مستحقین میں سیکل سیل جینیاتی اسٹیٹس کارڈ تقسیم کئے
مدھیہ پردیش میں تقریباً 3.57 کروڑ اے بی-پی ایم جے اے وائی کارڈوں کی تقسیم کا آغاز کیا
رانی درگاوتی کی 500ویں یوم پیدائش قومی سطح پر منائی جائے گی
‘‘سیکل سیل انیمیا کے خاتمے کی مہم امرت کال کا کلیدی مشن بن جائے گی’’
’’ہمارے لیے آدیواسی برادری صرف ایک انتخابی نمبر نہیں ہے، بلکہ انتہائی حساسیت اور جذبات کا معاملہ ہے‘‘
’’جھوٹی وعدوں سے بچو کیونکہ یہ لوگ ’نیت میں کھوٹ اور غریب پر چوٹ‘ (برے ارادے اور غریبوں کو تکلیف دینے کا رجحان) کے ساتھ دیتے ہیں‘‘

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

پروگرام میں موجود  مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، وزیر اعلیٰ بھائی شیوراج جی، میرے کابینہ کے ساتھی جناب منسکھ مانڈویہ جی، فگن سنگھ کلستے جی ، پروفیسر ایس پی سنگھ بگھیل جی ، محترمہ رینوکا سنگھ سروتا جی ، ڈاکٹر بھارتی پوار جی ،  جناب بشویشور ٹوڈو جی،رکن پارلیمنٹجناب  وی ڈی شرما جی، مدھیہ پردیش حکومت کے وزراء، تمام ایم ایل ایز، ملک بھر سے  اس  پروگرام میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تمام  دیگر معززین اور اتنی بڑی تعداد میں ہم سب کو آشیرواد دینے کے لئے آئے ہوئے  میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

جئے سیوا، جئے جوہار۔ آج مجھے رانی درگاوتی جی کی اس مقدس سرزمین پر آپ سب کے درمیان آنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ میں رانی درگاوتی جی کے چرنوں میںخراج عقیدت  پیش کرتا ہوں۔ ان کیتحریک سے آج ’سکل سیل انیمیا مکتی مشن‘ایک بہت بڑی مہم کی شروعات  ہو رہی ہے۔ آج ہی مدھیہ پردیش میں ایک  کروڑ مستفیدین کو آیوشمان کارڈ بھی دیے جا رہے ہیں۔ ان دونوں کوششوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہمارے گونڈ سماج، بھیل سماج، یا دیگر قبائلی برادریوں کے لوگ  ہی ہیں۔ میں آپ سبھی کو، مدھیہ پردیش کی ڈبل انجن حکومت  کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

آج شہڈول کی اس سرزمین پر ملک ایک بڑا عزم کر رہا ہے۔ یہعزم ہمارے ملک کے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کا عزم ہے۔ یہعزم  ہے- سکل سیل انیمیا کے مرض سے نجات دلانے کا۔ یہعزم ہے- ہر سال سکل سیل انیمیا کی  گرفت میں آنے والےڈھائی لاکھ بچوں اور ان کے ڈھائی لاکھ لاکھ خاندان کے افراد کیزندگی  بچانے کا۔

ساتھیو،

میں نے ملک کے مختلف علاقوں میں قبائلی معاشرے کے درمیان طویل عرصہ گزارا ہے۔ سکل سیل انیمیا جیسی بیماری بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کے مریضوں کے جوڑوں میں ہمیشہ درد رہتا ہے، جسم میںورم اور تھکاوٹ رہتی ہے۔ کمر، ٹانگوں اور سینے میں ناقابل برداشت درد محسوس ہوتا ہے، سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ طویل عرصے تک درد میں مبتلا مریض کے جسم کے اندرونی اعضاء بھی خراب ہونے لگتے ہیں۔ یہ بیماری خاندانوں کو بھیمنتشر کر دیتی ہے۔ اور یہ بیماری نہ تو ہوا سے ہوتی ہے، نہ پانی سے ہوتی ہے، نہ کھانے سے پھیلتی ہے۔ یہ بیماری ایسی ہے کہ بچے کو یہ بیماریوالدین سے لگ سکتی ہے، یہ جینیاتی ہےاور جو بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں وہ زندگی بھر چیلنجوں کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔

