مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی، ملک کے لاجسٹکس اور صنعتی شعبے کے مندوبین، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات،
آزادی کے امرت کال میں آج ملک نے ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ بھارت میں آخری میل تک بہم رسانی تیزی سے ہو، نقل و حمل سے متعلق چنوتیاں ختم ہوں، ہمارے مینوفیکچررس کا، ہماری صنعتوں کا وقت اور پیسہ دونوں کی کفایت ہو، اسی طرح سے ہمارا جو ایگرو پروڈکٹ ہے۔ تاخیر کی وجہ سے اس کی جو بربادی ہوتی ہے۔ اس سے ہم کیسے آزادی حاصل کریں؟ ان سارے مسائل کا حل تلاشنے کی ایک مسلسل کوشش شروع کی ہے اور اسی کی ایک شکل ہے آج قومی لاجسٹکس پالیسی، اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے ان تمام نظاموں میں اصلاح کے لیے اور اس شعبہ میں کام کرنے والی حکومت کی الگ الگ اکائیوں کے درمیان میں بھی ایک ہم آہنگی قائم ہوگی۔جامع نقطہ نظر رہے گا۔ اور اس کا نتیجہ ہم جو رفتار چاہتے ہیں، اس رفتار کو ملے گا۔ اور میری آپ سب سے درخواست ہے، مجھے یہاں آنے میں جو 5-7 منٹ کی تاخیر ہوئی اس کی وجہ تھی۔ یہاں ایک چھوٹی سی نمائش لگی ہے۔ وقت کی قلت کے سبب میں بہت باریکی سے تو نہیں دیکھ سکا، لیکن سرسری نظر سے میں دیکھ رہا تھا۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ وقت نکال کر 15-20 منٹ اسی کیمپس میں ہے- ضرورت دیکھ کر کے جایئے۔ کس طرح سے تکنالوجی اس شعبے میں کردار ادا کر رہی ہے؟ خلائی تکنالوجی کا ہم لوگ کیسے استعمال کر رہے ہیں؟ اور ایک ساتھ ساری چیزوں کو دیکھیں گے تو آپ اس شعبے میں ہوں گے تو بھی شاید آپ کو بہت سی نئی چیزیں حاصل ہوں گی۔ آج ہم دنیا کی 5ویں سب سے بڑی معیشت ہیں۔ کیوں آپ کو خوشی نہیں ہے؟ دیر آئے درست آئے۔ ہوتا ہے کبھی بھی۔ کیونکہ چاروں جانب اتنی منفی سوچ کی بھرمار ہوتی ہےکہ اس میں کبھی کبھی اچھائیوں کو تلاشنے میں خاصہ وقت صرف ہو جاتا ہے، اور ملک بدل رہا ہے جی۔ ایک وقت تھا ہم کبوتر چھوڑتے تھے۔ آج چیتا چھوڑتے ہیں۔ ایسے ہی تھوڑی نہ ہوتا ہے۔ لیکن آج صبح چیتا چھوڑنا، شام کو لاجسٹکس پالیسی کو ، کوئی میل تو ہے یہ۔ کیونکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ چیتے کی رفتار سے جائے۔ ملک اسی تیز رفتار سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
ساتھیو،
میک ان انڈیا اور آتم نربھر بھارت بنتے بھارت کی بازگشت صرف بھارت میں نہیں باہر بھی سنائی دیتی ہے۔ آج بھارت برآمدات کے بڑے ہدف طے کر رہا ہے، پہلے تو یہ طے کرنا ہی بڑا مشکل رہتا ہے۔ اتنا بڑا، پہلے تو اتنا تھا، اب ایک دم ایسا۔ لیکن ایک مرتبہ طے ہو جائے تو ملک کر بھی دیتا ہے۔ ملک آج ان اہداف کو پورا کر رہا ہے۔ بھارت کے مینوفیکچرنگ شعبہ کی طاقت ایک طرح سے بھارت مینوفیکچرنگ کے مرکزکی شکل میں ابھر رہا ہے۔ یہ دنیا کے من میں مستحکم ہو رہا ہے۔ اسے تسلیم کیا جاچکا ہے۔ جو لوگ پی ایل آئی اسکیم کا مطالعہ کریں گے، ان کو پتہ چلے گا کہ دنیا نے اس کو تسلیم کر لیا ہے جی۔ ایسے میں قومی لاجسٹکس پالیسی، ہر شعبے کے لیے بہت ہی نئی توانائی لے کر آئی ہے۔ میں سبھی شراکت داران کو، تاجروں کو، کاروباریوں کو، برآمدکاروں کو، ملک کے کاشتکاروں کو، میں آج اس اہم پہل قدمی کے لیے جو اُن کے لیے ایک طرح سے جڑی بوٹی ان کے ہاتھ لگنے والی ہے، اس کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو،
