رؤسا سبھی کے پرنام با۔
دیشوا کھاتیر، بہار کھاتیر، گاؤں کے جنگی کے آسان بناوے کھاتیر اور ویاوستھا مضبوط کرے کھاتیر، مچھری اُتپادن، ڈیری، پشو پالن اور کرشی کشیتر میں پڑھائی اور ریسرچ سے جوڑل سیکڑن کروڑ روپیہ کے یوجنا کے شلانیاس اور لوکارپن بھئیل ہا۔ ایکرا کھاتیر ساوسے بہار کے بھائی ۔ بہن لوگن دس انگھا بدھائی دے تنی۔
بہار کے گورنر پھاگو چوہان جی، وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب گری راج سنگھ چوہان جی، کیلاش چودھری جی، پرتاپ چندر سارنگی جی، سنجیو بالیان جی، بہار کے نائب وزیر اعلیٰ بھائی سشیل جی، بہار اسمبلی کے اسپیکر جناب وجے کمار چودھری جی، ریاستی کابینہ کے دیگر اراکین، اراکین اسمبلی اور میرے پیارے ساتھیون،
ساتھیو، آج جتنی بھی اسکیمیں شروع ہوئی ہیں ان کے پس پشت سوچ یہی ہے کہ ہمارے مواضعات 21ویں صدی کے بھارت، آتم نربھر بھارت کی طاقت بنیں، توانائی بنیں۔ کوشش یہ ہے کہ اب اس صدی میں نیلگوں انقلاب یعنی ماہی پروری سے مربوط کام، سفید انقلاب یعنی ڈیری سے مربوط کام، شیریں انقلاب یعنی شہد کی پیداوار سے جڑے کام، ہمارے مواضعات کو مزید بااختیار اور خوشحال بنا رہے ہیں۔ پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا اسی مقصد کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہے۔ آج ملک کی 21 ریاستوں میں اس اسکیم کا آغاز ہو رہا ہے۔ آئندہ 4 سے 5 برسوں میں اس پر 0 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کیے جائیں گے۔ اس میں سے آج 1700 کروڑ روپئے کا کام شروع ہو رہا ہے۔ اس کے تحت ہی بہار کے پٹنا، پورنیا، سیتامڑھی، مدھے پورا، کشن گنج اور سمستی پور میں مختلف سہولتوں کا آغاز کیا اور سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس سے ماہی پروری کرنے والوں کو نیا بنیادی ڈھانچہ حاصل ہوگا، جدید آلات ملیں گے اور ساتھ ہی نئی منڈی تک رسائی بھی حاصل ہوگی۔ اس سے زراعت کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع سے بھی آمدنی کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔
ساتھیو، ملک کے ہر حصے میں، خاص طور پر ساحل سمندر اور ندی کے کنارے آباد علاقوں میں مچھلی کی تجارت ۔ کاروبار کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلی مرتبہ ملک میں اتنی بڑی اسکیم بنائی گئی ہے۔ آزادی کے بعد اس پر جتنی سرمایہ کاری ہوئی، ان سے بھی گئی گنا زیادہ سرمایہ کاری پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا پر کی جا رہی ہے۔ جب ابھی گری راج جی بتا رہے تھے تو شاید یہ اعداد و شمار سن کر بھی کئی لوگوں کو حیرت ہوئی ہوگی تاہم جب آپ حقیقت کو جانیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ حکومت کتنے۔ کتنے علاقوں میں کتنے کتنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کیسے کیسے بڑے کاموں کی اسکیم کو آگے بڑھا رہی ہے۔
ملک میں مچھلی سے جڑی تجارت ۔ کاروبار کو دیکھنے کے لئے اب الگ سے وزارت بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اس سے بھی ہمارے ماہیگیر ساتھیوں کو، ماہی پروری اور کاروبار سے جڑے ساتھیوں کو سہولت ھاصل ہو رہی ہے۔ مقصد یہ بھی ہے کہ آنے والے 3 سے 4 برسوں میں مچھلی برآمدات کو دوگنا کیا جائے۔ اس سے صرف ماہی گیری شعبے میں ہی روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ابھی جن ساتھیوں سے میں بات کر رہا تھا، ان سے بات چیت کے بعد تو میرا یقین اور بھی زیادہ پختہ ہوگیا ہے۔ جب میں نے ریاستوں کا یقین دیکھا اور میں نے برجیش جی سے باتیں کی، بھائی جیوتی منڈل سے باتیں کی اور بیٹی مونیکا سے بات کی، دیکھئے کتنا یقین جھلکتا ہے۔