ساتھیو،

پوری دنیا میں سکل سیل انیمیا کے جتنے معاملے ہوتے ہیں ان میں سے 50 فیصد  اکیلے ہمارے ملک میں ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتییہ ہے کہ پچھلے 70 برسوں میں کبھی اس کی فکر نہیں ہوئی، اس سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی! اس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ قبائلی معاشرے کے تھے۔ قبائلی معاشرے کے تئیں بے حسی کی وجہ سے، یہ پہلے کی حکومتوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی  نہیں تھا۔ لیکن اب بی جے پی حکومت ے ، ہماری حکومت نے قبائلی سماج کے اس سب سے بڑے چیلنج کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ہمارے لیے قبائلی معاشرہ صرف سرکاری عدد نہیں ہے۔ یہ ہمارے لیے حساسیت کا معاملہ ہے، جذباتی معاملہ ہے۔ جب میں پہلی بار گجرات کا وزیر اعلی بنا تھااس  سے بھی  بہت پہلے  سے میں اس سمت میں کوششیں کر رہا ہوں۔ ہمارے  جو گورنر ہیں جناب منگو بھائی قبائلی خاندان کے ایک ہونہار رہنما رہے ہیں۔ منگو بھائی اور میں تقریباً 50 برسوں سے قبائلی علاقوں میں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں اور ہم قبائلی گھرانوں کے پاس جا کر مسلسل کام کرتے تھے کہ اس بیماری سے کیسے نجات حاصل کی جائے، بیداری کیسے پیدا کی جائے۔ گجرات کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی میں نے وہاں اس سے متعلق بہت سی مہمیں شروع کیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد جب میں جاپان گیا تو  میں نے وہاں ایک نوبل انعام یافتہ سائنسدان سے ملاقات کی تھی۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ  سائنسداں سکل سیل کی بیماری پر بہت ریسرچ کرچکے ہے۔ میں نے اس جاپانی سائنسدان سے بھی  سکل سیل انیمیا کے علاج میں مدد کے لیےدرخوات کی تھی۔

ساتھیو،

سکل سیل انیمیا سے چھٹکارا پانے کییہ مہم امرتکال کا اہم مشن بنے گا  اور مجھے یقین ہے کہ جب ملک آزادی کے 100 سال کا جشن منائے گا،  2047 تک، ہم سب مل کرکے، ایک مشن موڈ میں مہم چلا کر، اپنے قبائلی خاندانوں کو سکل سیل انیمیا سے نجات دلائیں گے اور ملک کو نجات دلائیں گے۔ اور اس کے لیے ہم سب کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہو، ہیلتھ ورکرز ہوں، قبائلی ہوں، سب مل کر کام کریں۔ سکل سیل انیمیا کے مریضوں کو خون چڑھانے  کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے ان کے لیے بلڈ بینک کھولے جا رہے ہیں۔ ان کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سکل سیل انیمیا کے مریضوں کی اسکریننگ کتنی ضروری ہے۔ ظاہری علامات کے بغیر کوئی بھی شخص سکل سیل کا کیریئر ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ انجانے میںیہ بیماری اپنے بچوں کو دے سکتے ہیں۔ اس لیےاس کا پتہ لگانے کے لیے ٹیسٹ اور اسکریننگ کروانا بہت ضروری ہے۔ اگر ٹیسٹ نہ کروایا جائے تو ممکن ہے کہ مریض کو اس بیماری کا طویل عرصے تک علم نہ ہو۔ جیسے اکثر  ابھی کہ ہمارے منسکھ بھائی کہہ رہے تھے کنڈلی کی بات، بہت سے خاندانوں میں روایت ہوتی ہے کہ  شادی سے پہلے کنڈلی ملاتے ہیں، جنماکشنر ملاتے ہیں ۔ اور انہوں نے کہا کہ  بھئی کنڈلی ملاؤ یا نہ ملاؤ  لیکن سکل سیل ٹیسٹ کی جو  رپورٹ ہے ، جو کارڈ دیا جا رہا ہے اس کو  ضرور  ملانا اور اس کے بعد شادی کرنا۔