یہاں اس پروگرام میں متعدد پالیسی ساز، صنعتی شعبے کی تمام بڑی شخصیات موجود ہیں، جو اس شعبے میں روزمرہ کی ان کی زندگی ہے۔ مشکلات کو انہوں نے برداشت کیا ہے، راستے تلاش کیے ہیں۔ کبھی شارٹ کٹ بھی تلاش کیے ہوں گے، لیکن کیے ہیں۔ آپ سبھی جانتے ہیں اور جو کل کچھ لوگ لکھیں گے، اس کو میں آج کہہ دیتا ہوں۔ پالیسی اپنے آپ میں نتیجہ نہیں ہوتی ہے، پالیسی شروع ہوتی ہے، اور پالیسی +کارکردگی = ترقی، یعنی پالیسی کے ساتھ کارکردگی کا پیرامیٹر ہو، کارکردگی کا روڈمیپ ہو، کارکردگی کے لیے ٹائم لائن ہو۔ یہ جب جڑ جاتی ہے۔ تو پالیسی + کارکردگی = ترقی ۔ اور اس لیے آپ پالیسی کے بعد حکومت کی اور اس شعبے سے جڑے ہوئے تمام سرکردہ شخصیات کی کارکردگی کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اگر پالیسی نہیں ہے تو کہتے ہیں نہیں نہیں پہلے سے تو بہت اچھا ہے۔ پالیسی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں وہاں جانا تھا بھائی تم تو یہاں رُکے ہو۔ ایسے جانا تھا تم تو ایسے ہی چلے گئے۔ پالیسی ایک طرح سے ڈرائیونگ فورس کے طورپر کام کرتی ہے۔ گائیڈنگ فورس کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اور اس لیے اس پالیسی کو محض ایک کاغذ یا دستاویز کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ ہمیں جس چیتے کی رفتار سے مشرق سے مغرب تک مال لے جانا ہے۔ اس رفتار کو ہم نے پکڑنا ہے جی۔ آج کا بھارت کوئی بھی پالیسی وضع کرنے سے قبل، اسے نافذ کرنے سے قبل، اس کے لیے ایک زمین ہموار کرتا ہے، اور تبھی وہ پالیسی کامیابی سے نافذ ہوپاتی ہے، اور تب جا کر کے ترقی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ نیشنل لاجسٹکس پالیسی بھی اچانک ایک دن ایسے ہی لانچ نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کے پس پشت آٹھ برسوں کی محنت ہے، پالیسی کے تحت تبدیلیاں کی گئی ہیں، اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ اور اگر میں اپنے لیے کہوں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ 2001 سے 2022 تک میرا 22 سال کا تجربہ اس میں شامل ہے۔ لاجسٹکس کنکٹیویٹی کو سدھارنے کے لیے منظم بنیادی ڈھانچہ ترقی کے لیے ہم نے ساگرمالا، بھارت مالا جیسی اسکیمیں شروع کیں، نافذ کیں۔ کلی طور پر وقف مال بھاڑا گلیاروں کے ذریعہ اس کام میں بے مثال تیزی لانے کی ہم نے کوشش کی ہے۔ آج بھارتی بندرگاہوں کی مجموعی صلاحیت میں کافی اضافہ رونما ہوا ہے۔ کنٹینر بحری جہاز کا ٹرن اراؤنڈ وقت 44 گھنٹے سے گھٹ کر اب 26 گھنٹے پر آگیا ہے۔ آبی گزرگاہوں کے ذریعہ ہم ماحولیات دوست اور لاگت کے لحاظ سے مؤثر نقل و حمل کر پائیں، اس کے لیے ملک میں متعدد نئے آبی راستے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ برآمدات میں مدد حاصل ہو، اس کے لیے ملک میں تقریباً 40 ایئر کارگو ٹرمنل بھی بنائے گئے ہیں۔ 30 ہوائی اڈوں پر کولڈ اسٹوریج سہولتیں مہیا کرائی گئی ہیں۔ ملک بھر میں 35 کثیر جہتی لاجسٹکس مراکز بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ آپ تمام حضرات نے دیکھا ہوگا کہ کورونا کے وقت ملک نے کسان ریل اور کرشی اُڑان کا بھی استعمال شروع کیا۔ ملک کے دور دراز کے علاقوں سے زرعی پیداوار کو اہم منڈیوں تک پہنچانے میں انہوں نے بہت مدد کی۔ کرشی اُڑان نے کاشتکاروں کی پیداوار کو غیر ممالک تک پہنچایا۔ آج ملک کے تقریباً 60 ہوائی اڈوں سے کرشی اُڑان کی سہولت دستیاب ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ میری تقریر سننے کے بعد ہمارے کچھ صحافی دوست مجھے فون کریں گے کہ یہ تو ہمیں معلوم ہی نہیں تھا۔ آپ میں سے بھی بہت لوگ ہوں گے، جن کو لگتا ہوگا کہ ، اچھا اتنا سارا ہوا ہے۔ کیونکہ ہمیں دھیان نہیں ہوتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے ان پروجیکٹوں پر لاکھوں کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کے ساتھ ہی، حکومت نے تکنالوجی کی مدد سے بھی لاجسٹکس شعبے کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ ای۔سنچت کے توسط سے پیپر لیس ایکسم تجارتی ضابطہ ہو، کسٹمز میں فیس لیس اسیسمنٹ ہو، یا پھر ای۔وے بل اور فاسٹیگ کی تجویز ہو، ان سبھی نے لاجسٹکس شعبے کی اثرانگیزی میں بہت اضافہ کیا ہے۔
ساتھیو،
لاجسٹکس شعبے کی ایک اور بڑی چنوتی کو بھی ہماری حکومت نے گذشتہ برسوں میں ختم کر دیا ہے۔ پہلے الگ الگ ریاستوں میں متعدد ٹیکس ہونے کی وجہ سے لاجسٹکس کی رفتار پر جگہ جگہ بریک لگ جاتا تھا۔ لیکن جی ایس ٹی نے اس مشکل کو آسان کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی طرح کے پیپر ورک کم ہوئے، جس سے لاجسٹکس کا عمل آسان ہو گیا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں حکومت نے جس طرح ڈرون پالیسی میں تبدیلی کی ہے، اسے پی ایل آئی اسکیم سے جوڑا ہے، اس سے ڈرون کا استعمال مختلف چیزوں کی بہم رسانی میں بھی ہونے لگا ہے۔ اور آپ مان کر چلئے نوجوان نسل ضرور میدان میں آئے گی۔ ڈرون ٹرانسپورٹیشن ایک بہت بڑا شعبہ تیار ہونے والا ہے اور میں چاہوں گا کہ دور دراز جو ہمالیہ رینجز کے چھوٹے چھوٹے مواضعات میں زرعی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کو ڈرون سے ہم کیسے لائیں؟ جہاں ساحل سمندر ہے اور زمین سے گھرا علاقہ ہے، اگر ان کو مچھلی چاہئے تو ڈرون سے تازہ مچھلی پہنچانے کا بڑے شہروں میں، زمین سے گھرے علاقے میں کیسے انتظام ہو، یہ سب آنے والا ہے جی۔ اگر یہ آئیڈیا کسی کو کام آئے تو مجھے رائلٹی کی ضرورت نہیں ہے۔
ساتھیو،
میں اس لیے ان ساری باتوں کو کہتا ہوں۔ خصوصاً دشوار گزار علاقوں میں، پہاڑی علاقوں میں ڈرون نے ادویہ لے جانے میں، ویکسین لے جانے میں ہمیں گذشتہ دنوں بہت مدد پہنچائی ہے۔ ہم اس کا استعمال کر چکے ہیں۔ آنے والے وقت میں، میں نے جیسے کہا کہ ڈرون کا نقل و حمل شعبہ میں زیادہ سے زیادہ استعمال، لاجسٹکس شعبہ کے لیے بہت مددگار ثابت ہونے والا ہے اور ہم نے بڑی ترقی پسند پالیسی پہلے ہی آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔
ساتھیو،
ایک کے بعد ایک اس طرح کی اصلاحات کے بعد ہی ملک میں لاجسٹکس کی ایک مضبوط بنیاد بنانے کے بعد ہی اتنا سارا ہو چکا ہے، اس کے بعد ہم یہ نیشنل لاجسٹکس پالیسی لے کر کے آئے ہیں۔ کیونکہ ہم نے ایک طرح سے ٹیک آف اسٹیج پر لاکر کے چھوڑا ہوا ہے۔ اب آپ سب ساتھیوں کی اس لیے ضرورت ہے کہ اب اتنی ساری پہل قدمیاں ، اتنی ساری سہولتیں پیدا ہو چکی ہیں۔ لیکن پھر بھی ٹیک آف کے لیے ہم سب کو جڑنا ہے اور ٹیک آف کرکے رہنا ہے۔ اب یہاں سے لاجسٹکس شعبہ میں جو تیزی آئے گی، میں خواب پورا کر سکتا ہوں دوستو۔ یہ جو تبدیلی ہے وہ بے مثال نتائج لانے والی ہے۔ اور اگر ایک سال کے بعد اس کا تجزیہ کریں گے تو آپ خود بھی یقین کریں گے کہ ہاں ہم نے تو سوچا نہیں تھا یہاں سے یہاں تک پہنچ گئے۔ دیکھئے 13-14 فیصد کی لاجسٹکس لاگت کی سطح کو ہمیں جلد سے جلد مل کر اس کو واحد ہندسے میں لانے کا ہدف رکھنا ہی چاہئے۔ اگر ہمیں عالمی سطح پر مقابلہ کرنا ہے تو یہ ایک طرح سے بہت ہی آسان کام ہے۔ بقیہ ساری چیزوں میں ہمیں لاگت کم کرنے میں شاید پچاس اور چیزیں مشکل کر سکتی ہیں۔ لیکن ایک طرح بہت ہی آسان کام ہے۔ ہماری کوشش سے ہی، اثرانگیزی سے ہی، کچھ اصولوں پر عمل کرنے سے ہی، ہم 13-14 فیصد سے واحد ہندسے میں آسکتے ہیں جی۔
ساتھیو،
قومی لاجسٹکس پالیسی کے توسط سے دو اور بڑی چنوتیوں کو حل کیا گیا ہے۔ کتنی ہی جگہ، ایک مینوفیچرر کو اپنے کام کے لیے الگ الگ اضلاع میں الگ الگ لائسنس لینا پڑتا ہے۔ ہمارے برآمدکاروں کو بھی ایک طویل ضابطے سے گزرنا ہوتا ہے۔ اپنے سامان کو ٹریک اور ٹریس کرنے کے لیے برآمدکاروں کو ایکسپورٹرس شپنگ بل نمبر، ریلوے کنسائنمنٹ نمبر، ای۔وے بل نمبر، نہ جانے کتنے نمبروں کو جوڑنا پڑتا ہے۔ تب جاکر وہ ملک کی خدمت کر سکتا ہے جی۔ اب آپ لوگ اچھے ہیں تو زیادہ شکایت کی نہیں ہے۔ لیکن آپ کے درد کو میں سمجھتا ہوں اس لیے میں اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔آج جو یونیفائیڈ لاجسٹکس انٹرفیس پلیٹ فارم یعنی یو ایل آئی پی (یولِپ) اور یہی میں کہتا ہوں یولِپ، یولِپ لانچ ہوا ہے، اس سے برآمدکاروں کو اس طویل ضابطے سے نجات ملے گی۔ اور اس کا ایک ڈیمو پیچھے نمائش میں ہے، آپ دیکھیں گے کہ کتنی تیزی سے آپ خود فیصلہ کرکے کام آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یو ایل آئی پی (یو لِپ)، نقل و حمل کے شعبے سےوابستہ تمام ڈجیٹل خدمات کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لے کر آئے گا۔ نیشنل لاجسٹکس پالیسی کے تحت آج ایز آف لاجسٹکس سروسز – ای- لاگس نام سے بھی ایک ڈجیٹل پلیٹ فارم شروع ہوا ہے۔ اس پورٹل کے توسط سے صنعتی انجمنیں ایسے کسی بھی معاملے کو، جس سے ان کے آپریشنز اور کارکردگی میں پریشانی آرہی ہے، اسے سیدھے سرکاری ایجنسی کے ساتھ اٹھا سکتی ہیں۔ یعنی بہت ہی شفاف طریقہ سے بغیر کسی رکاوٹ کے حکومت کے دروازے تک آپ کو پہنچانے کا ایک نظام تیار ہو گیا ہے۔ ایسے معاملات کا تیزی سے حل ہو سکتا ہے اس لیے بھی پورا انتظام کیا گیا ہے۔
ساتھیو،
قومی لاجسٹکس پالیسی کو سب سے زیادہ حمایت اگر کسی سے ملنے والی ہے، تو وہ ہے پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ملک کی تمام ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے ، ہماری اکائیاں سب کے سب اس سے جڑ چکے ہیں اور تقریباً تمام محکمے ایک ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر چکے ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے الگ الگ بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں سے جڑی معلومات اس کا ایک بہت بڑا ڈاٹا بیس تیار ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آج مرکز اور ریاستی حکومتوں سے تقریباً ڈیڑھ ہزار لیئرس یعنی 1500 لیئرس میں ڈاٹا، پی ایم گتی شکتی پورٹل پر آرہا ہے۔ کہاں کون سے پروجیکٹ ہیں، کہاں فاریسٹ لینڈ ہے، کہاں ڈفینس لینڈ ہے، اس طرح کی ساری معلومات ایک واحد مقام پر آنے لگی ہے۔ اس سے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کی منصوبہ بندی بہتر ہوئی ہے، منظوری کا عمل تیز ہوا ہے اور جو بعد میں مسائل ذہن میں آتے تھے، ان مسائل کا حل کاغذ پر ہی پہلے سے پکا ہو جاتا ہے۔ ہمارے بنیادی ڈھانچے میں جو خلاء ہوتی تھیں، وہ بھی پی ایم گتی شکتی کی وجہ سے تیزی سے دور ہو رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے، ملک میں پہلے کس طرح بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کا بغیر سوچے سمجھے اعلان کرنے اور انہیں دہائیوں تک لٹکائے رکھنے کا رواج تھا۔ اس کا بہت بڑا نقصان ملک کے لاجسٹکس شعبے نے اٹھایا ہے۔ اور یہ جب لاجسٹک پالیسی کی بات میں کر رہا ہوں۔ اس کا ایک انسانی چہرہ بھی ہے جی۔ ہم ان نظاموں کو ڈھنگ سے چلائیں تو کسی بھی ٹرک ڈرائیور کو رات کو باہر سونا نہیں پڑے گا۔ وہ بھی ڈیوٹی کرکے رات کو گھر آ سکتا ہے، رات کو سو سکتا ہے۔ یہ سارا منصوبہ بندی نظام سب آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کتنی بڑی خدمت ہوگی۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پالیسی اپنے آپ میں ملک کے سوچنے کے پورے طریقہ کو بدلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ساتھیو،
گتی شکتی اور قومی لاجسٹکس پالیسی مل کر اب ملک کوکام کے ایک نئے رواج کی جانب لے جا رہی ہیں۔ حال ہی میں منظورشدہ گتی شکتی یونیورسٹی یعنی ہم نے اس کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل ترقیات کا کام بھی ساتھ ساتھ کیا ہے۔ پالیسی تو اب آج لا رہے ہیں۔ گتی شکتی یونیورسٹی سے، یونیورسٹی سے جو ٹیلنٹ نکلے گا، اس سے بھی اسے بہت بڑی مدد ملنے والی ہے۔
ساتھیو،
بھارت میں ہو رہی ان کوششوں کے درمیان ہمیں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آج دنیا کا بھارت کے تئیں نظریہ بدل رہا ہے۔ آج دنیا، بھارت کا بہت مثبت طریقہ سے جائزہ لے رہی ہے، ہمارے ملک میں تھوڑی دیر لگتی ہے۔ لیکن باہر ہو رہا ہے۔ دنیا بھارت سے بہت امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بھارت آج ’جمہوریت کی سوپرپاور‘ کے طورپر ابھر رہا ہے۔ ماہرین اور جمہوری سوپر پاور، ماہرین بھارت کی شاندار صلاحیت ایکو نظام سے بہت متاثر ہیں۔ ماہرین بھارت کے ’عزم‘ اور ’ترقی‘ کی ستائش کر رہے ہیں۔ اور یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ بھارت اور بھارت کی معیشت نے عالمی بحران کے درمیان جس طرح کی لچک دکھائی ہے، اس نے دنیا کو نئے اعتماد سے بھر دیا ہے۔ گذشتہ برسوں میں بھارت نے جو اصلاحات کی ہیں، جو پالیسیاں نافذ کی ہیں، وہ واقعی بے مثال ہیں۔ اور اس لیے بھارت کے تئیں دنیا کے اعتماد میں مسلسل اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں دنیا کے اس بھروسے پر پوری طرح کھرا اترنا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہم سبھی کا فرض ہے، اور ایسا موقع گنوانا ہمارے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہوگا۔ آج لانچ ہوئی نیشنل لاجسٹکس پالیسی، مجھے پختہ یقین ہے، ملک کے زندگی کے ہر شعبے میں ایک نئی رفتار لانے میں مدد فراہم کرنے والی ہے۔
ساتھیو،
