی ستھرائی ہر  کسی کی، ہر دن، ہر پکھواڑے کی، ہر سال،   نسل در نسل چلنے والی بڑی مہم ہے۔  صفائی ستھرائی  یہ  طرز  زندگی ہے، صفائی  ستھرائی یہ زندگی کا منتر ہے۔

جیسے  صبح اٹھتے ہی اپنے دانت صاف کرنے کی عادت  ہوتی ہے نہ، ویسے ہی  صفائی  ستھرائی  کو ہمیں  اپنی زندگی کا حصہ بنانا  ہی ہوگا  اور میں یہ  صرف  پرسنل ہائیجین کی ہی بات  ہی نہیں کر رہا ہوں۔ میں سماجی  ہائیجین کی  بات کر رہا ہوں۔ آپ سوچئے، ریل کے ڈبوں میں صفائی، ریلوے پلیٹ فارم پر صفائی، یہ کوئی مشکل نہیں تھا۔ کچھ کوشش حکومت نے کی، کچھ تعاون لوگوں نے کیا اور اب ریلوے کی تصویر  ہی بدل گئی ہے۔

ساتھیو،

شہر میں رہنے والے متوسط ​​طبقے کی، شہری غریبوں کی زندگی میں، زندگی گزارنے کی آسانی  میں اضافے کے لئے ہماری حکومت ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ اگر 2014 سے پہلے کے 7 سالوں کی بات کریں تو شہری ترقیات کی وزارت  کے لیے سوا لاکھ  کروڑ  کے آاس پاس کا بجٹ ہی  مختص کیا گیا تھا۔ جبکہ ہماری حکومت کے 7 سالوں میں وزارت شہری ترقیات کی وزارت کے لیے تقریباً 4 لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری شہروں کی صفائی، ویسٹ مینجمنٹ، نئے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس بناے پر ہوئی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے شہری غریبوں کے لئے گھر، نئے میٹرو روٹس اور اسمارٹ سٹی سے متعلق پروجیکٹ مکمل کیے جا رہے ہیں۔ ہم بھارت کے لوگ اپنے  نشانے حاصل کر سکتے ہیں، اس کا مجھے پورا  یقین ہے ۔ سوچھ بھارت مشن اور مشن امرت کی رفتار اور پیمانےدونوں  ہی اس اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔

آج بھارت ہر دن تقریباً ایک لاکھ ٹن فضلہ پروسیس  کر رہا ہے۔ 2014 میں جب ملک نے مہم شروع کی تھی، تب ملک میں ہر روز پیدا ہونے والے فضلے کا 20 فیصد سے بھی کم پروسیس ہوتا تھا۔ آج ہم تقریباً  70 فیصد  یومیہ ویسٹ پروسیس  کر رہے ہیں۔ 20 سے 70 تک پہنچے ہیں لیکن اب ہمیں اسے 100فیصد تک لے جانا  ہی جانا ہے اور یہ کام محض فضلے کو ٹھکانے لگانے کے ذریعے نہیں ہو گا، بلکہ فضلہ سے دولت  تیار کرنے کے ذریعہ ہوگا۔ اس کے لیے ملک نے ہر شہر میں 100 فیصد ویسٹ سیگری گیشن کے ساتھ ساتھ اس سے  متعلق جدید مٹیریل ری کوری کی فیسی لٹیز تیار کرنے کا نشانہ طے کیا ہے۔ ان جدید سہولیات میں کوڑے کچرےکو چھانٹا جائے گا، ری سائیکل ہوپانےوالی چیزوں کو پروسیس کیا جائے گا، الگ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ، شہروں میں بنے  کچرے کے پہاڑوں کو پروسیس کرکے  مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔ ہردیپ جی، جب میں  یہ کوڑےبڑے بڑے ڈھیروں کو صاف کرنے کی بات کر رہا ہوں، یہاں دہلی میں بھی اسی طرح کا ایک پہاڑ برسوں سے ڈیرا ڈالے ہوئےہے۔ یہ پہاڑ بھی ہٹنے کا انتظار کر رہا ہے۔

ساتھیو،

آج کل جو دنیا میں گرین جابس کے امکان کا ذکر ہورہا ہے، بھارت میں شروع کی جانے والی یہ مہم کئی گرین جابس بھی پیدا کرے گی۔ ملک میں شہروں کی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ابھی اگست کے مہینے میں ہی ، ملک میں  نیشنل آٹوموبائل اسکریپج پالیسی لانچ  کی ہے۔ یہ نئی اسکریپنگ پالیسی ویسٹ ٹو ویلتھ کی مہم کو سرکلر اکنومی کو مزید تقویت دیتی ہے۔ یہ پالیسی ملک کے شہروں سے آلودگی  کم کرنے میں بھی بڑا کردار ادا کرے گی۔ اس کا اصول ہے – ری یوز، ری سائیکل اور ری کوری۔ حکومت نے سڑکوں کی تعمیر میں بھی ویسٹ  کے استعمال پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ جو سرکاری عمارتیں بن رہی ہیں،سرکاری رہائشی اسکیموں کے تحت جو گھر بنائے جارہے ہیں ان میں بھی  ری سائیکلنگ کی  حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