ساتھیو،

اسی صورت میں  ہم اس بیماری کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے سے روک سکیں گے۔ اس لیے میں ہر ایک سے درخواست کرتا ہوں کہ ہر شخص  اسکریننگ مہم میں شامل ہو، اپنا کارڈ بنوائے، بیماری کا جانچ کروائے۔ اس بیماری  ذمہ داری سنبھالنے کے لئے جتنا زیادہ معاشرہ  خود آئے گا  اتنا ہی سکل سیل انیمیا سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہوگا۔

ساتھیو،

بیماریاں صرف ایک فرد کو نہیں ہوتیں، جو ایکشخص  بیمار ہوتا ہے، صرف اس کو ہی نہیں لیکن جب ایک شخص  خاندان میں بیمار ہوتا ہے تو بیماری پورے خاندان کو متاثر کرتی ہے۔ جب ایک فرد بیمار ہوتا ہے تو پورا خاندان غربت اور ناداری کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اور میں ایک طرح سے آپ سے بہت  الگ خاندان سے نہیں آیا ہوں۔ میں آپ کے درمیان سے ہی یہاں پہنچا  ہوں۔ اس لیے میں آپ کی اس پریشانی کو اچھی طرح  جانتا ہوں ، سمجھتا ہوں۔ اسی لیے ہماری حکومت اس طرح کی سنگین بیماریوں کے خاتمے کے لیے دن رات محنت کررہی ہے۔ ان کوششوں کی وجہ سے آج ملک میں ٹی بی کے معاملات میں کمی آئی ہے۔ اب  تو ملک 2025 تک ٹی بی کے  جڑ سے ختم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

ساتھیو،

ہماری حکومت  بننے سے پہلے سال 2013 میںکالا آزار کے 11 ہزار معاملے سامنے آئے تھے۔ آج یہ گھٹ کر  ایک ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ 2013 میں ملیریا کے 10 لاکھ معاملے تھے، 2022 میںیہ بھی کم ہو کر 2 لاکھ سے بھی کم ہو گئے ہیں۔ 2013 میں جذام کے 1.25 لاکھ مریض تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہو کر 70-75 ہزار رہ گئی ہے۔ پہلے دماغی  بخار کا کتنا قہر تھا، یہ  بھی ہم سب جانتے ہیں  گزشتہ کچھ برسوں میں اس کے مریضوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ محض چند اعداد وشمار  نہیں ہیں جب بیماری  کم ہوتی ہے تو لوگ دکھ درد، بحران اور موت سے بھی بچتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ بیماری میں کم ہو  ساتھ  ہی بیماری پر ہونے والا خرچ بھی  کم ہو، اس لئے ہم آیوشمان بھارت اسکیم لے کر آئے ہیں جس سے لوگوں پر پڑنے والا بوجھ کم ہوا ہے۔ آج یہاں مدھیہ پردیش میں ایک کروڑ لوگوں کو آیوشمان گارڈ دیئے گئےہیں۔ اگر کسی غریب کو کبھی اسپتال جانا پڑا  تو یہ کارڈ ا کی جیب میں  پانچ لاکھ روپے کے اے ٹی ایم  کارڈ کا کام کرے گا۔ آپ  یاد رکھئے گا آج  آپ کو جو کارڈ ملا ہے، اسپتال میں ا سکی قیمت پانچ لاکھ روپے کے برابر ہے۔ آپ کے پاس یہ کارڈ ہوگا تو کوئی  آپ کو علاج کےلئےمنع نہیں کرپائے گا۔ پیسے نہیں مانگ پائے گا اور یہ ہندوستان میں کہیں پر بھی  آپ کو تکلیف ہوئی ور وہاں کے اسپتال میں جاکر یہ مودی کی گارنٹی دکھا دینا۔ اس کو وہاں بھی  آپ کا علاج کرنا ہوگا،یہ آیوشمان کارڈ غریب کے علاج کے لئے پانچ لاکھ روپے کی گارنٹی ہے اور یہ مودی کی گارنٹی ہے۔