ترقی یافتہ بننے کا عزم لے کر چل رہے بھارت کو آپ میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا، جو یہ نہیں چاہتا ہوگا کہ ہمارا ملک ایک ترقی یافتہ ملک بنے، کوئی نہیں ہوگا جی۔ پریشانی یہی ہوتی ہے، چلو یار کوئی کرے گا۔ مجھے یہی بدلنا ہے، ہمیں مل کر کرنا ہوگا۔ ترقی یافتہ بھارت کے عزم کو لے کر چل رہے بھارت کو اب ترقی یافتہ ممالک سے اور زیادہ مسابقت کرنی ہے، اور یہ ہم مان کر چلیں، جیسے جیسے ہم طاقتور ہوں گے، ہمارا مقابلہ زیادہ طاقتور لوگوں سے ہونے والا ہے۔ اور اس کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہئے، جھجھکنا نہیں چاہئے جی، آجاؤ تیار ہیں۔ اور اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمارا ہر پروڈکٹ، ہماری ہر پہل قدمی ہمارے پروسیس بہت ہی مسابقتی ہونے چاہئیں۔ خدمات کا شعبہ ہو، مینوفیکچرنگ کا شعبہ ہو، آٹو موبل ہو، الیکٹرانکس ہو، ہمیں ہر شعبہ میں بڑے اہداف طے کرنے ہیں اور انہیں حاصل بھی کرنا ہے۔ آج بھارت میں تیار مصنوعات کو لے کر دنیا کی توجہ محض ہماری پیٹھ تھپتھپانے تک محدود نہیں رہنی چاہئے۔ ہمیں عالمی منڈی کو قبضہ کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے دوستو۔ بھارت کی زرعی مصنوعات ہوں، بھارت کے موبائل ہوں یا پھر بھارت کی برہموس میزائل، دنیا میں آج ان کا خوب ذکر ہو رہا ہے۔ کورونا کے دور میں بھارت میں بنی ویکسین اور ادویہ نے دنیا کے لاکھوں افراد کی جان بچانے میں مدد کی ہے۔ آج صبح میں ازبکستان سے آیا۔ تو کل آخر میں رات کو میں ازبکستان کے محترم صدر سے بات کر رہا تھا۔ دیر ہو چکی تھی، لیکن وہ اتنے پرجوش انداز میں بتا رہے تھے کہ بولے ہمارے یہاں ازبکستان میں پہلے یوگ کے تئیں ایک طرح کی نفرت کا ماحول تھا۔ لیکن آج صورتحال ایسی ہے کہ ہر گلی محلے میں اتنا یوگ چل رہا ہے کہ ہمیں بھارت سے ٹرینرس کی ضرورت ہے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا بھارت کی طرف دیکھنے کا سوچنے کا نظریہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ بھارت میں تیارمصنوعات دنیا کے بازاروں میں غلبہ حاصل کریں، اس کے لیے ملک میں سپورٹ سسٹم کا مضبوط ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ نیشنل لاجسٹکس پالیسی ہمیں سپورٹ سسٹم کو جدید بنانے میں بہت مدد کرے گی۔
اور ساتھیو،
آپ سبھی جانتے ہیں کہ جب ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، ملک میں لاجسٹکس سے متعلق مشکلات کم ہوتی ہیں، تو اس کا بڑا فائدہ ہماری چھوٹی صنعتوں کو اور ان میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی ہوتا ہے۔ لاجسٹکس شعبے کی مضبوطی عام انسانوں کی زندگی ہی آسان نہیں بنائے گی بلکہ محنت اور مزدوروں کی عزت میں اضافہ میں بھی مدد فراہم کرے گی۔
ساتھیو،
اب بھارت کے لاجسٹکس شعبے سے الجھنیں ختم ہوں گی، امیدیں بڑھیں گی، یہ شعبہ اب ملک کی کامیابی کو نئی بلندی تک لے جائے گا۔ قومی لاجسٹکس پالیسی میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کے ، کاروبار کی توسیع کے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنے کے لامحدود امکانات موجود ہیں۔ ہمیں ان امکانات کو مل کر پورا کرنا ہے۔ اسی عزم کے ساتھ آپ سب کو ایک مرتبہ پھر ڈھیر ساری نیک خواہشات اور اب چیتے کی رفتار سے سامان کو اٹھانا ہے، لے جانا ہے، یہی میری آپ سے توقع ہے، شکریہ۔