ساتھیو،

سووچھ بھارت اور متوازن شہرکاری کو ایک نئی سمت دینے میں ریاستوں کی بہت بڑی شرکت رہی ہے۔ ابھی ہم نے کئی ساتھی وزرائے اعلیٰ کا پیغام بھی سنا ہے۔ میں ملک کی ہر ایک  ریاستی حکومت کا  آج خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تمام ریاستوں نے اپنے شہروں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا ہے، پانی کی فراہمی سے لے کر صفائی ستھرائی  تک کے لیے  منصوبہ تیار کیا۔ امرت مشن کے تحت 80 ہزار کروڑ سے زائد  کے   پروجیکٹ  پر کام  چل رہا ہے۔ اس سے شہروں کے بہتر مستقبل کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو نئے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ پانی کا کنکشن ہو، سیور لائن کی سہولت ہو، اب ہمیں ان سہولیات کا فائدہ سو فیصد شہری خاندانوں تک پہنچانا ہے۔ ہمارے شہروں میں سیویج واٹر ٹریٹمنٹ بڑھے گا تو شہروں کے آبی وسائل بھی صاف ہوں گے، ہمارے دریا صاف ہوں گے۔ ہمیں اس عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کہ ملک کے کسی بھی دریا میں تھوڑا سا بھی  پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے نہ گرے، کوئی گندا نالہ دریا میں نہ گرے۔

ساتھیو،

آج شہری ترقی سے متعلق اس پروگرام میں، میں کسی بھی شہر کے سب سے اہم ساتھیوں میں سے ایک کا ذکر ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ساتھی ہمارے خوانچہ فروش ہیں، ٹھیلہ چلانے والے، اسٹریٹ وینڈرز۔ ان لوگوں کے لیے پی ایم سواندھی یوجنا امید کی ایک نئی کرن بن کر آئی ہے۔ آزادی کی  کئی دہائیوں بعد  تک ہمارے ان ساتھیوں کی خبر  نہیں لی گئی تھی۔ تھوڑے سے پیسوں کے لیے انہیں بہت زیادہ سود پر کسی سے قرض لینا پڑتا تھا۔ وہ قرض کے بوجھ تلے دبا رہتا تھا۔ دن بھر محنت کرکے کماتا تھا، خاندان کے لیے جنتا دیتا تھا، اس سے زیادہ سود  والے کو دینا پڑتا تھا۔ جب لین دین کی کوئی ہسٹری نہ ہو، کوئی دستاویزات نہ ہو تو انہیں بینکوں سے مدد ملنا بھی ناممکن تھا۔

اس ناممکن ممکن  کیا ہے - پی ایم سواندھی یوجنا نے۔ آج ملک کے 46 لاکھ سے زائد خوانچہ فروش بھائی بہن، اسٹریٹ وینڈر اس اسکیم  کا فائدہ اٹھانے کے لیے آگے آئے ہیں۔ ان میں سے 25 لاکھ لوگوں کو   ڈھائی  ہزار کروڑ روپے بھی دیے  بھی جاچکے  ہیں۔ اسٹریٹ  وینڈر کی جیبوں  میں ڈھائی ہزار کروڑ پہنچا، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ وہ اب ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کر رہے ہیں اور وہ بینکوں سے  جو  قرضوں  لیا ہے وہ بھی چکا  رہے ہیں۔ اسٹریٹ وینڈرز وقت پر قرض چکاتے ہیں انہیں  سود  میں بھی رعایت دی جاتی ہے۔ بہت ہی  کم وقت میں، ان لوگوں نے 7 کروڑ سے زیادہ ٹرانزیکشن کئے ہیں۔ کبھی کبھی  ہمارے ملک کےدانش مند لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ غریب آدمی کو یہ  کہاں سے آئے گا، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے یہ کرکے دکھایا ہے یعنی  پیسے دینے یا لینے کے لیے 7 کروڑ بار کوئی نہ کوئی  ڈیجیٹل طریقہ اپنایا ہے۔