بھائی بہنو،

ملک بھر میں آیوشمان اسکیم کے تحت  اسپتالوں میں تقریباً پانچ کروڑ  غریبوں کا علاج ہوچکا ہے۔ اگر آیوشمان بھارت کارڈ نہ ہوتا تو ان غریبوں کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے  زیادہ خرچ کرکے بیماری کا علاج  کرانا پڑتا۔ آپ  تصور کیجئے  ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے زندگی کی امید بھی چھوڑ دی ہو گی۔ کتنے گھرانے ایسے ہوں گےجنہیں علاج کرانے کے لیے  اپنا گھر، اپنی کھیتی شاید بیچنی پڑی ہو۔ لیکن ہماری حکومت ایسے ہر مشکل موقع پر غریبوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ 5 لاکھ روپے کا یہ آیوشمانیوجنا گارنٹی کارڈ غریب کی سب سے بڑیفکر کم کرنے کیگارنٹی ہے۔ اور یہاں جو آیوشمان کا کام کرتے ہیں ذرا لایئے کارڈ –  آپ کو یہ جو کارڈ ملا ہے نہ، اس  میں لکھا ہے کہ 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج۔ اس ملک میں کبھی بھی  کسی غریب کو 5 لاکھ روپے کی گارنٹی کسی نے نہیں دی،یہ میرے غریب خاندانوں کے لیے، یہ  بی جے پی  حکومت ہے، یہ مودی ہے جو آپ کو 5 لاکھ روپے کا گارنٹی کا کارڈ دیتا ہے۔

ساتھیو،

گارنٹی کی اس بات چیت کے درمیان آپ کو جھوٹی گارنٹی  دینے والوں سے بھی ہوشیار رہنا ہے۔ اور جن لوگوں کی اپنی  کوئی گارنٹی نہیں ہے وہ آپ کے پاس گارنٹی والی نئی نئی اسکیمیں لے کر  آرہے ہیں۔ ان کی گارنٹی  میں پوشیدہ کھوٹ کو پہنچان لیجئے۔ جھوٹیگارنٹیکے نام پر ان کے دھوکے کے  کھیل کو بھانپ لیجئے۔

ساتھیو،

جب وہ مفت بجلی کیگارنٹیدیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بجلی کے دام  میں اضافہ کرنے والے ہیں۔ جب وہ مفت سفر کیگارنٹی دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس ریاست کاٹرانسپورٹ نظام برباد ہونے والا ہے۔ جب وہ پنشن بڑھانے کی گارنٹی دیتے  ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس ریاستمیں ملازمین کو  وقت پر  تنخواہ بھی  نہیں مل پائے گی۔ جب وہ سستے پیٹرول کیگارنٹیدیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹیکس بڑھا کر آپ کی جیب سے پیسے نکالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جب وہ روزگار بڑھانے کیگارنٹی دیتے ہیں  تو اس کا مطلب ہے کہ وہ  وہاں کی صنعت کو چوپٹ کرنے والی  پالیسیاں لے کر آئیں گے۔ کانگریس جیسی پارٹیوں کیگارنٹی کا مطلب نیت میںکھوٹ اور غریبوں پر چوٹ ہے، یہی ہیں  ان کے کھیل۔ وہ  70 برسوں میں غریب کو پھر پیٹ خوراک دینے کی گارنٹی نہیں دے سکے۔ لیکن یہ  پردھان منتری غریب کلیانیوجناسے 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت راشن کیگارنٹی ملی ہے، مفت راشن مل رہا ہے۔ وہ 70 برسوں میں غریبوں کو مہنگے علاج سے نجات دلانے کیگارنٹی نہیں دے سکے۔ لیکن آیوشمان یوجنا سے  50 کروڑ مستفیدین کو  صحت بیمے کیگارنٹی ملی ہے۔ وہ 70 برسوں میں خواتین کودھوئیں سے نجات دلانے کی گارنٹی  نہیں دے سکے۔ لیکن اجولا یوجنا سے تقریباً 10 کروڑ خواتین کو دھوئیں  سے پاک زندگی کیگارنٹی ملی ہے۔ وہ 70 برسوں میں غریب کوپیروں  پر کھڑا ہونے کیگارنٹی نہیں دے سکے۔ لیکن مدرا یوجناسے ساڑ ے آٹھ  کروڑ لوگوں کو عزت کے ساتھاپنے روزگار کیگارنٹی ملی ہے۔