ساتھیو، ماہی پروری بہت کچھ صاف پانی کی دستیاب پر منحصر کرتی ہے۔ اس کام میں گنگا جی کو صاف ستھرا بنانے کے مشن سے بھی مدد مل رہی ہے۔ گنگا جی کے قرب و جوار میں بسے علاقوں میں ریور ٹرانسپورٹ کو لے کر جو کام چل رہا ہے، اس کا فائدہ بھی ماہی گیری سے متعلق شعبے کو ملنا طے ہے۔ اس 15 اگست کو جس مشن ڈولفن کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے بھی ماہی گیری شعبے پر اثرات مرتب ہونا لازمی ہے، یعنی ایک طرح سے بایو پروڈکٹ مدد، اضافی فوائد حاصل ہونے والے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے نتیش بابو جی اس مشن کو لے کر تھوڑا زیادہ پرجوش ہیں۔ اور اس لیے مجھے پختہ یقین ہے کہ جب گنگا ڈولفن کی تعداد میں اضافہ ہوگا، تو اس کا فائدہ گنگا کنارے کے لوگوں کو تو بہت ملنے والا ہے، سبھی کو ملے گا۔
ساتھیو، نتیش جی کی قیادت میں بہار میں گاؤں۔گاؤں پانی پہنچانے کے لئے قابل ستائش کام ہو رہا ہے۔ 4 سے 5 برس قبل بہار میں صرف 2 فیصد گھر ہی پینے کے صاف پانی کی سپلائی سے جڑے تھے۔ آج یہ تعداد اضافہ سے ہمکنار ہوکر 70 فیصد سے زائد ہوگئی ہے۔ اس دوران قریب قریب ڈیڑھ کروڑ گھروں کو پانی کی سپلائی سے مربوط کیا گیا ہے۔ نتیش جی کی اس مہم کو اب جل جیون مشن سے نئی طاقت حاصل ہوئی ہے۔ مجے مطلع کیا گیا ہے کہ کورونا کے اس وقت میں بھی بہار میں قریب 60 لاکھ گھروں کو نل سے پانی ملنا یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ واقعی بہت بڑی حصولیابی ہے۔ یہ اس بات کی بھی مثال ہے کہ اس بحران کے دور میں جب ملک میں تقریباً سب کچھ تھم گیا تھا، تب بھی ہمارے مواضعات میں کس طرح ایک خوداعتمادی کے ساتھ کام چلتا رہا۔ یہ ہمارے مواضعات کی ہی طاقت ہے کہ کورونا کے باوجود اناج، پھل، سبزیاں، دودھ، جو بھی ضروری چیزیں تھیں، منڈیوں تک، ڈیریوں تک بغیر کسی کمی کے آتی رہیں، لوگوں تک پہنچتی رہیں۔
ساتھیو، اس دوران اناج کی پیداوار ہو، پھلوں کی پیداوار، دودھ کی پیداوار ہو، ہر طرح سے زبردست پیداوار ہوئی ہے۔ یہی نہیں ریاستوں نے، ڈیری صنعت نے بھی اس مشکل صورتحال کے باوجود ریکارڈ خریداری بھی کی ہے۔ پی ایم کسان سمان ندھی سے بھی ملک کے 10 کروڑ سے زائد کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں راست طور پر پیسے منتقل کیے گئے۔ اس میں قریب قریب 75 لاکھ کاشتکار ہمارے بہار کے بھی ہیں۔ ساتھیو، جب سے یہ اسکیم شروع ہوئی ہے، تب سے اب تک قریب 6 ہزار کروڑ روپئے بہار کے کاشتکاروں کے بینک کھاتے میں جمع ہو چکے ہیں۔ ایسے ہی متعدد کوششوں کے باعث مواضعات پر اس عالمی وبائی مرض کے اثرات ہم کم سے کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ کام اس لیے بھی قابل تعریف ہے کیونکہ بہار کورونا کے ساتھ ساتھ سیلاب کی تباہی کا بھی بہادری سے سامنا کر رہا ہے۔