یہ لوگ کیا کرتے ہیں، انہوں نے اپنے موبائل فون سے تھوک فروخت کنندگان سے جو سامان خرید رہے ہیں  اس کی ادائیگی  بھی اپنے موبائل فون سے  ڈیجیٹل طریقے سے کرنے لگے ہیں اور  جو خوردہ سامان فروخت کر رہے ہیں، اس کے پیسے بھی وہ شہریوں سے ڈیجیٹل طریقے سے لینے کی  شروعات کرچکے ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ ان کے لین دین کی ڈیجیٹل ہسٹری بھی بن رہی ہے اور اس ڈیجیٹل ہسٹری کی وجہ سے بینکوں کو  پتہ چلتا ہے کہ ہاں ان کا کاروبار ایسا ہے اور اتنا چل رہا ہے، تو  بینکوں کے ذریعہ  انہیں اگلا قرض  دینے میں  آسانی ہورہی  ہے۔

ساتھیو،

پی ایم سواندھی یوجنا میں، 10 ہزار روپے کا پہلا قرض  ادا کرنے پر، 20 ہزار کا دوسرا قرض  اور دوسرا قرض کی ادائیگی پر، 50 ہزار کا تیسرا قرض اسٹریٹ وینڈرز کو دیا جاتا ہے۔ آج سینکڑوں اسٹریٹ وینڈرز بینکوں سے تیسرا قرض لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میں ایسے ہر ساتھی کو بینکوں سے باہر جاکر زیادہ سود پر قرض اٹھانے کے جنجال سے  نجات دلانا چاہتا ہوں اور آج ملک بھر کے میئرز میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، شہروں کے چیئرمین  جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سچے معنوں میں غریبوں کی خدمت کا کام ہے، صحیح معنوں میں  غریب سے غریب کو بااختیار بنانے کا کام ہے۔ یہ صحیح معنوں میں غریب کو سود کے جنجال سے نجات دلانے کا کام ہے۔ میرے ملک کا کوئی بھی میئر ایسا نہیں ہونا چاہیے، کوئی بھی جڑا ہوا  کارپوریٹر، کاؤنسلر ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ  جس کے دل میں یہ احساس  نہ ہو اور وہ اس پی ایم سواندھی کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ  نہ کچھ  کوشش نہ کرتا ہو۔

اگر آپ کے تمام ساتھی جڑ جائیں تو اس ملک کا ہمارا یہ غریب آدمی ہے ... اور ہم نے کورونا میں دیکھا ہے، اپنی سوسائٹی میں، چال، محلے میں سبزنی دینے والا اگر  نہیں پہنچتا ہے تو ہم کتنی مشکلات سے گزرتے ہیں۔  دودھ  پہنچانے والا نہیں آتا  تھا تو ہمیں  کتنی پریشانی ہوتی تھی۔ کورونا دور میں، ہم نے دیکھا ہے کہ معاشرے کے ایک ایک شخص کی ہماری زندگی میں کتنی اہمیت ہے۔ جب یہ ہم نے  محسوس کیا تو کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ اتنی اچھی اسکیم آپ کے پاس موجود ہے؟ اسے سود میں مدد مل رہی ہے، اسے اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے مسلسل پیسے مل رہے ہیں۔ کیا آپ اسے ڈیجیٹل لین دین کی ٹریننگ نہیں دے سکتے؟ کیا آپ اپنے شہر میں ہزار، دو ہزار، 20 ہزار، 25 ہزار  ایسے ہمارے ساتھی  ہوں گے، کیا ان کی زندگی کو  بدلنے کے لیے قدم  نہیں اٹھ  سکتے؟

میں پکا کہتا ہوں دوستوں، بھلے ہی یہ پروجیکٹ حکومت ہند کا ہو، بھلے ہی  یہ پی ایم سوانیدھی  ہو، لیکن اگر آپ اس کوکریں گے تو غریب کے دل میں آپ کے لیے جگہ بنے گی۔ وہ جے جے کار  اس شہر کے میئر  کی کرے گا، وہ جے جے کار  اس شہر کے کارپوریٹر کی کرے گا۔ وہ  جس نے اس کی  مدد کے لئے  ہاتھ پھیلایا  ہے اس کی جے جے کار کرے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ  جے جے کار آپ کی ہو۔ میرے ملک کے ہر شہر کا میئر کی ہو، میرے ملک کا ہر کارپوریٹر کی ہو، میرے ملک کے ہر کاؤنسلر کی ہو۔ یہ جے جے کار آپ کی ہو تاکہ جو  غریب  ٹھیلہ اور ریہٹری  پٹری  لیکر بیٹھا  ہے وہ بھی ہماری طرح شان  سے جئے۔ وہ  بھی اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے لیے اہم فیصلے کر سکتے ۔

بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے، ساتھیو، لیکن اس کام میں ہم سب کا تعاون ... میں تمام کمشنرز سے کہنا چاہتا ہوں، یہ انسانیت کا کام ہے، یہ زمینی سطح پر اقتصادی صفائی کا کام  بھی ہے۔ ایک خودداری جگانے کا کام ہے۔ ملک نے آپ کو اتنے  باوقار عہدے پر بٹھایا ہے، آپ دل سے  اس پی ایم سواندھی پروگرام کو اپنا بنالیں۔ جی ج ان سے اس کے کوشش کریں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دیکھئے آپ کے  گاؤں کا ہر خاندان سبزی بھی خریدتا ہے، ڈیجیٹل ادائیگی کے ساتھ، دودھ خریدتا ہے، ڈیجیٹل ادائیگی سے، جب وہ  تھوک میں  لینے جاتا ہے ڈیجیٹل ادائیگی کرتا ہے۔ ایک بڑا ریولیوشن آنےوالا ہے۔ اس چھوٹی تعداد سی تعداد کے ساتھ  لوگوں نے 7 کروڑ ٹرانزیکشن کئے۔ اگر آپ سب ان کی مدد کےلئے پہنچ جائیں تو ہم کہاں سے پہنچ سکتے ہیں؟

آج میری اس  پروگرام میں حاضر  شہری ترقی سے منسلک تمام اکائیوں سے  ذاتی طور پر اپیل ہے  کہ آپ اس کام میں پیچھے مت رہیے اور بابا صاحب امبیڈکر کے نام سے منسوب عمارت سے جب میں بول رہا ہوں تب تو غریب کے لئے کچھ کرنا ہماری ذمہ داری بن جاتی ہے۔

دوستو،

مجھے خوشی ہے کہ ملک کی دو بڑی ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش،  ان دو ریاستوں میں سب سے زیادہ اسٹریٹ وینڈرز کو بینکوں سے قرض دیا گیا ہے۔ لیکن میں تمام ریاستوں سے اپیل کروں گا کہ اس میں مسابقت ہوکہ کونسی ریاست آگے نکلتی ہے، اور  کون سی ریاست سب سے زیادہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کرتی ہے،کونسی ریاست سب سے زیادہ تیسرا قرض اسٹریٹ وینڈرز کو  دیتی ہے۔ 50 ہزار روپے اس کے ہاتھ میں آئے ہیں، ایسا کونسی ریاست کررہی ہے،کونسی ریاست سب سے زیادہ کرتی ہے۔ میں چا ہوں  گا کہ اس کی بھی ایک مسابقت  ہو اور ہر چھ مہینے، تین مہینے اس کے لئے بھی  ان ریاستوں کو انعام دیا جائے، ان شہروں کو انعام دیا جائے۔ ایک صحت مند مسابقت غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ، ایک صحت مند مسابق ت غریبوں کی بھلائی کے لیے، ایک صحت مند مسابقت غریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے۔ آئیے، اس مسابقت میں ہم سب شامل ہوں۔ تمام میئرز جڑیں، تمام شہروں کے چیئرمین جڑیں،  سبھی کارپوریٹرس  جڑیں، سبھی کاؤنسلر جڑیں۔

ساتھیو،

یہاں ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے،

आस्ते भग आसीनः यः ऊर्ध्वः तिष्ठति तिष्ठतः।

शेते निपद्य मानस्य चराति चरतो भगः चरैवेति॥

یعنی  فرض کی راہ پر چلتے ہوئے  اگر  آپ  بیٹھ جائیں گے ت آپ کی کامیابی بھی رک جائے گی۔ اگر آپ سو جائیں گے تو کامیابی بھی سو جائے گی۔ اگر آپ کھڑے ہو جائیں گے تو کامیابی بھی  اٹھ کھڑی ہو گی۔ اگر آپ آگے بڑھیں گے تو کامیابی بھی اسی طرح آگے بڑھے گی اور اس لئے ہمیں مسلسل  آگے بڑھتے  ہی رہنا ہے۔ چریویتی چریویتی۔ چریویتی چریویتی۔ یہ چریویتی چریویتی کے  منتروں کو لیکر آپ چل پڑے اور  اپنے شہر کو ان تمام مصیبتوں سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھائیں۔ ہمیں ایک ایسا بھارت بنانا ہے جو صاف ستھرا ہو، خوشحال ہو اور دنیا کو پائیدار زندگی کے لئے سمت دے۔

مجھے پورا یقین ہے، ہم تمام اہل وطنوں کی کوششوں سے، ملک اپنا یہ عزم  ضرور پورا کرے گا۔ انہی نیک خواہشات کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! بہت بہت نیک خواہشات!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM Modi congratulates hockey team for winning Women's Asian Champions Trophy
November 21, 2024

The Prime Minister Shri Narendra Modi today congratulated the Indian Hockey team on winning the Women's Asian Champions Trophy.

Shri Modi said that their win will motivate upcoming athletes.

The Prime Minister posted on X:

"A phenomenal accomplishment!

Congratulations to our hockey team on winning the Women's Asian Champions Trophy. They played exceptionally well through the tournament. Their success will motivate many upcoming athletes."