ان کی گارنٹی کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ آج جو ایک ساتھ آنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، سوشل میڈیا میں ان کے پرانے پرانے بیان  وائرل ہو رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کو  پانی پی پی کر  کوستے رہے ہیں۔ یعنی اپوزیشن کے اتحاد کی کوئیگارنٹی نہیں ہے۔ یہکنبہ پرور پارٹیاں  صرف اپنے خاندانوں کی بھلائی کے لیے کام کرتیآئی ہیں۔ یعنی ان کے پاس ملک کے عام لوگوں کے خاندان کو آگے لے جانے کیگارنٹی نہیں ہے۔ جن پر بدعنوانی کے الزامات ہیں وہ ضمانت لے کر باہر گھوم رہے ہیں۔ جو لوگ گھوٹالے کے الزام میں سزا کاٹ رہے ہیں وہ ایک اسٹیج پر نظر آرہے ہیں۔ یعنی ان کے پاس بدعنوانی سے پا ک حکومت کی گارنٹی نہیں ہے۔  وہ ایکسُر  میں ملک کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔وہ  ملکدشمن عناصر کے  میٹنگیں  کر رہے ہیں۔ یعنی ان کے پاس دہشت گردی سے پاک ہندوستان کیگارنٹی نہیں ہے۔ وہ گارنٹی دے کر نکل جائیں گے ، لیکن  بھگتنا آپ کو  پڑے گا۔ وہ گارنٹی   دے کر  اپنی جیب بھر لیں گے لیکن نقصان آپ کے بچوں کا ہوگا۔ وہ گارنٹی دے کر اپنے خاندان کو آگے لے جائیں گے، لیکن اس کی قیمت ملک کو چکانی پڑے گی۔ اس لیے آپ کو کانگریس سمیت  ہر سیاسی پارٹی کیگارنٹی سے  ہوشیار رہنا ہے۔

ساتھیو،

ان جھوٹیگارنٹی دینے والوں کا رویہ ہمیشہسے قبائلیوں کے خلاف رہا ہے۔ پہلے قبائلی برادری کے نوجوانوں کے سامنے  زبان کا  بڑا چیلنج آتا تھا۔ لیکن نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اب مقامی زبان میں تعلیم کی سہولت دی گئی ہے۔ لیکن جھوٹیگارنٹی دینے والے ایک بار پھر قومی تعلیمی پالیسی کیمخالفت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ہمارے قبائلی بھائی اور بہنو کے بچے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرپائیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر قبائلی، دلت، پسماندہ اور غریب کا بچہ آگے بڑھ جائے گا تو ان کی  ووٹ بینک سیاستچوپٹ ہو جائے گی۔ میں جانتا ہوں قبائلی علاقوں میںاسکولوں  کی  کالجوں کی کتنی  اہمیت ہے ۔ اس لیے ہماری حکومت نے 400 سے زیادہ نئے ایکلویہ اسکولوں میں قبائلی بچوں کو رہائشی تعلیم کا موقع دیا ہے۔ اکیلے مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں ہی  ایسے  24 ہزار  طلبہ  تعلیم حاصل کررہے  ہیں۔

ساتھیو،

پہلے کی حکومتوں نے قبائلی معاشرے کو مسلسل نظر انداز کیا۔ ہم نے  علیحدہ قبائلی وزارت بنا کر اسے اپنی ترجیح بنایا۔ ہم نے اس وزارت کے بجٹ میں 3 گنا اضافہ کیا ہے۔ پہلے جنگل اور زمین لوٹنے والوں کو تحفظ ملتا تھا۔ ہم نے فاریسٹ رائٹ  ایکٹ کے تحت 20 لاکھ سے زیادہ ٹائٹل بانٹے  ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ ایکٹ کے نام پر اتنے برسوں تک سیاسی روٹیاں سینکیں۔ لیکن، ہم نے پیسہ ایکٹ نافذ کرکے قبائلی معاشرے کو اس کا حق دیا۔ پہلے قبائلی روایات اور فن و ہنر کا مذاق بنایا جاتا تھا۔ لیکن، ہم نے آدی مہوتسو جیسے پروگرام شروع کیے۔