ساتھیو، کورونا کے ساتھ ساتھ زبردست برسات اور سیلاب کے باعث بہار سمیت آس پاس کے علاقوں میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے ہم سبھی اچھی طرح واقف ہیں۔ ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت، دونوں کی کوشش ہے کہ راحت کے کاموں کو تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے ۔ اس بات پر بہت زور دیا جا رہا ہے کہ مفت راشن کی اسکیم اور پردھان منتری غریب کلیان روزگار یوجنا کا فائدہ بہار کے ہر ضرورت مند ساتھی تک پہنچے، باہر سے گاؤں لوٹے ہر مزدور کنبے تک پہنچے۔ اس لیے ہی مفت راش کی اسکیم کو جون کے بعد دیوالی اور چھٹ پوجا تک توسیع دے دی گئی ہے۔
ساتھیو، کورونا بحران کے باعث شہروں سے لوٹے جو مزدور ساتھی ہیں، ان میں سے زیادہ تر مویشی پروری کی جانب راغ ہو رہے ہیں۔ مرکزی حکومت اور بہار حکومت کی متعدد اسکیموں سے ان کو حوصلہ مل رہا ہے۔ میں ایسے ساتھیوں کو کہوں گا کہ آج جو قدم آپ اٹھا رہے ہیں، اس کا مستقبل روشن ہے۔ میرے الفاظ لکھ کرکے رکھیے، آپ جو کر رہے ہیں اس کا اس مستقبل روشن ہے۔ حکومت کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ ملک کے ڈیری شعبے کی توسیع ہو۔ نئی مصنوعات تیار ہوں، جس سے کاشتکاروں کو، مویشی پروری کرنے والوں کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ ملک میں ہی اعلیٰ نسل کے مویشی تیار ہوں، ان کی صحت کی بہتر انتظام کاری ہو اور ان کا کھان پان صاف ستھرا اور غزائیت سے مالا مال ہو۔
اسی مقصد کے ساتھ آج ملک کے 50 کروڑ سے زائد مویشیوں کو کھر پکا اور منھ پکا جیسی بیماریوں سے آزاد کرنے کے لئے مفت ٹیکہ کاری مہم چل رہی ہے۔ مویشیوں کو بہتر چارے کے لئے بھی الگ الگ اسکیموں کے تحت پرووِژن کیے گئے ہیں۔ ملک مین بہتر دیسی نسلوں کی افزائش کے لئے مشن گوکل چل رہا ہے۔ ایک سال پہلے ہی ملک گیر مصنوعی حمل پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس کا ایک مرحلہ آج مکمل ہو چکا ہے۔
ساتھیو، بہار اب اعلیٰ دیسی نسلوں کی افزائش کو لے کر ملک کا ایک اہم مرکز بن رہا ہے۔ راشٹریہ گوکل مشن کے تحت آج پورنیا، پٹنہ، برونی میں جو جدید سہولیات تیار کی گئی ہیں اس سے ڈیری شعبے میں بہار کی حالت اور بہتر ہونے والی ہے۔ پورنیا میں جو مرکز تیار کیا گیا ہے، وہ تو بھارت کے سب سے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ اس سے صرف بہار ہی نہیں شمالی ہند کے بڑے حصے کو بہت فائدہ حاصل ہوگا۔ اس مرکز کے ’بچھور‘ اور ’ریڈ پورنیا‘ جیسی بہار کی دیسی نسلوں کی افزائش اور تحفظ کو بھی مزید فروغ حاصل ہوگا۔
ساتھیو،
ایگو گائے عام طور پر ایک سال میں ایک بچہ دیتی تھی۔ لیکن آئی وی ایف تکنیک سے ایک گائے کی مدد سے ایک سال میں متعدد تجربہ گاہ میں پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارا مقصد اس تنیک کو گاؤں۔ گاؤں تک پہنچانا ہے۔
ساتھیو،
مویشیوں کی اچھی نسل کے ساتھ ہی ان کی دیکھ ریکھ اور اس کو لے کر صحیح سائنسی جانکاری بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے لئے بھی کئی برسوں سے لگاتار تکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے کے تحت آج ’ای۔ گوپالا‘ ایپ شروع کی گئی ہے۔ ای۔گوپالا ایپ ایک ایسا آن لائن ڈجیٹل وسیلہ ہے جس سے مویشی پالنے والوں کو بہترین مویشیوں کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوگی، ان کو بچولیوں سے آزادی ملے گی۔ یہ ایپ مویشی پالنے والوں کو پیداواریت سے لے کر اس کی صحت اور غذا سے متعلق تمام معلومات فراہم کرے گی۔ اس سے کاشتکار کو یہ معلوم ہوگا کہ ان کے مویشی کو کب کیا ضرورت ہے اور اگر وہ بیمار ہے تو اس کے لئے سستا علاج کہاں دستیاب ہے۔ یہی نہیں، یہ ایپ مویشی آدھار سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ جب یہ کام پورا ہو جائے تو ای۔گوپالا ایپ میں پشو آدھار نمبر ڈالنے سے اس مویشی سے وابستہ تمام تر معلومات آسانی سے حاصل ہو جائے گی۔ اس سے مویشیوں کو جانور خریدنے ۔ بیچنے میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔
ساتھیو، زراعت ہو، مویشی پروری ہو، ماہی پروری ہو، ان سب کی ترقی تیز رفتاری سے ہو، اس کے لئے سائنسی طور طریقوں کو اپنانا اور گاؤں میں جدید بنیادی ڈھانچہ بنانا بہت ہی ضروری ہے۔ بہار تو ویسے بھی زراعت سے جڑی پڑھائی اور ریسرچ کا اہم مرکز رہا ہے۔ دہلی میں یہاں ہم لوگ پوسا ۔ پوسا سنتے رہتے ہیں۔ بہت ہی کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اصلی پوسا دہلی میں نہیں بلکہ بہار کے سمستی پور میں ہے۔ یہاں والا تو ایک طرح سے اس کا جڑواں بھائی ہے۔
ساتھیو، غلامی کے دور میں ہی سمستی پور کے پوسا میں قومی سطح کا زراعتی تحقیقی مرکز کھلا تھا۔ آزادی کے بعد ڈاکٹر راجیندر پرساد اور ہر دل عزیز کرپوری ٹھاکر جیسے صاحب بصیرت رہنماؤں نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ انہیں کی کوششوں سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے سال 2016 میں ڈاکٹر راجیندر پرساد زرعی یونی ورسٹی کو مرکزی یونی ورسٹی کے طور پر پہچان دی گئی تھی۔ اس کے بعد اس یونی ورسٹی میں اور اس کے تحت چلنے والے کالج میں کورسوں کا بھی اور دیگر سہولیات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ خواہ موتیہاری میں زراعت اور ماہر جنگلات کا نیا کالج ہو، پوسا میں اسکول آف ایگری بزنس اینڈ رورَل منیجمنٹ ہو، بہار میں زرعی سائنس اور زرعی انتظام کاری کی تعلیم کے لئے تعلیمی نظام کو اور مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اسی کام کو اور آگے بڑھاتے ہوئے اسکول آف ایگری بزنس اینڈ رورَل منیجمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا ہے۔ ساتھ ہی، نئے ہاسٹل، اسٹیڈیم اور مہمان خانے کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔
ساتھیو، زرعی شعبے میں جدید ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے، گذشتہ 5 سے 6 برسوں سے ملک میں ایک بڑی مہم جاری ہے۔ 6 برس قبل جہاں ملک مین صرف ایک مرکزی زرعی یونیورسٹی تھی، وہیں آج ملک میں تین تین مرکزی زرعی یونی ورسٹیاں ہیں۔ یہاں بہار میں جو سیلاب ہر سال آتا ہے اس سے کھیتی ۔ کسانی کو کیسے بچایا جائے، اس کے لئے مہاتما گاندھی ریسرچ سینٹر بھی بنایا گیا ہے۔ ایسے ہی موتی پور میں مچھلی سے جڑا علاقائی تحقیقی و تربیتی مرکز، موتیہاری میں مویشی پروری سے جڑا زرعی اور ڈیری ترقی مرکز، ایسے متعدد ادارے زراعت کو سائنس اور تکنیک سے جوڑنے کے لئے شروع کیے گئے ہیں۔
ساتھیو، اب بھارت اس حالت کی طرف بڑھ رہا ہے جب گاؤں کے پاس ہی ایسے کلسٹر بنیں گے جہاں خوراک ڈبہ بندی سے وابستہ صنعتیں بھی قائم ہوں گی اور پاس ہی اس سے جڑے تحقیقی مراکز بھی ہوں گے۔ یعنی ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں، جے کسان، جے وگیان اور جے انوسندھان۔ ان تینوں کی طاقت جب متحد ہوکر کام کرے گی، تب ملک کی دیہی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہونا طے ہے۔ بہار میں تو اس کے لئے بہت امکانات ہیں۔ یہاں کے پھل، چاہے وہ لیچی ہو، جردآلو آم ہو، آملہ ہو، مکھانا ہو یا پھر مدھوبنی پینٹنگز ہو، ایسے متعدد پروڈکٹ بہار کے ہر ضلع میں ہیں۔ ہمیں ان مقامی مصنوعات کے لئے اور زیادہ آواز اٹھانی ہے۔ ہم مقامی مصنوعات کے لئے جتنا زیادہ آواز بلند کریں گے، اتنا ہی بہار آتم نربھر بنے گا، اتنا ہی ملک آتم نربھر بنے گا۔
ساتھیو ، مجھے خوشی ہے کہ بہار کے نوجوان، خاص طور سے ہماری بہنیں پہلے سے ہی اس میں قابل تعریف تعاون دے رہی ہیں۔ شری ودھی دھان کی کھیتی ہو، لیز پر زمین لے کر سبزی اگانا ہو، اجولا سمیت دیگر حیاتیاتی کھادوں کا استعمال ہو، زرعی مشینری سے وابستہ بھرتی مرکز ہو، بہار کی خواتین کی طاقت بھی آتم نربھر بھارت ابھیان کو طاقت فراہم کرنے میں آگے ہے۔ پورنیا ضلع میں مکئی کے کاروبار سے وابستہ ’ارن یک ایف پی او‘ اور کوسی علاقے میں خواتین ڈیری کاشتکاروں کی ’کوشیکی ملک پروڈیوسر کمپنی‘ ایسے متعدد گروپ قابل ستائش کام کر رہے ہیں۔ اب تو ہمارے ایسے پرجوش نوجوانوں کے لئے، بہنوں کے لئے مرکزی سرکار نے مخصوص فنڈ بھی بنایا ہے۔ ایک لاکھ کروڑ روپئے کے اس ڈھانچہ جاتی فنڈ سے ایسی ایف پی او۔ زرعی پیداواری اکائیوں کو، کوآپریڈیو گروپوں کو، گاؤں میں ذخیرہ اندوزی، کولڈ اسٹوریج اور سہولیاتی مراکز تیار کرنے کے لئے مالی مدد آسان سے حاصل ہو پائے گی۔ اتنا ہی نہیں، ہماری بہنوں کے جو سیلف ہیلپ گروپ ہیں، ان کو بھی اب بہت مدد دی جا رہی ہے۔ آج بہار میں حالت یہ ہے کہ سال 2013۔14 کے مقابلے میں اب سیلف ہیلپ گروپوں کو ملنے والے قرض میں 32 گنا اضافہ رونما ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو بینکوں کو، ہماری بہنوں کی صلاحیت پر ان کی کاروباری صلاحیت پر کتنا بھروسہ ہے۔
ساتھیو، بہار کے مواضعات کو، ملک کے مواضعات کو آتم نربھر بھارت کا اہم مرکز بنانے کے لئے ہماری کوششوں میں مسلسل اضافہ ہونے والا ہے۔ ان کوششوں میں بہار کے محنتی ساتھیوں کا کردار بھی بڑا ہے اور آپ سے ملک کی بہت سی امیدیں بھی وابستہ ہیں۔ بہار کے لوگ، ملک میں ہوں یا بیرون ملک، اپنی محبت سے، اپنی صلاحیت سے اپنا لوہا منواتے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بہار کے لوگ، اب آتم نربھر بہار کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے بھی مسلسل اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔ ترقیاتی اسکیموں کی شروعات کے لئے میں پھر سے ایک مرتبہ بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تاہم ایک مرتبہ پھر سے میں اپنے احساسات کا اظہار کروں گا، میری آپ سے امیدیں ہیں، وہ بتاؤں گا اور میری امید یہی ہے کہ ماسک اور دو گز کی دوری کے اصول پر ضرور عمل پیرا رہیں، محفوظ رہیں، صحت مند رہیں۔
اپنے گھر میں جو بزرگ افراد ہیں ان کو برابر سنبھال کر رکھئے، یہ بہت ضروری ہے، کورونا کو ہلکے میں مت لیجئے اور ہر شہری کو، چونکہ ہمارے پاس سائنس دانوں کے ذریعہ ویکسین جب آئے تب آئے، لیکن یہ جو سوشل ویکسین ہے، وہ کورونا سے بچنے کا سب سے اعلیٰ طریقہ ہے ۔ اس سے محفوظ رہنے کا یہی راستہ ہے اور اس لیے دو گز کی دوری، ماسک، کہیں پر تھوکنا نہیں، بزرگوں کا خیال رکھنا، ان باتوں کی میں بار بار یاد دہانی کراتا ہوں۔ آج آپ کے درمیان آیا ہوں، پھر سے یاد کراتا ہوں کہ مجھے پھر ایک مرتبہ آپ کے درمیان آنے کا موقع حاصل ہوا، میں ریاستی حکومت کا، ہمارے گری راج جی کا، سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔۔۔