ساتھیو،

گزشتہ 9 برسوں میں قبائلیشان  کی حفاظت کرنے اور اسے مالا مال بنانےکے لیے مسلسل کام ہوا ہے۔ اب بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش پر، 15 نومبر کوپورا ملکجن جاتیہ گورو دوس مناتا ہے۔ آج ملک کی الگ الگ  ریاستوں میں قبائلی مجاہدین آزادی  کے لیے وقف میوزیمتیار کیے جا رہے ہیں۔ ان کوششوں کے درمیان ہمیں سابقہ ​​حکومتوںکےرویے کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جنہوں نے  دہائیوں تک ملک میں سرکار چلائی، ان کا رویہ  قبائلی سماج کے تئیں ، غریبوں کے  تئیں  غیر حساس اور توہین آمیز تھا۔ جب تک قبائلی خاتون کو ملک کی صدر  جمہوریہ بنانے کی بات آئی تھی تو ہم نے کئی پارٹیوں  کا رویہ دیکھا ہے۔ آپ ایم پی کے لوگوں نے  بھی ان کا رویہ دیکھا ہے۔ جب شہڈول ڈویژن میں سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی کھلی تو اس  کا نام انہوں نے اپنے خاندان کے نام پر رکھ دیا۔ جبکہ شیوراج جی کی حکومت نے چھندواڑہ یونیورسٹی کا نام مہان گونڈ انقلابی راجہ شنکر شاہ کے نام پر رکھا ہے۔ ٹنٹیا ماما جیسے ہیروز کو بھی انہوں نے پوری طرح  نظر انداز کیا، لیکن ہم نے پتالپانی اسٹیشن کا نام ٹنٹیا ماما کے نام پر رکھا۔ ان لوگوں نے گونڈ سماج  کے اتنے بڑے لیڈر جناب دلویر سنگھ جی کے خاندان کی بھی توہین کی۔  ان کی بھرپائی بھی ہم نے کی، ہم نے انہیں احترام دیا۔ ہمارے لیے قبائلی ہیروز کا احترام ہمارے قبائلی نوجوانوں کا احترام ہے، آپ سب کا احترام۔

ساتھیو،

ہمیں ان کوششوں کو آگے بھیبنائے  رکھنا ہے، انہیںاور رفتار دینی ہے۔ اور، یہ آپ کے تعاون سے، آپ کے آشیرواد  سے ہی ممکن ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے آشیرواد اور رانی درگاوتی کی تحریک ایسے  ہی  ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔ ابھی شیوراج جی بتا رہے تھے کہ 5 اکتوبر کو رانی درگاوتی جی کی  500 ویں  جیتنی  آرہی  ہے۔ میں  آج، جب  آپ کے درمیان آیا ہوں، رانی درگاوتی کی بہادری کی اس پاک سرزمین پر آیا ہوں تو، میں آج  اہل وطن کے سامنے  اعلان کرتا ہوں کہ رانی درگاوتی جی  کا 500 واںصد سالہ پیدائش پورے ملک میںحکومت ہند منائے گی۔ رانی درگاوتی کی زندگی کی بنیاد پر فلم بنائی جائے گی، رانی درگاوتی کا ایک  چاندی کا سکہ بھی نکالا جائے گا، رانی درگاوتی جی کا ڈاک ٹکٹ  بھی نکالا  جائے گا اور ملک اور دنیا میں  500 سال قبل  جنم لینے والی  پاکیزہ ماں جیسی رانی درگا وتی کی تحریک کی بات  ہندوستان کے ہر گھر تک  پہنچانے کی ایک مہم چلائی جائے گی۔

مدھیہ پردیش ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوئے گا، اور ہم سب ساتھ مل کر ترقییافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کریں گے۔ ابھی میںیہاں سے کچھ قبائلی خاندانوں سے بھی ملنے والا  ہوں،  ان سے بھی کچھ آج بات چیت کرنے کا مجھے موقع ملنے والا ہے۔ آپ اتنی بڑی تعداد میں آئے ہیں سکل سیل، آیوشمان کارڈ آپ کی آنے والی نسلوں کی فکر کرنے کی میری بڑی مہم ہے۔  آپ کا مجھے ساتھ چاہیئے۔ ہمیں  سکل سیل سے  ملک کو نجات دلانی   ہے، میرے قبائلی خاندانوں کو اس  مصیبت سے چھٹکارا دلوانا  ہے۔ میرے لیے  میرے دل سے جڑا ہوا  یہ  کام ہے اور اس میں مجھے  آپ کی مدد چاہیے، میرے قبائلی خاندانوں کا مجھے ساتھ چاہیے۔ آی سے یہی اپیل کرتا ہوں  صحت مند رہئے، خوشحال بنئے۔ اسی خواہش کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

  بہت بہت شکریہ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.